احرام کاطریقہ
احرام میں تین چیزیں واجب ہیں ۔
نیت ۔
یعنی مکلف ارادہ کرے کہ عمرہ یا حج قربة الی اللہ انجام دوں گا ۔نیت میں معتبر نہیں کہ اعمل کوتفصیل سی جانتاہو۔ بلکہ اجمالی معرفت بھی کافی ہے ۔ لہذا اگرنیت کرتے وقت مثلاعمرہ میں جو کچھ واجب ہے تفصیلا نہ جانتاہوتو ایک ایک عمل کو رسالہ عملیہ یا قابل اعتماد شخص سے سیکھ کر انجام دینا کافی ہے۔
نیت میں چند چیزیں معتبر ہیں
۱ ۔ قصد قربت وقصد اخلاص ،جیساکہ ساری عبادتوں میں ضروری ہیں ۔
۲ ۔ خاص جگہ سے احرام کی نیت کرنا ،اس کی تفصیل میقاتوں میں بیان ہوچکی ہے ۔
۳ ۔ احرام کو معین کرنا کہ عمرہ کا ہے یاحج کا اورحج کی صورت میں معین کرنا کہ حج تمتع کاہے یا قران کااورکسی کی جانب سے حج کر رہا ہو تو نیابت کا قصد کرنااورکسی جانب سے قصد نہ کرنا ہی کافی ہو گا کہ عبادت خود اسکی جانب سے ہے ۔ اظہر یہ ہے کہ جو حج نذرکی وجہ سے واجب ہواہو اسکی ساقط ہونے کے لیے کافی ہے کہ نذر کردہ عمل اسکی انجامکردہ عمل پر منطبق ہوجائے اوراسکا صحیح ہونا حج نذر ہونے پر موقوف نہیں ہے ۔ جس طرح اس شخص کیلیے جو حج کرے تو اس حج کوحج اسلام سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ جو حج الاسلام اس پر واجب تھا وہ اس عمل پر جسے یہ بجالایا ہے منطبق ہوجائے اورمزید کسی قصد کی ضرورت نہیں ہے۔
( ۱۷۷) نیت کے صحیح ہونے کے لیے معتبر نہیں کہ زبان سے کہے اگرچہ مستحب ہے جس طرح قصد قربت میں دل سے گزارنا معتبر نہیں ہے بلکہ داعی کافی ہے (یعنی عبادت پرابھارنے والے چیز قربت خداہو)جیساکہ دوسری عبادات میں داعی کافی ہے ۔
( ۱۷۸) احرام کے صحیح ہونے میں محرامات احرام کو ترک کرنیکا عزم اول سے آخر تک ہونا معتبر نہیں ہے ۔ اس بناء پراس بناء پر محرمات کو انجام دینے کا عزم ہو پھر بھی احرام صحیح ہوگا۔لیکن عمرہ مفردہ کے احرام کے دوران اگرکوئی اپنی بیوی سے ،سعی سے فارغ ہونے سے پہلے ،جماع کا ارادہ رکھتاہو یاجماع کرنے میں متردد ہوتو طاہر یہ ہے کہ اس کا احرا م باطل ہے ۔ اور بناء بر احوط استمناء کا بھی یہی حکم ہے ۔ اگر احرام کے وقت جماع یا استمناء کو ترک کرنے اک عزم ہومگر بعد میں اس عزم پر باقی نہ رہے یعنی احرام کے بعد دونوں افعال میں سے کسی ایک کو انجام دینے کا قصد کرے تو اس کااحرام باطل نہیں ہو گا۔
تلبیہ ۔
تلبیہ اس طرح کہے ۔ لبیک اللھم لبیک ،لبیک لاشریک لک لبیک اوراحوط اولی ہے کہ اس جملے کا اضافہ کرے ۔ ان الحمد ونعمة لک والملک ،لاشریک لک ۔ اور جائز ہے کہ اس جملے کے آخر میں لبیک کا اضافہ کرے اوریوں کہے لاشریک لک لبیک ۔
( ۱۷۹) نامز میں تکبیرة الاحرام کی طرح تلبیہ کے الفاظ بھی سیکھنا اورصحیح اداکرنا ضروری ہے ۔ خواہ کسی دوسرے شخص کی مدد سے صحیح ادا کرسکے ۔ لیکن اگرکسی کو تلبیہ یاد نہ ہو اور کوئی پڑھانے والا بھی نہ ہو تو جسطرح سے ادا کرسکتاہو اد اکرے ۔ بشرطیکہ اتنا غلط نہ ہوکہ عمومی کطور پرتلبیہ ہی نہ سمجھا جائے ۔ اور اس صور ت میں احوط یہ ہے کہ جمع کرے یعنی دوسری زبانکے حروف مگر عربی زبان میں تلبیہ پڑھے ،ترجمہ بھی پڑھے اور کسی کو تلبیہ پڑھنے کے لیے نائب بھی بنائے ۔
( ۱۸۰) اگر کسی حادثے میں گونگاہونے والا شخص اگر تلبیہ کے کچھ الفاط کی کچھ مقدر ادا کرسکتاہو تو جتنی مقدار تلبیہ کہہ سکتاہے کہے اور اگر بالکل ادانہ کرسکتاہو تو تلبیہ کودل سے گزارے اور دل سے گزارتے وقت اپنے ابان اور ہونٹوں کو حرکت دے اوراپنی انگلی سے اس طرح اشارہ کرے کہ گویاالفاظ تلبیہ کی تصویر پیش کر رہاہے ۔ لیکن وہ شخص جو پیدائشی گونگاہو یاپیدائشی گونگے کی طرح ہو تو وہ اپنی زبان اورہونٹوں کو اس طرح حرکت دے جس طرح تلبیہ کہنے والا شخص حرکت دیتاہے ۔ اور اس کے ساتھ انگلی سے بھی اشارہ کرے ۔
( ۱۸۱) عیر ممیز بچے کی طرف سے دوسرا شخص تلبیہ کہے ۔
( ۱۸۲) حج تمتع ،عمرہ تمتع ،حج افراداور عمرہ مفردہ کے حرام بغیرتلبیہ کے نہیں باندھے جاسکتے ۔لکین حج قران کا احرام نہ صرو تلبیہ بلکہ اشعار (جانور پر علامت لگانا )اورتقلید (جانور کے گلے میں کوئی چیز لٹکانا)سے بھی باند ھا جاسکتاہے ۔ اشعار اونٹ کی قربانی کے لیے مخصوص ہے جب جب کہ تقلید تمام جانوروں میں مشترک ہے ۔ اولی وبہتر یہ ہے کہ اون تکی قربانی میں اشعارو تقلید کو جمع کیا جائے اوراحج قران کرنے والااگر اپنے احرام کو شعاریا تقلید سے باندھے تو احوط اولی یہ ہے کہ تلبیہ بھی کہے ۔
تلیبہ یہ ہی کہ اونٹ کے کوہان کوایک طرف سے چیرکر خون الودہ کیاجائے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی ہے ۔ اور احوط یہ ہی کہ دائیں حصہ کو چیراجاے لیکن اگر قربانی کیلیے اونٹ زیادہ ہوں تو ایک شخص دو اونٹوں کے درمیان میں کھڑا ہوکر ایک اونٹ کے دائیں اوردوسرے ے بائیں جانب سے کوہان کو چیرناجائز ہے ۔
تقلید یہ ہے کہ حاجی رسی یا چمڑے کاپٹہ یانعلین یااسی طرح کی کویی چیز قربانی کی گردن میں لٹکائے تاکہ پتہ چلے کہ یہ قربانی ہے ۔ بعید نہیں ہے کہ تقلیدکی بجائے تجلیل کافی ہو اورتجلیل یہ ہے کہ حاجی کپڑے یااسی طرح کی کسی چیز سے قربانی کو ڈھانپدے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی ہے ۔
( ۱۸۳) احرم کے صحیح ہونے میں حدث اصغر یا اکبر سے پاک ہونا شرط نہیں چنانچہ وہ شخص جو حدث اصغر یااکبر کی وجہ سے محدث ہوا ہو مثلامجنب ،حائض اورنساء وغیرہ تواس کا احرام صحیح ہے ۔
( ۱۸۴) تلبیہ یاحج قران کرنے والے کے لیے اشعار یا تقلید کی منزلت سیدی ہے جیسے نماز پڑھنے والے کے لیے تکبیرة الاحرام کی ہے ۔ لہذا تلبیہ یا حج قران کی صورت میں اشعار و تقلیدکے بغیر احرام نہیں باندھا جاسکتا۔ چنانچہ اگر کوئی احرام کی نیت کرکے احرام باندھ لے اور تلبیہ کہنے سے پہَلے محرمات احرام میں سے سی کا مرتکب ہو تو نہ گنہگارہو اورنہ ہی اس پر افارہ واجب ہو گا ۔
( ۱۸۵) افضل یہ ہے کہ جو مسجد شجرہسے حرام باندھے وہ تلبیہ کو اول بیدا،جو ذی الحلفیہ کی آخرم یں ہے اورجہاں سے زمیں ہموار ہوتی ہے تک تاخیر کرے ۔ اگرچہ احوط یہہے کہ تلبیہ کہنے میں کہنے میں جلدی کرے (یعنی میقات میں کہے )اور بلند آواز یں کہنے میں بیدا ء تک تاخیر کرے یہ حک م مرد کی لیے ہے جب کہ عور ت کوکسی بھی مقام پر تلبیہ کنہے کے لیے اواز کو بلند نہیں کرنی چاہیے ۔
دیگر میقاتوں سے ہرام باندھنے والوں کے لیے اولی اوبہتر یہ ہے کہ چند قدم چلں ۴ ے تک تلبیہ کو تاخیر کریں اسی طرح مسجدالحرامسے اہرام باندھنے والوں کیلیے اولی وبہتر یہ ہے کہ تلبیہ کو رقطاتک تاخیرکریں ۔رقطاردم سے پہلے کا مقام ہے ۔ ردم مکہ میں ایک جگہ کانام ہے جسے آجکل مدعی کہتے ہیں ۔جومسجدراعیہ کے قریب کا مقام ہے ۔ اورمسجدجن سے پہلے کا مقام ہے ۔
( ۱۸۶) تلبیہ ایک دفعہ کہنا واجب ہے جب کہ زیادہ کہنا بلکہ جتنی مرتبہ کہہ سکتاہو اسکاتکرارکرنامستحبہے اورعمرہ تمتع اداکرنے والے کے لیے احوط یہ ہے کہ جب پرانے مکہ کے گھروں کے مقام پہنچے تو تلبیہ کہنابند کردے اورپرانے مکہ کے گھروں کا مقاماس شخص کیلیے جو مکہکی اوپری جانب سے مدینہ کے راتے آئے اسکی حد عقبہ مدینین ہے ۔ اورجو شخص مکہ کے نچلے حصہ سے آئے ۔اسکی حد عقبہ ذی طوی ہے ۔اسی طرح عمرہ مفردہ انجام دینے والے کے لیے اوحوط یہ ہے کہ اگر وہ حرم کے باہر سے داخل ہو تو حرم میں داخل ہوتے وقت تلبیہ کہنا بند کردے لیکن اگراس نے ادنی حل کے مقام سے احرام باندھ اہو تو پھر مکہ کے گھروں کو نظر آنیکی جگہسے تلبیہ کہنا بند نہ کرے اور کسی بھی حجکا ادااکرنے والاتلبیہ کوعرفہ کے دن زوال کے وقت بندکردے۔
( ۱۸۷) اگر کوئی احرام کے دو کپڑے پہننے کے بعداوراس جگہ سے گزرنے سے پہلے جس جگہ تلبیہ کہنے میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے شک کرے کہ تلبیہ کہی ہے یا نہیں تو سمجھے کہ نہیں کہی اور اگرتلبیہ کنہے کے بعد شک کرے کہ صحیح تلیبہ کہی ہے یا نہیں تو سمجھے کہ صحیح تلبیہ کہی ہے ۔
احرام کے دو کپڑوں (لنگ اورچادر )کا پہننا۔
۳ ۔احرام کے دو کپڑوں (لنگ اورچادر )کا پہننا۔مگر انہیں اس لباس کو اتارنے کے بعد پہناجائے جس کا پہننا احرام والے پر حرام ہے ۔ اس سی بچے مستثنی ہیں اوربجے لباس اتارنے میں مقام فخ تک تاخیر کرسکتے ہیں ۔جب کہ وہ اس راستے سے جارہے ہوں ۔
طاہر یہ ہے کہ ان دو کپڑوں کو پہننے کا کوئی طریقہ معتبر نہیں ہے چنانچہ ایک جس طرح چاہے لنگ کے طورپر استعمال کرے اوردوسرے کو چادر کے طور پربغل سے نکال کر کندھے پر ڈال لے یا کسی بھی طرح سے اوڑھے اگرچہ اوحوط یہ ہے کہ جس طرح عام طور پر ان کپڑوں کو استعمال کیاجاتاہے اسی طرح استعمال کرے ۔
( ۱۸۸) اظہر یہ ہے کہ احرام کے دو کپڑوں کا پہننا واجب ہے اور احرام کے درست ثابت ہونے میں بطور شرط نہیں ہے ۔
احیتاط یہ ہے کہ لنگ اتناہو کہ ناف سے لے کر زانو ت ک چھپالے اورچادر اتنی ہو کہ دونوں کندھوں ،دونوں بازوں اورکمر کاکافی حصہ چھپالے ۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ احرام کونیت اورتلبیہ سے پہلے پہنے اوراگر نیت اورتلبیہ کواحرما سے پہلے انجام دے تو احوط اولی یہ ہے کہ احرامکے بعددوبارہ نیت اورتلبیہ کا اعادہ کرے ۔
( ۱۹۰) اگر کوئی مسئلہ نہ جاننے کی بنا پر یابھول کر قمیص پر حرام باندھ لے تو قمیص اتار دے ،اسکا احرام صحیح ہو گا۔ بلکہ اظہر یہ ہے کہ اگرجان بوجھ ک ر قمیص کے اوپر احرام باندھ لے تب بھی اس کا احرم (قمیص اتارنے کی بعد )صحیح ہو گا۔
لیکن اگر احرام کے بعد قمیص پہن لے تو اسک احرام بغیر شک کے صحیح ہے ۔ تاہم لازم ہے کہ قمیص پھاڑ دے ۔ اورپاؤں کی طرف سے اتاردے ۔
( ۱۹۱) حالت احرام میں خواہ شروع میں یا بعد میں سردی یا گرمی سے بچنے کے لیے یا کسی دوسری وجہ سے دوکپڑوں سے زیادہ پہننے میں اشکا ل نہیں ہے ۔
( ۱۹۲) احرامکے کپڑے میں جو شرائط معتبر ہیں جو نمازی کی لباس میں معتبر ہیں ۔ چانچہ لازم ہے کہ حرام لے لباس میں خالص ریشم یا درندوں کی اجزاء نہ ہوں بلکہ احوط یہ ہے کہ کسی بھی حرامگوشت جانور کے اجزااورسونے کی تاروں کابناہوا نہ ہو اسی طرح ضروری ہے کہ پاک ہو تاسہم جو نجاست نماز میں معاف ہے وہ احرام میں بھی معاف ہے ۔
( ۱۹۳) احوط یہ ہے کہ لنگ ایسے کپڑے کا نہ ہو جس سے بد ن ظاہرہو بلکہ بدن کو چھپانے والا ہو مگر یہ شرط چادر میں معتربر نہیں ہے ۔
( ۱۹۴) لباس احرام میں احوط اولی یہ ہے کہ دونوں کپڑے بنے ہونے ہوں اور چمڑے کھال اور کمبل کی طرح نہ ہوں ۔
( ۱۹۵) مردوں کیلئے لنگ اور چادر پہننا واجب ہے جب کہ عورتوں کیلئے جائز ہے کہ وہ اپنے عام لباس پر احرام باندھ سکتی ہیں بشرطیکہ ان میں ذکر شدہ شرائط موجود ہوں ۔
( ۱۹۶) اگرچہ ریشم کا لباس پہننا صرف مردوں پر حرام ہے ۔ اور عورتوں پ رحرام نہیں ہے ۔ مگر احوط یہ ہے کہ عورتو ں کے احرام کا کپڑا بھی ریشم کا نہ ہو بلکہ احوط یہہے کہ عورتیں حالت احرام میں خالص ریشم کی کوئی بھی چیز نہ پہنیں ۔ مگر یہ کہ ضرورت ہو جسے گرمی یا سردی سے حفاظت کے لیے پہنناپڑے ۔
( ۱۹۷) اگر حرام باندھنے ے بعد ایک یادونوں کپڑے نجس ہوجائیں ۔ تو احوط یہ ے کہ اس کو پاک کرنے یا تبدیل کرنیمیں جلدی کرے ۔
( ۱۹۸) احرم کے کپڑوں کو ہر وقت پہنے رکھنا ضروری نہیں ہے ۔ چنانچہ چادر کو کندھے سے ہٹانے میں خواہ خواہ ضرورت کے تحت ہٹائے یا بلاضرورت کے ۔ کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اسی طرح جب دوسری چادر میں شرائط موجودہوں تو بدلابھی نہیں جاسکتاہے ۔
احرام میں ترک کی جانے والی چیزیں ۔
گذشتہ مسائل میں بیان ہو اکہ تلبیہ اور تلبیہ کاحکم رکھنے والی چیزوں (مثلا اشعار و تقلید حج قران میں ) کے بغیر احرام نہیں باندھا جاسکتا چاہے نیت بھی کر لی جائے
جب مکلف احرام باندھ لے تو ذیل میں درج پچیس چیزیں اس پر حرام ہو جاتی ہیں
( ۱) خشکی کے جانور کا شکار
( ۲ ) جماع کرنا
( ۳) عورت کا بوسہ لینا
( ۴) عورت کو مس کرنا
( ۵) عورت کو دیکھنا اور چھیڑچھاڑ کرنا
( ۶) استمناء
( ۷) عقد نکاح
( ۸) خوشبو لگانا
( ۹) مردوں کے لئے سلا ہو ا کپڑا یا ایسا کپڑا پہننا جو سلے ہوئے لباس کے حکم میں آتا ہو
( ۱۰) سرمہ لگانا
( ۱۱) آئینہ دیکھنا
( ۱۲) مردوں کے لئے بند جوتے یا موزے پہننا
( ۱۳) فسوق (جھوٹ بولنا ، مغلظات بکنا )
( ۱۴) بحث و جھگڑا کرنا ایسا طرز عمل اختیا ر کرنا جو کسی مومن کے لئے اہانت کا باعث ہو
( ۱۵) جسم کی جوئیں وغیرہ مارنا
( ۱۶) آرائش کرنا بننا سورنا
( ۱۷) بدن پر تیل ملنا
( ۱۸ ) بدن کے بال صاف کرنا
( ۱۹) مردوں کیلئے سر ڈھانپنا اسی طرح پانی میں سر ڈبونا اور یہ عورتوں پر بھی حرام ہے
( ۲۰ ) عورتوں کا اپنے چہرے کو چھپانا
( ۲۱) مردوں کا سائے میں رہنا
( ۲۲) جس سے خون نکالنا
( ۲۳) ناخن کاٹنا
( ۲۴) ایک قول کے مطابق دانت نکالنا
( ۲۵) ہتھیار لے کر چلنا