جدال(یعنی بحث و جھگڑا کرنا )
( ۲۵۰) محرم کا اس طرح سے بحث یا جھگڑا کرنا جس میں اللہ کی قسم کھا کر کسی چیز کو ثابت کیا جائے یا کسیچیز کا انکا ر کیا جائے حرام ہے ۔ اظہر یہ ہے کہ قسم میں صرو ان دو لفظوں بلی واللہ یا لاواللہ کا لحاظ کرنا معتبر نہیں حی بلکہ ذات حقیقی کی قسم ہو تو کافی ہے چاہے اسم مخصوص اللہ کے ذریعے قسن کھائے یا اسکے علاوہ کسی اور اسم سے اور چاہے قسم لا،یا ,,بلی ،،سے شروع ہو یا نہ ہو ،اسی طرح حاہے قسم عربی زبان میں کھائے یا کسی اور زبان میں ،اللہ کے نام کے علاوہ کسی اورمقدس کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے چہ جائے کہ کوئی یوں کہے کہ میری جان کی قسمایس ہے ایسا نہیں ہے ۔ اسی طرح خبر دینے کے علاوہ قسم کا کوئی اثر نہیں ہے مثلا کسی سے التما س کرنے کے لیے قسم کھانااور کہنا کہ,, اللہ کی قسم مجھے فلاں چیز دی دو ،،خود اپنے ارادے کی تاکید کے لیے قسم کھاناکہ میں مستقبل میں یہ کام کرونگا اوریوں کہنا کہ ,,اللہ میں فلاں چیز تمہیں دونگا،،فقہاکا کہنا ہے کہ سچی قسم میں جدال متحقق ہونے میں قسم کا تین مرتبہ پے در پے تکرار کرنا ضروری ہے ۔ ورنہ جدال متحقق نہیں ہو گا تاہم یہ قول اشکا ل سے خالی نہیں ہے اگرچہ احوط اسکے خلاف میں ہے یعنی ایک مرتبہ میں بھی جدال متحقق ہوجائے گا ۔ اور جھوٹی قسم میں جدال کے متحقق ہونے میں بلااشکال تعدد معتبر نہیں ہے ۔
( ۲۵۱) حرمت جدال سے ہروہ مورد مستثنی ہے کہ ۔جہاں قسم کو ترک کرنے سے مکلف کو نقصان ہورہاہو جیسے قسم کو ترک کرنے کی وجہ سے اسکا حق ضائع ہو جائے گا ۔
( ۲۵۲) اگر کسل کرنے والاتین مرتبہ پے در پے سچی قسم کھائے تو اس پر ایک بکری کفارہ واجب ہو گی اور تین مرتبہ سے زیادہ تکرار کرنے کای وجہ سے متعدد کفارہ نہیں ہو گا ۔ لیکن اگر تین یا زیادہ مرتبہ قسم کھانے کے بعدپھر تین یازیادہ مرتبہ قسمیں کھائے تو ان دو صورتوں میں کفارہ بھی متعدد ہو جائیگا ۔ اگرایک جھوٹی قسم کھائے تو ایک مرتبہ پر ایک بکری اوور دومرتبہ پر دو بکری اورتین مرتیبہ قسم کھانے پر ایک گائے کفارہ واجب ہے تین مرتبہ سے زیادہ قسم کھانے پ رکفارہ نہ دی اہو تو ایک ہی کفارہ واجب ہو گا ۔ تاہم دوسری مرتبہ جھوٹی قسم کا کفرہ دینے کے بعد تیسری مرتبہ جھوٹی قسم کھانے پر ایک بکری ہی کفارہ ہوگی نہ کہ گائے ۔
جسم کی جوئیں مارنا۔
( ۲۵۳) محرم کے لیے جوئیں مارنا اور بنابر احوط اپطنے لباس یا جسمسے نکا ل کر باہرپھیکنا جائز نہیں ہے ۔ تاہم جسم کةی ایک جگہ سے پکڑ کردوسری جگہ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگر کوئی جوؤں کو ماردے یا پھینک دے تو احوط اولی یہ ہے کہ مٹھی بھر کھانا کفارہ دے ۔ احوط یہ ہے کہ اگر مچھر ،کھٹمل اور ان جیسے جانور محرم کو ضرر نہ پہچائیں تو انکو بھی نہ مارے لیکن اظہر یہ ہے کہ انہیں اپنے قریب آنے سے روکنا جائز ہے ۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ اس کو بھی ترک کرے ۔
آرائش کرنا(بناؤ سنگھار کرنا)
( ۲۵۴) احوط یہ ہے کہ محرم مرد اور عورت اپنے آپ کو ہر اس چیز سے بچائیں جو عموما زینت شمار ہوتی ہے ۔ خواہ زینت کا قصد کرے یانہ کرے ویسے تو عام طور پر مہندی لگانا بھی زینت میں شمار ہجوتاہے لیکن اگر مہندی لگانا زینت میں شمار نہ ہوتاہو مثلا علاج کی غرض سی استعمال کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسی طرح احرام باندھنے سے پہلے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ چاہے اسک ے اثرات احرام باندھنے تک باقی رہیں ۔
( ۲۵۵) زینت کے بغیر انگوٹھی پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ چنانچہ انگوٹھی پہننا ایک مستحب عمل ہونے کی وجہ سے،یا گم ہونے سے بچانے کے لیے ،طواف کے چکروں کو شمار کرنے کی لیے یا سی طرح کے کسی اور کام کے لیے پہننے میں کوئی حرج نہیں تاہم احوة یہ ہے کہ زینت کے لیے نہ پہنے ۔
( ۲۵۶) محرم عورت کے لیے زینت کی نیت سے زیوارات پہنان حرام ہے بلکہ احوط یہ حی خہ اگر زینت شمار ہوتے ہوں تو زینتکی نیت کی بغیر بھی نہ پہنے تاہم اتنی مقدار میں زیورات پہنناجنہیں وہ عام طور پر احرم سے پہلے پہنتی تھی اس حکم سے مستثنی ہے لیکن احوط اولی یہ ہے کہ زیورات پہن کراپنے شوہر یا دوسرے محرم مردوں کو نہ دیکھائے مذکورہ بالا تمام موارد میں اگر کوئی زینت کرے تو کو ئی کفارہ واجب نہیں ہے ۔
تیل لگانا۔
( ۲۵۷) محرم کے لیے تیل لگانا حرام ہے چاہے وہ خوشبودار نہ بھی ہولیکن خوشبودار تیل کھاناجائز ہے چاہے وہ تیل اچھی خوشبو الاہوجیساکہ مسئلہ ۲۳۸ میں بیان ہوامحرم کے لیے بعیر خوشبو کاتیل بغیر دوا کے استعمال کرنا جائزہ ہے بلکہ ضرورت ومجبوری کے وقت خوشبودار تیل چاہے اسکی خوشبوطبعی ہو یا ملائی گئی ہو استعال کرنا بھی جائز ہے ۔
( ۲۵۸) عمدا خوشبودار تیل اسکی خوشبو خواہ طبعی ہو یا غیر طبعی استعمال کرنے اک کفارہ ایک بکری ہے ۔ اور اگرتت لاعملی کی وجہ سے استعمال کیاجائے تو دونوں تیلوں کا کفارہ بنابر احوط ایک فقیر کوکھانا کھلاناہے ۔
بدن کے بال صاف کرنا ۔
( ۲۵۹) محرم کا اپنے یا کسی دوسرے کے بدن سے بال صاف کرنا جائز نہیں ہے چاہے دوسرا بغیر احرام کے ہی کیوں نہ ہو اور چاہے مونڈ کر صاف کرے یا اکھاڑ کر اس حکم میں بالوں کے کمیا زیادہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ بلکہ ایک بال کا کچھ حصہ مثلا آدھا بال کاٹنا جائز نہیں ہے لیکن اگر سر میں جوئیں زیادہ ہونے کے وجہ سے اسے اذیت اورتکلیف ہوتی ہو تو پھر سر منڈوانا جائز ہے ۔ اسی طرح سے اگر ضرورت ہو تو بال صاف کرنابھی جائز ہے وضو یا غسل اور تیمم یانجاست سے پاک ہونے یا ایسی روکاوٹ کو دورکرتے وقت جو جسم سے چپکی ہوئی ہو حدث یاخبث طہارت سے مانع بن رہی ہو یا کسی اورضرورت کے وقت اگر بال گریں تو کوئی حرج نہیں ہے جبکہ وہ اسکا قصد نہ رکھتاہو ۔
( ۲۶۰) بغیر ضرورت کے سر منڈوانے کا کفراہایک بکری یاتین دن کے روزے یا چھ مسکینوں کوکھاناکھلاناہے ۔ ہر مسکین کا طعام دو مد (یعنی تقریبا ۱۵۰۰ ۔گرام کے برابر ہے )اگر محرم اپنی دنوں بغلوں کے نیچے کے بالوں کو نوچ کر نکالے تو ایک بکری کا کفارہ دے اوراحوط یہ ہے کہ اگر ایک بغل کے نیچے کے بال نوچ کر نکالے تب بھی ایک بکری کا کفارہ دے ۔ اگر داڑھی یا کسی اور جگہ کے بال نکالے تو ایک مسکین کو مٹھی بھر کھانا دے۔
مذکورہ بالاموارد میں اگر کوئی منڈنے یا نوچ کر نکالنے کے علاوہ کسی اورطرح سے بال نکالے تو احوط یہ ہے کہ اسکابھی یہی حکم ہے ۔ اگر محرم کسی دوسرے کا سر مونڈے تو دوسرا سر مونڈوانے والاحالت ہرام میں ہو یا بُغیر حرام کے تو محرم پرکوئی کفارہ واجب نہیں ہے ۔
( ۲۶۱) محرم کے لیے اس طرح سر کھجانے میں جہ جب بال نہ گریں یا خون نہ نکلے کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہی حکم بدن کھجانے کابھی ہے ۔ اگر محرم بلاوجہ اپنا سر یا داڑھی پر ہاتھ پھیر ے اور ایک یا کچھ بلا گر جائیں تو مٹھی بر کھاناصدقہ دے ۔ اور اگر وضوکرتے وقت کچھ بال گریں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے ۔
مردوں کے لیے سرڈھانپنا۔
( ۲۶۲) محرم مر دکے لیے مقنع یاکپڑے یا دوپٹے وغیرہ سے اپنا پورا سر یا کچھ حصہ ڈھانپنا جائز نہیں ہے ۔بلکہ احوط یہ ہے کہ گیلی مٹیی یا جھاڑی وغیرہ کے ذریعے بھی سر نہ ڈھانپے تاہم مشک کا تسمہ یا سر درد کی وجہ سے سر پر رومال باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس مسئلہ میں سر سے مراد بال اگنے کی جگہ ہے اوراقرب یہ ہے کہ اس میں دونوں کان بھی شامل ہیں ۔
( ۲۶۳) بدن کے کسی حصے مثلاہاتھوں سے سر ڈھانپنا جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اس سے بھی اجنتاب ضروری ہے ۔
( ۲۶۴) محرم کے لیے پورے سر کو پانی یابنابر احوط کسی اورچیز میں ڈبونا جائز نہیں ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ اس حکم میں مر د اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اورسر سے مرادگردن کے اوپر کا پوراحصہ ہے ۔
( ۲۶۵) احوط یہ ہے کہ اگر محرم سر کو چھپائے تو ایک بکری کفارہ دے اورجن موارد میں سر چھپانا جائز نہیں ہے یا مجبورا سر چھپائے توظاہر یہ ہےْ کہ کوئی کفارہ واجب نہیں ہے ۔
عورتوں کے لیے چہرے کا چھپانا۔
( ۲۶۶) حالت اہرام میں عورتوں کے لیے برقعہ ،نقاب یا چہرے سے چپکنے والی چیز سے چہرہ چھپانا حرام چنانچہ احوط یہ ہے کہاپنے چہرے یا چہرے کے کچھ حصے کوبھی کسی چیز سے نہ چھپائے تاہم سوتے وقت اور نامز میں سر چھپاتے وقت مقدمہ کے طور پر جب سر پر موجود چادر کو لٹکانے سے نہ چھپ سکتاجوتو چہرے کا کچھ حصہ ڈانپنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
( ۲۶۷) حالت احرام میں عورت اپنی چادر کو لٹکاکر ،نامحرم پردہ کر سکتی ہے یعنی سر پر موجود چادر کو اپنی ناک بلکہ گردن کے مقابل تک کھینچ لے۔اور اظہر یہ ہے کہ چادر کے اس حصے کوہاتھ وغیرہ سے چہرے سے دور رکھنا واجب نہیں ہے ۔ اگرچہ احوط ہے ۔
( ۲۶۸) احوط اولیٰ یہ ہے کہ چہرہ ڈھانپنے کاکفارہ ایک بکری ہے ۔
مردوں کا سائے میں رہنا
( ۲۶۹) سائے میں ہونا دو طرح سے تصور کیا جاسکتا ہے :
۱ ۔ متحرک اشیاء مثلا چھتری، محمل کی چھت ، گاڑی یا ہوائی جہاز کی چھت ، وغیرہ کے زیر سایہ چلنا ، جب کہ سایہ دار چیز مذکورہ مثالوں کی طرح اس کے سر کے اوپرہوں تومحرم مرد پر حرام ہے خواہ وہ سوار ہو یا پیدل تاہم بدل کے نیچے کھڑاہونا جائز ہے ۔ لیکن اگر سائیہ دار چیز اسکی سیک طرف مثلا سامنے یا پیچھے ہو تو ظاہریہ ہی کہ پیدل شخَص کے لیے ایسا سایہ جائز ہے لہذا محمل یا گاڑی کے سائے میں چلنا محرم مرد کے لے جائز ہے اور سوار کے لیے احتیاط یہ ہے کہ وہ اس سے پرہیز کرے سوائے اسک یکہ عام سورج سے بچنے کا نہ ہو یعنی وہ چیزکھلی ہوئی گاڑی کی دیوار میں محرم مرد کسی ایک طرف ہوں اوراتنی چھوٹی ہو محرم کا سر اور سینہ اس سی نہ چھپتاہو ۔
۲ ۔ ثابت اور غیر متحرک اشیاء مثلادیواریں ،درخت و پہاڑ یا انہیں جیسی کسی اور چیز کے سائے میں ہو نا محرم مرد کے لیے بنا بر احوط جائز ہے خواہ سوار ہو یا پیدل ۔ اسی طرح محرم کا اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو بچاناسورج کی تپش سے بچانا جائز ہے اگرچہ ہواط اس کو ترک کرنے میں ہے ۔
( ۲۷۰) سائے میں ہونے سے مراد اپنے اآپ کو سورج سے بچاناہے اوراحوط یہ ہے کہ اس حکم میں سورج کے ساتھ بارش کو بھی شامل کیاجائے لیکن اظہریہ ہے ہ ہو ا،سردی ،گرمی ،یاان جسیی دوسری چیزوں سیاپنے آپ کو بچانا جائز ہے لیکن احتیاط اسمیں بھی ترک کرنے میں ہے ۔ چنانچہ بنابر احوط جب بارش نہ ہو رہی ہو تو محرم کے لیے چھت والی گاڑی یا کسی اور چیز میں سوار ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگرچہ یہ سواری محرم شخص کو ہو اسے بچا رہی ہو ۔
( ۲۷۱) زةر سایہ چنے کی چو حرم ت بیان ہو ئے ہے وہ حالت سفر میں مخصوص ہے ۔ لہذااگر محرم کسی جگہ پہنچے او راس جگہ کو رہنے کے لیے منتخب کرے یا نہ کرے مثلا دوران سفر آرام کرنے یا دوستوں سے ملاقات کرنے یا کسی اور وجہ سے رکے تو اس وقت سائے میں رہنے میں اشکا ل نہیں ہے ۔ لیکن اس صورت میں کہ جب یہ کسیجگہ پہنچنے اور رہنے ے لیے قرار دے مگر چاہتاہو کہ اپنے کاموں کو انجام دینے کے لیے ادھر ادھر جائے مثلا مکہ میں پہنچے اورچاہتاہو کہ طواف سعی کرنے کے بعد مسجد الحرام جائے یا مثلا منی پہنچے اورقربان یا رمی جمرات کے لیے جانا چاہتاہوتو اس صورعت میں اسکے لیے چھت والی گاڑی میں یا چھتری سے سر پر سائہ کرن اجائز ہے یا نہیں ۔ اس کے جواز کا حکم دینا کافی مشکل ہے ۔چنانچہ احتیاط کو ترک نہیں کرناچاہیے ۔
( ۲۷۲) اگر محرم اپنے آپ کو سورج سے بجائے تو اس پر کفارہ واجب ہے ۔اورظاہر یہ ہے کہ کفارہ واجب ہونے میں اختیاری حالت اور مجبوری کی حالت ہونے میں فرق نہیں ہے ۔ لہذ ااگر کوئی باربار سائے میں چلے تو ااظہر یہ ہے کہ ہر احرام کے لیے ایک کفارہ دے ۔ اگرچہ ہر دن کے لیے ایک کفارہ بنابر احوط کافی ہے اوراکفارہ میں ایک بکری کافی ہے ۔
جسم سے خون نکالنا۔
احوط یہ ہے کح محرم کے لیے اپنے چسن سے کون نکالنا جائزنہیں ہے ۔سوائے کسی مجبوری ے یاضرورت کے گرچہ فصد کھولنے ،حجامت ،دانت نکلوانے ،جسم کو کھجانے یا کسی اوروجہ سے ۔ لیکن اظہر یہ ہے کہ مسواک کرنا جائزہے چاہے اسکی وجہ سے خون نکلے احوط اولی یہ حی کہ بغیر ضرورت کے خون نکالنے کا کفارہ ایک بکری ہے ۔
ناخن کاٹنا۔
محرم کے لیے ناخن کاٹناجائز نہیں ہے ۔ اگرچہ کچھ مقدار میں کاٹے ،سوائے کسی مجبوری وضرورت مثلاناخن باقی رکھنے میں اذیت وتکلیف ہوتی ہو ۔ یعنی اگرناخن کاکچھ حصہ ٹوٹ ۔گیاہو اورباقی حصہ میں دردہورہاہو توباقی ناخن کو کاٹنا بھی جائز ہے ۔
( ۲۷۴) ہاتھ یا پاؤں کا ایک ناخن کاٹنیکا کفارہ ایک مدیعنی تقریبا ۷۵۰ گرام کھاناہے ۔چنانچہ اگردوناخن کاٹے تو کفارہ دو مد طعام اوراسی طرح نوناخنوں تک (ناخن کاٹنے کے لحاظ سے کفارہ ہو گا)۔ لیکن اگرہاتھ اور پاؤں کے پورے ناخن متعدد نشتوں میں کاٹے تو کفارہ دو بکریاں (ایک ہاتھ اوردوسری پاؤں کے ناخنوں کے لیے )ہوگا ۔ اوراگر ایک ہی نشت میں کاٹے تو پھر ایک بکری کفارہ واجب ہو گا ۔
( ۲۷۵) اگر محرم ایسے شخص کے فتوی پر عمل کرنتے ہوئے ناخن کاٹے جس نے ناخن کاٹنے کے جائز ہونے کا فتوی غلطی سے دیا ہو اورکاٹتے ہوئے خون نکل آئے تو احوط یہ ہے کہ کفارہ فتوی دینے والے پر واجب ہے ۔
دانت نکلوانا ۔
( ۲۷۶) بعَض فقہاء نے محرم کے لیے دانت نکلوانا حرام قرار دیا ہے چاہے خوان نہ بھی نکلے اوراس کا ایک دنبہ کفارہ واجب ہے ۔لیکن اس حکم کی دلیل میں تامل ہے ۔ بلکہ بعید نہیں ہے کہ یہ کا م جائز ہو ۔
اسلحہ رکھنا۔
( ۲۷۷) محرم کے لیے اسلحہ پہننا بلکہ بنابر احوط اس طرح ساتھ رکھنا کہ مسلح شمار ہو جائز نہیں ہے ۔ اسلحہ سے مراد ہر وہ چیز جو عموما اسلحہ کہلاتی ہے مثلا۔تلوار،بندوق،تیروغیرہ تاہم زرہ سپر وغیرہ حفاظتی آلات ہیں نہ کہ اسلحہ ۔
( ۲۷۸) محرم کے پا ساسلحہ ہونے میں جبکہ اس نے پہنا ہو ان ہ ہو کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسی طرح اسلحہ ساتھ رکھنا جبکہ عرفا مسلح شمار نہ ہو تاہو کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی ترک کرنا احوط ہے ۔
( ۲۹۷) حالت اختیاری میں اسلحہ رکھناحرام ہے ۔ لیکن وقت ضرورت مثلادشمن ی اجوری کا خوف ہو تو جائز ہے ۔
( ۲۸۰) بغیر ضرورت کے اسلحہ ساتھ رکھنے کا کفارہ ایک دنبہ ہے ۔ ابتک محرم پر حرام ہونے والی چیزی ں بیان ہوئی ہیں ۔ذیل میں ہرم میں حرم ہونے والے امور بیان کیے جارہی ہیں ۔