واجبات ِ طواف۔
طواف میں آٹھ چیزیں معتبر ہیں ۔
۱ ۔ ۲ ۔ہر چکر کو حجر اسودسے شروع کرکے اسی پر ختم کرنا ۔طاہر یہ ہے کہ یہ شرط اس وقت حاصل ہوگی جب حجر اسود کے جس حصے سے چکر شروع کیاجائے وہیں پر ختم کرے ۔اگرچہ احوط یہہے کہ ابتدا و انتہاء میں اپنے بدن کو تمام حجر اسودسے گزارے ۔اس احتیاط کے لیے کافی ہے کہ حجر اسود سے کچھ پہلے کھڑاہوجائے اورطواف کی نیت اس جگہ سے کی جائے جہاں سے حقیقت میں حجر اسود سے سامنا ہو رہاہو ۔پھر خانہ کعبہکی گرد سات مرتبہ چکر لگائے جائیں اورآخری چکر کے اختتام پر حجر اسود سے یہ نیت کرتے ہوئے تھوڑاآگے تک جائے کہ طواف کہ طواف معتبر مقام سے پرپوراہوجائے ۔ اس طرح یقین ہوجائیگا کہ حقیقت می حجر اسود جس جگہ سے شروع ہوناتھا اورجہاں ختم ہوناتھاوہ اس عمل سے حاصل ہوگیا ہے ۔
۳ ۔طواف کرتے وقت خانہ کعبہ کو اپنے بائیں طرف قرار دے چنانچہ اگر دوران طواف کسی رکن کو بوسہ دینے یارش کی وجہ سے کعبہ کی طرف رخ یا پشت ہوجائے یاکعبہ دائیں جانب قرار پائے تواتنی مقدار طواف میں شمار نہیں ہوگی ۔کعبہ کو بائیں طر ف قرار دنیے میں ظاہر ہے کہ اگر عرفایہ کہا جائے کہ کعبہ حاجیکے بائیں طرف ہے تو کافی ہے جیساکہ نبی کریم کاسواری پر طواف کرنے سے ظاہر ہے ہوتاہے ۔ لہذا جب جسم کعبہ کے چاروں ارکان اورحجر اسمعیل کے دووں سروں سے گزر رہاتو جسم کو بائیں جانب کعبہ کی طرف کرنے میں دقت اٹھانے بدن کو موڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
۴ ۔حجراسمعیل کو بھی طواف میں شامل کرنا یعنی حج اسمعیل کے باہر سے چکر لگایاجائے نہ ہی اس کے اوپر سے گزرے اور نہ ہی اندرسے ۔
۵ ۔طواف کرنے والادیوار کعبہ اوراسکے اطراف میں وجود چبوترے (شازروان )سے ہٹ کر چلے ۔
۶ ۔کعبہ کے گرد سات چکر لگانا سات سے کم کافی نہیں ہونگے اگر کوئی جان بوجھ کر سات سے زیادہ چکر لگائے تو اسکااطواف باطل ہو جائگا۔ جسکا بیان بعد میں آئے گا۔
۷ ۔ساتو ں چکر اس طرحسے کیے جائیں خہ عرفا اسے پیے در پے شمارہوں یعنی بأغیر زیادہ توقفکے ایک کے بعد ایک بجالایاجئے ۔ اس حکم سے کچھ موارد مستثنی ہیں ۔ ج سکا بیان بعد میں آئے گا ۔
۸ ۔ طوااف کرنے ولااپنے ارداے اور اختیار سے کعبہ گرد چکر لگائے اگر رش یا کسی ور وجہ سے کچھ مقدار بے اختیار ی کی وجہ سے بجالائے تو یہ کافی نہیں ہو گا اور اسکاجبران ور تدارک کرنا ضروری ہے ۔
( ۳۰۳) فقہا ء کے درمیاں مشہورہی کہ کعبہ اور مقام ابراہیم کی درمیان چکر لگایاجائے ۔ جس کا فاصلہ ساڑھے چھبیس ہاتھ ہے (۱۲/۲میٹر) چونکہ حجر اسمعیل کو طوافکے اندر رکھنے ے وجہ سے حجر اممعیل کی جانب سے زیادہ نہیں ہے ۔ لکین بیعد نہیں کہ طواف اس حصے سے زیادہ میں بھی جائز ہو مگر کراہتکے ساتھ خصوصا ً اس شخص کے لیے جو ا مقدار میں طواف نہ کر سکتاہو یا اس مقدار میں اس کیلیے طواف کرنا حر ج و مشتق کا باعث ہولیکن اگر اس مقدار میں طواف کرنا ممکن ہو تو احتیاط ملحوظ خاطر رکھنا بہترہے ۔
مطاف(وہ جگہ جہاں طواف کیاجائے )سے خارج ہو نا ۔
( ۳۰۴) اگرطواف کرنے والامطاف سے خارج ہو کرکعبہ میں داخل ہوجائے تو ااسکاطواف باطل ہوجائے گاجو دوبارہ کرباہوگا۔اگر آدھے طواف کے بعد مطاف سے باہر ہوتو بہتریہ ہے کہ پہلے اس طواف کو پورا کرے اورپھردوبارہ طواف کرے ۔
( ۳۰۵) اگر کوئی مطاف سے نکل کر چبوترے سے (شازروان )پر جلے تو اتنی مقدار میں طواف باطل ہو گا چنانچہ اتنی مقدار کا تدارک وجبران کرنا ضروری ہے ۔احوط اولی یہ ہے کہ اتنی مقدار تدارک اورطواف پوراکرنے کے بعد یہ طواف دوبارہ بھی کرے ۔اسی طرح احوط اولی یہ ہے طواف کرنے والادوران طواف اپنے ہاتھث کعبنہ کی دیوار تک ارکان وغیرہ کو چھونے کے لییے نہ پھلائے ۔
( ۳۰۶) اگرطواف کرنے ولا حج اسمعیل کے اندرچلا جائے چاہے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے یا بھول کر تو اس کا یہ چکرباطل ہوجائے گااورضروری ہے کہ اسے دوبارہ انجام دے ۔احوط یہ ہے کہ طواف پوراکرنے کے بعددوبارہ انجام دے ۔ حجر اسمعیل کے اوپرسے گزرنے کا بنابر احوط وہ حکم ہے جو حکم اندرجانے کا ہے نیزاحوط یہ ہے کہ طواف کرتے وقت حجراسمعیل کی دیوار ہاتھ نہ رکھے ۔
طواف کوتوڑنااورطواف کے چکروں کا کم ہونا۔
( ۳۰۷) مستحب طواف کی طرح واجب طواف بھی کسی ضرورت و مجبوری سے بلکہ بنابر اظہر بلاضرورت و مجبری بھی توڑناجائز ہے ۔
( ۳۰۸) اگر واجب طواف چوتھاچکر پوراہونے سے پہلے بغیرکسی وجہ کے توڑاجائے تو طواف باطل ہوجائے کا وردوبارہ بجالانا ضروری ہے لیکن اگر چوتھا چکر پورا کرنے کے بعد توڑاجائے تو احوط یہ ہے کہ اس طواف کو بھی پوراکرے اوردوبارہ بھی انجام دے ۔ تاہم مستحب طواف میں کہ جہاں سے توڑا جائی وہیں سے شروع کر کے پوراکرے ۔چاہے چو تھے چکر سے پہلے توڑے یا بعد میں جب تک کہ عرفاموالات ختم نہ ہوجائے ۔
( ۳۰۹) اگر عورت کو دوران طواف حیض آجائے تو اواجب ہے کہ طواف توڑ کر فورامسجدالحرام سے باہر نکل جائے اوراس طواف کا حکم مسئلہ نمبر ۲۹۱ میں بیان ہو چکا ہے ۔اسی طرح اگر طواف کرنے ولایسے دوران طواف حدث سرزد ہوجائے یا دوران طواف اسے بدن یا لباس کے نجس ہونے کا پتہ چل جائے اسکا حکم مسئلہ نمبر ۲۸۵ اورتین سومیں بیان ہوچکا ہے ۔
( ۳۱۰) اگر بیماری یا اپنی یا کسی مومن بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوئی اپنا واجب طاف کر چوتھا چکر سے پہلے توڑے تو ظاہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے اور دوبارہ کرنا ضروری ہے ۔ لیکن اگر چوتھے چکر کے بعد توڑے تو اظہر یہ ہے کہ طواف صحیح ہوگالہذا واپس آکر جہاں سے توڑاتھا وہیں سے شروع کرے اور احوط یہ ہے کہ اسے پواراکرنے کے بعد دوبارہ بھی بجالائے تاہم مستحب طواف میں جائز ہے کہ جہاں سے چھوڑاتھا وہیں سے شروع کرے چاہے چوتھے چکر سے پہلے چھوڑا ہو۔
( ۳۱۱) طواف کے دوران آڑام کرن ابیٹژنا یا لیٹنا جائزہے لیکن ضروری ہے کہ اتنی دیر بیٹھے یالیٹے کہ تسلسل کاتائثر ختم نہ ہو۔ چنانچہ اتنی دیرلیٹنے یا بیٹھنے سے تسلسل ٹوٹ جائے طواف باطل ہوجائے گالہذا پھر سے شروع کرنا ضروری ہے ۔
( ۳۱۲) اگرکوئی واجب نماز کو وقت پر پڑھنے کے لیے یا نماز کو جماعت سی پرنے کی لیے یا نافلہ نماز کو پڑھنے کے لیے جب کہ اسکا وقت تنگ ہو طواف توڑے تو جہاں سے طواف چھواڑ ہے نماز کے بعد وہیں سے شروع کرے چاہے طواف واجب ہویا مستحب اورچاہے چوتھے چکر سے پہلے چھوڑاہو یا بعد میں اگرچہ احوط یہ ہے کہ جب طواف چوٹھے چک رسے پہلے چھوڑا ہو تواس طواف کو پورا کرکے دوبارہ طواف کرے ۔
( ۳۱۳) اگر طواف میں بھولے کمی ہوجائے اورتسلسل ختم ہونے سے پہلے یا د آجائے تو کمی کو پور اکرے اوراسکاطواف صحیح ہوگا۔اسی طرح اگر تسلسل ختم ہونے کے بعد یاد آئے اورایک یا دو یا تین چکر بھولاہوتو انہیں بجالائے اوراس کاطواف بھی صحیح ہوجائے گا۔اگر خود انجام دینے )ر قادر نہ ہو چاہیے اس لیے ک اپنے شہر واپس آکر یاد آیا ہو کسی کونائب بنائے ۔لیکن اگر تین سے زیادہ چکر بھول گیا ہوہو تو واپس جاجتنے چکر کم ہوں انہیں انجام دے ۔احوط یہ ہے کہ اس طوافر کو پوراکرنے کے بعد دوبارہ بھی انجام دے ۔
طواف میں زیادتی
طواف میں زیادتی کی پانچ صورتیں ہیں۔
۱ ۔طواف کرنے والا زیادتی کواس طواف یادوسرے طواف کا جز نہ سمجھے یعنی سات چکر پورے کرنے کے بعد مستحب کی نیت سے ایک اور چکر انجام دینے سے طواف باطل نہیں ہوگا۔
۲ ۔طوافشروع کرتے وقت ہی ایہ ارادہ ہوکہ زائد حصے کو اس طواف کے جزکی نیت سے انجامدی گ اتواس صورت جین اسک اطواف ولااشکال باطل ہے اورضرفوریہظہ طواف کو دوبارہ انجام دے ۔۔ اسی طرح اگرطواف کے دوران اس قسم کا اراداہ کرے اورکچھ حصہ زیادہ انجام دے توایہی حکم ہے ۔ لیکن اگر زیادہ حصہ انجام نہ دے تواگرزیادتی کے ارادے سے نیت کرنے سے پہلے والے چکر کے باطل ہونے میں اشکال ہے ۔
۳ ۔زائد چکر اس نیت سے کرے کہ جس طواف سے فارغ ہو اہے یہ اس کا جز ہے جب عرفا موالات ختم نہ ہوئی ہویعنی طواف سے طواف سے فارغ ہونے کے بعد زاید چکر کا جز ہونے کا قصد کرے تو اظہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے ۔
۴ ۔زائد چکر اس نیت سے کرے کہ یہ دوسرے طواف کاجز ہے اورپھر دوسرے طواف کو کوئی بھی جخر بجانہ لائے تو اس صورت میں نہ ہی زیادتی وجود میں آیئگی اورنہ ہی قران ہو گا لیکن بعض صورتوں میں ممکن ہے کہ اس وجہسے طواف کرنے والے کو قصد قربت حاصل نہ ہو نے کی وجہ سے اس کا طواف باطل بھی ہو سکتاہے مثلاکوئی شخص قران کی نیت رکھتاہو جو کہ حرام ہے اورجانتابھی ہو کہ قران کی وجہ سے طواف باطل ہوجاتاہے تواس صورت میں قصد قربت ثابت نہیں اگرچہ اتفاقا عملی طورپر قران بھی واقع نہ ہو ۔
( ۳۱۴) اگر سہواطواف میں چکر زیادہ ہو جائے اوررکن عراقی تک پہنچنے کے بعدیاد آئے تو زائد چکر کو اباقی چکروں کے ساتھ ملاکر طواف کو پورا کرے ۔بنابر احوط یہ ہی ک طواف واجب یا مستحب کا تعین کیے بغیر یعنی مطلقا قصد قربت سے انجام سے دے اوراس کے بعد جار رکعت نماز پڑھے افضل بلکہ احوط یہ ہے کہ دونوں نمازوں کوجداجدا پڑھے یعنی دورکعت سعی سے پہلے و اجب طواف کی نیت سے اوردو رکعت سعی کے بعدمستحب طواف کی نیت سے اسی طرح اگر رکن عراقی تک پہنچنے سے پہلے یا دآئے تو بھی بنا بر احوط یہی حکم ہے ۔
چکروں کی تعدادمیں شک
( ۳۱۵) چکروں کی تعدادیا چکروں کے صحیح ہونے کے بارے میں شک طواف کے بعد یا موقع گزرجانے کے بعد شک ہو تو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے ۔اسی طرح اگر تسلسل کے ختم ہونے یا نماز طواف شروع کرنے کے بع دشک ہو تو اسکی بھی پرواہ نہ کی جائے ۔
( ۳۱۶) اگر سات چکروں کا یقین ہو اورزیادہ کے بار ے میں شک ہو کہ یہ آٹھواں چکر تھاتو ایسے شک کی پرواہ نہ کی جائے اوریہ طواف صحیح ہو گالیکن اگر یہ شک آخری چکرپورا ہونے سے پہلے ہو تو ااظہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے چنانچہ احوط یہ ہے کہ رجاء اسے بھی پوراکرے اوردوبارہ بھی انجام دے ۔
( ۳۱۷) اگر چکر کے اختتام یاچکر کے دوراں کہ تیسرا چکر ہے کہ چوتھا یاپانچوان یا چھٹا ،یاسات چکر وں سے کم کا اورشک ہو تو طواف باطل ہوجائے گا حتی کہ اگر چکر کے اختتام پر چھ اورسات کا شک ہوجائے تب بھی احوط یہ ہے کہ طواف باطل ہے اگر اسی طرح سات سے کم یا زیادہ کاشک ہو مثلاآخر ی چکر کا چھٹا کا ساتواں یا آٹھواں ہونے میں شک ہو تب بھی طواف باطل ہے ۔
( ۳۱۸) اگر کسی کو چھ اور سات میں شک ہو اور حکم نہ جاننے کی وجہ سے وہ چھٹا سمجھتے ہوئے اپناطواف تمام کرے اور اس کی جہالت ،جبران و تدارک کا وقت ختم ہونے تک برقرار رہے تو بعیدنہیں کہ اکس طواف صحیح ہو ۔
( ۳۱۹) طواف کرنے کے لیے جائز ہے کہ کہ اگر اس کے ساتھی کو اسکے چکر وں کی تعداد ک ایقین ہو تو اوہ اسکی بات پر اعتماد کر سکتاہے ۔
( ۳۲۰) اگر کوئی عمرہ تمتع میں جان بوجھ کرطواف چھوڑ دے تو چاہے حکم و مسئلہ جانتا ہو اورطواف ار عمرہ کے باقی اعمال ربز عرفہ کے زوال آفتاب تک انجام دینا ممکن نہ ہو تو اسکا عمرہ باطل ہو گا چنانچہ احوط یہ ہے کہ اگر مسئلہ نہ جانتاہو تو ایک اونٹ کفارہ بھی دے جیسا کہ اسک اذکرع طواف کے باب میں گزر چکا ہے ۔اگر حج میں جان بوجھ کر طواف چھوڑ دے تو اخواہ مسئلہ جانتاہو یا نہ جانتاہو اور اسکا طواف کا جنران کرنا بھی ممکن نہ ہو ،اسکا حج باطل اور۔اگر مسلئکہ نہ جاننے کی وجہ سے چھوڑا ہو تو ایک اونٹ کفارہ دینابھی ضروی ہے ۔
( ۳۲۲) اگر بھول کر طواف چھوڑ دے اوراسکا وقت ختم ہونے سے پہلے یاد آجائے تو اسکا تدارک و جبران کرے اور اظہر یہ ہے کہ سعی بھی طواف کے بعد دوبارہ انجام دے ۔ اگر وقت ختم ہونے کے بعدیاد آئے مثلا عمرہ تمتع کا طواف وقوف عرفات تک بھولارہے یا حج کا طواف ماہ ذی الحجہ تمام ہونے تک یا د نہ آئے تو طواف کی قضا واجب ہے اوراحوط یہ ہے کہ سعیء بھی طواف کے بعدددوبارہ انجام دے ۔
( ۳۲۳) اگر کوئی طواف بھول جائے یہاں تک کہ وطن واپس پہنچ کر اپنی بیوی سے مجامعت کرلے تو واجب ہے کہ اگر حج کا طواف بھولا ہو تو ایک قربانی منیٰ بھیجے اوراگرعمہ کا طپواف بھولاہوتو ایک قربانی مکہ بھیجے اوردنبہ کی قربانی کافی ہے ۔
( ۳۲۴) اگر بھولا ہوا طواف اس وقت یاد آے جب خو د طواف انجام دے سکتاہو تو طواف کی قضا بجا لائے چاہے احرام اتار چکا ہو تاہم دوبارہ احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگرمکہ سے نکل جانے کے بعد یاد آئے تو مکہ میں داخل ہونے کے لیے احرم باندھنا ضروی ہے ۔سوائے ان حالتوں کے جن کا بیان مسئلہ ۱۴۱ میں ہو چکا ہے ۔
( ۳۲۵) وہ چیزیں جو محرم پر حرام تھیں اور جن کا حلال ہونا طواف پر موقوف تھا وہ طو اف بھولنے والے پر ا سوقت تک حلال نہیں ہو نگی جب تک وہ خود یا اسک نائب طواف کی قضا نہ کرے ۔
( ۳۲۶) اگر مکلف کسی بیماری ،ہڈی ٹوٹنے یا کسی اور وجہ سے خود طواف نہ کر سکتاہو اور نہ ہی کسی کی مدد سے انجام دے سکتا ہو تو واجب ہے کہ اسے طواف کروایا جائے یعنی کوئی دوسرا شخص اسے کندھوں پر اٹھاکرطواف کرائے یا کسی گاڑی وغیرہ میں بیٹھاکر طواف کراے ،احوط اولی یہ ہے کہ طواف کرتے وقت حاجی کے پاؤں زمیں کو چھو رہے ہوں ۔ اگر اس طرح سے بھی طواف کرنا ممکن نہ ہو تو واجب ہے کہ اگر نائب بنا سکتا ہوتو نائب بنائے جو اس کی جانب سے طواف کرے ۔ اگر نائب نہ بنا سکتاہو مثلا بیہوش ہو تو اسکاولی یا کوئی اور شخص اسکی جانب سے طواف کرے یہی حکم نماز طواف کا بھی ہے لہذ ااگر مکلف قدرت رکھتا ہو تو خود نماز پڑھے اور اگرخود نہ پڑھ سکتاہو تو کسی کو نائب بنائے (حائض اور نفساء کا حکم شرائط طواف میں بیان ہو چکا ہے )۔