وقوف عرفات
حج تمتع کے واجبات میں دوسرا واجب وقوف عرفات ہے ۔ جسے قربة الی اللہ اور خلوص نیت سے انجام دینا چاہیے ۔وقوف عرفات سے مراد یہ ہے کہ حاجی عرفات میں موجود ہواس سے فرق نہیں پڑتاسواری کی حالت میں ہو پیادہ ،متحرک ہو یاحالت سکون میں ۔
( ۳۶۵) میدان عرفات کی حدود عرنہ ،ثوبہ اور نمرہ کے میدان سے ذی المجاز تک اور مازین کے آخر موقف (وقوف کی جگہ )تک ہے ۔ البتہ یہ خود حدود عرفات ہیں اور وقوف کی جگہ سے خارج ہے ۔
( ۳۶۶) ظاہر یہ ہے کہ رحمت نامی پہاڑی وقوف کی جگہ میں شامل ہے لیکن پہاڑی کے دامن میں بائیں جانب قیام کرنا افضل ہے۔
( ۳۶۷) وقوف میں معتبر یہ ہے کہ وہاں سے رہنے کی نیت سے ٹھہرے پس اگر حاجی اول وقت میں وہاں ٹھہرنے کی نیت کرے مثلاآخر تک سوتا رہے یا بیہوش رہے تو یہ کافی ہے ۔لیکن اگر نیت سے پہلے سوتارہے یابہوش رہے تو وقو ف ثابت نہیں ہو گا۔اسی طرح اگر وقوف کی نیت کرکے وقوف کا پورا وقت سوتا رہے یابیہوش رہے تو اس وقوف کے کافی ہونے میں اشکا ل ہے ۔
( ۳۶۸) واجب ہے کہ نویں ذی الحجہ کوعرفات میں حاضر ہو اور بنا بر احتیاط زوالِ آفتاب کی ابتدا سے غروب تک وہاں رہے اظہر یہ ہے کہ زوال سے اتنی دیر تاخیر کرسکتاہے کہ غسل کرکے ظہر و عصر کی نماز ملا کر پڑھ لے ۔اگرچہ اس پوارے وقرت میں وہاں رہنا واجب ہے اور کوئی جان بوجھ کر چھوڑ ے تو گنہگار ہوگا مگر یہ کہ یہ رکن نہیں ہے ۔یعنی اگر وقوف کے وقت اگر کچھ مقدار چھوڑ دے تواسکاحج باطل نہیں ہو گا ۔تاہم اگرکوئی اختیار پورا وقوف چھوڑ دے تو اسکا حج باطل ہوجائے گا۔لہذا وقوف میں سے جو رکن ہے وہ فی الجملہ (یعنی کچھ مقدار قیام )رکن ہے (نہ کہ پوراوقوف)۔
( ۳۶۹) اگر کوئی شخص بھو ل کر یا لاعلمی کی وجہ سے کسی اور عذر کی وجہ سے عرفات کے اختیاری قیام (دن میں قیام )کو حاصل نہ کرسکے تو اسکے لیے وقوف اضطراری ہے ۔۔۔شب عید ضروری ہے اور اسک احج صحیحح ہوگااور اگر جان بوجھ کر وقوف اضطراری کو چھوڑ دے تو حج باطل ہو جائیگا ۔یہ حکم اس وقت ہے کہ جب اسکے لیے وقوف اضطراری کو اس طرح سے حاصل کرنا ممکن ہو کہ اس کی وجہ سے طلوع آفتاب سے پہلے وقوف معشر ختم نہ ہوتاہو ۔لیکن اگر عرفات میں وقوف اضطراری سے وقت مقررہ وقوف معشر کے ختم ہونے کا خوف ہو تو صرف وقوف معشر پر اکتفا کرناواجب ہے اور اسک احج صحیح ہو گا۔
( ۳۷۰) جاب بوجھ کر غروب آفتاب سے پہلے عرفات سے باہر جانا حرام ہے لیکن اس کی وجہ سے حج باطل نہیں ہوتاچنانچہ اگر کوئی جاکر واپس آجائے تو اسکا کفارہ واجب نہیں ہے ورنہ ایک اونٹ کفارہ واجب ہو گا ۔جسے عید دن قربان کے دن نحر کرے ۔ اہوط یہ ہے کہ اونٹ کو منی جین اربان کرے نہ کہ مکہ میں اگرقربانی کرناممکن نہ ہو تو مکہ میں یاراستے میں یاگھر واپس آکر اٹھارہ روزے رکھے ۔احوج اولی یہ ہے کہ روزے پے در پے رکھے یہی حکم اس شخص کیلیے ہے بھی ہے جہو بھول کرف یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے عرفات سے باہر نکلے ۔لہذ اجب بھی اسے یاد آئیے یا مسئلہ پتہ چلے اس پر عرفات میں واپس جابن اواجب ہے او اگر واپس نہ جائے تو احوط یہ ہے کہ کفارہ دے ۔
( ۳۷۱) چونکہ حج کے بعض اعمال مثلاوقوف عرفات و مشعر ،فمی جمرات اور منی میں رات گزارنے کے لیے دن او رات مخصوص ہیں تو مکلف کا وظیفہ یہہے کہ وہ اس مہینے کے چاندکے بارے میں تحقیق کرے تاکہ اعمال حج کو ان کے مخصوص دن یارات میں ادا کر سکے ۔جب ان مقدس مقامات کے قاضی کے نزدیک چاند ثابت ہوجائے اور وہ اسکے مطابق حکم کرے ،جب کہ چاند کا ثابت ہو ان قوقانین شرعیہ کے مطابق نہ ہو تو بعض فقہاء نی کہا ہے کہ قاضی خ ہکم اس شخص کی لیے حجت ہے افور قابل عمل ہے جسے احتما ل ہو کہ یہ حکم واقع کے مطابق ہے لہذ ااس مکلف کیلیے ضروری ہے کہ وہ اس حکم کی اتباع کرے اور چاند کے ثابت ہونے کی اثار سے مربوط حج کے اعمال مثلاوقوف عرفات و مشعراورمنی میں رات گزراناوغیرہ کو حکم کے مطابق انجام دے چنانچہ اگر اس نے حکم کے مطابق عمل کیا تو اسکا حج صحیح ہوگا ورنہ باطل ہو گا ۔ بعض فقہاء نے یہاں تک فرمایا ہے کہ تقیہ کے سبب اس وقت قاضی کی حکم کی اتباع کرنا کافی ہے جب حکم کے واقع کے مطابق ہونے کا احتمال نہ ہو لیکن چونکہ دونوں قول انتہائی مشکل ہیں لہذ ااگر مکلف کے لیے اعمال حج کو انکے شریعی طریقے سے ثابت شدہ وقت خاص میں انجام دینا ممکن ہو اوروہ انجام دے تو بنا بر اظہر اسکا حج مطلقا صحیح ہوگا ۔ لیکن اگر اعمال حج کو کسی بھی عذ ر کی وجہ سے اس طرح انجام نہ دے اور وقوفین میں قاضی کی حکم کی پیروی بھی نہ کرے تو اس کا حج باطل ہونے میں کوئے شک نہیں ہے ۔اگر قاضی کے حکم کی اتباع کرے تو اس کا حج صحیح ہونے میں اشکال ہے ۔
وقوفِ مزدلفہ (مشعر)
حج تمتع کے واجبات میں سے تیسرا واجب وقوف مزدلفہ ہے ۔ مزدلفہ اس جگہ کا نام ہے جسے مشعر الحرام کہتہے ہیں اس موقوف کی حدود مازمیں سے حیاض اوروادی مہسیرتک ہیں یہ مقامات موقوف کی حدود ہیں ۔ خود وقوف کی جگہ میں شا مل نہیں ہیں ۔سوائے اس وقت کے جب ہجوم زیادہ ہو او ر وقوف کی جگہ تنگ ہورہی ہو تو اس وقت جائز ہے کہ مازین کی طرف سے اوپر جائیں (مازمیں عرفات اور مشعر الحرام کی درمیان ایک گھاٹی کا نام ہے )۔
( ۳۷۲) حج کرنے والے پر عرفات سے نکلے کے بعد واجب ہے کہ شب عید سے صبح تک کچھ وقت مزدلفہ میں قیام کرے احوط یہ ہے کہ مزدلفہ میں طلوع آفتاب تک رہے ۔اگر چہ اظہر یہ ہے کہ مزدلفہ سے وادی مہسر جانے کے لیے طلوع سے کچھ پہلے نکلنا جائز ہے تاہم وادی مہسر سے منیٰ کی طرف طلو ع آفتاب سے پہلے جاناجائز نہیں ہے ۔
( ۳۷۳) مذکورہ تمام وقت اختیاریطو ر پر مزدلفہ میں رہنا واجب ہے ۔ مگر یہ کہ وقوف ومیں سے جو رکن ہے وہ کچھ مقدار میں ٹھہرناہے چنانچہ اگرکوئی شب عید کا کچھ حصہ مزدلفہ میں ررہے پھر وہاں سے طلوع آفتاب سے پہلے نکل جائے تو اظہر یہ ہے کہ اس کا حج صحیح ہو گا۔لیکن اگر مسئلہ جانتے ہوئے نکلے تو اس پر ایک بکری کفارہ وہوگی ۔اور مسئلہ نہ جانتے ہوئے نکلے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے ۔ اس طرح اگرطلوع فجرو طلوع آفتابکے درمیان کچھ مقدار مزدلفہ میں رہے اور کچھ مقدار نہ رہے خواہ جان بوجھ کرنہ رہاہو اس کا حج صحیح ہے اور کفارہ بھی واجب نہیں ہے اگرچہ کہ گنہگار ہوگا۔
( ۳۷۴) مزدلفہ میں وقت مقررہ میں وقوف (قیام کرنا)واجب ہے اس حکم سے بعض افراد مثلاخائف عورتیں ،بچے ،بوڑھے اورمریض جیسے کمزورلوگ اور وہ لوگ جو ان افرادکے امور کی سرپرستی کرتے ہوں مستثنیٰ ہیں لہذ ا ان افراد کے لیے شب عید مزدلفہ میں رہنے کے بعد طلوع فجر سے پہلے منی کے لیے روانہ ہو نا جائز ہے۔
( ۳۷۵) وقوف مزدلفہ کے لیے قصد قربت اور خلوص نیت معتبرہیں یہ بھی معتبر ہے کہ ارادے و اختیارسے وہاں رہے جیسا کہ وقوف عرفات میں بیان ہو چکا ہے
۔( ۳۷۶) جو شخص مزدلفہ میں وقوف اختیاری (شب عید سے طلوع آفتاب تک رہنا )بھولنے یا کسی اور وجہ سے حاصل نہ کرسکے تو وقوف اضطراری عید کے دن طلوع آفتاب سے زوال کے درمیان کچھ دیروہاں رہنا کافی ہو گا۔اگر کوئی وقوف اضطراری کو جان بوچھ کردے تو اس کا حج باطل ہو گا
دونوں یا کسی ایک وقوف کو حا صل کر نا
پہلے بیان ہو چکا ہے لہ وقوف اور وقوف مزدلفہ میں سے ہر ایک کی دو قسیں ہیں وقوف اختیاری اور وقوف اضطراری اگر مکلف دونمو وقوف اختیاری حاصل کرے تب رو کوہی اشکال نہیں ہے اور اگر وقوف احتیاری کسی عزر کی وجاہ سے حاصل نہ کر دکے تو اس کی چند صورتیں ہیں
۱ ۔ دونوں وقوف کے اخریاری و اضطراری میں سے کوئی حاصل نہ ہو تو حج واطل یوگا اور واجب ہے لہ اس حج لے احرام سے عمرہ مفردہ انجام ،دیا جاہے اگر یہ حج حج الاسلام تھا رو واجب ہے کہ اگر استطاعت باقی ہو یاحج اس کے ذمہ ثابت و واجب ہو چکا ہو تو آہندہ سال دوبرہ حج کرے
۲ عرفات جا وقوف اختیاری اور مزدلفہ کا وقوف اضطراتی حاصل ہو
۳ ۔عت فات کا وقوف اضطراتی اور مزدلفہ لا ورف اختیاری حا صل ہو درج والا دونوں صورتوں میں بلا اشکال حج صحیح ہے
۴ عرفات کا وقوف اضطراری حاصل ہوں تو اظہر یہ ہے لہ حج صحیح ہے اگر چہ احوط طج ہے لہ اگلے سال دوبرہ حج لیا جاے جیسا کہ پہلی صورت میں ذلر ہوا
۵ ۔ صرف مزدلفہ دوونں کے وقوف اضطرارے حصال ہو تو حج صحیح ہے
۶ ۔ صرف مزدلفہ کا وقوف اضطراری حاصل تو اظہر ین ہے کہ حج باطل ہو جاے گا اور عمرہ مفردہ میں تبدیل ہو جاے گا
۷ ۔ صرف عتفات کا وقوف اختیاری حاصل ہر تو اظوہر یہ ہے کہ حج باطل ہو جاے گا اور عمرہ مفردہ میں تبودیل ہو جاے گا اس حکم سے یہ موتد مستثنی ہے لہ جب حاجی مزدلفہ کے وقت اختیاری میں منی جاتے ہوے مزدلفہ سے گزتے لیکن مسلہ نہ جانے کی وجہ سے وہاں قیام کی نیت نہ کرے تو اگر وہاں سے گزرتے ہوے یزلر خدا کیا ہو تو بعید نہیں ہء کہ اس کا حج صحیح ہو
۸ ۔ صرف عففات کا وقوف اصطراری حاصل ہو ا ہو تو اس کا حج بواطل ہو گا الور عمرہ مفردہ میں تبدیل ہو جاہے گا