منی اور اس کے واجبات
حاجی پر واجب ہے لہ وقوف مزدلکہ کے وعد منی جانےء کے لیے نکلے تاکہ وہ اعمال جو منیٰ میں واجب ہیں انہیں انجام دے سکے اور یہ تین اعمال ہیں جنکی تفصیل درج ذیال ہے
رمی جمراہ عقبہ(جمرہ عقبہ کو کنکر مارنا)
واجبات حج میں سے چوتھاواجب عید قربان کے دن جمرہ عقبہ کو کنکر مارن اہے اس میں چنبد چیزیں معتبرہیں ۔
۱ ۔قصدقربت اورخلوص نیت ۔
۲ ۔رمی سات کنکرں سے ہو ،اس سے کم کافی نہیں اسی طرح کنکروں کے علاوہ کسی ور چیز سے مارناکافی نہیں ہے ۔
۳ ۔ایک ایک کر کے سا ت کنکرمارے جائیں چنانچہ ایک ہی مرتبہ میں دویازیادہ کنکر مارناکافی نہیں ہے ۔
۴ ۔جو کنکر جمرہ تک پہنچے وہ ی شمار ہوگا چنانچہ جو کنکر جمرہ تج نہ پہنچے وہ شمار نہیں ہو گا۔
۵ ۔کنکر پھینکنے کی وجہ سے جمرہ تک پہنچے ،چنانچہ جمرہ پر رکھ دینا کافی نہیں ہے ۔
۶ ۔کنکر کو پھیکنا اور جمرہ تک پہنچنا ہاجی کے پھینکنے کی وجہ سے ہو چنانچہ اگر کنکر حاجی کے ہاتھ میں اور حیوان یا کسی ور انسان کے ٹکرانے کی وجہ سے کنکر جمرہ کو لگ جائیے تو یہکافی نہیں ہے اسی طرح اگر حاجی کنکر پھینکے اور وہ حیوان یا کسی انسانپر جاکرے اوراس کے حرکت کرنے کے وجہ سے جمرہ کو لگ جائے تو کافی نہیں ہے ۔ لیکن کنکر اپنے راستے میں کسی چیز کو لگ کر پھر جمرہ کو لگے مثلا کنکر سخت زمیں کو لگ کر پھر جمرہ کو لگے تو ظاہر یہ ہے کہ یہ کافی ہے ۔
۷ ۔رمی ہاتھ سے کرے پس اگر منہ سے یاپاؤں سے کرے تو کافی نہیں ہے اسی طرح ہوط یہ ہے جہ کسی آلے سے مثلا غلیل وغیرہ کے ذریعے سے رمی کرنا کافی نہیں ہے ۔
۸ ۔رمی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب ک درمیان ہو ،تاہم عورتیں او وہ تمام افراد جن کے لیے مشعر سے رات نکلنا جائیز ہے شب عید رمی کر سکتے ہیں ۔
( ۳۷۷) کنکروں میں دو چیزیں معتبر ہیں ۔
۱ ۔اگرکسی کو کنکر لگنے میں شک ہو تو وہ سمجھے کہ نہیچ لگا سوائے اس کے کہ شک موقع گزرنے ک بعد ہو مثلا قربانی کے بعد یا حلق کے بعد یا رات شروع ہونے کے بعد شک ہو ۔
( ۳۷۸) کنکروں میں دو چیزیں معتبر ہیں ۔
۱ ۔کنکروں کو حرم کی حدود سے سوائے مسجدالحرام اور مسجد الخیف کے اٹھائیں جائیں افضل یہ ہیں کہ مشعر سے اٹھا یا جائے ۔
۲ ۔ نابر احتیاط کنکر پہلے سے استعمال شدہ نہ ہوں یعنی کنکروں کو پہلے رمی کے لے یا استعمال نہ کیا گیاہومستحب ہے کہ کنکر رنگدار ،نقطہ دار اور نرم ہوں نیز حم کی لاحاظ سے انگی کے پور کے برابر ہوں جسے رمی کر نے والا کثڑا ہو کر اور ب اطہارت ہو کر م کرے
۳۷۹ ۔ اگر جمرہ کی لمبا ئی کو بڑھایا جائے اور اس زائد مقدار پر رمی کے کافی ہونے میں اشکال ہے احوط یہ ہے کہ جمرہ کی پہلے ہو مقدار تھی اسی پر رمی کی جائے اگر پرانی مقدار پر رمی کرنا ممکن نہ ہو تو خود زائد مقدار پر رمی کی جائے اور پرانی مقدپر پر لومی کرنے کے لئے کسی کو ن بھی بنانا جائے اس مسئلہ میں مسئلہ جاننے اور نہ جاننے والے اور بثول جانے والے مکیں فرق نہیں ہے
۳۸۰ ۔ اگر کوئی بھولنے یا مسئلہ نہ جاننے یا کسی اور وجہ سذے عید کے دن رمی یہ کرے تو جب یاد آئے یا عذر دور ہو جائے تو رمی انجام دے اگر یہ عذر رات میں دور ہو تو ضروری ہے کہ دن تک تاخیر کرے جس جس کا بیجن جمروں کی رمی کی بحث میں آئے گا ظاہر یہ ہے کہ عذر دور ہونے کے بعد جبران کرنا اسوقت واجب ہے جب حا جی منی میں بلکہ مکہ میں ہو حتی کہ اگر عذر وسبب تیرہویں ذی الحجہ کے بعد دورہو اگر چہ احوط یہ ہے کہ اس صورت میں رمی جکو آئندہ سال خود یا نائب کے ذریعے دوبرہ انجام دے اگر مکہ دے نکلنے کے بعد عذر زائل ہو تو مکہ واپس جانا واجب نہیں ہے بلکہ احوط اولَی یہ ہے کہ آئندہ سال خود یا نا ئب کے ذریعے رمی انجام دے
۳۸۱ ۔اگر کوئی بھول جانے جا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے عید کے دن رمی نہ کرے پھر اسے طواف کے بعدیاد آئے یا مسلہ پتہ چلے اور وہ رمی انجام دے تو دوبرہ طواف کرنا واجب نہیں ہے تاہم احتیاط یہ ہے کہ اسے دوبارہ انجام دے اور اگر رمی کو بھولنے یا مسلہ نہ جاننے کے علاوہ کسی اور وجہ دے چھوڑا ہو تو ظاہر یہ ہے کہ اس کا طواف باطل ہو گا لہذا رمی لرنے کے بعد طواف کو دوبارہ انجام دینا واجب ہے
منی میں قربانی
قربانی کرنا حج تمتع کے واجبات میں سے پانچواں واجب ہے اس میں قصد قربت اور خلوص معتبرہے قربانی یوم عید سے پہلَے نہ لرے سوائے اس شخص کے جسے خوف ہو چنا چہ خائف شخص کیَلئے شب عید قربانی کرنا جائز ہے احتیاطی کی بانئگ رپ قربانی رمی کی بعد کرنا واجہب ہے لیکنا گر کوئی بھول کر ای مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے قربانی رمی سے پہلے کرے تو اس کی قربانی صحیح ہو گیا ور دوبارہ کرنا ضروری نہیں ہے واجہ ہے کہ قربانی منی میں ہو تاہما گر حاجیوں کے زایدہ ہونیا ور جگہ کم ہونے کی وجہ سے منی میں قربانی کرنا ممکن نہ ہو توبعید نہیں ہے کہ وادی محسر میں قربانی کرنا جائز ہو اگرچہ احوط یہ ہے کہ ایام تشریق ( ۱۱’۱۲‘۱۳ ذی الحجہ ) کے آخر تک منی میں قربانی نہ کر سکنے کا جب تک یقین نہ ہو اس وقت تک وادی محسر میں قربابی نہ کی جائے ۔
۳۸۲ ۔ احتیاط یہ ہہے کہ قربانی عید قربان کے دن ہو اگرچہا قوای یہ ہے کہ قربانی کو ایام تشریق کے آخر تک تاخیر کرنا جائز ہے احتیاط یہ ہے کہر ات حتی کہ ایام تشریق کے آخر تک تاخیر کرنا جائز ہے احتیاط یہ ہے کہ رات حتی کہ ایام تشریق کی درماینی راتوں میں بھی قربانی نہ کی جائے سوائے اس شخص کے جسے خوف ہو ۔
۳۸۳ ۔ اگر مستقل طور پر قربانی کرنے رپ قدر ہو تو ایک قربانی ایک شخص سے کفایت کرے گی اور اگر اکیلا شخص قربانی پر قادر نہ ہو تو اس کا حکم مسئلہ ۳۹۶ میں آئے گا ۔
( ۳۸۴) ۔ واجب ہے کہ قربانی کا جانور اونٹ گائے یا بکری وغیرہ ہو اونٹ کا فی ہو گا جب وہ پانچ سال مکمل کرکے چھٹے سال داخل ہو چکاہو ،گاے اوربکری بنا بر احوط اس وقت کافی ہوں گے جب دو سال مکمل کرکے تیسرے سال میں داخل ہوچکے ہوں اوردنبہ اس وقت کافی ہوگا جب سات مہینے پورے کر کے آٹھویں مہینے میں ڈاخل ہو جائے ۔اگر قربانی ککرنے کے بعد پتہ چلے کہ جانور مقررہ عمر سے چھوٹاتھا تو کافی نییں ہوگا اور قرابنی دوبارہ کرنی پڑے گی قربانی کے جانور کا سالم الاعضا ہونا مرتتبر ہجیے چنانچہ کانا لنگڑ ا،کان کٹآ یا اند دسے سینگ ٹؤٹا ہواہو تو کافی نیں یے اپہجر جج ہظ ہخصجی جانوربھی کافی نہیں ہے ،سوائے اس کے کہ غیر خصی جانور نہ مل رہاہو معتبر ہے کہ جانور عرفا کمزور نہ ہو اور ا حوط اولی یہ ہہے کہ مریض یا ایسا جانور جسکے بیضتیں (انڈے )کی رگیں یا خو ر بیضتیں دبائے ہوئے نہہوں ۔اتنا بوڑھا بھی نہ ہو کہ اسکا بھیجا ہینہ ہو للیکن اگر اسکے کاب چیر ے ہوئے یئا سوراخ والے ہوں تو کوئے حرج نہیں ہے ۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ یہ بھی سالم ہو ۔ احوط اوللی یہ ہے کہ قربانی کا جانور پیدائشی طور پر سینگ و بغیر دم والا نہو ۔
( ۳۸۵) اگر کوئی قربانی کا جانور صیح وسالم سمجھ کر خریدے اور قمیت دینے کے بعرد عیب دار ثابت ہو تو طاہر ہے کہ اس جانورکو کافی سمجھنا جائز ہے ۔
( ۳۸۶) اگر قربانی کے دنوں (عید کا دن اور ایام تشریق )میں شرائط ولاکوئیے جانور (مثلا اونٹ گائے و بکری وغیرہ )نہ ملے تو احوط یہ ہے کہ جمع کرے یعنی جانور مل رہاہو اسے ذبح کرے اور قربانی کی بدلے روزے بھی رکھے یہی حکم اس وقت بھی ہے جب اس کے پاس فاقد الشرائط جانور(جسمیں پور شرائط نہ پائی جائیں ) کے پیسے ہوں ۔اگر باقی ماہ ذی الحجہ میں شرائط والا جانور ممکن ہو تو احوط یہ ہے کہ دو چیزوں (فاقد الشرائط جانور کی قربانی کے بدلے روزے )کے ساتھ اس کو ملائے ۔
( ۳۸۷) اگر جانور کو موٹا سمجھ کر خرید اجائی اور بعدمیں وہ کمزور نکلے تو یہی جانور کافی ہے خواہ قربانی سے پہلے پتہ جَے یا بعدمیں لیکن اگر خود اسکے پاس مثلا دنبہ ہو اور اس گمان سے یہ موٹا ہے ذبح کری مگر بعد میں پتہ چلے کہ وہ کمزور تھا تو احوط یہ ہے یہ قربانی کافی نہیں ہوگی ۔
( ۳۸۸) اگر جانور ذبح کرنے کے بعد شک ہو کہ جانور شرائط والاتھا یا نہیں تو اسکا شک کی پرواہ نہ کی جائے اگر ذبح کے بعد شک ہوکہ قربانی منی میں کی ہے یا کسی ارو جگہ تو اس جگہ تو اسکا بھی یہیحکم ہے لیکن اگرخود ذبح کرنے میں شک ہو کہ ذبح کیا بھی تھ اکہ نہیں تو اگر موقع گزرنے کے بعد حلق یاتقصیر کے بعد شک ہو تو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے اگر موقع گزرنے سے پہلے ہی شک ہو تو قربانی کرنی ہو گی ۔اگرجانور کے کمزور ہونے کے بارے میں شک ہواورقصد قربت کے ساتھ ا س امید پر کہ جانور ذبح کی اجائے کہ کمزور نہیں ہے اور ذبح کرنے کے بعد پتہ چلے کہ واقعی کمزور نہیں تھا تو ایہ قربانی کافی ہوگی ۔
( ۳۸۹) اگر کوئی حج تمتع کی قربانی کی لیے صحیح جانور خریدے اور خریدنے کی بعد مریض یاعیب دار ہوجائے یا کوئے عض و ٹوٹ جائے تو اس جانور کا کا فی ہو نا مشکل ہے بلکہ اس پر اکتفا کرنا صحیح نہیں ہے احوط یہ ہے ہ جانور ک وبھی ذبح کرے ور اگر اسے بیچ دے تو اسکی قمیمت کو صدقہ کردے ۔
( ۳۹۰) اگر قربانی کے لیے خریداگیا جانور گم ہوجائے او رنہ ملے نیز اور پتہ نہ چلے کہ کسی نے اس جانب سے قربانی تو واجب ہے کہ دوسراجانور خریدے ۔اور دوسر جانورذبح کرنے سی پہلے ،پہلاجامور مل جائے تو پہلے جانور کو ذبح کیاجائے ور دوسرے میں اختیار ہے چاہے ذبح کری یا نہ کرے ار وہ اس کے دوسرے اموال کی طرح ہے ،تاہم احوط اولی یہ ہی کہ اسے بھی ذبح کرے ۔اگر پہلا جامور دوسرے کو ذبح کرنے کے بعد ملے تواحوط یہ ہے پہلے والے جانور کو بھی ذبح کرے ۔
( ۳۹۱) اگرکسی کو دبنہ ملے اور وہ جانتا ہو کہ یہ قربانی کے لیے ہے افر اسکی مالک سے گم ہو گی اہے رو اسکے لہایئزہ ہز کہ اسک ے مالک کی جانب سے اسے ذبح کردے اگری اسجانور کے مالک کو اس قربانی کا علم ہوجائے تو وہ اس کو کافی سمجھ سکتاہے ۔جس کوجانور ملا ہو اسکے لیے احوط یہ ہةے کہ وہ اسے ذبح کرنے سے پئہلے بارھیوں ذی الحجہ کی عصر تک اعلان کرے ۔
( ۳۹۲) وہ شخص جسے قربان ی کے ایام میں اجنور نہ ملے جبکہ اسکی قیمت موجود ہو تو احوط یہ ہے کہ قربانی کے بدلے میں روزے بھی رکھے اور اگر ممکن ہو تو ماہ ذی الحجہ میں قربانی بھی کرے ،چاہے اس کے لیے کسی قابل اطمیں ان شخص کو پیسے دینے پریں کہ وہ آخر ذی الحجہ تج جانور خریدکر اس کی جانب سے قربانی کردے ور اگر ذی الحجہ تمام ہوجائے اور جانور نہ ملے تو اگلے سال اس کی جانب سے قربانی کرے ۔تاہم بیعید نہیں ہے کہ کہ صرف روسزوں پر اکتفا کرنا جائز ہو اور ایام تشریق گزرنے کے بعد قربانی ساقط ہو جائے ۔
( ۳۹۳) اگر کوئی شخص قربانی کا جانور ہاصل نہ کس سکتاہو اور نہج ہی اسکی قیمت رکھتا ہو تو قربانی کی بدلے میں دس روزے رکھے انمیں سے تین ذی الحجہ میں بنابر احوط ۷،۸،۹ کو رکھے اور اس سے پہلے نہ رکھے اور باقی سات روزے اپنے وطن واپس جانے کے بعد رکھے ۔مکہ میں یا راتسے میں رکھناکافی نہیں اگر مکہ میں واپس نہ جائے مکج میں ہی قیاام کرے رف اسے جاہے کہ اتنا صبر کرے کہ سک ے ساتھی اپطنے شہر پہنچ جائیں یا ماہ ذی الحجہ تمام ہوجائے پھر یہ روزے رکھھے پہلے تین روزے پے در پے رکھن امعتبر ہے جبکہ باقی سات میں معتبر نہیں ہے اگرچہ احوط ہے کہ اسی طرح پہلے تین روزوں میں یہ مبھی مرعتبر ہے کہ عمرہ تمتع کا احرام باندھے کے نعد رکھے ،چنانچہ اگر احرام سے پہلے روزے رکھے تو کافی نہیں ہوہ ں گے ۔
( ۳۹۴) وہ مکلف جس پر دوران حج تین دن روزے رکھنا واجب ہو اگر تینوں روزی عید سے پہلے نہ رکھ سکی تو بنا بر احتیاط ۹ ۸ اور ۹ اور ایک دن منیس ے واپس آ کر روزہ رکھنا کافی نہیں ہو گا فضل یہ ہے کہ وہ ان روزوں کو ایام تشریق ختم ہونے کے بعد شروع کرے اگرچہ اس کیلئے اجئز ہے کہا گر وہ تیرھویں ذیل اہچہ سے پہلے منی سے واپس آ جائے تو تیرھویں ذی الحجہ سے شروع کرے بلکہ ا ظہر یہ ہے کہ اگر منی سے تیرھیوں ذی لاحجہ کو بھی آئے تب بھی شروع کر سکتا ہے
احوط اولی یہ ہے کہ ایام تشریق کے بعد فوراََ روزے رکھے اور بغیر عذر کے تاخیر نہ کرے اگر منی سے واپس آنے کے بعد روزے نہ رکھ سکتا ہو تو راستے میں ای اپنے وطن پہنچ کر روزے رھکے لین احوط اولی یہ ہے کہ ان تین روزوں اور سات روزوںٰ جو اس نے وطن واپس آ کر رکھنا ہے کو جمع نہ کرے اگر محرم کا چاند نظر آں ے تک یہ تین روزے نہ رکھ سکے تو پھر روزی ساقط ہو جائیں گے اور آئندہ سال قربانی کرنا معین ہو جائے گا
۳۹۵ ۔ جس کیلئے قربانی کرنا ممکن نہ ہو اور نہ ہیا س کے اپس قربانی کیلئے پیسے موجود ہوں اور حج میں تین روزے رکھے اور قیام قربانی گزرنے سے پہلے قربانی کرنے پر قادر ہو جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ قربانی کرے
۳۹۶ ۔ اگر اکیلے قربانی کرنے پر قادر نہ ہو لیکن کسی کے ساتھ مل کر قربانی کر سکتا ہو تو احوط یہ ہے کہ کسی کے ساتھ مل کر قربانی بھی کریا ور مذکورہ تریب کے مطابق روزی بھی رکھے ۔
۳۹۷ ۔ اگر جانور ذبح کرنے کیلئے کسی کو نائب بنایا جائیا ور شک ہو کفہ نائب نے اس کی جانب سے قربانی کی ہے یا نہیں تو یہی سمجھاجائے کہ قربانی نہیں کی اور اگر نائب خبر دے کہ قربانی کر دے ہے لیکن اطمیں ان نہ آئے تو اکتفا کرنا مشکل ہے
۳۹۸ ۔ جو شرائط قربانی کے جانور میں معتبر ہیں وہ کفارے کے جانور میں معتبر ہوں
۳۹۹ ۔ ذبح یا نحرجو واجب ہے چاہے حج کی قربانی ہو یا کفار اس میں خود ذبح یا نحر کرنا معتبر نہیں ہے بلکہ اختیار حالت میں بھی کسی دوسرے کو نائب بنانا جائز ہے تاہم ضروری ہے کہ ذبح کی نیت نائب کرے اور قربانی کرنے والے پر نیت کرنا شرط نہیں ہیا گر چح احوط ہے کہ وہ بھی نیت کرے نائب کیلئے مسلمانوں ہونا ضروری ہے
حج تمتع کی قربانی کا مصرف
احوط اولی یہ ہے کہ نقصان دہ نہ ہونے کی صورت میں حج تمتع کرنے والا اپنی قربانی کی کچھ مقدار کھائے چاہے کم مقدار ہی کائے قربانی اک ایک تہائی حصہ اپنے یا اپنے گھر والون کیلئے مخصوص کرنا جائز ہے اسی طرح جائز ہے کہا س کے دوسرے ایک تہائی حصے کو جس مسلمان کو چاہے ہدیہ دے اور تسیرا تہائی حصہ احتیاط واج کی بناء پر مسلمان فقراء کو صدقہ دے اگر صدقہ دینا ممکن نہ ہو یا زیادہ زحمت و مشقت کا سبب ہو تو صدقہ دینا ساقط ہو جائے گا یہ واجب نہیں ہے کہ قربانی کا گوشت خود فقیر ہی کو دیا جائے بلکہ اس کے وکیل کو بھی دیا جا سکتا ہے چاہے قربانی کرنے والا فقیر کا وکیل ہی ہو وکیل اپنے موکل کی اجازت سے اس گوشت میں تصرف مژلاھبہ فروخت یا واپس کر سکتا ہے اگر منی میں موجود افراد میں سے کسی وک گوشت کی ضرورت نہ ہو تو گوشت کو منی سے باہر لے جانے جائز ہے
۴۰۰ ۔ وہ تہائی حصہ جو صدقہ دے رہا ہو اور وہ تہائی حصہ جو ھدیہ دے رہا ہو انہیں جدا کرنا شرط نہیں ہے بلکہ صرف وصول شرط ہے چنانچہ اگر تہائی مشاع کو صدقہ کرے اور فقیر وصول کر لے خواہ پورے جانور کو قبضے میں لینے کی وجہ سے تو یہ کافی ہے اور تہائی ھدیہ کی صورت بھی یہی ہے
۴۰۱ ۔ صدقہ و ھدیہ کو قبضے میں لینے والوں کیلئے جائز ہے کہ ہ اس حصے میں جس طرح سے جاہیں تصرف کریں لہذا وہ اسے کسی غیر مسلم کو بھی دے سکتے ہیں
۴۰۲ ۔ اگر کوئی جانور کی قربانی کرے اور بعد میں وہ چوری ہو جائے یا کوئی زبردستی اس سے چھین لے تو قربانی کرنے والا ضامن نہیں ہے لیکن اگر مالک خود اسے چھین لے تو قربانی کرنے والا ضامن نہیں ہے لیکن اگر مالک خود اسے ضائع کر دے چاہے غیر مستحق کو دینے کی وجہ سے تو احوط یہ ہے کہ فقراء کے حصے کا ضامن ہو گا۔
حلق یا تقصیر
حج کے واجبات میں سے چھٹا واجب حلق ٰ یعنی سر مونڈنا یا تقصیر ٰیعنی کچھ بال کاٹنا ہے اس میں قصد قربت اور اخلاص معتبر ہے اس عمل کی عید کے دن سے پہلے حتی کہ شب عی میں بھی انجام دینا جائز نہیں ہے سوائے اس شخص کے جسے خوف ہو لہذاس کے لئیے احوط یہ ہے کہ حمرہ عقبہ کی رمی اور قربانی کے جانور کے حصول کے بعد انجام دے احوط اولی یہ ہے کہ ذبح و نحر کے بعد انجام دے البتہ عید قربانی کے دن کے وقت سیآ گے تاخیر نہ کی جائیا گر رمی سے پہلے یا قربانی کا جانور حاصل کرنے سے پہلے بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے حلق یا تقصیر انجام دے تو کافی ہو گا اور دوبار انجام دینا ضروری نہیں ہے
۴۰۳ ۔ مرد کو حلقو تقصیر میں اختیار ہے البتہ حلق افضل ہے سوائے اس شخص کے کہ جس نے جوؤں سے بچنے کی خاطر شہد یا گوند سے سر کے بالوں کو چپکا یا ہو یا جس نے سر کے بالوں کو جمع کرکے باندھ کر لپیٹا ہوا ہو یا ضرورہ ٰ پہلی مرتبہ حج پر جانے والا ہو تو ان کیلئے احتیاط واجہ یہ ہے کہ یہ حلق کو اختیار کریں
۴۰۵ ۔ جو شخص حلق کرنا چاہتا ہو اور جانتا ہو کہ حجام اس کا سر سے حلق کر ائے بلکہ انتہائی باریک مشین سے سر مونڈوانٰے یا اگر اسے ہقل و تقصیر میں اختیار ہو تو پہلے تقصیر کرائے اور پھر اگر چاہے تو استرے سے سر مونڈوائے اگر اس بیان شد حکم کی مخالفت کرے تو بھی کفایت کرے گا اگرچہ گنہگار ہو گا
۴۰۶ ۔ حنشی مشکلہ نے اگر نہ اپنے بالوں کو چپکایا ہو نہ الجھا کر باندھا ہو یا اس کا پہلا سال نہ ہو تو اس پر تقصیر واجب ہے ورنہ پہلے تقصیر کرے اور احوط یہ ہے کہا س کے بعد حلق بھی کرے
۴۰۷ ۔ جب محرم حلق یا تقصیر انجام دیتو وہ چیزیں جو احرام کیوجہ سے حرام ہوئی تھیں حلال ہو جائیں گی سوائے بیوی خوشبو اور بنا بر احوط شکار کے ظاہر یہ ہے کہ حلق و تقصیر کے بعد بیوی جو حرام ہے تو صرف جماع حرام نہیں ہے بلکہ باقی تمام لذتیں بھی حرام ہیں جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھیں البتہ اقوی یہ ہے کہ تقصیر یا حلق کے بعد کسی عورت سے عقد نکاح پڑھنا یا نکاح جپر گواہ بنا جائز ہے
۴۰۸ ۔ واجب ہے کہ حلق و تقصیر منی میں ہو اور اگر حاجی جان بوجھ کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے منی میں انجام نہ دے اور باہر چلا جائے تو اس پر واجب ہے کہ منی واپس جائے اور وہاں ہقل یا تقصیر انجام دے بنا بر احواط بھولنے والے کا بھی یہی حکم ہے اگر واپس جانا ممکن نہ ہو یا بہت مشکل ہو تو جہاں موجود ہو وہیں پر حلق یا تقصیر انجام دے اور اپنے بال ممکن ہو تو منی بھیجے جو شخض جان بوجھ کر منی کے علاوہ کسی اور جگہ حلق یا تقصیر انجام دے تو یہ کافی ہو گا لیکن اگر ممکن ہو تو واجہ ہے کہ اپنی بال منی بھیجے
۴۰۹ ۔ اگر کوئی بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے حلق یا تقصیر انجام نہ دے اور اعمال حج سے فارغ ہونے کے بعد آئے یا مسئلہ پتہ چلے تو حلق یا تقصیر انجام دے اظہر یہ ہے کہ طواف و سعی کو دوبارہ کرنا ضروری نہیں ہے اگرچہ احوط ہے ۔