علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر0%

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 147

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: صفحے: 147
مشاہدے: 50978
ڈاؤنلوڈ: 5672

تبصرے:

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 147 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50978 / ڈاؤنلوڈ: 5672
سائز سائز سائز
علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سے نہ صرف اہمیت وعظمت واضح ہوجاتی ہے بلکہ قرآن کی تلاوت کے فوائد اورنتائج سے دنیا اورآخرت میں مستفیض ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔

ب: تلاوت کلام پاک سنت کی روشنی میں :

ہماری گفتگو زیادہ تھکا دینے والی اور لمبی نہ ہو جائے اس لئے صرف چند ایک روایات اوراحادیث کی طرف فقط اشارہ کرنے پر اکتفاکروںگا اگر کوئی تفصیلی معلومات کے خواہاں کا تو کتب ذیل کی طرف رجوع کرسکتاہے۔ ( 1)

حضرت امام جعفر صادق -نے فرما یا :

''علیکم تلاوة القرآن فان درجات الجنة علی عدد آیات القرآن فاذاکان یوم القیامة یقال لقاری القرآن واقراء وارق فکما قراآیة رقی درجة '' ''تم قرآن کی تلاوت کرو کیونکہ جنت کے درجات قرآنی آیات کی تعداد کے برابر ہیں جب قیامت بر پا ہوگی تو کلام پاک کی تلاوت کرنے والے سے کہا جائے گا پڑھو اوراپنے درجات میں اضافہ کرتے جاؤ لہذاجب وہ ایک آیت کی تلاوت کرتا ہے تو اسکا ایک درجہ بلند ہوتا ہے ۔! (2)

.............................

(1) بحارالانوار کتاب قرآن ،اوراصول کافی ج 2باب فضل القرآن

(2)البیان ص 34

۱۲۱

نیز حضرت پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا :

''من قرا من کتاب الله تعالی فله حسنة والحسنة عشر امثالها لا اقول'' الم ''حرف ولیکن الف حرف لام حرف ومیم حرف '' ''اگر کوئی کتاب اللہ کی ایک حرف کی تلاوت کرے تو اسے ایک نیکی کاثواب دیا جاتا ہے اورنیکی کا دس ثواب ہواکرتا ہے ،میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے ۔ (1) ۔

تفسیر وتحلیل :

قلت وقت کی وجہ سے قارئین محترم کی توجہ کو تلاوت کی اہمیت پر دلالت کرنے والی آیات اوراحادیث کے بارئے میںمفصل کتابوں کی طرف مبذول کرتا ہوںرجوع کیجیے ،تاکہ تلاوت کلام پاک کی اہمیت اورعظمت سے آگاہ ہوسکیں ۔

مذید روایات کے متعلق تفسیر درمنثور،تفسیر قرطبی کی طرف رجوع کریں مذکورہ روایات کا مقصد قرآن کی تلاوت کی عظمت کو بیان کرنا ہے ،حتی بعض روایات میںصاف لفظوں میںبیان ہوا ہے کہ جب قاری قرآن کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو نکیر ومنکر جو اللہ کی طرف سے میت کو قبر میں رکھنے کے بعد سولات کے لئے مامور ہیںپوچھنے کے لئے آتے

.............................

(1) اصول کافی ج 2باب فضل القرآن

۱۲۲

ہیں اورسولات کے وقت سختی سے پیش آئیںگے اس وقت یہی قرآن ہے جس کی اس نے تلاوت کی تھی نکیر ومنکر سے سفارش کرتا ہے اورکہتا ہے کہ تم اس پر سختی نہ کرو یہ وہی شخص ہے جس نے میری تلاوت کی ہے (1)

لہذاقرآن قبر میں ہمارئے شفیع قیامت کے ہولناک سختیوں کے وقت نور کی شکل میں ہماری سفارش کے لئے آنی والی واحد کتاب ہے جسکی ہر وقت تلاوت کرنا چاہیے تبھی تو احادیث معصومین میں اس شخص کی مذمت کی گئی ہے کہ جس کے گھر میںقرآن ہو لیکن اس کی تلاوت نہ ہوتی ہو ۔

قرآن فہمی کے لئے درج ذیل علوم کی ضرورت ہے:

الف : علم تجوید : علم تجوید وہ علم ہے جس میں ایسے قوانین اورقاعدہ کلیہ سے بحث کی گئی ہے کہ جس سے قرآن کے الفاظ کے صحیح تلفظ اورصحیح مخارج کی ادائی گی کی مدد ملتی ہے ،اس کے علاوہ آواز کی خوبصورتی کی مشق بھی کرائی جاتی ہے تاکہ قرآن کی تلاوت کو خوبصورت آواز میںتلاوت کرسکے ۔

ب: علم اللغۃ : جس میںقرآن کے ہر الفاظ کے لغوی اور اصطلاحی معانی سے اگاہ کیاجاتا ہے تاکہ ہم قرآن کو سمجھ سکیں ۔

.............................

(1)ثواب الاعمال وعقابہا

۱۲۳

ج : علم الادب : جس میں نحو وصرف کے قوانین اورفارمولوں سے آگاہ کیاجاتاہے تاکہ قرآن جس پاک اوربلند اہداف اورمقاصدکے لئے نازل ہوا ہے وہ آسانی سے معاشرے میں پیش کرسکیں ۔

د: تفسیر : جس میں آیات اورروایات عقل اوردیگر علوم کے اصول وقوانین کے آیات کی شان نزول اور الفاظ کے ظاہری اورباطنی معانی کی وضاحت کی جاتی ہے تاکہ قرآن کے حقائق سے ہر ایک فیضیاب ہوسکے۔

اوراسی طرح ایسے علوم کو بھی فہم قرآن کے لئے سیکھنا چاہیے کہ جن کو علوم آلی یاخادم العلوم سے تعبیرکیا گیا ہے جیسے ، المنطق ،یاحکمت وغیرہ۔

یہ علوم قرآن فہمی کی راہ میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ،لہذامدارس دینیہ اورحوزات میںجسطرح ایسے علوم کو بنیادی طورپریادکیا جاتا ہے اس طرح دیگرتمام اسلامی مراکز میں بھی ترویج کرناچاہیے تاکہ قرآن کے پیغام سے تمام مسلمان حضرات معاشرتی اور انفرادی زندگی میں فیضیاب ہوسکیں ۔

۱۲۴

عظمت قرآن نظم کی صورت میں:

قرآن رب کی خاص عنایت کا نام ہے

قرآن نظم وضبط شریعت کا نام ہے

قرآن ایک زندہ حقیقت کا نام ہے

قرآن زندگی کی ضرورت کا نام ہے

قرآن اک کتاب الہی جہاں میں ہے

قرآن کے بغیر تباہی جہاں میںہے

قرآن کردگار کی رحمت کا نام ہے

قرآن ذوالجلال کی عظمت کا نام ہے

قرآن اہل بیت رسالت کا نام ہے

قرآن ہی تو مقصدبعثت کا نام ہے

۱۲۵

نازل کیا ہے اس کو خدائے جلیل نے

پہنچایاہے رسول تلک جبرئیل نے

قرآن انبیاء کی کہانی کا نام ہے

قرآن لامکاںکی نشانی کانام ہے

قرآن دین حق کی روانی کانام ہے

قرآن مصطفی کی جوانی کا نام ہے

قرآن کے علم کی نہیںحد بے پناہ ہے

قرآن اک کتاب نہیںدرسگاہ ہے

قرآن ہے نبی کی نبوت کامعجزہ

قرآن ہے خدا کی صداقت کا معجزہ

قرآن ہے رموز کی کثرت کا معجزہ

قرآن آج بھی ہے بلاغت کا معجزہ

۱۲۶

ایسی کوئی کتاب نہیںکائنات میں

قرآن کا جواب نہیںکائنات میں

تعظیم اس کتاب کی حق کے ولی نے کی

کعبے میںسب سے پہلے نبی کے وصی نے کی

قبل نزول اس کی تلاوت علی (ع)نے کی

تصدیق اس کلام کی میرے نبی نے کی

قرآن وا ہلبیت کا یہ اتصال ہے

قرآن ہو علی (ع)کے بنا یہ محال ہے

قرآن کو گروہ میں بٹ کر نہ دیکھئے

لفظ ومعانی اس کے الٹ کر نہ دیکھئے

اوراق اس کے صرف پلٹ کر نہ دیکھئے

قرآن کو اہلبیت سے ہٹ نہ دیکھئے

۱۲۷

قرآن دن حق کی ضرورت کا نام ہے

قرآن اہلبیت کی سیرت کا نام ہے

ہے ذکر نوح کا کہیں آدم کا تذکرہ

عیسی کا ذکر ہے کہیں مریم کا تذکرہ

ہے جابجا رسول مکرم کا تذکرہ

اور ہے کہیں پہ خلقت عالم کا تذکرہ

ہجرت کا تذکرہ کہیں ذکر غدیر ہے

ہے ذکر فاطمہ کہیں ذکرامیر ہے

حالات کے لحاظ سے آتی ہیں آیتیں

گھرمیںکبھی جہاد میں اتری ہیں آیتیں

ان میں جو بیشتر ہیں وہ مکی ہیں آیتیں

مطلب کے اعتبار سے گہری ہیں آیتیں

۱۲۸

چھوٹی بھی درمیانی کڑی بھی ہیں آیتیں

بعض ان میں نرم بعض کڑی بھی ہیں آیتیں

قرآن کیا ہے خالق اکبر سے پوچھئے

اس کی گرانی قلب پیمبر سے پوچھئے

یاپھر رسول (ص) ہی کے برادر سے پوچھئے

جس گھر کی بات ہے یہ اس گھر سے پوچھئے

قرآن اہلبیت نبی کے سوانہیں

قرآن اہلبیت سے ہرگز جدا نہیں

اس کے بغیر صاحب ایمان نہیں کوئی

اس کے بغیر اعلم دوراں نہیں کوئی

اس کے بغیر دین کا سلطان نہیںکوئی

حد ہے بغیر اس کے مسلمان نہیں کوئی

۱۲۹

اس کے بغیر جہل ہے سب شش حیات میں

اس کے بغیر کچھ بھی نہیںکائنات میں

خالق کی لمحہ بھر ہی اطاعت رکی نہیں

خنجر تلے بھی رب کی عبادت رکی نہیں

تبلیغ دین حق کی اشاعت رکی نہیں

نیزے پہ سر تھا پھر بھی تلاوت رکی نہیں

قرآن اہلبیت سے کتنا قریب ہے

قرآن واہل بیت کا رشتہ عجیب ہے

قرآں اگر قمر ہے تنویر ہے رسول (ص)

قرآں اگر ہے لوح تو تحریر ہے رسول (ص)

قرآں اگر ہے لفظ تو تعبیر ہے رسول (ص)

قرآں اگر ہے قول تو تفسیر ہے رسول (ص)

۱۳۰

قرآن معجزہ ہے تو معجزنما رسول (ص)

قرآن راہ روہے تو ہے راہنما رسول (ص)

قرآں اگر ہے علم تو پیکر رسول (ص)ہے

قرآں ہے گر سفینہ تو لنگر رسول (ص)ہے

قرآں ہے گر طریق تو رہبر رسول (ص) ہے

قرآن فیصلہ ہے تو داور رسول (ص) ہے

قرآں اگر ہے نور تو پرتورسول (ص)ہے

قرآںہے گر چراغ تو پھر لورسولؐہے

تحریر کیا ہواس کے فضائل کے باب میں

ہیںکتنے ترجمے یہ نہیںہے حساب میں

پھربھی چھپے ہیںمعانی حجاب میں

ضیغم یہی دعاہے خداکی جناب میں

۱۳۱

جب تک کہ اس جہاںمیںمیری زندگی رہے

قرآن واہل بیت سے وابستگی رہے

(بہار قرآن)

خالق کا ہے کلام یہ مخلوق کا نہیں

پھر کیسے کوئی عیب ہوایسے کلام میں

ہر چیز کی بہار ہے موسم ہر اک کا ہے

قرآن کی بہار ہے ماہ صیام میں

(نتیجہ فکر سید ضیغم عباس نقوی ضیغم بارہ بنکوی)

۱۳۲

فضیلت قرآن :

اس عنوان کو مندرجہ ذیل عناوین میںتقسیم کرسکتے ہیں :

1۔ قرآن کی عظمت قرآن کی روشنی میں

2۔ قرآن کی عظمت سنت کی روشنی میں

3۔ قرآن کی عظمت عقل کی روشنی میں

4۔ قرآن کی عظمت اجنبی کی زبان سے

ان عناوین کی مفصل بحث کے لئے مکمل ایک جلد کتاب درکار ہے لہذاہماری اس مختصر گفتگو میں ان سے مفصل لب کشائی کی گنجائش نہیں ہے بلکہ فقط اشارہ کر کے اپنے اغراض کوخاتمہ کی طرف سمیٹ لوں گا ۔

الف : قرآن کی عظمت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ''ذالک الکتاب لاریب فیہ ''اس کتاب میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ''یا فرما یا ہے کہ قرآن نور ہے قرآن ذکر ہے قرآن ہدایت کنندہ کتاب ہے قرآن حق ہے ،ان جیسے الفاظ سے قرآن کی فضیلت قرآ ن کی رو سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔لیکن قرآن کی فضیلت کو قرآن کی روسے ثابت کرنا اشکال اوردورجیسے اعتراض سے دوچار ہے لہذا اس کی تفسیر اورتحلیل سے اجتناب کروں گا ۔

۱۳۳

ب: فضیلت قرآن سنت کی روشنی میں ثابت کرنے کے لئے کتب ذیل کی طرف رجوع

کرسکتے ہیں (1)

حضرت پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا قرآن حبل المتین ہے یعنی مضبوط رسی ہے عروۃ الوثقی ہے یعنی مضبوط وسیلہ ہے ''ان هذاالقرآن هو النور المبین '' ''یعنی بتحقیق یہ کتاب واضح روشنی ہے ''ومن اشتشفی به شفا ء الله '' ''اگرکوئی شخص قرآن سے شفا مانگے تو خدا وند اسے شفا عطا فرماتا ہیں ''

مولی امیر المومنین کی زبان سے عظمت قرآن کو ثابت کر نا چاہیں تو نہج البلاغہ میں کئی خطبوں اورکچھ ناموںمیںاشارہ فرمایا ہے رجوع کیجیے۔ (2)

آپ نے فرمایا اللہ نے قرآن کو مجتہدین اورصاحب نظر علماء کے دلوں کے لئے بہار باطنی تشنگی کے لئے سیرابی قرار دیا ہے قرآن ایسا چراغ ہے کہ جس کی لوکبھی خاموش نہیںہوتی، قرآن ہر امراض کے لئے باعث شفا ہے ۔

نیز دیگر ائمہ معصومین کی زبان قرآن کی عظمت سے مطلع ہونے کے لئے اصول کافی جلد دوم کتاب فضل القرآن میںبیسوں صحیح السند احادیث موجود ہیں رجوع فرمائیں

.................................................

(1)بحار الانوار کتاب فضل القرآن ، اور اصول کافی 2فضل القرآن )

(2)نہج البلاغہ

۱۳۴

نیز تفاسیر کی کتابوں میںقرآن کی فضیلت اورعظمت پر دلالت کرنے والی بہت سی احادیث اورروایات کو نقل کیاہے۔ (1)

ج: عقل کی روسے قرآن کی عظمت کو ثابت کرنے میں مندرجہ ذیل نکات کافی ہیں ،کہ عقل ہر چیز کی خوبی اوربدی اورکائنات کے حقائق کو درک کرنے کی صلاحیت اورطاقت کا نام ہے جس کی نظرمیںقرآن ایک ایسا بحر بیکراں ہے جس کی تہہ تک کوئی غواص نہیں پہنچ سکتا ہر غواص اس علم کے دریاسے کسب فیض حاصل کرسکتا ہے کیونکہ عقل کی نظر میں قرآن تمام کتب آسمانی کا نچوڑ اورخلاصہ ہونے کے علاوہ کائناتی تمام علوم کا مجموعہ بھی ہے لہذا ہر بشر قرآن سے مستفید ہوسکتا ہے مسلمان ہو یانہ ہو ماہر اخلاقیات ہویانہ ہو ،معاشیات کا ماہر ہویا نہ ہو عالم ہو یا جاہل ،فقیہ ہو یا نہ ہو سائسدان ہو یانہ ہو فزیک دان ہو یا نہ ہو ہرایک اپنی صلاحیت کی حیثیت سے قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے کیونکہ اس کائنات کو خلق کرنے کے بعد اللہ نے ہی بشر کو علم سے فیضیاب کیا ہے ورنہ انسان ذاتی حوالے سے جاہل محض ہے اللہ نے ہی پیامبروں کے ذریعے علم وحلم اوردیگر فنوں اورہنروں سے مالامال فرمایا ہے لہذاآج اگر انسان کسی فیلڈمیںپڑھے لکھے یا ہنر مند سمجھا جاتا ہے تو یہ اللہ کی مرہون منت ہے کہ جس نے ہر دور میں بشر کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ہدایت یافتہ ،ہنر مند ہستیوں کو مبعوث فرمانے

..................................

(1)تفسیر بیضاوی ، تفسیردر منثور ،تفسیر صافی والمنار

۱۳۵

کے ساتھ ایسا دستور العمل بھی بھیجاکہ جو اپنے دور کے تمام علوم کا مجموعۃتھا ، ان باتوں کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کائناتی تمام علوم کاسر چشمہ ذات باری تعالی ہے لیکن ہردور

کے ملحدین اورغاصبین اللہ کی بھیجی ہوئی کتابوں سے فنون اورہنروں کے اصول وضوابط کو ہڑب کرتے تھے اوراس کو اپنی ذاتی کوشش اورصلاحیت کا نتیجہ سمجھتے تھے اورکہا کرتے تھے کہ ہم نے علم فزیک سائنس اورٹیکنالوجی کے قوانین ریاضی کے فارمولوں کو ایجاد کیاہے،اور ہم نے ہی کہکشانوں کی خاصیت زمین وآسمان، سورج اورچاند اورستاروں کے چھوٹے وبڑئے تمام اسرار کو انکشاف کیاہے جو اس مادی زندگی کی فلاح وبہبود کے لئے بہت ہی ضروری ہے ۔

لہذا وہ لوگ ادیان الہی کو بدنام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دین یعنی خشک تقدس اورترک دنیا وتقوی کا مجموعۃ ہے جس میں نہ کوئی فن اورہنر کے اصول وضوابط کا ذکرملتا ہے نہ کوئی لوازمات زندگی کے انکشافات کے فرمولے موجود ہیں نہ کوئی سائنسی تحقیقات اورایجادات کی تفسیراور وضاحت ہے لہذاان کی نظر میں دین اور مذہب تمام چیزوں سے محروم فقط کچھ رسومات کو انجام دینے کا نام ہے ،جبکہ آدم سے قائم تک کے ادیان الہی کابغور مطالعہ کریں تو بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ہر دور میںنظام الہی ہی بشر کے تمام احتیاجات پر مشتمل اصول وضوابط کا مجموعہ رہا ہے لہذا ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ تم کوئی ایسا فرمولہ پیش کروجو کسی کتب آسمانی سے نہ لیاگیا ہو !فقط کتب آسمانی کے علوم کو ھڑب کر کے اپنے نام پر ثبت کر نے سے خالق اورایجاد کنندہ نہیں بن سکتے ۔ اور قرآن کریم تمام کتب آسمانی جو ایک سوچودہ کتابیں بتائی جاتی ہیں ان تمام علو م کا ایک سمندر ہے جس سے ہر بشر اپنی نیاز مندی اوراحتیاجات کو دور کرسکتاہے ،فلاسفر کے لئے فلسفی اورعقلی فارمولے،ماہرین اقتصاد ومعایشات کے لئے اقتصادی فارمولے ریاضی دان کے لئے ریاضی کے فارمولے فیزیک والوں کے لئے کیماوی اورفیزیک کے نکات سائنسدان کے لئے سائنسی ایجادات اورانکشافات کے قاعدہ وقوانین ،مفکرین کے لئے فکری اورتدبیری ،نکات فقیہ ومجتھدین کے لئے فقہی دستورات ،ادیبوںکے لئے ادبی نکات ،فصاحت وبلاغت والوں کے لئے اپنے رشتے کے حوالے سے جواہر ات سے بھری ہوئی کتاب کانام قرآن ہے

۱۳۶

۔

البتہ قرآن میںہر ایک فارمولے اورنکات کا نام جو A یا B کی شکل میںتمام جزیات کا بیان نہیں ہواہے لیکن جزیات کی تشریح اورتفسیر نہ کرنے کا مطلب ہر گزیہ نہیں ہے کہ اس کا قرآن میں سرے سے کوئی تذکرہ نہیںہے، بلکہ ہم خود علوم قرآن سے دورہیں !لہذا ہر دور میں باالخصوص اس دورکے جتنے انکشافات اورایجادات ہیں سب کاتذکرہ قرآن میںموجود ہے لیکن ہماری اپنی کوتاہی اورجہالت اورکم علمی کی وجہ سے ان نکات اورفارمولوںتک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی ، کیونکہ ہم نے قرآن فہمی کی کلاسوں میں کبھی شرکت نہیں کی ۔

قرآن کے بارئے میںتدبر اور تفکر کاحکم ،کفار ومشرکین سے لڑنے کا حکم ،عمل صالح کی اتنی اہمیت اورتاکید گذشتہ اقوام اورامتوں کے حالات سے عبرت لینے کی سفارش، آبادی اور نابودی سعادتمندی اورشقاوتمندی کے اسباب وعلل وغیرہ کی طرف اشارہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی رحمت اورقدرت پوری کائنات پرحاکم ہے نیز اللہ نے بارہا صبر وتحمل سے زندگی گذار نے کی تلقین کی ا سے ذراساتوجہ اورگہری نظروں سے غور کریں تو معلوم ہوجا تاہے کہ قرآن ایک ایسا بحربیکراں ہے جس کی تہہ تک بشر کی رسائی نہیں ہو سکتی اس کا مقصد یہ نہیںہے کہ قرآن میںکائناتی علوم کی طرف اشارہ نہیںہوا ہے ، بلکہ ہم نے قرآن کے قیمتی مطالب اورنکات سے استفادہ کرنے کی بجائے اس دور کے ہر حوالے سے محدود افراد کے توہمات اورخرافات سے بھری ہوئی کتابوں سے استفادہ کرنا اپنا مقدر سمجھتے ہیں۔

والسلام

محمد باقر مقدسی ہلال آباد

20 صفرالمظفر 1428بوقت 11شب حوزہ علمیہ قم المقدس

جمہوری اسلامی ایران

۱۳۷

منابع وماخذ

1۔ قرآن کریم

2۔ البرہان --- علی احمد حرائی

3۔ البرہان فی مشکلات قرآن --- ابو المعالی

4۔ مجمع البیان ج1 --- شیخ طوسی

5۔ مناہل العرفان ج 1ص 337 --- سبکی

6۔ اتقان ج 1 ص 104،105 --- سیوطی

7۔صحیح بخاری --- امام بخاری

9۔ شناخت قرآن --- علی کمالی

10۔ تفسیر التبیان --- طوسی

11۔ کشاف ج1 --- ذمخشری

12۔ در منثور --- سیوطی

13۔ سنن نسائی --- نسائی

14۔ سنن ترمذی ج 3 ص9 --- ترمذی

15۔ کتاب قیس بن قیس ص 81 --- مسلم بن قیس

۱۳۸

16۔ بحا ر الانوار ج 4 ج92 --- مجلسی دوم

17 ۔ طبقات ج 3 ص137 --- ابن سعد

18۔ التفسیر التفسیر ج1،ج2 --- ذہبی

19۔ المنارج2

20۔ سفینۃ البحار ج 2 ص 154

21۔ اسد الغا بۃ ج1 ص 258

22۔ مذاہب التفسیر الاسلامی

23۔ المیزان --- علامہ طباطبائی

24۔ مدخل التفسیر --- آیت اللہ فاضل لنکرانی رحمۃ اللہ علیہ

25۔ ثواب الاعمال وعقابھا --- صدوق

26۔ نہج البلاغۃ --- سید رضی

27۔ تفسیر بیضاوی --- بیضاوی

28۔ الاالرحمن --- بلاغی

29۔ حدائق ج8ص95 --- بحرانی

30۔ تفسیر طبری ج1 ص9 --- طبری

31۔ خصال ج 2 ص11 --- صدوق

۱۳۹

32۔ الوافی ج 5باب اختلاف القرات

33۔ البیان ج 1 --- خوئی رحمۃ اللہ علیہ

34۔کتاب الفاظ والحروف --- فارابی

35۔ تاریخ عرب قبل الاسلام ج 8 ص186

36۔ وفیات الاعیان

37۔ سعد السعود ص181

38۔ قواعد الفقہ ج 4 ص70 --- بجنوردی

39۔ تفسیر صافی ج 1 ص51 --- فیض کاشانی

40۔ احقاق الحق ج 2 ص129

41۔ کشف الغطاء --- کاشف الغطائ

42۔ حریم قرآن کا دفاع --- جواد فاضل لنکرانی

43۔ سلامت القرآن من التحریف ج 1وج2 --- محمدی

44۔ الذخیرہ فی علم الکتاب ص361

45۔ تہذیب الاصول ج 2 --- تقریرات امام خمینی ؓ

46۔ معالم الاصول ص147 --- فرزند شہید ثانی

47۔ الفصول المہمہ --- ابن صباغ مالکی

۱۴۰