علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر0%

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 147

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: صفحے: 147
مشاہدے: 50994
ڈاؤنلوڈ: 5672

تبصرے:

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 147 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50994 / ڈاؤنلوڈ: 5672
سائز سائز سائز
علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سورتوں کی حد بندی:

جس طرح کلمہ آیہ کا دو معنی قابل تصور ہے اس طرح کلمہ سورہ کے بھی دو معنی ہیں:

1۔ لغوی 2۔اصطلاحی

کلمہ ''سورۃ ''لغت عرب میں کئی معانی میں استعمال ہوا ہے ۔

1۔جناب صاحب قاموس نے فرمایا کہ کلمہ سورہ منزلت کے معنی مےں آیا ہے۔

جیسے : الم تران الله اعطاک سوره تری کل ملک حوله یتذبذب

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے تجھے کیا مقام و منزلت عطا کیا ہے کہ جس کے سبب ہر بادشاہ کی رفت و آمد کا مرکز بنا۔

2۔ علامت اور نشانی کے معنی میں آیا ہے۔

3۔ دیوار بلند یعنی شہر کی دیوار کو بھی سورہ کہا جاتا ہے۔

4۔ نیز سورہ قوت اور طاقت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی معانی میں استعمال ہواہے جس کی تفصیل اس مختصر کتیبہ میںنقل کرنے کی گنجایش نہیں۔لہذا لسان العرب و مجمع البحرین ،تاج العروس کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

2۔ اصطلاح علوم قرآن میں سورہ متعدد ایسی آیات کے مجموعہ کا نام ہے ، جس کی طبیعت ،لحن اور نظم وضبط او ر سیاق و سبق یقینا دوسرے سورہ کی سیاق و سبق سے فصاحت و بلاغت کے حوالے سے متفاوت ہے،

۲۱

اگر چہ کبھی کبھار ایک ہی سورہ کی آیات کے مابین قبل و بعد کے حوالے سے یا سبق و سیاق کے لحاظ سے مختلف نظر آتا ہے، جیسے آیہ تطہیر قبل و بعد کے حوالہ سے دیکھا جائے تو آیت قبلی اور بعدی زوجات سے مربوط ہیں، لیکن درمیان میں آیہ تطہیر جو اہلبیتؑ کا تذکرہ کر رہی ہے بظاہر متفاوت نظر آتی ہے، ایسی کیفیت پر ہونے والی آیہ کو ادبی اصطلاح میں جملہ معترضہ کہا جاتا ہے لیکن اگر ہم سورہ احزاب کے آغاز اور انجام تک کی آیات کے سبق و سیاق کو غور کریں تو آیہ تطہیر اور دیگر آیات کا سیق و سبق ملتا جلتا ہے۔

لہذا اگر مختصر الفاظ میں سورہ کی تعریف کرنا چاہیں تو یہ ہے: ایسی آیات کے مجموعے کا نام سورہ ہے، جو سبق و سیاق اور نظم و نسق فصاحت وبلاغت کے حوالے سے ایک ہی طبیعت کے ہو دوسرے مجموعہ آیات کی طبیعت سے مختلف ہو نیز تمام امت مسلمہ کے درمیان اجماع ہے کہ قرآن مجید میں ایک سو چودہ سورتیں ہیں کہ جن کی نام گذاری بھی ایک نظریہ کی بنا پر جس طرح قرآن مجید میں اسوقت موجود ہے اس طرح خود پیغمبر اکرم (ص) کی زبان مبارک سے ہوئی ہے، تبھی تو سورتوں کی نامگذاری بھی آیات کی ترتیب اور نظم و نسق کی مانند توقیفی ہے، جسمیں نظر اور اجتہاد یا قیاس کے ذریعہ تبدیلی کی گنجایش نہیں ہے جس پر کئی صحیح السند احادیث عامہ اور خاصہ کی کتابوں میں مختلف مضامین کے ساتھ موجود ہے جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے تمام سورتوں کا نام معین کیا ہے۔ (1)

.........................

(1)شناخت قرآن ص103 علی کمالی)

۲۲

اور سورتوںکی موجودہ ترتیب بھی خود پیغمبر اکرم (ص) کے حکم سے ہوئی ہے یعنی جس طرح آیات کی ترتیب توقیفی ہے اسی طرح سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب بھی توقیفی ہے جس میں اعمال نظر کی گنجایش نہیں ہے ،لیکن اس مشہور و معروف نظریے کے مقابل میں کچھ دوسرے محققین کا عقیدہ ہے کہ سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب خود پیغمبر اکرم (ص) کی زبان سے نہیں ہوئی ہے کیونکہ اگر نفس رسول خدا ؐ کی طرف سے سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب ہوتی تو اصحاب کے مصاحف میں سورتوں کی ترتیب اور نام گذاری کے حوالے سے مختلف نہیں ہونا چاہیے، جبکہ اصحاب کے مصاحف میں بہت بڑا اختلاف موجودہے، لہذا سورتوں کی نام گذاری اورترتیب توقیفی نہیں ہے،البتہ اس نظریہ کو رد کرتے ہوئے بعض محققین نے اس نظریہ کے قائلین کو دو جواب دیئے ہیں ۔

الف :اصحاب کے مصاحف میں اختلاف کا پائے جانے کی بات، دلیل قطعی سے ثابت نہیں ہوئی ہے ۔

ب: بالفرض ثابت بھی ہوا ہو تو ہم احتمال دے سکتے ہیں کہ اصحاب کے مصاحف پیغمبر اکرم (ص)

کی زبان سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب دینے سے پہلے ہے۔ (1)

تیسرا نظریہ یہ ہے کہ کچھ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے جبکہ دیگر کچھ سورتوں کی

....................................

(1)شناخت قرآن ص105 علی کمالی )

۲۳

ترتیب توقیفی نہیں ہے۔ اس عقیدے پر کئی برہان بیان کئے گئے ہیں لیکن کتاب اوروقت کے دامن میں گنجایش نہ ہونے کے حوالے سے اقوال کے تذکرہ پر اکتفاء کروںگا۔

قرآن کریم کے سورتوں کے احکام میں سے ایک یہ ہے کہ ہر سورہ کے آغاز میں جو بسم اللہ ہے وہ سورہ کا جز اور مستقل ایک آیہ ہے یا اس کا جزء اور مستقل ایک آیہ نہیں ہے؟

چنانچہ ہر مکتب فکر اس مسئلہ سے با خبر ہے کہ بسم اللہ کے بارے میں امامیہ اور دیگر مذاہب کے درمیان اختلاف ہے امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر بسم الله الرحمن الرحیم ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ ہے ، لہذا نماز میں سورہ حمد کے آغاز میں یا دیگر سورتوں جو حمد کے بعد پڑھا جاتا ہے ، بسم الله الرحمن الرحیم کی قرائت اور تلاوت کرنا ضروری ہے ورنہ نماز باطل ہے، جبکہ اس مسئلہ کے باے میں اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ بسم اللہ ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ قرآنی نہیں ہے ،لہذا نمازوں میں سورہ حمد یا دیگر سورتوں کی تلاوت کے وقت بسم الله الرحمن الرحیم نہ پڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی مرحوم شیخ طوسی نے تفسیر التبیان میں اس مسئلہ کے بارے میں ایک دلچسپ گفتگو کی ہے رجوع کریں۔ (1)

لیکن اگر مکا تب فکر سیاسی اور مذہبی لگاو اور افادیت سے ہٹ کر علم کے اصول و ضوابط کی رو سے اس سلسلہ کے متعلق غور و خوض کریں ، تو یہ بات معقول نہیں ہے کہ بسم الله

.....................................

(1)تفسیر التبیان ج1ص24)

۲۴

الرحمن الرحیم ہر مصحف میں موجود ہو، اور ہر وقت ہر سورہ کے آغاز میں جس طرح دیگر آیات کی تلاوت کرتے تھے، اس طرح پیغمبر اکرم (ص) اور اصحاب و تابعین اور قراٰء تلاوت کریں ، اور دوسری طرف سے قرآن پاک میں تحریف یعنی کمی و بیشی نہ ہونے کے قائل بھی ہوں تو ہم بسم اللہ کو ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ نہ ماننا نا انصافی کے علاوہ متضاد رویہ ہے۔

لہذا امامیہ اور شافعی مذہب کا عقیدہ ہے کہ ہر بسم اللہ اسی سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ ہے جس پر کئی احادیث واضح الفاظ میں دلالت کرتی ہیں: جیسے من ترکها فقد ترک مائة و اربع عشرة آیة من کتاب الله تعالی (1)

ابن عباس نے کہا اگر کوئی بسم اللہ کو ترک کرے تو اس نے اللہ کی کتاب سے ایک سو چودہ آیات چھوڑئی ہے ۔

سورتوں کا مکی اور مدنی ہونے کی وضاحت :

علوم قرآن کے ماہرین اور مفکرین نے ایک سو چودہ قرآنی سورتوں کو دو قسموں میں تقسیم کی ہے، مکی اور مدنی اور قرآن کے تمام سورہ کے آغاز میں ہذہ السورۃ مدنیہ یامکیہ کی تعبیر موجود ہے ،اور علوم القرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں سورے مکی اور مدنی ہونے کے ملاک اور اصول و ضوابط بھی بیان کئے ہیں ، اورمکی ومدنی ہونے کے

....................................

(1)کشاف ،ج1،ص1،در منثور ،ج1، دیگر تفاسیر

۲۵

اصول وظوابط کا خلاصہ در ج ذیل ہے :

1۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ جوآیات اور سورہ ہجرت سے پہلے نازل ہوا ہے وہ مکی ہے جو ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے و ہ مدنی ہے۔

2۔ جو مکہ میں نازل ہوا ہے وہ مکی ہے جو مدینہ میںنازل ہوا ہے وہ مدنی ہے، اور جو مکہ ومدینہ کے گرد ونواح میں نازل ہوا ہے وہ بھی مدنی ہے۔

3۔جن آیات کا مخاطب اہل مکہ ہیںوہ مکی ہے جن آیات کا مخاطب اہل مدینہ ہیں و ہ مدنی ہے۔

4۔ ہر وہ سورتیں جن میں سجدہ اور لفظ کلا ہے وہ مکی ہے، لیکن جن سورتوں میں سجدہ اور کلمہ کلا نہیں ہے وہ مدنی ہے۔

5۔ جہاں یا ایہاالناس کا خطاب ہے و ہ مکی ہے باقی مدنی ہے مگر سورہ حج اس ملاک اورمعیار سے خارج ہے کیونکہ اس کے آخری آیہ '' یاایهاالذین آمنوا ارکعوا والسجدو ا'' ایا ہے اس کے باوجود اکثر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ مکی ہے نہ مدنی۔

6۔ ہر وہ سورتیں کہ جن میں انبیاء سلف کے قصے اور امم سابقہ کی کہانی اور عبرتوں پر مشتمل ہے وہ مکی ہے باقی مدنی اس ملاک اور قانون سے سورہ بقرہ کو خارج کیا گیا ہے۔

7۔ہر وہ سورتیں جن میں حضرت آدم ؑ اور ابلیس کا قصہ بیان کیا گیا ہے وہ مکی ہے باقی سورتیں مدنی ہیں۔

۲۶

8۔ ہر وہ سورتیں جن کاآغاز حروف مقطعات سے ہوا ہے وہ مکی ہے، اور وہ سورتیں جن کا آغاز حروف مقطعات سے نہیں ہوا ہے وہ مدنی ہے، (1) لیکن اگر دانشمند حضرات اور مکاتب فکر سورتوںکے مکی اور مدنی ہونے کے مسئلہ کو کڑی نظر سے غور کریں تو علمی نتائج اورمعلومات کے علاوہ عملی نتائج بھی ہیں جن پرغور کیجئے تاکہ علمی نتائج اور معلومات کے علاوہ نذر اور ناسخ و منسوخ کی تشخیص اورتعیین کے موارد میںکام آئے، لہذا اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے سورتوں کے دیگر مباحث جیسی آیات کی تعداد اور فصاحت و بلاغت کے حوالے سے کونسا سورۃ دیگر سورتوں پر بیش قدم ہے، وغیرہ کے بارے میں علوم قرآن کے موضوعات پر لکھی ہوئی مفصل کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ (2)

تدوین قرآن کا پس منظر:

پہلا نظریہ :

قرآن کی جمع آوری کے متعلق کئی اقوال اورنظریے موجود ہیں، اور قرآن کی تدوین اور جمع آوری کا مسئلہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے ،علوم قرآن کے مباحث میں اس بحث کو مرکزیت حاصل ہونے کے باوجود بہت سارے محققین نے اعتراف کیاہے کہ یہ مسئلہ علوم قرآن کے پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے جس کے متعلق امت مسلمہ کو کڑی نظر سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام اور مسلمین تحریف اور کورکورانہ عقیدہ اور اندھی تقلید سے نجات حاصل کر سکے، کیونکہ ایک طرف سے تمام مسلمین کا اجماع ہے کہ قرآن اللہ کی

..............................

1.(شناخت قرآن.(

2)شناخت قرآن ص296 علی کمالی)

۲۷

آخری کتاب ہے، جو بشر کے لئے تا قیام قیامت ضابطہ حیات ہے ،خود اللہ نے فرمایا : ''انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون'' '' ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں''یا دوسری آیت میں فرمایا: '' ان علینا جمعه و قرآنه ''''بیشک اسکا جمع کرنا اور قرائت کرنا ہم پر فرض ہے'' (1)

نیز فریقین کے علوم قرآن کے ماہرین نے کاتبین وحی کے اسامی اپنے مقالات اور کتابوں میں مفصل بیان کئے ہیں،حتی لکھا گیا ہے کہ اصحاب میں سے ایک وفد کاتبین وحی کے لقب سے معروف اور مشہور تھا۔

اور بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا: عبداللہ قرآن کو ایک مہینے میں مکمل کرو اسوقت مےں نے کہا اس سے زیادہ قدرت ہو تو آنحضرت ؐنے فرمایا ہر دس دن کے بعد مکمل کرو، میں نے کہا اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہو تو آنحضرت(ص) نے فرمایا ہر ہفتہ میں مکمل کرو اس سے زیادہ نہ کرو، (2)

جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کی تدوین اور جمع آوری حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات طبیہ میں ہوئی تھی ، نیز عین اسی کہانی کو ابو عبیدہ نے قیس بن ابی صعصعہ کے بارے میں نقل کیاہے، حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے قیس بن ابی صعصعہ سے پوچھاتم

.................................

(1) قیامت/17

(2)نقل شناخت قرآن ص107)

۲۸

قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کرتے ہو؟ اس نے کہا چالیس دنوں میں ختم کرتاہوں (1)

اور اسی روایت کی بنا پر امام احمد بن حنبل نے کہاہے کہ چالیس دن سے زیادہ ختم قرآن میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔

اس روایت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کی پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی میں جمع آوری اور تدوین ہوئی تھی ،بخاری اور ابو داود اورنسائی نے روایت کی ہے۔

ابو سعید العلاء نے کہا: میں مسجد میں نماز پڑھا رہاتھا اتنے میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے بلایا لیکن میں نے جواب نہ دیا (نماز سے) فارغ ہونے کے بعد آپ کی خدمت میں گیا اور کہا یا رسول اللہؐ میں نماز پڑھا رہا تھا، اس وقت آپ نے فرمایا مگر اللہ نے نہیں فرمایا : '' یا ایهاالذین آمنوا استجیبوا لله و للرسول اذا دعاکم'''' یعنی اے ایمان والو جب تمہیں خدا اور اس کا رسولؐ نے بلائے تو جواب دو '' اس وقت آنحضرت(ص) نے فرمایا کیا میں تجھے ایسا کوئی سورۃ نہ بتا دوںجو قرآن کا سب سے بڑا سورہ ہے، (2) اس روایت سے بظاہر معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن کی تدوین و جمع آوری پیامبر اکرم (ص) کی حیات میں ہو چکی تھی۔

.................................

(1)شناخت قرآن،ص108)

(2)بخاری،نسائی

۲۹

ابن عباس سے روایت ہے، حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا گیا کونسا عمل اللہ کی نظر میں زیادہ محبوب ہے ؟ آنحضرت ؐنے فرمایا کہ قرآن کے آغاز سے آخر تک تلاوت کرنا اللہ کی نظر میںزیادہ محبوب ہے۔ (1)

ان کے علاوہ بہت سی روایات بخاری اور دیگر محققین نے نقل کی ہیں کہ جن میں لفظ قرآن کی تلاوت یا قرآن جمع کرنے والے افراد کا نام مذکور ہے ایسے الفاظ سے بخوبی روشن ہو جاتا ہے کہ قرآن کی تدوین پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہی ہوئی تھی ، اگرچہ اس زمانے کی جمع آوری کی کیفیت اور اس دور کی کیفیت میں یقینا فرق ہے۔

نیز اصحاب کے دور اور پیغمبر اکرم (ص) کے دور کی تدوین کی کیفیت میں یقینا بڑا فرق ہے. لہذا قرآن و سنت اور عقل کی رو سے واضح ہوا کہ قرآن کی تدوین اور جمع آوری حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہوئی ہے لیکن اگر ہم قرآن کی تدوین اور جمع آوری کو حیات پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہونے پرروایت اور بعض آیات اور عقل کی رو سے تائید ہونے کے باوجود قبول نہ کریںتو اس کا لازمی نتیجہ تحریف ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد کچھ اصحاب جو پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ اکثرو بیشتر رفت و آمد رکھتے تھے ، امامت اور خلافت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے جو آج تاریخ اسلام کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں

................................

(1)ترمذی ج3ص9

۳۰

بخوبی روشن ہے، اگر پیغمبر اکرم (ص) کے دستور کے مطابق قرآن کریم بین الدفتین کتاب کی شکل میں تدوین نہ ہوتی تو آج مسلمانوں کے ہاتھوں موجود ہ قرآن کے نسخون میں طرح طرح کے اختلافات نظرآنا چاہیے حالانکہ تمام قرآن کی کیفیت اور نسخے کتابت اور چاپی ڈیزائن اور جلد سازی کے علاوہ باقی تمام جہات یعنی سورتوں اور آیات کی ترتیب اورنظم و ضبط میں اختلاف نظر نہیں آتا ۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنی امت سے یہ کہیں کہ میں آخری نبی ہوں ،میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا یہ آخری کتاب ہے جس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہوگی تمہارامرجع قرآن وعترت ہے لیکن اس کی تدوین اور جمع آوری کے بغیر پیغمبر اکرم (ص) چلے جائیں کیا اسکی حفاظت کرنا ہر حوالے سے پیغمبر اکرم (ص) پر لازم نہ تھا؟ کیا پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی ذمہ داری کوا داء کرنے میں کوتاہی کی ہے؟

کیا پیغمبر اکرم (ص) امت کے سلوک و رفتار سے واقف نہ تھے کیاپیغمبر اکرم (ص)اپنی امت کے قرآن اور امامت کے ساتھ کرنے والے سلوک اور رفتار سے آگاہ نہ تھے کیا امت محمدی مثل پیغمبراکرمؐ معصوم تھی؟ اگرچہ بہت سارے مسلمان نبی (ص)اور جانشین نبیؐ کا معصوم ہونا ضروری نہیں سمجھتے ،لیکن قرآن کی حفاظت کرنالاز م سمجھتے ہیں۔

۳۱

دوسرا نظریہ: حضرت علی (ع) کے ہاتھوں قرآن کی تدوین:

گذشتہ نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے ثابت کیاگیاہے کہ قرآن کی تدوین حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات میں ہوئی تھی لیکن حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے فورا بعد حضرت علی (ع) نے اصحاب کی بے وفائی اور منفعت پرستی کا عالم دیکھا تو اپنی دولت سرا میں گوشہ نشینی اختیار کی جس کا مقصد قرآن کی حفاظت کرناتھاتاکہ قرآن کو تحریف اور کمی بیشی سے بچاسکیں، چنانچہ اس مطلب کو جناب سلیم بن قیس نے اپنی کتاب میںسلمان فارسی سے یوں نقل کیا ہے، جب حضرت علی (ع) نے اصحاب کی بے وفائی اور غداری کی حالت دیکھی تو آپ نے اپنے قیامگاہ میں گوشہ نشینی کرکے قرآن کی جمع آوری اور تدوین شروع کی جبکہ اس سے پہلے قرآن متعدد صحف اور کھالوں پر لکھا گیا تھا، اورآپ ہی نے قرآن کی اس طرح تدوین کی تھی کہ جس طرح آیات ناسخہ، اور منسوخہ، تنزیل، و تاویل، عام وخاص، نازل ہوا تھاجبکہ اس وقت آپ سے بیعت لینے کیلئے خلیفہ وقت کی طرف سے پیغام بھی بھیجا تھا۔ (1)

نیزخصال میںمرحوم شیخ صدوق نے مسلم بن قیس سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئی ہو مگر پیغمبر اکرم (ص) نے مجھ سے نہ فرمایا ہو اور میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کو نہ لکھا ہو، اور اس کی تفسیر او رتاویل مجھے یاد نہ دی ہو اس کا ناسخ و منسوخ مجھے نہ فرمایا ہو، محکم و متشابہ، عام و خاص نہ بتایا ہو، اور پیغمبر اکرم (ص)

ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ خدای حضرت علی (ع)کو اس کی حفاظت اور فہم و درک کی توفیق دے ،

.........................................

(1)کتاب سلیم بن قیس ص81، چاپ دار الکتب

۳۲

لہذا جب سے پیغمبر اکرم (ص) نے میرے لئے دعا شروع کی تب سے کوئی آیت اور حکم کومیں نے کبھی فراموش نہیں کیا ہے ۔ (1)

نیز حضرت امام باقر (ع)سے روایت ہے آپ نے فرمایا : اس امت سے کوئی، قرآن کی جمع آوری اورتدوین نہیں کرسکتا مگر آنحضرت(ص) کاجانشین اوروصی۔ (2)

اس طرح حضرت امام جعفر صادق ؑنے فرمایا:تحقیق حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: یا علی (ع) قرآن میرے فراش کے پیچھے پڑا ہوا ہے، اس کو مصحف اور کاغذ اور حریر میںجمع ہے اس کو لوحوںاور مصحف کی شکل میں جمع کرو تاکہ جس طرح یہودیوں نے تورات کو ضائع کیا اس طرح قرآن ضائع نہ ہو جائے حضرت علی (ع) چلے گئے اور قران کو کسی کپڑے میں لپیٹ کردولت سرا کے اندر داخل ہوئے اور فرمایا جب تک قرآن کی جمع آوری کا کام مکمل نہیں ہوگا تب تک میں عبا نہیں پہنوں گا، لہذا بسا اوقات دولت سرا کے دروازے پرعبا کے بغیر نظر آتے تھے۔ (3)

......................................

(1)بحار الانوار ج4

(2)بحارلانوار ج92،ص48۔

(3)بحارالانوار ،ج92،ص48

۳۳

مذکورہ آیات اور احادیث سے دو مطلب واضح ہوجاتے ہیں:

الف: قرآن کی جمع آوری حضرت علی (ع) نے کی ہے چاہے پیغمبر اکرم (ص) کی حیات میں کی ہویا پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد۔

ب: ان روایات اور مذکورہ نظریہ کے مابین کوئی تضاد اورتنافی بھی نہیں ہے کیونکہ حضرت علی (ع) نے پیغمبراکرم (ص) کی وفات کے بعد جس کیفیت پر قرآن کی جمع آوری کی ہے وہ ایک خاص کیفیت کاحامل تھا جبکہ حیات حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی جمع آوری کی کیفیت میں تنزیل و تاویل، ناسخ و منسوخ ،نزول کی تاریخ معین نہ تھی، لہذ حضرت علی (ع) نے وفات پیغمبرؐکے بعد تدوین قرآن کی اور حیات پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں جو جمع آوری ہوئی تھی وہ بھی حضرت کے ہاتھوں،ا ن کے درمیان کوئی تضاد نہیںہے کیونکہ دونوںزمانوںمیںجمع آوری علی (ع)نے ہی کی ہے ۔

مرحوم سیوطی نے ابن الفرس سے انہوںنے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے: جب ابو بکر کی خلافت کا آغاز ہوا تو حضرت علی (ع) نے اپنی دولت سرا میں گوشہ نشینی اختیار کی ،لوگوں نے ابو بکر سے کہا کہ حضرت علی (ع) تیری اطاعت اور بیعت کرنے سے انکار کرتے ہیں ،اتنے میںابوبکر نے کسی کو بھیجا اورحضرت علی (ع) سے پوچھا آپ ابو بکر کی بیعت سے انکار کرتے ہیں؟

۳۴

آپ نے فرمایا :میں اس وقت قرآن میں تحریف ،کمی اور بیشی ہونے سے بچانا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں حتی نماز کے لئے عبا پہننے کی فرصت بھی نہیں بلکہ قرآن کی جمع آوری کے کاموں میںمصروف ہوں ،اتنے میںابو بکر نے کہا آپ کتنے اچھے کام میںمصروف ہیں (1)

حضرت علی (ع) کی سیرت یہ تھی کہ آپ ہر وقت حضرت پیامبر اکرم (ص) کے حضور میں رہتے تھے ،مہبط وحی میںآپ کی تربیت پائی تھی آپ تمام اسرار با الخصوص وحی کے کاتب تھے لہذ حضرت علی (ع) کے سوا کسی اور شخص سے خدا کے حکم اورفرمان رسول (ص) کے مطابق آیات کی ترتیب اوران کے مخصوص نظم ونسق ،سیاق وسبق ،فصاحت وبلاغت کے اصول وضوابط کے ساتھ قرآن کی جمع آوری اور تدوین قرآن ناممکن تھا ، اگر چہ مورخین نے دیگرکچھ افراد کا نام جمع آوری قرآ ن کی فہرست میںعلی (ع) کے نام کے ساتھ لکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ تدوین قرآن کی لسٹ میں حضرت ابوبکر اورحضرت عثمان کا نام بھی آئے لیکن تعصب مذہبی سے ہٹ کر علم اور ایمان کی روسے نگاہ کریں تو تدوین قرآن کے مسئلہ کو غیر معصوم افراد کی طرف نسبت دینا ناانصافی اورمسلمانوں کے عقیدہ کمزور ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔کیونکہ ایسے افراد کے ہاتھوں قرآ ن جمع آوری ہونے کادعواکرنا جو نہ ہمیشہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے حضور میں رہتے تھے نہ وہ لوگ حقائق اوراسرار سے باخبر تھے ایسے افراد کے ہاتھوں جمع آوری قرآ ن کے قائل ہونے کا لازمی نتیجہ تحریف قرآن کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

....................................

(1)شناخت قرآن ص111

۳۵

جبکہ تمام مسلمانوں کاعقیدہ یہ ہے کہ قرآن تحریف سے پاک ہے چونکہ قرآن امت محمدی ؐکے لئے ضابطہ حیات ہونے کے حوالے سے قرآن کو ایسی حالت میںچھوڑ کر دار بقاکی طرف کوچ کرنا ناممکن نظر آتا ہے اورقرآن جو تمام کتب آسمانی کا نچوڑ اورخلاصہ ہونے کی حیثیت سے اس کی جمع آوری کوحضرت ابوبکر جیسے عمر رسیدہ صحابی کے ذمہ ڈالیں یاحضرت عثمان کے دور حکومت کوقرآن کی جمع آوری کا زمان قرار دینا الہی عقائد اوراصول وضوابط کمزور قراردینے کے علاوہ کچھ نہیںہے ایسی باتیںدرحقیقت پیکراسلام پر ضربت اورمسلمانوںکے ساتھ خیانت کے مترادف ہے ہاں یہ ہوسکتاہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان کے دور حکومت میں تدوین شدہ قرآن کی تجدید ہوئی ہو ،ایسی باتیں فضول ہیں ورنہ کفار مکہ ومدینہ کی سیرت سے عالم اسلام بخوبی آگاہ ہے کہ حضرت پیامبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد حضرت عثمان کے دور حکومت تک کے زمان میں کیا انہوں نے اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی جانی دشمنی سے ہاتھ اٹھایا ،کیا ان کے ہاتھوں سے پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں تدوین نہ شدہ قرآن کی حفاظت کا تصور ممکن ہے ؟ایک سطر ایک ٹکڑا کا غذ یاکپڑاکہ جن میںقرآن مستور تھا یا مکتوب تھا،ایسااحتمال ہی، تحریف قرآن ثابت کر نے کے لئے کافی ہے ،جبکہ پورئے عالم اسلام کاعقیدہ یہ ہے کہ قرآن میںتحریف واقع نہیںہوئی ہے بلکہ ہمارئے عقیدہ کی بنیاد پر ہرگز تحریف کے قائل نہیں ہوسکتے اورجو قرآن اس وقت مسلمانوںکے ہاتھوں میںموجود ہے اس میںکسی قسم کااختلاف نظم وضبط اورترتیب وتدوین کے حوالے سے نظر نہیںآتا ، یہ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے یعنی قرآن کی تدوین خود پیغمبراکرم (ص) نے اپنے دورمیںاپنے خاص الخاص صحابے کے ہاتھوںکی تھی ،اگرچہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد دیگر اصحاب کے ہاتھوںقرآن کی تدوین اورجمع آوری کی بات مذاہب اورمکاتب کے درمیان مشہور ہے ،لیکن صاحبان ذوق وشعورہستی کواس مسئلہ کے بارئے میں غور وخوص کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک طرف سے ان کا عقیدہ یہ ہو کہ قرآن کی تدوین اورجمع آوری حضرت ابوبکر یاحضرت عثمان نے کی ہے دوسری طرف سے اس میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں ،لہذا زمان ومکان اورحالات کی تبدیلیوں کے پیش نظر اوراصحاب کے عملی اقدام اورمنفی پالیسیوںکو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے

۳۶

کہ قرآن کی تدوین اورجمع آوری کے اہم ترین مسئلہ کوحضرت ابو بکر اورحضرت عثمان سے منسوب کرنا اشتباہ ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیںہے صرف چند ایک ضعیف السند روایت کے ذریعے مسئلہ اعتقادی کو ثابت کرنا نا انصافی ہے لہذا اگر تاریخ میںیا کسی ضعیف السند روایت میںتدوین قرآن کی نسبت حضرت ابو بکر یا حضرت عثمان کی طرف دی گئی ہے تو اس کو تجدید تدوین یا مرمت پر محمول کیا جانا چاہیے کیونکہ مسلمانوںکاعقیدہ یہ ہے کہ اعتقادی مسائل کو خبر تواتر اوربر ہان یقینی کے ذریعے ثابت کرنا چاہیے ان کو خبر واحد یا ظنی الدلالۃ سے ثابت نہیںکیا جاسکتا ،لہذا اگر قرآن کی تدوین اورجمع آوری کے مسئلہ کوحضرت ابوبکر اورحضرت عثمان کے ہاتھوںہونے کو خبر تواتر اوربرہان قطعی الدلالۃ کے ذریعے ثابت کر سکیں تو سب سے پہلے ہم ہی قبول کریں گے کیونکہ ہم ہر وقت ہرمسئلے میںدلیل کے تابع ہیں ۔مرحوم سیوطی نے اپنی گرانبہا کتاب الاتقان میں قرآن کی تدوین حضرت ابوبکر کے ہاتھوں ہونے کے متعلق دلچسپ باتیں بیان کی ہیں اسکا اگر کڑی نظر سے غور کیا جائے تو بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر کے ہاتھوں اور دور خلافت میں قرآن کی تدوین ہونے پر دلالت کرنے والی روایت خبر واحد ہے جوبرہان ظنی ہے نہ تواتر اور برہان یقینی حال اینکہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مسائل اعتقادی برہان یقینی اور تواتر کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتے۔

جناب ابن سعد کی روایت ہے حضرت علی (ع) نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد قسم کھائی کہ جب تک میں قرآن کو بین الدفتین جمع نہ کرلوں تب تک عبازیب تن نہیں کروں گا اور آپ نے یقینا اپنے عہد کو پورا کیا۔ (1)

لہذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ حضرت ابو بکر اورعثمان کے دور خلافت میں قرآن کی تدوین بیان کرنے والی روایات ان دستہ روایات کے ساتھ ٹکراو نہیں رکھتیں جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات اور حضرت علی (ع) کے ہاتھوں قرآن کی جمع آوری اور تدوین ہونے پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ حضرت ابوبکر اورعثمان کے دورحکومت میں ان کے ہاتھوں قرآن کی

........................................

(1)صیفات ج3ص137

۳۷

جمع آوری پر دلالت کرنے والی تمام روایات خبر واحد اور ظنی ہیں جبکہ حضرت پیامبر اکرم کی حیات میں اورحضرت علی (ع) کے ہاتھوںقرآ ن کی تدوین ہونے پر دلالت کرنے والی روایات متواترہ اور برہان یقینی ہیں۔

مرحوم علامہ نے کتاب تذکرہ میں فرمایاہے جو قرآن دور حاضر میں بین الدفتین میں مسلمانوں کے ہاتھوں موجود ہے یہ عین وہی قرآن ہے جو حضرت علیؑ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جمع کیاتھا دیگر تمام مصاحف کو حضرت عثمان نے ختم اورنابود کردیاتھا۔

لہذا حقایق اور واقعیات پر پردہ ڈالنے کی خاطر شیعہ امامیہ کے عقائد پر حملہ کرتے ہوئے اسلامی معاشرے میں منبر رسول (ص) سے اس طرح خطاب کرنا کہ شیعہ امامیہ کے قرآن اور ہمارے قرآن میں فرق ہے، وہ موجودہ قرآن کے قائل نہیں ہیںان کا قرآن حضرت علی (ع) کے ہاتھوں جمع اور تدوین ہوئی ہے، وہ ہمارے قرآن سے الگ اورمختلف ہے لہذا وہ کافر ہے، کیونکہ جو قرآن ہمارے پاس موجودہے اس کے وہ مخالف ہے !ایسی بات درحقیقت شیعہ امامیہ سے منسوب کرنا نا انصافی ہے ، اگر حقیقت اور کتاب و سنت کے بالا دستی اورمسلمانوں کے مابین یکجہتی کے خواہاں ہیں تو ضرور شیعہ امامیہ کے عقائد اور علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کیجئے۔

۳۸

کاتبین وحی کاتذکرہ:

جب قرآن کے نزول کا آغاز ہوا توپیغمبر اکرم (ص) نے سب سے پہلے اس کی حفاظت کی خاطر اپنے دور کے کاتبین کو جمع کیا اور آیات قرآنی کو لکھنے اور ضبط کرنے کا حکم دیا، لہذا نزول وحی کے وقت بیشتر کاتبین حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے حضور میں ہوتے تھے اگرچہ پورے کاتبین کا ہونا لازمی نہ تھا بلکہ بسا اوقات فقط ایک نفر یا دو نفر ہوتا تھا جو پیغمبر اکرم (ص) کے دستور کے مطابق آیت کی تلاوت اور ضبط کرتے تھے. اورعلوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں معروف اور مشہور کاتبین وحی افراد ذیل قرار دیئے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام، عثمان بن عفان، ابان بن سعید، خالد بن سعید، ابی بن کعب، زید بن ثابت ، ثابت بن قیس، ارقم بن ابیّ،حنظلہ بن ربیع،عبداللہ بن ابی سرح، زبیر بن عوام، عبداللہ بن رواحہ، محمد بن مسلمۃ،عبد اللہ بن عبد اللہ ،عبداللہ بن ارقم،حنظلۃالاسدی، علاء الحضرمی، جہم بن صلت، معیقیب بن ابی فاطمہ، شرجیل بن حنسہ ان کے علاوہ اور بھی افراد کا نام مفصل کتابوں میں موجود ہے، لکن انہیں افراد میں حضرت علی - کا تب وحی کے علاوہ عہد ناموں اور رسالہ کے کاتب بھی تھے۔ (1)

ایسی روایات اور احادیث سے بخوبی واضح ہو جاتاہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے

.........................

(1)شناخت قرآن،ص95

۳۹

قرآن کی حفاظت کیلئے پوری کوشش کی ہے،لہذا معقول نہیں ہے کہ ایسا شخص، قرآن کی تدوین اور جمع آوری کو امت مسلمہ کے ذمہ چھوڑ کر چلا جائے،حتی علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں کاتبین وحی نے قرآن کو بحکم پیامبر اکرم (ص) کس چیز پرتحریر کی ان کا نام بھی بخوبی واضح کیا گیا ہے۔ (1) لہذا قرآن کی تدوین اور جمع آوری کے مسئلہ کے بارئے میں درج ذیل نظریے موجود ہیں:

الف: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں جمع آوری ہوئی ہے۔

ب: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد حضرت علی (ع) کے ہاتھوں ایک خاص کیفیت کے ساتھ قرآن کی تدوین ہوئی ہے۔

ج: حضرت ابوبکر کے دور حکومت میں قرآن کی تدوین اور جمع آوری ہوئی ہے۔

د: حضرت عثمان کے دور حکومت میں قرآن کی تدوین ہوئی ہے۔

ھ: جناب سالم یا ابی حذیفہ وغیرہ نے قرآن کی جمع آوری کی ہے۔

لیکن محققین اور پڑھے لکھے حضرات کی ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن کی تدوین او رجمع آوری کب اور کس نے کی؟ اس میں غوروخوص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی معاشرئے میںحقیقت کی عکاسی ہو ۔

.............................

1۔شناخت قرآن، ص96)

۴۰