علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر0%

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 147

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: صفحے: 147
مشاہدے: 50992
ڈاؤنلوڈ: 5672

تبصرے:

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 147 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50992 / ڈاؤنلوڈ: 5672
سائز سائز سائز
علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نزول قرآن کی وضاحت:

نزول قرآن کے متعلق کئی آیات موجود ہیں،کبھی نزول کے متعلق انزلناہ، یا نزلناہ ،یا تنزیل، یا انزل، کے علاوہ بہت سارے الفاظ جو نزل سے مشتق ہوئے ہیں موجود ہیں ان الفاظ کی بازگشت اورمرجع دو مطلب بتایا جاتا ہے۔

1۔ قرآن مجید کو اللہ نے ایک ہی دفعہ میں نازل کیا ۔

2۔ اللہ نے قرآن کو آہستہ آہستہ 23 سال کے عرصے میں نازل کیا۔

اورکچھ آیات سے نزول قرآن دفعی ہونے کا پتہ چلتا ہے جبکہ دوسرا دستہ آیات سے تدریجی ہونے کا پتہ چلتاہے ان دودستہ آیات کے درمیان بظاہر تعارض اور ٹکراو نظرآتاہے اسی لئے علوم قرآن کے ماہرین نے اس تعارض اورٹکڑاؤ کوبرطرف کرنے کی خاطر نزول قرآن کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے:

الف: دفعی

ب:تدریجی

یعنی ماہ رمضان المبارک میں قرآن، قلب حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر اتر آیا پھر 23 سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ ایک ایک آیت یاسورۃ کی شکل میںحضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوا ،لہذاقارئین محترم سے نزول قرآن کے متعلق مفصل کتابیں جومختلف زبانوںمیںلکھاجاچکاہے ان کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۱

نزول قرآن کا ہدف:

قرآن کی ترویج اور تبلیغ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے یعنی ہمیںچایئے کہ ہم قرآن کے قیمتی اور نورانی فرامین کو دنیا کے سامنے پیش کریں ۔تاکہ قرآن اورپرچم اسلام کی سربلندی کفرونفاق کی نابودی ہرقسم کے انحرافات اورغلط تہذیب وتمدن سے معاشرتی زندگی کو نجات دے سکیں ، اگر ہم اپنی ذمہ داری پر عمل کریں اورقرآن کو اللہ نے جس مقصد اورہدف کے لئے نازل کیا ہے اس کو سمجھیں تو یقینا ہم اس دور کے جابروں کے ناپاک سازشوں اورپالیسیوں سے نجات پاسکتے ہیں قرآن اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی قائم کرنے کے لئے نازل ہوا ہے قرآن کی حکمت تمام مراحل زندگی میںضروری ہے چنانچہ خود اللہ نے فرمایا : واعتصموبحبل اللہ جمیعا ولاتفرقو ''اور سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے آپس میںجدائی نہ ڈالیں (1)

یادوسری آیہ میں فرمایا : ولاتنازعو فتفشلوا وتذهبوا'' آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تمہاری قدرت اوراقدار نابود ہوجاؤگی ، (2)

اگر مسلمان حضرات ایسی آیات کو اپنا سرنامہ عمل قرار دے تو یقینا اللہ کے ایسی فرامین کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان حضرات اتحاد اور یکجہتی کو توڑ نے اور نقصان پہنچانے والی حرکات اوررفتار سے پرہیز کرینگے لہذا نزول قرآن کے اہداف کو فہر ست وار بیان کر کے اس موضوع سے اجازت چاہیں گے ۔

1۔ قرآن دیگر کتابوں کی مانند ایک کتاب معمولی نہیں ہے کہ من گھڑت داستانوں او ر کہانیوں پر مشتمل ہو بلکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جسمیں انسان کو تکامل وترقی علم ومعرفت نیک اورعاقلانہ اورحکمانہ زندگی گذار نے کی تاکید کی گئی ہے لہذا نزول قرآن کے اہداف میںسے ایک ہدایت بشر ہے جسکی طرف

...........................

1۔عمران ۔103(2)انفال 47۔

۴۲

اللہ نے اشارہ کر تے ہوئے فرمایا ہدہ للناس یا دیگر آیات میں ''هدی للمتقین'' یا ''اناهدینا ه السبیل '' کی نص موجود ہے۔ان آیات میں لفظ ہدایت کو کسی قید وشرط کے بغیر بیان کر کے یہ بتانا چاہتے ہیںکہ قرآن ہدایت تکوینی اورہدایت تشریعی کے لئے نازل کیا ہے جسمیںشک وتردید کی کوئی گنجائش نہیں ہے اورہدایت اس وقت قابل تصور ہے اگر ہم قرآن فہمی کی کلاسوں میںشرکت کر کے قرآن کو سمجھے ورنہ قرآن دیگر موجودات کی مانند ہے جو ہماری فلاح وبہبود ہی کے لئے خلق ہوئے ہیں لیکن ہماری نافہمی اورجہالت کی وجہ سے ان سے مستفیض ہونے سے محروم ہیں ۔

2۔ نیز قرآن کے نزول کے اہداف میںسے دوسرا ہدف بشرکی تربیت ہے چاہے اجتماعی تربیت ہو یا انفرادی تربیت جس کی طرف ''ویتلو علیہم آیتنا ویزکیہم ''کے ذیرعے اشارہ فرمایا ہے تربیت کو معاشرتی اورانفرادی زندگی میں مرکزیت حاصل ہے جس کے حصول کی خاطر طرح طرح کی زحمتیں اورمشقتیں اٹھانا پڑتا ہے قرآن واحد سرنامہ عمل ہے جومشیت ،تربیت کے اصول وضوابط کے بیان کرنے کے ساتھ اس کے نتائج اورعاقبت سے بھی بخوبی آگاہ کیا جارہا ہے ۔

3۔ نزول قرآن کے اہداف میںسے تیسرا ہدف تدبر اور تفکر ہے یعنی فلاسفر اورقضایا عقل سے بحث کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ فکر اورتدبر سے انسان دیگر حیوانات سے جدا ہوسکتا ہے ۔جسکی طر ف قرآن میںشدت سے تاکید کی ہے چنانچہ فرمایا ''لعلکم تتفکرون ''یا تم لوگ کیوں قرآن کے بارئے میں غور وفکر نہیں کرتے ہیں ایسی آیات تفکر وتدبر کی اہمیت کو بیان کرنے کے ساتھ تدبر وتفکر کے آثار سے بھی آگاہ کیا ہے ۔

۴۳

4۔نزول قرآن کے اہداف میںسے چوتھا ہدف عبرت بتائی جاتی ہے چنانچہ قرآن میں آدم سے لیکر خاتم تک کے امتوں کی عبرت ناک منفی اورمثبت حالات کو بیان کرکے ہمیں ان سے عبرت لینے کا درس دیتا ہے کبھی قوم لوط کا تذکرہ ،کبھی قوم ہود کاتذکرہ کبھی آدم کے فرزندان کی حالات کبھی حضرت خاتم کی امت کا تذکرہ کر کے ہمیں عبرت لینے کا حکم دیا ہے ۔

5۔نزول قرآن کے اہداف میںسے پانچواں ہدف اخلاق حسنہ سے بشر کو مزین اور رزیلہ واخلاق سیئہ سے نجات دینا ہے چنانچہ امام خمینی ؓکا فرمان ہے کہ قرآن کی تمام آیات سے چاہے اقتصادی مسائل سے مربوط ہو یا فقہی ہر ایک سے اخلاقی کوئی نہ کوئی نکتہ سمجھ میں آتا ہے ۔

6۔نزول قرآن کے اہداف میںسے ایک لوگوں کو بصیرت اور حکیمانہ وعالمانہ زندگی گذار نے کی تاکید کرتا ہے تاکہ معاشرے میں وہ حرکتیں انجام نہ دے ،جو منفی اور لو گوں کو منفی اور تنزل کی طرف لے جاتا ہے ۔

7۔ نزول قرآن کے اہداف میں سے ایک معاشرے میںعدالت اورانصاف کو رواج دینا ہے ،اور ظلم وبر بریت کو نابود کرنا ہے ، چنانچہ کئی آیات میں نظام اسلام کے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : یقوم الناس با القسط ''

8۔ قرآن کے آنے کے اہداف میں سے ایک اس دور کے ناپاک سیاسی اور منفی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کو متحد ہونے کی دعوت ہے تاکہ فرق مسلمین ''انما اللمؤمنون اخوۃ'' کے ساتھ زندگی گذار سکیں۔

۴۴

9۔ قرآن جامع ترین کتب آسمانی کی حیثیت سے دعوت دیتا ہے کہ ہر انسان کے مقررہ حقوق کی رعایت کریں حتی حیوانات اور درخت وشجر کے مقرر ہ حقوق کی رعایت کرنے کی شدت سے تاکید کرتا ہے چنانچہ کئی آیات میںصاف الفاظ میں بیان کیا ہے۔

10۔ قرآن نازل ہونے کے اہداف میں سے ایک مادی اورمثالی اورابدی زندگی کو سعادت اورآباد کرنے کی گذارش کرتا ہے ، ان کے علاوہ اور بھی اہداف واضح الفاظ میںبیان کیا ہے ،ان کے پیش نظر قرآن کو فقط اموات کے ایصال ثواب کے فاتحہ خوانی یا شادی کے وقت ختم قرآن کے لئے یا دیگر معمول امور میںمنحصر کرنا ہماری جہالت کے علاوہ کچھ نہیں رب العزت سے اس ناچیز کاوش پر امام زمانہ (ع) کی تائید کے خواہاں ہوں۔

قرائت قرآن کی اجمالی وضاحت:

علوم قرآن کے مہمترین اور پیچیدہ ترین مسائل میں سے ایک قرائت قرآن سمجھا جاتا ہے، جس کے متعلق بہت سارے محققین نے مقالے کتابیں لکھی ہیں،لہذا شاید اس کے بارے میں مزید قلم اٹھانا تحصیل حاصل کے مترادف ہو لیکن ہماری اس ناچیز زحمت کے ہدف کے حصول کی خاطر قرائت قرآن کی طرف بھی اشارہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہو ں کیونکہ ہمارے استاد محترم علوم قرآن کے ماہر آقای رجبی جو عرصہ دراز سے موسسہ امام خمینی کے علوم قرآن کے مدیر ہونے کے علاوہ حوزہ علمیہ قم میں علوم قرآن کا سپیشلسٹ سمجھا جاتا ہے، انہوں نے مؤسسۃ امام خمینی میںدیئے ہوئے اپنے لکچرز میں کئی مرتبہ فرمایا جب تک علوم قرآن کے تمام مسائل سے اجمالی بحث نہ کریں تب تک علوم قرآن کی ضرورت کا احساس نہ ہونے کے باوجود اس کی افادیت سے فیضیاب نہیں ہو سکتے ، لہذا قرائت قرآن کا مختصر خاکہ قارئین کے گوشزد کرنے میں آسانی ہونے کے علاوہ قرآن کے افہام و تفہیم کے مرحلہ میں مشکل پیش نہیں آتی۔

۴۵

حقیقت قرائت قرآن کی وضاحت کرتے ہوئے بہت سے علماء نے فرمایا قرائت یعنی قرآن کے کلمات اور الفاظ کو اس طرح پڑھنا جس طرح حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے تلاوت کی ہے۔

یا دوسرے الفاظ میں قرائت قرآن یعنی قرآن کے کلمات اور الفاظ کو ان کے مخارج اور لہجے کے ساتھ پڑھنا ۔

لیکن ہمارا مقصد قرائت قرآن کی طرف اجمالی اشارہ کرنا ہے لہذا قرائت کے معنی لغوی اور اصطلاحی سے ہٹ کر دیگر کچھ ایسے مطالب کی طرف اشارہ کردوں جو قرائت قرآن سے وابستہ ہیں کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیان اجماع ہے کہ قرآن کریم کے کلمات اور الفاظ میں سے بعض کی قرائت یقینا مختلف ہے اور مخارج کے ساتھ کتابوں میںنقل کیا گیا ہے، حتی علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی بہت سے کتابوں میں قراء سبعہ یا قراء عشرہ یا قراء اربعہ عشرہ کے عنوان سے ان کے اسامی گرامی بھی نقل کیئے گئے ہیں، چنانچہ قراء سبعہ کانام صاحب حدایق نے اس طرح بیان کیا ہے:

(1)عبداللہ بن عامر (2) عبداللہ بن کثیر (3) عاصم (4) ابو عمرو بن العلاء (5) حمزہ بن زیات (6) نافع (7) الکسائی۔

البتہ علم قرائت کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد اصحاب کے دور میں افراد ذیل کی قرائت معروف اور مشہور تھی۔(1) حضرت علیؑ (2) عثمان (3) ابن کعب (4) زید بن ثابت (5) عبداللہ بن مسعود (6) ابو الدرداء (7) ابو موسی ۔

اور اصحاب کا دور ختم ہونے کے بعد لفظ قراء ، قراء سبعہ یا قراء عشرہ یا قراء اربعہ عشرہ انہی افراد کے لئے لقب کے طور پر استعمال ہونے لگا یعنی کلمہ قراء سے ہمیشہ انہیں افراد کی طرف تبادر ہوتا تھا، لہذا مسلمانوں کے مابین اختلاف ہے کہ ان قرائت میں سے کونسی قرائت صحیح ہے ، کونسی غلط ،کیا ان تمام قرات کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہ۔

۴۶

اس مسئلہ کے بارے میں اہل سنت کے محققین میں سے ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرائت سبعہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے حتیٰ جناب سبکی نے مناہل العرفان میں فرمایا ہے قرائت عشرہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے۔ (1)

جناب مفتی البلاد الندلیسہ ابو سعید فرج ابن لب کا کہنا ہے کہ جو قرائت قراء سبعہ کو تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچے سے انکار کرے تو وہ کافر ہے، (2)

نیز ہمارے مذہب کے علماء میں سے کچھ مجتہدین کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ قرائت سبعہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے جیسے شہید اول نے کتاب ذکری میں جناب محقق شیخ علی، مرحوم جندی وغیرہ نے فرمایا قرائت سبعہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے۔ (3) لیکن مذہب تشیع کی نظر میں معروف اور مشہور نظریہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ ہم تک نہیں پہونچی ہے بلکہ انہیں قرات میں سے بعض قرائت قاری کا خود ساختہ ہے بعض ان کا اجتہاد ہے بعض قرائت اگرچہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ہے

............................

(1)مناہل العرفان ص433)

(2)مناہل العرفان ص428)

(3)حدایق ج8ص95)

۴۷

لیکن نہ تواتر کے ساتھ، بلکہ باالاحاد منقول ہے ، اور اسی نظریہ کو اہل سنت کے محققین میں سے ایک گروہ نے بھی اختیار کیاہے۔

چنانچہ مرحوم فخررازی نے نظریہ اول کو اپنی گرانبہا کتاب میں نقل کرنے کے بعد فرمایا: اتفق الاکثرون علی ان القرات المشہورۃ منقولۃ بالتواتر وفیہ اشکال لانّ..... یعنی اکثر علماء کا اجماع ہے کہ مشہور قرائت تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہے اس میں اشکال ہے کیونکہ اس نظریہ کے قائل ہونے کی صورت میں ترجیح بلا مرجح لازم آتا ہے، جو عقلا ممکن نہیں ہے۔ (1) اگرچہ ہمارے علما میں سے جیسے شہید ثانی وغیرہ قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ نقل ہونے کے طرفدار ہیں جناب فخر رازی کے اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : لیس المراد بتواترها ان کل ما ورد متواتر بل المراد الخصار المتواتر الان فی ما نقل ۔ (2)

قرائت سبعہ تواتر سے منقول ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان قرائت میں سے ہر ایک تواتر سے ہم تک پہونچی ہو بلکہ اس کا مقصد ہے کہ اب تک جو قرائت نقل کی گئی ہے انہیں میں تواتر، منحصر ہے لیکن حقیقت میں اس طرح توجیہ کرکے جواب دینا ظہور کلام کے مخالف ہے ۔

............................

(1)حدایق ج8 ص97) (2)حدایق ج8ص97

۴۸

لہذا پہلا نظریہ اگرچہ اکثر اہل تسنن اور اہل تشیع کے برجستہ علماء میں سے ایک جماعت کا نظریہ ہے لیکن اسی کی حجیت پرکوئی ٹھوس دلیل نظر نہیں آتی ہے،کیونکہ تواتر کے دعویدار سنّی ہیں، جس پر ٹھوس دلیل عقلی اور نقلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بات قبول نہیں کرسکتے ۔

ثانیاً:خود اہل سنت کی پوری ایک جماعت نے اس نظریہ کو رد کیا ہے ۔

ثالثا: پہلے نظریہ کے طرفدار اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : ''ان القرآن قد نزل علی سبعه احرف کلها شاف واف'' ۔ (1) قرآن سات حروف پر نازل ہواہے جو تمام صحیح ہے اور کافی ہے۔اور اس طرح کی ایک اور روایت جناب صدوق نے نقل کی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ان الله یامرک ان تقراء القرآن علی حرف واحد فقلت یا ربّ وسع علی امتی فقل ان الله یأمرک ان تقراء القرآن علی سبعه احرف (2)

''بتحقیق اللہ نے تجھے قرآن کو ایک حرف پر پڑھنے کا حکم دیاہے. اس وقت میں نے اللہ سے درخواست کی پالنے والے میری امت پر( رحم فرمایا) انکو تلاوت قرآن پر توسعہ فرما، اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا: آپ قرآن کوسات حرف پر تلاوت کرسکتے ہیں۔

..................................

(1) تفسیر طبری، ج1، ص9) (2)خصال ج2،ص11)

۴۹

ان روایات اور ان کی مانند دیگر تمام روایات کا جواب یہ ہے کہ یہ سند کے حوالے سے ضعیف ہونے کے علاوہ مجمل ہے ، ان تقراء القرآن علی سبعۃ احرف کا مختلف قرائت کے ساتھ پڑھنا مقصود ہے، یا کیا ہے واضح نہیں ہے۔

اس کے علاوہ مرحوم ثقۃالاسلام کلینی نے روایت کی ہے حضرت امام محمد باقر ؑ نے فرمایا: ان القرآن واحد منزل من عند الواحد و لکن الاختلاف من قبل الرواة. (1) قرآن ایک ہے جو ایک ہی کی طرف سے نازل ہواہے لہذا اگر اختلاف اور متعدد نظر آئے تو یہ راویوں کی طرف سے ہے۔روایت مطلق ہے جسمیں ہر اختلاف اور تعدد شامل ہے ، حتی قرائت کا اختلاف اور تعدد بھی۔

نیز سند صحیح کے ساتھ کلینی نے روایت کی ہے فضیل بن یسار نے کہا : میں نے حضرت امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا: ان الناس یقولون نزل القرآن علی سبعة احرف فقال کذبوا اعداء الله و لکنه نزل علی حرف واحد من عند واحد. (2) تحقیق لوگ کہا کرتے ہیں کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے (کیا یہ صحیح ہے) آپ نے فرمایا: اللہ سے بغض رکھنے والے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ قرآن ایک ہی

ہستی کی طرف سے ایک ہی حرف پر نازل ہوا ہے۔ان دو، روایتوں کو

.............................

1)الوافی، ج5،باب اختلاف القراء ات)(2)الوافی، ج5)

۵۰

نقل کرنے کے بعد مرحوم محدث کاشانی نے فرمایا:نزل علی حرف کامعنی یہ ہے کہ قرات میں سے فقط ایک صحیح ہے ۔

صاحب وافی نے مذکورہ دوحدیثوں کو نقل کرنے کے بعد فرمایا :ان احادیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرائت فقط ایک صحیح ہے، جو بھی قرائت ہے وہ اہل بیت ؑ کی قرائت کے مطابق ہے، لیکن اس کی قرائت ہمارے دور میں مشخص نہیں ہے۔

لہذا ان مطالب کے پیش نظر حضرت آیۃ اللہ العظمی خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا قرائت قرآن تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہے اورمرحوم سیوطی اور قاضی کے نظریہ کو واضح الفساد قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرا سبعۃ تواتر کے ساتھ نقل ہونے کا نظریہ صحیح نہ ہونے پر دلیل قطعی ہے۔ (1)

ان نکات کی بناء پر قرائت سبعہ با تواتر ہم تک پہونچنے کی بات قبول نہیں کر سکتے ہیں، لہذا ہم اپنی بات کی مزید استحکام کی خاطر اختلاف قرائت کے عوامل و اسباب کی طرف اشارہ کرینگے۔

1۔ کچھ اسباب و عوامل کو غیر اختیاری اور قہری سمجھا جاتا ہے جس کی بازگشت حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے دور کی طرف ہوتی ہے لہذا کہا جا سکتا ہے جو قرائت پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں

...............................

(1)البیان، ج1 ص 124 بیروت

۵۱

معمول تھی، اس دور میں قبیلے مختلف ہونے کی وجہ سے ہر ایک کا مخصوص لہجہ اور لحن ہوا کرتا تھا لہذا حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے بارہا فرمایا تم قرآن کو فصیح ترین لحن اور لہجے میں تلاوت کرو۔

اور فارابی کا کہنا ہے: کانت قریش اجود العرب اتقا لا فصیح من الالفاظ و اسهلها علی اللسان عند المنطق و احسنها مسموعا و (1) قریش ،عرب قوموں میں سے رفتار میں نیکو ترین بولنے میں فصیح ترین الفاظ کی ادائیگی میں آسان ترین سنے میںبہترین سیرت کے عادی تھے۔

اور عرب اقوام میں قریش فصاحت کے حوالے سے بنی سعد زبان کی سلامتی کے اعتبار سے معروف اور مشہور تھا،لہذا شاید اسی وجہ سے حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ''انا افصح العرب بید انی من قریش و انی نشأت فی بنی سعد بن بکر '' (2)

''میں عرب میں فصیح ترین ہستی ہوں کیونکہ میرا تعلق قریش سے ہے اور میرا نشو و نما بنی سعد بن بکر کے قبیلے میں ہوا ہے''

اور قرآن کی آیات اور الفاظ فصیح ترین اور بلیغ ترین ترکیبات کے ساتھ نازل ہوئی ہیں جبکہ اقوام عرب ،مختلف لحن ولہجے کے مالک تھے جسکو ادبی کتابوں میں مختلف قبیلوں

...........................

(1)کتاب الالفاظ والحروف)

(2)بحار الانوار، ج17،ص158

۵۲

کا لحن یا لہجہ دلیل اور برہان کے طور پرنقل بھی کیا گیا ہے۔

لہذا فصیح ترین کلام کو جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے اقوام عرب میں سے کم از کم مکہ و مدینہ کے عرب زبان والوں کی خدمت میں تلاوت کی اور یاد کرنے کی سفارش کے ساتھ ہمیشہ تلاوت کرنے کی تاکید کی اس اختلاف لحن اور لہجے کی بنا پر قرآن کی قرائت میں بھی اختلاف لحن اور لہجہ عام ہو گیاہے۔

2۔ اختلاف کی دوسری وجہ حفاّظ قرآن یا محافظین قرآن کی حفاظت اور ثبت و ضبط کی نارسائی بتایا جاتا ہے۔

یعنی بسا اوقات کوئی مسلمان مدینہ میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے کوئی آیہ سنتے تھے اسو قت معمول یہ تھا کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے سنی ہوئی آیت کو دوسرے مسلمانوں کی خدمت میں پیش کریں، اس وقت مسلمان عین وہ الفاظ جو مخصوص ہیات اور شکل و صورت میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے سنا تھا وہ فراموش کرتے تھے اس کی مانند اور شبیہ دوسری ہیئت اور لحن پر پیش کرتے تھے. اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے ایک روایت بھی منقول ہے جو اسی مطلب کی عکاسی کرتی ہے: ''و کلها شاف کاف مالم یختم آیة عذاب برحمة و آیة رحمة بعذاب کقولک هلمّ و تعالی'' (1)

...........................

(1)شناخت قرآن ص134

۵۳

وہ تمام قرااات صحیح اور کافی ہیں جب تک آیت رحمت آیت عذاب میں اور آیت عذاب آیت رحمت میں مختلف قرائت کی وجہ سے نہ بدل جائے،نیز رسم الخط اور علامت و اعراب گذاری کی وجہ سے بھی اختلاف واقع ہوا ہے جسکی مثالیں علوم قرآن کی کتابوں میں وافر مقدار میں موجود ہیںرجوع کیجیے۔

3۔ اختلاف کی تیسری وجہ کاتبین اورنساّخ کافراموش اور سہو بتایا جاتا ہے۔

چنانچہ زبیر نے ابان بن عثمان سے پوچھا المتقین کے نون پر فتحہ کیوں آیا ہے؟ ابان نے جواب میں کہا یہ کاتبین کی فراموشی اور خطاء کا نتیجہ ہے، نیز عین اسی مطلب کو عروۃ بن زبیر نے عایشہ سے نقل کیاہے، ایسے اسباب اور عوامل کو غیر اختیاری اور قہری بتایا جاتا ہے جن کے نتیجے میں قرائت قرآن متعدد اور مختلف ہو چکی ہے۔

عمدی اور اختیاری اسباب:

قرائت قرآن کے مختلف ہونے کے اسباب میں سے ایک عمدی اور اختیاری بتایا جاتا ہے جس کے بارے میں علوم قرآن کے محققین نے تفصیلی گفتگو کی ہے پھر بھی کچھ اشارہ کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں تاکہ قارئین محترم کی تشنگی کو بجھا سکیں، عمدی اور اختیاری اسباب سے مراد لیا جاتا ہے کہ قرآن کے واضح اورروشن دستور کو اپنے مفادات اور اغراض کی خاطر تلاوت قرآن اور قرائت قرآن میں تبدیلی لائی جاتی ہے تاکہ فاعل کو مفعول یا مفعول کو فاعل یا دیگر وجوہ کی شکل میں پیش کرسکیں۔

۵۴

اسی وجہ سے ہر علم میں مختلف مذاہب اور مکاتب فکر وجود میں آئے ہیں جیسے ابوعبید نے کتاب فضائل میں ابن جریر نے تفسیر میں، ابو شیخ محمد بن کعب قرظی اور حاکم مستدرک نے اسامہ سے انہوںنے محمد بن ابراہیم التمیمی سے نقل کیا ہے کہ جناب عمر نے آیت ذیل کی قرائت اس طرح کی:

''السابقون الاولون من المهاجرین والانصار'' یعنی کلمۃ انصار کو مرفوع پڑھا تاکہ سابقون پر عطف کرسکیں نہ مہاجرین پر، اور والذین میں واو عاطفہ کو حذف کرکے والذین کو انصار اور مہاجرین پر عطف کرنے کی بجائے الذین پڑھکر انصار کیلئے صفت قرار دی ہے۔

جبکہ باقی قراء نے' ' والانصار والذین التّبعوا'' کی شکل میں قرائت کی ہے یعنی الانصار کو مکسور الذین کے اوپر واو عاطفہ کے ساتھ قرات کی ہے ،ایسی قرائت کا سبب عمدی اور اختیاری تھا چونکہ ذاتی مفادات کو فروغ دینے کی خاطر اس طرح تلاوت کی ہے تاکہ سابقون انصار پر عظمت حاصل نہ کرسکیں اور تابعین کے نام سے ایک گروہ کو انصار کی عظمت اور فضیلت میں شریک قرارنہ دے سکیں، اس داستان اور کہانی کے پس منظر کو جناب بلاغی نے مقدمہ تفسیر الاء الرحمن میں یوں نقل کیاہے۔

۵۵

جب زید بن ثابت نے عمر کی خدمت میں عرض کیا الانصار اور والذین دونوں المہاجرین پر عطف ہیں تو جناب عمر تعجب کے ساتھ زید بن ثابت سے کہنے لگے میں نے گمان کیا تھا کہ سابقیت مہاجرین کا مخصوص کوئی منصب ہے،زید بن ثابت نے کہا والذین واو عاطفہ کے ساتھ پڑھنا صحیح ہے. جناب عمر نے اس کی بات نہیں مانی بارہا بغیر واو عاطفہ قرائت کرتا رہا، اس وقت زید بن ثابت نے کہا جناب خلیفہ دانا تر ہیں، جناب عمر نے ابی بن کعب کو بلا بھیجا اس سے بغیر واو قرات کی تصدیق کروانا چاہیے مگر ابی نے بھی والذین واو عاطفہ کے ساتھ قرائت کی پھر بھی جناب عمر نے نہیں مانا اور جناب عمر نے قرائت کے وقت جناب ابی بن کعب سے اشارہ بھی کیا اور کہا میری قرائت کی تصدیق کرو اس وقت ابی نے کہا خدا کی قسم اللہ کے رسولؐ نے ہمیں والذین کی شکل میں تلاوت کرکے بتایا ہے لیکن آپ بہت بڑے اشتباہ کے شکار ہے اس وقت عمر نے کہا فنعم اذن۔ (1)

لہذا کہا جا سکتا ہے کہ قرائت قرآن کی صورتحال مختلف ہونے کے اسباب عمدی میں سے قوی ترین اسباب سیاسی، کلامی اور حزبی اور عملی انگیزہ بتایا جاتا ہے،لہذا مصاحف عثمانی کو نقطہ اور اعراب کے بغیر لکھا گیا تھا تاکہ مختلف قراء ات کو جائز التلاوت قرار دے سکیں (2)

حتی اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مصاحف عثمانی کو عبدالملک بن مروان کے دور حکو مت تک بغیر نقطہ و اعراب کے رکھا گیا اس کے دور میں حجاج بن یوسف کو جو عراق

..................................

(1)شناخت قرآن، ص139) (2)تاریخ عرب قبل الاسلام ج 8 ص 186)

۵۶

کا حکمران تھا مصاحف عثمانی کو نقطہ گذاری کرنے کا حکم ہوا اس نے دو ہستیوں کو بنام نصر بن عاصم اور یحیی بن یعمر کے ذمہ پر ڈالا یہ دونوں ابوالاسود ویلی کے شاگر دتھے۔

نیز لکھا گیا ہے کہ جس مصحف میں تحریف ہونے کا خوف پیدا ہوا تو عبدالملک کے دور میں ابوالاسود ویلی کے بعد خلیل بن احمد نے نقطہ گذاری ، علائم ہمزہ تشدید (اشمام) دیگر حرکات کے کاموں کو مکمل کیا۔ (1)

لہذا قرااات مختلف ہونے کے وجوہات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین محترم مفصل کتابوں کی طرف رجوع کریں تاکہ حقیقت کی عکاسی ہو اور نماز جیسی عبادات میں ہر قرائت کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں نماز اور عبادات کی صحت یا عدم صحت کو بیان کرسکیں۔

اقسام قرات:

سیوطی مرحوم نے ابن الجزری سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ قرائت قرآن کے کئی اقسام ہیں، جیسے: متواتر، مشہور، آحاد، شاذ، موضوع ،و مدرج (2)

لیکن قرااات قرآن کواس طرح تقسیم کرنا تقسیمات منطقی کے اصول و ضوابط سے دور نظر آتا ہے کیونکہ علوم قرآن کے مباحث میں قرائت سبعہ یا قرائت عشرہ یا قرائت

.............................

(1)وفیات الاعیان) (2)اتقان

۵۷

اربعہ عشرہ متواترہ ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں محققین کے درمیان اختلاف ہے بعض محققین کا عقیدہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ متواتر ہے بعض کاعقیدہ یہ ہے قرات مشہورہ ہے متواترہ نہیں ہے لہذا دیگر اقسام کی طرف تقسیم کرکے ہر قرائت کواس مباحث میں شامل کرنا صحیح نہیں ہے یعنی قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچی ہے یا قرائت سبعہ فقط مشہور ہے، تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔

اس مسئلہ کے بارے میں چنانچہ پہلے بھی اشارہ کیاگیا کہ مرحوم آیۃاللہ خوئی کہ جس کے بارئے میں ہمارئے استاد محترم حضرت ایت اللہ العظمی وحید حفظہ اللہ کی تعبیر یہ ہے کہ ایت اللہ الخوی فحل الفوحل عصرہے، اور دیگر اکثر علماء تشیع اور بعض علماء اہل تسنن کا عقیدہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ ہم تک با تواتر نہیں پہونچی ہے بلکہ فقط مشہور ہے جس کی دلیل کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے، لیکن اس نظریہ کے مقابل میں اہل تسنن کے اکثر علماء تواتر کے قائل ہیںجبکہ ہمارے مذہب کے برجستہ علماء میں سے مرحوم سید محمد طباطبائی صاحب مفاتیح الاصول نے اپنی کتاب میں فرمایا قرائت سبعہ کے بارے میں تین نظریے ہیں:

الف:قرائت سبعہ عین وہی قرائت ہے جو حضرت جبرئیل نے حضرت پیغمبر اکرؐم کو پیش کیا تھا یہ قرائت ہم تک با تواتر پہونچی ہے،جس کے قائلین افراد ذیل ہیں:

ابن مطہر، ابن فہد محقق ثانی، شہید ثانی، حر عاملی، نیز فخر رازی نے بھی کہا ہے کہ اکثر علماء و مجتہدین اسی نظریہ کے قائل ہیں،جس کو ہم نے پہلے مفصل طور پر بیان کئے ہیں۔

۵۸

ب: بعض محققین نے تفصیل دی ہے قرائت سبعہ میں سے کچھ متواترہ ہے جیسے ملک و مالک ، جبکہ مد اور تخفیف امالہ اور ہاات لفظ متواترہ نہیں ہے، اس نظریہ کو شیخ بہائی ، عضدی اور ابن حاجب وغیرہ نے بھی پسند کیا ہے۔

ج: قرائت سبعہ چاہے ہیات لفظ سے مربوط ہو یا جوہر لفظ، کوئی بھی قرائت متواترہ نہیں ہے. جس کے قائلین افراد ذیل ہیں:

شیخ طوسی، نجم الائمہ، جمال الدین خوانساری، سید نعمت اللہ جزائری، شیخ یوسف بحرانی، سید صدر الدین، ابن طاووس، حرفوشی، زمخشری، رازی، آیت اللہ خوئی، کے علاوہ بہت سارے دیگر علماء بھی اسی نظریہ کو پسند کئے ہیں۔ (1)

لیکن چنانچہ ہم نے پہلے بھی مفصل بحث کر چکے ہیں کہ پہلے نظریے اور دوسرے نظریے کی صحت پر کوئی ٹھوس دلیل عقلی اور نقلی نہ ہونے کی وجہ سے تیسرے نظریے کو قبول کرنے پر مجبور ہیں جسکی صحت پر پہلے کئی روایات نبویؐ اور معصومین ؑکی طرف اشارہ کرنے کے باوجود حضرت آیت اللہ العظمی خوئی و فخر رازی وغیرہ نے دلیل عقلی بھی قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔

البتہ قرائت سبعہ متواترہ نہ ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز میں قرائت سبعہ کی

................................

(1)تبیان ج1، سعد السعود ص181، شناخت قرآن ص 174)

۵۹

تلاوت جائز نہیں ہے کیونکہ طرفین کے علماء اورمجتہدین نے فتوے دیے ہیں کہ قرائت سبعہ میں سے کوئی بھی ہو نماز میں مجزی اور جائز ہے،جس کی ٹھوس دلیل آئمہ اطہار کی تائید بتایا جاتا ہے یعنی معصومین کے زمان میں قرائت سبعہ میں سے ہر ایک قرائت کے ساتھ اصحاب پیغمبر اکرم (ص) اور تابعین نماز پڑھتے تھے، معصومین بھی بخوبی اس سلسلہ سے اگاہ تھے، لیکن منع نہیں کیا، لہذا ہمارے زمانے میں قرائت سبعہ میں سے جس کی قرائت نماز میں انجام دے تو نماز صحیح ہے اور جائزہے۔

شان نزول کی وضاحت:

قرآن کی آیات کو سبب نزول کے حوالے سے تین قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

الف: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کے بغیر اللہ ہی نے مصالح و مفاسد کی بنا پر نازل کیا ہے جیسے سورہ اقراء کہ سب سے پہلے نازل شدہ سورہ اور آیت بتایا جاتا ہے جس کے نزول کےلئے سوی مصالح اور مفاسد باطنی کوئی سبب خارجی نظر نہیں آتا ۔

ب: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کی وجہ سے نازل کی گئی ہےں جیسے سورہ براۃ سورہ منافقون اور وہ آیات جو اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۶۰