علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر0%

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 147

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: صفحے: 147
مشاہدے: 50989
ڈاؤنلوڈ: 5672

تبصرے:

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 147 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50989 / ڈاؤنلوڈ: 5672
سائز سائز سائز
علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

2۔ تفسیر بالراّی کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کی ہر تفسیر جایز ہے چاہے تفسیر کے بنیادی اصول و ضوابط اور شرایط کے مطابق ہویا نہ ہو بلکہ اپنے خیالات اور رای حدسیہ و اجتہاد کے مطابق ہو،پھر بھی جائز ہے ، کیونکہ اللہ نے سورہ محمد آیت 24 میں سورہ ص آیت 29 میں قرآن کے بارے میں تدبیر و تفکر کرنے کا حکم دیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اپنے اجتہاد اور خیالات کے مطابق بھی قرآن کی تفسیر کرنا چاہئے۔

لیکن اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے قرآن کو انسان کی ہدایت اور نجات کےلئے نازل کیا۔ جو سیکھنے کی صورت میں ہر انسان چاہے ذہن کے حوالہ سے ذہین ہو یا نہ ہو سمجھ سکتے ہیں،نیز ہر اہل زبان آیات محکم کو بخوبی سمجھ سکتا ہے جس کو سمجھنے کے لئے اجتہاد اور اخبار حدسیہ خیالات پردازی کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ پورے قرآن میں تین مطلب کی اشارہ کیا گیا ہے:

۸۱

(الف)اخلاقیات (ب)اعتقادات (ج) احکامات۔

انہی میں سے فقط ان آیات میں اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے جو احکام شریعہ کو بیان کرتی ہیں، وہ بھی قرآن میں بہت محدود ہیں کہ جن پر مجتہدین نے آیات الاحکام کے نام پر کتابیں لکھی ہیں جس میں فقط پانچ سو آیات بیا ن ہوئی ہیں ان میں بیشک اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا اجتہاد ساٹھ سال اسلامی تعلیمات حاصل کرنے، سولہ موضوعات پر صاحب نظر ہونے کے بعد دلیل شرعی اور عقلی کی روشنی میں ہوتاہے نہ گمان اور خیالات اور استحسان و قیاس کی رو سے ایسا اجتہاد نہ فقط جائز ہے ،بلکہ بہت سے مجتہدین کی نظر میں ایسا اجتہاد واجب کفائی ہے، کچھ دیگر مجتہدین کی نظر میں واجب عینی ہے،چنانچہ حضرت آیت اللہ مرحوم نائینی کی نظر میں احکامات میں قدرت اور استطاعت کی صورت میں اجتہاد کرنا واجب عینی ہے، نیز جن آیات میں قرآن کے متعلق تدبر اور تفکر کرنے کا حکم دیا ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے خیالات اور گمان کے مطابق قرآن کی تفسیر کریں اور جو بھی اچھا سمجھیں اللہ سے منسوب کریں بلکہ آیات قرآنی میں تدبر اور تفکر کا مقصد یہ ہے کہ قرآن دیگر کتب کی مانند نہیں ہے، جو ظاہری عبارات اور الفاظ کو پڑھیں اور فورا حکم کریں ، لہذا حقیقت میں کڑی نظر سے غور کریں تو آیات تدبر و تفکر سے تفسیر بالرّای کا جائز نہ ہونا سمجھا جاتا ہے نہ جائزہونا۔

(2)ان کی دوسری دلیل :یہ ہے کہ اگر تفسیر بالرّای جائز نہ ہوتو احکام کو تعطیل کرنا لازم آتا ہے کیونکہ آیات کی تفسیر نہ کرنے کی صورت میں احکام مجہول رہ جاتے ہیں جس سے انسان احکام الہی کو انجام نہیں دے سکتا لیکن اس دلیل کا جواب علوم قرآن کے ماہرین نے اس طرح دیا ہے کہ تمام علما اور بہت سے مجتہدین کا عقیدہ یہ ہے کہ باب اجتہاد زمان غیبت میں مفتوح ہے مجتہدین کا نظریہ زمان غیبت میں مقلدین پر حجت اور واجب العمل ہے،

۸۲

چاہے ان کا نظریہ واقع کے مطابق آئے یا نہ آئے واقع کے مطابق آنے کی صورت میں دو ثواب دیا جاتا ہے جبکہ خطا اور اشتباہ کی صورت میں اس پر عقاب نہیں کیا جاتا ہے لہذا احکام پر عمل کرنے کیلئے تفسیر بالرای کرنے کی ضرورت غلط ہے کیونکہ احکام کو انجام دینے میں مجتہدین کے فتوی کی ضرورت ہے نہ اینکہ خیالات اور گمان کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی ضرورت (1)

3)تیسری دلیل:

ایسی تفسیر کے قائلین نے بہت سی احادیث اور روایات کو نقل کیاہے جوآیات کی تفسیر میں اصحاب کے درمیان اختلاف ہونے کو بیان کرتی ہے ، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصحاب قرآن کی تفسیر اپنے اجتہاد اور آراء حدسیہ کے مطابق کرتے تھے ورنہ اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا ، لہذا اصحاب میں سے کوئی ناروا تفسیر کرتا تو دوسرے اصحاب اس کو شدت سے منع کرتے تھے، نیز ہم جانتے ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے پورے قرآن کی تفسیر نہیں کی تھی(2)

لیکن اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ ایسی دلیل دو مطلب پر مشتمل ہے :

1) اصحاب تفسیر کرتے تھے اور اس میں اختلاف بھی ہو چکا تھا۔

2) حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے پورے قرآن کی تفسیر نہیں کی تھی۔

اصحاب کا تفسیر کرنا اور اس میں اختلاف ہونے کا لازمہ تفسیر بارای کا جواز نہیں ہے ،کیونکہ

.............................................

(1)شناخت قرآن،ص206

(2)شناخت قرآن، ص207

۸۳

ان کا اختلاف دو قسم کا ہے:

الف: اختلاف عملی ۔

ب: اختلاف استعماری۔

بسا اوقات علماء کے درمیان اختلاف ہونے کا سبب زمانے کے ظالم حکمرانی کی پالیسی ہے جس کی بنا اگر کوئی تفسیر کرے یا کوئی بات اسلام سے منسوب کرے تو وہ یقینا قابل مذمت اور ممنوع ہے۔

لیکن بسا اوقات اختلاف کا سبب محققین اور مفسرین کا فہم و درک ہے اس کے بارئے میں چنانچہ پہلے بھی بیان کیا گیا اگر کوئی شخص اپنے اجتہاد کے مطابق علمی اصول و ضوابط کی روشنی میں برسوں سال مجتہدین کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد تفسیر کرے تو اس کے جواز میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کیونکہ یہ تفسیر بالرای جائز ہے، ایسی تفسیر تفسیربالرای غیر مجاز میں شامل نہیں ہے، لیکن اگر کسی نے تفسیر اپنے بالرای اور اجتہاد کی روشنی میں بغیر کسی اصول و ضوابط اور حوزہ علمیہ میں سالوں سال تلمذ کئے بغیر حزبی اور سیاسی اورمادی اہداف کے حصول کی خاطر خیالات اور گمان کی بنا پر تفسیر کی توایسی تفسیر غیر مجاز ہے، اور تفسیر بالرای حرام ہے لہذا شاید اصحاب کی تفسیر میں اختلاف ہونے کا سبب علمی اصول و ضوابط ہو نہ خیالات اور سست!۔

اور ان کے دوسرے مطلب کا جواب یہ ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے ٹھیک ہے تمام قرآن کی تفسیر نہیںکی ، لیکن تفسیر کرنے کے اصول و ضوابط کو یقینا بیان کیاہے، اور جو لوگ مکتب جعفری سے منسلک ہیں ان کی نظر میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تفسیر اور امام جعفر صادق کی تفسیر میں ان کے عقیدہ کی بنا پر کوئی فرق نہیں ہے، لہذا جو اہل بیت کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کا جانشین نہیں مانتے ان کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تفسیر نہ کرنے کی صورت میں اصحاب کی تفسیر اور نظریہ کی توجیہ اور توضیح کرنی پڑتی ہے۔

۸۴

چوتھی دلیل:

حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے کچھ اصحاب کے حق میں دعا کی ہے: '' اللهم فقّه فی الدین و علمه التاویل'' (1)

''پالنے والے ابن عباس کو دین میں سمجھ دار بنائے اور تاویل کو سمجھائے''

حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے اس جملہ دعائیہ میں تاویل سے مراد اپنے نظریہ کے مطابق تفسیر کرنااور توضیح دیناہے لہذا تفسیر بالرای جائز ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس جملے کوکسی ایسے اصحاب کی شان اور حق میں فرماتے جو تفسیر کے اصول و ضوابط سے واقف نہ تھے یا حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں زانوے تلمذ نہ کرنے والے اصحاب ہوتے تو ایسا احتمال دیا جاسکتا تھا۔

...........................................................................................

(1)شناخت قرآن ص207

۸۵

جبکہ ابن عباس تاریخ اسلام میں مفسر اور قاری قرآن کے لقب سے معروف ہیں، ثانیا جملہ دعائیہ سے اس مطلب کو ثابت کرنا نا انصافی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے اللہ سے دعا کی پالنے والے ان کو تاویل قرآن سے نوازے، تاویل قرآن اور تفسیر قرآن میں زمین و آسمان کا فرق ہے انشاء اللہ بعد میں ان کا فرق بھی بیان کرینگے، لغۃ اور اصطلاح کے حوالے سے دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں ، ان کے درمیان عام و خاص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے لہذا اسے تفسیر بالرای کا جواز ثابت کرنا اسلامی تعلیمات کے اصول و ضوابط سے آگاہ نہ ہونے کا مترادف ہے۔

پانچویں دلیل:

ابی جحیفہ سے بخاری نے صحیح بخاری باب جہل میں روایت کی ہے کہ ابی جحیفہ نے کہا میں نے حضرت علی (ع) سے پوچھا کیا قرآن کے علاوہ کوئی وحی ہے ؟ اما م علی (ع) نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شکافت کیا اور نطفہ سے انسان بنایا، ہم سوی قرآن جو اللہ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کیا نہیں جانتے ، اس روایت کا جواب یہ ہے کہ تفسیر بالرای کے قائلین نے اس روایت کے کس جملے سے استدلال کیاہے، معلوم نہیں ہے کیا قرآن کے علاوہ کوئی وحی نہ ہونے کا لازمہ قرآن میںتفسیر بالرّای کا جواز ہے؟ کیا امام علی جیسے اصحاب کے فہم و درک کو تفسیر بالراّی کہا جاتا ہے؟

۸۶

اگر اس کو تفسیر بالرای کہا جائے تو اول و دوم کے فہم و دردک کو کیا کہناچاہیے؟ جو قیاس اور استحسان کو رواج دینے میں پیشا پیش تھے، انہیں لوگوں نے اپنی بات کی تائید کے لئے غزالی کی بات کو نقل کیاہے، غزالی نے کہا، تاویل قرآن میں سماع کی شرط قرار دینا غلط ہے بلکہ ہر ایک کو اپنے فہم و درک کے اعتبار سے قرآن سے استنباط کرنا چاہیے. (1)

لیکن اس تائید کا جواب یہ ہے کہ غزالی کی کیا حیثیت ہے کہ اس کی بات کو تفسیر بالرای کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے تائید قرار دیں کیا وہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین ہیں کیا وہ صحابی رسول (ص)خدا ہیں ،کیا وہ تابعین میں سے ہیں، ایسے افراد تاریخ میں بہت ہیں جو اجتہاد درمقابل نص کے شکار ہوئے ہیںکہ جس کو تمام مسلمانوں کے عقیدہ کی بنا پر حرام سمجھا جاتا ہے رجوع کیجئے۔ (2)

لہذا کوئی ٹھوس دلیل نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ تفسیر بالرای جو کسی اصول وضوابط کے بغیر خطیب یا مفکر کی حیثیت سے بغیر کسی تحقیق اور تحصیل علوم دینی کے فقط مادی اہداف اوراغراض ومقاصد کی بنا پر کرنا حرام ہے جس کو شریعت اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے''من فسّر القرآن برایہ فیتبوا مقعدہ فی النار'' (3)

''اگر کوئی بغیر کسی اصول و ضوابط کے اپنے خیالات کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے تو اس کی جایگاہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے''

......................................

(1)احیاء العلوم،ص181)

(2)مقدمہ مراۃ العقول ج1 علامہ عسکری)

(3)شناخت قرآن ص209ا

۸۷

تفسیر قرآن کرنے کے لئے برسوں سال تعلیمات اسلامی کی تحصیل کرنے کی ضرورت ہے ، آئمہ معصومین (ع) نے آیات کی کیسی تفسیر کی ہے اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

علامہ طباطبائی، صدر المتالہین، مرحوم حضرت ایت اللہ خوئی، فیض کاشانی، وغیرہ جیسے افراد کی نظر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، یعنی تفسیر قرآن کرنے کے لئے ،سولہ موضوعات پر صاحب نظر ہونے کی ضرورت ہے ایک دو کیسٹوں یا روزناموں کا مطالعہ کرنے سے مفسر قرآن نہیں بن سکتا ہے ، ایسی تفسیر سننا اور کرنا دونوں حرام ہے۔

اگرچہ حکم واقعی اور مقصود الہی کے مطابق بھی آئے کیونکہ ایسی تفسیر خیالات اور قیاس و گمان اور استحسان کی روشنی میں کی گئی ہے کہ جس کو شریعت میں منع کیا گیا ہے، چاہے ڈاکٹر اور پروفیسر ہوں یا نہ، چنانچہ ہمارے دور میں اسلام اور کتاب و سنت کی نابودی کے لئے ایسے مفسرین کو استعمار کی مدد اور تعاون سے ذرائع ابلاغ اور جریدوں میں مشہور کیا جارہا ہے تاکہ اپنے اہداف کے حصول کے وقت کام آئے۔

۸۸

ماخذ تفسیر کی وضاحت:

زمانے کی تیز رفتاری اور حالات کی تبدیلی کے پیش نظر ضروری ہے کہ قرآن کریم کو ہر زمانے کے لوگوں کے فہم و درک کے مطابق تفسیر کریں، تاکہ قرآن کے فیوضات اور کلام الہی سے ہر ایک بہرہ مند ہو سکے لیکن تفسیر قرآن کے لئے چنانچہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے مکمل ایک اصول و ضوابط کا ہونا ضروری ہے ،جس کے بغیر کی ہوئی تفسیر کو تفسیر بالرای کہا جاتا ہے،جس کو شریعت اسلام میں ممنوع قرار دیا ہے، لہذا تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط میں سے اہم ترین اصول و ضوابط تفسیر کا ماخذ اور مصادر کہا جاتا ہے جن سے آگاہ ہونا لازم اور ضروری ہے اس کا خلاصہ درجہ ذیل ہے۔

1) قرآن کی تفسیر قرآن کی رو سے۔

2)قرآن کی تفسیر سنت کی رو سے۔

3) قرآن کی تفسیر عقل کی رو سے۔

اگر کوئی عالم با عمل قرآن کی تفسیر کرنا چاہے تو اسے چاہیے آیات کی تفسیر کا سرچشمہ قرآن اور عقل و سنت قرار دے اور ان تینوں کی روشنی میں تفسیر کرنا بھی فلسفہ، منطق اور ادبیات کے علاوہ دیگر مقدماتی علوم کوصحیح طریقے سے سیکھنے اوریاد کرنے پر متوقف ہے یعنی قرآن کی تفسیر کے لئے ان علوم کو سیکھنے کی ضرورت ہے جو ایک مجتہد کے لئے سیکھنا لازم ہے، اور انشاء اللہ بعد میں ان علوم کا نام بھی ذکر کرینگے۔

۸۹

لہذا دور حاضر میں حوزہ علمیہ کے حالات اور دینی مدارس اور طالب علموں کے حالات کے پیش نظر مفسر قرآن اور مجتہد اعلم کا پیدا کرنا بہت مشکل ہے جب کہ ہر دور میں علماء اورمحققین نے زمانے کے تمام خرافات اور اعتراضات سے اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے آئے ہیں،شاید اس کی وجہ ہماری کوتاہی اور سستی کے علاوہ کچھ نہ ہو لہذا قارئین محترم سے بیداری غفلت اور کو تاہی سے دوری کی درخواست کرتا ہے، تاکہ مذہب اور اسلام پر آنے والے بے بنیاد اعتراضات اور خرافات سے مذہب اور اسلام کو بچا سکے، چنانچہ مرحوم علامہ طباطبائی جیسے علماء بھی تاریخ تشیع میں ناشناختہ گذرے ہیں کہ برسوں سال فکر اور زحمت اٹھانے کے بعد تفسیر قرآن لکھنا سب سے زیادہ اہم قرار دیا،اور فرمایا ہر سال قرآن کی جدید سے جدید تفسیر کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ لوگ قرآن کو سمجھیں اور خرافات و توہمات سے عقائداسلام اورمذہب کی حفاظت کر سکیں۔

شرایط تفسیر قرآن:

قرآن واحد کتاب ہے جو اہل زبان بھی عام و عادی کلام کی طرح سنتے ہیں لیکن نہیں سمجھ سکتے ہیں اسی سے تفسیر قرآن کی اہمیت کا اندازہ بخوبی کرسکتے ہیں تفسیر قرآن کرنے کے لئے اس کو سمجھنے کی خاطرکئی علوم پر مہارت حاصل کرنے کے علاوہ تفسیر کرنے کی مخصوص نہج اور روش سے بھی بخوبی اگاہ ہونے کی ضرورت ہے لہذا وہ علوم جو مفسر قرآن کے لئے سیکھنااوریاد کرنالازم ہے وہ درجہ ذیل ہیں:

۹۰

1)علم لغت

2)علم صرف

3)علم اشتقاق

4)علم نحو و اعراب

5)علم معانی بیان

6) علم قرائت

7) علم کلام و اصول عقائد

8) علم اصول الفقہ

9)علم اسباب نزول

10) علم روایات

11) علم تاریخ

12) فقہی مسائل کہ جن کاتذکرہ قرآن میں ہوا ہے اس پر بھی علم ہونا چاہے ، ان تما م علوم کو سیکھنے کے بعد تفسیر قرآن کے لئے اہم ترین شرط خلوص نیت ہے ، خلوص نیت کے بغیر تفسیرقرآن ناقص رہے گی، کیونکہ ہر وہ کام جو خلوص نیت سے انجام پاتا ہے وہ یقینا اللہ تبارک و تعالی کی نظر میں قابل قبول ہے۔

۹۱

تاریخ تفسیر قرآن کی وضاحت:

ہم تفسیر قران کے حوالے سے زمانے کو تین قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

1)زمان معصومین ۔

2) زمان اصحاب۔

3) زمان تابعین و ما بعد الی زماننا ہذا۔

معصومین کے دور میں قرآن کے متعلق دو بنیادی کا م انجام پائے تھے:

الف) قرآن کریم کو جس طرح اللہ کی طرف سے نازل ہوا تھا اسی طرح عین وہی الفاظ اور کلمات کسی قسم کی کمی کے بغیر لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنا۔

ب) اس زمانے کے لوگوں کے فہم و درک کی حیثیت سے لوگوں کو حقائق قرآ ن سے با خبر کرنا

۹۲

لہذا خود قرآن کریم صاف لفظوں میں بیان کرتا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) قرآن کریم کے سب سے پہلے مفسر ہیں''سورہ نحل آیت 44 میں اس طرح کی تفسیر موجود ہے ''و النزلنا الیک الذکر لتبین للناس ''اس مطلب کو ثابت کرنے کی خاطر قرآن کریم کے ماہرین اور محققین نے اپنی گرانبہا کتابوں میں بہت ساری احادیث اور آیات کی طرف اشارہ فرمایا ہے رجوع کرسکتے ہیں۔ (1)

ابن خلدون کا کہنا ہے کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس کی فصاحت و بلاغت اور مفردات کے معانی لغوی سے ہر اہل زبان با خبر تھے لیکن جملے اور حقایق قرآن اور ناسخ و منسوخ اوردیگر مسائل کے حوالے سے قرآن ہر کس و ناکس کے فہم و درک سے بالاتر تھا لہذا حضرت پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کو ایسے مطالب اور آیت کی حقیقت کی تفسیر کرتے تھے۔

عین اسی طرح کی باتیںا بو الفتوح رازی سیوطی وغیرہ نے بھی کی ہیں،رجوع کریں۔

......................................

(1)روض الجنان،ج1،ابو الفتوح رازی، الاتقان ج2، جلال الدین سیوطی، ابن خلدون مقدمہ، طبرسی مجمع البیان،ج1۔

۹۳

حتی بعضی احادیث میں اس طرح کے الفاظ موجود ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے نہ فقط لوگوں کو قرآن کی تفسیر سے آگاہ فرمایا بلکہ ہر آیت کی تفسیر کرنے کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط اور نہج و روش کی طرف بھی لوگوں کے ذہنوں کومبذول فرمایا تاکہ لوگوں کو تفسیر بالرای سے بچا سکیں،رجوع کریں۔ (1) نیز از نظر عقل بھی پہلا مفسر حضرت پیغمبر اکرم (ص) ہی کوہونا چاہیے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی ذمہ داری ہی یہی تھی کہ لوگوں کو معارف اسلامی اوراحکام الہی سے باخبر کریں اس کا لازمی نتیجہ قرآن کی تفسیر اور توضیح ہے کیونکہ ہر انسان کی ذہانت اورفہم و درک یکسان نہ ہونے کے باوجود ہر کلیات اور جزئیات، کنایات اور اشارات کو بغیر کسی تفسیر کے درک نہیں کرسکتے ہیں۔

دوسرے مفسر قرآن:

حضرت علی علیہ السلام ہیں، جو ہر وقت معارف اسلامی اور دستور الہی کے محافظ کی حیثیت سے آغاز وحی سے اختتام وحی تک حضرت پیغمبر اکرم کے شانہ بہ شانہ قرآن کی تفسیر اور حفاظت کرتے رہے ہیں اہل سنت بھی آپ کو مفسر قرآن اور برجستہ اصحاب رسول میں سے شمار کرتے ہیں۔عطا بن ابی ریاح نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا ''أکان فی اصحاب محمد (ص)العلم من علی قال لا والله لا اعلمه.''

.....................................

(1)الاتقان ج2 ص296و روض الجنان ج1ص53

۹۴

کیا حضرت رسولؐ کے اصحاب میں حضرت علی (ع) سے عالم تر کوئی ہے آپ نے فرمایا خدا کی قسم اس سے عالم تر کوئی نہیں ہے۔ (1)

یا دوسری حدیث میں آنحضرت نے فرمایا: '' علی مع القرآن و القرآن مع علی'' (2)

'' علی (ع)قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی (ع) کے ساتھ ہے''

نیز ابن مسعود سے روایت کی گئی ہے:

ان القرآن أنزل علی سبعة احرف ما منها حرف الا و له ظهر و بطن وا ن علی بن ابی طالب عنده منه الظاهر والباطن . (3)

تحقیق قرآن کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے انہیں حروف میں سے ہر ایک کا ظاہر و باطن بھی ہوا کرتا ہے اور حضرت علی (ع) ہی اس کے باطن اور ظاہر سے آگاہ ہیں۔

جناب ذہبی نے اپنی گرانبہا التفسیر میں فرمایا: کان علی رضی الله عنه بحری فی العلم.. ''حضرت علی (ع)علم کے در یاتھے'' (4)

.........................................

(1)ذہبی التفسیر ج1 ص79

(2)کنز العمال ج2ص 201

(3)الاتقان ج2 ص187

(4)التفسیر التفسیر ج1ص89

۹۵

نیز ابن عباس نے کہا'' ما اخذت من تفسیر القرآن فعن علی ابن ابی طالب'' (1) 'جو کچھ میں نے قرآن کی تفسیر کی ہے وہ حضرت علی (ع) سے دریافت کی ہے'' لہذا تفسیر قرآن ،تاویل قرآن، ناسخ و منسوخ ،عام و خاص ، مطلق و مقید ، محکمات و متشابہات اور حروف مقطعات یعنی حقائق قرآن من البدوی الی ختم حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) ہی جانتے تھے انہیں سے ہی تفسیر کے اصول و ضوابط کو لینا چاہیے ان کے اصول و ضوابط سے ہٹ کر،کی ہوئی تفسیر جتنے اچھے الفاظ اور حسن سلوک پر مشتمل ہو تفسیربالرای کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ان کے بعد مرحلہ سوم میں مفسرین قرآن آئمہ معصومین علیہم السلام شمار کئے جاتے ہیں، اگر چہ نزول قرآن کے وقت یا حیات طیبہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کو درک نہ بھی کیا ہو، کیونکہ یہ حضرات جس طرح حضرت پیغمبر اکرم (ص)حجت خدا اور اللہ کی طرف سے رسول اور نبی تھے، اس طرح وہ ان کے جانشین اور وصی ہیں، وصی عین موصی کی ذمہ داری اور تکالیف کو انجام دینے کے لئے ہی منصوب کئے گئے ہیں چنانچہ حضرت امام محمد باقر یا امام جعفر صادق سے منقول احادیث اور روایات سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ آئمہ معصومین (ع) ہر دور میں زمانے کے ظالم حکمرانوں سے سینہ بہ تن ہو کر قرآن کی تفسیر اور وضاحت کرتے رہے لہذا آج جب

..........................................

(1)التفسیر التفسیر ج1ص89)

۹۶

علماء اور محققین در منثور یا المنار جیسی تفاسیر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آئمہ معصومین نے قرآن کی تفسیر کرنے میں کتنی سنگین اور مشکل دشواریوں سے مقابلہ کیا ہے ،رجوع کیجئے۔ (1)

اصحاب میں سے جو مفسر قرآن تھے:

اصحاب میں سے جو مفسر قرآن ہے ان کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

الف) اصحاب رسول میں سے مفسر قرآن۔

ب) دیگر آئمہ معصومین (ع) کے اصحاب میں سے جو مفسر قرآن ہیں۔

1) عبداللہ ابن عباس: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے چچا ذاد بھائی تھے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے وقت ان کی عمر 13 سال بتا ئی جاتی ہے آپ بچپنے سے ہی حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ہوتے تھے لہذا اصحاب رسول (ص) میں سے شمار کیا جاتا ہے ، حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا: ''اللهم علّمه الحکمة'' (2) ''پروردگارا اس کو دین میں فقیہ بنا ئے اور اس کو تاویل یعنی تفسیر قرآن سے نوازے''حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے آپ کو اپنی آغوش میں لیاتھا اور فرمایا کرتے تھے : ''اللهم فقهه فی الدین و انتشر منه'' (3)''پروردگارا اس کو دین میں فقیہ بنا اور دین کی نشر و اشاعت کرنے کی توفیق عطا فرما''

.......................................

(1)در منثور، المنار، صافی

(2)التفسیر التفسیر ج1 ص68

(3)سفینۃ البحار ج2 ص 154

۹۷

لہذا علوم قرآن میں آپ کی شخصیت اور مقام و منزلت کا اندازہ ایسے القاب سے بخوبی ہوسکتاہے کہ ابن عباس کو ترجمان القرآن ،فارس القرآ ن ، احبر الامۃ، بحر الامۃ، رئیس المفسرین ، شیخ المفسرین سے یاد کیاجاتاہے۔ (1)

اگر چہ بہت سارے محققین اور مفکرین نے آپ کو حضرت امام علی (ع) کے شاگردوں اور اصحاب میں سے شمار کیاہے۔

لہذا جناب ذہبی نے اپنی گرانبہا کتاب میں نقل کیا ہے:ما اخذت من تفسیر القرآن فعن علی ابن ابی طالب'' (2)

''جو کچھ میں نے تفسیر قران کی ہے وہ حضرت علی ابن ابی طالب سے دریافت کی ہے، اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی (ع) نے ہی ان کو تفسیر کے اصول و ضوابط سے آگاہ کرایا تھا۔

لیکن ابن عباس کا اصحاب رسولؐ میں سے ہو جانا اور حضرت علی (ع) کے شاگردوں میں سے شمار کئے جانے میں کوئی تضاد اور ٹکراو نہیں پایا جاتا ہے ،ہم اس کو اصحاب رسول (ص) کے مفسر ین میںسے شمار کرسکتے ہیں۔

2۔ عبدا للہ ابن مسعود :آپ سے تفسیر قرآن کے بارئے میں بہت زیادہ احادیث منقول

.......................................

(1)مقدمہ تفسیر مال مراغی)

(2)التفسیر التفسیر ج1 ص89

۹۸

ہیں آپ حافظ قرآن تھے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے خاص الخاص اصحاب میںسے شمار کیا جاتا ہے حتی بعض محققین نے اپنی کتابوںمیںلکھا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) عبد اللہ ابن مسعود کی زبان سے قرآن کی تلاوت کی سماعت کو پسند کرتے تھے ۔ (1) 1

مفکرین اورمحققین ان کو ان گیارہ افراد میں سے قرار دیتے ہیں جو خاندان اہل بیت سے دوستی اور محبت کر نے میں معروف اور مشہور تھے ،آپ تفسیر قرآن اور علم قرائت میںبہت زیادہ معلومات کے حامل تھے ،حتی کچھ محققین آپ کو اسلامی مفسرین میں سے اہم مفسر سمجھتے ہیں،اور تابعین کے زمانے میں کوفہ کے مفسرین کے اصول وضوابط اور پایہ گذاری ،تفسیر ابن مسعود بتا یا گیا ہے ۔

3۔ ابی ابن کعب: آپ احباریہود میںسے تھے جب آپ مسلمان ہوئے تو کاتبین وحی قرار پایا ، آپ اصحاب کے دور میں مشہور ومعروف مفسر قرآن سے یاد کرتے تھے آپ قدیم یہودی کتابوںسے آگاہ تھے ،لہذا آپکی عظمت اوراہمیت دوسرئے مفسرین کی بہ نسبت زیادہ ہے ،جناب طبرسی علیہ الرحمۃ جیسے مفسر قرآن نے اپنی تفسیر میںہر مطلب پر ابی ابن کعب کے نظریے اوراحادیث سے استدلال کیا ہے۔

.......................................

(1)سفینۃ البحار ج 2 ،ص 37

۹۹

4۔ جابر بن عبد اللہ انصاری : اصحاب کے دور میں مشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک جابربن عبد ا للہ انصاری ہیں ،جناب ابی الخیر نے اپنی کتاب طبقات المفسرین میں اس کو مفسرین کے پہلے طبقہ میںشمار کیا ہے ،آپ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ 18 جنگوں میں شرکت کی اور جنگ صفین میں آپ نے اصحاب علی (ع) کی حیثیت سے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا آپ پیغمبر اکرم (ص) کے طویل العمر اصحاب میںسے تھے امام محمد باقر کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کا سلام عرض کیا ، جناب عطیہ تابعین کے مفسرین میں سے تھے ،روایت کی ہے جب امام حسین کی شہادت کے بعد جابر نے حضرت کی زیارت کوآنا چاہا تو عطیہ بھی آپکے ہمراہ تھے آپکی شخصیت رجال اوردرایہ جیسے موضوعات پر لکھی ہوئی کتابوں میںواضح الفاظ میں بیان ہوئی ہے آپ 94سال کی عمر میں دنیا سے رخصت کر گئے ۔ (1)

5۔زیدبن ثابت :اصحاب کے دور میںمشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک تھے آپ پیغمبر ؐ کے دور میں کاتبین وحی میں سے ایک تھے ، آپ مدینہ منورہ میں قضاوت اور فتوی وعلم قرائت سے لوگوں کو سیراب کرتے رہے جب ابو بکر کا دور شروع ہوا تو زیدبن ثابت کوقرآن کی جمع آوری کا حکم دیا ،نیز دور عثمانی میں عثمان بھی قرآن کو زیدبن ثابت کی قرآت کے مطابق قرات کرنے کی تائید کی ۔

.......................................

(1)اسد الغابۃ ج 1 ص 258

۱۰۰