وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں0%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف: ڈاکٹر سید محمد حسینی قزوینی
زمرہ جات:

صفحے: 274
مشاہدے: 154882
ڈاؤنلوڈ: 4994

تبصرے:

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 154882 / ڈاؤنلوڈ: 4994
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

المشرکین صادرواماله )وہابی اگرکسی تاجر کو مشرکوں (غیروہابیوں )کی طرف مال لے جاتے راستے میں دیکھ لیتے تو اس سے وہ مال چھین لیتے۔( ۱ )

۱۲۔بیت اللہ کے حاجیوں کاقتل :

الف ۔یمنی حاجیوں کاقتل :۱۳۴۱ہجری میں خالی ہاتھ یمنی حجاج کرام کاراستہ روکا پہلے تو ا نہیں پناہ دی لیکن جب پہاڑکے اوپر پوزیشن لے لی تونیچے موجود حاجیوں پرتوپوں کے دہانے کھول دیئے جس سے فقط دوحاجی جان بچاکر نکلے اورلوگوں کو اس وحشیانہ حملے کی خبردی ۔

ب۔منٰی میں مصری حاجیوں کا قتل:۱۳۴۴ہجری میں وہابیوں نے منی میں مصری حاجیوں کے بعض اعمال کو حرام قراردیتے ہوئے ان میں سے کئی ایک کومارڈالا۔

ج۔ایرانی حجاج کا قتل: چارذی الحجہ ۱۴۰۷ہجری کو آل سعود کے وہابی خدام نے ہزاروں حاجیوں کو مکہ میں مشرکین سے برائت کی صدابلند کرنے کے جرم میں خون میں لت پت کیا یہاں تک کہ ان کے درمیان موجودملاںیہ فریاد بلند کررہے تھے: مشرکوں اورمجوسیوں کوقتل کرڈالو، اس تلخ واقعہ کے ایک عینی شاہد یوں نقل کرتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ سعودی ہاتھ میں لاٹھیاںلئے اپنے دونوںہاتھوںسے زور زورسے عورتوں کے سروں پہ مارکرا نہیں زمین پرگرا

____________________

(۱)عنوان المجد فی تاریخ نجد ۱:۱۲۲

۱۲۱

تے جارہے تھیاے کاش!کہ اسی مارنے پرہی اکتفاکیاہوتا لیکن جب کوئی خاتون گرتی تو پیچھے سے آنے والااس کے سرمیں ڈنڈامارکراسے جان سے ماردیتا۔( ۱ )

د۔بحرینی حجاج پر حملہ: مہرماہ ۱۳۸۶بمطابق ۲۰۰۷مسجدالحرام کے اطراف میں گلیوں میں چھپے ہوئے متعصب وہابیوں نے جیسے ہی بحرینی شیعوں کوبس سے اترتے دیکھاتو تیزدھارکاٹنے والے شیشے کے ٹکڑوں سے ان پرحملہ کردیا اورطرح طرح کی گالیاں ، جیسے شیعہ کتے ، کافروغیرہ دینے لگے ،( ۲ )

۱۳۔اردن کے بے دفاع لوگوں کاقتل :

۱۳۴۳ھ میں وہابیوں کے ایک گروہ نے اچانک اردن پردھاوابول دیا اورام العمد اوراس کے اطراف میں بے خبر لوگوں پرحملہ کیا ، بے گناہ عورتوں اورمردوں کوقتل اوران کے اموال کوغارت کیالیکن تھوڑی ہی دیر بعد بعض کے راند ے جانے اور بعض کے اسیر ہوجانے سے باقی پیچھے ہٹ گئے البتہ گرفتار ہوجانے والے وہابیوں کو برطانیہ کے حکم پررہاکردیاگیا ، ۱۳۴۶ھ میں وہابیوں نے دوبارہ تیس ہزارکالشکر لے کر اردن پرحملہ کردیا جس کے نتیجہ میں بہت زیادہ قتل وغارت اورخونریزی ہوئی ۔( ۳ )

____________________

(۱)روزنامہ جمہوری اسلامی ایران ، ۱۶آذر۱۳۶۶، سید رضاسوی کاظمی محمدی نا ئنی کے واقعات ۔

(۲) www. shin_ news.com

(۳) www.salaf_ blogfa.com

۱۲۲

۱۴۔امام موسی کاظم علیہ السلام کے عزادروںکاقتل :

۲۵رجب ۲۰۰۶ء میں امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے دن وہابیوں نے امام علیہ السلام کے روضہ مبارک کے اطراف میں مسموم غذا تقسیم کرکے اورنیزکاظمین میں عزاداروں کے دستوںمیں متعدد بم دھماکے کرکے پندرہ سوشیعہ عزاداروں کوشہید کردیا۔

۱۵۔افغانستان میں وھابی طالبان کے مظالم :

۱۹۹۶ء میں وہابیوں کاایک گروہ طالبان کے نام سے افغانستان میں میدان جنگ میں اتراجسے سعودی عرب اورامریکہ کی حمایت حاصل تھی ۱۹۹۶ء میں انہوں نے کابل پرقبضہ کرکے شیعوں کاقتل عام کیا ، ۱۹۹۹ء میں مزارشریف کے لوگوں کو تہہ تیغ کیا اورپھر ہسپتالوں پرحملہ کرکے شیعہ بیمار وں کوتختوں پرہی شہید کردیا۔

روز عاشورہ جب قند ھارکے شیعہ امام بارگاہومیں عزاداری میں مشغول تھے تو ظالم وہابیوں نے اچانک حملہ کرکے دردناک طریقے سے کئی ایک کو شھید کردیا ۔( ۲ )

____________________

(۲)شبہائے پیشاور ،۱:۳۴۶،تحقیق عبدالرضادرایتی۔

۱۲۳

فصل چہارم

وہابیت اورخداکی شناخت

۱۔ابن تیمیہ مروج افکارتجسیم :

بانی افکاروہابیت ابن تیمیہ نے جن عقائد کوپھیلانے کی کوشش کی ان میں سے ایک خداوندمتعال کے جسم ہونے اورجسم وجسمانیت کے لوازم جیسے کرسی پربیٹھنا ، ہنسنااورچلنا وغیرہ پرعقیدہ رکھنا ہے ۔

ابن تیمیہ کہتاہے :''لیس فی کتاب الله ولاسنة رسوله ولاقول احد من سلف الامة وائمتها انه لیس بجسم وان صفاته لیست اجساما واعراضا ؟!فنفی المعانی الثابتة بالشرع والعقل بنفی الفاظ لم ینف معناها شرع ولاعقل، جهل وضلال '' ( ۱ )

____________________

(۱)التأسیس فی رد اساس التقدیس ۱:۱۰۱

۱۲۴

کتاب خدا ،سنت رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اسی طرح آئمہ سلف کے اقوال میں سے کسی میں یہ نہیں ہے کہ خداجسم نہیں رکھتا اور جسم وعرض ہو نے سے منزہ ہے لہذاایک ایسے معنی کا انکار کرنا جسے عقل وشریعت نے رد نہیں کیا ایک طرح کی نادانی اور گمراہی ہے ۔

اور پھر لکھتا ہے:

''والکلام فی وصف الله بالجسم نفیاواثباتا بدعة ، لم یقل احد من سلف الامة وائمتها ان الله لیس بجسم ، کمالم یقولوا ان الله جسم '' ( ۱ )

خدا وند متعال کے جسم ہو نے کی نفی واثبات کے بارے میں بحث کرنا بدعت ہے آئمہ امت اور سلف میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ خدا جسم نہیں رکھتا جیسا کہ یہ بھی نہیں کہا کہ وہ جسم رکھتا ہے ۔ایک اور مقام پر لکھا ہے :( ۲ )

قرآن وسنت اور صحابہ وتابعین کے کلام میں کہیں پہ مشبہ (جو خدا کو مخلوقات سے تشبیہ دیتے ہیں ) کی مذمت نہیں کی گئی ہے ۔( ۳ )

____________________

(۱)الفتاوی ۵:۱۹۲

(۲)فاسم المشبهة لیس له ذکر بذم ، فی الکتاب والسنة ولاکلام احد من الصحابة والتابعین

(۳)بیان تلبیس الجھمیة فی تاسیس بدعھم الکلامیة ۱:۱۰۹

۱۲۵

۲۔جسمانیت خدا وند متعال اور سعودی عرب کی فتوی دینے والی اعلی کمیٹی :

خدا وند متعال کی جسمانیت کے بارے میں ہو نے والے سوال کے جواب میں سعودی عرب کی فتوی دینے والی اعلی کمیٹی نے یوں لکھا ہے :( ۱ )

چونکہ جسمانیت خدا کی نفی واثبات کے بارے میں روایات میں بیان نہیں کیا گیا بنا بر ایں مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اسکی نفی یا اثبا ت کے بارے میں بحث کرے اسلئے کہ صفا ت خدا توقیفی ہیں (یعنی جو کچھ آیات وروایات میں بیان ہوا اسکے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے )۔

۳۔وہابیوں کے خداکا مسکرانا :

ابن تیمیہ اپنے رسالئہ عقیدہ الحمویةمیں لکھتا ہے :

خدا مسکراتا ہے اور روزقیامت مسکراتے ہوئے اپنے بندوں پر تجلی کرے گا۔( ۲ )

۴۔وہابیوں کے خدا کا عرش سے زمین پر آنا :

ابن تیمیہ کہتا ہے :خدا ہر رات آسمان سے زمین پر اتر کر صدا دیتا ہے کہ ہے کوئی جو مجھے پکارے تاکہ میں اسکی حاجت پوری کروں ؟ہے کوئی جو مجھ سے بخشش

____________________

(۱)ونظراً الی ان التجسیم لم یرد فی النصوص نفیه ولااثباته فلا یجوز للمسلم نفیه ولااثباته لان الصفات توقیفیة (فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳:۲۲۷.

(۲)مجموعہ الرسائل الکبری :۴۵۱، رسالہ ۱۱

۱۲۶

طلب کرے تاکہ میں اسے بخش دوں ...؟اور یہ کام طلو ع فجر تک انجا م دیتا ہے اسکے بعد لکھتا ہے :

''فمن انکرالنزول اوتاول فهو مبتدع ضالّ ''( ۱ ) جو بھی خداکے آسمان سے زمین پر نازل ہونے کا انکار کرے یا اسکی توجیہ کرے وہ بدعت گزار اور گمراہ ہے ۔

ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں لکھتاہے :

جب میں دمشق کی جا مع مسجد میں تھا تو ابن تیمہ نے منبر پہ کہا :

ان الله ینزل الی السماء الدنیا کنزولی هذا .خداعالم دنیا کی طرف ایسے ہی اتر تا ہے جیسے میں اتر رہا ہو ں اور پھر منبر سے ایک زینہ نیچے اترا ۔

مالکی فقیہ ابن الزہراء نے اس پر اعتراض کیا اور اس کے عقائد کو ملک ناصر تک پہنچایا ۔اس نے اسے زندان میں ڈالنے کا حکم صادر کیا اور وہ زندان میں ہی مرگیا ۔( ۲ )

۵۔وہابیوں کا خدا آنکھ سے دیکھا جا سکتاہے ۔

ابن تیمیہ علامہ حلی کی کتاب منھاج الکرامہ کے رد میں لکھی گئی اپنی کتاب منھاج السنةمیں لکھتا ہے :

____________________

(۱)مجموعہ الرسائل الکبری :۴۵۱، رسالہ ۱۱

(۲)رحلة ابن بطوطہ :۱۱۳

۱۲۷

آئمہ سلف و گزشتگان اور مذاہب اربعہ کے تمام مسلمانوں کا قول یہی ہے کہ آخرت میں خدا کو آنکھو ں سے دیکھا جاسکتا ہے اور علماء حدیث نے اس بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کو تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے ۔( ۱ )

۶۔وہابیو ں کا خدا ہر جگہ نہیں ہوسکتا :

سعودی عرب میں فتوی جاری کرنے والی اعلی کمیٹی سے سوال کیا گیا :

ایسا شخص جو خدا وند متعال کے ہر جگہ موجود ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے اسکا شرعی حکم کیا ہے ؟اور اسے کیسے جواب دیا جاسکتا ہے ؟

تواس کمیٹی نے یوں جواب دیا:

اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ خداعرش پر ہے اور دنیا میں نہیں ہے بلکہ اس عالم سے خارج ہے خدا کے مخلوقات سے بلندی پر ہونے کی دلیل وہی اسکی طرف سے قرآن کا نزول ہے اور واضح ہے کہ نزو ل ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجیدمیں بیان ہوا :( وانزلناالیک الکتاب بالحق ) ۔( ۲ )

ترجمہ: ہم نے قرآن کو آپکی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ۔

____________________

(۱)امااثبات رویةالله بالابصار فی الآخر ة فهو قول سلف وائمتها وجماهیر المسلمین من اهل المذاهب الاربعة وغیرها وقد تواترت فیه الاحادیث عن النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عندعلماء الحدیث ۔منھاج السنہ۳:۳۴۱

(۲)مائدہ، ۵: ۴۸

۱۲۸

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب ایک کنیز کو آزاد کروانا چاہا تو اس سے پوچھا :خدا کہا ں ہے ؟کہنے لگی :آسمانوں میں ،فرمایا : میں کون ہوں ؟عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں ۔

اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکے مالک سے فرمایا :یہ خاتو ن صاحب ایمان ہے اور تو اسے آزاد کرسکتا ہے ۔

اسی طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمانوں میں ہے اور آسمانوں کی خبریں ہر صبح وشام مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں ۔

اور پھر سعودی فتوٰی کمیٹی لکھتی ہے :

(من اعتقد ان الله فی کل مکان فهو من الحلولیة ویرد علیه بما تقدم من الادلة علی ان الله فی جهة العلو، وانه مستوعلی عرشه ، بائن من خلقه ، فان انقاد لمادل علیه الکتاب والسنة والاجماع ، والافهوکافر مرتدعن الاسلام ،( ۱ )

جو بھی یہ عقیدہ رکھے کہ خدا وندمتعال ہرجگہ موجود ہے تو وہ دنیا میں خدا کے حلول کا قائل ہوا ایسے شخص کوسابقہ ادلة سے بیان کرنا چاہئے کہ خدا بلندی میں عرش پر موجود ہے اوراس عالم سے خارج ہے ، اگر قبول کرلے توصحیح ورنہ کافر ،مرتد اوراسلام کے دائرہ سے خارج ہے ۔

____________________

(۱)فتاوی اللجنة للبحوث العلمیة والافتاء ۳ :۲۱۶و۲۱۸.

۱۲۹

۷۔وہابیوں کے خدا کا مچھر پر بیٹھنا:

ابن تیمیہ کہتا ہے :(ولوقد شاء لاستقرعلی ظهر بعوضة فاستقلت به بقدرته ولطف ربوبیته فکیف علی عرش عظیم ، اگرخدا چاہے تو مچھر کی پشت پربھی بیٹھ سکتا ہے تو پھر عرش عظیم پرکیوں نہیں ؟( ۱ )

۸۔وہابیوں کا خدا نوجوان اورگھنگھریالے بالوںوالاہے :

ابویعلی نے عبداللہ بن عباس سے نقل کیاہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: (رایت ربی عزوجل شاب امردجعدقطط ، علیہ حلیة حمرائ،

میں نے اپنے رب کودیکھا وہ نوجوان اورابھی اس کی ڈاڑھی کے بال نہیں آئے تھے سر کے بال گھنگریالے اورسرخ زیور سے مزین تھا۔

ابویعلی اپنی دوسری کتاب میں لکھتا ہے :

ابوزرعہ دمشقی نے اس روایت کو صحیح قرار دیاہے ...اوراحمد بن حنبل نے کہاہے (هذاحدیث رواه الکبری عنالکبر عن الصحابة عن النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فمن شک فی ذلک اوفی شئی منه فهو جهمی لاتقبل شهادته ولایسلم علیه ولایعادفی مرضه ، اس حدیث کو بزرگان نے اکابر صحابہ کے واسطے سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے اورجو بھی اس کے صحیح ہونے میں شک کرے وہ جہنمی ہے اس کی شہادت قبول نہیں ہوگی نہ اس پرسلام کیاجائے گا اورنہ ہی بیمار ہونے کی

صورت میں اس کی عیادت کی جائے گی۔(۲)

____________________

(۱)التاسیس فی رداساس التقدیس ۱:۵۶۸

(۲)طبقات الحنابلة ۳:۸۲۸۱، ابطال التاویلات ،۱:۱۴۱، تالیف ابویعلی

۱۳۰

۹۔وہابیوں کے خدا کا آنکھ کے دردمیں مبتلاہونا :

شہر ستانی متوفی ۵۴۸ہجری مشبھہ کے خرافات کو نقل کرنے کے بعد لکھتاہے :

وزادوافی الاخبار اکاذیب وضعوها ونسبوها الی النبی علیه الصلاة والسلامواکثر ها مقتبسة من الیهود فان التشبیه فیهم طباع حتی قالوا :شتکت عیناه فعادته الملائکة وبکی علی طوفان نوح حتی رمدت عیناه )(۱)

مشبہہ نے جھوٹی احادیث جعل کرکے ا نہیں پیغمبر علیہ الصلاة والسلام کی طرف نسبت دے دی ان میں سے اکثر روایات یہودیوں سے لی گئی ہیں اس لئے کہ آئین یہود کی اساس تشبیہ ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں :خدا کی آنکھوں کے دردمیں مبتلاہواتو ملائکہ عیادت کے لئے گئے اورطوفان نوح میں ہونے والی نابودی کی وجہ سے خدا نے اتناگریہ کیا کہ آنکھوں کے دردمیں مبتلاہوگیا ۔(۲)

۱۰۔وہابیوں کے خدا کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مصافحہ کرنا :

شہرستانی کے مطابق مشبہہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

____________________

(۱)ملل ونحل ۱:۱۵۳

(۲)ملل ونحل ۱:۱۵۳

۱۳۱

لقینی ربی فصافحنی ووضع یده بین کتفیی حتی وجدت بردانامله ،

میں نے اپنے رب سے ملاقات کی تواس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اپنے ہاتھوں کو میرے شانوں کے درمیان رکھاتو میں نے اس کے ہاتھوں کی ٹھنڈک کومحسوس کیا۔( ۱ )

۱۱۔وہابیوں کا خدا فقط ڈاڑھی اورشرمگاہ نہیں رکھتا :

ابوبکر عربی کہتا ہے :ایک معتبرشخص نے مجھ سے نقل کیا کہ ابویعلی (ابن تیمیہ کاامام)کہتاہے :

(اذاذکر الله تعالی وماورد من هذه الظواهر فی صفاته ، یقول: الزمونی ماشئتم فانی التزمه، الااللحیة والعورة .( ۲ )

جب بھی خدا کی صفات کے بارے میں بات ہوجو روایات میں بیان ہوئیں تووہ کہتا ہے :اس میں میری پیروی کرو اورمیں ڈاڑھی اورشرمگاہ کے علاوہ اس کے تمام اعضاء کا قائل ہوں ۔

۱۲۔ وہابیوں کے نبی کاان کے خدا کے پاس بیٹھنا :

ابن تیمیہ کاشاگردابن قیم لکھتاہے :

____________________

(۱)ملل ونحل ۱:۱۰۰

(۲)العواصم من القواصم : ۲۱۰، الطبعة الحدیثة ۲:۲۸۳، و دفع شبہ التشبیہ باکف التنزیہ :۹۵و۱۳۰(حاشیہ)

۱۳۲

(ان الله یجلس علی العرش ویجلس بجنبه سید نا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وهذا هوالمقام المحمود )

خدا عرش پربیٹھتا ہے اوررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے پہلو میں بیٹھتے ہیں اوریہی وہ مقام محمود ہے ۔( ۱ )

۱۳۔وہابیوں کاخدا عرش سے چار انگلیاں بڑاہے:

ابن عربی اس آیت شریفہ ،علی العرش استوی ، (طہ ،۵)کی تفسیر میں لکھتاہے :

انه جالس علیه ، متصل به ،وانه اکبرباربع اصابع ، اذلایصح ان یکون اصغرمنه ، لانه العظیم ، ولایکون مثله لانه (لیس کمثله شئی )فهواکبر من العرش باربع اصابع،

خدا عرش پربیٹھا ہے اور اس سے ملاہواہے وہ عرش سے چارانگلوں کی مقدار چوڑاہے اورممکن نہیں کہ وہ عرش سے چھوٹا ہو اس لئے کہ خدا عظیم ہے اور یہ بھی صحیح نہیں کہ وہ اس کے برابر ہوکیونکہ وہ بے مثل ہے لہٰذا وہ عرش سے چار انگلیاں بڑاہے۔( ۲ )

طبری اپنی تفسیر میں اس آیت شریفہ( وسع کرسیه السموات والارض ) ( ۳ )

____________________

(۱)بدائع الفوائد۴:۳۹.

(۲)العوصم من القواصم :۲۰۹.

(۳)بقرہ :۲۵۵۔

۱۳۳

کے ذیل میں عبداللہ بن خلیفہ سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاقول نقل کرتاہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:وانہ لیقعد علیہ فمایفضل منہ مقدار ربع اصابع ، ثم قال باصابعہ ،

خدا عرش پربیٹھا ہے اوراس کے چاروں طرف چارچارانگلوں کی مقداربڑھا ہواہے اس کے بعد پھر فرمایا:خدا اپنی چارانگلیوں کی مقدار ،( ۱ )

دیلمی نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے :

ان الله ملاعرشه یفضل منه کمایدورالعرش اربعة اصابع باصابع الرحمن عزوجل ( ۲ )

خداوند متعال عرش پراس طرح چھایاہواہے کہ اس کے چاروں طرف اپنی چارانگلیوں کی مقدار بڑھاہواہے ۔

۱۴۔ کرسی کا خدا کے بوجھ سے چیخنا:

سیوطی نے مختلف اسناد کے ساتھ عمر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

ایک عورت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اورعرض کرنے لگی میرے لئے دعافرمائیں کہ خدا مجھے جنت میں داخل کرے ، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کی عظمت بیان کی اورپھر فرمایا:ان کرسیہ وسع السموات والارض وان لہ اطیطاکاطیط الرحل الجدید اذا رکب من ثقلہ.

خدا کی کرسی نے تمام زمین وآسمان کوگھیراہوا ہے اورجب خدا اس پربیٹھتا

____________________

(۱)جامع البیان ۳، :۱۶۔

(۲)فردوس الاخبار ۱:۲۱۹

۱۳۴

ہے تووہ اسی طرح چیختی ہے جس طرح اونٹ کے بچے پر سوار ہوں تو وہ چیختا ہے۔( ۱ )

ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔( ۲ )

۱۵۔وہابیوں کے خدا کا تیز تیز چلنا :

سعودی عرب میں فتویٰ صادر کرنے والی اعلیٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا : ''ھل للہ صفة الھرولة؟'' کیا خدا میں تیز تیز چلنے کی صفت پائی جاتی ہے ؟ توا نھوں نے یوں جواب دیا :

''نعم ! صفة الهرولة علی نحو ما جاء فی الحدیث القدسی الشریف علی مایلیق به قال تعالیٰ : اذا تقرب الی العبد شبرا تقربت الیه ذراعا ، واذا تقرب الیه ذراعا تقربت منه باعا ، واذا اتانی ماشیا اتیته هرولة؛ رواه البخاری ومسلم '' .( ۳ )

____________________

(۱)قال السیوطی :واخرج عبدبن حمید وابن ابی عاصم فی السنة والبزار وابو یعلی وابن جریر ابوالشیخ والطبرانی وابن مردویه والضیاء المقدسی فی المختار ة عن عمر، ان امراة اتت النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقالت :ادع الله ان یدخلنی الجنة ، فعظم الرب تبارک وتعالی وقال :ان کرسیه وسع السماوات و الارض ،ان له اطیطاً کأطیط الرحل الجدید اذا رکب من ثقله ، درالمنثور ۱:۳۲۸.

(۲) مجمع الزوائد ۱: ۸۳ پہ لکھتا ہے : ''راوہ البزار ورجالہ رجال الصحیح دوسری جگہ لکھتا ہے((رواه ابو یعلیٰ فی الکبیر و رجاله الصحیح )) عبد اللہ بن خلیفة الہمذانی وھو ثقةمجمعالزوائد ۱۰:۱۵۹''.

(۳)فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث والافتاء ۳: ۱۹۶، فتویٰ شمارہ ۶۹۳۲.

۱۳۵

ہاں ! صحیح بخاری اور مسلم نے خدا کے تیز تیز چلنے کی صفت کے بارے میں حدیث قدسی میں لکھا ہے کہ خد ا فرماتا ہے : جو کوئی ایک بالشت میری طرف بڑھتا ہے تو میں ایک قدم اس کی طرف بڑھتا ہوں اور جب وہ چل کر میری طرف آئے تو میں تیز چل کر اس کی طرف بڑھتا ہوں۔

سابق سعودی مفتی اعظم عبد العزیز بن باز ایک سوال کے جواب میں لکھتا ہے :

''اما الوجه والیدان والعینان والساق والاصابع فقد ثبتت فی النصوص من الکتاب والسنة الصحیحة وقال بها اهل السنة والجماعة واثبتوها لله سبحانه علی الوجه اللائق به سبحانه وهکذا النزول والهرولة جاء ت بها الاحادیث الصحیحة ونطق بها الرسول ]صلی الله علیه و آله وسلم [واثبتها لربه عزوجل علی الوجه اللا ئق به سبحانه ''.( ۱ )

البتہ خدا کے چہرہ ، ہاتھ، آنکھ اور انگلیوں کے بارے میں کتاب اور سنت صحیح میں بیان ہوا ہے اور اہل سنت الجماعت کا عقیدہ اسی پر استوار ہے اسی طرح خدا کا عالم مادہ کی طرف نزول اور تیز تیز چلنے کی صفت بھی صحیح احادیث میں ذکر ہوئی ہے اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے ان صفات کو خدا کی شان کے مطابق ثابت کیا ہے ۔

____________________

(۱) فتاویٰ بن باز ۵: ۳۷۴.

۱۳۶

افکار وہابیت انصاف کے ترازو پر

۱۔ ابن تیمیہ اور وہابیوں کے اقوال قرآن و سنت کے مخالف ہیں :

جسمانیت خدا کے اثبات کے بارے میں ابن تیمیہ اور اس کے وہابی پیروکاروں کے اقوال قرآن و سنت کے مخالف ہیں اس لئے کہ آیت شریفہ:( لَیْسَ کَمِثْلِهِ شَیْئ ) ( ۱ )

ترجمہ :اس کے مثل کوئی شیء نہیں ۔

واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ خدا کا کوئی مثل نہیں ، اور نیز آیت شریفہ( قُلْ هُوَ ﷲ أَحَد ) ( ۲ )

خداوند متعال کے بے مثل ہونے پر دلالت کر رہی ہے۔

حاکم نیشاپوری متوفیٰ ۴۰۵ ہجری نے ایک روایت میں ابی ابن کعب سے نقل کیا ہے :

مشرکین نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )سے خدا کا نسب بیان کرنے کا تقاضا کیا توخدا وند متعال نے سورۂ توحید نازل کی اور فرمایا :

اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ان مشرکین سے کہہ دے :( قُلْ هُوَ ﷲ أحَد ﷲ

____________________

(۱) سورۂ شوریٰ: ۱۱.

(۲) سورۂ اخلاص : ۴.

۱۳۷

الصَّمَدُ ) خدا یکتا و بے نیاز ہے( لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ ) اس لئے کہ جو پیدا ہوگا وہ مرے گا اور جومرے گا وہ میراث چھوڑے گا جب کہ خدا موت و میراث کی صفت سے منزہ ہے( وَلَمْ یَکُنْ لَهُ کُفُوًا أَحَد )

حاکم نیشاپوری اور ذہبی نے کہاہے : یہ روایت صحیح ہے ۔( ۱ )

۲۔ احمد بن حنبل کا نظریہ تجسیم کو باطل قرار دینا :

معروف عالم اہل سنت بیہقی متوفیٰ ۴۵۸ ہجری کہتے ہیں :

امام احمد بن حنبل نے خدا کے جسم ہونے کے نظریہ کو باطل قرار دیتے ہوئے کہا ہے : اسماء کو شریعت اور لغت سے لیا جاتا ہے اور اہل لغت کلمہ ''جسم ''کو ایسی چیز پر اطلاق کرتے ہیں جو طول ، عرض ،ارتفاع، ترکیب اور شکل وصورت پر مشتمل ہو جب کہ خداوند متعال ان تمام اشیاء سے منزہ ہے لہٰذا شائستہ نہیں کہ ہے اسے جسم کہاجائے اس لئے کہ وہ جسم کے ہر طرح کے معنی و مفہوم سے خارج ہے اور شریعت میں بھی یہ لفظ بیان نہیں ہوا ۔ بنابرایں عقیدہ جسمانیت ( خدا ) باطل ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱)مستدرک الصحیحین ۲: ۵۴۰.

(۲) وانکر احمد علی من قال بالجسم وقال: ان الاسماء ماخوذة من الشریعة واللغة، واهل اللغة وضعوا هذا الاسم علی ذی طول وعرض وسمک وترکیب وصورة و تالیف ، والله سبحانه خارج عن ذلک کله ،فلم یجز ان یسیّ جسماً؛ لخروجه عن معنی الجسمیة ولم یجئی فی الشریعة ذلک فبطل طبقات الحنابله ۲: ۲۹۸؛ اعتقاد الامام ابن حنبل : ۲۹۸. العقیده احمد بن حنبل :۱۱۰ وتهنئة الصدیق المحبوب :۳۹

۱۳۸

۳۔ علمائے اہل سنت کا مجسمہ کو کافر قراردینا :

اما م قرطبی متوفیٰ ۶۷۱ ہجری مجسمہ ( جو خدا کوجسم قرا ردیتے ہیں ) کے بارے میں ایک عالم کا قول نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :''والصحیح القول بتکفیرهم ؛ اذلا فرق بینهم وبین عباد الاصنام الصور '' .( ۱ )

صحیح قول یہ ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں اس لئے کہ ان کے اور بت پرستوں و چہرہ پرستوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

عالم برجستہ اہل سنت نووی متوفیٰ ۶۷۶ ہجری لکھتے ہیں :

''فممن یکفر ، من یجسم تجسیما صریحا ومن ینکر العلم بالجزئیات'' ( ۲ )

جن لوگوں کا کفر ثابت ہے ان میں سے جسمانیت خد اکے قائل اور جزئیات کے بارے میں خدا کے علم کا انکارکرنے والے ہیں ۔

عبد القاہر بغدادی متوفی ۴۲۹ ہجری مشہور متکلم اہل سنت لکھتے ہیں :

''واما جسمیة خراسان من الکرامیة فتکفیرهم واجب؛لقولهم: بان الله تعالیٰ له حد نهایة من جهة السفل ومنها یماس عرشه ولقولهم: بان الله تعالیٰ محل للحوادث '' .( ۳ )

____________________

(۱) تفسیر قرطبی ۴: ۱۴ و تذکار: ۲۰۸.

(۲) المجموع ۴: ۲۵۳.

(۳) اصول الدین ، ۳۳۷ ؛التندید بمن عدد التوحید : ۵۲.

۱۳۹

خراسان کے کرامیہ فرقہ کو جو جسمانیت خدا کا قائل ہے اسے کافر قرار دینا واجب ہے اس لئے کہ وہ خد اوند متعال کے لئے حد قرار دیتے ہیں اور پستی کی نسبت اس کے انتہاکے قائل ہیں چونکہ کہتے ہیں وہ عرش سے ملا ہوا اور محل حوادث ہے ...۔

''وقالوا بنفی النهایة والحد عن صانع العالم '' .( ۱ ) اور علمائے اہل سنت خد اکے بارے میں ہر طرح کی حدو حدود کی نفی کرتے ہیں :

واجمعوا علی ان لا یحویه مکان ولا یجری علیه زمان ، خلاف قبول من زعم من الشهامیة والکرامیة انه مما س لعرشه، وقد قال امیر المومنین رضی الله عنه : ان الله تعالیٰ خلق العرش اظهارا لقدرته لا مکانا لذاته '' .( ۲ )

اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ خداوند متعال نہ تو مکان میں سماتا ہے اور نہ ہی زمان کا اس پر گذر ہے شہامیہ اور کرامیہ کے باطل نظریہ کے بر عکس کہ وہ کہتے ہیں : خدا کی ذات عرش سے ملی ہوئی ہے جب کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : خدا نے عرش کو اپنی قدرت کے اظہار کے لئے خلق کیا نہ کہ اپنے لئے مکان کے طور پر ۔

نجیم متوفیٰ ۵۷۰ ہجری مصر میں اہل سنت کے معروف فقیہ کہتے ہیں :

____________________

(۱)الفرق بین الفرق ، تحقیق لجنة احیاء التراث العربی : ۴۰.

(۲) الفرق بین الفر ق : ۴۱.

۱۴۰