وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں0%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف: ڈاکٹر سید محمد حسینی قزوینی
زمرہ جات:

صفحے: 274
مشاہدے: 155098
ڈاؤنلوڈ: 4997

تبصرے:

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155098 / ڈاؤنلوڈ: 4997
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

۱۰۔ زرقاوی کا شیعوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ :

عراق میں وہابیوں کے لیڈر نے انٹر نیٹ پر ایک اشتہار دیا :

ہمارے مخالف ( شیعہ ) آستین کا سانپ اور حیلہ گر بچھو ہیں اب ہم اپنے کافر و حیلہ گر دشمن سے جہاد کریں گے جو دوستی کا لبادہ اوڑھ کر اتحاد کی دعوت دیتے ہیں جب کہ اختلاف اور شر انھیں میراث میں ملا ہے ۔

ایک تحقیق کرنے والا شخص بآسانی در ک کرسکتا ہے کہ شیعہ ایک خطرہ ہیں اور تاریخ اس بات کی تائید کررہی ہے کہ شیعہ اسلام کے علاوہ دوسرادین ہے ۔ یہ لوگ اہل کتاب کا شعار بلند کر کے یہود ونصاریٰ سے ملاقات کرتے ہیں ۔ شیعوں کا شرک اس قدر واضح ہے کہ قبروں کی پرستش اور اپنے آئمہ کی قبور کا طواف کرتے ہیں اور اس قدر تجاوز کا شکار ہو چکے ہیں کہ یاران پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کو کافر ، امہات المومنین کو گالیاں اور قرآن کریم کو جعل کرتے ہیں ۔

شیعہ کتب میں جو ابھی چھپ رہی ہیں اس گروہ نے اپنے لئے نزول وحی کا دعویٰ کیا ہے یہ بھی ان کے کفر کی ایک علامت ہے ۔

جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ شیعہ اپنا موروثی کینہ فراموش کردیں گے تو یہ لوگ وہم و خیال کی زندگی بسر کررہے ہیں اس لئے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے عیسائیوں سے کہا جائے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے صلیب پر لٹکائے جانے کو بھول جائیں ۔ کون عاقل ہے جو ایسا کام کرے گا ؟

۱۶۱

یہ قوم اپنے کفر کے علاوہ حکومتی بحران اور حکومت میں اپنی تعداد بڑھا کر سیاسی مکر وحیلہ کے ذریعے اپنے ہم پیمانوں کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں ۔

اس خیانت کا رقوم نے طول تاریخ میں اہل سنت سے جنگ کی اور صدام کے زوال کے بعد ''انتقام ، تکریت سے انبار تک انتقام '' کا نعرہ بلند کیا جو اہل سنت سے ان کے کینہ پر دلالت کر رہا ہے ۔( ۱ )

۱۱۔ وہابی مفتیوں کا حزب اللہ کے لئے دعانہ کرنے کا فتویٰ دینا :

اسرائیل کے لبنان پر وحشیانہ حملے اور حزب اللہ کے شجاعانہ دفاع کے دوران متعصب وہابی مفتی شیخ عبد اللہ بن جبرین نے اسلام کے دشمنوں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ حمایت کا اظہار کرنے کی خاطر یہ فتویٰ دیا :

حز ب اللہ کی کسی قسم کی حمایت جائز نہیں ہے اور ان کی فتح کی دعا کرنا حرام ہے ۔ نیز تمام اہل سنت پر واجب ہے کہ وہ اس گروہ سے بیرازی کا اعلان کریں اور جو لوگ ان کے ساتھ ملنے کی فکر میں ہیں ان کی مذمت کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ شیعہ اسلام کے پرانے دشمن ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اہل سنت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱)ویب سائٹ BAZTAB. COM تاریخ ۴۸ ۱۳۸۴ بمطابق ۲۰۰۴ ئ۔

(۲) سوال : ''ھل یجوز نصرة ( ما یسمّی ) حزب اللہ الرافضی ؟ وھل یجوز ۔

۱۶۲

انٹر نیشنل سروس ''بازتاب'' کی آسوشیٹد پریس سے نقل کی گئی رپورٹ کے مطابق وہابی مفتی شیخ صفر الحوالی نے اپنی ویب سائٹ پر اعلان کیا :

'' حز ب اللہ جس کا معنی خداکاشکر ہے درحقیقت حزب الشیطان ہے '' اسی طرح یہ بھی کہا ہے : حزب اللہ کے لئے ہر گز دعا نہ کریں ۔

یہ فتویٰ وہابیوں نے اس نظریہ کی بناء پر دیا ہے کہ شیعہ رافضیہ ہیں اور یہ فتویٰ اس فتویٰ کی پیروی میں صادر کیا گیا ہے جو تین ہفتے پہلے ایک مشہور سعودی مفتی شیخ عبد اللہ بن جبرین نے دیا تھا ۔

آسو شٹڈ پریس نے اس بات کا اضابھی فہ کیا ہے :

یہ فتویٰ اس وقت صادر کیا گیا ہے جب عرب ممالک کے روڈ اور سڑکیں حزب اللہ کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کے بارے میں نکالے جانے والے جلوسوں

____________________

الا نضوا ء تحت امرتهم وهل یجوز الدعاء لهم بالنصر والتمکین ؟ وما نصیحتکم للمخدعین بهم من اهل السنة؟''

جواب : ''لایجوز نصرةهذا الحزب الرافضی ، ولایجوز الانضواء تحت امرتهم ، ولا یجوز الدعاء لهم بالنصر والتمکین ، نصیحتنا لاهل السنة ان یتبروا منهم، وان یخذلوا من ینضموا الیهم ، وان یبینوا عداوتهم للاسلام والمسلمین وضرر هم قدیما وحدیثا علی اهل السنة ، فان الرافصة دائما یضمرون العداء لاهل السنة ، ویحاولون بقدر الاستطاعة اظهار عیوب اهل السنة والطعن فیهم و المکرهم ، واذاکان کذلک فان کل من والاهم دخل فی حکمهم لقول الله تعالیٰ (ومن یتولهم منکم فانه منهم )'' ودعوا الی نصرة الحزب بالدعاء والنصرة المادیة ، کما تسببت فتویٰ بن جبرین فی تصادم مواقف رجال الد ین السلفین والوهابیین ''سائٹ ( www. watan. com ) الریاض، الاسلام الیوم، ۱۲ ۲۷۷ ۱۴ ، م ۸۶ ۲۰۰۶

شیخ عبد الله بن جبرین ، شماره فتوی، ۱۵۹۰۳ تاریخ فتوی ۱۴۲۷۶۲۱ ه (۵۲۶ ۸۵) بمطابق۱۷۷۲۰۰۶ شبکه نور الاسلام ( www.islamlight. net )

۱۶۳

سے بھری ہوئی ہیں یہاں تک کہ اردن جیسے ملک میں بھی لوگوں نے ان جلوسوں میں شرکت کی ہے جہاں کی اکثر آبادی یورپ سے متاثر اہل سنت پر مشتمل ہے ۔

کہا گیا ہے کہ اب جب جنگ اپنے انتہائی مراحل کو پہنچ چکی ہے تو ایسی حالت میں اس طرح کافتویٰ دینے کا مقصد فقط وہابی لیڈروں کا عالم اسلام کے اتحاد اور حزب اللہ کے نقش قدم پر چل کر کسی بھی غیر مسلم آزاد ی خواہ شہری سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا ہے ۔( ۱ )

____________________

(۱) اس مطلب کو الوطن سائٹ پر یوں بیان کیا گیا ہے :''قالالحوالی عصر یوم الخمیس امام تجمع استقبله فی مدینة النماص الجنوبیة القریبة من قریة الحولة مسقط راسه علی حدود منطقة عسیر والباحة: انه لایجوز الدعاء لحزب الله بالنصر علی اسرائیل ؛ کما هاجم الحوالی الشیعة فی السعودیة ووصمهم بالشرک

ورغم معاناة الحوالی من جلطة دماغیة اصابته العام الماضی وسببت له اعاقة دائمة وشلل جزئی الا انه مستمر فی اصدار الفتاوی

واکد موقع ( امة الاسلام ) الذی یشرف علیه الشیخ علی بن مشعوف احد منظمی زیارة الحوالی ، ان الفتوی صدرت بحضور قاضی محافظة النماص الشیخ محمد المهنا، وعدد کبیر من مشائخ المحافطة وطلاب العلم فیها ولا قت تاییدهم

وتاتی فتوٰی الحوالی بعد ثلاثة اسابیع من فتویٰ مشابهة اصدرها الشیخ عبد الله بن جبرین ، الرجل الثانی فی الهرم الدینی للحرکة الوهابیة، یحرم فیها الدعا ، لحزب الله اللبنانی، ویطلب فیه ممن یعتبرهم من المسلمین السنة بختذیل من ینضم الیهم

وسبب فتویٰ ابن جبرین رد ة فعل عنیفة من علماء المسلمین السنة فی العالم حیث فرضها غالبیة علماء مصر و فلسطین والجزائز و سوریا والاخوان المسلمین،

۱۶۴

سعودی عرب کے ایک اور وہابی مفتی شیخ ناصر عمر نے بھی کہا ہے :

حزب اللہ سے دشمنی سب پر واجب ہے اس لئے کہ وہ ہمیشہ اہل سنت کے دشمن رہے ہیں :( ۱ )

۱۲۔ سعودی مفتی اور ابن تیمیہ کی مخالفت:

متعصب وہابیوں کا یہ فتویٰ ان کے مذہب کے مفکرابن تیمیہ کے فتویٰ کے خلاف ہے بلکہ کاسۂ داغ تراز آش ہے۔

اس لئے کہ ابن تیمیہ نے شیعوں سے اپنی تمام تر دشمنی اور مخالفت کے باوجود ایک شخص جو یہود ونصاری کو شیعوں پر ترجیح دیتا ہے اس کے سوال کے جواب میں واضح طورپر کہا:

''جو لوگ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کی شریعت پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ بدعت گذار ہی کیوں نہ ہوں مانند خوارج ، شیعہ ، مرجئہ ، اور قدریہ یہودیوں سے بہترہیں جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے منکر ہیں ''

اور مزید کہا: ''یہودو نصاری کا کفر روشن ہے لیکن اہل بدعت اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱) ( www. watan. com )

۱۶۵

کی پیروی کریں تو یقینا کافر نہیں ہیں اور اگر اہل بدعت کو کافر سمجھ بھی لیا جائے پھر بھی ان کا کفر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کی تکذیب کرنے والوں کے کفر کے مانند نہیں ہے ۔( ۱ )

____________________

(۱)جواب ابن تیمیه : ''الحمد لله کل من کان مومنا بما جاء محمد فهو خیر من کل من کفر به وان کان فی المومن بذلک نوع من البدعةسواء کانت بدعة الخوارج والشیعة و المرجئه والقدریةاو غیرهم ؛ فان الیهود والنصاریٰ کفار کفرا معلوما بالاضطرار من دین الاسلام ، المبتدع اذاکان یحسب انه موافق للرسول لا مخالف له لم یکن کافر ابه ولقد قدر انه یکفر فلیس کفره مثل کفر من کذب الرسول ]صلی الله علیه و آله وسلم [''. مجموع الفتاوی ،۳۵:۲۰۱.

۱۶۶

مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں وہابیوں کے نظریہ پر اعتراض

۱۔ مسلمانوں کی تکفیر قرآنی آیات کی مخالفت کرنا ہے

ماضی اور حال میں ایک گروہ باکمال ِ جرأت: بغیر کسی شرعی دلیل کے کچھ فرقوں کے کفر کا فتویٰ دے رہا ہے ۔ نہ جانے کس عقلی اور شرعی معیار کی بناء پر یوں لوگوں کی عزت وآبرو سے کھیلا جا رہاہے ؟

اس موضوع کے روشن ہونے کے لئے ایک نکتہ کا بیان کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ''مسلمان کسے کہتے ہیں ؟'' یا دوسرے لفظوں میں ''دین اسلام میں داخل اور اس سے خارج ہونے کی کیا حد ہے ؟''۔

بے شک مسلمان ہونے کا کمترین درجہ خد اکی وحدانیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت و نبوت کی گواہی دینا ہے اگر چہ یہ شہادت وگواہی زبانی ہی کیوں نہ ہو ۔

قرآن کریم ، تمام مفسرین اور علماء و فقہاء کی آراء کے مطابق ایسے شخص کا جان ومال محفوظ ہے اور کوئی مسلمان اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔

مفسرین کے نزدیک اسلام اور مسلمان کی تعریف کو واضح کرنے کے لئے ہم یہاں پہ دو قرآنی آیات کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

۱۶۷

پہلی آیت :

خداوند معال بادیہ نشین عربوں کے اسلام کے بارے میں فرماتا ہے :

( قَالَتْ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ وَإِنْ تُطِیعُوا ﷲ وَرَسُولَهُ لاَیَلِتْکُمْ مِنْ أَعْمَالِکُمْ شَیْئًا إِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم ) ( ۱ )

ترجمہ:یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کیونکہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اور اگر تم اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔

____________________

(۱)سورۂ حجرات :۱۴.

۱۶۸

ایمان اور اسلام میں فرق

اس آیت شریفہ میں ایمان کو اسلام کے بعد کا مرحلہ شمار کیا گیا ہے یعنی ایمان خاص ہے اور اسلام عام ہے ۔

راغب اصفہانی مفردات میں لکھتے ہیں :

''الاسلام : الدخول فی السلم ، وهو ان یسلم کل واحد منهما ان یناله من الم صاحبه '' .( ۱ )

اسلام ، سلامتی میں داخل ہونا ہے یعنی تو حید و رسالت کے اقرار سے انسان ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔

ابن جریر اس آیت شریفہ کی تفسیر میں زہری سے نقل کرتا ہے :

اسلام خدا کی وحدانیت کی شہادت و گواہی دینا ہے اور ایمان قول کے ساتھ عمل کا نام ہے ۔( ۲ )

اسلام سلامتی میں داخل ہونا اور شہادتین کے اظہار سے مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے بچنا ہے خدا وند متعال کا یہ قول جو نئے مسلمانوں کے ایک گروہ سے فرمایا:( وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ ) ( ۳ ) ابھی ایمان تمہارے دلوں میں

داخل نہیں ہوا ہے ۔

____________________

(۱) مفردات راغب ، مادہ سلم

(۲) زہری سے نقل ہوا ہے :''الاعراب آمنا قل لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا قال : ان الاسلام الکلمة والایمان العمل، ''جامع البیان ۲۶: ۱۸۲ شماره ۲۴۶۰۷. (۳) سورهٔ حجرات : ۱۴.

۱۶۹

درحقیقت زبانی اقرار اگر دل کو مسخر نہ کرے تو وہ اسلام ہے اور اگر زبان و دل دونوں اسے قبول کر لیں تو ایمان ہے اس لئے کہ ایمان اطمینان قلب کے ساتھ محکم عقیدے کا نام ہے ۔( ۱ )

بنابر ایں مسلمان مفسرین کے نزدیک خدا کی توحید اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی رسالت و نبوت کے اقرار سے اسلام کا پہلا مرحلہ محقق ہوجاتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں انسان کا مال وجان اور عزت وناموس محفوظ ہو جاتی ہے اور کسی کو اسے چھیڑنے کا حق نہیں ہوتا ۔

قرطبی کہتا ہے :

حقیقت ایمان وہی تصدیق قلب ہے جب کہ اسلام پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لائے ہوئے احکامات کو ظاہری طور پر قبول کرنا ہے اور یہی مقدار انسان کی جان کے محفوظ ہونے کے لئے کافی ہے ۔( ۲ )

ابن کثیر کہتا ہے :

____________________

(۱)الدخول فی السلم و الخروج من ان یکون حربا للمومنین باظهار الشهادتین ، الا تری الی قوله تعالیٰ (وَلَمَّا یَدْخُلْ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُم ) الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الاقاویل۳: ۵۶۹.

(۲)وحقیقة الایمان التصدیق بالقلب ، واما الاسلام فقبول ما اتی به النبی]صلی الله علیه وآله وسلم [فی الظاهر، وذلک یحقن الدم ، تفسیر قرطبی۱۶:۲۹۹.

۱۷۰

اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ایمان اسلام کی نسبت خاص ہے اور اہل سنت کا عقیدہ بھی یہی ہے اور یہ آیت اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ یہ بدو عرب منافق نہیں تھے بلکہ ایسے مسلمان تھے جن کے دلوں میں ایمان راسخ نہ ہوا تھا اور انھوں نے ایک ایسے مقام کا دعویٰ کیا جس تک پہنچے نہیں تھے لہٰذا خدا وند متعال نے انھیںخبر دار کیا۔

اور اگر وہ لوگ منافق ہوتے تو انھیں رسواکیا جاتا جس طرح سورۂ برائت میں منافقین کا تذکرہ فرمایا :( ۱ )

دوسری آیت :

خدا وند متعال میدان میں اسلام لانے والے کفار کے بارے میں فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ ﷲ فَتَبَیَّنُوا وَلاَتَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ ﷲ مَغَانِمُ کَثِیرَة کَذَلِکَ کُنتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ ﷲ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوا إِنَّ ﷲ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا ) ( ۲ )

____________________

(۱)وقد استفید من هذه الآیة الکریمة ان الایمان اخص من الاسلام ، کما هو مذهب اهل السنة والجماعة ...فدل هذا علی ان هؤلاء الاعراب المذکورین فی هذه الآیة لیسوا بمنافقین وانما هم مسلمون لم یستحکم الایمان فی قلوبهم ، فادّعوا لانفسهم مقاما اعلیٰ مما وصلو ا الیه ، فادّبوا فی ذلک ولو کانوا منافقین لعنفوا وفحهوا ، کما ذکر المنافقون فی سورة برأة تفسیر ابن کثیر۴:۲۳۴.

(۲) سورۂ نسائ: ۹۴.

۱۷۱

ترجمہ : اے ایمان والو! جب تم راہ ِ خدا میں جہاد کے لئے سفر کرو تو پہلے تحقیق کرلو اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا کہ تو مومن نہیں ہے کہ اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں آخر تم بھی تو پہلے ایسے ہی کافر تھے خد انے تم پر احسان کیا کہ تمہارے اسلام کو قبول کرلیا ( اور دل چیر نے کی شرط نہیں لگائی ) تو اب تم بھی اقدام سے پہلے تحقیق کرو کہ خدا تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے ۔

سیوطی لکھتا ہے :

بزار ، دار قطنی اور طبرانی نے عبد اللہ بن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے ایک گروہ کو جہاد کے لئے بھیجا جن میں مقداد بھی تھے جب یہ گروہ اس قبیلے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ سب لوگ بھاگ گئے ہیں مگر ایک شخص مال و ثروت زیادہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر نہ بھاگا ۔ جب اس نے مسلمان مجاہدین کو دیکھا تو شہادتیں پڑھنا شروع کیں مقداد نے تلوار کھینچی اور اس کی گردان اڑادی ۔

۱۷۲

ان میں سے ہی ایک مسلمان نے کہا : تم نے خدا کی گواہی کے بعد اسے قتل کیا؟ میں تمہارے اس عمل کی خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوں گا ۔ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں واپس پہنچے تو عرض کیا: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک شخص نے توحید کا اقرار کیا لیکن مقداد نے اسے قتل کر ڈالا ۔ فرمایا: مقداد کو بلایا جائے ۔ جب مقداد آئے تو فرمایا: تو نے ''لا الہ الا اللہ '' کا اقرار کرنے کے بعد اس شخص کو قتل کیا ہے ؟ روز قیامت کیا جواب دوگے ؟ اتنے میں خدا وند متعال نے یہ آیت نازل فرمائی ۔( ۱ )

قابل غور نکتہ:

اس دوسری آیت میں ایمان سے مراد اس کا لغوی معنی امن ہے ۔، یعنی اگر کوئی شخص شہادتین پڑھ لے تو اسے یہ نہ کہا جائے کہ تجھے امان نہیں ملے گی بلکہ شہادتین کے اقرار سے انسان مسلمان اور اس کا مال وجان محفوظ ہو جاتا ہے ۔

جیسا کہ ابن جوزی نے حضرت علی علیہ السلام ، ابن عباس ، عکرمہ ، ابو العالیہ ، یحییٰ بن یعمر اور ابو جعفر سے نقل کیا ہے کہ وہ ''مومناً'' میم کے فتحہ کے ساتھ قرائت کرتے کہ جس کا معنی امان ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱)بعث رسول الله صلی الله علیه آله وسلم سریة فیها المقداد بن الاسود ، فلما اتوا القوم وجدوهم قد تفرقوا وبقی رجل له مال کثیر لم یبر ح، فقال :''اشهد ان لا اله الا الله '' فاهوی الیه المقداد فقتله فقال له رجل من اصحابه : اقتلت رجلا شهد ان لا اله الا الله؟ لا ذکرن ذلک النبی صلی الله علیه آله وسلم، فلما قدموا علی رسول الله صلی الله علیه آله وسلم قالوا: یا رسول الله ، ان رجلا شهد ان لا اله الا الله فقتله المقداد فقا ل: ادعواا لی المقداد ، فقال : یا مقداد! اقتلت رجلا یقول لا اله الا الله ؟ فکیف لک بلا اله الا الله غدا ؟ فانز ل الله یا ایها الذین آمنوا اذا ضربتم فی سبیل الله الی قوله کذلک کنتم من قبل.درالمنثور۲:۲۰۰ تفسیر ابن کثیر۱:۵۵۲ و مجمع الزوائد ۷: ۹

(۲)وقرا علی وابن عباس وعکرمه وابو العالیة ویحیی بن یعمر وابو جعفر : بفتح المیم الست مومنا من الامان زاد المسیر۲:۱۷۵.

۱۷۳

۲۔مسلمانوں کی تکفیر سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کرنا ہے:

جس طرح مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ دینا قرآن مجید کے مخالف ہے اسی طرح سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی مخالف ہے اس بارے میں ہم یہاں پہ اہل سنت کی معتبر ترین کتب کے اندر موجود احادیث میں سے فقط چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے ۔

الف) مسلمانوں کی تکفیر سے شدید ممانعت :

حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جابر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

''...اهل لا اله الا الله لاتکفروهم بذنب ولا تشهد وا علیهم بشرک ''( ۱ )

لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کو گناہ کی وجہ سے مت تکفیر کرو اور ان پر شرک کی تہمت نہ لگاؤ۔

حضرت عائشہ کہتی ہیں : میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا آپ نے فرمایا:

''لا تکفروا احدا من اهل القبلة بذنب وان عملوا بالکبائر''

اہل قبلہ میں سے کسی کو گناہ کے سبب تکفیر نہ کرو اگر چہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو ۔( ۲ )

____________________

(۱)المعجم الاوسط ۵:۹۶ ؛ مجمع الزوائد ۱: ۱۰۶.

(۲)مجمع الزوائد ۱: ۱۰۶و۱۰۷.

۱۷۴

ب: دوسروں کو تکفیر کرنے والے کا کفر

بخاری نے ابو ذر سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے سنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیه بالکفر الا ارتدت علیه ، ان لم یکن صاحبه کذلک ''( ۱ )

اگر کوئی شخص دوسرے کو گناہ یا کفر سے متہم کرے جب کہ وہ شخص گنہگار یا کافر نہ ہو تو وہ گناہ و کفر خود تہمت لگانے والے کی طرف پلٹے گا ۔

عبد اللہ بن عمر نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''ایما رجل مسلم کفر رجلا مسلما فان کان کافرا والا کان هو الکافر ''.( ۲ )

جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور وہ مسلمان کافر نہ ہوتو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا ۔

نیز عبد اللہ بن عمر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

____________________

(۱)صحیح بخاری ۷:۶۰۴۵۸۴، کتاب الادب ، باب ماینھیٰ من السباب واللعن.

(۲)کنز العمال ۳:۶۳۵از سنن ابی دادؤو مسند احمد ۲:۲۲.تھوڑے سے فرق کے ساتھ

۱۷۵

''کفوا عن اهل لا اله الا الله لا تکفروهم بذنب من اکفر اهل لا اله الا الله فهوا لی الکفر اقرب '' ۔( ۱ )

لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے دست بردار ہو جاؤ اور انھیں گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرو۔ جو شخص اہل توحید کی طرف کفر کی نسبت دیتا ہے وہ خود کفر سے نزدیک تر ہے ۔

ج:اہل قبلہ کے قتل کی حرمت

صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''من صلی صلاتنا ، واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی له ذمة الله وذمة رسوله فلا تخفرواالله فی ذمته ''.( ۲)

جو ہماری طرح نماز پڑھے، قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کا گوشت کھائے تو وہ مسلمان اور خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پناہ میں ہے پس عہد خدا کو نہ توڑو۔

د: خوف سے اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت

صحیح مسلم نے اسامنہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱)معجم الکبیر۱۲: ۲۱۱ ؛ مجمع الزوائد ۱:۱۰۶ ؛ فیض القدیر شرح جامع الصغیر ۵: ۱۲ ؛ جامع الصغیر ۲ : ۲۷۵؛ کنز العمال ۳: ۶۳۵.

(۲) صحیح بخاری ۱:۳۹۱۱۰۲، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلة

۱۷۶

نے ہمیں ایک قبیلہ کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا ، صبح کے وقت ہم اس قبیلہ کے پاس پہنچے ۔ میں نے ایک شخص کا پیچھا کیا تو اس نے کہا : ''لا اله الا الله ''مگر میں نے نیزہ مار کر اسے قتل کر ڈالا ۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط کام کیا ہے ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا:''اقال لا اله الا الله وقتلته ''کیا تونے اسے''لا اله الا الله ''کہنے کے باوجود قتل کردیا ؟

میں نے عرض کیا : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !اس نے اسلحہ کے خوف سے کلمہ پڑھا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات کا اس قدر تکرار کیا کہ میں آرزو کرنے لگا کہ اے کاش! آج ہی کے دن پیدا ہوا ہوتا ( اوراس عظیم گناہ کا ارتکاب نہ کرتا )

سعد بن وقاص کہتاہے : میں اس وقت تک کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک اسامہ اسے قتل نہ کرے ایک شخص نے کہا : کیا خداوند متعال نے یہ نہیں فرمایا:( وقاتلوهم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کله الله ) اور کافروں کو قتل کر و یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین فقط خد اہی کا رہ جائے ۔

سعد نے کہا: ہم اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ فتنہ ختم ہو جب کہ تم اور تمہارے ساتھی اس لئے لڑتے ہوتاکہ فتنہ برپاکرسکو ۔( ۱ )

____________________

(۱)صحیح مسلم ۱: ۱۸۰۶۷ ،کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا اله الا الله.

۱۷۷

ھ: کسی مسلمان کو قتل کرنے کے بعد اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت :

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ اسامہ بن زید نے ایک مشرک کو لا الہ الا اللہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کی خبر ملی تو اسامہ کو طلب کیا اور فرمایا: اسے کیوں قتل کیا ہے ؟ میں نے کہا:''یا رسول الله اوجع فی المسلمین وقتل فلانا وفلا وسمی له نفرا وانی حملت علیه فلما رای السیف قال لا اله الا الله '' . یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! اس نے مسلمانوں کو اذیت پہنچائی ، فلاںو فلاں کو قتل کیا لیکن جب میں نے اس پر حملہ کیا تو تلوار کو دیکھ کر اس نے کلمہ پڑھ لیا ۔

پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا: اس کے باوجود تو نے اسے قتل کر دیا؟ عرض کیا : جی ہاں.( ۱ )

فرمایا: روز قیامت لا الہ الا اللہ کا کیاجواب دوگے؟اس کے بعد لکھا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کئی بار اس جملہ کو تکرار فرمایا : ''فکیف تصنع بلا اله الا الله اذا جاء ت یوم القیامة ''( ۲ ) روز قیامت کلمہ توحید کا کیا کروگے ؟ عرض کرنے لگے : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میرے لئے مغفرت طلب کریں۔

۳۔ مسلمانوں کی تکفیر سیرت پیغمبر کے مخالف ہے

جس طرح مسلمانوں کو کافر کہنا سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے

____________________

(۱)صحیح مسلم ۱:۱۸۰۱۶۷،

(۲)صحیح مسلم ۱:۱۸۱۶۷، کتاب الایمان ، باب ۴۰،باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا اله الا الله

۱۷۸

مخالف ہے اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کے بھی مخالف ہے جیسا کہ صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا اله الا الله فاذا قالوها وصلوا صلاتنا ، واستقبلوا قبلتنا، وذبحوا ذبیحتنا، فقد حرمت علینا دماؤهم واموالهم الا بحقها ، حسابهم علی الله '' .( ۱ )

مجھے لوگوں سے جنگ کر نے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں ، ہماری طرح نماز پڑھیں ، قبلہ کی طرف رخ کریں اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کو کھائیں تو ان کا مال وجان ہم پر حرام ہو جائے گا سوا خدا کے حق کے اور (باقی رہا ان کے دل کا حال تو ) اس کاحساب ( کتاب ) اللہ کے ذمہ ہے ۔

عبد اللہ ابن عباس کہتے ہیں : عقبہ بن ابی معیط جب بھی سفر سے واپس آتا تو مکہ کے لوگوں کو کھانے کی دعوت دیتا ۔

وہ پیغمبر کے پاس اکثر بیٹھا کرتا اور آپ کی باتوں سے خوش ہوتا ۔ ایک مرتبہ جب سفر سے واپس آیا تو کھانا بنایا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی دعوت دی ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا '':ما انا بالذی اکل من طعامک حتی تشهد ان لا اله الا الله وانی رسول الله ''جب تک تولا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا

____________________

(۱)صحیح بخاری ۱:۳۹۲۱۰۲، کتاب الصلاة ،باب فضل استقبال القبلة.

۱۷۹

اقرار نہیں کرے گا تب تک تیرا کھانا نہیں کھاؤں گا ۔

عقبہ کہنے لگا : میرے بھتیجے کھالے !

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''ما انا الذی افعل حتی تقول! فشهد بذلک وطعم من طعامه '' جب تک تو اسلام نہیں لاتا تب تک میں یہ کام نہیں کر سکتا !عقبہ نے خدا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گواہی دی ۔ تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے ہاں کھانا کھایا( ۱ )

اسی سے ملتی جلتی حدیث ابن شہر آشوب نے مناقب میں نقل کی ہے ۔( ۲ )

۴۔ مسلمانوں کی تکفیرصحابہ کی روش کے مخالف

بخاری اپنی صحیح میں میمون بن سیاہ سے نقل کرتا ہے کہ از انس بن مالک سے سوال کیا :''مایحرم دم العبد وماله فقال من شهد ان لااله الا الله ، واستقبل قبلتنا ،و صلی صلاتنا ، واکل ذبیحنتنا ، فهو المسلم ، له ماللمسلم ، وعلیه ما علی المسلم '' ( ۳ ) کس چیز نے خون اور مال کو حرام کیا ہے ، تو اس نے کہا : خدا کی وحدانیت کی گواہی قبلہ رخ ہونا اور ہماری طرح نماز پڑھنا اور گوشت کھانا اس حیوان کا کہ جس کو ہم نے ذبح کیا ہے پس جو بھی ایسا کرے مسلمان ہے اور جو حقوق مسلمان رکھتا ہے وہ بھی رکھتا ہے.

____________________

(۱)تفسیر در المنثور ۵: ۶۸ ؛ تفسیر آلوسی ۱۹: ۱۱ (۲)مناقب آل ابی طالب ۱: ۱۱۸.

(۳)صحیح بخاری ۱ :۱۰۳۔ ۳۹۳، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلہ

۱۸۰