وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں0%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف: ڈاکٹر سید محمد حسینی قزوینی
زمرہ جات:

صفحے: 274
مشاہدے: 155095
ڈاؤنلوڈ: 4997

تبصرے:

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155095 / ڈاؤنلوڈ: 4997
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

۵۔ مسلمانوں کی تکفیر علمائے اہل سنت کے عقیدہ کے مخالف

امام شافعی کا نظریہ : امام شافعی متوفیٰ ۲۰۴ ہجری کہتے ہیں :

''اقبل شهادة اهل الا هواء الا الخطابیة ؛ لانهم یشهدون بالزورلموافقیهم '' ( ۳ )

میں تمام اہل بدعت کی شہادت قبول کروں گا سوا خطابیہ کے کہ وہ اپنے حامیوں کے لئے جھوٹی قسم جائز سمجھتے ہیں ۔

____________________

(۳) مجموع نووی ۴: ۲۵۴؛ شرح صحیح مسلم ۱: ۶۰؛ البحر الرائق ۱: ۶۱۳ ؛ حاشیہ رد المختار ابن عابدین ۴: ۴۲۲.

۱۸۱

ابو الحسن اشعری کا نظریہ :

مؤسس مذہب اشاعرہ ابو الحسن اشعری متوفیٰ ۳۲۴ ھ لکھتے ہیں :

''اختلف المسلمون بعد نبیهم صلی الله علیه وسلم فی اشیاء ضلّل بعضم بعضا، وبرء بعضهم من بعض فصاروا فرقا متباینین واحزابا متشتتین الا ان الاسلام یجمعهم ویشتمل علیهم '' ( ۱ )

پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مسلمانوں میں بہت زیادہ مسائل پر اختلاف ایجاد ہوا یہاں تک کہ ایک دوسرے کو گمراہ اور برائت کااظہار کرنے لگے۔ اگر چہ مخالف فرقوں میں تقسیم ہو گئے لیکن اسلام ان سب کو اپنے دامن میں اکٹھا کر لیتا ہے ۔

زاہربن احمد سرخسی متوفیٰ ۳۸۹ ہجری ابو الحسن اشعری کا قریبی دوست تھا وہ نقل کرتا ہے کہ ابو الحسن اشعری نے اپنی وفات کے وقت اپنے اصحاب و پیرو کاروں کو جمع کیا اور ان سے کہا :

''اشهد وا علی اننی لا اکفر احدا من اهل القبلة بذنب، لانی رایتهم کلهم یشیرون الی معبود واحد والاسلام یشملهم ویعمهم'' .( ۲ )

گواہ رہنا کہ میں نے اہل قبلہ میں سے کسی کو گناہ کی وجہ سے تکفیر نہیں کیا اس لئے کہ میں نے دیکھا یہ سب معبود واحد کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور اسلام ان سب کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے ۔

تکفیر ایمان سے سازگار نہیں :

اہل سنت کے معروف عالم دین شیخ الاسلام تقی الدین سبکی متوفیٰ ۷۵۶ ہجری کہتے ہیں :

''ان الاقدام علی تکفیر المومنین عسر جدا ، وکل من کان فی قلبه ایمان یستعظم القول بتکفیر اهل الاهواء والبدع ، مع قولهم لا اله الا الله ، محمد رسول الله ، فان التکفیر امر هائل

____________________

(۱)مقالات الاسلامیین ۱:۲.

(۲)الیوقیت والجواہر : ۵۸.

۱۸۲

عظیم الخطر '' .( ۱ )

مومنین کی تکفیر کا اقدام انتہائی سخت امرہے اور ہر باایمان شخص شہادتین کا اقرار کرنے والے اہل بدعت اور خواہشات پرست افراد کی تکفیر کو بہت مشکل کام سمجھتا ہے اس لئے کہ تکفیر انتہائی خطرناک کام ہے ۔

جمہور فقہاء و متکلمین کا نظریہ :

قاضی عضد الدین ایجی متوفیٰ ۷۵۶ ہجری لکھتا ہے :

''جمهور متکلمین والفقهاء علی ان لا یکفر احد من اهل القبلة...لم یبحث النبی عن اعتقاد من حکم باسلامه فیها ولا الصحابة ولا التابعون ، فعلم ان الخطا فیها لیس قادحا فی حقیقة الاسلام '' .( ۲ )

جمہور فقہاء و متکلمین کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو تکفیر نہیں کیا جا سکتا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہر گز مسلمان ہونے والے کے عقیدہ کے بارے میں سوال نہ فرماتے اور صحابہ و تابعین کا طریقہ بھی یہی رہا ۔ بنابرایں عقیدہ میں خطا و اشتباہ حقیقت اسلام کو ضرر نہیں پہنچا سکتا۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صحابہ کرام عقائد کی تحقیق کرتے : تفتازانی متوفیٰ ۷۹۱ ہجری کہتے ہیں :

____________________

(۱) الیواقیت والجواہر :۵۸ (۲) المواقف ۳:۵۶۰؛شرح المواقف ۸: ۳۳۹.

۱۸۳

''ان مخالف الحق من اهل القبلة لیس بکافر مالم یخالف ما هو من ضروریات الدین کحدوث العالم و حشر الاجساد ، واستدل بقوله ان النبی ومن بعده لم یکونوا یفتشون عن العقائد وینبهون علی ماهو الحق '' .( ۱ )

حق کے مخالف اہل قبلہ کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ ضروریات دین مانند حدوث عالم اور قیامت وغیرہ کا انکار نہ کرے اس لئے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور صحابہ کرام لوگوں کے عقائد کے بارے میں تحقیق نہ کیا کرتے بلکہ جو بظاہر حق ہوتا اسے لوگوں سے قبول کرتے ۔

صحابہ سے بغض اور انھیں گالی دینا کفر نہیں :

حنفی عالم ابن عابدین متوفیٰ ۲۵۲ ۱ ہجری کہتے ہیں :

''اتفق الائمة علی تضلیل اهل البدع اجمع وتخطئتهم ، وسبّ احد من الصحابة وبغضه لا یکون کفرا ، لکن یضلل الخ.وذکر فی فتح القدیر : ان الخوارج الذین یستحلون دماء المسلمین واموالهم ویکفّرون الصحابة ، حکمهم عند جمهور الفقهاء واهل الحدیث ، حکم البغاة ، وذهب بعض اهل الحدیث الی انهم مرتدون قال ابن المنذر : ولا اعلم احدا وافق اهل

____________________

(۱) شرح المقاصد ۵: ۲۲۷ ؛ البحرا لحرائق ۱: ۶۱۲ تالیف ابن نجیم

۱۸۴

الحدیث علی تکفیرهم وهذا یقتضی نقل اجماع الفقهاء '' .( ۱ )

تمام آئمہ اہل بدعت کی گمراہی پر متفق ہیں لیکن کسی صحابی کو گالی دینا یا اس سے بغض رکھنا کفر نہیں ہے البتہ گمراہی کی نشانی ہے ۔

شوکانی نے( متوفیٰ ۱۲۵۰ ہجری ) فتح القدیر میں لکھا ہے : خوارج جو مسلمانوں کا مال وجان مباح اور صحابہ کو کافر قرار دیتے تھے وہ بھی اکثر فقہاء اور اہل حدیث کے نزدیک باغی ہیں اگر چہ بعض اہل حدیث نے انھیں مرتد کہا ہے ۔ ابن منذر کہتے ہیں : فقہاء میں سے کوئی بھی اس مسئلہ تکفیر میں اہل حدیث سے موافقت نہیں رکھتابنابر ایں اجماع فقہاء ثابت ہے ۔

مجتہد خطاء کی صورت میں اجر کا مستحق ہے :

اہل سنت کے معروف عالم ابن حزم متوفیٰ ۴۵۶ ہجری لکھتے ہیں :

''وذهبت طائفة الی انه لا یکفر ولا یفسق مسلم بقول فی اعتقاد، اوفتیا! ، وان کل من اجتهد فی شئی من ذلک فدان بما رای انه الحق فانه ماجور علی کل حال ، ان اصاب فأجران و اِن اخطافاجر واحد، قال: وهذا قول بن ابی لیلیٰ وابی حنیفه وشافعی وسفیان الثوری وداود بن علی وهو قول کل من عرفنا له قولا فی هذه المسالة من الصحابة ( رضی الله عنهم )لا نعلم منهم خلافا فی

____________________

(۱ )حاشیہ رد المختار ۴: ۴۲۲

۱۸۵

ذلک اصلاً ''( ۱ )

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کو غلط عقیدہ یا غلطی سے فتویٰ دینے کی بناء پر کافر یا فاسق نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ اگر مجتہد اپنے اجتہاد کے نتیجہ میں ایک نظریہ پر پہنچتا ہے اور اسے حق سمجھتا ہے تو وہ اجر کا مستحق ہوگا ۔ا گر اس کا اجتہاد درست ہواتو دو اجر کا مستحق قرار پائے گا اور اگر خطا کر بیٹھا تو ایک اجر کا مستحق قرار پائے گا ۔ یہ نظریہ ابن لیلیٰ ، ابو حنیفہ ،شافعین ، سفیان ثوری اور داؤد بن علی جیسے فقہاء کا ہے اسی طرح جن صحابہ نے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے ان میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ۔

محمد رشید رضا متوفیٰ ۱۳۵۴ ہجری لکھتے ہیں :

''ان ما اعظم ما بلیت به الفرق الاسلامیة رمی بعضهم بعضابالفسق والکفر مع ان قصد کل الوصول الی الحق بما بذلوا جهدهم لتاییده واعقتاده والدعوة الیه ، فالمجتهد وان اخطا معذور '' .( ۲ )

امت مسلمہ جس عظیم ترین مصیبت میں مبتلا ہوئی وہ ایک دوسرے کو فسق و کفر سے متہم کرنا ہے جب کہ سب کے اجتہاد کا مقصد حق تک پہنچنااور اس کی دعوت دینا ہے لہٰذا مجتہد اگر خطا کا ر ہو تو اجر کا مستحق ہے ۔

____________________

(۱) الفصل ۳: ۲۴۷ ، باب من یکفرو لا یکفر

(۲) تفسیر المنار ۱۷: ۴۴.

۱۸۶

مفکر و ہابیت ابن تیمیہ متو فی ۷۲۸ ہجری لکھتا ہے :

''کان ابو حنیفه والشافعی وغیرهما یقبلون شهادة اهل الاهواء الا الخطابیة ویصححون الصلاة خلفهم ...ائمة الدین لا یکفّرون ولا یفسقون ولا یوثمون احداً من المجتهدین المخطئین ، لا فی مسائل علمیة ولا عملیة... کتنازع الصحابة : هل رآی محمد ربه واهل السنة لا یبتدعون قولا ولا یکفّرون من اجتهد فاخطا کما لم تکفر الصحابة الخوارج مع تکفیرهم لعثمان وعلی ومن والاهما '' .( ۱ )

ابو حنیفہ ، شافعی اور دیگر علماء خطابیہ کے علاوہ باقی اہل بدعت کی گواہی قبول کرتے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز قرار دیتے ۔ آئمہ دین کسی مجتہد کو علمی مسائل میں خطاکی وجہ سے فاسق یا کافر قرار نہ دیتے اور یہ صحابہ کے اس آیت میں اختلاف کے مانند ہے کہ : کیا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے رب کو دیکھا ؟

اور اہل سنت، صحابہ کے مخالف کوئی بدعتی بات نہیں کرتے اور نہ ہی مجتہد ین کو خطا کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے خوارج کو تکفیر نہ کیا جب کہ وہ عثمان،علی اور ان کے پیروکاروںکوکافرسمجھتے تھے۔

____________________

(۱) مجموع فتاویٰ ابنی تیمیہ ۴: ۲۰۹ و۱۵: ۲۰۷فتاویٰ الالبانی: ۲۹۲.

۱۸۷

خود وہابیوں کا تکفیر میں گرفتار ہونا

وہابی ۲۷۰ سال حکومت اور بے گناہ مسلمانوں کو تکفیر اور ان کے قتل عام کے بعد اب خود اسی دامن تکفیر میں گرفتار ہو چکے ہیں جسے انھوں نے مسلمانوں کے لئے پھیلا رکھا تھا ۔

مجلس کبار العلماء کا تکفیر کی مذمت کرنا

مجلس ( کبار العلمائ) نے اپنی انچاسویں کا نفرنس میں جو ۱۴۱۹۴۲ ہجری قمری بمطابق ۱۹۹۸ ء میں طائف میں تشکیل پائی ، اس میں اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں تکفیر اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل مانند قتل و غارت ، بم دھماکے ، مختلف اداروں کو نیست ونابود کرنے جیسے امور کو زیر غور لایا گیا ۔ اس موضوع اور اس کے آثار ۔ چاہے وہ بے گناہ لوگوں کا قتل ہو یا ان کے اموال کو نابود کرنا یا خوف وہراس پھیلا کر معاشرے میں بدا منی ایجاد کرنا ہو ۔ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مجلس نے خیرخواہی ، ادائیگی وظیفہ اور اسلامی مفاہیم میں اشتباہ کا شکار ہونے والے افراد سے در گذر کے عنوان سے ایک اعلان کیا جس میں مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ دلا تے ہوئے خدا وند متعال سے توفیق کی تمنا کی ہے ۔

۱۸۸

تکفیر بھی حلال و حرام کے مانند حکم شرعی ہے :

اولا:التکفیرحکم شرعی ، مدّده الی الله ورسوله ، فکما ان التحلیل والتحریم والایجاب الی الله ورسوله ، فکذلک التکفیر، ولیس کل ما وصف بالکفر من قول او فعل ، یکون کفرا اکبر مخرجاعن الملة .ولما کان مردّ حکم التکفیر الی الله ورسوله لم یجز ان نکفّر الا من دل الکتاب والسنة علی کفره دلالة واضحة ، فلا یکفی فی ذلک مجرد الشبهة والظن ، لما یترتب علی ذلک من الاحکام الخطیرة ، واذا کانت الحدود تدرء بالشبها ت ، مع ان ما یترتب علیها اقل مما یترتب علی التکفیر ، فالتکفیر اولی ان یدرء بالشبهات ؛ ولذلک حزر النبی من الحکم بالتکفیر علی شخص لیس بکافر ، فقال: '' ایّما امریء قال لاخیه: یا کافر ، فقد باء بها احدهما ، ان کان کما قال والا رجعت علیه ''.

۱۔ تکفیر ایک حکم شرعی ہے جس کا معیار خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے بیان ہونا چاہئے جس طرح حلال و حرام اور واجب کا خد اکی طرف سے بیان ہونا ضروری ہے ۔اور ضروری نہیں کہ قول و فعل میں ہر طرح کے کفر سے مراد کفر اکبر ہو جس سے انسان دین سے خارج ہو جاتا ہے ۔

جب کفر کا حکم خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے ہونا چاہئے تو پھر قرآن وسنت سے واضح دلیل کے بغیر کسی شخص کو کافر کہنا جائز نہیں ہے اور شک وا حتمال کی بناء پر کفر ثابت نہیں ہو تا اس لئے کہ اس پر بہت سخت احکام جاری ہوتے ہیں ۔

جب شبہ کے ہوتے ہوئے حدود جاری نہیں ہو سکتیں اگر چہ وہ تکفیر سے کمتر ہی کیوں نہ ہوں تو پھر شبہ کی صورت میں بدرجہ اولیٰ تکفیر کی حد جاری نہیں ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے کسی ایسے شخص کو تکفیر نہیں فرمائی ہے جو کافر نہ ہو اور فرمایا : جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کو کہے : اے کافر ! اگر اس نے درست کہا تو دوسرا شخص عذاب الٰہی میں مبتلا ہو جائے گا اور اگر جھوٹ بولا تو وہ عذاب خود اس کی طرف پلٹے گا ۔

۱۸۹

''و قد یرد فی الکتاب والسنة مایفهم منه ان هذا القول او العمل او الاعتقاد کفر، ولا یکفر من اتصف به ، لوجود مانع یمنع من کفره ، وهذا الحکم کغیره من الاحکام التی لا تتم الا بوجود اسبابها وشروطها ، وانتفاء موانعها کمافی الارث سببه القربة قد لا یرث بها لوجود مانع کاختلاف الدین ، وهکذا الکفر یکره علیه المومن فلا یکفر به .وقد ینطق المسلم بکلمة الکفر لغلبة فرح او غضب او نحوهما فلا یکفر بها لعدم القصد ، کما فی قصة الذی قال : ''اللهم انت عبدی وانا ربک '' اخطأ من شدة الفرح.

کبھی کبھار قرآن و سنت میں ایسی تعبیر دکھائی دیتی ہے کہ فلاں بات ، فلاں عمل یا فلاں عقیدہ کفر کا موجب بنتا ہے جب کہ مانع کی وجہ سے ایسے عمل کے مرتکب شخص کو کافر نہیں کہا جاسکتا ۔ اس لئے کہ تکفیر بھی باقی احکام کے مانند ہے جس کے اثبات کے لئے اسباب و شرائط کا موجود ہونا اور موانع کا نہ ہونا ضروری ہے جیسے میراث کا سبب قرابت و رشتہ داری ہے لیکن دین میں اختلاف کی وجہ سے انسان میراث سے محروم ہو جاتا ہے ( جیسے بیٹا کافر اورباپ مسلمان ہو )

اسی طرح اگر کسی مسلمان کو کفر آمیز کلمات ادا کرنے پر مجبور کیا جائے تو وہ اس کے کفر کا موجب نہیں بنیں گے ۔ نیز اگر کوئی مسلمان حد سے زیادہ خوشی یا غصہ کی وجہ سے کفر آمیز کلمہ کہہ بیٹھتا ہے تو وہ اس کے کفر کا سبب نہیں بنے گا اس لئے کہ اس نے اس کا ارادہ نہیں کیا اور یہ ویسا ہی ہے جیسے ایک شخص نے بے حد خوشی کی حالت میں کہہ دیا :''اللھم انت عبدی وانا ربک '' اے اللہ ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں ۔

۱۹۰

''والتسرع فی التکفیر یترتب علیه امور خطیرة من استحلال الدم والمال ،و منع التوارث وفسخ النکاح ،و غیرها مما یترتب علی الردة ، فکیف یسوغ للمومن ان یقدم علیه لا دنی شبهة ...وجملة القول ان التسرع فی التکفیر له خطره العظیم ؛ لقول الله عزوجل :( قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّی الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِکُوا بِﷲ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَی ﷲ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) ( ۱ )

تکفیر میں جلد بازی پر بہت زیادہ نقصانات مترتب ہوتے ہیں جیسے خون و مال کامباح ہونا، میراث سے محرومی ، میاں بیوی کے درمیان جدائی وغیرہ بنا بر ایں کیسے ممکن ہے کہ کوئی مومن چھوٹے سے شبھہ کی وجہ سے کسی کی طرف ایسی نسبت دے ؟( اور اتنی بڑی ذمہ داری اٹھائے ؟)

خلاصہ یہ کہ تکفیر میں جلد بازی کے انتہائی خطرناک اثرات ہیں اسی لئے خداوند متعال فرماتا ہے :

کہہ دیجئے کہ ہمارے پروردگار نے صرف بد کاریوں کو حرام کیا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی اور گناہ نا حق ظلم اور بلا دلیل کسی چیز کو خدا کا شریک بنا نے اور بلا جانے بوجھے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام قراردیا ہے ۔

اس آیت مجیدہ کے مطابق ہر طرح کی بدکاری ، ظلم و شرک ، نا روا نسبت اور بغیر دلیل کے کسی بات کے خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام شمار کیا ہے ۔

تکفیر کے سبب ہونے والے قتل عام کی حرمت :

''ثانیاً :ما نجم من هذ االاعتقاد الخاطیء من استباحة الدماء وانتهاک الاعراض ، وسلب الاموال الخاصة والعامة، وتفجیر المساکن والمرکبات ، وتخریب المنشأت ، فهذه الاعمال

____________________

(۱) سورۂ اعراف: ۳۳.

۱۹۱

وامثالها محرمة شرعا باجماع المسلمین ؛ لما فی ذلک من هتک لحرمة الانفس المعصومة ، وهتک لحرمة الاموال ، وهتک لحرمات الامن والاستقرار ، وحیاة الناس الآمنین المطمئنین فی مساکنهم ومعایشهم ، وغدوهم و رواحهم ، وهتک للمصالح العامة التی لا غنی للناس فی حیاتهم عنها ''.

۲۔ اس باطل عقیدہ کے نتیجہ میں خون ، مال اور ناموس کا مباح ہونا ، قتل وغارت ، گھروں، گاڑیوں اور تجارتی و دفتری مراکز کودھماکوں سے اڑانا اور ان جیسے باقی امور کے حرام و گناہ ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اس لئے کہ یہ امور مال وجان کی بے حرمتی اور صبح و شام دفاتر میں کام کے لئے آنے جانے والے افراد کی زندگی کے سکون کونابود کرنے کا باعث بنتے ہیں اور اسی طرح معاشرے کی عمومی مصلحت کی تباہی کا موجب ہیں جس کے بغیر زندگی ممکن نہیں ۔

''و قد حفظ الاسلام للمسلمین اموالهم واعراضهم وابدانهم، وحرّم انهتاکها ، وشدّد فی ذلک ، وکان من آخر ما بلغ به النبی امته فقال فی خطبة حجة الوداع :''ان دماء کم واموالکم واعراضکم علیکم حرام کحرمة یومکم هذا فی شهرکم هذا، فی بلدکم هذا'' ثم قال:''لأ هل بلغت ؟ اللهم فاشهد ''. متفق علیه وقال :''کل المسلم علی المسلم حرام دمه و ماله وعرضه ''.وقال علیه الصلاة والسلام : '' اتقوا الظلم فان الظلم ظلمات یوم القیامة ''.

۱۹۲

جب کہ اسلام نے مسلمانوں کے مال وجان اور ناموس کو محترم قرار دیا ہے اور کسی کو ان کی بے حرمتی کا حق نہیں دیا ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے حجة الوداع کے موقع پر جو امور ابلاغ فرمائے ان میں سے آخری امریہ تھا کہ آپ نے فرمایا:

تمہارا مال و جان اور ناموس ایک دوسرے کے لئے اسی طرح محترم ہے جس طرح آج کا دن ( عید قربان کا دن ) یہ مہینہ اور یہ مقدس مکان ( مکہ معظمہ ) محترم ہیں اور پھر فرمایا: خدا یا ! گواہ رہنا میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے

اسی طرح فرمایا: ہر مسلمان کا مال وجان اور ناموس دوسرے پر حرام ہے نیز یہ بھی فرمایا: ظلم سے پرہیز کرو اس لئے کہ ظلم قیامت کی تاریکیوں میں سے ہے ۔

''وقد تو عّد الله سبحانه من قتل نفساً معصومةً باشدّ الوعید ، فقال سبحانه فی حق المومن :( وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیهَا وَغَضِبَ ﷲ عَلَیْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِیمًا ) ( ۱ )

اور فرمایا : ''جو بھی کسی مومن کو قصداً قتل کر دے گا تو اس کی جزا جہنم ہے اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب بھی ہے اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اس کے لئے عذاب عظیم بھی مہیاکر رکھا ہے ۔''

____________________

(۱) سورۂ نسائ: ۹۳.

۱۹۳

وقال سبحانه فی حق الکافر الذی له ذمة ، فی حکم قتل الخطاء : ( إ لاَّ أَنْ یَصَّدَّقُوا فَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَکُمْ وَهُوَ مُؤْمِن فَتَحْرِیرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ... ) ( ۱ )

اسی طرح مسلمانوں کی پناہ میں زندگی بسر کرنے والے کافر کے غلطی سے قتل ہوجانے کے بارے میں فرمایا: ''اس کی دیت اور کفارہ ادا کرو ''

''فاذا کان الکافر الذی له امان اذا قتل خطاّ ، فعلیه الدیة والکفارة، فکیف اذا قتل عمداً، فان الجریمة تکون اعظم ، والاثم یکون اکبر وقد صح عن رسول الله انه قال : '' من قتل معاهداّ لم یرح رائحة الجنة ''.

خدا وند متعال نے کسی بے گناہ کا غلطی سے خون بہانے پر بہت سخت سزا رکھی ہے ۔اگر یہی قتل قصداً ہوتو یقینا اس کا گناہ اور جرم سنگین تر ہوگا ۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے صحیح حدیث میں فرمایا : اگر کوئی ایسے غیر مسلم کو قتل کرے جو مسلمانوں سے پیمان باندھ چکا ہوتو وہ جنت کی خوشبوتک نہیں سونگھ سکے گا ۔

____________________

(۲)سورۂ نسائ: ۹۲.

۱۹۴

تکفیر کے بدترین آثار سے اسلام کی بیزاری :

ثالثاً :''ان المجلس اذ یبین حکم تکفیر الناس بغیر برهان من کتاب الله وسنة رسوله وخطورة اطلاق ذلک ، لما یترتب علیه من شرور وآثام ، فانه یعلن للعام ان الاسلام بری ء من هذا المعتقد الخاطی ء ، وان مایجری فی بعض البلدان من سفک الدماء البریئة، وتفجیر المساکن والمرکبات والمرافق العامة وخاصة، وتخریب المنشآت هو عمل اجرامی ، والاسلام بری ء منه ''.

۳۔ قرآن و سنت سے دلیل کے بغیر کی جانے والی تکفیر اور اس کے بد ترین آثار اور گناہ کے مذکورہ بالا حکم کو مد نظر رکھتے ہوئے مجلس پوری دنیا کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ اسلام اس طرح کے ہر قسم کے عقیدہ سے بیزار ہے اور بے گناہوں کا خون بہانا ، عمارتوں، گاڑیوں اور عمومی وخصوصی مراکز کا تباہ کرنا وغیرہ یہ ایک مجرمانہ عمل ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

''وهکذا کل مسلم یومن بالله والیوم الآخر بری ء منه ، وانما هو تصرف من صاحب فکر منحرف، وعقیدة ضالة، فهو یحمل اثمه وجرمه ، فلا یحتسب عمله علی الاسلام ، ولا علی المسلمین المهتدین بهدی الاسلام ، المعتصمین بالکتاب والسنة ، والمستمسکین بحبل الله المتین ، وانما هو محض افساد واجرام تاباه الشریعة والفطرة؛ ولهذا جاء ت نصوص الشریعة قاطعة بتحریمه، محذرة من مصاحبة اهله''.

اسی طرح ہر مسلمان جو خدا و روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ ان کاموں سے بیزار ہے اور یہ کام تنہا منحرف اور گمراہ لوگوں کا ہے جس کا گناہ بھی انھیں کی گردن پر ہے اور اسے اسلام اور قرآن و سنت کی پیروی کرنے والے ہدایت یافتہ مسلمانوں کے حساب میں شمار نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے جسے شریعت اسلام اور فطرت سلیم قبول کرنے کو تیار نہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی روایات نے ان امور کو یقینی طور پر حرام قرار دیا ہے اور ان امور کے مرتکب افراد کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے

اور پھر اس اعلان میں ان آیات و روایات کو ذکر کیا گیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام ، محبت و دوستی ،نیکی میں ایک دوسرے سے تعاون ، منطقی و عقلی گفتگوکا حکم دیتا ہے اور تعصب و غصہ سے ممانعت فرماتاہے ۔

۱۹۵

اور اس اعلان کے آخر میں خدا وند متعال کو اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ کا واسطہ دیتے ہوئے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں سے اس مصیبت کو دور کرے اور اسلامی ممالک کے سر براہوں کو ملک و ملت کو فائدہ پہنچانے کی توفیق دے تاکہ اس فساد کی جڑیں کاٹ سکیں ۔ اور خدا وند متعال اپنے دین کی مدد اور کلمہ ٔ حق کی سر بلندی کے لئے ان کی نصرت اور مسلمانوںکے امور کی اصلاح اور ان کے ذریعے سے حق کی مدد فرمائے اس لئے کہ خدا اس پر ولی و قادر ہے ۔ خدا کا درود و سلام ہو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی آل اور اصحاب پر۔( ۱ )

اس اعلان پر دستخط کرنے والی شخصیات :

مجلس کے چئرمین مفتی اعظم سعودی عرب عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، صالح بن محمد بن اللحیان ، راشد بن صالح بن خنین ، محمد بن ابراہیم ابن جبیر، عبد اللہ بن سلیمان المنیع ،عبد اللہ بن عبد الرحمن الغدیان،صالح بن فوزان الفوزان، محمد بن صالح العثیمین ، عبد اللہ بن عبد الرحمن البسام ، حسن بن جعفر العتمی، عبد العزیزبن عبد اللہ بن محمد آل الشیخ،(یہ بن باز کے فوت ہونے کے بعد سعودی عرب کا مفتی ہوگا )ناصر ابن حمد الراشد، محمد بن عبد اللہ السبیل ، عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم آل الشیخ ، محمد بن سلیمان البدر، عبد الرحمن بن حمزة المرزوقی، عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی، محمد بن زید آل سلیمان، بکر بن عبد اللہ ابو زید، عبد الوہاب بن ابراہیم ابو سلیمان ، صالح بن عبدا لرحمان الاطرم،

سعودی بادشاہ کا تکفیر کرنے والے وہابی مفتیوں پر حملہ

سعودی عرب کے بادشاہ ملک عبد اللہ نے تکفیر کرنے والے مفتیوں کو گمراہ ،

____________________

(۱)اس اعلان کی اصلی کاپی بندہ (۲۰۰۴ ء میں سعودی عرب سے لے کر آیا تھا جسے فقیہ گرانقدر استاد محترم حضرت آیت العظمیٰ سبحانی کی خدمت میں پیش کیا اور انھوں نے اسے اپنی چار جلدوں پر مشتمل کتاب ( معجم طبقات المتکلمین ) کے صفحہ نمبر ۱۰۰ پر نقل کیا ہے اور حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی نے اسے اپنی کتاب (وہابیت بر سر دوراہی) میں ذکر کیا ہے ۔چونکہ ان کا ترجمہ انتہائی سلیس تھا لہٰذا ہم نے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اسی کو نقل کیا ہے ۔

۱۹۶

گمراہ کنندہ اور ان کے اس ارتکاب کو شرک سے بھی عظیم گناہ قرار دیا ہے ۔

ابناء سے نقل کرتے ہوئے شیعہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق (المجمع الفقھی برابطة العالم الاسلامی)کی انیسویں کانفرنس جو بارہ سے ۱ ٹھارہ آبان ۱۳۸۶ بمطابق ۲۰۰۷ ء میں تشکیل پائی اس میں شاہ عبد اللہ نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کو ان گمراہ اور گمراہ کنندہ مفتیوں کے خلاف قیام کرنے کی دعوت دی ہے جنھوں نے امت مسلمہ کو قتل دھماکوں اور تکفیر جیسے عظیم فتنہ میں مبتلا کر رکھا ہے ۔

شاہ عبداللہ نے تکفیر ی فتوی جاری کرنے والے وہابی شیوخ کو سیٹلائٹ اورانٹرنیٹ کے شیوخ کا لقب دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ نادانی میں خدا پر بھی افتراء باندھتے ہیں اوران کا یہ کام عظیم ترین مصائب کا باعث اورکبیر ترین گناہوں بلکہ شرک باللہ سے بھی بدتر وبالاتر ہے ۔

شاہ عبد اللہ نے اپنے اس پیغام میں یہ بھی کہا ہے کہ بعض مفتی جو پلک جھپکنے کی دیر میں فتویٰ صادر کردیتے ہیں اگر چہ ان کو اپنی خطا کا علم بھی ہو جائے پھر بھی اپنا فتویٰ واپس لینے کو تیار نہیں ہوتے جب کہ یہ ان کے تکبر اور شیطان کے سامنے تسلیم ہونے کی علامت ہے ۔

کہا گیا ہے کہ اس کانفرنس کا مقصد ڈش اور انٹر نیٹ پر صادر کئے جانے والے فتوی کو باضابطہ بنایا تھا ۔( ۱ )

____________________

(۱)شیعہ نیوز ۵ آبان ۱۳۸۶ شمسی.

۱۹۷

مفتی اعظم سعودیہ کا عراق میں ہونے والے خود کش دھماکوں کی مذمت کرنا

خبر گزاری مہر سے نقل کرتے ہوئے شیعہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے مفتی شیخ عبد العزیز آل شیخ نے سعودی عرب میں منتشر ہونے والے ایک بیان میں عراق کے اندر ہونے والے مسلحانہ اور خود کش حملوں میں سعودی باشندوں کی شرکت کے بارے میں اظہار ناراحتی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر چہ یہ حملے قابض فوجوں سے مقابلہ کے بہانہ سے انجام دیئے جاتے ہیں لیکن اس کی قربانی عراق کی اکثریتی آبادی شیعہ لوگ بنتے ہیں ۔

اور کہا ہے :''کئی سالوں سے سعودی نوجوان خدا کی راہ میں جہاد کے بہانہ سے ملک سے خارج ہو رہے ہیں یہ نوجوان دین سے عشق و محبت تو رکھتے ہیں لیکن حق و باطل میں تشخیص کی قدر ت نہیں رکھتے ''

انہوں نے مزید کہا: یہ چیز باعث بن رہی کہ غیر ملکی طاقتیں جہاد کے بہانہ سے انھیں اپنا آلہ ٔ کار بناکر اپنے نجس اہداف تک پہنچ سکیں : یہاں تک کہ ہمارے نوجوان شرق و غرب کی تجارت کا وسیلہ بنے ہوئے ہیں جس کا اسلام اور مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے ۔

اسی طرح اس سعودی مفتی نے یہ بھی کہا ہے : یہ نوجوان فریب کاری اور دھوکہ بازی کے نتیجہ میں ایسے کام انجام دیتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ سعودی عرب کے سرمایہ دار لوگ عراق کے دہشت گردوں کی مالی حمایت کررہے ہیں اپنے ملک کے سرمایہ داروں سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ ان دہشت گردگروہوں کی مدد نہ کریں ۔

نیز کہا ہے کہ میں ان سرمایہ داروں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنا پیسہ خرچ کرنے میں احتیاط سے کام لیں تاکہ کہیں ان کا پیسہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث نہ بنے ۔( ۱ )

____________________

(۱)شیعہ نیوز ۱۰ مہر ۱۳۸۶ از خبر گزاری مہر.مطابق ۲۰۰۷ئ۔

۱۹۸

فصل ششم

وہابی اور مسلمانوں پر بدعت کی تہمت

آئین وہابیت کی بدکاریوں میں سے بد ترین برائی یہ ہے کہ جو چیز ان کے افکار سے مطابقت نہ رکھتی ہو اسے بدعت اور شرک سمجھ بیٹھے ہیں کہ جس کی طرف اس فصل میں اشارہ کر رہے ہیں ۔

۱۔ میلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بدعت قراردینا :

سابق مفتی اعظم سعودی عرب لکھتا ہے :

''لا یجوز الاحتفال بمولد الرسول صلی الله علیه وسلم ولا غیره ؛ لان ذلک من البدع المحدثة فی الدین ، لان الرسول ]صلی الله علیه وسلم [لم یفعله ولاخلفاؤ ه الراشدون ولا غیرهم من الصحابة رضی الله عنهم ولا التابعون لهم باحسان فی القرون المفضلة '' .( ۱ )

____________________

(۱) مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعة۱: ۸۳فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۱۸.

۱۹۹

پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور کسی دوسرے شخص کا میلاد مناناجائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ دین میں ایجاد کی جانے والی بدعات میں سے ہے چونکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خلفائے راشدین ، دوسرے صحابہ یا تابعین میں سے کسی نے اسے انجام نہیں دیا ۔

۲۔ مدئن کے شروع میں مدئیِں:

سعودی عرب میں مجلس دائمی فتویٰ نے سوگواری کے مراسم کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے :

''لایجوز الاحتفال بمن مات من الانبیاء والصالحین ولا احیاء ذکراهم بالموالدو...لان جمیع ما ذکر من البدع المحدثة فی الدین ومن وسائل الشرک '' .( ۱ )

انبیاء و صالحین کی مجالس سوگواری اور ان کے یوم ولادت کی محافل بر پا کرناجائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ بدعت اور شرک کا وسیلہ ہیں ۔

۳۔ اذان سے پہلے یا بعد میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود بھیجنا:

سعودی عرب میں مجلس دائمی فتوی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود و سلام بھیجنے کے سوال کے جواب میں لکھا ہے :

''ذکر الصلاةوالسلام علی الرسول صلی الله علیه وسلم قبل الاذان ، وهکذا الجهر بها بعد الاذان ، مع الاذان ، من البدع

____________________

(۱) مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعة۳: ۵۴ فتویٰ نمبر ۱۷۷۴

۲۰۰