وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں0%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف: ڈاکٹر سید محمد حسینی قزوینی
زمرہ جات:

صفحے: 274
مشاہدے: 154881
ڈاؤنلوڈ: 4994

تبصرے:

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 154881 / ڈاؤنلوڈ: 4994
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

المحدثة فی الدین ، وقد ثبت عن النبی صلی الله علیه وسلم انه قال: ''من احدث فی امرنا هذا، مالیس منه فهو رد ''متفق علیه .و فی روایة : ''من عمل عملاً لیس علیه امرنا فهو رد''.راوه مسلم من فعل تلک البدعة ومن اقرها ومن لم یغیرها وهو قادر علی ذلک فهو آثم''.( ۱ )

اذان سے پہلے یا اس کے بعدپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )پر درود بھیجنا بدعت ہے جسے دین میں ایجاد کیا گیا ہے ۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا:

اگر کوئی شخص ہمارے بیان کر دہ احکام میں کسی چیز کا اضافہ کرے تو وہ مردود ہے ۔

اسی طرح فرمایا اگر کوئی شخص ایسا عمل انجام دے جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو اس کا یہ عمل قبول نہیں ہوگا ۔

سابق مفتی اعظم سعودی عرب بن باز نے بھی اسی طرح کا فتویٰ دیا ہے ۔(۲ )

وہابیوں کے مظالم کی فصل میں گذرچکا کہ مفتی مکہ مکرمہ زینی دحلان لکھتے ہیں :

وہابی منبر پر اور اذان کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )پردرود بھیجنے سے

____________________

(۱)مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعة۲:۵۰۱ فتویٰ نمبر ۹۶۹۶.

(۲)فتاوٰی اسلامیة ۱: ۲۵۱.

۲۰۱

منع کرتے ہیں ایک نابینا شخص نے اذان کے بعد درود پڑھا تو اسے محمد بن عبد الوہاب کے سامنے پیش کیا گیا اس نے درود بھیجنے کے جرم میں اس نابینا موذن کے قتل کا فتویٰ دے دیا ۔

زینی دحلان مزید لکھتے ہیں : اگر وہابیوں کی اس جیسی بد کاریوں کو زیر قلم لایا جائے تو کتابیں بھر جائیں۔( ۱ )

۴۔ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس قبولیت کے قصد سے دعا کرنا :

سعودی عرب کی مجلس فتویٰ کا رکن شیخ صالح فوزان لکھتا ہے :

''من البدع التی تقع عند قبة الرسول صلی الله علیه وسلم کثرة التردد علیه ، کلما دخل المسجد ذهب یسلم علیه ، و کذلک الجلوس عنده ، ومن البدع کذلک ، الدعا ء عند قبر الرسول صلی الله علیه وسلم او غیره من القبور ، مظنة ان الدعاء عندها یستجاب '' .(۲ )

قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس زیادہ رفت وآمد ، وہاں بیٹھنا ، آنحضرت پر سلام بھیجنا بدعت شمار ہوتا ہے اسی طرح قبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یاکسی اورکی قبرکے پاس اس نیت سے دعا کرناکہ شاید وہاں پہ قبول ہو جائے یہ بھی بدعت ہے.

____________________

(۱) فتنة الوہابیة :۲۰.

(۲)مجلة الدعوة :۳۷،شمارہ ۱۶۱۲.

۲۰۲

۵۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قرآن یا نماز کا ثواب ہدیہ کرنا :

سعودی عرب کی مجلس دائمی فتوی نے لکھا ہے :

''لا یجوز اهداء الثواب للرسول صلی الله علیه وسلم ، لا ختم القرآن ولا غیره ، لان السلف الصالح من الصحابة رضی الله عنهم ، ومن بعدهم ، لم یفعلوا ذلک ، والعبادات توقیفیة '' .( ۱)

پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو ختم قرآن وغیرہ کا ثواب ہدیہ کرنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ صحابہ اور تابعین نے یہ کام نہیں کیا اور عبادات توقیفی ہیں ۔

۶۔قل خوانی :

سعودی عرب کے ایک مفتی شیخ عثیمین نے لکھا ہے :

''واما الاجتماع عند اهل المیت وقرائة القرآن ، وتوزیع التمر واللحم ، فکله من البدع التی ینبغی للمرء تجنّبها، فانه ربما یحدث مع ذلک نیاحة وبکاء وحزن ، وتذکر للمیت حتی تبقی المصیبة فی قلوبهم لا تزول وانا انصح هولاء الذین یفعلون مثل هذا ، انصحهم ان یتوبوا الی الله عزوجل '' .( ۲)

میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونااور اسی طرح میت کے لئے قرآن کی

____________________

(۱)فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث والافتاء ۹: ۵۸ ، فتویٰ نمبر ۲۵۸۲.

(۲)فتاویٰ منا رالاسلام۱: ۲۷۰.

۲۰۳

تلاوت کرنا ، کھجوریں اور گوشت تقسیم کرنا بدعت ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے چونکہ یہ کام پسماندگان کے لئے غم و اندوہ ، گریہ اور نوحہ کا باعث بنتا ہے جس سے وہ اس مصیبت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔ اور میں ایسے افرا دکو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ایسے کاموں سے دوری اختیارکریں اور خداوند متعال سے توبہ طلب کریں ۔

۷۔مردوںکو نماز کا ثواب ہدیہ کرنا :

سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے لکھا ہے :

''لا یجو زان تهب ثواب ما صلیت للمیت ؛ بل هو بدعة؛ لانه لم یثبت عن النبی صلی الله علیه وسلم ولاعن الصحابة رضی الله عنهم '' .( ۱ )

میت کو نماز کا ثواب ہدیہ کرنا بدعت ہے چونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل نہیں ہوا ۔

۸۔ تلاوت قرآن سے پروگرام کا آغاز:

سعودی مفتی شیخ عثیمین لکھتا ہے :

''اتخاذ الندوات والمحاضرات بآیات من القرآن دائماً کانها سنّة مشروعة ، فهذالا ینبغی'' (۲)

ہمیشہ تلاوت قرآن سے سنت سمجھ کر مجالس و محافل کا آغاز کرنا جائز نہیں ہے ۔

____________________

(۱)فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث الافتاء ۴: ۱۱ ؛ فتویٰ نمبر ۷۴۸۲.

(۲) نور علی الدرب :۴۳.

۲۰۴

۹۔مل کر تلاوت قرآن یا دعاء کرنا

سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے لکھا ہے :

''ان قرأة القرآن جماعة بصوت واحد بعد کل من صلاة الصبح والمغرب او غیرهما بدعة، وکذا التزام الدعا ء جماعة بعد الصلاة'' .(۱)

ایک جگہ جمع ہو کر صبح یا مغرب کی نماز کے بعد ایک آواز میں مل کر قرآن کی تلاوت اور دعا کرنا بدعت ہے ۔

۱۰۔تلاوت قرآن کے بعد صد ق اللہ العظیم کہنا:

سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے لکھا ہے :

''قول صد ق الله العظیم بعد الانتها من قراء ة القرآن بدعة'' (۲)

تلاوت قرآن کے بعد''صدق اللّٰه العظیم '' کہنا بدعت ہے ۔

سعودی مفتی شیخ عثیمین نے بھی اسی طرح کافتویٰ دیا ہے:(۳ )

____________________

(۱)فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث و الافتاء ۳: ۴۸۱، فتویٰ نمبر ۴۹۹۴.

(۲)فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث والافتاء ۴: ۱۴۹ ، فتویٰ نمبر ۳۳۰۳.

(۳)ختم التلاوة به ای بقول (صدق الله العظیم ) غیر مشروع ولا مسنون ، فلایسن للانسان عند انتهاء القرآن الکریم ان یقول : (صد ق الله العظیم ) فتاوی اسلامیہ۴: ۱۷

۲۰۵

۱۱۔خانہ کعبہ کے غلاف کو مس کرنا :

سعودی مفتی شیخ عثیمین لکھتا ہے :

''التبرک بثوب الکعبة والتمسح به من البدع ؛ لان ذلک لم یرد عن النبی صلی الله علیه وسلم '' .(۱)

خانہ کعبہ کے غلاف کو متبرک سمجھنا اور اس کو مس کرنا بدعت ہے چونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے اس بارے میں نقل نہیں ہوا ۔

۱۲۔ تسبیح کے ساتھ ذکر کرنا :

سابق مفتی اعظم سعودی عرب بن باز نے لکھا ہے :

''لا نعلم اصلا فی الشرع المطهّر للتسبیح بالمسبّحة ، فالاولیٰ عدم التسبیح بها، والاقتصار علی المشروع فی ذلک ، وهو التسبیح بالانامل '' .(۲)

____________________

(۱) مجموع الفتاویٰ ابن عثیمین ، فتویٰ ۳۶۶.

(۲) فتاویٰ الاسلامیة ۲: ۳۶۶.

۲۰۶

تسبیح کے ساتھ ذکر کرنا شریعت میں بیان نہیں ہوا لہٰذا بہتریہ ہے کہ شرعی طریقہ کو اپنا جائے اور وہ ہاتھ کی انگلیوں پر تسبیح پڑھنا ہے ۔

اے کاش! اس سے یہ بھی سوال کیا جاتا کہ چمچہ کے ساتھ کھانا کھانا، گاڑی اور جہاز میں سفر کرنا بھی شریعت میں بیان ہوا ہے یا نہیں ؟

۱۳۔ سالگرہ منانا:

وہابی مفتی شیخ عثیمین لکھتا ہے :

''ان الاحتفال بعید المیلاد للطفل ، فیه تشبه باعداء الله ؛ فان هذه العادة لیست من عادات المسلمین ،وانما ورثک من غیرهم وقد ثبت عنه صلی الله علیه وسلم :'' ان من تشبه بقوم فهو منهم'' .(۱)

بچوں کا برتھ ڈے منانا اسلامی عادات میں سے نہیں ہے بلکہ یہ دشمنوں سے میراث میں ملا ہے ۔ اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے فرمایا ہے : جو کسی قوم سے شباہت اختیار کرے گا وہ انھیں کے ساتھ محشور ہوگا ۔

دوسری جگہ لکھا ہے :

''واما اعیاد المیلاد للشخص او اولاده او مناسبة زواج ونحوها، فکلها غیر مشروعة وهی البدعة اقرب من الاباحة'' .(۲)

____________________

(۱) فتاویٰ منار الاسلام ۱: ۴۳. (۲)مجموع فتاویٰ ورسائل ابن عثیمین ۲: ۳۰۲.

۲۰۷

اگر کوئی شخص اپنا یا اپنے بچوں کا بر تھ ڈے منائے یا شادی کی سالگرہ منائے تو اس نے خلاف شریعت کام کیا اور یہ کام بدعت سے نزدیک تر ہے ۔

سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے بڑتھ ڈے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے :

''اعیاد الموالد نوع من العبادات المحدثةفی دین الله فلا یجوز عملها لای من الناس مهما کان مقامه او دوره فی الحیاة '' (۱ )

برتھ ڈے ایک طرح کی عبادت ہے جسے دین میں اضافہ کیا گیا ہے لہٰذا کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے چاہے وہ معاشرے کی کتنی ممتاز شخصیت ہی کیوں نہ ہو۔

____________________

(۱)فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث والافتاء ۳ ۸۳ ،فتوٰی نمبر ۲۰۰۸.

۲۰۸

بدعت کے بارے میں وہابی افکار کی رد

بدعت کے صحیح مفہوم کا درک نہ کرنا :

بدعت کے بارے میں وہابیوں کا جو نظریہ بیان کیا گیا اس کے متعلق حسن ظن رکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بدعت کے صحیح مفہوم کو نہ سمجھا جس کی وجہ سے تو ہم کا شکار ہو گئے اور ہروہ چیز جو ان کے افکار کے مخالف ہو اسے بدبینی کی عینک سے دیکھتے ہوئے بدعت قرار دے دیتے ہیں ۔ لہٰذا پہلے ہم بدعت کے لغوی معنی کو بیا ن کریں گے اور اس کے بعد قرآن و سنت کی رو سے بدعت کے بارے میں تحقیق کریں گے ۔

بدعت کالغوی معنیٰ:

جوہری لکھتا ہے :

''انشاء الشیء لا علی مثال السابق ، واختراعه وابتکاره بعد ان لم یکن ...'' .( ۱ )

بدعت کا معنی ایک بے سابقہ چیز کا اختراع کرنا ہے جس کا نمونہ پہلے موجود نہ ہو

یقینا آیات و روایات میں بدعت کے اس معنی کو حرام قرار نہیں دیا گیا اس لئے کہ اسلام انسانی زندگی میں نئی ایجادات کا مخالف نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کی تائید کرتا ہے جو ہمیشہ انسان کو اس کی انفرادی واجتماعی زندگی میں نئی ایجادات کی راہنمائی کرتی ہے ۔

بدعت کا شرعی معنیٰ :

دین میں بدعت کے جس معنی کے بارے میں بحث کی جاتی ہے وہ دین میں کسی شے کو دین سمجھ کر کم یا زیادہ کرنا ہے اور یہ معنیٰ اس لغوی معنیٰ سے بالکل جدا ہے جسے بیان کیا گیا ۔

راغب اصفہانی لکھتے ہیں :

''والبدعة فی المذهب : ایراد قول لم یستن قائلها وفاعلها فیه

____________________

(۱) الصحاح ۳: ۱۱۳ ؛ لسان العرب ۸: ۶؛ کتاب العین ۲: ۵۴

۲۰۹

بصاحب الشریعة واماثلها المتقدمة واصولها المتقنة '' .( ۱ )

دین میں بدعت ہر وہ قول و فعل ہے جسے صاحب شریعت نے بیان نہ کیا ہو اور شریعت کے محکم و متشابہ اصول سے بھی نہ لیا گیا ہو ۔

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں :

''والمحدثات بفتح الدال جمع محدثة ، والمراد بها : ما احدث ولیس له اصل فی الشرع ویسمیه فی عرف الشرع بدعة ، وماکان له اصل یدل علیه الشرع فلیس ببدعة '' .( ۲ )

ہر وہ نئی چیز جس کی دین میں اصل موجود نہ ہو اسے شریعت میں بدعت کہا جاتا ہے اور ہر وہ چیز جس کی اصل پر کوئی شرعی دلیل موجود ہو اسے بدعت نہیں کہا جائے گا ۔

یہی تعریف عینی نے صحیح بخاری کی شرح( ۳ ) ،مبارکپوری نے صحیح ترمذی کی شرح( ۴ ) ، عظیم آبادی نے سنن ابی داؤد کی شرح( ۵ ) اور ابن رجب حنبلی نے جامع العلوم میں ذکر کی ہے۔( ۶ )

____________________

(۱) مفردات الفاظ القرآن :۳۹.

(۲) فتح الباری ۱۳: ۲۱۲.

(۳) عمدة القاری ۲۵: ۲۷.

(۴)تحفة الاحوذی ۷: ۳۶۶

(۵)عون المعبود ۱۲: ۲۳۵

(۶) جامع العلوم والحکم :۱۶۰طبع ہند

۲۱۰

شیعہ متکلم و فقیہ نامور سید مرتضیٰ بدعت کی تعریف میں لکھتے ہیں :

''البدعة زیادة فی الدین أو نقصان منه ،من اسناد الی الدین'' ( ۱ )

بدعت ،دین میں کسی چیز کا دین کی طرف نسبت دیتے ہوئے کم یا زیادہ کرناہے ۔

طریحی کہتے ہیں :

''البدعة: الحدث فی الدین ، ومالیس له اصل فی کتاب ولا سنة ، وانما سمیت بدعة؛ لان قائلها ابتدعها هو نفسه '' ( ۲ )

بدعت، دین میں ایسا نیا کام ہے جس کی قرآن و سنت میں اصل موجود نہ ہو اور اسے بدعت کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ بدعت گذار اسے اپنے پاس سے اختراع کرتا ہے ۔

بدعت کے ارکان

گذشتہ مطالب کی بناء پر بدعت کے دو رکن ہیں :

۱۔ دین میں تصرف:

دین میں کسی بھی قسم کا تصرف چاہے وہ اس میں کسی چیز کے زیادہ کرنے سے

____________________

(۱)رسائل شریف مرتضیٰ ۲: ۲۶۴، ناشر دار القرآن الکریم قم

(۲)مجمع البحرین ۱: ۱۶۳ ، مادہ بَدَع َ.

۲۱۱

ہو یا اس میں کسی چیز کے کم کرنے سے مگر اس شرط کے ساتھ کہ تصرف کرنے والا اپنے اس عمل کو خدا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف نسبت دے۔

لیکن انسانی طبیعت کے تنوع کی خاطر نئی ایجادات جیسے فٹ بال ، والی بال ، باسکٹ بال وغیرہ بدعت نہیں کہلائیں گے ۔

۲۔ کتاب میں اس کی اصل کا نہ ہونا :

بدعت کی اصطلاحی و شرعی تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی ایجادات اس صورت میں بدعت قرار پائیں گی جب منابع اسلامی میں ان کے بارے میں کوئی دلیل خاص یا عام موجود نہ ہو ۔

جب کہ ایسی نئی ایجادات جن کی مشروعیت کو بطور خاص یا عام قرآن و سنت سے استنباط کرنا ممکن ہو انھیں بدعت کا نام نہیں دیا جائے گا جیسے اسلامی ممالک کی افواج کوجدید اسلحہ سے لیس کرنا کہ جس کے جواز پر بعض قرآنی آیات کے عموم سے استنباط کیا جا سکتا ہے مانند :

( وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ ﷲ وَعَدُوَّکُمْ... ) ( ۱ )

ترجمہ : اور ( مسلمانو!) ان کفار کے ( مقابلہ کے ) واسطے جہاں تک تم سے ہو سکے ( اپنے بازو کے ) زور سے اور بندھے ہوئے گھوڑوں سے ( لڑائی کا )

سامان مہیا کرو اس سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن پر دھاک بٹھا لو گے ۔

اس آیت شریفہ میں( ( وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ ) جہاں تک ہو سکے اپنی طاقت بڑھاؤ ) کے حکم عام سے اسلامی افواج کو جدید ترین اسلحہ سے مسلح کرنے کا جواز ملتا ہے ۔(۲)

____________________

(۱)سورۂ انفال : ۶۰.

(۲) وہابیت ، مبانی فکری وکارنامۂ عملی :۸۳، تالیف آیت اللہ سبحانی ، خلاصہ اور تصرف کے ساتھ

۲۱۲

بدعت قرآن کی رو سے

۱۔ قانون گذاری کا حق فقط خدا ہی کو ہے :

قرآن کی رو سے تشریع اور قانون گذاری کا حق فقط اور فقط خدا وند متعال کو ہے اور کوئی دوسرا اس کے اذن کے بغیر قانون وضع کر کے اس کے اجراء کرنے کا حکم نہیں دے سکتا ۔

( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ َأکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ ) (۱)

ترجمہ : حکم تو بس خدا ہی کے واسطے خاص ہے اس نے تو حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔یہی سیدھا دین ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں ۔

( أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ ِیَّاهُ ) کے قرینہ سے پتہ چلتا ہے کہ لفظ ( الحکم ) سے مراد قانون گذاری ہے ۔

____________________

(۱) سورۂ یوسف :۴۰

۲۱۳

۲۔ انبیاء کو بھی شریعت میں تبدیلی کا حق نہیں :

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا وظیفہ شریعت الٰہی کو لوگوں تک پہنچا نا اور اسے اجراء کرنا ہے وگرنہ احکام اسلام میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لا سکتے اور کفار کی آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے اس درخواست کہ۔ آپ اپنے دین میں تبدیلی لائیں یا ایسا قرآن لے کرآئیں جو ہماری مرضی کے مطابق ہو ۔ کے جواب میں خد اوند متعال نے اپنے نبی کوحکم دیا :

( قُلْ مَا یَکُونُ لِی أَنْ ُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِی إِنْ َتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ إِنِّی أَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ ) ( ۱ )

ترجمہ( اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں ۔ میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے میں تو اگر اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو بڑے ( کٹھن کے )دن سے ڈرتاہوں ۔

۳۔ قرآن میں رہبانیت کی بدعت کی مذمت :

خداوند متعال نے عیسائیوں کی رہبانیت جسے انھوں نے بندگا ن خدا کی راہ پر جال کے طور پر بچھا رکھا ہے اسے بدعت اور خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے سخت مذمت فرمائی ہے :

( رَهْبَانِیَّةً ابْتَدَعُوهَامَا کَتَبْنَاهَا عَلَیْهِمْ إِلاَّ ابْتِغَائَ رِضْوَانِ ﷲ

____________________

(۱)سورۂ یونس : ۱۵.

۲۱۴

فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا فَآتَیْنَا الَّذِینَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَکَثِیر مِنْهُمْ فَاسِقُونَ ) ( ۱ )

ترجمہ : اور رہبانیت ( لذت سے کنارہ کشی ) ان لوگوں نے خو دایک نئی با ت نکالی تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر ( ان لوگوں نے ) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ( خو دایجاد کیا) تو اس کو بھی جیسا نبھانا چاہئے تھا نہ نبھا سکے ۔ تو جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے اجر دیا ور ان میں بہت سے بد کار ہیں ۔( ۲ )

۴۔بدعت ، خدا کی ذات پر تہمت لگانا ہے :

خداوند متعال نے مشرکین کو دین میں بدعت ایجاد کرنے اور اسے خدا کی طرف نسبت دینے کی وجہ سے سخت مذمت کرتے ہوئے فرمایا :

( قُلْ َرَأَیْتُمْ مَاأ َنْزَلَ ﷲ لَکُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ أَﷲ أَذِنَ لَکُمْ أَمْ عَلَی ﷲ تَفْتَرُونَ ) ( ۳ )

ترجمہ ( اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ) تم کہہ دو کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ خدا نے تم پر روزی نازل کی تو اب اس میں سے بعض کو حرام اور بعض کو حلال بنانے لگے ۔ (اے

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !) تم کہہ دو کہ کیا خد انے تمہیں اجازت دی ہے یا تم خداپر بہتان باندھتے ہو

____________________

(۱) سورۂ حدید: ۲۷.

(۲) تفسیر نمونہ ۲۳: ۳۸۲.

(۳) سورۂ یونس : ۵۹.

۲۱۵

۵۔ بدعت ، خدا کی ذا ت پر جھوٹ باندھنا ہے :

ایک اور آیت شریفہ میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

( وَلاَتَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ هَذَا حَلاَل وَهَذَا حَرَام لِتَفْتَرُوا عَلَی ﷲ الْکَذِبَ إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی ﷲ الْکَذِبَ لاَیُفْلِحُونَ ) ( ۱ )

ترجمہ : او رجھوٹ موٹ جو کچھ تمہاری زبان پرآئے ( بے سمجھے بوجھے ) نہ کہہ بیٹھا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ اس کی بدولت خدا پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو ۔ اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہ ہوں گے ۔

____________________

(۱) سورۂ نحل : ۱۱۶.

۲۱۶

بدعت ، روایات کی روشنی میں

جس طرح قرآن مجید نے بدعت گذاروں کی شدید مذمت کی ہے اور ان کے اقوال کو حقیقت سے دور ، جھوٹ اور تہمت پرمبنی قرا ردیا ہے اسی طرح شیعہ و سنی کتب کے اندر موجودہ روایات میں بھی بدعت گذارکی مذمت اور ا سے فاسق وبدکار انسان قرار دیا گیا ہے ، نمونہ کے طور پر چند ایک روایات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

۱۔ہر بدعت مردود ہے :

اہل سنت کی دو معتبر کتب صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا قول نقل کیا گیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''من احدث فی امرنا هذا، مالیس فیه فهو رد'' .( ۱ )

جو شخص ہماری لائی ہوئی شریعت میں ایسی چیز کا اضافہ کرے جو اس میں نہ ہو تو وہ مردود ہے ۔

''...من عمل عملا لیس علیه امرنا فهو رد'' .( ۲ )

جو شخص ایسا عمل کرے جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ عمل مردود ہے ۔

صحیح مسلم میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا فرمان نقل کیا گیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

بہترین کلام ، کلام خدا ہے اور بہترین ہدایت ، ہدایت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے اور بد ترین کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔

۲۔ہر بدعت گمراہی ہے :

صحیح مسلم میں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا فرمان بیان کیا گیا ہے :

____________________

(۱)صحیح بخاری ۳:۱۶۷ ؛ کتاب الصلح ، باب قول الامام لا صحابہ ...؛ صحیح مسلم ۵: ۱۳۲ ، کتاب الاقضیة ، باب بیان خیر الشھود

(۲)صحیح بخاری ۳: ۲۴ ،کتاب البیوع ، باب کم یجوز الخیار؛ صحیح مسلم ۵:۱۳۲، کتاب الاقضیة ، باب بیان خیر الشھود

۲۱۷

''فان خیر الحدیث کتاب الله وخیر الهدیٰ هدی محمد و شر ا لا مور محدثا تها وکل بدعة ضلالة '' .( ۱ )

بہترین کلام ، کلام خدا ہے اور بہترین ہدایت ، ہدایت پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے اور بد ترین امور بدعات ہیں جو دین میں ایجاد کی جاتی ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔

سنن نسائی میں ہے :

''کل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار '' ( ۲ ) ہربدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا راستہ جہنم ہے ۔

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں :پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا یہ فرمان :'' کل بدعة ضلالة'' ہر بدعت گمراہی ہے ۔

منطوق و مفہوم یعنی ظاہر اور دلالت کے اعتبار سے ایک قاعدہ ٔ کلی ہے اس لئے کہ اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی بدعت پائی جائے وہ گمراہی ہے اور شریعت سے خارج ہے اس لئے کہ پوری کی پوری شریعت ہدایت ہے اس میں گمراہی کا کوئی امکان نہیں ۔

اگر ثابت ہو جائے کہ فلاں حکم بدعت ہے تو منطق کے اعتبار سے یہ دو

____________________

(۱)صحیح مسلم ۳: ۱۱ کتاب الجمعة ، باب تخفیف الصلاة والجمعة.

(۲)سنن نسائی ۳: ۱۸۸ ؛ جامع الصغیر سیوطی ۱:۲۴۳؛ صحیح ابن خزیمہ ۳: ۱۴۳ ؛ دیباج علی مسلم ۱: ۵.

۲۱۸

مقدمے (یہ حکم بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ) صحیح ہیں جن کا نتیجہ یہ حکم گمراہی اور دین سے خارج ہے ۔ خود بخود ثابت ہو جائے گا ۔

اورا س جملہ ''کل بدعة ضلالة '' سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد ہر وہ نیا کام ہے جس پر شریعت میں کوئی دلیل خاص یا عام موجود نہ ہو ۔( ۱ )

روایات شیعہ کی روشنی میں بدعت

کتب شیعہ میں بھی بدعت کی مذمت اور اس سے جنگ کرنے کے بارے میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

۱۔ بدعت ،سنت کی نابودی کا باعث :

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :''ما احدثت بدعة الا ترک بها سنة (۲) جب بھی کوئی بدعت ایجا د ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے ایک سنت نابود ہو جاتی ہے ۔

۲۔ بدعت گذار پر خدا ، ملائکہ اور لوگوں کی لعنت ہے :

امام محمد باقر علیہ السلام پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

____________________

(۱)کل بدعت ضلاله ،قاعدة شرعیه کلیة بمنطوقهاومفهومهااما منطوقها فکان یقال حکم کذابدعة وکل بدعةضلالة فلاتکون من الشرع لان الشرع کله هدی فان ثبت ان الحکم المذکوربدعة صحت المقدمات وانتجتاالمطلوب والمرادبقوله ،کل بدعة ضلالة ، مااحدث ولادلیل له من الشرع بطریق خاص ولاعام ، فتح الباری ۱۳:۲۱۲

(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ :۱۴۵ ؛ مستدرک الوسائل ۱۲: ۳۲۴؛ بحار الانوار۲: ۲۶۴.

۲۱۹

''من احدث حدثا ، او آوی محدثا ، فعلیه لعنة الله ، والملائکة ، والناس اجمعین ، لا یقبل منه عدل ولا صرف یوم القیامة ...'' (۱ )

جو شخص بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعت گزار کو پناہ دے ( اس کے لئے امکانات فراہم کرے ) اس پر خدا ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے او ر اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوگا

۳۔ بدعت گزار کے ساتھ ہم نشینی کی ممانعت :

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''لا تصبحوا اهل البدع ولاتجالسوهم فتصیروا عند الناس کواحد منهم ، قال رسول الله ( صلی الله علیه وسلم ) : المرء علی دین خلیله وقرینه'' ( ۲ )

بدعت گزار وں کے ساتھ مت اٹھو بیٹھو کہ کہیں تمہیں بھی لوگ انھیں میں شمار نہ کرنے لگیں چونکہ انسان اپنے دوست کا ہم مذہب ہوتا ہے ۔

۴۔ اہل بدعت سے بیزاری واجب ہے :

امام جعفر صادق علیہ السلام نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے نقل

____________________

(۱)وسائل الشیعہ ۲۹: ۲۸؛ بحار الانوار۲۷: ۶۵؛ سنن ابو داؤد ۲: ۲۷۵، طبع دار الفکر للطباعة بیروت ؛ سنن نسائی ۸:۲۰ ، طبع دار الفکر للطباعة بیروت ۔

( ۲)اصول کافی ۲: ۳۷۵ ۳، باب مجالسة اہل المعاصی۔

۲۲۰