وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں0%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف: ڈاکٹر سید محمد حسینی قزوینی
زمرہ جات:

صفحے: 274
مشاہدے: 155089
ڈاؤنلوڈ: 4997

تبصرے:

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155089 / ڈاؤنلوڈ: 4997
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''واذا رائیتم اهل الریب والبدع من بعدی فاظهروا البراء ة منهم واکثروا من سبهم والقول فیهم والوقیعة..'' ( ۱)

اگر میرے بعد اہل شک اور بدعت گزاروں کو دیکھو تو ان سے بیزاری و نفرت کا اظہار کرو ان پر سب وشتم کرو اور ان کی برائی کو بیان کرو ( تاکہ معاشرے میں ان کا مقام گر جائے اور ان کی بات کی اہمیت نہ رہے )

۵۔بدعت گذار کا احترام ، دین کی نابودی:

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''من تبسم فی وجه مبتدع فقد اعان علی هدم دینه '' ( ۲ )

جو شخص بدعت گذار کے سامنے اظہار تبسم کرے اس نے دین کی نابودی میں اس کی مدد کی ہے ۔

نیز فرمایا:''من مشیٰ الی صاحب بدعة فوقره فقد مشی فی هدم الاسلام '' .( ۳ )

جو شخص بدعت گذار کی ہمراہی اور ا س کا احترام کرے درحققیت اس نے دین اسلام کی نابودی کی طرف ایک قدم بڑھایا ۔

____________________

(۱)اصول کافی ۲: ۴۳۷۵، باب مجالسة اہل المعاصی

(۲) بحار الانوار۴۷: ۲۱۷،مناقب ابن شہر آشوب ۳: ۳۷۵ ؛ مستدرک الوسائل ۱۲: ۳۲۲.

(۳)محاسن برقی ۱: ۲۰۸ ؛ ثواب الاعمال شیخ صدوق : ۲۵۸؛ من لا یحضرہ الفقیہ ۳: ۵۷۲؛ بحار الانوار۲:۳۰۴.

۲۲۱

۶۔ بدعت کا مقابلہ کرنے کاحکم :

مرحوم کلینی (رحمة اللہ علیہ )نے محمد بن جمہور کے واسطے سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''اذا ظهرت البدع فی امتی فلیظهر العالم علمه ، فمن لم یفعل فعلیه لعنة الله '' ۔( ۱ )

ترجمہ: جب میری امت میں بدعات ظاہر ہونے لگیں تو علماء پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کا اظہار کریں ( اور اس بدعت کا راستہ روکیں ) پس جو ایسا نہ کرے اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

کیا بزرگان دین کی یاد منانا بدعت ہے ؟

اس فصل کے شروع میں بیان کر چکے کہ وہابی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے میلاد اور انکی وفات کے سوگ منانے کو بدعت قرار دیتے ہیں ۔

سابق سعودی مفتی اعظم بن باز کا فتویٰ بھی نقل کرچکے کہ وہ کہتا ہے :

میلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جائز نہیں ہے چونکہ دین میں بدعت شمار ہوتا ہے اس لئے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ و تابعین نے یہ کام انجام نہیں دیا :( ۲ )

اسی طرح سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے مراسم سوگواری کے بارے میں سوال کے جواب میں لکھا ہے :

انبیاء و اولیاء کی وفات کی یاد مانا جائز نہیں ہے چونکہ یہ دین میں بدعت اور شرک کا وسیلہ ہے ۔(۳)

____________________

(۱)اصول کافی ۱: ۲۵۴،باب البدع.

( ۲)لایجوز الاحتفال بمولد الرسول الله صلی الله علیه وسلم ولا غیره ؛ لان ذلک من البدع المحدثة فی الدین ، لان الرسول (ص)لم یفعله ولاخلفاؤه الراشدون ولا غیرهم من الصحابة رضی الله عنهم والتابعون لهم باحسان فی القرون المفضلة ''مجموع فتاوی ومقالات متنوعة ۱:۱۸۳ وفتاوی اللجنة الدایمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۱۸.

(۳)لا یجوز احتفال بمن مات من الانبیاء والصالحین والاحیاء ذکراهم بالموالد و...لان جمیع ماذکر من البدع المحدثة فی الدین ومن وسایل الشرک ''.فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳:۵۴ ، فتوای شماره ۱۷۷۴

۲۲۲

انبیاء کے میلاد کا قرآن سے اثبات

گذشتہ مطالب سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی یاد منانے پر قرآن و سنت میں ایسے اطلاقات و عمومات موجود ہیں جو اس کی مشروعیت کو ثابت کرتے ہیں ۔

۱۔یہ درحقیقت تعظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے :

خداوند متعال فرماتا ہے :

( فَالَّذِینَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی أُنزِلَ مَعَهُ أوْلَئِکَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ ) ( ۲ )

ترجمہ : ...پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا حترام کیا اس کی مدد کی اور

____________________

(۲) سورۂ اعراف: ۱۵۷.

۲۲۳

اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی درحقیت فلاح یافتہ اورکامیاب ہیں ۔

جب جملہ (وَعَزَّرُوہُ )سے بطور کلی تعظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ثابت ہوتی ہے تومیلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جشن اور اس کی خوشی بھی تعظیم و تکریم نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک مصداق ہے ۔

۲۔ یہ اجر رسالت ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْها َجْرًا ِالاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ( ۱ )

ترجمہ : رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ان سے کہہ دو کہ میں تم سے اجر رسالت نہیں چاہتا مگر یہ کہ میرے اہل بیت سے محبت کرو ۔

خداوند متعال نے اس آیت شریفہ میں اہل بیت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے محبت ودوستی کو اجر رسالت قرار دیا ہے تو اہل بیت علیہم السلام کی ہر طرح کی تعظیم و تکریم چاہے وہ ان کی ولادت کے دن خوشی مناکر ہویا ان کی شہادت کے ایام میں عزاداری کی مجالس برپا کرکے یہ سب حکم خدا پر لبیک کہتے ہوئے ان سے محبت و مودت کا اظہار کرنا ہے ۔

۳۔ میلاالنبی بھی جشن نزول مائدہ کے مانند:

قابل غور نکتہ آسمانی دسترخوان کے نزول کی مناسبت سے بنی اسرائیل کی

____________________

(۱) سورۂ شوریٰ:۲۳.

۲۲۴

سالانہ عید کے جشن کی داستان ہے جس کے بارے میں خداوند متعال فرماتا ہے :

( اللّٰهُمَّ رَبَّنَا اَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَائِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ ) ( ۱ )

ترجمہ: پروردگار ! ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کردے کہ ہمارے اول وآخر کے لئے عید ہو جائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے ۔

جب نزول مائدہ جیسی عارضی نعمت سالانہ عیدبن سکتی ہے تو پھر ولادت وبعثت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )جو بشریت کے لئے نعمت جاودانہ ہے وہ کیسے عید اور خوشی کا باعث نہیں بن سکتی ۔

سعودی عرب کی قومی عیدیں

تعجب آور بات تو یہ ہے کہ اسی مجلس نے سعودی عرب کی سرکاری عیدوں کے بارے میں لکھا ہے :

''وماکان المقصود منه ( العید ) تنظیم الاعمال مثلا لمصلحة الامة وضبط امورها ؛ کاسبوع المرور ، وتنظیم مواعید الدراسیة والاجتماع الموظفین للعمل ونحوذلک ، مما یفضی به الی

____________________

(۱)سورۂ مائدہ: ۱۱۴.

۲۲۵

التقرب والعبادة والتعظیم بالاصالة ، فهو من البدع العادیة التی لا یشملها قوله صلی الله علیه وسلم احدث فی امرنا ما لیس منه فهو رد ، فلا حرج فیه ؛ بل یکون مشروعاً '' ( ۱ )

اگر ان عیدوں کے منانے کا مقصد قوم کی مصلحت اور ان کے امور کی تنظیم ہو جیسے ہفتہ پولیس ، تعلیمی سال کا آغاز ، سر کاری ملازموں کا اجتماع وغیرہ جن میں عبادت اور تقرب خدا کا قصد نہیں کیا جاتا تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور یہ نہی پیغمبر میں شامل نہیں ہوں گی ۔

واضح ہے کہ ایسا تفکر ، فکری جمود کی انتہاء ہے اس لئے کہ اگر چہ جشن ولادت کی مخالفت ایک فطری امر کی مخالفت کرنا ہے بلکہ جشن ولادت اور سرکاری جشن میں کوئی فرق نہیں ہے چونکہ اپنی اولاد کی ولادت کی خوشی منانے والا شخص ہر گز عبادت یا تقرب خداکا ارادہ نہیں کرتا ( تاکہ اس کا یہ جشن منانا بدعت قرار پائے )۔

____________________

(۱) فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۸۸، فتویٰ ۹۴۰۳.

۲۲۶

فصل ہفتم

انبیاء واولیاء سے توسل کا حرام قراردینا

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کے بارے میں وہابیوں کے نظریات

۱۔ ابن تیمیہ کانظریہ

مسلمانوں پر وہابیوں کے اعتراضات میں سے بنیادی ترین اعتراض ان کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور اولیائے خدا سے توسل کرنے کے بارے میں ہے جسے بہانہ بناکر وہ مسلمانوں پر شرک کی تہمت لگاتے ہیں ۔

مفکر وہابیت ابن تیمیہ کہتا ہے :

''من یاتی الی قبر نبی او صالح، ویساله حاجته ،ویستنجده ، مثل ان یساله ان یزیل مرضه ، او یقضی دینه ، او نحو ذلک مما لا یقدر علیه الا الله فهذا شرک صریح ، یجب ان یستتاب صاحبه، فان تاب والاقتل .وقال: قول کثیر من الضلال: هذااقرب الی الله منی :. وانا بعید من الله لایمکننی ان ادعوه الا بهذه الواسطة ونحو ذلک من اقوال المشرکین ''.( ۱ )

اگر کوئی شخص قبر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )یا کسی ولی کی قبر کے پاس اس سے حاجت طلب کرے مثلاً اپنی بیماری کی شفا یا قرض کی ادائیگی کی درخواست کرے جس پر خدا کے سوا کوئی قادر نہیں تو یہ واضح شرک ہے لہٰذا ایسے شخص کو توبہ پرآمادہ کیا جائے اگر توبہ کرلے تو صحیح ورنہ اسے قتل کر دیا جائے ۔نیز کہا ہے :جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کو اس لئے واسطہ بناتے ہیں کہ وہ ہم سے زیادہ خدا کے قریب ہے تو یہ بات شرک اور اس کا کہنے والا مشرک ہے ۔

۲۔ نظریہ محمد بن عبد الوہاب:

مجدد افکار ابن تیمیہ محمد بن عبد الوہاب کہتا ہے :

''وان قصدهم الملائکة والانبیاء ، والاولیاء یریدون شفاعتهم والتقرب الی الله بذلک ، هو الذی احل دماء هم واموالهم '' .( ۲ )

____________________

(۱) زیارة القبور والاستنجادبالمقبور :۱۵۶؛ الھدیة السنیة : ۴۰؛کشف الارتیاب :۲۱۴.

(۲)کشف الشبہات ، ص ۵۸، ط، دار العلم بیروت و مجموع مؤلفات الشیخ محمد بن الوہاب ۶: ۱۱۵، رسالة کشف الشبہات

۲۲۷

یہ لوگ ملائکہ ، انبیاء اورا ولیاء سے شفاعت طلب کرتے ہیں اور انھیں تقرب خدا کا وسیلہ قرار دیتے ہیں یہی چیز ان کے مال کے حلال اور قتل کے جائز ہونے کا باعث بنی ہے ۔

محمد بن عبد الوہاب نے شاہ فہد کے دادا محمد بن سعود سے کئے ہوئے معاہدہ کو پورا کرنے کی خاطریہ اعلان کیا :

جو شخص انبیاء و اولیاء کو واسطہ قرار دے اور ان سے شفاعت طلب کرے اس کا مال و جان مباح ہے ۔(..)

دوسری جگہ لکھا ہے :

''من ظن ان بین الله وبین خلقه وسائط ترفع الیهم الحوائج فقد ظن بالله سوء الظن '' .( ۱ )

جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا اور مخلوق کے درمیان واسطے موجود ہیں جو ان کی حاجات کو خدا تک پہنچاتے ہیں تو اس نے خد اکے بارے میں سوء ظن کیا ۔

''ان محمداصلی الله علیه وسلم ، لم یفرّق بین من اعتقد فی الاصنام ومن اعتقد فی الصالحین ؛ بل قاتلهم کلهم وحکم بکفرهم '' ( ۲ )

____________________

(۱) مجموعہ مولفات شیخ محمدبن عبد الوہاب ۵: ۲۴۱.

(۲)حوالہ سابق ۶: ۱۴۶.

۲۲۸

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )بت پرستوں اور اولیاء کو وسیلہ قرار دینے والوں میں فرق نہ کرتے بلکہ ان سب کوکافر قرار دے کرا ن سے جنگ کا حکم صادر فرمایا:

''لا یصح دین الاسلام الا بالبرأة ممن یتقرب الی الله بالصلحاء و تکفیر هم '' ( ۱ )

کسی شخص سے اس وقت تک اسلام قبول نہ ہو گا جب تک وہ صالحین کو تقرب خدا کا واسطہ بنانے والوں سے بیزاری کا اعلان اور انھیں کافر نہ سمجھ لے ۔

''من عبد الله لیلا ونهارا ثم دعا نبیاً او ولیاً عند قبره ، فقد اتخذ الهین اثنین ، ولم یشهد ان لا اله الا الله ؛ لان الا له هو الموعد '' .( ۲ )

اگر کوئی شخص دن رات عبادت کرے اور پھر قبر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا ولی کے پاس آکر اسے پکارے تو اس نے دو معبودوں کی پرستش کی اور اس نے توحید کی گواہی نہیں دی اس لئے کہ معبود وہی ہوتا ہے جسے انسان پکار تا ہے ۔

مرتد کے حکم کے بارے میں کہتا ہے :

''اجماع المذاهب کلهم علی ان من جعل بینه وبین الله وسائط یدعوهم انه کافر مرتد حلال المال والدم '' ( ۳ )

____________________

(۱)حوالہ سابق.

(۲)حوالہ سابق

(۳) حوالہ سابق

۲۲۹

تمام مذاہب اسلامی کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے تو وہ کافرو مرتد ہے اور ا س کامال وجان مباح ہے ۔

ارے، محمدبن عبد الوہاب نے اپنے جھوٹے خیالات کے ذریعہ مسلمانوں کے کفر کو ثابت کر کے جہاد کا اعلان کر تے ہوئے بدو عربوں کے احساسات کو ابھارا اور پھر محمدبن سعود کی مدد سے لشکر آمادہ کر کے مسلمانوں کے شہروں اور دیہاتوں پر حملہ کر کے خون کی ندیاں بہائیں اور ان کے اموال کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا ۔( ۱)

۳۔ سعودی مجلس فتویٰ کا نظریہ :

سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے شیعہ کے ساتھ شادی کے بارے میں سوال کا جوا ب دیتے ہوئے اس کے حرام ہونے کی علت یوں بیان کی ہے :

''لایجوز تزویج بنات اهل السنة من ابناء الشیعة ولا من الشیوعیین ، واذا وقع النکاح فهو باطل، لا ن المعروف عن الشیعة دعاء اهل البیت،والا ستغاثة بهم ، وذلک شرک اکبر '' .( ۲ )

اہل سنت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی شیعہ یا کیمونسٹ بچوں سے کریں اگر ایسا نکاح واقع ہو جائے تو باطل ہے اس لئے کہ مشہور یہ ہے کہ شیعہ اہل بیت سے تو سل کرتے ہیں اور یہ شرک اکبر ہے ۔

____________________

(۱) تاریخ نجد :۹۵ ، فصل الثالث ، الغزوات ؛ تاریخ آل سعود۱:۳۱؛تاریخچۂ نقد وبررسی وہابی ہا :۱۳۔ ۷۶.

(۲)فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۱۸: ۲۹۸.

۲۳۰

ایک اور سوال کے جواب میں یوں فتویٰ دیا:

''اذاکان الواقع کما ذکرت من دعائهم علیا والحسن والحسین ونحوهم فهم مشرکین شرکا اکبر یخرج من ملة الاسلام فلا یحل ان نزوجهم المسلمات ، ولا یحل لنا ان نتزوج من نسائهم ، ولا یحل لنا ان ناکل من ذبائحهم '' .( ۱ )

اگر یہ حقیقت ہے جیسا کہ سوال میں بیان ہو اہے کہ وہ لوگ (یاعلی ) (یاحسن) (یا حسین )کہتے ہیں تو وہ مشرک اور دین اسلام سے خارج ہیں ان سے اپنی بیٹیوں کی شادی کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی ان کے ذبح کئے ہوئے حیوان کا گوشت کھانا جائز ہے جب کہ اسی مجلس نے یہودی اور مسیحی کے ساتھ شادی کرنے کے بارے میں سوال کے جواب میں لکھا ہے :

یجوز للمسلم ان یتزوج کتابیة یهودیة او نصرانیة اذا کانت محصنة وهی الحرة العفیفة '' ( ۲ )

مسلمان کا اہل کتاب یہودی یا مسیحی لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے مگر یہ کہ وہ بدکار نہ ہو ۔

افسوس اور تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ یہی مجلس اسلام کے نام پر یہود ونصاریٰ

____________________

(۱)حوالہ سابق۳: ۳۷۳فتویٰ نمبر ۳۰۸.

(۲) حوالہ سابق ۱۸:۳۱۵.

۲۳۱

کے ساتھ تو نکاح کو جائز قرار دے رہی جن کے شرک آلود چہرے کو قرآن نے آشکار کرتے ہوئے فرمایا:

( وَقَالَتْ الْیَهُودُ عُزَیْر ابْنُ ﷲ وَقَالَتْ النَّصَارَی الْمَسِیحُ ابْنُ ﷲ ذَلِکَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ یُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ ﷲ أَنَّی یُؤْفَکُونَ ) ( ۱ )

ترجمہ: اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں یہ سب ان کی زبانی باتیں ہیں ان باتوں میں یہ بالکل ان کے مثل ہیں جو ان کے پہلے کفار کہا کرتے تھے ۔

لیکن شیعوں کے ساتھ نکاح کو باطل وحرام قرار دے رہی جب کہ شیعہ شہادتین کاا قرار کرتے ہیں قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں تمام احکام خد اکو بجا لاتے ہیں اور اپنے مذہب کو اہل بیت علیہم السلام سے لیا ہے ۔

۴۔ سعودی مفتی اعظم کا نظریہ :

طائف میں سعودی عرب کے مفتی اعظم جنا ب شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں اس نے توسل اور وسیلہ کے حرام ہونے کے بارے میں جو دلیل بیان کی وہ یہ تھی کہ وفات کے بعد پیغمبر کا رابطہ اس عالم سے منقطع ہو چکا ہے اور وہ کسی چیز پر قادر نہیں یہاں تک کہ وہ کسی کے حق میں دعا بھی

نہیں کر سکتے ۔ بنا بر ایں عاجز سے توسل کرنا اور اسے وسیلہ بنا نا عقلی طور پر باطل اور موجب شرک ہوگا ۔(۲)

____________________

(۱) سورۂ توبہ: ۳۰.

(۲)۲۴ جمادی الثانی ۱۴۲۴ ہجری بمطابق ۲۰۰۳ ء کوطے شدہ پروگرام کے مطابق حجة الاسلام والمسلمین جناب نواب صاحب ( مکہ مکرمہ میں رہبر معظم کے نمائندے ) کے ہمراہ طائف کا سفر کیا جہاں مفتی اعظم سعودی عرب جناب شیخ عبد العزیز عبد اللہ آل الشیخ سے ملاقات کی اور تقریبا ایک گھنٹہ نکاح متعہ ، سجدہ اور توسل و وسیلہ کے موضوع پر بحث کی ۔ یہ ساری بحث ریکارڈ شدہ ( valiasr - aj. com )پر موجود ہے ۔

۲۳۲

توسل کے بارے میں وہابیوں کے نظریات کی رد

الف:انبیاء سے توسل قرآن میں ثابت ہے

۱۔ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل پر حکم قرآن :

انبیاء علیہم السلام سے ان کی زندگی میں شفاعت طلب کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شیعہ عقائد سے کسی قسم کاکوئی تضاد نہیں پایاجاتا ۔ جیساکہ خداوند متعال کا فرمان ہے :

( وَلَوْأ َنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا ) (۱)

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے حق

____________________

(۱) سورۂ نساء : ۶۴.

۲۳۳

میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔

۲۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی زندگی اور اس کے بعد توسل کا ثابت ہونا :

اردن کے اہل سنت عالم دین محمود سعید ممدوح توسل کے جوازکے بارے میں علمائے اہل سنت کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

اس آیت شریفہ( إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ... )

میں گناہگاروں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بخشش کے لئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو واسطہ اور شفیع قرار دیں ۔ یہ حکم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حیات اور اس کے بعد دونوں حالتوں کو شامل ہے اور اگر کوئی اسے فقط آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات تک محدود کرنا چاہے تو وہ غلطی کا شکار ہوا اور راستہ سے اتر گیا اس لئے کہ جب بھی کوئی فعل حرف شرط کے بعد آتا ہے تو وہ عموم کا فائدہ دیتا ہے اور کسی عبارت کے مفہوم کے عام اور کلی ہونے کی سب سے واضح ترین صورت یہی ہے جیساکہ کتاب ( ارشاد الفحول ) کے صفحہ نمبر ۲۲ پر اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

استاد محترم علامہ محقق سید عبد اللہ صدیق غماری لکھتے ہیں : یہ آیت شریفہ عموم رکھتی ہے اور حیات وممات دونوں کو شامل ہوگی اور ان دونوں حالتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معین کرنا دلیل کا محتاج ہے جوموجود نہیں ہے ۔

۲۳۴

قرآنی آیات کی شرح اور اس مقدس کتاب کی تفسیر کرنے والے حضرات نے بھی اس آیت شریفہ سے عموم ہی سمجھا ہے اس لئے کہ تمام مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں عتبیٰ سے ایک اعرابی شخص کے قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آنے کی داستان نقل کی ہے ۔

ابن کثیر دمشقی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے : بعض بزرگان مانند شیخ ابو نصر صباغ نے اس مشہور داستان کو عتبی سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : میں قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی داخل ہوا اور کہا: ''السلام علیک یا رسول اللہ... ''.( ۱ )

۳۔ مالک کا توسل کے جواز پر قرآن سے استدلال

ایک مرتبہ جب عباسی خلیفہ منصور دوانقی مسجد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں زیارت میں مشغول تھا اور بلند آواز سے سلام اور دعا پڑھ رہا تھا تو اہل سنت کے امام مالک سے پوچھا :

''استقبل القبلة وادعوا ام استقبل رسول الله (صلی الله علیه وسلم ) و ادعو'' .

کیا زیارت کے بعد قبلہ کا رخ کرکے خد اکو پکاروں یا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی طرف منہ کر کے دعا کروں ؟

امام مالک نے کہا :

____________________

(۱)رفع المنارةفی تخریج احادیث التوسل و الزیارة : ۵۷.

۲۳۵

''ولم تصرف وجهک عنه وهو وسیلتک ووسیلة ابیک آدم الی الله تعالیٰ ؟ بل استقبل واستشفع به فیشفعه الله فیک ''

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنا چہرہ کیوں موڑنا چاہتے ہو جب کہ وہ تو آپ اور آپ کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی وسیلہ ہیں بلکہ قبر آنحضرت کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو اور ان سے شفاعت طلب کروخدا وند متعال ان کی شفاعت کو قبول کرتا ہے اس لئے کہ اس نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

( وَلَوْأ َنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا ) ( ۱ )

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔( ۲ )

۴۔ برادران یوسفصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حضرت یعقوب علیہ السلام سے توسل :

قرآن مجید نے جناب یوسف علیہ السلام کی داستان میں ان کے بھائیوں کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:

( یَاَأبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ ) ( ۳ )

____________________

(۱) سورۂ نساء : ۶۴. (۲) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ۱: ۲۸.

(۳) سورۂ یوسف: ۹۷.

۲۳۶

بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا :( قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی ) ( ۱ )

میں عنقریب تمہارے حق میں دعا کروں گا ۔

ب: بعثت سے پہلے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل

۱۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلقت سے پہلے ان سے توسل :

رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی خلقت سے پہلے گذشتہ انبیاء علیہم السلام کا ان سے توسل اور انھیں وسیلہ قرار دینا ایک مسلم اور غیر قابل انکار مسئلہ ہے چونکہ کتب اہل سنت کے اندر اس موضوع پر اس قدر صحیح روایات موجو دہیں جو انبیاء وا ولیاء سے کسی بھی قسم کے توسل کے شرک ہونے کے وہابی نظریہ کی ہر طرح کی توجیہ و تاویل کا راستہ مسدود کر دیتی ہیں جن میں سے چند ایک روایات کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں :

اہل سنت کے بزرگ عالم دین حاکم نیشاپوری اپنی کتاب( ۲ ) میں عمر بن خطاب سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا:

''لما اقترف آدم الخطیئة قال: یا رب اسئلک بحق محمد

____________________

(۱) سورۂ یوسف: ۹۸

(۲) المستدرک علی الصحیحین .۲:۶۷۲۔۴۲۲۷اور۲:۶۱۵تحقیق ڈاکٹر یوسف مرعشلی ، طبعہ دارالمعرفت بیروت

۲۳۷

لما غفرت لی فقال الله تعالیٰ : یا آدم وکیف عرفت محمد ا ً ولم اخلقه ؟ قال: یا رب لانک لما خلقتنی بیدک ، ونفخت فی من روحک ، رفعت راسی ، فرایت علی قوائم العرش مکتوبا لا اله الا الله ، محمد رسول الله ، فعرفت انک لم تضف الی اسمک الا احب الخلق الیک ؛'' .

جب حضرت آدم علیہ السلام مصیبت میں مبتلاہوئے تو خد اوند متعال کو رسول اکرم کا واسطہ دے کر بخشش طلب کی ۔

خداوند متعال نے فرمایا : اے آدم ! تو نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیسے پہچانا جب کہ ابھی تو ہم نے اسے خلق ہی نہیں کیا ؟

حضرت آدم نے عرض کیا: جب تونے مجھے خلق کیا اور مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا میری نظر عرش پر پڑی تو دیکھا کہ عرش کے ستونوں پر لکھا ہے :

''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ '' میں سمجھ گیا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی محبوب ترین ہستی ہیں اسی لئے تو ان کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے

''فقال الله: صدقت یا آدم انه لا حب الخلق ، اذا سئالتنی بحقه فقد غفرت لک ، ولولا محمد ما خلقتک''.

خدا وند متعال نے فرمایا: ہاں! تونے سچ کہا کہ وہ پوری مخلوق میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہے اور اب جب تو نے مجھے اس کا واسطہ دیا ہے تو میں نے تجھے معاف کر دیا اور اگر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خلق نہ کیا ہوتا تو تجھے بھی خلق نہ کرتا ۔

۲۳۸

حاکم نیشاپوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے :ھذا حدیث صحیح الاسناد''( ۱ ) اس حدیث کی سندصحیح ہے :

بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوة میں اس حدیث کونقل کیا ہے۔( ۲ )

ذہبی اس کتاب کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ پوری کتاب ہدایت اور نور ہے اسی طرح طبرانی نے اپنی کتاب معجم صغیر( ۳ ) اور سبکی نے شفاء السقام( ۴ ) میں اس حدیث کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے ، سمہودی نے وفاء الوفاء( ۵ ) اور قسطلانی نے بھی المواہب نیة( ۶ ) میں اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔

۲۔ آنحضر تصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شیر خوارگی میں جناب عبد المطلب کا ان سے توسل :

اہل سنت کے معروف عالم شہرستانی اپنی کتاب ملل ونحل میں لکھتے ہیں :

جب سرزمین مکہ کو قحط نے اپنی لپیٹ میں لیا اور بادلوں نے برسنے سے انکار

____________________

(۱)مستدرک علی الصحیحین ۲: ۴۲۲۷۶۷۲و۲: ۶۱۵، تحقیق ڈاکٹر یوسف مرعشلی ، دار المعرفة بیروت

(۲) دلائل النبوة ۵: ۴۸۹.

(۳)معجم صغیر۲:۸۲.

(۴)شفاء السقام فی زیارة خیر الانام :۱۲۰

(۵) وفاء الوفاء ۴: ۳۷۱.

(۶) المواہب اللدنیة ۴: ۵۹۴.

۲۳۹

کر دیا تو اہل مکہ کے لئے زندگی کرنا ناگزیر ہوگیا ۔ جناب عبد المطلب نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہا :

''یارب !بحق هذا الغلام ورماه ثانیا وثالثا وکان یقول : بحق هذا الغلام اسقنا غیثا ، مغیثا، دائما، هاطلا، فلم یلبث ساعة ان طبق السحاب وجه السماء ، وامطر حتی خافوا علی المسجد '' .( ۱ )

خدا یا اس بچے کا واسطہ اپنی رحمت کا نزول فرما: ابھی تھوری ہی دیر گذری تھی کہ مکہ پر بادل چھانے لگے اور اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ ڈرگئے کہ کہیں خانہ کعبہ سیلاب میں ہی نہ بہہ جائے ۔

ابن حجرکہتا ہے :

جب عبد المطلب نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا واسطہ دے کر بارش طلب کی تو سرداران مکہ عبد اللہ بن جد عان اور حرب بن امیہ حضرت عبد المطلب کے پاس آئے اور کہنے لگی :''ھنیائً لک ! ابا البطحاء ''( ۲ ) اے حجاز کے باپ تجھے یہ بچہ مبارک ہو ۔

اسی طرح ابن حجر یہ بھی لکھتا ہے :

____________________

(۱)الملل والنحل ۲: ۲۴۹.

(۲) الاصابة فی تمییز الصحابة۸:۱۳۶ ، ترجمہ رقیقة بنت ابی صیفی بن ہاشم

۲۴۰