وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں0%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف: ڈاکٹر سید محمد حسینی قزوینی
زمرہ جات:

صفحے: 274
مشاہدے: 155086
ڈاؤنلوڈ: 4997

تبصرے:

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155086 / ڈاؤنلوڈ: 4997
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

سعودی مفتیوں کاتفرقہ بازی کی راہ ہموار کرنا:

آج جبکہ اسلام کے بدترین دشمن یہودی، عیسائی، امریکہ اور صہیونزم اسلام اور مسلمانوں کی نابودی کی خاطر کمر بستہ ہو چکے ہیں اور ڈاکٹر مائیکل برانٹ امریکن سی آئی اے کی مفکر کے مطابق وائٹ ہاؤس کی مہم ترین سازش مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کرناہے اس کے باوجود ہم اس بات پر شاہد ہیں کہ سعودی مفتی عملی طور پر غیروں کی خدمت کر رہے اور وہم و خیال پر مشتمل غلط فتوے صادر کر کے امت اسلام کے درمیان وحدت و اتحاد کی راہیں مسدود کر کے مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی راہیں زیادہ سے زیادہ ہموار کر رہے ہیں ۔

بن باز اور تقریب مسلمین کا ناممکن ہونا:

سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز سے فتویٰ طلب کیا گیا:

'' شیعوں کے ماضی کے بارے میں جنابعالی کی آگاہی کو مد نظر رکھتے ہوئے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تقریب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟''(۱)

تواس نے جواب میں کہا:

التقریب بین الرافضةوبین اهل السنة غیرممکن،لان العقیدةمختلفة...فلایمکن الجمع بینهما، کماانه لایمکن الجمع بین الیهود والنصاری والوثنیین واهل السنة،فکذلک لایمکن التقریب بین الرافضةوبین اهل السنة ، لاختلاف العقیدة التی

____________________

(۱)من خلال معرفة سماحتکم بتاریخ الرافضة، ما هو موقفکم من مبدأ التقریب بین اهل السنة و بینهم ۔

۲۱

اوضحناها ۔( ۱ )

شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تقریب و ہم بستگی ممکن نہیں ہے اس لئے کہ دونوں کے عقائد ایک دوسرے سے سازگار نہیں ہیں اور جس طرح یہود و نصاریٰ اور بت پرستوں کو اہل سنت کے ساتھ ایک جگہ جمع نہیں کیا جا سکتا اسی طرح شیعہ اور اہل سنت کے درمیان ان عقائد کے اختلاف کی وجہ سے جن کی ہم نے وضاحت کر دی ہے ان کو بھی ایک جگہ جمع نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح کتاب'' مسئلة التقریب''( ۲ ) جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے حکام کی حمایت سے چھپی ہے اس میں بھی شیعوں کے ساتھ تقریب کی پہلی شرط ان کا مسلمان ثابت ہونا بیان کی گئی ہے۔

امریکا ، یہود اور شیعہ اہل سنت کے مشترک دشمن

عبد العزیز قاری وعالم بزرگ مدینہ منورہ اپنے ایک انٹریو میں کہتا ہے :

نحن الآن فی زمن عصیب طوقنا العدو المشترک وهو ذوثلاث شعب : الیهود ، وامریکا، والروافض، وهذا العدونبت من احداث العراق الجسام وما وقع فی لبنان انه یستهدف اهل السنة جمیعا ً علی اختلاف مذاهبهم فهل یصح ان نتشاجر نحن

____________________

(۱) مجموعہ فتاویٰ و مقالات بن باز ۵:۱۵۶۔

(۲)مسئلة التقریب بین اہل السنّة و الشیعة ۲:۲۵۳ اشاعت پنجم۔

۲۲

اهل الدائرة الواحدة المستهدفة دائرة اهل السنة والجماعة ، الا یجب ان ننتکاتف ضد الاخطار التی تتهددنا جمعیاً

...ان من یقول ان اهل السنة والجماعة مذهب واحد یلزمه ان یخرج هذه المذاهب الاربعة من دائرة اهل السنة والجماعة ، وهم فعلاً یعتقدون ذلک ویعتبرون تعدد هذه المذاهب الفقهیة مظهر انحراف ''( ۱ )

ہم لوگ اس وقت تین طرح کے دشمن کے مقابل میں ہیں : امریکا ، یہودی اور رافضی( شیعہ ) عراق اور لبنان کے واقعہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان دشمنوں کا اصلی مقصد ، اہل سنت والجماعت ہیں لہٰذا ہم کو چاہئے کہ ہم ان دشمنوں کے برابر متحد ہو جائیں ۔

جیسا کہ وہ کہتا ہے :جن کا نظریہ یہ ہے کہ اہل سنت ایک مذہب ہے تو ان کو چاہئے کہ وہ کوشش کریں کہ جن یہ عقیدہ ہے کہ مذاہب چہار گانہ کو اہل سنت کے احاطہ سے خارج کریں ورنہ یہ مذاہب چہار گانہ فقہی ، معاشرہ کے انحراف کا وسیلہ ہو جائیں گے

مراجع تقلید اور وہابیت کا انحرافی تفکر

ایسی چیزجو ہر مسلمان کیلئے تکلیف کا باعث بنتی ہے وہ عقل و شریعت کے

مخالف فتوے ہیں جبکہ ایسے فتوے دینے والے حضرات کو یہ علم نہیں ہے کہ وہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ان لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں جن کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلا کر اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔

____________________

(۱)جریدة الرسالة الجمعة ، ۷ رجب ، ۱۳۴۶ ھ الموافق ۱۲ اگست ، ۲۰۰۵ ئ

۲۳

امام خمینی کا نظریہ:

کیا مسلمان یہ نہیں دیکھ رہے کہ آج وہابیوں کے مراکز دنیا میں فتنوں اور جاسوسی کے اڈوں میں تبدیل ہو چکے ہیں ایک طرف سے اسلام اشراف، اسلام ابوسفیان،... اور اسلام امریکائی کی ترویج کر رہے ہیں تودوسری طرف اپنے پیر و مرشد امریکہ کی دہلیز پر سر جھکائے نظرآتے ہیں ۔( ۱ )

اپنے سیاسی الٰہی وصیت نامے میں لکھتے ہیں :

ہم دیکھ رہے ہیں کہ شاہ فہد ہر سال لوگوں کی بے تحاشا ثروت میں سے بہت زیادہ مقدار قرآن کریم چھپوانے اور مخالف قرآن تبلیغات کرنے پر خرچ کررہا ہے اوربے اساس و خرافات پر مشتمل وہابی مذہب کی ترویج میں مصروف عمل ہے. اور غافل عوام و اقوام کو دنیا کی بڑی طاقتوں کے حوالے اور اسلام و قرآن کے نام پر اسلام و قرآن کی نابودی کیلئے سامان مہیا کر رہا ہے۔( ۲ )

____________________

(۱) صحیفۂ امام ۲۱:۸۰، شہدائے مکہ کی بر سی کی مناسبت پر امام خمینی کا پیغام۔

(۲) وصیت نامہ سیاسی و الہی امام خمینی، ۲۶ بہمن۳۶۱ا بمطابق یکم جمادی الاول ۱۴۰۳ ہجری ۔

۲۴

آیت اللہ العظمیٰ فاضل لنکرانی قدّس سرّہ کا نظریہ:

تمام اہل علم پر واضح ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کا اس پر اتفاق ہے کہ وہابی اسلام سے خارج اور مولود کفر و یہود ہیں ان کے وجود کا فلسفہ اسلام و قرآن کی مخالفت اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف ایجاد کرنے کے سواکچھ اور نہیں ہے۔

یہ فرقہ نہ صرف شیعوں کے مقدسات کو نابود کرنا چاہتا ہے بلکہ تمام مقدسات اسلامی منجملہ روضۂ مبارک نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے اور ایک دن آئے گا کہ قرآن و خانہ خدا کو بھی نشانہ بنائے گا۔( ۱ )

رہبر معظم کا نظریہ:

رہبر معظم فرماتے ہیں :

ابتداء ہی سے وحدت اسلام پر ضرب لگانے اور اسلامی معاشرے میں اسرائیل کے مانند ایک مرکز قائم کرنے کے لئے وہابیوں کو وجود میں لایا گیا،جس طرح اسرائیل کو اسلام کے خلاف مرکز کے طور پر وجود میں لایا گیا اسی طرح اس وہابی اور نجدی حکومت کو وجود میں لایا گیا تاکہ عالم اسلام کے اندر اپنے امن کا ٹھکانہ بنا سکیں جو انھیں سے وابستہ ہو اور آج ہم ان کی اس وابستگی کو دیکھ رہے ہیں ۔

آج مرکز اسلام کے وہابی حکمران ،دشمن اسلام امریکہ کی سیاست سے اپنی حمایت، رفاقت اور وابستگی کا اظہار بڑے کھلے لفظوں میں کرتے ہیں اور اسے مخفی نہیں رکھتے۔(۲)

____________________

(۱) امام عسکری علیہ السلام کے روضۂ مبارک کی دوبارہ تخریب کے موقع پر پیغام ۳۲۳ ۱۳۸۶(۲۰۰۷ئ)۔

(۲) دفتر حفظ و نشر آثار رہبر معظم Farsi.khamenei.ir ۔

۲۵

آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کا نظریہ:

آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی فرماتے ہیں :

دشمنان اسلام نے علاقے میں مسلمانوں سے سوء استفادہ اور ان کے درمیان تفرقہ پھیلانے کے لئے وہابیوں کو آمادہ کر رکھا ہے۔(۱)

طول تاریخ میں دین مبین اسلام جن مشکلات اور عظیم سازشوں سے دچار رہا ہے ان میں سے ایک فرقۂ وہابیت کی پیدائش ہے جس کی وجہ سے اسلام ترقی نہیں کر سکا۔(۲)

آیت اللہ العظمیٰ صافی کا نظریہ:

جب میں نے کتاب العواصم من القواصم کا مطالعہ کیا تو اس کے مؤلف کی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ بازی کی کوشش کو دیکھ کر حیران رہ گیا. خدا کی قسم! میں

____________________

(۱) Salaf.blogfa.compost_۴۰۶.aspx:http نقل از خبر گذاری ایرنا، سوموار پنجم آذر ۱۳۸۶۔

(۲) جنت البقیع کی تخریب کی برسی کی مناسبت سے درس خارج کے ابتداء میں آپ کا بیان، ۸ شوال ۱۴۲۷ھ۔

۲۶

نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ عصر حاضر میں بھی کوئی ایسا مسلمان ہو سکتا ہے جو مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دوراور ان کے درمیان اختلاف ایجاد کرنے کی کوشش کرے اور وحدت کے منادی و مصلح افراد پر نادانی، جھوٹ اور نفاق و حیلہ گری کی تہمت لگائے. اور سب سے بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ یہ کتاب مدینہ منورہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی سے چھپی اور منتشر کی گئی ہے۔

ارے! جب تک الخطوط العریضہ، الشیعة و السنة اور العواصم من القواصم جیسی کتب مدینہ منورہ جیسی اسلامک یونیورسٹی سے لکھی جائیں اور اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام سے دشمنی کو آشکار، تاریخی حقائق کا انکار، وحدت مسلمین کو زیر سوال لایا جائے اور وحدت کے منادی حضرات کی مخالفت کی جائے تب تک کیسے مسلمانوں کے درمیان وحدت برقرار ہو سکتی ہے؟( ۱ )

اسی طرح آئمہ معصومین علیہم السلام کے روضوں کی تعمیر کروانے والے ادارے کے ارکان سے ملاقات کے دوران فرمایا:

وہابی فقط اہل بیت علیہم السلام سے ہی دشمنی نہیں رکھتے بلکہ رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بھی دشمن ہیں یہ لوگ تاریخ و نام اسلام کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں آئمہ علیہم السلام کا نام اور ان کی یاد کبھی مٹنے والی نہیں ہے بلکہ جو چیز جلد صفحۂ ہستی سے محو ہونے والی ہے وہ فتنۂ وہابیت ہے اورپھر تاریخ میں تنہا ان کے مظالم ہی باقی رہ جائیں گے۔(۲)

تفرقہ بازی کو رواج دینے کے بارے میں تفکر وہابیت کے قرآن و سنت کے مخالف ہونے کو واضح کرنے کیلئے ہم سب سے پہلے وحدت واتحاد کو قرآن کی رو سے بیان کر رہے ہیں اور پھر اس کے بعد تفرقہ بازی کے اسباب اور اس کے بدترین اثرات کو بیان کریں گے۔

____________________

(۱) صوت الحق: ۱۷ تألیف آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی۔

(۲) www.farsnews.net-www.mazaheb.com ۔

۲۷

قرآن و سنّت میں وحدت و اتحاد کا مقام

۱۔ وحدت، قوموں کی کامیابی کا راز:

اس میں شک نہیں ہے کہ قوموں کی کامیابی و کامرانی کا ایک راز ان کا آپس میں اتحاد و اتفاق رہا ہے. جس طرح پانی کے قطرات کے متحد ہونے سے بڑے بڑے ڈیم تشکیل پاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ندی نالوں کے ایک دوسرے سے مل جانے سے بہت بڑے دریا بنتے ہیں اسی طرح انسانوں کے اتحاد اور جمع ہونے سے ایسی صفیں تشکیل پاتی ہیں کہ جن پر نگاہ ڈالتے ہی دشمن وحشت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر کبھی بھی ان پر چڑھائی کرنے کا تصور تک نہیں کرتا:

( تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ ﷲ وَعَدُوَّکُمْ ) (۱)

ترجمہ:تم صف بندی کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔

____________________

(۱) انفال: ۶۰۔

۲۸

قرآن مجید اقوام اسلام کو وحدت و اتحاد کے تنہا عامل حبل اللہ سے تمسک کی دعوت اور ہر طرح کی تفرقہ بازی سے بچنے کا حکم دیتا ہے:

( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ ﷲ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا ) ( ۱ )

ترجمہ:اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کروتمام مسلمانوں کو امت واحد، اور ان کے لئے ہدف واحد اور معبود واحد قرار دیا ہے:

( إ ِنَّ هَذِهِ أُمَّتُکُمْ ُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِی ) ( ۲ )

ترجمہ:بے شک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لہٰذا میری ہی عبادت کرو۔

قرآن نے پوری امت اسلام کو آپس میں بھائی بھائی شمار کیا ہے اور ان سے یہ تقاضا کیا ہے کہ ان کے آپس کے روابط و تعلقات دوستانہ اور بھائیوں کے مانند ہونا چاہئیں اور پھر چھوٹے سے چھوٹے اختلاف کی صورت میں بھی صلح کا دستور صادر فرمایا ہے:

( إ ِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ِخْوَة فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا ﷲ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ) ( ۳ )

____________________

(۱)آل عمران: ۱۰۳۔

(۲) انبیائ:۹۲۔

(۳) حجرات: ۱۰۔

۲۹

ترجمہ:مومنین ایک دوسرے کے دینی بھائی ہیں تم اپنے دوبھائیوںکے درمیان جنگ کے موقع پر صلح کروادیاکرواوراللہ سے ڈروتاکہ تم پر رحم کھایاجائے ۔

۲۔ تفرقہ بازی بدترین آسمانی عذاب:

دوسری جانب خداوند متعال نے اختلاف اور جنگ و جدل کو بدترین عذاب شمار کیا ہے:

( قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَی أ َنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ َوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ َوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ) ( ۱ )

ترجمہ:اے رسول!تم کہہ دو کہ وہی اس پر قابورکھتا ہے کہ (اگرچاہے تو)تم پرعذاب تمہارے سر کے اوپر سے نازل کرے یاتمہارے پائوں کے نیچے سے (اٹھاکر کھڑا کردے )یاایک گروہ کو دوسرے سے بھڑادے اورتم میں سے کچھ لوگوں کو بعض آدمیوں کی لڑائی کامزاچکھادے ذراغورتوکروہم کس کس طرح اپنی آیتوں کوالٹ پلٹ کے بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں ۔

ابن اثیر کہتا ہے: ''شیعاً''سے مراد وہی امت اسلام کے درمیان تفرقہ بازی پھیلانا ہے۔( ۲ )

اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایسے لوگوں سے رابطہ نہ رکھنے کا حکم فرمایا جو آپس میں

____________________

(۱) انعام: ۶۵۔

(۲) النہایة فی غریب الحدیث۲: ۵۲۰۔

۳۰

اختلاف ایجاد کرتے اور پھر اس پر اصرار کرتے ہیں :

( إ ِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَهُمْ وَکَانُوا شِیَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِی شَیْئٍ إِنَّمَا َمْرُهُمْ إِلَی ﷲ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا کَانُوا یَفْعَلُونَ ) ( ۱ )

ترجمہ:جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ان سے آپ کاکوئی تعلق نہیں ہے ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے پھر وہ ا نہیں ان کے اعمال سے باخبر کرے گا۔

خداوند متعال نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ مشرکوں کے مانند آپس میں اختلاف اور اس پر فخر و مباہات مت کریں:

( ولاتَکُونُوا مِنْ الْمُشْرِکِینَ مِنْ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَهُمْ وَکَانُوا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُونَ ) ( ۲ )

ترجمہ:اور خبردار مشرکین میں سے نہ ہوجانا جنھوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں پھر ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر مست و مگن ہے۔

۳۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اختلاف امت کی وجہ سے پریشان ہونا:

امت مسلمہ کے درمیان ہر قسم کا اختلاف پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے پریشانی کا

____________________

(۱) انعام: ۱۵۹۔

(۲) روم:۳۱اور۳۲۔

۳۱

باعث تھا سیوطی اور دیگر نے نقل کیا ہے کہ ''شاس بن قیس'' نامی شخص جو زمانہ جاہلیت کا پرورش یافتہ اور مسلمانوں کے بارے میں اس کے دل میں حسد و کینہ ٹھاٹھیں مارتا رہتا تھا اس نے ایک یہودی جوان کوتیارکیا تاکہ اسلام کے دو بڑے قبیلوں اوس و خزرج کے درمیان اختلاف ایجاد کرے۔

اس یہودی نے دونوں قبیلوں کے افراد کو زمانہ جاہلیت میں ان کے درمیان ہونے والی جنگوں کی یاد دہانی کروا کر ان کے درمیان آتش فتنہ روشن کردی یہاں تک کہ دونوں قبیلے ننگی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انصار و مہاجرین کے ایک گروہ کے ہمراہ لڑائی کے مقام پر پہنچے اور فرمایا:

یامعشرالمسلمین الله الله،ابدعوی الجاهلیة وانا بین اظهر کم ؟بعد اذهداکم الله الی الاسلام واکر مکم به ، وقطع به عنکم امر الجاهلیة،واستنقذکم به من الکفر، والف به بینکم ، ترجعون الی ما کنتم علیه کفارا،

اے مسلمانو!کیا تم نے خدا کو فراموش کر ڈالا اور جاہلیت کے شعار بلند کرنے لگے ہو جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں. خداوند متعال نے تمھیں نور اسلام کی طرف ہدایت کر کے مقام عطا کیا، جاہلیت کے فتنوں کو ختم کر کے تمھیں کفر سے نجات دی اور تمہارے درمیان الفت و برادری برقرار کی کیا تم دوبارہ کفر کی طرف پلٹنا چاہتے ہو؟

۳۲

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس خطاب سے وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ ایک شیطانی سازش ہے اپنے اس عمل پر پشیمان ہوئے، اسلحہ زمین پر رکھ دیا اور آنسو بہاتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا کر اظہار محبت کرنے لگے اور پھر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہمراہی میں اپنے اپنے گھروں کی طرف واپس پلٹ گئے۔( ۱ )

۴۔ جاہلیت کے بُرے آثار میں سے ایک اختلاف کی دعوت دینا ہے :

جنگ بنو مصطلق میں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایک انصاری اور مہاجر کے درمیان اختلاف ایجاد ہو گیا، انصاری نے اپنے قبیلہ کو مدد کے لئے پکارا اور مہاجر نے اپنے قبیلہ کو. جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بات کی خبر ملی تو فرمایا:

ان بری باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اس لئے کہ یہ جاہلیت کا طریقہ ہے جبکہ خداوند متعال نے مؤمنین کو ایک دوسرے کا بھائی اور ایک گروہ قرار دیا ہے. ہر زمان و مکان میں ہر طرح کی فریاد و مدد خواہی فقط اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کی خاطر ہونی چاہیے نہ کہ ایک گروہ کی خیر خواہی اور دوسرے کونقصان پہنچانے کی خاطر

انجام پائے .اس کے بعد جو بھی جاہلیت کے شعار بلند کرے گا اُسے سزادی جائے گی۔(۲)

____________________

۱ ((فعرف القوم انها نزعة من الشیطان وکید من عدوهم نهم فائقوا السلاح وبکواوعانق الرجال بعضهم بعضاثم انصرفوا مع رسول الله صلی الله علیه وسلم سامعین مطیعین قداطفاالله عنهم کید عدوالله شاس)) د رالمنثور۲:۵۷،جامع البیان۴:۳۲،فتح القدیر۱: ۶۸ ۳ ، تفسیر آلوسی ۴: ۱۴، واسد الغا به ۱: ۱۴۹،

(۲) دعوها فانها منتنة ...یعنی انهاکلمة خبیثة ، لانهامن دعوی الجاهلیة والله سبحانه جعل المومنین اخوة وصیرهم حزباواحدا، فینبغی ان تکون الدعوة فی کل مکان وزمان لصالح الاسلام و المسلمین عامة لالصالح قوم ضد الاخرین،فمن دعافی الاسلام بدعوی الجاهلیة یعزر، سیره نبویه ۳:۳۰۳،غزوة بنی المصطلق ومجمع البیان ۵:۲۹۳، رسائل ومقالات ۱:۴۳۱،

۳۳

حضرت علی سب سے بڑے منادی و حدت

حضرت علی علیہ السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد خلافت و امامت کو اپنا مسلم حق سمجھتے تھے اور وہ معتقد تھے کہ خلافت کے غاصبوں نے ان کے حق میں جفا کی ہے:ما زلت مظلوماً منذُ قبض اللّٰه نبیّه صلی الله علیه وآله وسلم. (۱)

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی رحلت کے بعد ہمیشہ مجھ پر ظلم کیا گیا ۔

آپ نے اپنی حقانیت کے اثبات کے لئے کسی قسم کی کوشش سے دریغ نہ کیا اور اپنے مسلّم حق کے حصول کیلئے ہر ایک سے مدد طلب کی(۲) ، یہاں تک کہ اپنی

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید۲۰:۲۸۳؛ الشافی فی الامامة ۳:۱۱۰؛ الامامة و السیاسة، تحقیق الشیری ۱: ۶۸؛ تحقیق الزینی۱:۴۹؛ بحار الانوار۲۹:۶۲۸۔

(۲) ابن قتیبہ دینوری نقل کرتا ہے: پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے دن ہی جب ابوبکر مسند خلافت پر بیٹھا تو علی علیہ السلام نے مہاجرین کو خطاب فرمایا، اپنی حقانیت اور مسند خلافت کی صلاحیت کو بیان فرمایا:

۳۴

زوجہ محترمہ کو سوار کروا کر مہاجرین کے دروازوں پہ گئے اور ان سے مدد طلب کی۔( ۱ )

لیکن افسوس کہ کسی ایک نے مثبت جواب نہ دیا. جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا کہ اہل بیت کے سوا نہ کوئی میرا مددگار ہے اور نہ دفاع کرنے والا تو اس وقت

>.......آنحضرت کے کلمات سے اس قدر تاثیر پذیر ہوئے کہ بشیر بن سعد کہنے لگا: یا علی ! اگر انصار نے ابوبکر کی بیعت سے پہلے آپ کی یہ گفتگو سنی ہوتی تو کبھی دو شخص بھی آپ کی خلافت کے حق میں اختلاف نہ کرتے۔

حضرت کا مشہور کلام اس طرح ہے :''الله الله یا معاشر المهاجرین ! لا تخرجوا سلطان محمد فی العرب عن داره و قعر بیته ، الی دورکم و قعور بیوتکم ولا تدفعوا اهله عن مقامه فی الناس وحقه ، فوالله یا معاشر المهاجرین ، لنحن احق الناس به. لانا اهل البیت ، ونحن احق بهذا الامر منکم ما کان فینا القاری ، لکتاب الله ،الفقیه فی دین الله ، العالم بسنن رسول الله ، المضطلع بامر الرعیة ، المدافع عنهم الامور السیئة، القاسم بینهم بالسویة، والله انه لفینا ، فلا تتبعوا الهوی فتضلوا عن سبیل الله ، فتتزدادوا من الحق بعداً''

بشیر بن سعد انصاری کہتا ہے :''لو کان هذا الکلام سمعته الانصار منک یاعلی قبل بیعتها لابی بکر، ما اختلف علیک اثنان ''.الامامة والسیاسة ، تحقیق الزینی۱:۱۹.

____________________

(۱) ابن قتیبہ کہتا ہے: و خرج علی کرم الله وجهه یحمل فاطمه بنت رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی دابةلیلاًفی مجالس الانصار تساء لهم النصرة ، فکانوں یقولون :یابنت رسول الله !قدمضت بیعتنا لهذاالرجل ولوان زوجک وابن عمک سبق الینا قبل ابی بکر ماعدلنابه ۔

فیقول علی کرم الله وجهه :افکنت ادع رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی بیته لم ادفنه ، واخرج انازع الناس سلطانه ؟فقالت فاطمه :ماصنع ابوالحسن الاماکان ینبغی له ، ولقد صنعوا مالله حسیبهم وطالبهم ، الامامة والسیاسة،تحقیق الزینی۱:۹،

۳۵

مصلحت یہی دیکھی کہ انھیں دشمن کے مقابلے میں نہ لایا جائے۔( ۱ )

حضرت علی علیہ السلام نے آنکھوں میں خس و خاشاک کے ہوتے ہوئے چشم پوشی کی اور گلے میں پھندے کے ہوتے ہوئے لعاب دہن نگل کر خانہ نشینی کا تلخ جام پی لیا۔( ۲ )

ارے! امیر المومنین علیہ السلام نے جب یہ احساس کیا کہ اپنے مسلم حق کے احقاق کے لئے راہ ہموار نہیں ہے اور قیام کرنے سے اُمت اسلام کے درمیان تفرقہ کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہو گا۔( ۳ )

تو اس وقت آنکھ میں کانٹے کا تحمل کرنا اور گلے میں ہڈی کے اٹکنے جیسے سخت

____________________

(۱) علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے خطبہ ۲۱۷ میں فرماتے ہیں : ''فنظرتُ فاذا لیس لی معین الا اهل بیتی فضننت بهم عن الموت . ترجمہ: میں نے دیکھا کہ میرے پاس کوئی مددگار نہیں ہے سوا میرے گھر والوں کے تو میں نے انھیں موت کے منھ میں دینے سے گریز کیا۔

(۲) حضرت علی فرماتے ہیں :و اغضیت علی القذیٰ وشربت علی الشجاوصبرت علی اخذالکظم وعلی امرّمن طعم العلقم

ترجمہ: اور باالآخر آنکھوں میں خس وخاشاک کے ہوتے ہوئے چشم پوشی اور گلے میں پھندے کے ہوتے ہوئے لعاب دہن نگل لیا اور غصہ کو پینے میں حنظل سے زیادہ ذائقہ پرصبرکیا اور چھریوں کے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ حالات پر خاموشی اختیار کر لی۔

(۳)حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ''و ایم اللّٰه لوکان مخافة الفرقة بین المسلمین... لکنا علی غیر ما کنّا لهم علیه'' ترجمہ: اگر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا ڈر نہ ہوتا تو ہم ان سے اور رویہ اپناتے،(شرح نہج البلاغة ابن ابی الحدید۱:۳۰۷؛ ارشاد ۱:۲۴۵۔

۳۶

ترین مصائب کو برداشت کیا لیکن امت اسلام کے درمیان اتحاد و وحدت کو گزند نہ پہنچنے دیا تا کہ کہیں منافقوں اور اسلام سے شکست خوردہ دشمنوں کی سازشوں سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تئیس سالہ زحمات ضائع نہ ہو جائیں. بلکہ جہاں کہیں بھی دیکھا کہ اسلام یا اسلامی معاشرہ کو فائدہ ہو رہا ہے وہاں پہ کسی قسم کی مدد سے گریز نہ کیا۔( ۱ )

ترجمہ: یہاں تک کہ یہ دیکھا کہ لوگ دین اسلام سے واپس پلٹ رہے ہیں اورآئین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برباد کردینا چاہتے ہیں تو مجھے یہ خوف پیدا ہوگیا کہ اگر اس رخنہ اور بربادی کو دیکھنے کے بعد بھی میں نے اسلام اور مسلمانوں کی مدد نہ کی تو اس کی مصیبت روز قیامت اس سے زیادہ عظیم ہوگی جو آج اس حکومت کے چلے جانے سے سامنے آرہی ہے جو صرف چند دن رہنے والی ہے اور ایک دن اسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح سراب کی چمک دمک ختم ہوجاتی ہے یا آسمان کے بادل چھٹ جاتے ہیں تو میں نے ان حالات میں قیام کیا یہاں تک کہ باطل زائل ہوگیا اور دین مطمئن ہو کر اپنی جگہ پر ثابت ہوگیا۔

اگرچہ حضرت علی علیہ السلام خلیفہ اول و دوم کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھتے اور اہل سنت کی معتبر ترین کتاب صحیح مسلم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ان دونوں کو

____________________

(۱)نہج البلاغہ،نامہ:۶۲''حتی رأیت راجعة الناس قدرجعت عن الاسلام،یدعون الی محق دین محمدصلی الله علیه واله و سلم فخشیت ان لم انصرالاسلام واهله ان اری فیه ثلماً او هدما...فنهضت فی تلک الاحداث حتی زاح الباطل وزهق ، و اطمنان الدین وتنهنه ۔

۳۷

کاذب، دھوکہ باز اور خائن سمجھتے تھے ۔( ۱ )

لیکن یہ چیز باعث نہ بنی کہ آنحضرت افرادی قوت کے کم ہونے کے باوجود ان کے خلاف قیام کر کے امت اسلام کی تباہی کا سامان مہیا کریں۔

حضرت علی کی نگاہ میں اختلاف کے برے اثرات

۱۔ فکری انحراف کا باعث:

حضرت علی علیہ السلام معتقد تھے کہ''الخلاف یهدم الرا ی'' .( ۲ )

ترجمہ:اختلاف رائے کو نابود کردیتاہے۔

انسان پر سکون ماحول میں درست نظریہ بیان کر سکتا ہے جبکہ اختلافات کی فضا میں انحراف واشتباہ سے دچار ہوجاتا ہے۔

۲۔ دو گروہ میں سے ایک کے یقینا باطل ہونے کی علامت:

امیر المومنین علیہ السلام کے عقیدہ کے مطابق اختلاف سے دچار ہونا وہی باطل کی پیروی کرنا ہے لہٰذا فرمایا :مااختلف دعوتان الا کانت احداهما ضلالة،

____________________

(۱)صحیح مسلم کے مطابق خلیفہ دوم حضرت عباس بن عبد اللہ اور حضرت علی علیہ السلام سے کہنے لگے: ((فملا توفی ...)) ترجمہ: رسول خدا نے صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی رحلت کے بعد جب ابوبکر نے اپنے خلیفہ رسول ہونے کا اعلان کیا تو تم دونوں اسے جھوٹا، دھوکے باز، عاصی اور خائن سمجھتے ...پھر ابوبکر کی وفات کے بعد جب میں خلیفہ رسول و خلیفہ ابوبکر بنا توتم مجھے بھی کاذب، دھوکہ باز اور خائن سمجھتے ہو...،صحیح مسلم ۵:۴۴۶۸۱۵۲، کتاب الجھاد، باب۱۵،حکم الفیئ...

(۲) نہج البلاغہ، حکمت۲۱۵۔

۳۸

جب بھی دو نظریوں میں اختلاف ہو تو ان میں سے ایک یقینی طور پر باطل ہے۔( ۱ )

یعنی ہمیشہ حق باطل کے مد مقابل ہے اور یہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔

۳۔ شیطان کے غلبہ کا باعث:

علی علیہ السلام نے یہ سمجھانے کیلئے کہ تفرقہ بازی شیطان کو اپنے اوپر مسلط کرنے کے سوا کچھ اور نہیں ہے فرمایا:

والزمواالسواد الاعظم فان یدالله مع الجماعة ، وایاکم والفرقة !فان الشاذ من الناس للشیطان ، کماان الشاذ من الغنم للذئب ،( ۲ )

ترجمہ: اور سواد اعظم کے ساتھ رہو کہ خدا کا ہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اور خبردار تفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوجاتا ہے جس طرح ریوڑسے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑیئے کی نذر ہوجاتی ہے تو آگاہ ہوجاؤ کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کردو چاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو ۔

____________________

(۱) نہج البلاغة، حکمت:۱۸۳۔

(۲) نہج البلاغہ۱۲۷۔

۳۹

۴۔باطل کے نجس ہونے کی علامت:

حضرت علی علیہ السلام ذلت کواثبات کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وانما انتم اخوان علی دین الله ، مافرّق بینکم الا خبث السّرائروسوء الضمائر .( ۱ )

ترجمہ: تم لو گ آپس میں ایک دوسرے کے دینی بھائی ہو ، تم بری نیت اور برائی تم کو ایک دوسرے الگ نہیں کیا ہے ۔

۵۔فتنہ کاباعث:

حضرت علی علیہ السلام بخوبی آگاہ تھے کہ شیطان اختلاف کو ہوادے کر فتنہ ایجاد کرناچاہتا ہے لہٰذافرمایا:

ان الشیطان یسنی لکم طرقه ، ویرید ان یحل دینکم عقدة عقدةویعطیکم بالجماعة الفرقة ، وبالفرقة السفتنة ، ( ۲ )

ترجمہ :یقینا شیطان تمہارے لئے اپنی راہوں کو آسان بنا دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ایک کر کے تمھاری ساری گرہیں کھول دے۔ وہ تمھیں اجتماع کے بجائے افتراق دے کر فتنوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔

۶۔اختلاف ایجاد کرنے والے کی نابودی واجب ہے:

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

الامن دعاالی هذاالشعار فاقتلوه، ولوکان تحت عمامتی هذه، (۳)

ترجمہ :آگاہ ہوجائوکہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کروچاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۱۳

(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۲۱

(۳)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۲۷

۴۰