وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں0%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف: ڈاکٹر سید محمد حسینی قزوینی
زمرہ جات:

صفحے: 274
مشاہدے: 154899
ڈاؤنلوڈ: 4994

تبصرے:

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 154899 / ڈاؤنلوڈ: 4994
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

ابو طالب کا یہ شعر اسی داستان سے متعلق ہے :

وابیض یستسقی الغمام بوجهه

نمال الیتامی عصمة للارامل( ۱ )

وہ سفید چہرے والے جس کے صدقے میں بادل یتیموں ، بیواؤں اور بے چاروں پرر حمت برساتے ہیں ۔

۳۔جناب ابو طالب کا آنحضرت کے بچپن میں ان سے توسل

ابن عساکر اور دیگر نے ابو عرفہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے :

جب مکہ پر قحط سالی چھائی تو لوگ ابو طالب کے پاس جمع ہوئے اور ان سے کہنے لگے :اب پورے مکہ پر قحط طاری ہو چکا ہے لوگوں کے لئے زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے خدا سے رحمت طلب کریں !

ابو طالب نے ایک چھوٹے سے بچے کو ہمراہ لیا جو وہی پیغمبر گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے آفتاب کی مانند چمکتے ہوئے بچوں کے حلقے میں باہر نکلے خانہ کعبہ کے پاس پہنچے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا واسطہ دے کر باران رحمت طلب کی ۔ یہاں تک کہ بادل اکٹھے ہوئے اور بارش برسنے لگی جس سے صحراؤں میں بھی پانی جمع ہو گیا ۔ اس وقت ابو طالب نے اپنا مشہور شعر پڑھا:

وابیض یستسقی الغمام بوجه

ثمال الیتامی عصمة للارامل( ۲ )

____________________

(۱) فتح الباری ۲: ۴۱۲ و دلائل النبوة ۲: ۱۲۶.

(۲) مختصر تاریخ دمشق ابن منظور .۱: ۱۶۲ خصائص الکبریٰ سیوطی۱: ۸۶ وسیرہ نبویہ زینی دحلان ۱: ۴۳.

۲۴۱

۴۔ یہودیوں کا بعثت سے پہلے آنحضرت سے توسل :

اہل سنت مفسرین و محدثین نے سورہ ٔ بقرہ کی آیت نمبر ۸۹( ۱ ) کے ذیل میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے نقل کیا ہے :

خیبر کے یہودی قبیلہ غطفان کے ساتھ جنگ میں جب شکست کا احساس کرتے تو نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے توسل کرتے اورکہا کرتے :''انا نسئلک بحق النبی الامی الذی وعدتنا ان تخرجه لنا فی آخر الزمان لا تنصرنا علیهم ''.( ۲ )

خدا یا! تجھے نبی امی کا واسطہ دیتے ہیں جس کی بعثت کی بشارت تونے ہمیں دی بشارت توبت ہمیں دی ہے کہ ہمیں فتح نصیب فرما۔

وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو وسیلہ قرار دیتے لیکن جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )رسالت پر مبعوث ہوئے تو انھوں نے انکار کر دیا ۔

____________________

(۱) (وَلَمَّا جَائَهُمْ کِتَاب مِنْ عِنْدِ ﷲ مُصَدِّق لِمَا مَعَهُمْ وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جَائَهُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ ﷲ عَلَی الْکَافِرِینَ )

ترجمہ : اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی ہے جو ان کی توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ہے اور اس سے پہلے وہ دشمنوں کو مقابلہ میں اسی کے ذریعہ طلب فتح بھی کیا کرتے تھے لیکن اس کے آتے ہی منکر ہو گئے حالانکہ اسے پہچانتے بھی تھے تو اب کافروں پر خد اکی لعنت ہے ۔)

(۲) تفسیر طبری ۱:۳۲۴؛ تفسیر قرطبی ۲: ۲۷؛ العجاب بی ابیان الاسباب ابن حجر عسقلانی ۱:۲۸۲، تفسیر در المنثور ۱: ۸۸؛ البدایة والنہایة ۲: ۳۷۸؛ مستدرک الصحیحین ۲: ۲۶۳.

۲۴۲

ج: بعثت کے بعد رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل :

۱۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دستور پر ایک نابینا کا ان سے توسل کرنا :

ترمذی شریف نے عثمان بن حنیف سے نقل کیا ہے کہ ایک نابینا شخص پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا :''ادع الله ان یعافینی'' خدا سے میرے لئے سلامتی طلب کریں ۔

آپ نے فرمایا:'' ان شئت دعوت ، وان شئت صبرت فهو خیر لک قال فادعه قال:فامره ان یتوضا فیحسن وضوء ه ویدعوه بهذا الدعاء ؛

اگر چاہو تو دعا کروں اور اگر صبر کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے عرض کیا : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے لئے دعا فرمائیں ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جاؤ اچھے طریقے سے وضوکر و اور پھر یہ دعا پڑھو :''اللهم انی اسالک واتوجه الیک بنبیک محمد نبی الرحمة یا محمد! انی توجهت بک الی ربی فی حاجتی هذه لتقضی لی ، اللهم فشفعه فی ''.( ۱ )

خدا یا تجھے تیرے نبی رحمت کا واسطہ دیتا ہوں میری حاجت پوری فرما۔ اے محمد ! تجھے وسیلہ بنا کر خدا کی بارگاہ میں پیش ہو ا ہوں تاکہ میری حاجت روا ہو خدا یا ! تو اسے میری شفاعت کرنے والا قرار دے ۔

____________________

(۱) صحیح ترمذی ۵: ۳۶۴۹۲۲۹ ، دار الفکر بیروت ، تحقیق عبد الرحمن محمد عثمان ، سنن ابن ماجہ ۱: ۴۴۸.

۲۴۳

صحاح ستہ میں سے دو کتابوں ترمذی اور ابن ماجہ کے مولفوں نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ا سکے صحیح ہونے کی شہادت دی ہے ۔

حاکم نیشاپوری نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب مستدرک میں متعدد مقامات پر نقل کیا اور اس کے صحیح ہونے کی گواہی دیتے ہوئے لکھا ہے :

یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق ہے ۔( ۱ )

اسی طرح اہل سنت کے دو بزرگ عالموں طبرانی اور ہیثمی نے اس حدیث مبارک کے صحیح ہونے کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔( ۲ )

ابن تیمیہ کہتا ہے :

''وفی النسائی والترمذی وغیرهما حدیث الاعمیٰ الذی صححه الترمذی '' .( ۳ )

سنن نسائی ، صحیح ترمذی اور دیگر کتب میں نابینا شخص والی حدیث موجود ہے

جسے ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے ۔

۲۔ اہل مدینہ کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل :

بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے :

____________________

(۱) مستدرک الصحیحین ۱: ۳۱۳ ، ۵۱۹، ۵۲۶.

( ۲)کتاب الدعاء :۳۲۰؛ معجم الکبیر ۹:۳۱؛ امجمع الزوائد ۲: ۲۷۹.

(۳) اقتضاء الصراط المستقیم :۴۰۸.

۲۴۴

جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں قحط پڑا تو ایک مرتبہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نما زجمعہ کا خطبہ دینے میں مشول تھے کہ ایک اعرابی اٹھا اورعرض کرنے لگا :

''یا رسول الله هلک المال وجاع العیال فادع الله لنا ''یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! مال تباہ ہو گیا ہے اور بیوی بچے بھو ک سے مررہے ہیں خداوند متعال سے ہمارے لئے دعا کریں ۔

''فرفع یدیه ومانری فی السماء قزعة فوالذی نفسی بیده ما وضعها حتی ثار السحاب امثال الجبال ثم لم ینزل عن منبره حتی رایت المطر یتحادر علی حیته صلی الله علیه وسلم فمطرنا یومنا ذلک من الغدو بعد الغد والذی یلیه حتی الجمعة الاخری'' ( ۱ )

پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے مبارک ہاتھوں کو بلند کیا جب کہ بادلوں کے آثار تک نہ تھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میر ی جان ہے ابھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھ نیچے نہ کئے تھے کہ پہاڑ کی مانند بادل جمع ہوئے اور اس قدر بارش برسائی کہ منبر سے اتر نے سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ریش مبارک سے پانی بہہ رہا تھا اور یہ بارش مسلسل ایک ہفتہ تک برستی رہی یہاں تک کہ آپ نے

____________________

(۱)صحیح بخاری ۱: ۲۲۴۔۹۳۳، کتاب الجمعة ، باب ۳۵، باب الاستسقاء فی الخطبة یوم الجمعة اور حدیث ۱۰۱۳ و ۱۰۱۴؛ صحیح مسلم ۳:۱۹۶۲۲۵، کتاب صلاة الاستسقاء ، باب ۲، باب الدعاء فی الاستسقاء

۲۴۵

ہے ابھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھ نیچے نہ کئے تھے کہ پہاڑ کے مانند بادل جمع ہوئے اور اس قدر بارش برسائی کہ منبر سے اتر نے سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ریش مبارک سے پانی بہہ رہا تھا اور یہ بارش مسلسل ایک ہفتہ تک برستی رہی یہاں تک کہ آپ نے دوبارہ دعا کی تب رکی ۔

۳۔عمربن خطاب کا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل

صحیح بخاری میں انس سے نقل ہوا ہے :

جب کبھی قحط پڑتا تو عمر بن خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے چچا حضرت عباس سے متوسل ہوتے اور کہتے :''اللهم اناکنا نتوسل الیک بنبینا فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون ''.(۱ )

خدایا! تیرے پیغمبر کے زمانہ میں ہم ان کو واسطہ قرا ردیتے تو تو باران رحمت نازل فرمایا کرتا اور اب ہم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا کو وسیلہ بنا رہے ہیں تو ہم پر اپنی رحمت کا نزول فرما۔اسی وقت بارش برسنا شروع ہو گئی۔

____________________

(۱) صحیح بخاری ۲:۱۰۱۰۱۶،کتاب الاستسقاء ، باب سواالناس الامامة استسقاء اذاقحطوا

۲۴۶

د: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ان سے توسل

۱۔ ابوبکر کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل :

جب مدینہ منورہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وفات کی خبر پھیلی اور ابو بکر اس سے مطلع ہوئے تو اپنی رہائش گاہ سنح سے نکلے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے گھر پہنچے ، مسجد میں داخل ہوئے اور کسی سے بات کئے بغیر سیدھے حضرت عائشہ کے پاس گیے ۔ دیکھا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا بدن مبارک ایک چادر میں لپٹا ہوا ہے بدن مبارک کے پاس بیٹھے اور چہرۂ مبارک سے کپڑا ہٹا یا اور اپنے کو اس پر گرا کر بوسے لیتے ہوئے گریہ کرنا شروع کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو خطاب کرتے ہوئے کہا :

یانبی اللہ !خدا نے آپ کے مقدرمیں دوبارموت نہیں لکھی بلکہ ایک ہی بارلکھی تھی جو آگئی اورآپ اس دنیا سے گزرگئے۔

''با بی انت یا نبی الله، لا یجمع الله علیک موتتین ، اما الموتة التی کتبت علیک فقد متها'' .( ۱ )

مفتی مکہ مکرمہ زینی دحلان نے اس حدیث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے :

''قال ابو بکر: طبت حیا ومیتا، وانقطع بموتک مالم ینقطع للانبیاء قبلک ، فعظمت عن الصفه ، وجللت عن البکاء ، ولو ان موتک کان اختیاراً لجدنا لموتک بالنفوس ، اذکرنا یا محمد ! عند ربک ولنکن علی بالک'' .( ۲ )

____________________

(۱ )صحیح بخاری ۲:۷۰، کتاب الجنائز ، باب االدخول علی المیت بعد الموت ۵: ۱۴۳ ، کتاب المغازی ، باب مرضی النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

(۲) الدرر السنیة فی الرد علی الوہابیة:۳۴ ، طبع استنبول ، سیرۂ زینی دحلان ۳: ۳۹۱ ، طبع مصر

۲۴۷

ابو بکر نے کہا : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! آپ کی زندگی و موت پاک و طاہر اور بابرکت تھی آپ کی موت سے وحی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا ہے ۔ آپ کا مقام و منزلت اس قدر عظیم ہے کہ ناقابل توصیف ہے اور ہمیں رونے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر آپ کی موت ہمارے اختیار میں ہوتی تو ہم اپنی جانیں قربان کرکے آپ کو بچالیتے ۔یامحمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! اپنے رب کے پاس ہمیں یاد رکھنا اور ہمیں فراموش نہ کرنا ۔

۲۔حضرت علی علیہ السلام کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل :

جب امیر المومنین علیہ السلام رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے جسم اطہر کو غسل دے رہے تھے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خطاب کرتے ہوئے عرض کیا :

بأبی انت وامی یا رسول الله ! لقد تقطع بموتک مالم ینقطع بموت غیرک من النبوة ، والانباء ، واخبار السماء ، الی ان قال: بابی انت وامی اذکرنا عند ربک واجعلنا من بالک ''.( ۱ )

یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتقال سے نبوت الٰہی ،احکام اور آسمانی اخبار کا سلسلہ منقطع ہو گیا جوا پ کے علاوہ کسی کے مرنے سے منقطع نہیں ہوا تھا

میرے ماں باپ آپ پر قربان۔خدا کی بارگاہ میں ہمارا بھی ذکر کیجئے گا اور اپنے دل میں ہمارا بھی خیال رکھئے گا ۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۵.

۲۴۸

۳۔ بادیہ نشین عرب کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک سے توسل :

تمام مذاہب اسلامی کے مولفین نے اعرابی کے قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی زیارت سے مشرف ہونے کی داستان کو اپنی کتب میں لکھا اور اسے عظمت و احترام سے یاد کیا ہے اور اسے زیارت کا عالی ترین نمونہ شمار کیا ہے ۔

یہ داستان ابن عساکر نے تاریخ دمشق ، ابن جوزی نے میثر الغرام الساکن میں اور دوسرے مولفین نے محمد بن حرب ہلالی سے نقل کی ہے کہ وہ کہتا ہے :

میں مدینہ منورہ گیا تو آنحضرت کی قبر مبارک پہ پہنچا زیارت کے بعد قبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ، اتنے میں ایک بادیہ نشین عرب وارد ہوا اور قبر رسول کی زیارت کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خطاب کرکے کہنے لگا :

اے خدا کے بہترین پیغمبر ! خدا وند متعال نے وہ کتاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل فرمائی جس میں حق اور سچ کے سوا کچھ اور نہیں اور اس میں فرمایا :

( وَلَوْأ َنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا ) ( ۱ )

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے حق

____________________

(۱) سورۂ نساء : ۶۴.

۲۴۹

میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔

اورمیں اب آیا ہوں کہ تجھے واسطہ قرار دے کر خد اوند متعال سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کروں اور پھر گریہ کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا :

یا خیر من دفنت بالقاع اعظمه

فطاب من طیبهن القاع والاکم

نفسی الفداء لقبر انت ساکنه

فیه العفاف وفیه الجود والکرم

اے وہ بہترین ذات جو زمین کی تہہ میں دفن ہو چکی ہے زمین اور اس کے اطراف کے پہاڑ تیرے وسیلہ سے پاک وپاکیزہ ہوگئے ہے ۔

میری جان قربان اس قبر پر جس کے ساکن آپ ہیں وہ قبر جس میں عفت و پاکیزگی اور جود وکرم مدفون ہیں ۔

اس کے بعد خدا سے مغفرت طلب کی اور مسجد سے باہر چلا گیا ۔

محمد بن حرب ہلالی کہتا ہے :

میں نے خواب میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دیکھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اس اعرابی شخص کو تلاش کرکے یہ بشارت دے کہ خداوند متعال نے میری شفاعت کی وجہ سے اسے بخش دیا ہے ۔

میں نیند سے اٹھا اور اس کے پیچھے گیا لیکن اسے ڈھونڈنہ سکا ۔( ۱ )

____________________

(۱) دفع الشبة عن الرسول ، حصنی : ۱۴۳ ؛ الاحکام السلطانیة ماوردی : ۱۰۹ ؛ شفاء السقام فی زیارة خیر الانام :۱۵۱؛ الدرر السنیة ۱: ۲۱.

۲۵۰

۴۔حضرت ابو ایوب انصاری کا قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر آنا:

حاکم نیشاپوری اور احمد بن حنبل نے داؤد بن ابو صالح سے حضرت ابو ایوب انصاری کے قبر رسول کی زیارت کے لئے آنے اور مروان اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کی داستان کو یوں بیان کیا ہے :

اموی خلیفہ مروان بن حکم( ۱ ) متوفیٰ ۶۳ ہجری نے دیکھا کہ ایک شخص قبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر بیٹھا اپنا چہرہ اس پر رکھے ہوئے ہے مروان نے اس کو گردن سے پکڑ اور کہا : تجھے معلوم ہے کہ کیاکر رہا ہے؟ جب غور کیا تو دیکھا بو ایوب انصاری ہیں ۔

انھوںنے جواب دیا :''نعم جئت رسول الله ]صلی الله علیه وسلم ولم آت الحجر ، سمعت رسول الله ]صلی الله علیه وسلم [ یقول: لا تبکوا علی الدین اذا ولیه اهله ، ولکن ابکوا علیه اذا ولیه غیراهله'' ( ۲ )

ہاں ! میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ میں نے

____________________

(۱) مروان بن حکم بن ابو العاص بن امیہ ہجرت کے دوسال بعدپیدا ہوا عثمان کی حکومت میں دفتری امور اس کے حوالے تھے معاویہ کے دور حکومت میں مدینہ کا حاکم بنا اور معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد خلیفہ بنا نوماہ حکومت کی اور ۶۱ یا ۶۳ ہجری میں مر ا۔ تہذیب الکمال مزی ۲۷: ۳۸۹.

(۲) مستدر ک علی الصحیحین ۴: ۵۱۵؛ مسند احمد ۵: ۴۲۲؛ تاریخ مدینہ دمشق ۵۷: ۲۴۹؛ مجمع الزوائد ۵: ۲۴۵.

۲۵۱

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: جب اہل لوگ دین کی سر پرستی کریں تو اس وقت پر مت رونا بلکہ اس وقت رونا جب نااہل اس کی سر پرستی کرنے لگیں ۔

۵۔ حضر ت بلال بن حارث کا قبر پیغمبر سے توسل :

بیہقی اور دیگر نے نقل کیا ہے :

''اصاب الناس قحط فی زمن عمر رضی الله عنه ، فجاء رجل الی قبر النبی صلی الله علیه وسلم ، فقال: یا رسول الله ! هلک الناس ، استسق لامتک ، فاتاه رسول صلی الله الیه وآله وسلم الله علیه وسلم فی المنام ، فقال: ائت عمر فاقراه منی السلام ، واخبره انهم مسقون ، قل له : علیک الکیس .قال: فاتی الرجل فاخبر ه، فکبی عمر رضی الل هعن ه، وقال: یا رب ما آلوا الا ما عجزت عن ه'' ( ۱ )

عمر کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوئے تو ایک شخص قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )پر آیا ور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ ! لوگ مر رہے ہیں اپنی امت کے لئے طلب باران فرمائیں ۔ اس شخص نے خواب میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا

____________________

(۱) دلائل النبوة بیہقی ۷: ۴۷ باب ماجاء فی رویة النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی المنام، المصنف ابن ابی شبیہ ۷: ۴۸۲ تاریخ دمشق ۴۴: ۳۴۶ و ۵۶ : ۴۸۹ ، الاستیعاب ۳: ۱۱۴۹ ، تاریخ اسلام ۳: ۲۷۳ ،ا لبدایة والنہایة ۷: ۱۰۵، وحوادث سال ۱۸ ، الاصابہ۶: ۲۱۶ ؛ فتح الباری ۲: ۴۱۲ ، باب سوال الناس الامام الاستسقاء ، اذا قحطوا کنز العمال۸: ۴۳۱.

۲۵۲

آپ نے اس سے فرمایا : عمر کے پاس جاؤ اسے جا کرمیرا سلام پہنچاؤ اور کہو کہ بہت جلد سیراب ہوگے اور اس سے یہ بھی کہہ دو کہ اپنی سخاوت کو بڑھا دو ۔

وہ شخص عمر کے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا : عمر نے سن کر رونا شروع کیا اور کہا: خدایا! میں نے کوشش کی لیکن عاجز رہا ۔

ابن حجرلکھا ہے :'' وروی ابن ابی شیبة باسناد صحیح'' ابن ابی شبیہ نے اس روایت کو صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے ...اور جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے صحابی بلال بن حارث تھے ۔( ۱ )

نیز ابن کثیر نے لکھا ہے : ''وھذا اسناد صحیح ''اس روایت کی سند صحیح ہے ۔( ۲ )

مفتی اعظم مکہ مکرمہ زینی دحلان لکھتے ہیں :

بیہقی اور ابن ابو شبیہ نے سند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے :

عمر کی خلافت کے زمانہ میں لوگ قحط سا لی میں مبتلا ہو ئے تو ایک شخص بنام بلال بن حارث صحابی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گئے اور ان سے خطاب کر کے عرض کیا :

یا رسول اللہ ! آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت ہلاک ہو رہی ہے ان کے لئے باران رحمت کی

____________________

(۱)فتح الباری ۲: ۴۱۲، باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذاقحطوا

(۲)البدایة والنہایة ۷: ۱۰۵ ، وقائع سال ۱۸

۲۵۳

دعا فرمائیں ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو خواب میں دیکھا کہ فرمایا : لوگوں سے کہہ دو باران رحمت کا نزول ہوگا ۔

اس روایت میں خواب سے آنحضرت کی دنیوی زندگی کے بعد ان سے توسل کے جائز ہونے پر استدلال نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ حکم شرعی کے اثبات کے لئے خواب کافی نہیں چونکہ ممکن ہے خواب دیکھنے والا اس میں اشتباہ کر بیٹھے اور اسے اچھے طریقے سے یاد نہ رکھ سکے ۔

بلکہ اس روایت میں ایک صحابی کے عمل سے استدلال کیا گیا ہے کہ ان کا قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر آنا اور طلب رحمت کی درخواست کرنا یہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی رحلت کے بعد توسل کے جائز ہونے کی دلیل ہے اور شرعی معیار کو بیان کر رہا ہے کہ خدا وند متعال سے تقرب کا سب سے بہترین طریقہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بھی ان کی خلقت سے پہلے انھیں وسیلہ قرار دیا ۔( ۱ )

۶۔ عثمان بن حنیف کی راہنمائی سے ایک پریشان شخص کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کرنا :

طبرانی اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص اپنی مشکل کو حل کرنے کی خاطر تیسرے خلیفہ عثمان کے پاس آتا جاتا رہتا لیکن اس نے اس پر توجہ نہ کی تو وہ عثمان

____________________

(۱) الدرر السنیة ۱: ۹.

۲۵۴

بن حنیف کے پاس گیا اور اس سے شکایت کی ۔ عثمان بن حنیف نے اس سے کہا :

وضو کر کے مسجد میں جاؤ اور نماز پڑھنے کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے توسل کرو اور کہو :''اللھم انی اسالک واتوجہ الیک بنیبک محمد نبی الرحمة ، یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی فیقضی لی حاجتی ، وتذکر حاجتک''.

خدایا ! میں تجھے تیرے نبی رحمت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا واسطہ دیتا ہوں اور اے محمد ! میں آپ کے وسیلے سے اپنی حاجت خداسے طلب کر ر ہاہوں اور پھر اپنی حاجت بیان کر ۔

اس شخص نے عثمان بن حنیف کی نصیحت پر عمل کیااور پھر عثمان بن عفان خلیفہ مسلمین کے پاس گیا جیسے ہی اس کے خادم کی نظر پڑی تو ا سے انتہائی احترام سے عثمان کے پاس لایا ۔ خلیفہ نے اسے اپنے پاس بتھایا اور اس کی مشکل بر طرف کردی

وہ خلیفہ کے پا س سے سیدھا عثما ن بن حنیف کے پاس پہنچا اسے ساری داستان سنائی اور اس کا شکریہ اداکیا ۔

عثمان بن حنیف نے کہا:

خدا کی قسم ! یہ تو سل میں نے اپنے پاس سے بیان نہیں کیا بلکہ ایک مرتبہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس موجود تھا تو ایک نابنیا شخص آیا اور دعا کا تقاضا کیا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے یہی توسل تعلیم فرمایا جس کی برکت سے اس نابینا کی بینائی پلٹ آئی ۔( ۱ )

____________________

(۱)معجم صغیر طبرانی ۱: ۱۸۳، طبع المکتبة السلیفة.

۲۵۵

مبارکپوری متوفیٰ ۱۳۵۳ ہجری اپنی کتاب تحفة الاحوذی جو کہ صحیح ترمذی کی شرح ہے اس میں لکھتا ہے :

شیخ عبد الغنی دہلوی متوفیٰ ۱۲۹۶ ہجری نے ''انجاح الحاجة علی سنن ابن ماجہ ''میں لکھا ہے :

ہمارے استاد شیخ محمد عابد سندھی متوفیٰ ۱۲۵۷ ہجری نے اپنا رسالہ ''طوالع الانوار علی الدر المختار ''میں کہا ہے :

نابینا شخص والی حدیث آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ان کی حیات میں توسل کے جائز ہونے کی دلیل ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ان کی رحلت کے بعد توسل کے جائز ہونے کی دلیل اس شخص کی داستان ہے جو عثمان بن عفان کے پاس اپنی حاجت کے لئے رفت آمد کرتا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی برکت سے اس کی حاجت پوری ہوگئی ۔( ۱ )

شوکانی متوفی ۱۲۵۵ ہجری لکھتا ہے :

یہ حدیث رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے توسل کے جائز ہونے پر دلالت کررہی ہے لیکن بشرطیکہ معتقد ہوں کہ تمام کام خدا وند متعال کے وسیلہ سے انجام پاتے ہیں اور وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جسے نہیں چاہتا مانع ایجاد کردیتا ہے ۔ جس چیز کا وہ ارادہ کرتا ہے وہی محقق ہو تی ہے اور جس چیز کا ارادہ نہ کرے وہ

کبھی وقوع پذیر نہ ہوگی ۔(۲)

____________________

(۱)تحفة الاحوذی ۱۰: ۳۴. (۲)تحفة الذاکرین : ۱۶۲.

۲۵۶

۷۔حضرت بلال مؤزن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آپ کی قبر سے توسل :

حضرت بلال مؤذن رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) عمر کے دور خلافت میں شام چلے گئے اور وہاں پر سکونت پذیر ہوگئے ایک رات خواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دیکھا کہ وہ فرمارہے ہیں :

''ماهذه الجفوةیا بلال ؟!اما آن لک ان تزورنی یا بلال ؟ فانتبه حزینا وجلا خائفا ، فرکب راحلته وقصدالمدینة فاتی قبر النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، فجعل یبکی عنده ویمرغ وجهه علیه،فاقبل الحسن والحسین ]علیهماالسلام [فجعل یضمهماویقبلهما'' .(۱)

اے بلال ! یہ کیسی جفا تو نے ہمارے حق میں روا رکھی ہے ؟ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ تو میری زیارت کرے ؟

حضرت بلال خوف اور گھبراہٹ کی حالت میں نیند سے اٹھے جلدی سے اپنی سواری آمادہ کی اور مدینہ منورہ قبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف حرکت کی ۔

جب مدینہ منورہ میں قبر رسول کے پاس پہنچے تو گریہ کرتے ہوئے اپنی

____________________

(۱) اسد الغابة فی معرفة الصحابة ۱: ۲۸.

۲۵۷

صورت کو قبر پر ملنا شروع کیا اتنے میں حسن وحسین (علیہما السلام)کو دیکھا کہ وہ اپنے نانا کی قبر مبارک کی طرف آرہے ہیں انھیں آغوش میں لیا اور بوسے دینے لگے ۔

۸۔ حنبلیوں کے بزرگ کا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی قبر سے متوسل ہونا :

اہل سنت کے بہت بڑے عالم دین خطیب بغدادی لکھتے ہیں :

ابو علی خلال متوفیٰ ۲۴۲ ہجری کہتا ہے :( ۱ )

''ماهمتنی امر فقصدت قبر موسیٰ بن جعفر فتوسلت به الا سهل الله تعالیٰ لی ما احب '' .( ۲ )

مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی قبر پر جاکر متوسل ہوتااور مشکل برطرف ہو جاتی۔

۹۔ قبر امام علی رضا علیہ السلام ، بزرگان اہل سنت کی زیارت گاہ :

محمد بن مومل کہتا ہے :

اہل حدیث کے امام ابن حزیمہ اور بہت سے اساتیذ و بزرگان کے ہمراہ طوس

____________________

(۱)مزی نے یعقوب بن شیبہ کا قول نقل کیا ہے کہ''کان ثقة، ثبتا ، متقنا'' ابو علی خلال ثقہ ، محکم اور قابل اعتماد شخص تھا اسی طرح اس نے اس کی وثاقت کو نسائی اور خطیب بغدادی سے بھی نقل کیا ہے تہذیب الکمال ۶: ۲۶۳.

(۲) تاریخ بغداد ۱: ۱۳۳ ، طبع الکتب العلمیة ، بیروت ، تحقیق مصطفی عطا

۲۵۸

میں علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام کی قبر پہ گئے'' فرایت من تعظیمہ یعنی ابن خزیمة لتلک البقعة ، تواضعہ لھا و تضرعہ عندھا ماتحیرنا '' میں نے دیکھا کہ ابن خزیمہ نے اس روضہ کی انتہائی تعظیم کی ، اس کی اس تواضع اور عاجزی کو دیکھ کر ہم حیرت زدہ رہ گئے ۔( ۱ )

طوس میں علی بن موسیٰ رضا (علیہما السلام )کی قبر مبارک ہارون الرشید کی قبر کے پاس ہے وہ ایک مشہور زیارت گاہ ہے جس کی میں نے کئی بار زیارت کی ہے ۔

''وما حلت بی شدة فی وقت مقامی بطوس فزرت قبر علی بن موسیٰ الرضا صلوات الله علی جده وعلیه ، ودعوت الله ازا لتها عنی الا استجیب لی وزالت عنی تلک الشدة، وهذا شیء جربته مرارا فوجدته کذلک '' ( ۲ )

میں جتنی مدت طوس میں رہا جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو علی بن موسیٰ رضا ( علیہماالسلام ) کی قبر کی زیارت کرتا اور خداوند متعال سے مشکل کے دور ہونے کی دعا کرتا ۔ بہت جلد وہ مشکل حل ہو جاتی میں نے اسے کئی بار تجربہ کیا ۔

خداوند متعال ہمیں محمد اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کی محبت پر موت دے ۔

۱۰۔امام شافعی کا ابو حنیفہ کی قبر سے توسل :

حنفیوں کے امام ابو حنیفہ کی قبر بغداد کے علاقہ اعظمیہ میں عام و خاص کے

____________________

(۱)تہذیب التہذیب ۷: ۳۳۹. (۲)الثقات ۸: ۴۵۷.

۲۵۹

لئے زیارت گاہ بن ہوئی ہے خطیب بغدادی اور اہل سنت کے بزرگ علما علی بن میمون سے نقل کرتے ہیں کہ ہم نے امام شافعی سے سنا :

''انی لاتبرک بابی حنیفة واجیء الی قبره فی کل یوم یعنی زائرا ، فاذا عرضت لی حاجة صلیت رکعتین وجئت الی قبره وسالت الله تعالیٰ الحاجة عنده فما تبعد عنی حتی تقضی '' .( ۱ )

میں ہر روز ابو حنیفہ کی قبر پہ جاتا اور اس سے تبرک حاصل کرتا ہوں جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر اس کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرتا ہوں بلا فاصلہ حاجت پوری ہو جاتی ہے ۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ برکاتہ

۱۱ذی الحجة ۲۰۰۸ء دن گیارہ بج کر ۲۵ منٹ پر کتاب مکمل ہوئی

____________________

(۱)تاریخ بغداد ۱: ۱۳۵ ؛ وخوارزمی ،در مناقب ابی حنیفہ ۲: ۱۹۹ و منتظم ابن جوزی۱۶: ۱۰۰.

۲۶۰