وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں0%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف: ڈاکٹر سید محمد حسینی قزوینی
زمرہ جات:

صفحے: 274
مشاہدے: 155088
ڈاؤنلوڈ: 4997

تبصرے:

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155088 / ڈاؤنلوڈ: 4997
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

عصر حاضر میں وحدت و اتحاد کی اہمیت

اس میں شک نہیں ہے کہ ہم ایک ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں دشمنان اسلام، اسلام کی نابودی کے لئے آپس میں معاہدہ کرچکے ہیں اور اپنے تمام تر سیاسی و اقتصادی امکانات اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے بروئے کار لا رہے ہیں ۔

اسی طرح امریکی سی آئی اے کے سابق معاون ڈاکٹر مائیکل برانٹ نے اپنی کتاب (مکاتب الہی کو جدا کرنے کا منصوبہ Aplan to divis and d noylt theiology میں لکھتا ہے:

جو لوگ شیعوں سے اختلاف رائے رکھتے ہیں انھیں شیعوں کے خلاف منظم و مستحکم کر کے شیعوں کے کافر ہونے کے نظریہ کو عام کر کے انھیں معاشرے سے جدا کیا جائے اور ان کے خلاف نفرت انگیز تحریریں لکھی جائیں۔(۱)

____________________

(۱) اخبار جمہوری اسلامی ۱۳۸۳۳۵ اور ہفت روزہ افق حوزہ ۱۳۸۳۲۲۸۔

۴۱

Goldstone برطانوی سیاست دان اور سابق وزیر اعظم برطانیہ کہتا ہے:(یہ برطانوی سیاست دان ۸۰۹ا۔۱۸۹۸)چار بار اس ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے۔

مادام هٰذاالقرآن موجوداًفی ایدی المسلمین،فلن تستطع أروباالسیطرة علی الشرق و لا أن تکون هی نفسها فی أمان .(۱)

جب تک مسلمانوں کے پاس قرآن موجود ہے تب تک نہ تو برطانیہ مشرق پر اپنا تسلط جما سکتا ہے اور نہ ہی خود امن کی سانس لے سکتا ہے۔

سابق اسرائیلی وزیر اعظم Ben Gurio(۲)

کہتا ہے:''انّ اخشی ما نخشاه أن یظهر فی العالم العربی، محمد جدید'' .(۳)

جس چیز نے ہمیں وحشت زدہ کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ کہیں عالم عرب میں کوئی نیا محمد نہ ظاہر ہوجائے۔

____________________

(۱) الاسلام علی مفترق الطرق:۳۹۔

(۲)یہی وہ شخص ہے جس نے اسرائیل کا نام تجویز کیا اور نو بار اس ملک کا وزیر اعظم بنا، اس نے اپنی زندگی کو صہیونزم کیلئے وقف کیا۔ ۱۹۴۸ئ میں فلسطین پر قبضہ کے لئے جنگ کی سر براہی اسی نے کی. اس کی وزارت کے دور میں جو واقعات رونما ہوئے وہ درج ذیل ہیں : ۱۔۱۹۴۸ئ کی جنگ ،۲۔ یہودیوں کی بے سابقہ ہجرت ،۳۔ یہودی آبادیوں کی افزائش ۴۔اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کا ۱۹۵۶ئ میں مصر پر مشترکہ حملہ۔

(۳) اخبار الکفاح الاسلامی ۱۹۵۵ئ۔

۴۲

اگرچہ عیسائیوں کے مسلمہ اصول میں سے ایک حضرت عیسی علیہ السلام کا یہودیوں کے ہاتھوں تختہ دار پر لٹکایا جانا ہے جس کے باعث بیس صدیوں تک ان کے درمیان بغض و کینہ اور دشمنی عروج پر رہی ہے لیکن مسلمانوں کے مقابلے میں عیسائی و یہودی اتحاد کی خاطر حکومت واٹیکان نے سرکاری طور پر اس اصل سے چشم پوشی کا اعلان کر کے یہودیوں کو اس گناہ سے بری الذمہ قرار دے دیا ۔

اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان ۱۹۷۳ئ میں اسرائیل کی مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے دوران کیا گیا تاکہ یہودیوں اور عیسائیوں کی پوری طاقت مسلمانوں کے مقابلے میں صرف کر سکیں۔( ۱ )

مذکورہ بالا نکات سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے:

''من اصبح و لم یهتم بأمور المسلمین فلیس بمسلم'' ( ۲ )

ترجمہ: جو شخص اپنے دینی بھائیوں کی مشکلات کی فکر نہ کرے وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔

واضح رہے کہ موجودہ حالات میں کسی قسم کی مشکوک حرکت جو مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ و جدائی کا باعث بنتی ہو، اسلام کے نفع میں نہیں ہے۔

اور ہر طرح کی گالی گلوچ اور ناروا گفتگو مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد

____________________

(۱) مع رجال الفکر فی القاہرة ۱:۱۶۲۔

(۲) اصول کافی ۲:۱۶۳۔

۴۳

اور تقریب مذاہب کونقصان پہنچانے سے بڑھ کر مکتب اسلام کے نورانی چہرے کو خدشہ دار کرنے اور اہل علم حضرات کے اسلام جیسے نورانی مکتب سے بدگمان ہونے کا باعث بنتی ہے۔

وحدت کے اہداف

وہ مسائل جن میں علمائے اسلام کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے ان میں سے ایک وحدت کے اہداف کی جامع تعریف ہے اور یہ واضح ہونا چاہیے کہ وحدت کا مقصد تمام مذاہب کو ایک کرنا یا دوسرے مذاہب کو مٹانا نہیں ہے اور تقریب کے ادارے قائم کرنے و الو ں کی غرض بھی معتزلی کی جگہ اشعری ، سنی کو شیعہ، حنفی کو حنبلی بنانایا اس کے بر عکس نہیں تھی۔

اس لئے کہ یہ کام نہ تنہا دشوار بلکہ ناممکن ہے جب کہ ان کا مقصد تو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو مشترک امور کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے نزدیک کرنا اور تمام مسلمانوں کو دشمنان اسلام کے مقابلے میں ایک صف میں لا کر کھڑا کرنا تھا۔

مرحوم شیخ محمد تقی قمی بانی ''دار التقریب بین المذاھب الاسلامیة'' اور مدرسہ فیضیہ میں حضرت آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے نمائندے فرمایا کرتے:

اس ادارے کی تأسیس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ شیعہ اپنے اصول و عقائد سے دوری اختیار کر لیں یا سنی اپنے عقائد کے مبانی سے دستبردار ہوجائیںمذاہب کے درمیان فاصلے کا سبب ان کا ایک دوسرے کے افکارو مبانی سے نا آشنا ہونا ہے. اس ادارے کی تأسیس کا مقصد یہ ہے کہ ہر ایک مذہب کے صاحب فکر حضرات آئیں اور اپنے اپنے عقائد کے مبانی کا تحفظ اور دوسروں کے عقائد کا احترام کرتے ہوئے پرسکون فضا میں اختلافی مسائل کو بیان کریں تاکہ ایک دوسرے کے افکار اور مذاہب کے درمیان مشترک امور سے آشنائی کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ تفاہم پیدا ہو کہ جس کا فائدہ یقینا مذہب شیعہ کو ہے۔

۴۴

۲۴جنوری ۲۰۰۱ئ میں لندن کے اندر ایک ٹی وی چینل ANN نے وحدت مسلمین اور مذاہب اسلامی کے درمیان تقریب کے عنوان سے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں ایرانی، لبنانی، مصری اور برطانوی مفکرین نے شرکت کی. اس کانفرنس سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے ''الازہر'' یونیورسٹی کے معاون اور مذاہب اسلامی کے درمیان گفتگوکا اھتمام کرنے والی کمیٹی کے چئر مین جناب شیخ محمد عاشور نے کہا:

فکرة التقریب بین المذاهب الاسلامیةلاتعنی توحید المذ اهب الاسلامیة ولاصرف ایّ مسلم مذهبه وصرف المسلم عن مذهبه تحت التقریب تضلیل فکرة التقریب...فان الاجتماع علی فکرة التقریب یجب ان یکون اساسه البحث والاقناع والاقتناع ، حتی یمکن لسلاح العلم والحجة محاربة الافکار الخرافیّة ...وان یلتقی علماء المذاهب ویتبادلون المعارف والدراسات لیعرف بعضهم بعضا فی هدوء العالم المتثبت الذی لاهم له الاان یدری یعرف ویقول فینتج .( ۱ )

مذاہب اسلامی کے درمیان تقریب کا مقصد تمام مذاہب کو ایک کرنا اور ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو قبول کرنا نہیں ہے اس لئے کہ ایسی فکرتو تقریب کو اس کے ہدف سے ہٹانا ہے. تقریب کی بنیاد علمی گفتگو اور دوسرے کو قانع کرنے پر ہونی چاہیے تاکہ علم کے اسلحہ اور دلیل کے ذریعہ سے منحرف افکار کا مقابلہ کیا جا سکے... اور یہ کہ علمائے مذاہب مل بیٹھیں اور معارف کا تبادلہ کریں تاکہ پر امن ماحول میں ایک دوسرے کو سمجھیں اور نتیجہ حاصل کریں۔

شہید مطہری کی نگاہ میں وحدت کا غلط مفہوم لینا

شہید مطہری وحدت مسلمین سے غلط مفہوم لینے کے بارے میں لکھتے ہیں :

''.... اس میں شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کی واضح ترین ضروریات میں سے ان کا آپس میں اتفاق و اتحاد ہے اور عالم اسلام کا اساسی ترین درد مسلمانوں کے درمیان وہی پرانے کینے ہیں دشمن بھی ہمیشہ انھیں سے فائدہ اٹھاتا ہے....

____________________

(۱)مطارحات فکریة فی القنوات الفضائیة، شمارۂ۳:۱۹سال۱۴۲۲ ھج؛ بازخوانی اندیشۂ تقریب:۳۱۔

۴۵

اس آخری صدی میں اسلامی روشن فکر علماء و فضلاء کے درمیان اسلامی اتحاد کا جو مفہوم لیا جا رہا ہے کہ اعتقادی یا غیر اعتقادی اصول سے چشم پوشی اختیار کی جائے یا یہ کہ تمام فرقوں کے مشترک امور کو لے کر ان کے مختص امور کو ترک کردیا جائے یہ کام نہ تو منطقی ہے اور نہ ہی عملی طور پر انجام پانے والا ہے۔

کیسے ممکن ہے کہ ایک مذہب کے پیروکاروں سے یہ تقاضا کیا جائے کہ وہ وحدت اسلام و مسلمین کے تحفظ کی خاطر فلاں اعتقادی یا عملی اصل کو چھوڑ دیں جبکہ وہ اصل ان کے نزدیک دین اسلام کا جزو شمار ہوتی ہو؟

یہ تو بالکل ویسے ہی ہے جیسے اُسے کہا جائے کہ اسلام کے نام پر اسلام کے ایک جزوسے روگردانی کر لیں...!( ۱ )

ہم خود شیعہ ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرنے پر افتخار کرتے ہیں چھوٹی سے چھوٹی چیز حتی ایک مستحب یا مکروہ عمل پر بھی معاملہ کرنے کو تیار نہیں ہیں اس بارے میں ہم نہ تو کسی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اصول میں سے فلاں اصل کو اسلامی اتحاد کی خاطر ترک کردے اور نہ ہی اس بارے میں کسی کی فرمائش کو قبول کرتے ہیں ۔

جس چیز کی ہم توقع رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ حسن تفاہم کا ماحول ایجاد کیا جائے تاکہ ہمارے پاس جو اصول و فروع، فقہ، حدیث، کلام، فلسفہ اور ادبیات ہیں انھیں ایک

____________________

(۱) امامت و رہبری: ۱۶، چاپ صدرا۔

۴۶

بہترین چیز کے طور پر پیش کر سکیں اور شیعہ اس سے زیادہ زوال کی طرف نہ جائیں اسی طرح عالم اسلام کے بازاروںکو بھی شیعہ معارف کے لئے کھولا جائے( ۱ )

کیا مشترک امور پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے؟

شہید مطہری اپنی گفتگوکو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں :

اسلام کے مشترک امور کو لینا اور ہر فرقے کے مختصات کو ترک کرنا اجماع مرکب کی مخالفت کرنا ہے اور اس کا نتیجہ ایسی چیز ہے جو یقینا حقیقی اسلام سے ہٹ کر کچھ اور ہے. اس لئے کہ کسی بھی فرقے کے مختص امور اسلام کا حصہ ہیں اور ان مشخصات و مختصات سے خالی اسلام کا کوئی وجود نہیں ہے۔

علاوہ از یں اتحاد اسلامی کی بلند فکر پیش کرنے والی شخصیات شیعہ میں مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی قدّس سرّہ اور اہل سنت کے اندر علامہ شیخ عبد المجید سلیم اور علامہ شیخ محمود شلتوت نے بھی اس طرح نہیں سوچا تھا۔

جو چیز ان کے مدنظر رہی وہ یہ تھی کہ اسلامی فرقے در عین حال اگرچہ کلام و فقہ وغیرہ میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن مشترکات جو زیادہ بھی ہیں ان کے واسطے سے اسلام کے خطرناک دشمن کے مقابلے میں دست برادری بڑھائیں اور ایک صف تشکیل دیں ان بزرگان نے ہرگزوحدت اسلامی کے عنوان سے وحدت مذہبی

ایجاد کرنے کا تصور نہیں کیا اس لئے کہ ایسی سوچ کبھی بھی عملی طور پر انجام پانے والی نہیں ہے۔(۲)

____________________

(۱) امامت و رہبری: ۱۷۔

(۲) امامت و رہبری:۱۸۔

۴۷

ایک گروہ یا ایک محاذ

شہید مطہری فرماتے ہیں :

عرف عام میں ایک گروہ اور ایک محاذ میں فرق پایا جاتا ہے ایک گروہ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ شخصی مسائل کے علاوہ فکر، راہ و روش اور نظریات میں ہمرنگ ہوں۔

جبکہ ایک محاذ کا معنیٰ یہ ہے کہ مختلف گروہ اور تنظیمیں مسلک، نظریات اور راہ و روش میں اختلاف کے باوجود مشترک امور کی بناء پر مشترک دشمن کے مقابلے میں ملکر صف آرائی کریں۔

اوریہ واضح سی بات ہے کہ اپنے مسلک کا دفاع، دوسرے بھائیوں کے مسلک پر اعتراض اور محاذ آرائی میں موجود افراد کو اپنے مسلک کی دعوت دینا دشمن کے مقابلے میں صف واحد تشکیل دینے سے کسی قسم کی منافات نہیں رکھتا۔

خصوصاً مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی جس چیز کی فکر میں تھے وہ یہ تھی کہ برادران اہل سنت کے درمیان معارف اہل بیت علیہم السلام کو منتشر کرنے کی راہیں

۴۸

ہموار کر سکیں اور وہ معتقد تھے کہ یہ کام حسن تفاہم کے بغیر ممکن نہیں شیعہ فقہی کتب کے مصر میں مصریوں کے ہاتھوں چھپوائے جانے کی جو کامیابی آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کو حاصل ہوئی یہ اسی حسن تفاہم کا نتیجہ تھا جو انہوں نے ایجاد کیا تھا اور علمائے شیعہ کے لئے یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھیجزاه اللّٰه عن الاسلام و المسلمین خیر الجزائ .( ۱ )

کیا مسئلہ امامت اختلاف انگیز ہے؟

شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ شیعہ و سنی یا شیعہ و وہابی کے درمیان اختلافی مسائل کو زیر بحث لانا وحدت مسلمین سے منافات رکھتا ہے اور بعض لوگوں کے لئے دل آزاری و تفرقہ کا باعث بنتا ہے۔

شہید مطہری کی رائے:

شہید مطہری اس بارے میں فرماتے ہیں :

بہر حال ''اسلامی اتحاد'' کی حمایت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ حقائق کو بیان کرنے میں کوتاہی برتی جائے جس چیز سے پرہیز کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایسا عمل انجام نہ دیا جائے جو مخالف کے احساسات اور اس کے کینے کو ابھارنے کا باعث بنے. جبکہ علمی گفتگو کا تعلق عقل و منطق سے ہے نہ کہ عواطف و احساسات سے.(۲ )

____________________

(۱) ایضا: ۱۸۔

(۲) ایضا: ۱۹۔

۴۹

آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کی رائے:

حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی فرماتے ہیں :

بعض افراد جیسے ہی مسئلہ امامت کی بات آتی ہے تو فوراً بول اٹھتے ہیں کہ آج ان باتوں کا دن نہیں ہے!

آج وحدت مسلمین کا دن ہے اور جانشین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں گفتگو کرنا اختلاف و انتشار کا باعث بنتا ہے۔

آج ہم مشترک دشمن صہیونزم و استعمار شرق و غرب کے مقابلے میں کھڑے ہیں ہمیں ان کے بار ے میں فکر کرنی چاہیے، لہٰذا اختلافی مسائل کو مت چھیڑیں. جبکہ اس طرح کا طرز تفکر یقینا غلط ہے اس لئے کہ:

اول: جو چیز اختلاف و انتشار کا باعث بنتی ہے وہ تعصب آمیز، غیر منطقی اور کینہ انگیز بحث و گفتگو ہے جبکہ منطقی، مستدل، تعصب سے پاک، ضد سے خالی دوستانہ انداز میں بحث و گفتگو کرنا نہ یہ کہ تنہا اختلاف کا باعث نہیں بنتی بلکہ آپس کے فاصلوں کو کم کر کے مشترک مسائل کو تقویت دینے کا موجب بنتی ہے۔

میں نے خانہ کعبہ کی زیارت کے دوران حجاز کے سفر میں بارہا علمائے اہل سنت سے بحثیں کی ہیں ہم نے بھی اور انھوں نے بھی یہی احساس کیا کہ ایسی بحثیں نہ صرف برا اثر نہیں رکھتی ہیں بلکہ تفاہم و خوش بینی کا باعث بنتی ہیں ، فاصلوں کو کم اور سینوں سے نفاق کو دور کرتی ہیں ۔

اس سے بھی اہم یہ کہ ان بحثوں میں ہمارے لئے واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے درمیان مشترکات بہت زیادہ ہیں کہ جن کی بناء پر ہم مشترک دشمن کے مقابلے میں متحد ہونے کی تاکید کریں۔( ۱ )

____________________

(۱) پنجاہ درس اصول عقائد:۲۲۷۔

۵۰

آیت اللہ العظمیٰ فاضل لنکرانی کی رائے:

حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی ۲۰۰۲ئ میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں :

''راہ ولایت میں شہید ہونے والی اس سب سے پہلی اور عظیم شخصیت کی شہادت کی یاد منانا مقام ولایت سے تجدید عہد کرنا ہے جس کے ذریعے سے دین خدا کامل اور نعمت پروردگار انتہا تک پہنچی ہے.......

یہاں پہ میں اس نکتہ کا تکرار کرنا لازم سمجھتا ہوں کہ ان ایام کی تعظیم اور مجالس عزا برپا کرنا امام خمینی کی مسلّمہ اور عملی سیرت ہے جس کا مسئلہ وحدت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مسئلہ وحدت جس کی امام خمینی اور آیت اللہ بروجردی قدس سرّھما نے تاکید فرمائی اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ شیعہ اپنے مسلمہ عقائد کے بارے میں سکوت یا ان سے چشم پوشی کر لیں. بلکہ تمام مسلمانوں کا عالمی استکبار کے مقابلے میں متحد ہونا ہے جو سپرپاور ہونے کا دعویٰ کر رہا اور صہیونیوں کی پیروی میں اسلام کی بنیادوںکو مسمار

کرنے کی فکر میں مشغول ہے۔

تین جمادی الثانی حکومت اسلامی کی طرف سے سرکاری چھٹی کا دن ہے اس دن شیعوں کو چاہیے کہ وہ عزاداری کے جلوس لے کر گلیوں اور سڑکوں پرنکلیں تاکہ یوں اس شہیدہ کا حق کسی حد تک ادا کر سکیں۔

اسی طرح ۲۰۰۱ئ میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں فرمایا: ''یہ درست ہے کہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی مسئلہ وحدت پر بہت زور دیتے تھے لیکن ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ شیعہ اپنے یقینی اور محکم عقائد سے دستبردار ہوجائیں۔

امام جمعہ زاہدان کی رائے:

مولوی عبد الحمید امام جمعہ زاہدان نے سترہ بہمن ۲۰۰۶ئ نماز جمعہ کے خطبہ میں کہا: ''جس کسی کے پاس جو بھی استدلال ہے اسے عقل و منطق کی روشنی میں بیان کرے اور اس پر کسی کو شکوہ نہیں ہے لیکن مقدسات کی توہین کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہے اور جو بھی اسے جائز سمجھے تو یہ نص قرآن و سنت کے خلاف ہے. ہمیں چاہیے کہ یہودو نصاریٰ کے مقدسات کی بھی توہین و بے احترامی نہ کریں۔

۵۱

وحدت کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بیان کیا ہوا راستہ

الف: امت اسلام کے درمیان اختلاف کی پیشینگوئی:

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امت مسلمہ کے مستقبل اور اس کے درمیا ن اختلا ف کے ایجاد ہونے سے باخبر تھے لہذا مسلمانوں کو تفرقہ بازی اور اختلاف کے تلخ نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں فرمایا:

تفرقت الیهود علی احدی وسبعین فرقة او اثنین و سبعین فرقة و النصارٰی مثل ذٰلک و تفترق اُمّتی علی ثلاث و سبعین فرقة ۔

ترجمہ: جس طرح امت موسی وعیسی اکہتر یا بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئیں اسی طرح میری امت بھی تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔( ۱ )

اور بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

کلهم فی النار الا ملة واحدة . ایک فرقہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنمی ہوں گے۔( ۲ )

____________________

(۱) سنن ترمذی ۴:۲۷۷۸۱۳۴، ابواب الایمان، باب افتراق الامة؛ مسند احمد۲:۱۲۰۳۳۳۲؛ سنن ابن ماجہ ۲:۳۹۹۱۱۳۲۱. ترمذی نے کہا ہے: '' حدیث ابی ہریرة حسن وابو ہریرہ کی حدیث حسن ہے'' سنن ترمذی ۴:۲۷۷۸۱۳۴۔

وہابی عالم ناصر الدین البانی کہتا ہے: یہ حدیث صحیح ہے. سلسلة الاحادیث الصحیحة ۱:۲۰۴۳۵۸ اور ۳: ۱۴۹۲۴۸۰۔

حاکم نیشاپوری کہتا ہے:'' ہٰذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ''۔یہ حدیث مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے'' مستدرک حاکم ۱:۱۲۸ اور ۴:۴۳۰۔

نیز ہیثمی کہتا ہے: '' یہ حدیث صحیح ہے'' مجمع الزوائد ۱:۱۷۹ اور ۱۸۹۔

(۲) سنن ترمذی ۴:۲۷۷۹۱۳۵؛ مسند احمد ۳:۱۴۵؛ مستدرک حاکم ۱: ۱۲۹؛ مجمع الزوائد ۱: ۱۸۹ اور ۶:۲۳۳. مصنف عبد الرزاق صنعانی ۱۰: ۱۵۵؛ عمرو بن ابی عاصم، کتاب السنة: ۷؛ کشف الخفاء عجلونی ۱:۱۴۹ اور ۳۰۹۔

۵۲

اوراس میں بھی کسی قسم کی تردید نہیں ہے کہ امت مسلمہ کااہم اختلاف امامت کے مسئلہ پرتھا جیسا کہ مشہور عالم اہل سنت شہر ستانی لکھتے ہیں :

واعظم خلاف بین الامة خلاف الامامة ، اذماسل سیف فی الاسلام علی قاعدة دینیة مثل ماسل علی الامامة فی کل زمان ( ۱ )

امت اسلام کے درمیان سب سے بڑااختلاف امامت کے بارے میں ہوااورکبھی بھی کسی دینی مسئلہ پراس قدر تلواریں میان سے نہ نکلیں جس قدر مسئلہ امامت پر۔

یہاں پہ یہ سوال پیش آتا ہے کہ وہ اسلامی حکومت جس کی تأسیس کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلسل تئیس سال زحمتیں اٹھائیں کیااس کے مستقبل کے بارے میں کوئی اقدام نہ کیا؟

کیا امت مسلمہ کی سر پرستی اور ہدایت کیلئے اپنے جانشین کا انتخاب کیے بغیر دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہوگئے؟

کیا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تفرقہ بازی اور اختلاف سے بچنے کی کوئی راہ معین نہ فرمائی؟

یہ اور اس طرح کے سینکڑوں سوالات ایسے افراد سے صحیح جواب کے منتظر ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد کسی کو جانشین معین نہیں فرمایا بلکہ یہ کام اُمت کے سپرد کرکے چلے گئے۔

____________________

(۱)ملل ونحل :۳۰

۵۳

قرآن و عترت سے تمسک ہی وحدت کی تنہا راہ:

شیعہ و سنی کتب کی ورق گردانی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امت مسلمہ کو اختلاف سے بچنے اور وحدت ایجاد کرنے کی راہ دکھا کر ہر شخص کی ذمہ داری معین فرمادی۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن و اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام سے تمسک ہی کو وحدت کا تنہا سبب بیان فرمایا ہے۔

یہ کہا جاتا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان وحدت اور تقریب مذاہب کا منحصر ترین راستہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت پر عمل پیرا ہونا ہے اور وہ قرآن و اہل بیت علیہم السلام سے تمسک ہے جو ہدایت اور ہر طرح کی ضلالت و گمراہی سے بچانے کا ضامن ہے۔

رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بارہا لوگوں کو قرآن و اہل بیت علیہم السلام سے متمسک رہنے کا حکم فرمایا:

انی تارک فیکم ماان تمسّکتم به لن تضلوا بعدی ، احدهما اعظم من الآخر ، کتاب الله حبل ممدودمن السماء الی الارض وعترتی اهل بیتی ولن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ، فانظرواکیف تخلفونی فیهما ،( ۱ )

____________________

(۱)صحیح ترمذی۵:۳۲۹، درالمنثور۷۶و۳۰۶الصواعق المحرقہ۱۴۷و۲۲۶،اسدالغابہ ۲:۱۲وتفسیرابن کثیر۴ : ۱۱۳.

۵۴

میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر ان دونوں کا دامن تھامے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہونے پاؤگے ان میں سے ایک دوسری سے عظیم ہے کتاب خدا آسمان سے زمین کی طرف معلق رسی ہے اور میرے اہل بیت. یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھے سے جا ملیں۔

بعض علمائے اہل سنت نے اس روایت کو صحیح شمار کیا ہے۔( ۱ )

____________________

(۱) ابن کثیر دمشقی کہتا ہے:'' و قد ثبت فی الصحیح ان رسول الله صلی علیه و آله و سلم قال فی خطبته بغدیر خم: انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی و انهما لم یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض

صحیح روایت میں آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبۂ غدیر میں فرمایا: میں تمھارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب خدا اور میرے اہل بیت یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملحق ہوں۔تفسیر ابن کثیر۴:۱۲۲. اور اسی طرح کہا ہے:''قال شیخنا ابو عبد الله الذهبی : ہذا حدیث صحیح میرے استاد ذہبی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ بدایة و نہایة۵: ۲۲۸۔

وہابی عالم ناصر الدین البانی نے بھی حدیث ثقلین کے صحیح ہونے کی وضاحت کی ہے۔ صحیح الجامع الصغیر۲:۲۱۷ ۲۴۵۴ اور ۱:۲۴۵۷۴۸۲۔

حاکم نیشاپوری کہتے ہیں :''هٰذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین و لم یخرجاه بطوله''

یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے لیکن طولانی ہونے کی وجہ سے اسے ذکر نہیں کیاحاکم مستدرک ۳:۲۹۰۔

نیز ہیثمی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔مجمع الزوائد۱:۱۷۰۔

ابن حجر مکی شیعوںکے خلاف لکھی جانے والی اپنی کتاب میں لکھتا ہے:

'' روی هذا الحدیث ثلاثون صحابیاً و انّ کثیراً من طرقه صحیح و حسن''

یہ حدیث تیس صحابیوں نے نقل کی ہے ان میں اکثر احادیث کی سند صحیح اور حسن ہے۔الصواعق المحرقہ :۱۲۲۔

۵۵

اور بعض روایات میں ثقلین کی جگہ دو جانشین سے تعبیر کیا گیا ہے:

انی تارک فیکم خلیفتین: کتاب اللّٰه و عترتی أهل بیتی، و انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض .( ۱ )

میں تمہارے درمیان دو جانشین چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک کتاب خدا ہے اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے جا ملیں گے۔

اور بعض روایات میں ذکر ہوا ہے:

فلا تقدموهما فتهلکوا، و لا تقصروا عنهما فتهلکوا، و لا تعلّموهم فانهم اعلم منکم .( ۲ )

ان پر سبقت مت لیں اور نہ ہی ان سے پیچھے رہیں ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور نہ ہی ان کو سکھانے کی کوشش کریں اس لئے کہ وہ تم سے دانا تر ہیں ۔

ج: اہلبیت علیہم السلام حبل اللہ ہیں :

بعض اہل سنت مفسرین جیسے فخر رازی نے یہ حدیث اس آیت مجیدہ( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ ﷲ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا ) ،( ۳ ) و( ۴ )

____________________

(۱) مسند احمد۵: ۱۸۲ اور ۱۸۹ دو صحیح واسطوں سے نقل ہوئی. مجمع الزوائد ۹:۱۶۲؛ الجامع الصغیر۱:۴۰۲؛ تفسیر در المنثور۲ :۶۰۔

(۲) معجم الکبیر طبرانی ۵:۴۹۷۱۱۶۶؛ مجمع الزوائد۹:۱۶۳؛ تفسیر در المنثور۲:۶۰۔

(۳) آل عمران:۱۰۳۔

(۴)فخر رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ''روی عن ابی سعید الخدری عن النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انه قال: انی تارک فیکم الثقلین، کتاب الله تعالیٰ حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اهل بیتی (تفسیر فخر رازی ۸:۱۷۳)۔

۵۶

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو کے ذیل میں ذکر کی ہے۔

اسی طرح آلوسی اس آیت مجیدہ کی تفسیر میں یہی حدیث زید بن ثابت سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : ''و ورد بمعنی ذلک اخبار کثیرة''

اس معنی میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔( ۱ )

ثعلبی (متوفی ۴۲۷ ھ) مفسر اہل سنت نے اسی آیت مجیدہ کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:نحن حبل الله الذی قال الله :''واعتصموابحبل الله جمیعا ولاتفرقوا''

آج تو اس وحشی قوم کے مظالم اپنی انتھاء کو پہنچ چکے ہیں پارہ چنار کے نہتے ہم خدا کی وہ رسی ہیں جس کے بارے میں خداوند متعال نے فرمایا: خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو۔( ۲ )

حاکم حسکانی (متوفی ۴۷۰ھ تقریباً )اہل سنت عالم دین نے بھی رسول گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:من احبّ أ ن یرکب سفینة النجاة و یتمسکبالعروة الوثقیٰ ویعتصم بحبل اللّٰه المتین فلیوال علیّاولیأتمّ بالهداة من ولده .(۳

____________________

(۱)تفسیر آلوسی ۴:۱۸. و اخرج احمد عن زید بن ثابت قال: قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : انی تارک فیکم خلیفتین کتاب الله عزو جل ممدود مابین السماء و الارض و عترتی اهل بیتی و انهما لن یفترقاحتی یردا علی الحوض و ورد بمعنی ذٰلک اخبار کثیره ۔

(۲) تفسیر ثعلبی۳:۱۶۳، شواہد التنزیل ۱:۱۷۷۱۶۸؛ ینابیع المودة۱:۳۵۶ اور ۲:۳۶۸ اور ۳۴۰؛الصواعق المحرقہ: ۱۵۱، باب ۱۱ فصل ۱۔

(۳)شواہد التنزیل۱: ۱۷۷۱۶۸۔

۵۷

فصل دوم

وہابیت کی تاریخی جڑیں

اسلام کی پہلی صدی میں وہابیت کی بنیاد:

اگر آج ہم یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ وہابیوں کے عقائد میں سے محکم ترین عقیدہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کی قبور کی زیارت کا حرام قراردینا ہے تو ماضی پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کوئی جدید موضوع نہیں ہے بلکہ اسلام اور سیرت مسلمین کے مخالف یہ انحرافی تفکر پہلے ہی سے تاریخ میں موجود تھا کہ جس کے بعض نمونوں کی طرف اشارہ کیاجارہا ہے:

۱۔ معاویہ بن ابو سفیان متوفی ۶۰ھ :

مغیرہ بن شعبہ نے ایک ملاقات میں معاویہ سے کہا: بنو ہاشم اقتدار کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں اب ان کی طرف سے تیری حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ ان پر سختی نہ کر اور ان سے دوستی قائم کرے۔

معاویہ نے جواب میں کہا:

ابوبکر، عمر ، عثمان آئے اور گزر گئے ان کا نام تک باقی نہیں ہے جبکہ ہر روز پانچ مرتبہ''اشهدانّ محمدا لرسول الله'' کی آواز کانوں تک پہنچتی ہے

۵۸

'' فای عمل یبقیٰ مع هذا لا أم لک!؟ لا واللّٰه دفناً دفناً''

ایسے میں بنو امیہ کے لئے کیا باقی بچا ہے خدا کی قسم ! جب تک نام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دفن نہ کردوں تب تک چین سے نہ بیٹھوں گا۔( ۱ )

اسی طرح ایک دن معاویہ نے مؤذن کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے سنا تو اعتراضانہ انداز میں کہنے لگا:

اے فرزند عبد اللہ تو نے بہت ہمت کی یہاں تک کہ اپنے نام کو نام خدا کے ساتھ ملانے سے کمتر پر راضی نہ ہوا۔( ۲ )

یہی وجہ تھی کہ اہل سنت کے بہت بڑے عالم محمد رشید رضا لکھتے ہیں :

ایک مغربی دانشور نے کہا تھا: '' کس قدر شایستہ تھا کہ ہم معاویہ کا مجسمہ سونے سے بنا کر اُسے اپنے ملک کے دارالخلافہ کے چوک میں نصب کرتے'' جب اس سے اس کا سبب پوچھا گیا تو جواب دیا:

____________________

(۱) موفقیات زبیر بن بکار:۵۷۶؛ مروج الذہب۳: ۴۵۴ شرح حوادث سال ۱۲۱ھ؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید۵:۱۳۰؛ النصائح الکافیة:۱۲۴۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید۱۰:۱۰۱۔

۵۹

لانه هوالذی حوّل نظام الحکم الاسلامی عن قاعدته الدیمقراطیة الی عصبیة الغلب ، ولولاذلک لعم الاسلام العالم کله ، ولکنانحن الالمان، وسائر شعوب اروبةعربامسلمین ،( ۱ )

اس لئے کہ یہ معاویہ ہی تھا جس نے اسلامی حکومت کے جمہوری نظام کو شاہانہ نظام میں تبدیل کیا. اگر وہ یہ کام نہ کرتا تو اسلام سارے عالم پر غالب آجاتا اور ہم اہل جرمن اور یورپ کے تمام ممالک کے لوگ عربی مسلمان ہوتے۔( ۲ )

۲۔مروان بن حکم متوفی ۶۱ھ:

حاکم نیشاپوری اور (امام اہل سنت) احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں :

مروان نے مسجد نبوی میں صحابی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابو ایوب انصاری کو دیکھا کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بیٹھا اپنا راز دل بیان کر رہا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہا ہے مروان نے ا نہیں گردن سے پکڑ ا اور کہا: أ تدری ما تصنع؟ جانتا ہے کیا کر رہا ہے؟

ابو ایوب انصاری نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا:

'' جئت رسول الله]صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم [ ولم آت الحجر ، سمعت رسول الله ]صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم [ یقول : لا تبکوا علی الدین اذا ولیه اهله ، ولکن ابکوا

____________________

(۱)تفسیر المنار ،۱۱:۲۶۰، الوحی المحمدی :۲۳۲، محمودابوریة :۱۸۵،، مع الرجال الفکر،۱:۲۹۹،

(۲)تفسیر المناد ۱۱:۲۶۰؛الوحی المحمدی:۲۳۲؛محمود ابوریہ:۱۸۵؛ مع رجال الفکرا:۲۹۹۔

۶۰