با ل جبر یل

با ل جبر یل0%

با ل جبر یل مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 199

با ل جبر یل

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 199
مشاہدے: 92954
ڈاؤنلوڈ: 2963

تبصرے:

با ل جبر یل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 199 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92954 / ڈاؤنلوڈ: 2963
سائز سائز سائز
با ل جبر یل

با ل جبر یل

مؤلف:
اردو

یہ دیر کہن کیا ہے ، انبار خس و خاشاک

یہ دیر کہن کیا ہے ، انبار خس و خاشاک

مشکل ہے گزر اس میں بے نالہ آتش ناک

*

نخچیر محبت کا قصہ نہیں طولانی

لطف خلش پیکاں ، آسودگی فتراک

*

کھویا گیا جو مطلب ہفتاد و دو ملت میں

سمجھے گا نہ تو جب تک بے رنگ نہ ہو ادراک

*

اک شرع مسلمانی ، اک جذب مسلمانی

ہے جذب مسلمانی سر فلک الافلاک

*

اے رہرو فرزانہ ، بے جذب مسلمانی

نے راہ عمل پیدا نے شاخ یقیں نم ناک

*

رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بے باکی

ہر شوق نہیں گستاخ ، ہر جذب نہیں بے باک

*

فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا

یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک!

***

۴۱

کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری

کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری

کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری

*

میں ایسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا

تمھارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری

*

نہ فقر کے لیے موزوں ، نہ سلطنت کے لیے

وہ قوم جس نے گنوایا متاع تیموری

*

سنے نہ ساقی مہ وش تو اور بھی اچھا

عیار گرمی صحبت ہے حرف معذوری

*

حکیم و عارف و صوفی ، تمام مست ظہور

کسے خبر کہ تجلی ہے عین مستوری

*

وہ ملتفت ہوں تو کنج قفس بھی آزادی

نہ ہوں تو صحن چمن بھی مقام مجبوری

*

برا نہ مان ، ذرا آزما کے دیکھ اسے

فرنگ دل کی خرابی ، خرد کی معموری

***

۴۲

عقل گو آستاں سے دور نہیں

اس کی تقدیر میں حضور نہیں

*

دل بینا بھی کر خدا سے طلب

آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

*

علم میں بھی سرور ہے لیکن

یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

*

کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں

ایک بھی صاحب سرور نہیں

*

اک جنوں ہے کہ با شعور بھی ہے

اک جنوں ہے کہ با شعور نہیں

*

ناصبوری ہے زندگی دل کی

آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں

*

بے حضوری ہے تیری موت کا راز

زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں

*

ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا

تو ہی آمادہ ظہور نہیں

*

ارنی میں بھی کہہ رہا ہوں ، مگر

یہ حدیث کلیم و طور نہیں

***

۴۳

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں

*

طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں

زجاج کی یہ عمارت ہے ، سنگ خارہ نہیں

*

خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں

مگر یہ حوصلہ مرد ہیچ کارہ نہیں

*

ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے

کہ خاک زندہ ہے تو ، تابع ستارہ نہیں

*

یہیں بہشت بھی ہے ، حور و جبرئیل بھی ہے

تری نگہ میں ابھی شوخی نظارہ نہیں

*

مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا

وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں

*

غضب ہے ، عین کرم میں بخیل ہے فطرت

کہ لعل ناب میں آتش تو ہے ، شرارہ نہیں

***

۴۴

یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی

یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی

کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی

*

تری زندگی اسی سے ، تری آبرو اسی سے

جو رہی خودی تو شاہی ، نہ رہی تو روسیاہی

*

نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے

مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے ، تو نہ رہ نشیں نہ راہی

*

مرے حلقہ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں

وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کجکلاہی

*

یہ معاملے ہیں نازک ، جو تری رضا ہو تو کر

کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی

*

تو ہما کا ہے شکاری ، ابھی ابتدا ہے تیری

نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی

*

تو عرب ہو یا عجم ہو ، ترا لا الہ الا

لغت غریب ، جب تک ترا دل نہ دے گواہی

***

۴۵

تری نگاہ فرومایہ ، ہاتھ ہے کوتاہ

ترا گنہ کہ نخیل بلند کا ہے گناہ

*

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا

کہاں سے آئے صدا "لا الہ الا اللہ"

*

خودی میں گم ہے خدائی ، تلاش کر غافل!

یہی ہے تیرے لیے اب صلاح کار کی راہ

*

حدیث دل کسی درویش بے گلیم سے پوچھ

خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ

*

برہنہ سر ہے تو عزم بلند پیدا کر

یہاں فقط سر شاہیں کے واسطے ہے کلاہ

*

نہ ہے ستارے کی گردش ، نہ بازی افلاک

خودی کی موت ہے تیرا زوال نعمت و جاہ

*

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک

نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ!

***

۴۶

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

*

ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا

حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں

*

گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ورنہ

گہر میں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں

*

رگوں میں گردش خوں ہے اگر تو کیا حاصل

حیات سوز جگر کے سوا کچھ اور نہیں

*

عروس لالہ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب

کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں

*

جسے کساد سمجھتے ہیں تاجران فرنگ

وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں

*

بڑا کریم ہے اقبال بے نوا لیکن

عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں

***

۴۷

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے

خراج کی جو گدا ہو ، وہ قیصری کیا ہے!

*

بتوں سے تجھ کو امیدیں ، خدا سے نومیدی

مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!

*

فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں

خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے

*

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا

نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

*

اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر

کہ جانتا ہوں مآل سکندری کیا ہے

*

کسے نہیں ہے تمنائے سروری ، لیکن

خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے!

*

خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری

وگرنہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے!

***

۴۸

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

جہاں ہے تیرے لیے ، تو نہیں جہاں کے لیے

*

یہ عقل و دل ہیں شرر شعلہ محبت کے

وہ خار و خس کے لیے ہے ، یہ نیستاں کے لیے

*

مقام پرورش آہ و نالہ ہے یہ چمن

نہ سیر گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے

*

رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک

ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے!

*

نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو

ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے

*

نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

*

ذرا سی بات تھی ، اندیشہ عجم نے اسے

بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے

*

مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب

سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے لیے

***

۴۹

تو اے اسیر مکاں! لامکاں سے دور نہیں

تو اے اسیر مکاں! لامکاں سے دور نہیں

وہ جلوہ گاہ ترے خاک داں سے دور نہیں

*

وہ مرغزار کہ بیم خزاں نہیں جس میں

غمیں نہ ہو کہ ترے آشیاں سے دور نہیں

*

یہ ہے خلاصہ علم قلندری کہ حیات

خدنگ جستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں

*

فضا تری مہ و پرویں سے ہے ذرا آگے

قدم اٹھا ، یہ مقام آسماں سے دور نہیں

*

کہے نہ راہ نما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو

یہ بات راہرو نکتہ داں سے دور نہیں

***

۵۰

یورپ.میں.لکھےگئے

خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ

سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ

*

نہ بادہ ہے ، نہ صراحی ، نہ دور پیمانہ

فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزم جانانہ

*

مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ

کہ میں ہوں محرم راز درون میخانہ

*

کلی کو دیکھ کہ ہے تشنہ نسیم سحر

اسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ

*

کوئی بتائے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور

سب آشنا ہیں یہاں ، ایک میں ہوں بیگانہ

*

فرنگ میں کوئی دن اور بھی ٹھہر جاؤں

مرے جنوں کو سنبھالے اگر یہ ویرانہ

*

مقام عقل سے آساں گزر گیا اقبال

مقام شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ

***

۵۱

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

کرتے ہیں خطاب آخر ، اٹھتے ہیں حجاب آخر

*

احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا

سوز و تب و تاب اول ، سوزو تب و تاب آخر

*

میں تجھ کو بتاتا ہوں ، تقدیر امم کیا ہے

شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر

*

میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں

لاتے ہیں سرور اول ، دیتے ہیں شراب آخر

*

کیا دبدبہ نادر ، کیا شوکت تیموری

ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق م ے ناب آخر

*

خلوت کی گھڑی گزری ، جلوت کی گھڑی آئی

چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر

*

تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا

کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر

***

۵۲

ہر شے مسافر ، ہر چیز راہی

ہر شے مسافر ، ہر چیز راہی

کیا چاند تارے ، کیا مرغ و ماہی

*

تو مرد میداں ، تو میر لشکر

نوری حضوری تیرے سپاہی

*

کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی

یہ بے سوادی ، یہ کم نگاہی!

*

دنیائے دوں کی کب تک غلامی

یا راہبی کر یا پادشاہی

*

پیر حرم کو دیکھا ہے میں نے

کردار بے سوز ، گفتار واہی

***

۵۳

ہر چیز ہے محو خود نمائی

ہر ذرہ شہید کبریائی

*

بے ذوق نمود زندگی ، موت

تعمیر خودی میں ہے خدائی

*

رائی زور خودی سے پربت

پربت ضعف خودی سے رائی

*

تارے آوارہ و کم آمیز

تقدیر وجود ہے جدائی

*

یہ پچھلے پہر کا زرد رو چاند

بے راز و نیاز آشنائی

*

تیری قندیل ہے ترا دل

تو آپ ہے اپنی روشنائی

*

اک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں

باقی ہے نمود سیمیائی

*

ہیں عقدہ کشا یہ خار صحرا

کم کر گلہ برہنہ پائی

***

۵۴

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ!

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ!

ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ

*

تعمیر آشیاں سے میں نے یہ راز پایا

اہل نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ

*

یہ بندگی خدائی ، وہ بندگی گدائی

یا بندہ خدا بن یا بندہ زمانہ!

*

غافل نہ ہو خودی سے ، کر اپنی پاسبانی

شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ

*

اے لا الہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں

گفتار دلبرانہ ، کردار قاہرانہ

*

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے

کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ

*

راز حرم سے شاید اقبال باخبر ہے

ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ

***

۵۵

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں ، میری انتہا کیا ہے

*

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضا کیا ہے

*

مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گرہوں

یہی سوز نفس ہے ، اور میری کیمیا کیا ہے!

*

نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں

نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے

*

اگر ہوتا وہ مجذوب* فرنگی اس زمانے میں

تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے

*

نواۓ صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا

خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے ، وہ خطا کیا ہے!

***

۵۶

جرمنی کا مشہور مجذوب فلسفی

نطشہ جو اپنے قلبی واردات

کا صحیح اندازہ نہ کر سکا

اوراس لیے اس کے فلسفیانہ

افکار نے اسے غلط راستے پر ڈال دیا

****

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

*

عطار ہو ، رومی ہو ، رازی ہو ، غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

*

نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ!

کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی

*

اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

*

دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولی

ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہی

*

آئین جوانہیں روباہی

****

۵۷

مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا

مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا

تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا

*

ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوب جا تو بھی

کہ اس جنگاہ سے میں بن کے تیغ بے نیام آیا

*

یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر

یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا

*

چل ، اے میری غریبی کا تماشا دیکھنے والے

وہ محفل اٹھ گئی جس دم تو مجھ تک دور جام آیا

*

دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا

یہ اک مرد تن آساں تھا ، تن آسانوں کے کام آیا

*

اسی اقبال کی میں جستجو کرتا رہا برسوں

بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہیں زیر دام آیا

***

۵۸

نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی

نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی

کہ میری زندگی کیا ہے ، یہی طغیان مشتاقی

*

مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے

ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی

*

وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے

طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوۂ ساقی!

*

نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے

کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی

*

دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے

نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی

*

خزاں میں بھی کب آ سکتا تھا میں صیاد کی زد میں

مری غماز تھی شاخ نشیمن کی کم اوراقی

*

الٹ جائیں گی تدبیریں ، بدل جائیں گی تقدیریں

حقیقت ہے ، نہیں میرے تخیل کی یہ خلاقی

***

۵۹

فطرت کو خرد کے روبرو کر

فطرت کو خرد کے روبرو کر

تسخیر مقام رنگ و بو کر

*

تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے

کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر

*

تاروں کی فضا ہے بیکرانہ

تو بھی یہ مقام آرزو کر

*

عریاں ہیں ترے چمن کی حوریں

چاک گل و لالہ کو رفو کر

*

بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت

جو اس سے نہ ہو سکا ، وہ تو کر!

***

۶۰