بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد ۳

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد0%

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 208

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 208
مشاہدے: 63622
ڈاؤنلوڈ: 2590


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 208 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63622 / ڈاؤنلوڈ: 2590
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد 3

مؤلف:
اردو

شبنم اور ستارے

اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے ستارے

ہر صبح نئے تجھ کو میسر ہیں نظارے

*

کیا جانیے ، تو کتنے جہاں دیکھ چکی ہے

جو بن کے مٹے، ان کے نشاں دیکھ چکی ہے

*

زہرہ نے سنی ہے یہ خبر ایک ملک سے

انسانوں کی بستی ہے بہت دور فلک سے

*

کہہ ہم سے بھی اس کشور دلکش کا فسانہ

گاتا ہے قمر جس کی محبت کا ترانہ

*

اے تارو نہ پوچھو چمنستان جہاں کی

گلشن نہیں ، اک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی

*

آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر

بے چاری کلی کھلتی ہے مرجھانے کی خاطر

*

کیا تم سے کہوں کیا چمن افروز کلی ہے

ننھا سا کوئی شعلۂ بے سوز کلی ہے

*

۱۰۱

گل نالۂ بلبل کی صدا سن نہیں سکتا

دامن سے مرے موتیوں کو چن نہیں سکتا

*

ہیں مرغ نوا ریز گرفتار، غضب ہے

اگتے ہیں تہ سایۂ گل خار، غضب ہے

*

رہتی ہے سدا نرگس بیمار کی تر آنکھ

دل طالب نظارہ ہے ، محروم نظر آنکھ

*

دل سوختۂ گرمی فریاد ہے شمشاد

زندانی ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد

*

تارے شرر آہ ہیں انساں کی زباں میں

میں گریۂ گردوں ہوں گلستاں کی زباں میں

*

نادانی ہے یہ گرد زمیں طوف قمر کا

سمجھا ہے کہ درماں ہے وہاں داغ جگر کا

*

بنیاد ہے کاشانۂ عالم کی ہوا پر

فریاد کی تصویر ہے قرطاس فضا پر

***

۱۰۲

محاصرۂ درنہ

یورپ میں جس گھڑی حق و باطل کی چھڑ گئی

حق خنجر آزمائی پہ مجبور ہو گیا

*

گرد صلیب گرد قمر حلقہ زن ہوئی

شکری حصار درنہ میں محصور ہو گیا

*

مسلم سپاہیوں کے ذخیرے ہوئے تمام

روئے امید آنکھ سے مستور ہو گیا

*

آخر امیر عسکر ترکی کے حکم سے

"آئین جنگ" شہر کا دستور ہو گیا

*

ہر شے ہوئی ذخیرۂ لشکر میں منتقل

شاہیں گدائے دانۂ عصفور ہو گیا

*

لیکن فقیہ شہر نے جس دم سنی یہ بات

گرما کے مثل صاعقۂ طور ہو گیا

*

ذمی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام

فتوی تمام شہر میں مشہور ہو گیا

*

چھوتی نہ تھی یہود و نصاریٰ کا مال فوج

مسلم ، خدا کے حکم سے مجبور ہو گیا

***

۱۰۳

غلام قادر رہیلہ

رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا

نکالیں شاہ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے

*

دیا اہل حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے

یہ انداز ستم کچھ کم نہ تھا آثار محشر سے

*

بھلا تعمیل اس فرمان غیرت کش کی ممکن تھی!

شہنشاہی حرم کی نازنینان سمن بر سے

*

بنایا آہ! سامان طرب بیدرد نے ان کو

نہاں تھا حسن جن کا چشم مہر و ماہ و اختر سے

*

لرزتے تھے دل نازک، قدم مجبور جنبش تھے

رواں دریائے خوں ، شہزادیوں کے دیدۂ تر سے

*

یونہی کچھ دیر تک محو نظر آنکھیں رہیں اس کی

کیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بار مغفر سے

*

کمر سے ، اٹھ کے تیغ جاں ستاں ، آتش فشاں کھولی

سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے

*

۱۰۴

رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا

تقاضا کر رہی تھی نیند گویا چشم احمر سے

*

بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے

نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے

*

پھر اٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے

شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے

*

مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلف تھا

کہ غفلت دور سے شان صف آرایان لشکر سے

*

یہ مقصد تھا مرا اس سے ، کوئی تیمور کی بیٹی

مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے

*

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر

حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے

***

۱۰۵

ایک مکالمہ

اک مرغ سرا نے یہ کہا مرغ ہوا سے

پردار اگر تو ہے تو کیا میں نہیں پردار!

*

گر تو ہے ہوا گیر تو ہوں میں بھی ہوا گیر

آزاد اگر تو ہے ، نہیں میں بھی گرفتار

*

پرواز ، خصوصیت ہر صاحب پر ہے

کیوں رہتے ہیں مرغان ہوا مائل پندار؟

*

مجروح حمیت جو ہوئی مرغ ہوا کی

یوں کہنے لگا سن کے یہ گفتار دل آزار

*

کچھ شک نہیں پرواز میں آزاد ہے تو بھی

حد ہے تری پرواز کی لیکن سر دیوار

*

واقف نہیں تو ہمت مرغان ہوا سے

تو خاک نشیمن ، انھیں گردوں سے سروکار

*

تو مرغ سرائی ، خورش از خاک بجوئی

ما در صدد دانہ بہ انجم زدہ منقار

***

۱۰۶

میں اورتو

مذاق دید سے ناآشنا نظر ہے مری

تری نگاہ ہے فطرت کی راز داں، پھر کیا

*

رہین شکوۂ ایام ہے زبان مری

تری مراد پہ ہے دور آسماں، پھر کیا

*

رکھا مجھے چمن آوارہ مثل موج نسیم

عطا فلک نے کیا تجھ کو آشیاں، پھر کیا

*

فزوں ہے سود سے سرمایۂ حیات ترا

مرے نصیب میں ہے کاوش زیاں، پھر کیا

*

ہوا میں تیرتے پھرتے ہیں تیرے طیارے

مرا جہاز ہے محروم بادباں، پھر کیا

*

قوی شدیم چہ شد، ناتواں شدیم چہ شد

چنیں شدیم چہ شد یا چناں شدیم چہ شد

*

بہیچ گونہ دریں گلستاں قرارے نیست

توگر بہار شدی، ما خزاں شدیم، چہ شد

***

۱۰۷

تضمین بر شعر ابوطالب کلیم

خوب ہے تجھ کو شعار صاحب یثرب کا پاس

کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں

*

جس سے تیرے حلقۂ خاتم میں گردوں تھا اسیر

اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں

*

وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح

ہو گئی ہے اس سے اب ناآشنا تیری جبیں

*

دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا

وہ صداقت جس کی بے باکی تھی حیرت آفریں

*

تیرے آبا کی نگہ بجلی تھی جس کے واسطے

ہے وہی باطل ترے کاشانۂ دل میں مکیں

*

غافل! اپنے آشیاں کو آ کے پھر آباد کر

نغمہ زن ہے طور معنی پر کلیم نکتہ بیں

*

""سرکشی باہر کہ کردی رام او باید شدن،

شعلہ ساں از ہر کجا برخاستی ، آنجا نشیں‘‘

***

۱۰۸

شبلی و حالی

مسلم سے ایک روز یہ اقبال نے کہا

دیوان جزو و کل میں ہے تیرا وجود فرد

*

تیرے سرود رفتہ کے نغمے علوم نو

تہذیب تیرے قافلہ ہائے کہن کی گرد

*

پتھر ہے اس کے واسطے موج نسیم بھی

نازک بہت ہے آئنۂ آبروئے مرد

*

مردان کار، ڈھونڈ کے اسباب حادثات

کرتے ہیں چارۂ ستم چرخ لاجورد

*

پوچھ ان سے جو چمن کے ہیں دیرینہ راز دار

کیونکر ہوئی خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد

*

مسلم مرے کلام سے بے تاب ہو گیا

غماز ہو گئی غم پنہاں کی آہ سرد

*

کہنے لگا کہ دیکھ تو کیفیت خزاں

اوراق ہو گئے شجر زندگی کے زرد

*

۱۰۹

خاموش ہو گئے چمنستاں کے راز دار

سرمایۂ گداز تھی جن کی نوائے درد

*

شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں

حالی بھی ہو گیا سوئے فردوس رہ نورد

*

""اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں

بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد""

***

۱۱۰

ارتقا

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی

*

حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز

سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی

*

سکوت شام سے تا نغمۂ سحر گاہی

ہزار مرحلہ ہائے فغانِ نیم شبی

*

کشا کش زم و گرما، تپ و تراش و خراش

ز خاک تیرہ دروں تا بہ شیشۂ حلبی

*

مقام بست و شکت و فشار و سوز و کشید

میان قطرۂ نیسان و آتش عنبی

*

اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام

یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی

*

""مغاں کہ دانۂ انگور آب می سازند

ستارہ می شکنند، آفتاب می سازند""

***

۱۱۱

صدیق

اک دن رسول پاک نے اصحاب سے کہا

دیں مال راہ حق میں جو ہوں تم میں مالدار

*

ارشاد سن کے فرط طرب سے عمر اٹھے

اس روز ان کے پاس تھے درہم کئی ہزار

*

دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ صدیق سے ضرور

بڑھ کر رکھے گا آج قدم میرا راہوار

*

لائے غرضکہ مال رسول امیں کے پاس

ایثار کی ہے دست نگر ابتدائے کار

*

پوچھا حضور سرور عالم نے ، اے عمر!

اے وہ کہ جوش حق سے ترے دل کو ہے قرار

*

رکھا ہے کچھ عیال کی خاطر بھی تو نے کیا؟

مسلم ہے اپنے خویش و اقارب کا حق گزار

*

کی عرض نصف مال ہے فرزند و زن کا حق

باقی جو ہے وہ ملت بیضا پہ ہے نثار

*

۱۱۲

اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آگیا

جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار

*

لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت

ہر چیز ، جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار

*

ملک یمین و درہم و دینار و رخت و جنس

اسپ قمر سم و شتر و قاطر و حمار

*

بولے حضور، چاہیے فکر عیال بھی

کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار

*

اے تجھ سے دیدۂ مہ و انجم فروغ گیر!

اے تیری ذات باعث تکوین روزگار!

*

پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس

صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

***

۱۱۳

تہذیب حاضر

تضمین,برشعرفیضی

حرارت ہے بلا کی بادۂ تہذیب حاضر میں

بھڑک اٹھّا بھبوکا بن کے مسلم کا تن خاکی

*

کیا ذرے کو جگنو دے کے تاب مستعار اس نے

کوئی دیکھے تو شوخی آفتاب جلوہ فرما کی

*

نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے

یہ رعنائی ، یہ بیداری ، یہ آزادی ، یہ بے باکی

*

تغیر آگیا ایسا تدبر میں، تخیل میں

ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی

*

کیا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن

مناظر دلکشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی

*

حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا

رقابت ، خود فروشی ، ناشکیبائی ، ہوسناکی

*

۱۱۴

فروغ شمع نو سے بزم مسلم جگمگا اٹھی

مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ ادراکی

*

""تو اے پروانہ ! ایں گرمی ز شمع محفلے داری

چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری""

***

۱۱۵

والدہ مرحومہ کی یاد میں

ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے

پردۂ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے

*

آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں

انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں

*

ہے شکت انجام غنچے کا سبو گلزار میں

سبزہ و گل بھی ہیں مجبور نمو گلزار میں

*

نغمۂ بلبل ہو یا آواز خاموش ضمیر

ہے اسی زنجیر عالم گیر میں ہر شے اسیر

*

آنکھ پر ہوتا ہے جب یہ سر مجبوری عیاں

خشک ہو جاتا ہے دل میں اشک کا سیل رواں

*

قلب انسانی میں رقص عیش و غم رہتا نہیں

نغمہ رہ جاتا ہے ، لطف زیر و بم رہتا نہیں

*

علم و حکمت رہزن سامان اشک و آہ ہے

یعنی اک الماس کا ٹکڑا دل آگاہ ہے

*

۱۱۶

گرچہ میرے باغ میں شبنم کی شادابی نہیں

آنکھ میری مایہ دار اشک عنابی نہیں

*

جانتا ہوں آہ ، میں آلام انسانی کا راز

ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز

*

میرے لب پر قصۂ نیرنگی دوراں نہیں

دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں، گریاں نہیں

*

پر تری تصویر قاصد گریۂ پیہم کی ہے

آہ! یہ تردید میری حکمت محکم کی ہے

*

گریۂ سرشار سے بنیاد جاں پائندہ ہے

درد کے عرفاں سے عقل سنگدل شرمندہ ہے

*

موج دود آہ سے آئینہ ہے روشن مرا

گنج آب آورد سے معمور ہے دامن مرا

*

حیرتی ہوں میں تری تصویر کے اعجاز کا

رخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کی پرواز کا

*

رفتہ و حاضر کو گویا پا بپا اس نے کیا

عہد طفلی سے مجھے پھر آشنا اس نے کیا

*

۱۱۷

جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جان ناتواں

بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں

*

اور اب چرچے ہیں جس کی شوخی گفتار کے

بے بہا موتی ہیں جس کی چشم گوہر بار کے

*

علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور

دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور

*

زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم

صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم

*

بے تکلف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں

پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں

*

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار

کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار

*

خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا

اب دعائے نیم شب میں کس کو یاد میں آؤں گا!

*

تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا

گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا

*

۱۱۸

دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات

تھی سراپا دیں و دنیا کا سبق تیری حیات

*

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی

میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی

*

وہ جواں، قامت میں ہے جو صورت سرو بلند

تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند

*

کاروبار زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا

وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا

*

تجھ کو مثل طفلک بے دست و پا روتا ہے وہ

صبر سے ناآشنا صبح و مسا روتا ہے وہ

*

تخم جس کا تو ہماری کشت جاں میں بو گئی

شرکت غم سے وہ الفت اور محکم ہو گئی

*

آہ! یہ دنیا ، یہ ماتم خانۂ برنا و پیر

آدمی ہے کس طلسم دوش و فردا میں اسیر!

*

کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت

گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت

*

۱۱۹

زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں

کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں!

*

کلبۂ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت

دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت

*

موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں

ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں

*

نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے

زندگانی کیا ہے ، اک طوق گلو افشار ہے!

*

قافلے میں غیر فریاد درا کچھ بھی نہیں

اک متاع دیدۂ تر کے سوا کچھ بھی نہیں

*

ختم ہو جائے گا لیکن امتحاں کا دور بھی

ہیں پس نہ پردۂ گردوں ابھی اور بھی

*

سینہ چاک اس گلستاں میں لالہ و گل ہیں تو کیا

نالہ و فریاد پر مجبور بلبل ہیں تو کیا

*

جھاڑیاں، جن کے قفس میں قید ہے آہ خزاں

سبز کر دے گی انھیں باد بہار جاوداں

*

۱۲۰