بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد ۳

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد0%

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 208

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 208
مشاہدے: 63734
ڈاؤنلوڈ: 2601


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 208 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63734 / ڈاؤنلوڈ: 2601
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد 3

مؤلف:
اردو

دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

*

مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق

طب مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری

*

گرمی گفتار اعضائے مجالس، الاماں!

یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زر گری

*

اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو

آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

***

۱۶۱

سرمایہ.ومحنت

بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے

خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات

*

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر

شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

*

دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی

اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات

*

ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش

اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات

*

نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ

خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات

*

کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے

سکرکی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات

*

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

*

۱۶۲

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

*

ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول

غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک

*

نغمۂ بیداری جمہور ہے سامان عیش

قصۂ خواب آور اسکندر و جم کب تلک

*

آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا

آسمان! ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک

*

توڑ ڈالیں فطرت انساں نے زنجیریں تمام

دوری جنت سے روتی چشم آدم کب تلک

*

باغبان چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار

زخم گل کے واسطے تدبیر مرہم کب تلک

*

کرمک ناداں! طواف شمع سے آزاد ہو

اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو

***

۱۶۳

دنیائے اسلام

کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں

مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز

*

لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل

خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز

*

ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ

جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبور نیاز

*

لے رہا ہے مے فروشان فرنگستاں سے پارس

وہ مۂ سرکش حرارت جس کی ہے مینا گداز

*

حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی

ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز

*

ہوگیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو

مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز

*

گفت رومی ""ہر بناۓ کہنہ کآباداں کنند""

می ندانی ""اول آں بنیاد را ویراں کنند""

*

۱۶۴

""ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں""

حق ترا چشمے عطا کردست غافل در نگر

*

مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست

مور بے پر! حاجتے پیش سلیمانے مبر

*

ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات

ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر

*

پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو

ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر

*

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر

*

جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں ، مٹ جائے گا

ترک خر گاہی ہو یا اعرابی والا گہر

*

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی

اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر

*

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استور

لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

*

۱۶۵

اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش

اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش

*

عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی

اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ

*

تو نے دیکھا سطوت رفتار دریا کا عروج

موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ

*

عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے

اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ

*

اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود

مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر، دیکھ

*

کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں

آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

*

آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس

سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ

*

مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار

ہر زماں پیش نظر، "لایخلف المیعاد" دار

***

۱۶۶

طلوع اسلام

دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی

افق سے آفتاب ابھرا ،گیا دور گراں خوابی

*

عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا

سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی

*

مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے

تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

*

عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے

شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی

*

اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل!

""نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی""

*

تڑپ صحن چمن میں، آشیاں میں ، شاخساروں میں

جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی

*

وہ چشم پاک بیں کیوں زینت برگستواں دیکھے

نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی

*

۱۶۷

ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے

چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے

*

سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا

خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا

*

کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے

یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

*

ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را

صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا

*

اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

*

جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی

جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

*

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

*

نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے

کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

*

۱۶۸

ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے

مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے

*

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے

یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

*

پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے

*

مکاں فانی ، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا

خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے

*

حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا

تری نسبت براہیمی ہے، معمار جہاں تو ہے

*

تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی

جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے

*

جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر

نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے

*

یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا

کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے

*

۱۶۹

سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

*

یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی

اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی

*

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا

نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی

*

میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک!

ترے بازو میں ہے پرواز شاہین قہستانی

*

گمان آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا

بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی

*

مٹایا قیصر و کسری کے استبداد کو جس نے

وہ کیا تھا، زور حیدر، فقر بو ذر، صدق سلمانی

*

ہوئے احرار ملت جادہ پیما کس تجمل سے

تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانی

*

ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں

کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی

*

۱۷۰

جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا

تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا

*

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

*

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

*

ولایت ، پادشاہی ، علم اشیا کی جہاں گیری

یہ سب کیا ہیں، فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں

*

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

*

تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے

حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

*

حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نوری ہو

لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں

*

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

*

۱۷۱

چہ باید مرد را طبع بلندے ، مشرب نابے

دل گرمے ، نگاہ پاک بینے ، جان بیتابے

*

عقابی شان سے جھپٹے تھے جو ، بے بال و پر نکلے

ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے

*

ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے

طمانچے موج کے کھاتے تھے ، جو ، بن کر گہر نکلے

*

غبار رہ گزر ہیں، کیمیا پر ناز تھا جن کو

جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو، اکسیر گر نکلے

*

ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا

خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے

*

حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے

جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے

*

زمیں سے نور بان آسماں پرواز کہتے تھے

یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے

*

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں

ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے

*

۱۷۲

یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملت ہے

یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے

*

تو راز کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا

خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا

*

ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو

اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا

*

یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی

تو اے شرمندۂ ساحل! اچھل کر بے کراں ہو جا

*

غبار آلودۂ رنگ ونسب ہیں بال و پر تیرے

تو اے مرغ حرم! اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا

*

خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سر زندگانی ہے

نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا

*

مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر

شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا

*

گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے

گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا

*

۱۷۳

ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی

نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی

*

ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے

قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے

*

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

*

وہ حکمت ناز تھا جس پر خرو مندان مغرب کو

ہوس کے پنچۂ خونیں میں تیغ کار زاری ہے

*

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا

جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے

*

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

*

خروش آموز بلبل ہو ، گرہ غنچے کی وا کر دے

کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاری ہے

*

پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی

زمیں جولاں گہ اطلس قبایان تتاری ہے

*

۱۷۴

بیا پیدا خریدارست جان ناتوانے را

""پس از مدت گذار افتاد بر ما کاروانے ر""

*

بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد

بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد

*

کشید ابر بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا

صداۓ آبشاراں از فراز کوہسار آمد

*

سرت گردم تو ہم قانون پیشیں سازدہ ساقی

کہ خیل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد

*

کنار از زاہداں برگیروبے باکانہ ساغر کش

پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد

*

بہ مشتاقاں حدیث خواجہ بدر و حنین آور

تصرف ہاے پنہانش بچشمم آشکار آمد

*

دگر شاخ خلیل از خون ما نم ناک می گرد

بیا زار محبت نقد ما کامل عیار آمد

*

سر خاک شہیدے برگہاے لالہ می پاشم

کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد

*

۱۷۵

""بیا تا گل بیفشانیم و مے در ساغر اندازیم

فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم""

*

۱۷۶

غزلیات

اے باد صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا

اے باد صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا

قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی

*

یہ موج پریشاں خاطر کو پیغام لب ساحل نے دیا

ہے دور وصال بحر بھی، تو دریا میں گھبرا بھی گئی!

*

عزت ہے محبت کی قائم اے قیس! حجاب محمل سے

محمل جو گیا عزت بھی گئی، غیرت بھی گئی لیلا بھی گئی

*

کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی ملی

آوارگی فطرت بھی گئی اور کشمکش دریا بھی گئی

*

نکلی تو لب اقبال سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا

پیغام سکوں پہنچا بھی گئی ، دل محفل کا تڑپا بھی گئی

***

۱۷۷

یہ سرود قمری و بلبل فریب گوش ہے

یہ سرود قمری و بلبل فریب گوش ہے

باطن ہنگامہ آباد چمن خاموش ہے

*

تیرے پیمانوں کا ہے یہ اے مۓ مغرب اثر

خندہ زن ساقی ہے، ساری انجمن بے ہوش ہے

*

دہر کے غم خانے میں تیرا پتا ملتا نہیں

جرم تھا کیا آفرینش بھی کہ تو روپوش ہے

*

آہ! دنیا دل سمجھتی ہے جسے، وہ دل نہیں

پہلوئے انساں میں اک ہنگامۂ خاموش ہے

*

زندگی کی رہ میں چل، لیکن ذرا بچ بچ کے چل

یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ بار دوش ہے

*

جس کے دم سے دلی و لاہور ہم پہلو ہوئے

آہ، اے اقبال وہ بلبل بھی اب خاموش ہے

***

۱۷۸

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی

اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

*

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل

عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی

*

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

*

عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گام عمل

عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی

*

شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی

تو ہے زناری بت خانۂ ایام ابھی

*

عذر پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی

ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی

*

سعی پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات

تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی

*

ابر نیساں! یہ تنک بخشی شبنم کب تک

مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی

*

۱۷۹

بادہ گردان عجم وہ ، عربی میری شراب

مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی

*

خبر اقبال کی لائی ہے گلستاں سے نسیم

نو گرفتار پھڑکتا ہے تہ دام ابھی

***

۱۸۰