بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد ۳

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد0%

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 208

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 208
مشاہدے: 63564
ڈاؤنلوڈ: 2590


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 208 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63564 / ڈاؤنلوڈ: 2590
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد 3

مؤلف:
اردو

پردہ چہرے سے اٹھا ، انجمن آرائی کر

پردہ چہرے سے اٹھا ، انجمن آرائی کر

چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر

*

تو جو بجلی ہے تو یہ چشمک پنہاں کب تک

بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر

*

نفس گرم کی تاثیر ہے اعجاز حیات

تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر

*

کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثل کلیم

اپنی ہستی سے عیاں شعلۂ سینائی کر

*

ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیر حرم

دل کو بیگانۂ انداز کلیسائی کر

*

اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا

ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر

*

پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے

پھر جہاں میں ہوس شوکت دارائی کر

*

مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلی اقبال!

کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر

***

۱۸۱

پھر باد بہار آئی ، اقبال غزل خواں ہو

پھر باد بہار آئی ، اقبال غزل خواں ہو

غنچہ ہے اگر گل ہو ، گل ہے تو گلستاں ہو

*

تو خاک کی مٹھی ہے ، اجزا کی حرارت سے

برہم ہو، پریشاں ہو ، وسعت میں بیاباں ہو

*

تو جنس محبت ہے ، قیمت ہے گراں تیری

کم مایہ ہیں سوداگر ، اس دیس میں ارزاں ہو

*

کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لے تیری

تو نغمۂ رنگیں ہے ، ہر گوش پہ عریاں ہو

*

اے رہرو فرزانہ! رستے میں اگر تیرے

گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو

*

ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی

مقصد ہے اگر منزل ، غارت گر ساماں ہو

***

۱۸۲

کبھی اے حقیقت منتظر نظر لباس مجاز میں

کبھی اے حقیقت منتظر نظر لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

*

طرب آشنائے خروش ہو، تو نوا ہے محرم گوش ہو

وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں

*

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئنہ

کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں

*

دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثرِ کہن

نہ تری حکایت سوز میں، نہ مری حدیث گداز میں

*

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی

مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں

*

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں

نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

*

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں

***

۱۸۳

تہ دام بھی غزل آشنا رہے طائران چمن تو کیا

تہ دام بھی غزل آشنا رہے طائران چمن تو کیا

جو فغاں دلوں میں تڑپ رہی تھی، نوائے زیر لبی رہی

*

ترا جلوہ کچھ بھی تسلی دل ناصبور نہ کر سکا

وہی گریۂ سحری رہا ، وہی آہ نیم شبی رہی

*

نہ خدا رہا نہ صنم رہے ، نہ رقیب دیر حرم رہے

نہ رہی کہیں اسد اللہی، نہ کہیں ابولہبی رہی

*

مرا ساز اگرچہ ستم رسیدۂ زخمہ ہائے عجم رہا

وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی

***

۱۸۴

گرچہ تو زندانیِ اسباب ہے

گرچہ تو زندانیِ اسباب ہے

قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ

*

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں

عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

*

اے مسلماں! ہر گھڑی پیش نظر

آیۂ "لا یخلف المیعاد" رکھ

*

یہ "لسان العصر" کا پیغام ہے

""ان وعد اللہ حق"" یاد رکھ

*

۱۸۵

ظر یفانہ

مشرق میں اصول دین بن جاتے ہیں

مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں

*

رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلے

واں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں

***

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی

ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ

*

روش مغربی ہے مد نظر

وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ

*

یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

***

۱۸۶

شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں

شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں

مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بد ظن ہو گئے

*

وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف

""پروہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے""

*

یہ کوئی دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند!

یہ کوئی دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند!

*

غیرت نہ تجھ میں ہو گی، نہ زن اوٹ چاہے گی

آتا ہے اب وہ دور کہ اولاد کے عوض

*

کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی

***

۱۸۷

تعلیم مغربی ہے بہت جرأت آفریں

پہلا سبق ہے، بیٹھ کے کالج میں مار ڈینگ

*

بستے ہیں ہند میں جو خریدار ہی فقط

آغا بھی لے کے آتے ہیں اپنے وطن سے ہینگ

*

میرا یہ حال، لوٹ کی ٹو چاٹتا ہوں میں

ان کا یہ حکم، دیکھ! مرے فرش پر نہ رینگ

*

کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدا سا جانور

اچھی ہے گائے، رکھتی ہے کیا نوک دار سینگ

***

کچھ غم نہیں جو حضرت واعظ ہیں تنگ دست

تہذیب نو کے سامنے سر اپنا خم کریں

*

رد جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا

تردید حج میں کوئی رسالہ رقم کریں

***

۱۸۸

تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ!

دفع مرض کے واسطے پل پیش کیجیے

*

تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض

دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے

*

بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق

کہتا ہے ماسٹر سے کہ ""بل پیش کیجیے!""

***

انتہا بھی اس کی ہے؟ آخر خریدیں کب تلک

چھتریاں، رومال، مفلر، پیرہن جاپان سے

*

اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی

آئیں گے غسال کابل سے ،کفن جاپان سے

***

۱۸۹

ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے

واں کنڑ سب بلوری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے

*

اس دور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں! باقی وہ رہ جائے گا

جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے

*

اے شیخ و برہمن، سنتے ہو! کیا اہل بصیرت کہتے ہیں

گردوں نے کتنی بلندی سے ان قوموں کو دے پٹکا ہے

*

یا باہم پیار کے جلسے تھے ، دستور محبت قائم تھا

یا بحث میں اردو ہندی ہے یا قربانی یا جھٹکا ہے

***

""اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے""

غالب کا قول سچ ہے تو پھر ذکر غیر کیا

*

کیوں اے جناب شیخ! سنا آپ نے بھی کچھ

کہتے تھے کعبے والوں سے کل اہل دیر کیا

*

ہم پوچھتے ہیں مسلم عاشق مزاج سے

الفت بتوں سے ہے تو برہمن سے بیر کیا!

***

۱۹۰

ہاتھوں سے اپنے دامن دنیا نکل گیا

رخصت ہوا دلوں سے خیال معاد بھی

*

قانونِ وقف کے لیے لڑتے تھے شیخ جی

پوچھو تو، وقف کے لیے ہے جائداد بھی!

***

وہ مس بولی ارادہ خودکشی کا جب کیا میں نے

مہذب ہے تو اے عاشق! قدم باہر نہ دھر حد سے

*

نہ جرأت ہے ، نہ خنجر ہے تو قصد خودکشی کیسا

یہ مانا درد ناکامی گیا تیرا گزر حد سے

*

کہا میں نے کہ اے جاں جہاں کچھ نقد دلوا دو

کرائے پر منگا لوں گا کوئی افغان سرحد سے

***

ناداں تھے اس قدر کہ نہ جانی عرب کی قدر

حاصل ہوا یہی، نہ بچے مار پیٹ سے

*

مغرب میں ہے جہاز بیاباں شتر کا نام

ترکوں نے کام کچھ نہ لیا اس فلیٹ سے

***

۱۹۱

ہندوستاں میں جزو حکومت ہیں کونسلیں

آغاز ہے ہمارے سیاسی کمال کا

*

ہم تو فقیر تھے ہی، ہمارا تو کام تھا

سیکھیں سلیقہ اب امرا بھی "سوال" کا

***

ممبری امپیریل کونسل کی کچھ مشکل نہیں

ووٹ تو مل جائیں گے ، پیسے بھی دلوائیں گے کیا؟

*

میرزا غالب خدا بخشے ، بجا فرما گئے

""ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟""

***

۱۹۲

دلیل مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہوگی

نہ ہو حضور سے الفت تو یہ ستم نہ سہیں

*

مصر ہے حلقہ ،کمیٹی میں کچھ کہیں ہم بھی

مگر رضائے کلکٹر کو بھانپ لیں تو کہیں

*

سند تو لیجیے ، لڑکوں کے کام آئے گی

وہ مہربان ہیں اب، پھر رہیں، رہیں نہ رہیں

*

زمین پر تو نہیں ہندیوں کو جا ملتی

مگر جہاں میں ہیں خالی سمندروں کی تہیں

*

مثال کشتی بے حس مطیع فرماں ہیں

کہو تو بستۂ ساحل رہیں ، کہو تو بہیں

***

۱۹۳

فرما رہے تھے شیخ طریق عمل پہ وعظ

کفار ہند کے ہیں تجارت میں سخت کوش

*

مشرک ہیں وہ جو رکھتے ہیں مشرک سے لین دین

لیکن ہماری قوم ہے محروم عقل و ہوش

*

ناپاک چیز ہوتی ہے کافر کے ہاتھ کی

سن لے، اگر ہے گوش مسلماں کا حق نیوش

*

اک بادہ کش بھی وعظ کی محفل میں تھا شریک

جس کے لیے نصیحت واعظ تھی بار گوش

*

کہنے لگا ستم ہے کہ ایسے قیود کی

پابند ہو تجارت سامان خورد و نوش

*

میں نے کہا کہ آپ کو مشکل نہیں کوئی

ہندوستاں میں ہیں کلمہ گو بھی مے فروش

***

۱۹۴

دیکھے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک

شیشۂ دیں کے عوض جام و سبو لیتا ہے

*

ہے مداوائے جنون نشتر تعلیم جدید

میرا سرجن رگ ملت سے لہو لیتا ہے

*

گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرم سخن

گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرم سخن

***

۱۹۵

نہیں اک حال پہ دنیا میں کسی شے کو قرار

میں تو بد نام ہوئی توڑ کے رسی اپنی

سنتی ہوں آپ نے بھی توڑ کے رکھ دی ہے مہار

*

ہند میں آپ تو از روئے سیاست ہیں اہم

ریل چلنے سے مگر دشت عرب میں بیکار

*

کل تلک آپ کو تھا گائے کی محفل سے حذر

تھی لٹکتے ہوئے ہونٹوں پہ صدائے زنہار

*

آج یہ کیا ہے کہ ہم پر ہے عنایت اتنی

نہ رہا آئنۂ دل میں وہ دیرینہ غبار

*

جب یہ تقریر سنی اونٹ نے، شرما کے کہا

ہے ترے چاہنے والوں میں ہمارا بھی شمار

*

رشک صد غمزۂ اشتر ہے تری ایک کلیل

ہم تو ہیں ایسی کلیلوں کے پرانے بیمار

*

ترے ہنگاموں کی تاثیر یہ پھیلی بن میں

بے زبانوں میں بھی پیدا ہے مذاق گفتار

*

۱۹۶

ایک ہی بن میں ہے مدت سے بسیرا اپنا

گرچہ کچھ پاس نہیں، چارا بھی کھاتے ہیں ادھار

*

گوسفند و شتر و گاو و پلنگ و خر لنگ

ایک ہی رنگ میں رنگیں ہوں تو ہے اپنا وقار

*

باغباں ہو سبق آموز جو یکرنگی کا

ہمزباں ہو کے رہیں کیوں نہ طیور گلزار

*

دے وہی جام ہمیں بھی کہ مناسب ہے یہی

تو بھی سرشار ہو، تیرے رفقا بھی سرشار

*

""دلق حافظ بچہ ارزد بہ میش رنگیں کن

وانگہش مست و خراب از رہ بازار بیار""

***

۱۹۷

رات مچھر نے کہہ دیا مجھ سے

ماجرا اپنی نا تمامی کا

*

مجھ کو دیتے ہیں ایک بوند لہو

صلہ شب بھر کی تشنہ کامی کا

*

اور یہ بسوہ دار، بے زحمت

پی گیا سب لہو اسامی کا

***

یہ آیۂ نو ، جیل سے نازل ہوئی مجھ پر

گیتا میں ہے قرآن تو قرآن میں گیتا

*

کیا خوب ہوئی آشتی شیخ و برہمن

اس جنگ میں آخر نہ یہ ہارا نہ وہ جیتا

*

مندر سے تو بیزار تھا پہلے ہی سے "بدری"

مسجد سے نکلتا نہیں، ضدی ہے مسیت"

***

۱۹۸

جان جائے ہاتھ سے جائے نہ ست

ہے یہی اک بات ہر مذہب کا تت

*

چٹّے بٹّے ایک ہی تھیلی کے ہیں

ساہو کاری، بسوہ داری، سلطنت

***

محنت و سرمایہ دنیا میں صف آرا ہو گئے

دیکھے ہوتا ہے کس کس کی تمناؤں کا خون

*

حکمت و تدبیر سے یہ فتنۂ آشوب خیز

ٹل نہیں سکتا ، وقد کنتم بہ تستعجلون،

*

"کھل گئے، یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام

چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف "ینسلون"

***

۱۹۹

شام کی سرحد سے رخصت ہے وہ رند لم یزل

رکھ کے میخانے کے سارے قاعدے بالائے طاق

*

یہ اگر سچ ہے تو ہے کس درجہ عبرت کا مقام

رنگ اک پل میں بدل جاتا ہے یہ نیلی رواق

*

حضرت کرزن کو اب فکر مداوا ہے ضرور

حکم برداری کے معدے میں ہے درد لایطاق

*

وفد ہندستاں سے کرتے ہیں سرآغا خاں طلب

کیا یہ چورن ہے پۓ ہضم فلسطین و عراق؟

***

تکرار تھی مزارع و مالک میں ایک روز

دونوں یہ کہہ رہے تھے، مرا مال ہے زمیں

*

کہتا تھا وہ، کرے جو زراعت اسی کا کھیت

کہتا تھا یہ کہ عقل ٹھکانے تری نہیں

*

پوچھا زمیں سے میں نے کہ ہے کس کا مال تو

بولی مجھے تو ہے فقط اس بات کا یقیں

*

مالک ہے یا مزارع شوریدہ حال ہے

جو زیر آسماں ہے ، وہ دھرتی کا مال ہے

***

۲۰۰