بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد ۳

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد0%

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 208

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 208
مشاہدے: 63561
ڈاؤنلوڈ: 2590


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 208 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63561 / ڈاؤنلوڈ: 2590
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد 3

مؤلف:
اردو

پھول کا تحفہ عطا ہونے پر

وہ مست ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے

کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے

*

""الہی! پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے

کلی سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے""

*

تجھے وہ شاخ سے توڑیں! زہے نصیب ترے

تڑپتے رہ گئے گلزار میں رقیب ترے

*

اٹھا کے صدمۂ فرقت وصال تک پہنچا

تری حیات کا جوہر کمال تک پہنچا

*

مرا کنول کہ تصدق ہیں جس پہ اہل نظر

مرے شباب کے گلشن کو ناز ہے جس پر

*

کبھی یہ پھول ہم آغوش مدعا نہ ہوا

کسی کے دامن رنگیں سے آشنا نہ ہوا

*

شگفتہ کر نہ سکے گی کبھی بہار اسے

فسردہ رکھتا ہے گلچیں کا انتظار اسے

***

۲۱

ترانۂ ملی

چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

*

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

*

دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا

*

تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں

خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا

*

مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری

تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا

*

باطل سے دنبے والے اے آسماں نہیں ہم

سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

*

اے گلستان اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو

تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا

*

اے موج دجلہ! تو بھی پہچانتی ہے ہم کو

اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا

*

۲۲

اے ارض پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم

ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا

*

سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا

اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا

*

اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

***

۲۳

(یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے)

وطنیت

اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور

ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور

تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

*

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے

غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے

*

نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے

اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے !

*

ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی

رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی

ہے ترک وطن سنت محبوب الہی

دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی

*

۲۴

گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے

ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

*

اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے

تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے

قومیت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے

***

۲۵

ایک حاجی مدینے کے راستے میں

قافلہ لوٹا گیا صحرا میں اور منزل ہے دور

اس بیاباں یعنی بحر خشک کا ساحل ہے دور

*

ہم سفر میرے شکار دشنۂ رہزن ہوئے

بچ گئے جو ، ہو کے بے دل سوئے بیت اللہ پھرے

*

اس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی !

موت کے زہراب میں پائی ہے اس نے زندگی

*

خنجر رہزن اسے گویا ہلال عید تھا

"ہائے یثرب" دل میں ، لب پر نعرۂ توحید تھا

*

خوف کہتا ہے کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل

شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے ، بے باکانہ چل

*

بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جاؤں گا کیا

عاشقوں کو روز محشر منہ نہ دکھلاؤں گا کیا

*

خوف جاں رکھتا نہیں کچھ دشت پیمائے حجاز

ہجرت مدفون یثرب میں یہی مخفی ہے راز

*

۲۶

گو سلامت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے

عشق کی لذت مگر خطروں کے جاں کاہی میں ہے

*

آہ! یہ عقل زیاں اندیش کیا چالاک ہے

اور تاثر آدمی کا کس قدر بے باک ہے

***

۲۷

قطعہ

کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبی پہ رو رو کے کہہ رہا تھا

کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں

*

یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے

ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں

*

غضب ہیں یہ "مرشدان خود بیں خدا تری قوم کو بچائے!

بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں

*

سنے گا اقبال کون ان کو ، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے

نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں !

***

۲۸

شکوہ

کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں

فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

*

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

*

جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو

شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو

*

ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم

قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

*

ساز خاموش ہیں ، فریاد سے معمور ہیں ہم

نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

*

اے خدا! شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے

*

تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم

پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم

*

۲۹

شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم

بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم

*

ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی

ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟

*

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر

کہیں مسجود تھے پتھر ، کہیں معبود شجر

*

خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر

مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر

*

تجھ کو معلوم ہے ، لیتا تھا کوئی نام ترا؟

قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا

*

بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، تورانی بھی

اہل چیں چین میں ، ایران میں ساسانی بھی

*

اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی

اسی دنیا میں یہودی بھی تھے ، نصرانی بھی

*

پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے

بات جو بگڑی ہوئی تھی ، وہ بنائی کس نے

*

۳۰

تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں

خشکیوں میں کبھی لڑتے ، کبھی دریاؤں میں

*

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

*

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی

کلمہ جب پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

*

ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کے مصیبت کے لیے

اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے

*

تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے

سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟

*

قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی

بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی!

*

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے

پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

*

تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے

تیغ کیا چیز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

*

۳۱

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے

زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

*

تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے

شہر قیصر کا جو تھا ، اس کو کیا سر کس نے

*

توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے

کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے

*

کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟

کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟

*

کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی

اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی

*

کس کی شمشیر جہاں گیر ، جہاں دار ہوئی

کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی

*

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے

منہ کے بل گر کے "ھو اللہ احد" کہتے تھے

*

آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز

قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز

*

۳۲

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

*

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

*

محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے

مے توحید کو لے کر صفت جام پھرے

*

کوہ میں ، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے

اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھی ناکام پھرے!

*

دشت تو دشت ہیں ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

*

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے

نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے

*

تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے

تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

*

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

ہم وفادار نہیں ، تو بھی تو دلدار نہیں!

*

۳۳

امتیں اور بھی ہیں ، ان میں گنہ گار بھی ہیں

عجز والے بھی ہیں ، مست مۓ پندار بھی ہیں

*

ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں

سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں

*

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

*

بت صنم خانوں میں کہتے ہیں ، مسلمان گئے

ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

*

منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے

اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے

*

خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہیں

اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں

*

یہ شکایت نہیں ، ہیں ان کے خزانے معمور

نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور

*

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور

اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور

*

۳۴

اب وہ الطاف نہیں ، ہم پہ عنایات نہیں

بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں

*

کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب

تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب

*

تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب

رہرو دشت ہو سیلی زدۂ موج سراب

*

طعن اغیار ہے ، رسوائی ہے ، ناداری ہے

کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟

*

بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا

رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا

*

ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالی دنیا

پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا

*

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے

کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے ، جام رہے!

*

تیری محفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی گئے

شب کے آہیں بھی گئیں ، صبح کے نالے بھی گئے

*

۳۵

دل تجھے دے بھی گئے ، اپنا صلا لے بھی گئے

آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

*

آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

*

درد لیلی بھی وہی ، قیس کا پہلو بھی وہی

نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی

*

عشق کا دل بھی وہی ، حسن کا جادو بھی وہی

امت احمد مرسل بھی وہی ، تو بھی وہی

*

پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی

اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی

*

تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا؟

بت گری پیشہ کیا ، بت شکنی کو چھوڑا؟

*

عشق کو ، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟

رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟

*

آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں

زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں

*

۳۶

عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی

جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی

*

مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی

اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی

*

کبھی ہم سے ، کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے !

*

سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے

اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے

*

آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے

پھونک دی گرمی رخسار سے محفل تو نے

*

آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں

ہم وہی سوختہ ساماں ہیں ، تجھے یاد نہیں؟

*

وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا

قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا

*

حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا

گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا

*

۳۷

اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی

بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی

*

بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے

سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے

*

دور ہنگامۂ گلزار سے یک سو بیٹھے

تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر "ھو" بیٹھے

*

اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے

برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے

*

قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز

لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز

*

مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز

تو ذرا چھیڑ تو دے، تشنۂ مضراب ہے ساز

*

نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے

طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے

*

مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے

مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے

*

۳۸

جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے

ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے

*

جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینۂ ما

می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما

*

بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن

کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن !

*

عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن

اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن

*

ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک

اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

*

قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں

پتّیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں

*

وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں

ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں

*

قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی

کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی!

*

۳۹

لطف مرنے میں ہے باقی ، نہ مزا جینے میں

کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں

*

کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں

کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں

*

اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں

داغ جو سینے میں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہی نہیں

*

چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں

جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں

*

یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں

پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں

*

عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری

نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری!

***

۴۰