بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد ۳

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد0%

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 208

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 208
مشاہدے: 63618
ڈاؤنلوڈ: 2590


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 208 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63618 / ڈاؤنلوڈ: 2590
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد 3

مؤلف:
اردو

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟

مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟

*

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟

ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

*

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں

*

جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب

زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب

*

نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب

پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

*

امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے

زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

*

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی

*

رہ گئی رسم اذاں، روح ہلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی

*

۸۱

مسجدیں مرثیہ خوان ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

*

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!

*

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

*

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!

*

دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک

عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک

*

شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نم ناک

تھا شجاعت میں وہ اک ہستیِ فوق الادراک

*

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود

خالی از خویش شدن صورت مینایش بود

*

ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا

اس کے آئینۂ ہستی میں عملِ جوہر تھا

*

۸۲

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

*

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو!

*

ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے

تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟

*

حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟

*

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

*

تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم

تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم

*

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم

پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

*

تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریرِ کَے بھی

یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

*

۸۳

خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خود دار

تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار

*

تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار

تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

*

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی

نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

*

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے

بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

*

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے

بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بد ظن بھی ہوئے

*

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا

لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

*

قیس زحمت کش تنہائیِ صحرا نہ رہے

شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیمانہ نہ رہے

*

وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے

یہ ضروری ہے حجاب رُخ لیلا نہ رہے

*

۸۴

گلۂ جور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو

عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!

*

عہد نو برق ہے، آتش زن ہر خرمن ہے

ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے

*

اس نئی آگ کا اقوام کہیں ایندھن ہے

ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

*

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

*

دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی

کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی

*

خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی

گل بر انداز ہے خون شہداء کی لالی

*

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے

یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

*

امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں

اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں

*

۸۵

سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں

سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

*

نخل اسلام نمونہ ہے برد مندی کا

پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

*

پاک ہے گرد وطن سے سرِ داماں تیرا

تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا

*

قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا

غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

*

نخل شمع استی و در شعلہ دود ریشۂ تو

عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو

*

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے

نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

*

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

*

کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے

عصر نو رات ہے، دھندلا سا تارا تو ہے

*

۸۶

ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا

غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا

*

تو سمجھتا ہے یہ سامان ہے دل آزاری کا

امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا

*

کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے

نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

*

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری

ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری

*

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری

کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری

*

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے

نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

*

مثل بوٗ قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا

رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا

*

ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا

نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا!

*

۸۷

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

*

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

*

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

*

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

*

دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے

بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے

*

چین کے شہر، مراکش کے بیاباں میں ہے

اور پوشیدہ مسلماں کے ایمان میں ہے

*

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

رفعت شان رَفعَنَا لَکَ ذِکرَک دیکھے

*

مردم چشم زمین یعنی وہ کالی دنیا

وہ تمہارے شہداء پالنے والی دنیا

*

۸۸

گرمیِ مہر کی پروردہ ہلالی دنیا

عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

*

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح

غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

*

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری

میرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری

*

ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری

تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

*

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

*

امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں

اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں

*

سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں

سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

*

نخلِ اسلام نمونہ ہے برد مندی کا

پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

***

۸۹

ساقی

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے

مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

*

جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں

کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی!

*

کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تری

سحر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی!

***

۹۰

تعلیم اور اس کے نتائج

(تضمین,برشعرملاعرشی)

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

*

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

*

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما

لے کے آئی ہے مگر تیشۂ فرہاد بھی ساتھ

*

""تخم دیگر بکف آریم و بکاریم ز نو

کانچہ کشتیم ز خجلت نتواں کرد درو

***

۹۱

قرب سلطان

تمیز حاکم و محکوم مٹ نہیں سکتی

مجال کیا کہ گداگر ہو شاہ کا ہمدوش

*

جہاں میں خواجہ پرستی ہے بندگی کا کمال

رضاۓ خواجہ طلب کن قباۓ رنگیں پوش

*

مگر غرض جو حصول رضائے حاکم ہو

خطاب ملتا ہے منصب پرست و قوم فروش

*

پرانے طرز عمل میں ہزار مشکل ہے

نئے اصول سے خالی ہے فکر کی آغوش

*

مزا تو یہ ہے کہ یوں زیر آسماں رہیے

""ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش""

*

یہی اصول ہے سرمایۂ سکون حیات

""گداے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش""

*

مگر خروش پہ مائل ہے تو ، تو بسم اللہ

""بگیر بادۂ صافی، ببانگ چنگ بنوش""

*

۹۲

شریک بزم امیر و وزیر و سلطاں ہو

لڑا کے توڑ دے سنگ ہوس سے شیشۂ ہوش

*

پیام مرشد شیراز بھی مگر سن لے

کہ ہے یہ سر نہاں خانۂ ضمیر سروش

*

""محل نور تجلی ست راۓ انور شاہ

چو قرب او طلبی در صفاۓ نیت کوش""

***

۹۳

شاعر

جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے

پی کے شراب لالہ گوں مے کدۂ بہار سے

*

مست مے خرام کا سن تو ذرا پیام تو

زندہ وہی ہے کام کچھ جس کو نہیں قرار سے

*

پھرتی ہے وادیوں میں کیا دختر خوش خرام ابر

کرتی ہے عشق بازیاں سبزۂ مرغزار سے

*

جام شراب کوہ کے خم کدے سے اڑاتی ہے

پست و بلند کر کے طے کھیتوں کو جا پلاتی ہے

*

شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری

ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری

*

شان خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں

کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری

*

اہل زمیں کو نسخۂ زندگی دوام ہے

خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری

*

گلشن دہر میں اگر جوئے مے سخن نہ ہو

پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو

***

۹۴

نو ید صبح

۱۹۱۲ء

آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر

منزل ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر

*

محفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت

دیتی ہے ہر چیز اپنی زندگانی کا ثبوت

*

چہچہاتے ہیں پرندے پا کے پیغام حیات

باندھتے ہیں پھول بھی گلشن میں احرام حیات

*

مسلم خوابیدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو

وہ چمک اٹھا افق ، گرم تقاضا تو بھی ہو

*

وسعت عالم میں رہ پیما ہو مثل آفتاب

دامن گردوں سے نا پیدا ہوں یہ داغ سحاب

*

کھینچ کر خنجر کرن کا ، پھر ہو سرگرم ستیز

پھر سکھا تاریکی باطل کو آداب گریز

*

تو سراپا نور ہے، خوشتر ہے عریانی تجھے

اور عریاں ہو کے لازم ہے خود افشانی تجھے

*

ہاں ، نمایاں ہو کے برق دیدۂ خفاش ہو

اے دل کون و مکاں کے راز مضمر! فاش ہو

***

۹۵

دعا

یا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے

جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے

*

پھر وادی فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے

پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے

*

محروم تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے

دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے

*

بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل

اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے

*

پیدا دل ویراں میں پھر شورش محشر کر

اس محمل خالی کو پھر شاہد لیلا دے

*

اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو

وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے

*

رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر

خود داری ساحل دے، آزادی دریا دے

*

بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو

سینوں میں اجالا کر، دل صورت مینا دے

*

۹۶

احساس عنایت کر آثار مصیبت کا

امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے

*

میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا

تاثیر کا سائل ہوں ، محتاج کو ، داتا دے!

***

۹۷

عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں

یہ شالامار میں اک برگ زرد کہتا تھا

گیا وہ موسم گل جس کا راز دار ہوں میں

*

نہ پائمال کریں مجھ کو زائران چمن

انھی کی شاخ نشیمن کی یادگار ہوں میں

*

ذرا سے پتے نے بیتاب کر دیا دل کو

چمن میں آ کے سراپا غم بہار ہوں میں

*

خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یاد فصل بہار

خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں

*

اجاڑ ہو گئے عہد کہن کے میخانے

گزشتہ بادہ پرستوں کی یادگار ہوں میں

*

پیام عیش ، مسرت ہمیں سناتا ہے

ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

***

۹۸

عرب لڑکی جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی

فاطمہ بنت عبداللہ

۱۹۱۲ء

فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے

ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے

*

یہ سعادت ، حور صحرائی! تری قسمت میں تھی

غازیان دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی

*

یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر

ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر

*

یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی

ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی!

*

اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں

بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں!

*

فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے

نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم میں ہے

*

رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے

ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے

*

۹۹

ہے کوئی ہنگامہ تیری تربت خاموش میں

پل رہی ہے ایک قوم تازہ اس آغوش میں

*

بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعت مقصد سے میں

آفرینش دیکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے میں

*

تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہور

دیدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موج نور

*

جو ابھی ابھرے ہیں ظلمت خانۂ ایام سے

جن کی ضو ناآشنا ہے قید صبح و شام سے

*

جن کی تابانی میں انداز کہن بھی، نو بھی ہے

اور تیرے کوکب تقدیر کا پرتو بھی ہے

***

۱۰۰