بانگِ درا (حصہ دوم ) 1905 سے 1908 تک جلد ۲

بانگِ درا (حصہ دوم )  1905 سے 1908 تک0%

بانگِ درا (حصہ دوم )  1905 سے 1908 تک مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 51

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21811 / ڈاؤنلوڈ: 2547
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ دوم )  1905 سے 1908 تک

بانگِ درا (حصہ دوم ) 1905 سے 1908 تک جلد 2

مؤلف:
اردو

عاشق ہر جائی

(۱)

ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبال تو

رونق ہنگامۂ محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے

*

تیرے ہنگاموں سے اے دیوانۂ رنگیں نوا!

زینت گلشن بھی ہے ، آرائش صحرا بھی ہے

*

ہم نشیں تاروں کا ہے تو رفعت پرواز سے

اے زمیں فرسا ، قدم تیرا فلک پیما بھی ہے

*

عین شغل میں پیشانی ہے تیری سجدہ ریز

کچھ ترے مسلک میں رنگ مشرب مینا بھی ہے

*

مثل بوئے گل لباس رنگ سے عریاں ہے تو

ہے تو حکمت آفریں ، لیکن تجھے سودا بھی ہے

*

جانب منزل رواں بے نقش پا مانند موج

اور پھر افتادہ مثل ساحل دریا بھی ہے

*

حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے

پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے

*

۲۱

تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار

تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے ؟

*

ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب

اے تلون کیش! تو مشہور بھی ، رسوا بھی ہے

*

لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو

تیری بے تابی کے صدقے، ہے عجب بے تاب تو

***

۲۲

عاشق ہر جائی

(۲)

عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے

مشت خاک ایسی نہاں زیر قبا رکھتا ہوں میں

*

ہیں ہزاروں اس کے پہلو ، رنگ ہر پہلو کا اور

سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں

*

دل نہیں شاعر کا ، ہے کیفیتوں کی رستخیز

کیا خبر تجھ کو درون سینہ کیا رکھتا ہوں میں

*

آرزو ہر کیفیت میں اک نئے جلوے کی ہے

مضطرب ہوں ، دل سکوں نا آشنا رکھتا ہوں میں

*

گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر

حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں

*

بے نیازی سے ہے پیدا میری فطرت کا نیاز

سوز و ساز جستجو مثل صبا رکھتا ہوں میں

*

موجب تسکیں تماشائے شرار جستہ اے

ہو نہیں سکتا کہ دل برق آشنا رکھتا ہوں میں

*

ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش

آہ! وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں

*

۲۳

جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے

حسن بے پایاں ہے ، درد لادوا رکھتا ہوں میں

*

زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری

عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں

*

سچ اگر پوچھے تو افلاس تخیل ہے وفا

دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں

*

فیض ساقی شبنم آسا ، ظرف دل دریا طلب

تشنۂ دائم ہوں آتش زیر پا رکھتا ہوں میں

*

مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا

نقش ہوں ، اپنے مصور سے گلا رکھتا ہوں میں

*

محفل ہستی میں جب ایسا تنک جلوہ تھا حسن

پھر تخیل کس لیے لا انتہا رکھتا ہوں میں

*

در بیابان طلب پیوستہ می کوشیم ما

موج بحریم و شکست خویش بر دوشیم ما

***

۲۴

کوشش نا تمام

فرقت آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صبح

چشم شفق ہے خوں فشاں اختر شام کے لیے

*

رہتی ہے قیس روز کو لیلی شام کی ہوس

اختر صبح مضطرب تاب دوام کے لیے

*

کہتا تھا قطب آسماں قافلۂ نجوم سے

ہمرہو ، میں ترس گیا لطف خرام کے لیے

*

سوتوں کو ندیوں کا شوق ، بحر کا ندیوں کو عشق

موجۂ بحر کو تپش ماہ تمام کے لیے

*

حسن ازل کہ پردۂ لالہ و گل میں ہے نہاں

کہتے ہیں بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے

*

راز حیات پو چھ لے خضر خجستہ گام سے

زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے

***

۲۵

نوائے غم

زندگانی ہے مری مثل رباب خاموش

جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش

*

بربط کون و مکاں جس کی خموشی پہ نثار

جس کے ہر تار میں ہیں سینکڑوں نغموں کے مزار

*

محشرستان نوا کا ہے امیں جس کا سکوت

اور منت کش ہنگامہ نہیں جس کا سکوت

*

آہ! امید محبت کی بر آئی نہ کبھی

چوٹ مضراب کی اس ساز نے کھائی نہ کبھی

*

مگر آتی ہے نسیم چمن طور کبھی

سمت گردوں سے ہوائے نفس حور کبھی

*

چھیڑ آہستہ سے دیتی ہے مرا تار حیات

جس سے ہوتی ہے رہا روح گرفتار حیات

*

نغمہ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے

اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتی ہے

*

جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے

میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے

***

۲۶

عشر ت امروز

نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش و سرور

نہ کھینچ نقشۂکیفیّتِ شراب طہور

*

فراق حور میں ہو غم سے ہمکنار نہ تو

پری کو شیشۂ الفاظ میں اتار نہ تو

*

مجھے فریفتۂ ساقی جمیل نہ کر

بیان حور نہ کر ، ذکر سلسبیل نہ کر

*

مقام امن ہے جنت ، مجھے کلام نہیں

شباب کے لیے موزوں ترا پیام نہیں

*

شباب ، آہ! کہاں تک امیدوار رہے

وہ عیش ، عیش نہیں ، جس کا انتظار رہے

*

وہ حسن کیا جو محتاج چشم بینا ہو

نمود کے لیے منت پذیر فردا ہو

*

عجیب چیز ہے احساس زندگانی کا

عقیدہ "عشرت امروز" ہے جوانی کا

***

۲۷

انسان

قدرت کا عجیب یہ ستم ہے!

انسان کو راز جو بنایا

راز اس کی نگاہ سے چھپایا

*

بے تاب ہے ذوق آگہی کا

کھلتا نہیں بھید زندگی کا

*

حیرت آغاز و انتہا ہے

آئینے کے گھر میں اور کیا ہے

*

ہے گرم خرام موج دریا

دریا سوئے سجر جادہ پیما

*

بادل کو ہوا اڑا رہی ہے

شانوں پہ اٹھائے لا رہی ہے

*

تارے مست شراب تقدیر

زندان فلک میں پا بہ زنجیر

*

خورشید ، وہ عابد سحر خیز

لانے والا پیام بر خیز

*

۲۸

مغرب کی پہاڑیوں میں چھپ کر

پیتا ہے مے شفق کا ساغر

*

لذت گیر وجود ہر شے

سر مست مے نمود ہر شے

*

کوئی نہیں غم گسار انساں

کیا تلخ ہے روزگار انساں!

**

۲۹

جلوۂ حسن

جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمنا بے تاب

پالتا ہے جسے آغوش تخیل میں شباب

*

ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے

ایک افسانۂ رنگیں ہے جوانی جس سے

*

جو سکھاتا ہے ہمیں سر بہ گریباں ہونا

منظر عالم حاضر سے گریزاں ہونا

*

دور ہو جاتی ہے ادراک کی خامی جس سے

عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے

*

آہ! موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں

خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں

***

۳۰

( دریائے نیکر "ہائیڈل برگ " کے کنارے پر )

ایک شام

خاموش ہے چاندنی قمر کی

شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی

*

وادی کے نوا فروش خاموش

کہسار کے سبز پوش خاموش

*

فطرت بے ہوش ہو گئی ہے

آغوش میں شب کے سو گئی ہے

*

کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے

نیکر کا خرام بھی سکوں ہے

*

تاروں کا خموش کارواں ہے

یہ قافلہ بے درا رواں ہے

*

خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا

قدرت ہے مراقبے میں گویا

*

اے دل! تو بھی خموش ہو جا

آغوش میں غم کو لے کے سو جا

***

۳۱

تنہائی

تنہائی شب میں ہے حزیں کیا

انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا!

*

یہ رفعت آسمان خاموش

خوابیدہ زمیں ، جہان خاموش

*

یہ چاند ، یہ دشت و در ، یہ کہسار

فطرت ہے تمام نسترن زار

*

موتی خوش رنگ ، پیارے پیارے

یعنی ترے آنسوؤں کے تارے

*

کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل!

قدرت تری ہم نفس ہے اے دل!

***

۳۲

پیام عشق

سن اے طلب گار درد پہلو! میں ناز ہوں ، تو نیاز ہو جا

میں غزنوی سومنات دل کا ، تو سراپا ایاز ہو جا

*

نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے

تمام ساماں ہے تیرے سینے میں ، تو بھی آئینہ ساز ہو جا

*

غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا

جہاں کا فرض قدیم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جا

*

نہ ہو قناعت شعار گلچیں! اسی سے قائم ہے شان تیری

وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا

*

گئے وہ ایام ، اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا

جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا

*

وجود افراد کا مجازی ہے ، ہستی قوم ہے حقیقی

فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا

*

یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا

بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا

***

۳۳

فراق

تلاش گوشۂ عزلت میں پھر رہا ہوں میں

یہاں پہاڑ کے دامن میں آ چھپا ہوں میں

*

شکستہ گیت میں چشموں کے دلبری ہے کمال

دعائے طفلک گفتار آزما کی مثال

*

ہے تخت لعل شفق پر جلوس اختر شام

بہشت دیدۂ بینا ہے حسن منظر شام

*

سکوت شام جدائی ہوا بہانہ مجھے

کسی کی یاد نے سکھلا دیا ترانہ مجھے

*

یہ کیفیت ہے مری جان نا شکیبا کی

مری مثال ہے طفل صغیر تنہا کی

*

اندھیری رات میں کرتا ہے وہ سرود آغاز

صدا کو اپنی سمجھتا ہے غیر کی آواز

*

یونہی میں دل کو پیام شکیب دیتا ہوں

شب فراق کو گویا فریب دیتا ہوں

***

۳۴

عبد القادر کے نام

اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر

بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں

*

ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط

اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں

*

اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق

سنگ امروز کو آئینۂ فردا کر دیں

*

جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو

تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں

*

اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر

قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں

*

رخت جاں بت کدۂ چیں سے اٹھا لیں اپنا

سب کو محو رخ سعدی و سلیمی کر دیں

*

دیکھ! یثرب میں ہوا ناقۂ لیلی بیکار

قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں

*

۳۵

بادۂ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز

جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں

*

گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ

چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں

*

شمع کی طرح جییں بزم گہ عالم میں

خود جلیں ، دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں

*

""ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع

سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع""

***

۳۶

( جزیرہ سسلی)

صقلیہ

رو لے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار

وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار

*

تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی

بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی

*

زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے

بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے

*

اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور

کھا گئی عصر کہن کو جن کی تیغ ناصبور

*

مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا

آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا

*

غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے

کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟

*

آہ اے سسلی! سمندرکی ہے تجھ سے آبرو

رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو

*

زیب تیرے خال سے رخسار دریا کو رہے

تیری شمعوں سے تسلی بحر پیما کو رہے

۳۷

*

ہو سبک چشم مسافر پر ترا منظر مدام

موج رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام

*

تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا

حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا

*

نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر

داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر

*

آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی

ابن بدروں کے دل ناشاد نے فریاد کی

*

غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا

چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا

*

ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں

تیرے ساحل کی خموشی میں ہے انداز بیاں

*

درد اپنا مجھ سے کہہ ، میں بھی سراپا درد ہوں

جس کی تو منزل تھا ، میں اس کارواں کی گرد ہوں

*

رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے

قصۂ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے

*

میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا

خود یہاں روتا ہوں ، اوروں کو وہاں رلواؤں گا

***

۳۸

غزلیات

زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں

دم ہوا کی موج ہے ، رم کے سوا کچھ بھی نہیں

*

گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر

شمع بولی ، گریۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں

*

راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو

کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں

*

زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی

کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں!

***

۳۹

الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے

الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے

اسے ہے سودائے بخیہ کاری ، مجھے سر پیرہن نہیں ہے

*

ملا محبت کا سوز مجھ کو تو بولے صبح ازل فرشتے

مثال شمع مزار ہے تو ، تری کوئی انجمن نہیں ہے

*

یہاں کہاں ہم نفس میسر ، یہ دیس نا آشنا ہے اے دل!

وہ چیز تو مانگتا ہے مجھ سے کہ زیر چرخ کہن نہیں ہے

*

نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا

بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے

*

کہاں کا آنا ، کہاں کا جانا ، فریب ہے امتیاز عقبی

نمود ہر شے میں ہے ہماری ، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے

*

مدیر "مخزن" سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے

جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں ، انھیں مذاق سخن نہیں ہے

***

۴۰