بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد ۱

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک0%

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 171

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 171
مشاہدے: 43768
ڈاؤنلوڈ: 2369


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 171 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43768 / ڈاؤنلوڈ: 2369
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد 1

مؤلف:
اردو

زباں سے گر کیا توحید کا دعوی تو کیا حاصل!

بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے

*

کنویں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا

ارے غافل! جو مطلق تھا مقید کر دیا تو نے

*

ہوس بالائے منبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی

نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی

*

دکھا وہ حسن عالم سوز اپنی چشم پرنم کو

جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رلواتا ہے شبنم کو

*

نرا نظارہ ہی اے بوالہوس مقصد نہیں اس کا

بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ کر چشم آدم کو

*

اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا

نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو

*

۱۰۱

شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا

یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

*

نہ اٹھا جذبۂ خورشید سے اک بر گ گل تک بھی

یہ رفعت کی تمنا ہے کہ لے اڑتی ہے شبنم کو

*

پھرا کرتے نہیں مجروح الفت فکر درماں میں

یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو

*

محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے

ذرا سے بیج سے پیدا ریاض طور ہوتا ہے

*

دوا ہر دکھ کی ہے مجروح تیغ آرزو رہنا

علاج زخم ہے آزاد احسان رفو رہنا

*

شراب بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری

شکت رنگ سے سیکھا ہے میں نے بن کے بو رہنا

*

۱۰۲

تھمے کیا دیدۂ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں

عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم با وضو رہنا

*

بنائیں کیا سمجھ کر شاخ گل پر آشیاں اپنا

چمن میں آہ! کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا

*

جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں

غلامی ہے اسیر امتیاز ماو تو رہنا

*

یہ استغنا ہے ، پانی میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو

تجھے بھی چاہیے مثل حباب آبجو رہنا

*

نہ رہ اپنوں سے بے پروا ، اسی میں خیر ہے تیری

اگر منظور ہے دنیا میں او بیگانہ خو رہنا

*

شراب روح پرور ہے محبت نوع انساں کی

سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام و سبو رہنا

*

۱۰۳

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے

کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے

*

بیابان محبت دشت غربت بھی ، وطن بھی ہے

یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی ، چمن بھی ہے

*

محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے ، صحرا بھی

جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے

*

مرض کہتے ہیں سب اس کو، یہ ہے لیکن مرض ایسا

چھپا جس میں علاج گردش چرخ کہن بھی ہے

*

جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا

یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے

*

وہی اک حسن ہے، لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں

یہ شیریں بھی ہے گویا بیستوں بھی ، کوہکن بھی ہے

*

۱۰۴

اجاڑا ہے تمیز ملت و آئیں نے قوموں کو

مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے؟

*

سکوت آموز طول داستان درد ہے ورنہ

زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تاب سخن بھی ہے

*

نمیگردید کوتہ رشتۂ معنی رہا کر دم

حکایت بود بے پایاں، بخاموشی ادا کر دم

***

۱۰۵

( آرنلڈ کی یاد میں )

نا لۂ فراق

جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں

آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سر زمیں

*

آ گیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں

ظلمت شب سے ضیائے روز فرقت کم نہیں

*

""تا ز آغوش وداعش داغ حیرت چیدہ است

ہمچو شمع کشتہ در چشم نگہ خوابیدہ است""

*

کشتۂ عزلت ہوں، آبادی میں گھبراتا ہوں میں

شہر سے سودا کی شدت میں نکل جاتا ہوں میں

*

یاد ایام سلف سے دل کو تڑپاتا ہوں میں

بہر تسکیں تیری جانب دوڑتا آتا ہوں میں

*

۱۰۶

آنکھ گو مانوس ہے تیرے در و دیوار سے

اجنبیت ہے مگر پیدا مری رفتار سے

*

ذرہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا

آئنہ ٹوٹا ہوا عالم نما ہونے کو تھا

*

نخل میری آرزوؤں کا ہرا ہونے کو تھا

آہ! کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا

*

ابر رحمت دامن از گلزار من برچید و رفت

اند کے بر غنچہ ہائے آرزو بارید و رفت

*

تو کہاں ہے اے کلیم ذروۂ سینائے علم

تھی تری موج نفس باد نشاط افزائے علم

*

اب کہاں وہ شوق رہ پیمائی صحرائے علم

تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم

*

۱۰۷

""شور لیلی کو کہ باز آرایش سودا کند

خاک مجنوں را غبار خاطر صحرا کند

*

کھول دے گا دشت وحشت عقدۂ تقدیر کو

توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو

*

دیکھتا ہے دیدۂ حیراں تری تصویر کو

کیا تسلی ہو مگر گرویدۂ تقریر کو

*

""تاب گویائی نہیں رکھتا دہن تصویر کا

خامشی کہتے ہیں جس کو، ہے سخن تصویر کا""

***

۱۰۸

چاند

میرے ویرانے سے کوسوں دور ہے تیرا وطن

ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موجزن

*

قصد کس محفل کا ہے؟ آتا ہے کس محفل سے تو؟

زرد رو شاید ہوا رنج رہ منزل سے تو

*

آفرنیش میں سراپا نور ، ظلمت ہوں میں

اس سیہ روزی پہ لیکن تیرا ہم قسمت ہوں میں

*

آہ ، میں جلتا ہوں سوز اشتیاق دید سے

تو سراپا سوز داغ منت خورشید سے

*

ایک حلقے پر اگر قائم تری رفتار ہے

میری گردش بھی مثال گردش پرکار ہے

*

زندگی کی رہ میں سرگرداں ہے تو، حیراں ہوں میں

تو فروزاں محفل ہستی میں ہے ، سوزاں ہوں میں

*

۱۰۹

میں رہ منزل میں ہوں، تو بھی رہ منزل میں ہے

تیری محفل میں جو خاموشی ہے ، میرے دل میں ہے

*

تو طلب خو ہے تو میرا بھی یہی دستور ہے

چاندنی ہے نور تیرا، عشق میرا نور ہے

*

انجمن ہے ایک میری بھی جہاں رہتا ہوں میں

بزم میں اپنی اگر یکتا ہے تو، تنہا ہوں میں

*

مہر کا پرتو ترے حق میں ہے پیغام اجل

محو کر دیتا ہے مجھ کو جلوۂ حسن ازل

*

پھر بھی اے ماہ مبیں! میں اور ہوں تو اور ہے

درد جس پہلو میں اٹھتا ہو وہ پہلو اور ہے

*

گرچہ میں ظلمت سراپا ہوں، سراپا نور تو

سینکڑوں منزل ہے ذوق آگہی سے دور تو

*

جو مری ہستی کا مقصد ہے ، مجھے معلوم ہے

یہ چمک وہ ہے، جبیں جس سے تری محروم ہے

۱۱۰

بلال

چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا

حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا

*

ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی

تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

*

وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے

کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے

*

جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں

ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں

*

نظر تھی صورت سلماں ادا شناس تری

شراب دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری

*

تجھے نظارے کا مثل کلیم سودا تھا

اویس طاقت دیدار کو ترستا تھا

*

۱۱۱

مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا

ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا

*

تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرت دید

خنک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید

*

گری وہ برق تری جان ناشکیبا پر

کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دست موسی پر

*

تپش ز شعلہ گر فتند و بر دل تو زدند

چہ برق جلوہ بخاشاک حاصل تو زدند

*

ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری

کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

*

اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی

نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی

*

خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا

خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا

۱۱۲

سر گزشت آدم

سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے

بھلایا قصۂ پیمان اولیں میں نے

*

لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں

پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے

*

رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو

دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے

*

ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا

کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے

*

نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی

کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے

*

کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا

چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے

*

۱۱۳

کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا

کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے

*

کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں

دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے

*

سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی

پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے

*

دیار ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی

بسایا خطۂ جاپان و ملک چیں میں نے

*

بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم

خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے

*

لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو

جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے

*

۱۱۴

سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی

اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے

*

ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں

سکھایا مسئلۂ گردش زمیں میں نے

*

کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر

لگا کے آئنۂ عقل دور بیں میں نے

*

کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو

بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے

*

مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی

کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے

*

ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر

تو پایا خانۂ دل میں اسے مکیں میں نے

***

۱۱۵

ترانۂ ہندی

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا

*

غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں

سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا

*

پربت وہ سب سے اونچا، ہمسایہ آسماں کا

وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا

*

گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں

گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا

*

اے آب رود گنگا، وہ دن ہیں یاد تجھ کو؟

اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا

*

۱۱۶

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

*

یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے

اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا

*

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا

*

اقبال! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں

معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا

***

۱۱۷

جگنو

جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں

یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں

*

آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ

یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں

*

یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا

غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں

*

تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا

ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں

*

حسن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی

لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں

*

چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی

نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں

*

۱۱۸

پروانہ اک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا

وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا

*

ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی

پروانے کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی

*

رنگیں نوا بنایا مرغان بے زباں کو

گل کو زبان دے کر تعلیم خامشی دی

*

نظارۂ شفق کی خوبی زوال میں تھی

چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی

*

رنگیں کیا سحر کو، بانکی دلھن کی صورت

پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی

*

سایہ دیا شجر کو، پرواز دی ہوا کو

پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی

*

۱۱۹

یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری

جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری

*

حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے

انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے

*

یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا

واں چاندنی ہے جو کچھ، یاں درد کی کسک ہے

*

انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ

نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی چہک ہے

*

کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی

جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے

*

یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو

ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشئ ازل ہو

***

۱۲۰