بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد ۱

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک0%

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 171

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 171
مشاہدے: 43734
ڈاؤنلوڈ: 2369


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 171 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43734 / ڈاؤنلوڈ: 2369
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد 1

مؤلف:
اردو

صبح کا ستارہ

لطف ہمسایگی شمس و قمر کو چھوڑوں

اور اس خدمت پیغام سحر کو چھوڑوں

*

میرے حق میں تو نہیں تاروں کی بستی اچھی

اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھی

*

آسماں کیا ، عدم آباد وطن ہے میرا

صبح کا دامن صد چاک کفن ہے میرا

*

میری قسمت میں ہے ہر روز کا مرنا جینا

ساقی موت کے ہاتھوں سے صبوحی پینا

*

نہ یہ خدمت، نہ یہ عزت، نہ یہ رفعت اچھی

اس گھڑی بھر کے چمکنے سے تو ظلمت اچھی

*

میری قدرت میں جو ہوتا، تو نہ اختر بنتا

قعر دریا میں چمکتا ہوا گوہر بنتا

*

۱۲۱

واں بھی موجوں کی کشاکش سے جو دل گھبراتا

چھوڑ کر بحر کہیں زیب گلو ہو جاتا

ہے چمکنے میں مزا حسن کا زیور بن کر

زینت تاج سر بانوئے قیصر بن کر

ایک پتھر کے جو ٹکڑے کا نصیبا جاگا

خاتم دست سلیماں کا نگیں بن کے رہا

*

ایسی چنروں کا مگر دہر میں ہے کام شکست

ہے گہر ہائے گراں مایہ کا انجام شکست

*

زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل

کیا وہ جینا ہے کہ ہو جس میں تقاضائے اجل

*

ہے یہ انجام اگر زینت عالم ہو کر

کیوں نہ گر جاؤ ں کسی پھول پہ شبنم ہو کر!

*

۱۲۲

کسی پیشانی کے افشاں کے ستاروں میں رہوں

کس مظلوم کی آہوں کے شراروں میں رہوں

*

اشک بن کر سرمژگاں سے اٹک جاؤں میں

کیوں نہ اس بیوی کی آنکھوں سے ٹپک جاؤں میں

*

جس کا شوہر ہو رواں، ہو کے زرہ میں مستور

سوئے میدان وغا ، حبِّ وطن سے مجبور

*

یاس و امید کا نظارہ جو دکھلاتی ہو

جس کی خاموشی سے تقریر بھی شرماتی ہو

*

جس کو شوہر کی رضا تاب شکیبائی دے

اور نگاہوں کو حیا طاقت گویائی دے

*

زرد ، رخصت کی گھڑی ، عارض گلگوں ہو جائے

کشش حسن غم ہجر سے افزوں ہو جائے

*

۱۲۳

لاکھ وہ ضبط کرے پر میں ٹپک ہی جاؤں

ساغر دیدۂ پرنم سے چھلک ہی جاؤں

*

خاک میں مل کے حیات ابدی پا جاؤں

عشق کا سوز زمانے کو دکھاتا جاؤں

***

۱۲۴

ہندوستانی بچوں کا قومی گیت

چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا

نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

*

تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا

جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا

*

میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے

یونانیوں کو جس نے حیران کر دیا تھا

*

سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا

مٹی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا

*

ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا

میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

*

۱۲۵

ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے

پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے

*

وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے

میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے

*

میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

بندے کلیم جس کے ، پربت جہاں کے سینا

*

نوح نبی کا آ کر ٹھہرا جہاں سفینا

رفعت ہے جس زمیں کی بام فلک کا زینا

*

جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا

میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

***

۱۲۶

لاہور و کراچی

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر

*

ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

*

آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں

حرف "لا تدع مع اللہ الھاً آخر"

***

۱۲۷

نیا شوالا

سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو برا نہ مانے

تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے

*

اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا

جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے

*

تنگ آ کے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا

واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے

*

پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے

خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے

*

آ ، غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں

بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقش دوئی مٹا دیں

*

۱۲۸

سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی

آ ، اک نیا شوالا اس دیس میں بنا دیں

*

دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ

دامان آسماں سے اس کا کلس ملا دیں

*

ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ مٹیھے مٹیھے

سارے پجاریوں کو مے پیت کی پلا دیں

*

شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے

دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے

***

۱۲۹

داغ

عظمت غالب ہے اک مدت سے پیوند زمیں

مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکیں

*

توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیر

چشم محفل میں ہے اب تک کیف صہبائے امیر

*

آج لیکن ہمنوا! سارا چمن ماتم میں ہے

شمع روشن بجھ گئی، بزم سخن ماتم میں ہے

*

بلبل دلی نے باندھا اس چمن میں آشیاں

ہم نوا ہیں سب عنادل باغ ہستی کے جہاں

*

چل بسا داغ آہ! میت اس کی زیب دوش ہے

آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے

*

اب کہاں وہ بانکپن، وہ شوخئ طرز بیاں

آگ تھی کافور پیری میں جوانی کی نہاں

*

۱۳۰

تھی زبان داغ پر جو آرزو ہر دل میں ہے

لیلی معنی وہاں بے پردہ، یاں محمل میں ہے

*

اب صبا سے کون پوچھے گا سکوت گل کا راز

کون سمجھے گا چمن میں نالۂ بلبل کا راز

*

تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں

آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں

*

اور دکھلائیں گے مضموں کی ہمیں باریکیاں

اپنے فکر نکتہ آرا کی فلک پیمائیاں

*

تلخی دوراں کے نقشے کھینچ کر رلوائیں گے

یا تخیل کی نئی دنیا ہمیں دکھلائیں گے

*

اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی

سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے، صاحب اعجاز بھی

*

۱۳۱

اٹھیں گے آزر ہزاروں شعر کے بت خانے سے

مے پلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے

*

لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت

ہوں گی اے خواب جوانی! تیری تعبیریں بہت

*

ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون ؟

اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تیر کون ؟

*

اشک کے دانے زمین شعر میں بوتا ہوں میں

تو بھی رو اے خاک دلی! داغ کو روتا ہوں میں

*

اے جہان آباد، اے سرمایۂ بزم سخن

ہوگیا پھر آج پامال خزاں تیرا چمن

*

وہ گل رنگیں ترا رخصت مثال بو ہوا

آہ! خالی داغ سے کاشانۂ اردو ہوا

*

۱۳۲

تھی نہ شاید کچھ کشش ایسی وطن کی خاک میں

وہ مہ کامل ہوا پنہاں دکن کی خاک میں

*

اٹھ گئے ساقی جو تھے، میخانہ خالی رہ گیا

یادگار بزم دہلی ایک حالی رہ گیا

*

آرزو کو خون رلواتی ہے بیداد اجل

مارتا ہے تیر تاریکی میں صیاد اجل

*

کھل نہیں سکتی شکایت کے لیے لیکن زباں

ہے خزاں کا رنگ بھی وجہ قیام گلستاں

*

ایک ہی قانون عالم گیر کے ہیں سب اثر

بوۓ گل کا باغ سے، گلچیں کا دنیا سے سفر

***

۱۳۳

ابر

اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا

سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا

*

نہاں ہوا جو رخ مہر زیر دامن ابر

ہوائے سرد بھی آئی سوار توسن ابر

*

گرج کا شور نہیں ہے ، خموش ہے یہ گھٹا

عجیب مے کدۂ بے خروش ہے یہ گھٹا

*

چمن میں حکم نشاط مدام لائی ہے

قبائے گل میں گہر ٹانکنے کو آئی ہے

*

جو پھول مہر کی گرمی سے سو چلے تھے ، اٹھے

زمیں کی گود میں جو پڑ کے سو رہے تھے ، اٹھے

*

۱۳۴

ہوا کے زور سے ابھرا، بڑھا، اڑا بادل

اٹھی وہ اور گھٹا، لو! برس پڑا بادل

*

عجیب خیمہ ہے کہسار کے نہالوں کا

یہیں قیام ہو وادی میں پھرنے والوں کا

***

۱۳۵

ایک پرندہ اور جگنو

سر شام ایک مرغ نغمہ پیرا

کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا

*

چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر

اڑا طائر اسے جگنو سمجھ کر

*

کہا جگنو نے او مرغ نواریز!

نہ کر بے کس پہ منقار ہوس تیز

*

تجھے جس نے چہک ، گل کو مہک دی

اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی

*

لباس نور میں مستور ہوں میں

پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں

*

چہک تیری بہشت گوش اگر ہے

چمک میری بھی فردوس نظر ہے

*

۱۳۶

پروں کو میرے قدرت نے ضیا دی

تجھے اس نے صدائے دل ربا دی

*

تری منقار کو گانا سکھایا

مجھے گلزار کی مشعل بنایا

*

چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو

دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو

*

مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز

جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز

*

قیام بزم ہستی ہے انھی سے

ظہور اوج و پستی ہے انھی سے

*

ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی

اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی

***

۱۳۷

بچّہ اور شمع

کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلک پروانہ خو!

شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو

*

یہ مری آغوش میں بیٹھے ہوئے جنبش ہے کیا

روشنی سے کیا بغل گیری ہے تیرا مدعا؟

*

اس نظارے سے ترا ننھا سا دل حیران ہے

یہ کسی دیکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے

*

شمع اک شعلہ ہے لیکن تو سراپا نور ہے

آہ! اس محفل میں یہ عریاں ہے تو مستور ہے

*

دست قدرت نے اسے کیا جانے کیوں عریاں کیا!

تجھ کو خاک تیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا

*

نور تیرا چھپ گیا زیر نقاب آگہی

ہے غبار دیدۂ بینا حجاب آگہی

*

۱۳۸

زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ

خواب ہے، غفلت ہے، سرمستی ہے، بے ہوشی ہے یہ

*

محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایان حسن

آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفان حسن

*

حسن ، کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے

مہر کی ضوگستری، شب کی سیہ پوشی میں ہے

*

آسمان صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ

شام کی ظلمت، شفق کی گل فرو شی میں ہے یہ

*

عظمت دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار میں

طفلک ناآشنا کی کوشش گفتار میں

*

ساکنان صحن گلشن کی ہم آوازی میں ہے

ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے

*

۱۳۹

چشمۂ کہسار میں ، دریا کی آزادی میں حسن

شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں، آبادی میں حسن

*

روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس

ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثل جرس!

*

حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے

زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے

***

۱۴۰