بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد ۱

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک0%

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 171

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 171
مشاہدے: 43777
ڈاؤنلوڈ: 2369


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 171 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43777 / ڈاؤنلوڈ: 2369
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد 1

مؤلف:
اردو

کنار راوی

سکوت شام میں محو سرود ہے راوی

نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی

*

پیام سجدے کا یہ زیر و بم ہوا مجھ کو

جہاں تمام سواد حرم ہوا مجھ کو

*

سر کنارۂ آب رواں کھڑا ہوں میں

خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں

*

شراب سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامن شام

لیے ہے پیر فلک دست رعشہ دار میں جام

*

عدم کو قافلۂ روز تیز گام چلا

شفق نہیں ہے ، یہ سورج کے پھول ہیں گویا

*

کھڑے ہیں دور وہ عظمت فزائے تنہائی

منار خواب گہ شہسوار چغتائی

*

۱۴۱

فسانۂ ستم انقلاب ہے یہ محل

کوئی زمان سلف کی کتاب ہے یہ محل

*

مقام کیا ہے سرود خموش ہے گویا

شجر ، یہ انجمن بے خروش ہے گویا

*

رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ تیز

ہوا ہے موج سے ملاح جس کا گرم ستیز

*

سبک روی میں ہے مثل نگاہ یہ کشتی

نکل کے حلقۂ حد نظر سے دور گئی

*

جہاز زندگی آدمی رواں ہے یونہی

ابد کے بحر میں پیدا یونہی ، نہاں ہے یونہی

*

شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا

نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا

***

۱۴۲

(بہ درگاہ حضرت محبوب ا لہی، دہلی)

التجائے مسافر

فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا

بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا

*

ستارے عشق کے تیری کشش سے ہیں قائم

نظام مہر کی صورت نظام ہے تیرا

*

تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی

مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا

*

نہاں ہے تیری محبت میں رنگ محبوبی

بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تیرا

*

اگر سیاہ دلم، داغ لالہ زار تو ام

و گر کشادہ جبینم، گل بہار تو ام

*

۱۴۳

چمن کو چھوڑ کے نکلا ہوں مثل نکہت گل

ہوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو

*

چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے

شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو

*

نظر ہے ابر کرم پر ، درخت صحرا ہوں

کیا خدا نے نہ محتاج باغباں مجھ کو

*

فلک نشیں صفت مہر ہوں زمانے میں

تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو

*

مقام ہم سفروں سے ہوا اس قدر آگے

کہ سمجھے منزل مقصود کارواں مجھ کو

*

مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے

کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجھ کو

*

۱۴۴

دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر

تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجھ کو

*

بنایا تھا جسے چن چن کے خار و خس میں نے

چمن میں پھر نظر آئے وہ آشیاں مجھ کو

*

پھر آ رکھوں قدم مادر و پدر پہ جبیں

کیا جنھوں نے محبت کا رازداں مجھ کو

*

وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی

رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو

*

نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی

بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو

*

دعا یہ کر کہ خداوند آسمان و زمیں

کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو

*

۱۴۵

وہ میرا یوسف ثانی وہ شمع محفل عشق

ہوئی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجھ کو

*

جلا کے جس کی محبت نے دفتر من و تو

ہوائے عیش میں پالا، کیا جواں مجھ کو

*

ریاض دہر میں مانند گل رہے خنداں

کہ ہے عزیز تر از جاں وہ جان جاں مجھ کو

*

شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے!

یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے!

***

۱۴۶

غز لیات

گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ

گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ

ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

*

آیا ہے تو جہاں میں مثال شرار دیکھ

دم دے نہ جائے ہستی ناپائدار دیکھ

*

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں

تو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ

*

کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر

ہر رہ گزر میں نقش کف پائے یار دیکھ

٭ ٭ ٭ ٭

۱۴۷

نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

*

تمھارے پیامی نے سب راز کھولا

خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

*

بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا

تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!

*

تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد

مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی

*

کھنچے خود بخود جانب طور موسی

کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی!

*

کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا

فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی

٭ ٭ ٭ ٭

۱۴۸

عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب

عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب

عداوت ہے اسے سارے جہاں سے

*

کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں

کہاں جاتا ہے، آتا ہے کہاں سے

*

وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے

چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے

*

ہم اپنی درد مندی کا فسانہ

سنا کرتے ہیں اپنے رازداں سے

*

بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں

لرز جاتا ہے آواز اذاں سے

٭ ٭ ٭ ٭

۱۴۹

لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے

*

وائے ناکامی ، فلک نے تاک کر توڑا اسے

میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے

*

آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملت سے تری

ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے

*

دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں

لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے

*

جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو

آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے

*

پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر

ورنہ میں ، اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے!

*

۱۵۰

اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کا گیت

آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے

٭ ٭ ٭ ٭

۱۵۱

کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا

کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا

اور اسیر حلقۂ دام ہوا کیونکر ہوا

*

جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں

مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا

*

کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر

کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا

*

ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا

مرغ دل دام تمنا سے رہا کیونکر ہوا

*

دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے

پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا

*

حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب

وہ جو تھا پردوں میں پنہاں ، خود نما کیونکر ہوا

*

۱۵۲

موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے درد فراق!

چارہ گر دیوانہ ہے ، میں لا دوا کیونکر ہوا

*

تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت کہ گل

ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا

*

پرسش اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری

ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ ، کیا ہوا ، کیونکر ہوا

*

میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی

کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا

٭ ٭ ٭ ٭

۱۵۳

انوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں

انوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

*

علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں

جو تھے چھالوں میں کانٹے ، نوک سوزن سے نکالے ہیں

*

پھلا پھولا رہے یا رب! چمن میری امیدوں کا

جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں

*

رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی

نرالا عشق ہے میرا ، نرالے میرے نالے ہیں

*

نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی

نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں

*

نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے

ٹھہر جا اے شرر ، ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں

*

۱۵۴

امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو

یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے ، بھولے بھالے ہیں

*

مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو

مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں

٭ ٭ ٭ ٭

۱۵۵

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

*

منصور کو ہوا لب گویا پیام موت

اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی

*

ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر

ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

*

میں انتہائے عشق ہوں ، تو انتہائے حسن

دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

*

عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست

محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی

*

چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!

پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی

*

۱۵۶

اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم

طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی

*

نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے

نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی

*

کھل جائیں ، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں

دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی

٭ ٭ ٭ ٭

۱۵۷

جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں

جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں

وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں

*

حقیقت اپنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنی

مکاں نکلا ہمارے خانۂ دل کے مکینوں میں

*

اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہہ سائی سے

تو سنگ آستانِ کعبہ جا ملتا جبینوں میں

*

کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں

کہ لیلی کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں

*

مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں

مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں

*

مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے

کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں

*

۱۵۸

چھپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے

وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں

*

جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی

الہی! کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں

*

تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی

نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں

*

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو دیکھ ان کو

ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

*

ترستی ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو

وہ رونق انجمن کی ہے انھی خلوت گزینوں میں

*

کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو

کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں

*

۱۵۹

محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا

یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں

*

سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق

بھلا اے دل حسیں ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں

*

پھڑک اٹھا کوئی تیری ادائے "ما عرفنا" پر

ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں

*

نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا

بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں

*

خموش اے دل! ، بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

*

برا سمجھوں انھیں مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا

کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں

٭ ٭ ٭ ٭

۱۶۰