بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد ۱

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک0%

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 171

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 171
مشاہدے: 43754
ڈاؤنلوڈ: 2369


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 171 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43754 / ڈاؤنلوڈ: 2369
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد 1

مؤلف:
اردو

کہا یہ سن کے گلہری نے ، منہ سنبھال ذرا

یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا

*

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا

نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا

*

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے

کوئی بڑا ، کوئی چھوٹا ، یہ اس کی حکمت ہے

*

بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے

مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے

*

قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں

نری بڑائی ہے ، خوبی ہے اور کیا تجھ میں

*

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو

یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو

*

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

۲۱

(ماخوذ )بچوں کے لیے

ایک گائے اور بکری

اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں

تھی سراپا بہار جس کی زمیں

*

کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں

ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں

*

تھے اناروں کے بے شمار درخت

اور پیپل کے سایہ دار درخت

*

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں

طائروں کی صدائیں آتی تھیں

*

کسی ندی کے پاس اک بکری

چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی

*

۲۲

جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا

پاس اک گائے کو کھڑے پایا

*

پہلے جھک کر اسے سلام کیا

پھر سلیقے سے یوں کلام کیا

*

کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں

گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں

*

کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی

ہے مصیبت میں زندگی اپنی

*

جان پر آ بنی ہے ، کیا کہیے

اپنی قسمت بری ہے ، کیا کہیے

*

دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں

رو رہی ہوں بروں کی جان کو میں

*

۲۳

زور چلتا نہیں غریبوں کا

پیش آیا لکھا نصیبوں کا

*

آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے

اس سے پالا پڑے ، خدا نہ کرے

*

دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے

ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے

*

ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے

کن فریبوں سے رام کرتا ہے

*

اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں

دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں

*

بدلے نیکی کے یہ برائی ہے

میرے اللہ! تری دہائی ہے

*

۲۴

سن کے بکری یہ ماجرا سارا

بولی ، ایسا گلہ نہیں اچھا

*

بات سچی ہے بے مزا لگتی

میں کہوں گی مگر خدا لگتی

*

یہ چراگہ ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا

یہ ہری گھاس اور یہ سایا

*

ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں

یہ کہاں ، بے زباں غریب کہاں!

*

یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں

لطف سارے اسی کے دم سے ہیں

*

اس کے دم سے ہے اپنی آبادی

قید ہم کو بھلی ، کہ آزادی!

*

۲۵

سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا

واں کی گزران سے بچائے خدا

*

ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا

ہم کو زیبا نہیں گلا اس کا

*

قدر آرام کی اگر سمجھو

آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو

*

گائے سن کر یہ بات شرمائی

آدمی کے گلے سے پچھتائی

*

دل میں پرکھا بھلا برا اس نے

اور کچھ سوچ کر کہا اس نے

*

یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی

دل کو لگتی ہے بات بکری کی

***

۲۶

(ماخوذ )بچوں کے لیے

بچے کی دعا

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

*

دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے

ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

*

ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت

جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

*

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

*

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

*

مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

***

۲۷

( ماخوذ از ولیم کو پر )

بچوں کے لیے

ہمدردی

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا

بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

*

کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی

اڑنے چگنے میں دن گزارا

*

پہنچوں کس طرح آشیاں تک

ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا

*

سن کر بلبل کی آہ و زاری

جگنو کوئی پاس ہی سے بولا

*

۲۸

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے

کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا

*

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری

میں راہ میں روشنی کروں گا

*

اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل

چمکا کے مجھے دیا بنایا

*

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسرں کے

***

۲۹

(ماخوذ بچوں کے لیے )

ماں کا خواب

میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب

بڑھا اور جس سے مرا اضطراب

*

یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں

اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں

*

لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال

قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال

*

جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی

تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی

*

زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے

دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے

*

۳۰

وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں

خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں

*

اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر

مجھے اس جماعت میں آیا نظر

*

وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا

دیا اس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا

*

کہا میں نے پہچان کر ، میری جاں!

مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں!

*

جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار

پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار

*

نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی

گئے چھوڑ ، اچھی وفا تم نے کی

*

۳۱

جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب

دیا اس نے منہ پھیر کر یوں جواب

*

رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری

نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری

*

یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا

دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا

*

سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اسے؟

ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے

***

۳۲

(ماخوذ بچوں کے لیے )

پرندے کی فریاد

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا

وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

*

آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی

اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا

*

لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے یاد جس دم

شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا

*

وہ پیاری پیاری صورت ، وہ کامنی سی مورت

آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا

*

آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں

ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں!

*

۳۳

کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں

ساتھی تو ہیں وطن میں ، میں قید میں پڑا ہوں

*

آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں

میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں

*

اس قید کا الہی! دکھڑا کسے سناؤں

ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جاؤں

*

جب سے چمن چھٹا ہے ، یہ حال ہو گیا ہے

دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے

*

گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے

دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے

*

آزاد مجھ کو کر دے ، او قید کرنے والے!

میں بے زباں ہوں قیدی ، تو چھوڑ کر دعا لے

***

۳۴

خفتگان خاک سے استفسار

مہر روشن چھپ گیا ، اٹھی نقاب روئے شام

شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام

*

یہ سیہ پوشی کی تیاری کس کے غم میں ہے

محفل قدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے

*

کر رہا ہے آسماں جادو لب گفتار پر

ساحر شب کی نظر ہے دیدۂ بیدار پر

*

غوطہ زن دریاۓ خاموشی میں ہے موج ہوا

ہاں ، مگر اک دور سے آتی ہے آواز درا

*

دل کہ ہے بے تابئ الفت میں دنیا سے نفور

کھنچ لایا ہے مجھے ہنگامۂ عالم سے دور

*

۳۵

منظر حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں

ہم نشین خفتگان کنج تنہائی ہوں میں

*

تھم ذرا بے تابی دل! بیٹھ جانے دے مجھے

اور اس بستی پہ چار آ نسو گرانے دے مجھے

*

اے مے غفلت کے سر مستو ، کہاں رہتے ہو تم

کچھ کہو اس دیس کی آ خر ، جہاں رہتے ہو تم

*

وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی؟

اور پیکار عناصر کا تماشا ہے کوئی؟

*

آدمی واں بھی حصار غم میں ہے محصور کیا؟

اس ولایت میں بھی ہے انساں کا دل مجبور کیا؟

*

واں بھی جل مرتا ہے سوز شمع پر پروانہ کیا؟

اس چمن میں بھی گل و بلبل کا ہے افسانہ کیا؟

*

۳۶

یاں تو اک مصرع میں پہلو سے نکل جاتا ہے دل

شعر کی گرمی سے کیا واں بھی پگل جاتا ہے دل؟

*

رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں

اس گلستاں میں بھی کیا ایسے نکیلے خار ہیں؟

*

اس جہاں میں اک معیشت اور سو افتاد ہے

روح کیا اس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟

*

کیا وہاں بجلی بھی ہے ، دہقاں بھی ہے ، خرمن بھی ہے؟

قافلے والے بھی ہیں ، اندیشۂ رہزن بھی ہے؟

*

تنکے چنتے ہیں و ہاں بھی آشیاں کے واسطے؟

خشت و گل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟

*

واں بھی انساں اپنی اصلیت سے بیگانے ہیں کیا؟

امتیاز ملت و آئیں کے دیوانے ہیں کیا؟

*

۳۷

واں بھی کیا فریاد بلبل پر چمن روتا نہیں؟

اس جہاں کی طرح واں بھی درد دل ہوتا نہیں؟

*

باغ ہے فردوس یا اک منزل آرام ہے؟

یا رخ بے پردۂ حسن ازل کا نام ہے؟

*

کیا جہنم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟

آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصد تادیب ہے؟

*

کیا عوض رفتار کے اس دیس میں پرواز ہے؟

موت کہتے ہیں جسے اہل زمیں ، کیا راز ہے ؟

*

اضطراب دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے

علم انساں اس ولایت میں بھی کیا محدود ہے؟

*

دید سے تسکین پاتا ہے دل مہجور بھی؟

"لن ترانی" کہہ رہے ہیں یا وہاں کے طور بھی؟

*

۳۸

جستجو میں ہے وہاں بھی روح کو آرام کیا؟

واں بھی انساں ہے قتیل ذوق استفہام کیا؟

*

آہ! وہ کشور بھی تاریکی سے کیا معمور ہے؟

یا محبت کی تجلی سے سراپا نور ہے؟

*

تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے

موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے

***

۳۹

شمع و پروانہ

پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں

یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں

*

سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے

آداب عشق تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟

*

کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا

پھونکا ہوا ہے کیا تری برق نگاہ کا؟

*

آزار موت میں اسے آرام جاں ہے کیا؟

شعلے میں تیرے زندگی جاوداں ہے کیا؟

*

غم خانۂ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو

اس تفتہ دل کا نخل تمنا ہرا نہ ہو

*

۴۰