بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد ۱

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک0%

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 171

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 171
مشاہدے: 43791
ڈاؤنلوڈ: 2373


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 171 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43791 / ڈاؤنلوڈ: 2373
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد 1

مؤلف:
اردو

گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے

ننھے سے دل میں لذت سوز و گداز ہے

*

کچھ اس میں جوش عاشق حسن قدیم ہے

چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے

*

پروانہ ، اور ذوق تماشائے روشنی

کیڑا ذرا سا ، اور تمنائے روشنی!

***

۴۱

عقل و دل

عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا

بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں

*

ہوں زمیں پر ، گزر فلک پہ مرا

دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں

*

کام دنیا میں رہبری ہے مرا

مثل خضر خجستہ پا ہوں میں

*

ہوں مفسر کتاب ہستی کی

مظہر شان کبریا ہوں میں

*

بوند اک خون کی ہے تو لیکن

غیرت لعل بے بہا ہوں میں

*

دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے

پر مجھے بھی تو دیکھ ، کیا ہوں میں

*

۴۲

راز ہستی کو تو سمجھتی ہے

اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں

*

ہے تجھے واسطہ مظاہر سے

اور باطن سے آشنا ہوں میں

*

علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے

تو خدا جو ، خدا نما ہوں میں

*

علم کی انتہا ہے بے تابی

اس مرض کی مگر دوا ہوں میں

*

شمع تو محفل صداقت کی

حسن کی بزم کا دیا ہوں میں

*

تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا

طائر سدرہ آشنا ہوں میں

*

کس بلندی پہ ہے مقام مرا

عرش رب جلیل کا ہوں میں!

۴۳

صدائے درد

جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے

ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے

*

سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے

وصل کیسا ، یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے

*

بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب

ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب

*

جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں

اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں

*

لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں

اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں

*

۴۴

دانۂ نم خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں

ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں

*

حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو

شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو

*

ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں

میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں

*

کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے!

پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے

***

۴۵

(ترجمہ گایتری )

آفتاب

اے آفتاب! روح و روان جہاں ہے تو

شیرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو

*

باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا

ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست و بود کا

*

قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے

ہر شے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے

*

ہر شے کو تیری جلوہ گری سے ثبات ہے

تیرا یہ سوز و ساز سراپا حیات ہے

*

وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے

دل ہے ، خرد ہے ، روح رواں ہے ، شعور ہے

*

۴۶

اے آفتاب ، ہم کو ضیائے شعور دے

چشم خرد کو اپنی تجلی سے نور دے

*

ہے محفل وجود کا ساماں طراز تو

یزدان ساکنان نشیب و فراز تو

*

تیرا کمال ہستی ہر جاندار میں

تیری نمود سلسلۂ کوہسار میں

*

ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو

زائیدگان نور کا ہے تاجدار تو

نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری

آزاد قید اول و آخر ضیا تری

***

۴۷

شمع

بزم جہاں میں میں بھی ہوں اے شمع! دردمند

فریاد در گرہ صفت دانۂ سپند

*

دی عشق نے حرارت سوز دروں تجھے

اور گل فروش اشک شفق گوں کیا مجھے

*

ہو شمع بزم عیش کہ شمع مزار تو

ہر حال اشک غم سے رہی ہمکنار تو

*

یک بیں تری نظر صفت عاشقان راز

میری نگاہ مایۂ آشوب امتیاز

*

کعبے میں ، بت کدے میں ہے یکساں تری ضیا

میں امتیاز دیر و حرم میں پھنسا ہوا

*

۴۸

ہے شان آہ کی ترے دود سیاہ میں

پوشیدہ کوئی دل ہے تری جلوہ گاہ میں؟

*

جلتی ہے تو کہ برق تجلی سے دور ہے

بے درد تیرے سوز کو سمجھے کہ نور ہے

*

تو جل رہی ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں

بینا ہے اور سوز دروں پر نظر نہیں

*

میں جوش اضطراب سے سیماب وار بھی

آگاہ اضطراب دل بے قرار بھی

*

تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا

احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا

*

یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار

خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار

*

۴۹

یہ امتیاز رفعت و پستی اسی سے ہے

گل میں مہک ، شراب میں مستی اسی سے ہے

*

بستان و بلبل و گل و بو ہے یہ آگہی

اصل کشاکش من و تو ہے یہ آگہی

*

صبح ازل جو حسن ہوا دلستان عشق

آواز "کن" ہوئی تپش آموز جان عشق

*

یہ حکم تھا کہ گلشن "کن" کی بہار دیکھ

ایک آنکھ لے کے خواب پریشاں ہزار دیکھ

*

مجھ سے خبر نہ پوچھ حجاب وجود کی

شام فراق صبح تھی میری نمود کی

*

وہ دن گئے کہ قید سے میں آشنا نہ تھا

زیب درخت طور مرا آشیانہ تھا

*

۵۰

قیدی ہوں اور قفس کو چمن جانتا ہوں میں

غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں

*

یاد وطن فسردگی بے سبب بنی

شوق نظر کبھی ، کبھی ذوق طلب بنی

*

اے شمع! انتہائے فریب خیال دیکھ

مسجود ساکنان فلک کا مآل دیکھ

*

مضموں فراق کا ہوں ، ثریا نشاں ہوں میں

آہنگ طبع ناظم کون و مکاں ہوں میں

*

باندھا مجھے جو اس نے تو چاہی مری نمود

تحریر کر دیا سر دیوان ہست و بود

*

گوہر کو مشت خاک میں رہنا پسند ہے

بندش اگرچہ سست ہے ، مضموں بلند ہے

*

۵۱

چشم غلط نگر کا یہ سارا قصور ہے

عالم ظہور جلوۂ ذوق شعور ہے

*

یہ سلسلہ زمان و مکاں کا ، کمند ہے

طوق گلوئے حسن تماشا پسند ہے

*

منزل کا اشتیاق ہے ، گم کردہ راہ ہوں

اے شمع ! میں اسیر فریب نگاہ ہوں

*

صیاد آپ ، حلقۂ دام ستم بھی آپ

بام حرم بھی ، طائر بام حرم بھی آپ!

*

میں حسن ہوں کہ عشق سراپا گداز ہوں

کھلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یا نیاز ہوں

*

ہاں ، آشنائے لب ہو نہ راز کہن کہیں

پھر چھڑ نہ جائے قصۂ دار و رسن کہیں

***

۵۲

ایک آرزو

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

*

شورش سے بھاگتا ہوں ، دل ڈھونڈتا ہے میرا

ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

*

مرتا ہوں خامشی پر ، یہ آرزو ہے میری

دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو

*

آزاد فکر سے ہوں ، عزلت میں دن گزاروں

دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو

*

لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں

چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو

*

گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا

ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو

۵۳

*

ہو ہاتھ کا سرھانا سبزے کا ہو بچھونا

شرمائے جس سے جلوت ، خلوت میں وہ ادا ہو

*

مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل

ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو

*

صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں

ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو

*

ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ

پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو

*

آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ

پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو

*

پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی

جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

۵۴

*

مہندی لگائے سورج جب شام کی دلھن کو

سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو

*

راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم

امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو

*

بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے

جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو

*

پچھلے پہر کی کوئل ، وہ صبح کی مؤذن

میں اس کا ہم نوا ہوں ، وہ میری ہم نوا ہو

*

کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں

روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو

*

پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے

رونا مرا وضو ہو ، نالہ مری دعا ہو

۵۵

*

اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے

تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو

*

ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے

بے ہوش جو پڑے ہیں ، شاید انھیں جگا دے

***

۵۶

آفتاب صبح

شورش میخانۂ انساں سے بالاتر ہے تو

زینت بزم فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو

*

ہو در گوش عروس صبح وہ گوہر ہے تو

جس پہ سیمائے افق نازاں ہو وہ زیور ہے تو=

*

صفحۂ ایام سے داغ مداد شب مٹا

آسماں سے نقش باطل کی طرح کوکب مٹا

*

حسن تیرا جب ہوا بام فلک سے جلوہ گر

آنکھ سے اڑتا ہے یک دم خواب کی مے کا اثر

*

نور سے معمور ہو جاتا ہے دامان نظر

کھولتی ہے چشم ظاہر کو ضیا تیری مگر

*

۵۷

ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے

چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوا چاہیے

*

شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے

زندگی بھر قید زنجیر تعلق میں رہے

*

زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے

آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے

*

آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو

امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو

*

بستۂ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں

نوع انساں قوم ہو میری ، وطن میرا جہاں

*

دیدۂ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عیاں

ہو شناسائے فلک شمع تخیل کا دھواں

*

۵۸

عقدۂ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے

حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے

*

صدمہ آ جائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر

اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر

*

دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر

نور سے جس کے ملے راز حقیقت کی خبر

*

شاہد قدرت کا آئینہ ہو ، دل میرا نہ ہو

سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو

*

تو اگر زحمت کش ہنگامۂ عالم نہیں

یہ فضیلت کا نشاں اے نیر اعظم نہیں

*

اپنے حسن عالم آرا سے جو تو محرم نہیں

ہمسر یک ذرۂ خاک در آدم نہیں

*

۵۹

نور مسجود ملک گرم تماشا ہی رہا

اور تو منت پذیر صبح فردا ہی رہا

*

آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے

لیلی ذوق طلب کا گھر اسی محمل میں ہے

*

کس قدر لذت کشود عقدۂ مشکل میں ہے

لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے

*

درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں

جستجوئے راز قدرت کا شناسا تو نہیں

***

۶۰