بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد ۱

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک0%

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 171

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 171
مشاہدے: 43745
ڈاؤنلوڈ: 2369


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 171 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43745 / ڈاؤنلوڈ: 2369
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد 1

مؤلف:
اردو

درد عشق

اے درد عشق! ہے گہر آب دار تو

نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو

*

پنہاں تہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے

ظاہر پرست محفل نو کی نگاہ ہے

*

آئی نئی ہوا چمن ہست و بود میں

اے درد عشق! اب نہیں لذت نمود میں

*

ہاں خود نمائیوں کی تجھے جستجو نہ ہو

منت پذیر نالۂ بلبل کا تو نہ ہو!

*

خالی شراب عشق سے لالے کا جام ہو

پانی کی بوند گریۂ شبنم کا نام ہو

*

پنہاں درون سینہ کہیں راز ہو ترا

اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا

*

۶۱

گویا زبان شاعر رنگیں بیاں نہ ہو

آواز نے میں شکوۂ فرقت نہاں نہ ہو

*

یہ دور نکتہ چیں ہے ، کہیں چھپ کے بیٹھ رہ

جس دل میں تو مکیں ہے، وہیں چھپ کے بیٹھ رہ

*

غافل ہے تجھ سے حیرت علم آفریدہ دیکھ!

جویا نہیں تری نگہ نارسیدہ دیکھ

*

رہنے دے جستجو میں خیال بلند کو

حیرت میں چھوڑ دیدۂ حکمت پسند کو

*

جس کی بہار تو ہو یہ ایسا چمن نہیں

قابل تری نمود کے یہ انجمن نہیں

*

یہ انجمن ہے کشتۂ نظارۂ مجاز

مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز

*

ہر دل مے خیال کی مستی سے چور ہے

کچھ اور آجکل کے کلیموں کا طور ہے

۶۲

گل پژمردہ

کس زباں سے اے گل پژمردہ تجھ کو گل کہوں

کس طرح تجھ کو تمنائے دل بلبل کہوں

*

تھی کبھی موج صبا گہوارۂ جنباں ترا

نام تھا صحن گلستاں میں گل خنداں ترا

*

تیرے احساں کا نسیم صبح کو اقرار تھا

باغ تیرے دم سے گویا طبلۂ عطار تھا

*

تجھ پہ برساتا ہے شبنم دیدۂ گریاں مرا

ہے نہاں تیری اداسی میں دل ویراں مرا

*

میری بربادی کی ہے چھوٹی سی اک تصویر تو

خوا ب میری زندگی تھی جس کی ہے تعبیر تو

*

ہمچو نے از نیستان خود حکایت می کنم

بشنو اے گل! از جدائی ہا شکایت می کنم

***

۶۳

سیدکی لوح تربت

اے کہ تیرا مرغ جاں تار نفس میں ہے اسیر

اے کہ تیری روح کا طائر قفس میں ہے اسیر

*

اس چمن کے نغمہ پیراؤں کی آزادی تو دیکھ

شہر جو اجڑا ہوا تھا اس کی آبادی تو دیکھ

*

فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی

صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی

*

سنگ تربت ہے مرا گرویدہ تقریر دیکھ

چشم باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ

*

مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں

ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں

*

۶۴

وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں

چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں

*

وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے

دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے

*

محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ

رنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ

*

تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا

ہے دلیری دست ارباب سیاست کا عصا

*

عرض مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے

نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے

*

بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے

قوت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے

*

۶۵

ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامۂ معجز رقم

شیشۂ دل ہو اگر تیرا مثال جام جم

*

پاک رکھ اپنی زباں ، تلمیذ رحمانی ہے تو

ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو!

*

سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے

خرمن باطل جلا دے شعلۂ آواز سے

***

۶۶

ماہ نو

ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل

ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل

*

طشت گردوں میں ٹپکتا ہے شفق کا خون ناب

نشتر قدرت نے کیا کھولی ہے فصد آفتاب

*

چرخ نے بالی چرا لی ہے عروس شام کی

نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی

*

قافلہ تیرا رواں بے منت بانگ درا

گوش انساں سن نہیں سکتا تری آواز پا

*

گھٹنے بڑھنے کا سماں آنکھوں کو دکھلاتا ہے تو

ہے وطن تیرا کدھر ، کس دیس کو جاتا ہے تو

*

ساتھ اے سیارۂ ثابت نما لے چل مجھے

خار حسرت کی خلش رکھتی ہے اب بے کل مجھے

*

۶۷

نور کا طالب ہوں ، گھبراتا ہوں اس بستی میں میں

طفلک سیماب پا ہوں مکتب ہستی میں میں

***

۶۸

انسان اور بزم قد رت

صبح خورشید درخشاں کو جو دیکھا میں نے

بزم معمورۂ ہستی سے یہ پوچھا میں نے

*

پر تو مہر کے دم سے ہے اجالا تیرا

سیم سیال ہے پانی ترے دریاؤں کا

*

مہر نے نور کا زیور تجھے پہنایا ہے

تیری محفل کو اسی شمع نے چمکایا ہے

*

گل و گلزار ترے خلد کی تصویریں ہیں

یہ سبھی سورۂ "والشمس" کی تفسیریں ہیں

*

سرخ پوشاک ہے پھولوں کی ، درختوں کی ہری

تیری محفل میں کوئی سبز ، کوئی لال پری

*

۶۹

ہے ترے خیمۂ گردوں کی طلائی جھالر

بدلیاں لال سی آتی ہیں افق پر جو نظر

*

کیا بھلی لگتی ہے آنکھوں کو شفق کی لالی

مے گلرنگ خم شام میں تو نے ڈالی

*

رتبہ تیرا ہے بڑا ، شان بڑی ہے تیری

پردۂ نور میں مستور ہے ہر شے تیری

*

صبح اک گیت سراپا ہے تری سطوت کا

زیر خورشید نشاں تک بھی نہیں ظلمت کا

*

میں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر

جل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیونکر؟

*

نور سے دور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں

کیوں سیہ روز ، سیہ بخت ، سیہ کار ہوں میں؟

*

۷۰

میں یہ کہتا تھا کہ آواز کہیں سے آئی

بام گردوں سے وہ یا صحن زمیں سے آئی

*

ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبود

باغباں ہے تری ہستی پے گلزار وجود

*

انجمن حسن کی ہے تو ، تری تصویر ہوں میں

عشق کا تو ہے صحیفہ ، تری تفسیر ہوں میں

*

میرے بگڑے ہوئے کاموں کو بنایا تو نے

بار جو مجھ سے نہ اٹھا وہ اٹھایا تو نے

*

نور خورشید کی محتاج ہے ہستی میری

اور بے منت خورشید چمک ہے تری

*

ہو نہ خورشید تو ویراں ہو گلستاں میرا

منزل عیش کی جا نام ہو زنداں میرا

*

۷۱

آہ اے راز عیاں کے نہ سمجھے والے!

حلقۂ دام تمنا میں الجھنے والے

*

ہائے غفلت کہ تری آنکھ ہے پابند مجاز

ناز زیبا تھا تجھے ، تو ہے مگر گرم نیاز

*

تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے

نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے

***

۷۲

( ماخوذ از لانگ فیلو)

پیا م صبح

اجالا جب ہوا رخصت جبین شب کی افشاں کا

نسیم زندگی پیغام لائی صبح خنداں کا

*

جگایا بلبل رنگیں نوا کو آشیانے میں

کنارے کھیت کے شانہ ہلایا اس نے دہقاں کا

*

طلسم ظلمت شب سورۂ والنور سے توڑا

اندھیرے میں اڑایا تاج زر شمع شبستاں کا

*

پڑھا خوابیدگان دیر پر افسون بیداری

برہمن کو دیا پیغام خورشید درخشاں کا

*

ہوئی بام حرم پر آ کے یوں گویا مؤذن سے

نہیں کھٹکا ترے دل میں نمود مہر تاباں کا؟

*

۷۳

پکاری اس طرح دیوار گلشن پر کھڑے ہو کر

چٹک او غنچۂ گل! تو مؤذن ہے گلستاں کا

*

دیا یہ حکم صحرا میں چلو اے قافلے والو!

چمکنے کو ہے جگنو بن کے ہر ذرہ بیاباں کا

*

سوئے گور غریباں جب گئی زندوں کی بستی سے

تو یوں بولی نظارا دیکھ کر شہر خموشاں کا

*

ابھی آرام سے لیٹے رہو ، میں پھر بھی آؤں گی

سلادوں گی جہاں کو خواب سے تم کو جگاؤں گی

***

۷۴

( ماخو ذ از ٹینی سن)

عشق اور موت

سہانی نمود جہاں کی گھڑی تھی

تبسم فشاں زندگی کی کلی تھی

*

کہیں مہر کو تاج زر مل رہا تھا

عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی

*

سیہ پیرہن شام کو دے رہے تھے

ستاروں کو تعلیم تابندگی تھی

*

کہیں شاخ ہستی کو لگتے تھے پتے

کہیں زندگی کی کلی پھوٹتی تھی

*

فرشتے سکھاتے تھے شبنم کو رونا

ہنسی گل کو پہلے پہل آ رہی تھی

*

۷۵

عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو

خودی تشنۂ کام مے بے خودی تھی

*

اٹھی اول اول گھٹا کالی کالی

کوئی حور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی

*

زمیں کو تھا دعوی کہ میں آسماں ہوں

مکاں کہہ رہا تھا کہ میں لا مکاں ہوں

*

غرض اس قدر یہ نظارہ تھا پیارا

کہ نظارگی ہو سراپا نظارا

*

ملک آزماتے تھے پرواز اپنی

جبینوں سے نور ازل آشکارا

*

فرشتہ تھا اک ، عشق تھا نام جس کا

کہ تھی رہبری اس کی سب کا سہارا

*

۷۶

فرشتہ کہ پتلا تھا بے تابیوں کا

ملک کا ملک اور پارے کا پارا

*

پے سیر فردوس کو جا رہا تھا

قضا سے ملا راہ میں وہ قضا را

*

یہ پوچھا ترا نام کیا ، کام کیا ہے

نہیں آنکھ کو دید تیری گوارا

*

ہوا سن کے گویا قضا کا فرشتہ

اجل ہوں ، مرا کام ہے آشکارا

*

اڑاتی ہوں میں رخت ہستی کے پرزے

بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا

*

مری آنکھ میں جادوئے نیستی ہے

پیام فنا ہے اسی کا اشارا

*

۷۷

مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی

وہ آتش ہے میں سامنے اس کے پارا

*

شرر بن کے رہتی ہے انساں کے دل میں

وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا

*

ٹپکتی ہے آنکھوں سے بن بن کے آنسو

وہ آنسو کہ ہو جن کی تلخی گوارا

*

سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی

ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا

*

گری اس تبسم کی بجلی اجل پر

اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا!

*

بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ

قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ

***

۷۸

ز ہد اور رندی

اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی

تیزی نہیں منظور طبیعت کی دکھانی

*

شہرہ تھا بہت آپ کی صوفی منشی کا

کرتے تھے ادب ان کا اعالی و ادانی

*

کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوف میں شریعت

جس طرح کہ الفاظ میں مضمر ہوں معانی

*

لبریز مۓ زہد سے تھی دل کی صراحی

تھی تہ میں کہیں درد خیال ہمہ دانی

*

کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی

منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی

*

۷۹

مدت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے

تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی

*

حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پوچھا

اقبال ، کہ ہے قمری شمشاد معانی

*

پابندی احکام شریعت میں ہے کیسا؟

گو شعر میں ہے رشک کلیم ہمدانی

*

سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا

ہے ایسا عقیدہ اثر فلسفہ دانی

*

ہے اس کی طبیعت میں تشیع بھی ذرا سا

تفضیل علی ہم نے سنی اس کی زبانی

*

سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل

مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی

*

۸۰