ارمغانِ حجاز

ارمغانِ حجاز0%

ارمغانِ حجاز مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 55

ارمغانِ حجاز

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 55
مشاہدے: 28419
ڈاؤنلوڈ: 2585

تبصرے:

ارمغانِ حجاز
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 55 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28419 / ڈاؤنلوڈ: 2585
سائز سائز سائز
ارمغانِ حجاز

ارمغانِ حجاز

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ارمغان حجاز

علامہ محمد اقبال رح

۳

نظمیں

ابلیس کی مجلس شوری

۱۹۳۶ء

ابلیس

یہ عناصر کا پرانا کھیل، یہ دنیائے دوں

ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں!

*

اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز

جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں

*

میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب

میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں

*

میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا

میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں

*

کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد

جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں

*

جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند

کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں!

***

۴

پہلامشیر

اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام

پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام

*

ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود

ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام

*

آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں

ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام

*

یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج

صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام

*

طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی

ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم کلام!

*

ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا

کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام

*

کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید؟

ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام!

***

۵

دوسرامشیر

خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر

تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر!

***

پہلامشیر

ہوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے

جو ملوکیت کا اک پردہ ہو، کیا اس سے خطر!

*

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس

جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

*

کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے

یہ وجود میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر

*

مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو

ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

*

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!

***

۶

تیسرامشیر

روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب

ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟

*

وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب

نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب

*

کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز

مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب!

*

اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد

توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب!

***

چوتھامشیر

توڑ اس کا رومۃ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ

آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب

*

کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا

گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب،

***

۷

تیسرامشیر

میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں

جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب

***

پانچواں.مشیر

ابلیس.کومخاطب.کرکے

اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار!

تو نے جب چاہا، کیا ہر پردگی کو آشکار

*

آب و گل تیری حرارت سے جہان سوز و ساز

ابلہ جنت تری تعلیم سے دانائے کار

*

تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں

سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار

*

کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف

تیری غیرت سے ابد تک سرنگون و شرمسار

*

۸

گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام

اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار

*

وہ یہودی فتنہ گر، وہ روح مزدک کا بروز

ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار

*

زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرغ

کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار

*

چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر

جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار

*

فتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج

کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار

*

میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے

جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار

***

۹

ابلیس

اپنے.مشیروں.سے

ہے مرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو

کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمان تو بتو

*

دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق

میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو

*

کیا امامان سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ

سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو

*

کار گاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے

توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو!

*

دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک

مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو

*

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد

یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو

*

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو

*

۱۰

خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ

کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو

*

جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ایام ہے

مزدکیت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!

***

۱۱

(۲)

جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں

*

جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں

*

عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف

ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں

*

الحذر! آئین پیغمبر سے سو بار الحذر

حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں

*

موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے

نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں

*

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف

منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں

*

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب

پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!

*

۱۲

چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب

یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں

*

ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے

یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

***

۱۳

(۳)

توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات

ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات

*

ابن مریم مر گیا یا زندہ جاوید ہے

ہیں صفات ذات حق، حق سے جدا یا عین ذات؟

*

آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے

یا مجدد، جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات؟

*

ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم

امت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟

*

کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں

یہ الہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟

*

تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے

تا بساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات

*

خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام

چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات

*

۱۴

ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر

جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات

*

ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

*

مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے

***

۱۵

بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا

اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا

*

جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل

وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا

*

غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں

پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا

*

حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر

کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا

*

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

*

محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص

کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا

*

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت

ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

*

۱۶

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

*

اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

*

تقدیر امم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا

مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا

*

اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے

شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!

***

۱۷

تصویر و مصور

تصویر

کہا تصویر نے تصویر گر سے

نمائش ہے مری تیرے ہنر سے

*

ولیکن کس قدر نا منصفی ہے

کہ تو پوشیدہ ہو میری نظر سے!

***

مصور

گراں ہے چشم بینا دیدہ ور پر

جہاں بینی سے کیا گزری شرر پر!

*

نظر ، درد و غم و سوز و تب و تاب

تو اے ناداں، قناعت کر خبر پر

***

تصویر

خبر، عقل و خرد کی ناتوانی

نظر، دل کی حیات جاودانی

*

نہیں ہے اس زمانے کی تگ و تاز

سزاوار حدیث لن ترانی

***

۱۸

مصور

تو ہے میرے کمالات ہنر سے

نہ ہو نومید اپنے نقش گر سے

*

مرے دیدار کی ہے اک یہی شرط

کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے

***

۱۹

عالم برزخ

مردہ.اپنی.قبرسے

کیا شے ہے، کس امروز کا فردا ہے قیامت

اے میرے شبستاں کہن! کیا ہے قیامت؟

***

قبر

اے مردۂ صد سالہ! تجھے کیا نہیں معلوم؟

ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت!

***

مردہ

جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت

اس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں میں

*

ہر چند کہ ہوں مردۂ صد سالہ ولیکن

ظلمت کدہ خاک سے بیزار نہیں میں

*

ہو روح پھر اک بار سوار بدن زار

ایسی ہے قیامت تو خریدار نہیں میں

***

۲۰