ارمغانِ حجاز

ارمغانِ حجاز0%

ارمغانِ حجاز مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 55

ارمغانِ حجاز

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 55
مشاہدے: 28414
ڈاؤنلوڈ: 2585

تبصرے:

ارمغانِ حجاز
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 55 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28414 / ڈاؤنلوڈ: 2585
سائز سائز سائز
ارمغانِ حجاز

ارمغانِ حجاز

مؤلف:
اردو

صدائےغیب

نے نصیب مار و کژدم، نے نصیب دام و دد

ہے فقط محکوم قوموں کے لیے مرگ ابد

*

بانگ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں

روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد

*

مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام

گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش لحد

***

قبر

اپنےمردہ.سے

آہ ، ظالم! تو جہاں میں بندہ محکوم تھا

میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوز

***

ناک

تیری میت سے مری تاریکیاں تاریک تر

تیری میت سے زمیں کا پردۂ ناموس چاک

*

الحذر، محکوم کی میت سے سو بار الحذر

اے سرافیل! اے خدائے کائنات! اے جان پاک!

***

۲۱

صدائے.غیب

گرچہ برہم ہے قیامت سے نظام ہست و بود

ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرار وجود

*

زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہیں مانند سحاب

زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود

*

ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام

ہے اسی میں مشکلات زندگانی کی کشود

***

زمین

آہ یہ مرگ دوام، آہ یہ رزم حیات

ختم بھی ہوگی کبھی کشمکش کائنات!

*

عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات

عارف و عامی تمام بندۂ لات و منات

*

خوار ہوا کس قدر آدم یزداں صفات

قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات

*

کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انساں کی رات؟

***

۲۲

معزول شہنشاہ

ہو مبارک اس شہنشاہ نکو فرجام کو

جس کی قربانی سے اسرار ملوکیت ہیں فاش

*

شاہ ہے برطانوی مندر میں اک مٹی کا بت

جس کو کر سکتے ہیں، جب چاہیں پجاری پاش پاش

*

ہے یہ مشک آمیز افیوں ہم غلاموں کے لیے

ساحر انگلیس! مارا خواجہ دیگر تراش

***

۲۳

دوزخی کی مناجات

اس دیر کہن میں ہیں غرض مند پجاری

رنجیدہ بتوں سے ہوں تو کرتے ہیں خدا یاد

*

پوجا بھی ہے بے سود، نمازیں بھی ہیں بے سود

قسمت ہے غریبوں کی وہی نالہ و فریاد

*

ہیں گرچہ بلندی میں عمارات فلک بوس

ہر شہر حقیقت میں ہے ویرانۂ آباد

*

تیشے کی کوئی گردش تقدیر تو دیکھے

سیراب ہے پرویز، جگر تشنہ ہے فرہاد

*

یہ علم، یہ حکمت، یہ سیاست، یہ تجارت

جو کچھ ہے، وہ ہے فکر ملوکانہ کی ایجاد

*

اللہ! ترا شکر کہ یہ خطہ پر سوز

سوداگر یورپ کی غلامی سے ہے آزاد!

***

۲۴

مسعود مرحوم

یہ مہر و مہ، یہ ستارے یہ آسمان کبود

کسے خبر کہ یہ عالم عدم ہے یا کہ وجود

*

خیال جادہ و منزل فسانہ و افسوں

کہ زندگی ہے سراپا رحیل بے مقصود

*

رہی نہ آہ ، زمانے کے ہاتھ سے باقی

وہ یادگار کمالات احمد و محمود

*

زوال علم و ہنر مرگ ناگہاں اس کی

وہ کارواں کا متاع گراں بہا مسعود!

*

مجھے رلاتی ہے اہل جہاں کی بیدردی

فغان مرغ سحر خواں کو جانتے ہیں سرود

*

نہ کہہ کہ صبر میں پنہاں ہے چارۂ غم دوست

نہ کہہ کہ صبر معمائے موت کی ہے کشود

*

دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است

ز عشق تا بہ صبوری ہزار فرسنگ است

***

۲۵

سعدی

نہ مجھ سے پوچھ کہ عمر گریز پا کیا ہے

کسے خبر کہ یہ نیرنگ و سیمیا کیا ہے

*

ہوا جو خاک سے پیدا، وہ خاک میں مستور

مگر یہ غیبت صغریٰ ہے یا فنا، کیا ہے!

*

غبار راہ کو بخشا گیا ہے ذوق جمال

خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے

*

دل و نظر بھی اسی آب و گل کے ہیں اعجاز

نہیں تو حضرت انساں کی انتہا کیا ہے؟

*

جہاں کی روح رواں لا الہ الا ھو،

مسیح و میخ و چلیپا ، یہ ماجرا کیا ہے!

*

قصاص خون تمنا کا مانگیے کس سے

گناہ گار ہے کون، اور خوں بہا کیا ہے

*

غمیں مشو کہ بہ بند جہاں گرفتاریم

طلسم ہا شکند آں دلے کہ ما داریم

*

۲۶

خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقام حیات

کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحان ثبات

*

خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا

ترے فراق میں مضطر ہے موج نیل و فرات

*

خودی ہے مردہ تو مانند کاہ پیش نسیم

خودی ہے زندہ تو سلطان جملہ موجودات

*

نگاہ ایک تجلی سے ہے اگر محروم

دو صد ہزار تجلی تلافی مافات

*

مقام بندۂ مومن کا ہے ورائے سپہر

زمیں سے تا بہ ثریا تمام لات و منات

*

حریم ذات ہے اس کا نشیمن ابدی

نہ تیرہ خاک لحد ہے، نہ جلوہ گاہ صفات

*

خود آگہاں کہ ازیں خاک داں بروں جستند

طلسم مہر و سپہر و ستارہ بشکستند

***

۲۷

آواز غیب

آتی ہے دم صبح صدا عرش بریں سے

کھویا گیا کس طرح ترا جوہر ادراک!

*

کس طرح ہوا کند ترا نشتر تحقیق

ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک

*

تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار

کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلام خس و خاشاک

*

مہر و مہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں

کیوں تری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک

*

اب تک ہے رواں گرچہ لہو تیری رگوں میں

نے گرمی افکار، نہ اندیشہ بے باک

*

روشن تو وہ ہوتی ہے، جہاں بیں نہیں ہوتی

جس آنکھ کے پردوں میں نہیں ہے نگہ پاک

*

باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری

اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری!

***

۲۸

رباعیات

مری شاخ امل کا ہے ثمر کیا

مری شاخ امل کا ہے ثمر کیا

تری تقدیر کی مجھ کو خبر کیا

*

کلی گل کی ہے محتاج کشود آج

نسیم صبح فردا پر نظر کیا!

***

فراغت دے اسے کار جہاں سے

فراغت دے اسے کار جہاں سے

کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے

*

ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش

گناہ تازہ تر لائے کہاں سے!

***

دگرگوں عالم شام و سحر کر

دگرگوں عالم شام و سحر کر

جہان خشک و تر زیر و زبر کر

*

رہے تیری خدائی داغ سے پاک

مرے بے ذوق سجدوں سے حذر کر

***

۲۹

غریبی میں ہوں محسود امیری

غریبی میں ہوں محسود امیری

کہ غیرت مند ہے میری فقیری

*

حذر اس فقر و درویشی سے، جس نے

مسلماں کو سکھا دی سر بزیری

***

خرد کی تنگ دامانی سے فریاد

خرد کی تنگ دامانی سے فریاد

تجلی کی فراوانی سے فریاد

*

گوارا ہے اسے نظارۂ غیر

نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد

***

کہا اقبال نے شیخ حرم سے

کہا اقبال نے شیخ حرم سے

تہ محراب مسجد سو گیا کون

*

ندا مسجد کی دیواروں سے آئی

فرنگی بت کدے میں کھو گیا کون؟

***

۳۰

کہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد

کہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد

کہ ہے مرد مسلماں کا لہو سرد

*

بتوں کو میری لادینی مبارک

کہ ہے آج آتش اللہ ہو، سرد

***

حدیث بندۂ مومن دل آویز

حدیث بندۂ مومن دل آویز

جگر پر خوں، نفس روشن، نگہ تیز

*

میسر ہو کسے دیدار اس کا

کہ ہے وہ رونق محفل کم آمیز

***

تمیز خار و گل سے آشکارا

تمیز خار و گل سے آشکارا

نسیم صبح کی روشن ضمیری

*

حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے

اگر کانٹے میں ہو خوئے حریری

***

۳۱

نہ کر ذکر فراق و آشنائی

نہ کر ذکر فراق و آشنائی

کہ اصل زندگی ہے خود نمائی

*

نہ دریا کا زیاں ہے، نے گہر کا

دل دریا سے گوہر کی جدائی

***

ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے

ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے

خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے

*

عبث ہے شکوۂ تقدیر یزداں

تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟

***

خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے

خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے

جہاں روشن ہے نور لا الہ سے

*

فقط اک گردش شام و سحر ہے

اگر دیکھیں فروغ مہر و مہ سے

***

۳۲

کبھی دریا سے مثل موج ابھر کر

کبھی دریا سے مثل موج ابھر کر

کبھی دریا کے سینے میں اتر کر

*

کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر

مقام اپنی خودی کا فاش تر کر

***

۳۳

ملا زادہ ضیغم لولا بی کشمیری کا بیاض

(۱)

پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب

مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب

*

اے وادی لولاب

گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب

دیں بندۂ مومن کے لیے موت ہے یا خواب

*

اے وادی لولاب

ہیں ساز پہ موقوف نوا ہائے جگر سوز

ڈھیلے ہوں اگر تار تو بے کار ہے مضراب

*

اے وادی لولاب

ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی

بے سوز ہے میخانۂ صوفی کی مے ناب

*

اے وادی لولاب

بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے

اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب

*

اے وادی لولاب

***

۳۴

(۲)

موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے نام

مکر و فن خواجگی کاش سمجھتا غلام!

*

شرع ملوکانہ میں جدت احکام دیکھ

صور کا غوغا حلال، حشر کی لذت حرام!

*

اے کہ غلامی سے ہے روح تری مضمحل

سینۂ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام!

***

(۳)

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر

کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر

*

سینۂ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک

مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر

*

کہہ رہا ہے داستاں بیدردی ایام کی

کوہ کے دامن میں وہ غم خانۂ دہقان پیر

*

آہ! یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ

ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟

***

۳۵

(۴)

گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو

تھرتھراتا ہے جہان چار سوے و رنگ و بو

*

پاک ہوتا ہے ظن و تخمیں سے انساں کا ضمیر

کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغ آرزو

*

وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں

عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تار رفو

*

ضربت پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش

حاکمیت کا بت سنگیں دل و آئینہ رو

***

(۵)

دراج کی پرواز میں ہے شوکت شاہیں

حیرت میں ہے صیاد، یہ شاہیں ہے کہ دراج!

*

ہر قوم کے افکار میں پیدا ہے تلاطم

مشرق میں ہے فردائے قیامت کی نمود آج

*

فطرت کے تقاضوں سے ہوا حشر پہ مجبور

وہ مردہ کہ تھا بانگ سرافیل کا محتاج

***

۳۶

(۶)

رندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات

ہر چند کہ مشہور نہیں ان کے کرامات

*

خود گیری و خود داری و گلبانگ انا الحق

آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اس کے مقامات

*

محکوم ہو سالک تو یہی اس کا ہمہ اوست

خود مردہ و خود مرقد و خود مرگ مفاجات!

***

(۷)

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

*

ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی

یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری

*

شیاطین ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو

کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوق نخچیری

*

چہ بے پروا گذشتند از نواے صبح گاہ من

کہ برد آں شور و مستی از سیہ چشمگان کشمیری!

***

۳۷

(۸)

سمجھا لہو کی بوند اگر تو اسے تو خیر

دل آدمی کا ہے فقط اک جذبۂ بلند

*

گردش مہ و ستارہ کی ہے ناگوار اسے

دل آپ اپنے شام و سحر کا ہے نقش بند

*

جس خاک کے ضمیر میں ہے آتش چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند

***

۳۸

(۹)

کھلا جب چمن میں کتب خانۂ گل

نہ کام آیا ملا کو علم کتابی

*

متانت شکن تھی ہوائ بہاراں

غزل خواں ہوا پیرک اندرانی

*

کہا لالہ آتشیں پیرہن نے

کہ اسرار جاں کی ہوں میں بے حجابی

*

سمجھتا ہے جو موت خواب لحد کو

نہاں اس کی تعمیر میں ہے خرابی

*

نہیں زندگی سلسلہ روز و شب کا

نہیں زندگی مستی و نیم خوابی

*

حیات است در آتش خود تپیدن

خوش آں دم کہ ایں نکتہ ار بازیابی

*

اگر ز آتش دل شرارے بیری

تواں کرد زیر فلک آفتابی

***

۳۹

(۱۰)

آزاد کی رگ سخت ہے مانند رگ سنگ

محکوم کی رگ نرم ہے مانند رگ تاک

*

محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نوید

آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک

*

آزاد کی دولت دل روشن، نفس گرم

محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نم ناک

*

محکوم ہے بیگانۂ اخلاص و مروت

ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

*

ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش

وہ بندۂ افلاک ہے، یہ خواجہ افلاک

***

۴۰