• ابتداء
  • پچھلا
  • 95 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32751 / ڈاؤنلوڈ: 2574
سائز سائز سائز
علقمہ کےساحل پر

علقمہ کےساحل پر

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

علقمہ کےساحل پر

مختلف شعراء

۳

شاہد اکبر پوری

(۱)

آیۂ تطہیر نے ہر زخم دل پر لے لیا

جب حرم سے ظلم نے اعزازِ چادر لے لیا

*

اپنے ہی سینے میں شاید قلبِ مادر لے لیا

کیسے اذنِ مرگ تو نے ماں سے اکبر(ع) لے لیا

*

کہہ رہا ہے سجدۂ آخر یہ شہ(ع) کا آج تک

دستِ بیعت تو نہ پایا ظلم نے سر لے لیا

*

عکس بھی ان پر نہ آئے گا ترا موجِ فرات

جن لبوں کی تشنگی نے رنگِ کوثر لے لیا

*

نہر تو اس طرح لے لوں گا کہا عباس(ع) نے

جیسے اک حملے میں کل بابا نے خیبر لے لیا

*

ایک انگڑائی جو آئی آخرت کی یاد میں

حر(ع) نے پائے شاہ(ع) سے اپنا مقدّر لے لیا

*

جنت و کوثر ہیں اُس شبیر(ع) کی اب سلطنت

جس نے تاجِ آخرت سجدے سے اٹھ کر لے لیا

*

۴

مسکرا اٹھے شہادت پر وہب(ع) اس وقت جب

’’کہہ کے بسم اللہ ماں نے گود میں سر لے لیا‘‘

*

موت کے شیریں لبوں نے زیست کے بوسے لئے

شہ(ع) سے جب اذنِ وغا قاسم(ع) نے بڑھ کر لے لیا

*

خشک ہونٹوں پر زباں اصغر(ع) جو تو نے پھیر دی

اک تبسم نے تیرے ہاتھوں میں لشکر لے لیا

*

خوں سکینہ(ع) کی لوئوں سے دیر تک بہتا رہا

کان زخمی کرکے یوں ظالم نے گوہر لے لیا

*

فکرِ قرآں ، سیرتِ شبیر(ع)، کردارِ رسول(س)

جیسے اک کوزے میں شاہد نے سمندر لے لیا

***

۵

(۲)

مقصدِ شبیر(ع) جو دیتا ہے وہ پیغام لو

بن کے حر(ع) دستِ عمل سے شہ(ع) کا دامن تھام لو

*

دیتے ہیں پیغام یہ ابتک بہتّر تشنہ لب

موت کے ہاتھوں سے بڑھ کر زندگی کا جام لو

*

ہر غمِ دوراں کو دو شبیر(ع) کے غم سے جواب

آنسوئوں سے انتقامِ گردش ایام لو

*

معنی و تفسیرِ کعبہ ہے کتابِ کربلا

بعدِ احمد(س) کربلا کی خاک سے اسلام لو

*

فیصلہ ہوگا قیامت میں کہ مجرم کون ہے

دشمنِ آلِ(ع) پیمبر(س) جو بھی دے الزام لو

*

تم کو فکرِ زندگی ہے ہم کو فکرِ آخرت

ہم وہاں آرام لیں گے تم یہاں آرام لو

*

منزلِ عشقِ علی(ع) ہی منزلِ ایمان ہے

جانچ لو اپنے عمل کو پھر علی(ع) کا نام لو

*

شرک و بدعت اور ذکرِ معنیٔ ذبحِ عظیم

آیتِ قرآں نہ جھٹلائو خدا کا نام لو

*

۶

چھین کر دریا کہا عباس(ع) نے یوں فوج سے

لے سکو تو مجھ سے دریا بڑھ کے اب دو گام لو

*

جارہے ہیں پیش کرنے حجتِ آخر حسین(ع)

اے علی اصغر(ع) نہ اب جھولے میں تم آرام لو

*

آخرت کی زندگی شاہد رہے پیشِ نظر

مدحِ مولا(ع) میں نہ دنیا سے کوئی انعام لو

***

۷

(۳)

کربلا ہیں تجھ میں ایسے رہ نما ٹھہرے ہوئے

گردشوں پر بھی ہیں جن کے نقشِ پا ٹھہرے ہوئے

*

آج تک آنکھوں میں ہیں اشکِ عزا ٹھہرے ہوئے

اک جہاں میں ہم ہیں بس غم آشنا ٹھہرے ہوئے

*

دیتے ہیں راہِ عمل سے یہ صدا اب تک حسین(ع)

ہم شفاعت کو ہیں تا روزِ جزا ٹھہرے ہوئے

*

اڑ رہا ہے جس بلندی پر َعلم عباس(ع) کا

اب اسی مرکز پہ ہیں اہلِ وفا ٹھہرے ہوئے

*

دو جہاں سے لے چکی بیعت وفا عباس(ع) کی

دو کٹے ہاتھوں پہ ہیں ارض و سما ٹھہرے ہوئے

*

بڑھتے ہیں اپنی جگہ سے شہ(ع) بہ الطاف و کرم

حر(ع) پشیماں ہورہے ہیں اپنی جا ٹھہرے ہوئے

*

ان پہ کیا گزرے گی تیری اٹھتی موجیں دیکھ کر

سامنے پیاسے جو ہیں اے علقمہ ٹھہرے ہوئے

*

جنگِ قاسم(ع) دیکھ کر حیرت سے کہتے تھے عدو

کم سنی میں بھی ہیں ان کے وار کیا ٹھہرے ہوئے

*

۸

آرہے ہیں لاش پر بابا یہ اکبر(ع) نے کہا

قلبِ مضطر اور کچھ رہنا ، ذرا ٹھہرے ہوئے

*

دل کی ہر دھڑکن میں اب تک سو رہی ہے اس کی یاد

جس کا جھولا اک زمانہ ہوگیا ٹھہرے ہوئے

*

ٹھوکریں کھاتے زمانے بھر کی شاہد کس لیے

جب درِ شبیر(ع) پر سب مل گیا ٹھہرے ہوئے

***

۹

(۴)

اشکِ غم میں شہ(ع) کے ایسی ضوفشانی چاہیے

کچھ عمل میں سیرتِ شبیر(ع) آنی چاہیے

*

وہ سمجھ لیں کربلا میں آکے مفہومِ حیات

جن کو دارِ آخرت کی زندگانی چاہیے

*

جاگ اٹھا کہہ کر شبِ عاشور یہ حر(ع) کا ضمیر

صبح پائے شہ(ع) پہ قسمت آزمانی چاہیے

*

مشورے اصحابِ شہ(ع) میں تھے شبِ عاشور یہ

کل ہر اک آفت ہمیں پر پہلے آنی چاہیے

*

فوج کہتی تھی کوئی ساحل پہ آسکتا نہیں

غیض کہتا تھا جری(ع) کا ہم کو پانی چاہیے

*

شرم آئے گی سکینہ(ع) سے کہا عباس(ع) نے

لاش خیمے میں مری آقا نہ جانی چاہیے

*

کرکے صبر و شکر رن کو بھیجے دیتے ہیں حسین(ع)

’’موت جب کہتی ہے اکبر(ع)کی جوانی چاہیے‘‘

*

۱۰

حرملہ کے تیر سے اصغر(ع) نے ہنس کر یہ کہا

یہ تو تھی اتمامِ حجت کس کو پانی چاہیے

*

قبضۂ شبیر(ع) ہے ہر دل پہ شاہد آج تک

بادشاہِ دیں (س) کو ایسی حکمرانی چاہیے

***

۱۱

(۵)

ذکرِ غم حسین(ع) کی عظمت نہ پوچھئے

اہلِ عزا کی خوبیٔ قسمت نہ پوچھئے

*

مَس ہوگئی ہے جن کی عقیدت حسین(ع) سے

ان کے دل و نظر کی طہارت نہ پوچھئے

*

نکلے درِ حسین(ع) سے جنت کے قافلے

ہٹ کر یہاں سے راہِ ہدایت نہ پوچھئے

*

رکھئے ولائے آلِ محمد(س) کی روشنی

ورنہ اندھیری قبر کی وحشت نہ پوچھئے

*

کشتیٔ اہلبیت(ع) میں جب مل چکی پناہ

دنیا سے اب نجات کی صورت نہ پوچھئے

*

دامن میں فاطمہ(س) کے ہے تقدیرِ کائنات

’’اشکِ غم حسین(ع) کی قیمت نہ پوچھئے’’

*

تڑپی تھی ایک برق سی انکارِ شاہ(ع) کی

پھر کیا ہوا نتیجۂ بیعت نہ پوچھئے

*

۱۲

ٹھوکر میں اپنی چھوڑ کے منصب جو حر(ع) چلا

قدموں میں شہ(ع) کے اس کی ندامت نہ پوچھئے

*

جھولے سے جس نے خود کو مچل کر گرادیا

اس بے زباں (ع) کا جذبۂ نصرت نہ پوچھئے

*

اصغر(ع) کی لاش خاک میں رکھ کر حسین(ع) نے

کیسے بنائی ننھی سی تربت نہ پوچھئے

*

سکتہ میں شام آگیا کوفہ لرز اٹھا

بنتِ(س) علی(ع) کا زورِ خطابت نہ پوچھئے

*

میزانِ غم حسین(ع) ہے اعمال جانچئے

’’اشکِ غمِ حسین(ع) کی قیمت نہ پوچھئے’’

*

شاہد بقائے مقصدِ شبیر(ع) کے لئے

ہے کس قدر عمل کی ضرورت نہ پوچھئے

***

۱۳

شاہد صدیقی

جفا کی ظلمت طرازیوں میں وفا کی شمعیں جلا رہے ہیں

حسین(ع) نورِ حیات بن کر تمام عالم پہ چھا رہے ہیں

*

یہ کس مسافر نے جان دے کر بتا دیا ہے سراغِ منزل

یہ کون گذرا ہے کربلا سے کہ راستے جگمگا رہے ہیں

*

حسین(ع) کے ساتھیوں کی راہوں میں حشر تک روشنی رہے گی

یہ اہلِ ہمت ہوا کے رخ پر چراغ اپنا جلا رہے ہیں

*

خود آگہی منزلِ حضوری مقامِ غفلت مقامِ دوری

شعور بیدار ہورہا ہے حسین(ع) نزدیک آ رہے ہیں

*

یہ ظلمت و نور کا تصادم ازل سے جاری ہے اس جہاں

یزید شمعیں بجھا رہا ہے حسین(ع) شمعیں جلا رہے ہیں

*

علی(ع) کو آواز دے کے اٹھئے اگر نہیں ہے کوئی سہارا

حسین(ع) کا نام لیکے بڑھئے اگر قدم لڑکھڑا رہے ہیں

*

امامِ(ع) برحق کا ہر زمانہ میں ربط ہے کاروبارِ حق سے

پیمبری(ص) ختم ہو چکی ہے مگر پیامات آ رہے ہیں

*

مری نگاہوں میں بزمِ ماتم بھی منزلِ امتحاں ہے شاہد

جنہیں مشیت نے آزمایا وہ اب ہمیں آزما رہے ہیں

***

۱۴

شاہد نقدی

مسافر گر چرالیں اپنی نظریں علم کے در سے

تو سارے رابطے کٹ جائیں امت کے پیمبر(ص) سے

*

علی(ع) کے روئے اقدس میں ہے جلوہ ہر پیمبر(ص) کا

نظر ڈالی علی(ع) پر مل لیے ایک اک پیمبر(ص) سے

*

ذرا نامِ مقابل پوچھ لے قبلِ وغا مرحب

تری ماں نے کہا تھا بچ کے رہنا تیغ حیدر(ع) سے

*

دلائل میں نصیری کے یقینا وزن ہے لیکن

جو وہ کہتا ہے میں کہتا نہیں اللہ کے ڈر سے

*

سرِ منبر نبی(ص) کے بعد دنیا آئی تو لیکن

نہ ہو پانی ہے جس بادل میں وہ برسے تو کیا برسے

*

خدا وندا مسلماں کو وہ چشمِ دور رس دے دے

کہ دشتِ خم نظر آنے لگے ہجرت کے بستر سے

*

علی(ع) کا مثل کوئی ڈھونڈ کر لائے تو ہم جانیں

خدا سازی تو آساں ہے بنا لیتے ہیں پتھر سے

*

نظر آئے نہ آئے کوئی ہادی اب بھی ہے شاہد

نہ ہوگر حجتِ قائم(ع) زمیں ہٹ جائے محور سے

***

۱۵

شبنم رومانی

جب دکھائے اسد اللہ نے تلوار کے ہاتھ

خشک پتے نظر آنے لگے اغیار کے ہاتھ

*

دیکھتا ہوں جو کسی رحل پہ قرآنِ کریم

چوم لیتا ہوں تصور میں علمدار(ع) کے ہاتھ

*

دیکھتے رہ گئے اربابِ جفا حیرت سے

بک گئے اہلِ وفا سیدِ ابرار(ع) کے ہاتھ

*

ایک اک ہاتھ تھا تلوار کا صد خشتِ حرم

یوں بھی تعمیر کیا کرتے ہیں معمار کے ہاتھ

*

ہائے وہ جذبِ وفا اُف وہ جنونِ ایثار

خود َعلم ہوگئے میداں میں علمدار(ع) کے ہاتھ

*

ظلم کی حد ہے کہ ظالم بھی بلک کر رویا

کبھی ماتھے پہ تو زانو پہ کبھی مار کے ہاتھ

*

ہر برے کام کا انجام برا ہوتا ہے

کس نے دیکھے ہیں بھلا کیفرِ کردار کے ہاتھ

*

۱۶

گھونٹ دیتی ہے گلا وحشتِ احساسِ گناہ

نکل آتے ہیں اچانک درو دیوار کے ہاتھ

*

یوں تو ہوں شاعرِ رومان مگر اے شبنم

بک گیا ہوں میں کسی یارِ طرحدار کے ہاتھ

***

۱۷

میر شجاعت علی خاں معظم جاہ شجیع شہزادۂ سلطنتِ آصفیہ

(۱)

مقابلِ رخِ شہ(ع) آفتاب کیا ہوگا

جوابِ سبط(ع) رسالت(ص) مآب کیا ہوگا

*

نبی(ص) کا حسن ہے شانِ علی(ع) ہے اکبر(ع) میں

بس اب سمجھ لو کہ ان کا شباب کیا ہوگا

*

جو بے حساب کرم ہے ترا تو محشر میں

گناہ گاروں کا یارب حساب کیا ہوگا

*

علی(ع) وصیٔ نبی(ص) ہیں علی(ع) ولیٔ خدا

یہ لاجواب ہیں ان کا جواب کیا ہوگا

*

لحد نے کی تو ہیں تیاریاں فشار کی آج

جو آئیں بہرِ مدد بوتراب(ع) کیا ہوگا

*

تڑپ کے مر گئے بچے حسین(ع) کے پیاسے

جہاں میں لاکھ یہ برسے سحاب کیا ہوگا

*

حرم(ع) رسول(ص) کے دربارِ عام میں ہوں کھڑے

اب اس سے بڑھ کے بھلا انقلاب کیا ہوگا

*

ملی ہے مجھ کو شجاعت علی(ع) کے صدقے میں

شجیع اور جہاں میں خطاب کیا ہوگا

***

۱۸

(۲)

جہانِ ظلم سے اصغر(ع) بھی مسکراکے چلے

بجھانے آئے تھے پیاس اور تیر کھا کے چلے

*

حسینیوں (ع) کے بھی کیسے بڑھے ہوئے دل تھے

قریب آئی جو منزل قدم بڑھا کے چلے

*

علم بدوش تھے لشکر کی جان تھے عباس(ع)

بہ زورِ تیغ زمیں آسماں ہلا کے چلے

*

علی(ع) کے شیر(ع) تھے ہاتھ اپنے کردیئے صدقے

خدا کی راہ میں دنیا سے ہاتھ اٹھا کے چلے

*

حسین(ع) کو جو سکینہ(ع) وغا میں یاد آئی

پلٹ کے خیمہ میں آئے گلے لگا کے چلے

*

چلے جو تشنہ لبِ کربلا سوئے کوثر

لبِ فرات چراغِ وفا جلا کے چلے

*

اسی لئے علی اکبر(ع) جہاں میں آئے تھے

علی(ع) کی شان شبابِ نبی(ص) دکھا کے چلے

*

۱۹

دلوں پہ داغ عزیزوں کے بازوئوں میں رسن

عجیب شان سے مہمان کربلا کے چلے

*

قبولیت کی سند بھی چلے شجیع کے ساتھ

سلام روضۂ اقدس پہ جب سنا کے چلے

***

۲۰