• ابتداء
  • پچھلا
  • 95 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36487 / ڈاؤنلوڈ: 3217
سائز سائز سائز
علقمہ کےساحل پر

علقمہ کےساحل پر

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

شفیق لکھنوی اُمّی ہیں

پیارے صاحب رشید کے چہیتے شاگردوں میں شمار ہے صاحبِ دیوان ہیں ۔

لکھنو کے اُمّی شعراءسید احمد حسین شفیق لکھنوی عرف ننھو

(۱)

کربلا کے دشت میں یوں شاہ(ع) کا ماتم رہا

خاک اڑائی دن نے شب کو گریۂ شبنم رہا

*

ذوالفقارِ شاہ(ع) کہتی تھی بڑی عابد ہوں میں

دشمنوں سے جنگ کرنے میں مرا سر خم رہا

*

تم بھی انصارِ شہ(ع) دیں زندۂ جاوید ہو

بعد مر جانے کے تم میں تا قیامت دم رہا

*

سربلندوں کے جدا کرتی ہے سر شمشیرِ شاہ(ع)

دیکھتی جاتی ہے مڑ مڑ کے کہ کس میں دم رہا

*

خونِ ناحق کی شہادت دے گا وہ روزِ جزا

خونِ اصغر(ع) حرملہ کے تیر میں جو جم رہا

*

اندمالِ زخمِ شاہ(ع) دیں ہے منظورِ نظر

اس لئے آنکھوں میں میری اشک کا مرہم رہا

*

۲۱

کہتا تھا دریا کہ ان کے تر تو ہوں زخمِ جگر

عکس سے عباس(ع) کے آب رواں یوں تھم رہا

*

اور خاصانِ خدا گذرے ہیں عالم میں شفیق

تا قیامت اک حسین(ع) ابنِ علی(ع) کا غم رہا

***

۲۲

(۲)

دیواں ہوا مرتب دیکھے گا اک زمانہ

ان پڑھ ہوں میں الٰہی عزت مری بچانا

*

اک لفظِ کن سے تیرا ہر چیز کا بنانا

جیسا کہ تو ہے خالق ویسا ہے کارخانہ

*

یکتا ہے تو بھی خالق تیرا نبی(ص) یگانا

دنیا میں جس سے پایا اسلام نے ٹھکانا

*

سب منکروں کے ہاتھوں وہ ظلم کا اٹھانا

یہ اس کا قاعدہ تھا اخلاق کا بتانا

*

تیرا پیام لے کر ہر سمت اس کو جانا

تو دوست تھا الٰہی دشمن تھا اک زمانہ

*

ایسے نبی(ص) کا یارب ایسا وصی(ع) بنانا

جس کو امامِ(ع) اوّل کہنے لگا زمانہ

*

بچوں میں یہ علی(ع) کے تھا فعلِ عاشقانہ

دے دے کے اپنی جانیں اسلام کو بچانا

*

۲۳

ان سب نے منکروں کا ستھرائو کردیا ہے

کفار کو تھا مشکل جانوں کا بھی بچانا

*

ان کو ہی تو نے دی تھی ایسی صفت الٰہی

ہر دم جہاد کرکے کفارّ کو دبانا

*

ایمان کے چمن میں یہ معجزہ ہے ظاہر

نامِ کریم ُسن کر کلیوں کا پھول جانا

*

ایماں کے جوہیں بلبل وہ کررہے ہیں کوشش

اپنا بنا رہے جنت میں آشیانا

*

ان کی زباں کی قوت زائد ہو یا الٰہی

اسلام کا ہے ڈنکا بلبل کا چہچانا

*

انساں ہو یا کہ طائر آباد رکھنا ان کو

پڑھتے ہیں ہر چمن میں جو تیرا ہے فسانا

*

ان پڑھ شفیق یارب آیا ہے تیرے در پر

یہ ہو اثر سخن میں اچھا کہے زمانا

***

۲۴

(۳)

رہ گئے تنہا تو طعنہ زن ستمگر ہوگئے

شاہ(ع) کو زخمِ زباں سب شکلِ نشتر ہوگئے

*

بحرِ غم میں غرق یہ ایسے بہتّر ہوگئے

کشتیٔ اسلام کے مضبوط لنگر ہوگئے

*

رونے والے شاہ(ع) کے کہنے لگے روزِ جزا

آنسوئوں نے یہ ترقی کی کہ گوہر ہوگئے

*

ان کے باعث سے بڑی اسلام میں رونق ہوئی

جو بہتّر فدیۂ دینِ پیمبر(ص) ہوگئے

*

کہتی تھی زینب(ع) ابھی عون(ع) و محمد(ع) طفل ہیں

جنگ میں پہلے پہل کیسے دلاور ہوگئے

*

ننگے سر دیکھا جو آلِ(ع) مصطفی(ص) کو راہ میں

خاک سے اٹھ کر بگولے شکلِ چادر ہوگئے

*

حضرتِ اصغر(ع) کے مرنے میں عجب اعجاز تھا

جان دے کر یہ بزرگوں کے برابر ہوگئے

*

۲۵

کہتی تھی بانو(ص) علی اکبر(ع) سے شادی ہو کہیں

اب جواں نامِ خدا تم جانِ مادر ہوگئے

*

شہ(ع) کے صدقے میں گنہ گاروں کو بخشے گا خدا

جس قدر بگڑے تھے وہ سیدھے مقدر ہوگئے

*

یاد تو ہوں گی تجھے دستِ خدا کی قوتیں

کس قدر ٹکڑتے ترے اے بابِ خیبر ہوگئے

*

یہ عقیدہ ہے مرا میں صاف کہتا ہوں شفیق

باوفا عالم میں عباس(ع) دلاور ہوگئے

***

۲۶

محمد سعید شفیق بریلوی

یہ کون شخص ہے کیسا دکھائی دیتا ہے

کہ جو بھی دیکھے ہی، اپنا دکھائی دیتا ہے

*

ہے کتنی صدیوں کا گرد و غبار چہرہ پر

یہ مہر پھر بھی چمکتا دکھائی دیتا ہے

*

جو کام آنہ سکا چند تشنہ کاموں کے

ہمیں وہ نام کا دریا دکھائی دیتا ہے

*

کسی کو خوں کی ضرورت کسی کو پانی کی

جسے بھی دیکھو وہ پیاسا دکھائی دیتا ہے

*

نہ جانے خیمہ میں یہ کیسے لوگ بیٹھے ہیں

کہ شمع گل ہے ، اُجالا دکھائی دیتا ہے

*

ہیں اس گھرانے کے سب لوگ ایک قامت کے

کہ جو بھی آتا ہے اونچا دکھائی دیتا ہے

*

کوئی علیؑ کے ہے خوابوں کی ہو بہو تعبیر

کوئی نبی(ص) کا سراپا دکھائی دیتا ہے

*

نہ کچھ تھکن کے ہیں آثار اور نہ موت کا ڈر

ہر ایک چہرہ شگفتہ دکھائی دیتا ہے

*

۲۷

عجیب شان ہے ان چند مرنے والوں کی

کہ زرد موت کا چہرہ دکھائی دیتا ہے

*

لرز رہے ہیں عدو، دیکھو ذوالفقار نہ ہو

ہمیں تو ہاتھوں پہ ّبچہ دکھائی دیتا ہے

*

نہ جانے کیوں اسے بیمار لوگ کہتے ہیں

ہمیں یہ شخص مسیحا دکھائی دیتا ہے

*

شفیق کس کا کرم ہے کہ تیری قسمت کا

بلندیوں پہ ستارا دکھائی دیتا ہے

***

۲۸

شکیل بدایونی

نظر وابستۂ ماہِ محرّم ہوتی جاتی ہے

سلامی بزمِ ہستی بزمِ ماتم ہوتی جاتی ہے

*

طبیعت خود بہ خود دلداۂ غم ہوتی جاتی ہے

صدائے دل صدائے سوزِ ماتم ہوتی جاتی ہے

*

ہوائے دہر کی خوں نابہ افشانی ارے توبہ

خزاں بر کف بہارِ بزمِ عالم ہوتی جاتی ہے

*

اُدھر صرفِ ستم گیسو بریدہ فوجِ شامی ہے

اِدھر تیغِ برہنہ اور برہم ہوتی جاتی ہے

*

ہر اک روحِ جفا ہے خود جفاکار و جفاپیشہ

بلا شک داخلِ قعرِ جہنم ہوتی جاتی ہے

*

شہادت جس کو مدت سے سرافرازی کا ارماں تھا

وہ اب پابوسِ محبوبِ دو عالم ہوتی جاتی ہے

*

حسینِ(ع) پاک کی گردن پہ خنجر چلتا جاتا ہے

مکمل داستانِ جورِ پیہم ہوتی جاتی ہے

*

خمِ تیغِ قضا محرابِ کعبہ ہے نگاہوں میں

جبینِ شوق سجدوں کے لئے خم ہوتی جاتی ہے

*

۲۹

خدا شاہد کہ اس ایثار و قربانی کے صدقے میں

خدائی واقفِ رازِ دو عالم ہوتی جاتی ہے

*

زمینِ کربلا کے اُف وہ ہیبت ناک نظارے

دلوں سے قدرِ محشر واقعی کم ہوتی جاتی ہے

*

حریفانِ علی(ع) وعدہ خلافی کرتے جاتے ہیں

عداوت، جزو خوئے ابنِ آدم ہوتی جاتی ہے

*

مئے کوثر پلاتے ہیں جنابِ مصطفی(ص) شاید

علی اصغر(ع) کے رونے کی صدا کم ہوتی جاتی ہے

*

ستم کوشانِ بزدل شیربن بن کر بپھرتے ہیں

دلیروں کی جماعت جس قدر کم ہوتی جاتی ہے

*

ترانے عشق کے اتنے ہی دلکش ہوتے جاتے ہیں

صدائے سازِ ہستی جتنی مدھم ہوتی جاتی ہے

*

جہاں پر جتنے اسرارِ شہادت ُکھلتے جاتے ہیں

شریعت اور محکم اور محکم ہوتی جاتی ہے

*

شکیل اسلام کے دشمن مٹے اور مٹتے جاتے ہیں

یہ قربانی مسلم تھی مسلم ہوتی جاتی ہے

***

۳۰

شمیم امروہوی

(۱)

سلامی جاں گزا ہے رنج وغم خاصانِ داور کا

قلق سبطین(ع) کا ، زہرا(ص) کا، حیدر(ع) کا، پیمبر(ص) کا

*

سدا ُشہرہ رہے گا جود و خلق و زورِ حیدر(ع) کا

قطار و شیر و انگشتر کا، در کا، روح کے َپر کا

*

علی(ع) کی تیغ کے دم سے ہوا ہر معرکہ فیصل

احد کا، بدرکا، صفین کا، خندق کا، خیبر کا

*

یہ پانچوں سورے اے دل، پنجتن(ع) کی شان میں آئے

قمرکا ، شمس کا ، رحمان کا ، مریم(ع) کا ، کوثر کا

*

فدائے شاہ(ع) ہوکر حر(ع) نی، کس کس کا شرف پایا

اویس(ع) و زید(ع) کا ، عمار(ع) کا ، سلماں (ع) کا بوذر(ع) کا

*

نشاں مٹ کر وفاداری میں کیسا نام نکلا ہے

زہیر(ع) و مسلم(ع) و وہب(ع) و حبیب(ع) و حر(ع) صفدر(ع) کا

*

غلامِ پنجتن(ع) کو ڈر نہیں ان پانچوں چیزوں کا

اجل کا، جاں کنی کا، قبر کا، برزخ کا، محشر کا

*

ِملا ہے رونے والوں کو ثواب اک کا آہ کیا کیا

صلٰوۃ و صوم کا خمس و زکوٰۃ و حجِّ اکبر کا

۳۱

*

سوائے تشنگی شبیر(ع) کو ایک ایک صدمہ تھا

بھتیجوں بھانجوں کا ، بھائی کا ، اکبر(ع) کا ، اصغر(ع) کا

*

برابر زخم پر ہے زخم ، شہ(ع) کے جسمِ اطہر پر

تبر کا ، تیر کا ، تلوار کا ، نیزے کا ، خنجر کا

*

غضب ہے اتنے صدمے ایک جانِ خواہرِ شہ(ع) پر

ردا کا، قید کا، بچوں کا، اکبر(ع) کا، برادر(ع) کا

*

سکینہ(ع) لے گئی یہ پانچ داغ اس باغِ عالم سے

طمانچوں کا، رسن کا، باپ کا، عمّو کا، گوہر کا

*

تڑپ کے کہتی تھی بانو(ع)، کروں کس کا کا میں ماتم

جواں کا، طفل کا، داماد کا، دختر کا، شوہر کا

*

قیامت ہے نئی بیاہی سہے بچپن میں کیا کیا غم

پدر کا بھائی کا گھر کا رنڈاپے کا کھلے سر کا

*

تہِ خنجر امامِ پاک کو کس کس کا دھیان آیا

بہن کا، بیٹی کا بیمار کا، امت کا ، محضر کا

*

تپِ ہجراں میں جلنے کو چراغ اک رہ گیا باقی

نبی(ص) و فاطمہ(ص) کا حیدر(ع) و شبیر(ع) و شبر(ع) کا

*

شمیم اس کلمۂ وحدت کا ہر دم دھیان رکھتا ہے

میں بندہ ایک کا دو تین کا نو کا اکہتر کا

***

۳۲

(۲)

حیاتِ دو جہاں رسول(ص)

نصیبِ این و آں حسین(ع)

جہاں جہاں جہاں رسول(ص)

وہاں وہاں وہاں حسین(ع)

*

لب و نظر کی زیب و زین

حدیثِ شاہ(ص) مشرقین

حسین(ع) کی زباں رسول(ص)

رسول(ص) کی زباں حسین(ع)

*

انہیں کا فیض جا بجا

بساطِ خشک و تر ہے کیا

فروغِ ہر زماں رسول(ص)

مکینِ ہر مکاں حسین(ع)

*

روش روش ہے لالہ زار

ہر ایک گل سدا بہار

بنائے گلستاں رسول(ص)

بہارِ بے خزاں حسین(ع)

*

۳۳

حرم زمینِ ابتلا

بلا زمینِ کربلا

یہاں کے آسماں رسول(ص)

وہاں کے آسماں حسین(ع)

*

ہر اک نظر ہر اک نگاہ

شہودِ حق کی جلوہ گاہ

خدا کے رازداں رسول(ص)

نبی(ص) کے رازداں حسین(ع)

*

سوالِ بولہب شدید

سوالِ سخت تر یزید

جواب میں وہاں رسول(ص)

جواب میں یہاں حسین(ع)

*

شمیم غم گسار پر

یہ فیض کردگار کر

کرم ہی مہرباں رسول(ص)

کرم ہی جانِ جاں حسین(ع)

***

۳۴

(۳)

چراغِ خانۂ زہرا(ص) دکھائی دیتا ہے

وہ ظلمتوں میں اُجالا دکھائی دیتا ہے

*

جو اہلِ بیت(ع) کے در پر لگا رہا برسوں

اسی غلاف میں کعبہ دکھائی دیتا ہے

*

نشانِ دینِ پیمبر(ص) ہے آپ کا دامن

فضا میں سبز پھریرا دکھائی دیتا ہے

*

اگر شرائط صلحِ حسن(ع) پہ غور کرو

حدیبیہ کا سا نقشہ دکھائی دیتا ہے

*

بقائے دین کی کوشش رسول(ص) کا کردار

اس ایک صلح میں کیا کیا دکھائی دیتا ہے

*

پلا رہا ہے جو محشر میں جام کوثر کے

وہ تین روز کا پیاسا دکھائی دیتا ہے

*

مدد کو آئو کہ وقتِ مدد ہے اے مولا

شمیم آپ کا تنہا دکھائی دیتا ہے

***

۳۵

منظور حسین شور

یہ سلسلہ ہے اٹل دینِ مصطفی کے لئے

علی نبی کے لئے ہیں نبی خدا کے لئے

*

میانِ باطل و حق زحمتِ تمیز بھی کر

یہ رہگذار ترستی ہے نقشِ پا کے لئے

*

وہ جس کا وقت کی تاریخ میں ہے نام حسین

وہ استعارۂ وحدت ہے کبریا کے لئے

*

علی کا ذکر عبادت ہے بے رکوع و سجود

کہ سمت و جہت ضروری نہیں ہوا کے لئے

*

سقیفہ بند ہو ایماں کہ شام کا بازار

جواز کوئی تو ہو خونِ کربلا کے لئے

*

تھیں برقعہ پوش سبھی دخترانِ کوفہ و شام

نہ تھی ردا تو فقط بنتِ فاطمہ کے لئے

***

۳۶

شورش کاشمیری

(۲)

سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں

جس نے اولادِ پیمبر کا تماشا دیکھا

*

جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں

جس نے لختِ دل حیدر کو تڑپتا دیکھا

*

برسرِ عام سکینہ کی نقابیں الٹیں

لشکرِ حیدر کرار کو لٹتا دیکھا

*

اُمِّ کلثوم کے چہرے پہ طمانچے مارے

شام میں زنیب و صغریٰ کا تماشا دیکھا

*

شہ کونین کی بیٹی کا جگر چاک کیا

سبطِ پیغمبرِ اسلام کا لاشا دیکھا

*

دیدۂ قاسم و عباس کے آنسو لوٹے

قلب پر عابد بیمار کے چرکا دیکھا

*

توڑ کر اکبر و اصغر کی رگوں پر خنجر

جورِ دوراں کا بہیمانہ تماشا دیکھا

*

۳۷

بھائی کی نعش سے ہمشیر لپٹ کر روئی

فوج کے سامنے شبیر کو تنہا دیکھا

*

پھاڑ کے گنبدِ خضریٰ کے مکیں کا پرچم

عرش سے فرش تلک حشر کا نقشا دیکھا

*

قلبِ اسلام میں صدمات کے خنجر بھونکے

کربلا میں کفِ قاتل کا تماشا دیکھا

*

ابوسفیان کے پوتے کی غلامی کرلی

خود فرشتوں کو دِنایت سے پنپتا دیکھا

*

اے میری قوم ترے حسنِ کمالات کی خیر

تو نے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشا دیکھا

*

یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے اب سوچنے دے

کوئی تیرا بھی خدا ہے مجھے اب سوچنے دے

***

۳۸

(۲)

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حسین

بسکہ تھا لختِ دلِ حیدر کرار حسین

*

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم

وادیٔ نجد میں اسلام کی للکار حسین

*

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو

اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین

*

ابوسفیان کے پوتے کی جہانبانی میں

عزتِ خواجۂ گیہاں کا نگہدار حسین

*

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور

عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حسین

*

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا

حق کی آواز صداقت کا طرفدار حسین

*

وائے یہ جور جگر گوشۂ زہرا کے لئے

ہائے نیزے کی انی پر ہے جگر دار حسین

*

۳۹

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی

ہر زمانے کے لئے دعوتِ ایثار حسین

*

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے

دورِ حاضر کے یزیدوں سے ہے دو چار حسین

***

۴۰

مرزا محمد اشفاق شوق لکھنوی

(۱)

جس سے ماتم سرِ بازار نہیں ہو سکتا

وہ کبھی شہ کا عزادار نہیں ہو سکتا

*

غمِ سرور میں جو زنجیر پہن لیتا ہے

وہ مصائب میں گرفتار نہیں ہو سکتا

*

دستِ شبیر سے جیسا سرِ بیعت پہ ہوا

ایسا کونین میں اب وار نہیں ہو سکتا

*

زیب دیتا نہیں میثم کا حوالہ اس کو

ذکرِ حق جس سے سرِ دار نہیں ہو سکتا

*

دشمنِ شہ کے بنیں دوست برائے دنیا

حق پسندوں کا یہ کردار نہیں ہو سکتا

*

چشم و ابرو ہی سے اظہارِ برأت کردے

تو اگر برسرِ پیکار نہیں ہو سکتا

*

’’غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہوکر’’

آپ سے کہہ دیا سو بار نہیں ہو سکتا

*

۴۱

سلسلہ مدح کا محشر کی سحر سے مل جائے

ذکرِ عباس جری بار نہیں ہو سکتا

*

چشمِ عرفاں سے ذرا دیکھ تو سوئے درگاہ

اس سے بہتر کوئی دربار نہیں ہو سکتا

*

جس کو تقدیسِ علم کا نہیں احساس وہ شخص

مدحِ عباس کا حق دار نہیں ہو سکتا

*

شیر آتا ہے سوئے نہر کہو اعدا سے

اب کوئی راہ کی دیوار نہیں ہو سکتا

*

رعبِ حیدر کی قسم خسروِ اقلیم جلال

کوئی بھی مثلِ علمدار نہیں ہو سکتا

*

جس کو باطل کے اندھیروں میں سکوں ملتا ہے

وہ کبھی حق کا طرفدار نہیں ہو سکتا

*

روزِ محشر کوئی اے شوق بجز بنتِ رسول

میرے اشکوں کا خریدار نہیں ہو سکتا

***

۴۲

(۲)

رو رہے تھے خوف سے جس رات تم غاروں کے بیچ

چین سے اس رات ہم سوئے ہیں تلواروں کے بیچ

*

مدحِ حیدر میں قصیدے دوستانِ اہلِ بیت

دار کے منبر سے پڑھتے ہیں ستم گاروں کے بیچ

*

اب تو ان لوگوں کا کچھ نام و نشاں ملتا نہیں

جو چنا کرتے تھے ہم لوگوں کو دیواروں کے بیچ

*

مل کے پیشانی پہ اپنی خاکِ پائے بو تراب

سرخ رو رہتے ہیں ہم دنیا میں زرداروں کے بیچ

*

محفلِ اعمال میں ہے یوں ولائے اہلِ بیت

ماہِ کامل ضوفشاں ہو جس طرح تاروں کے بیچ

*

ہو مبارک آئے دنیا میں حسین ابنِ علی

مغفرت کا ذکر ہوتا ہے گنہ گاروں کے بیچ

*

کیا عزاداری کو روکیں گی ستم کی آندھیاں

ہم علم لے کر چلے جاتے ہیں انگاروں کے بیچ

*

۴۳

آبروئے دیں بچانے کو علی ابن الحسین

ہتھکڑی پہنے ہوئے آئے ہیں بازاروں کے بیچ

*

شوق یہ ہے مختصر سی اپنی رودادِ حیات

زندگی ماتم میں گزری ہے عزاداروں کے بیچ

***

۴۴

(۳)

فکرِ رساٝ زبانِ قلم ہو ُبسانِ تیغ

لکھنا ہے مجھ کو مدحِ علی داستانِ تیغ

*

خود اپنے ہاتھوں لٹ گئے سودا گرانِ تیغ

جب لیلتہ اُلہریر میں چمکی دکانِ تیغ

*

ہیں زندگی سے سیر جو تشنہ لبانِ تیغ

پانی انہیں پلاتی ہے جوئے روانِ تیغ

*

لاسیف برزبانِ ملک مدحِ ذوالفقار

یہ سورۂ حدید نہیں ہے بیانِ تیغ

*

دوشِ نبیٔ پہ نقشِ کفِ پائے مرتضیٰ

جبریل کے پروں پہ ملے گا نشانِ تیغ

*

کیا دستِ مرتضیٰ کی صفائی کا ہو بیاں

ہوتے ہیں دنگ دیکھ کے کاریگرانِ تیغ

*

تقسیمِ جسم میں بھی عدالت ہے برقرار

مرحب کو آکے دیکھ لیں خود منصفانِ تیغ

*

۴۵

دیکھیں کلیم قوتِ بازوئے حیدری

ہیں سجدہ ریز پیشِ خدا ساحرانِ تیغ

*

اصلاب دیکھ دیکھ کے چلتی ہے جنگ میں

ہوتا ہے یوں بہ دستِ خدا امتحانِ تیغ

*

قبضے پہ ذوالفقار کے حیدر کا ہاتھ ہے

دستِ خدا جہاں میں ہے شایانِ شانِ تیغ

*

خود دشمنانِ تیغ گلے اپنے کاٹ لیں

گر مدحِ ذوالفقار کریں دوستانِ تیغ

*

دشمن کوزیر کرتے ہیں میدانِ جنگ میں

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیدہ ورانِ تیغ

*

خنجر کی دھار پر بھی ثنائے علی رہی

میثم کی طرح کون ہوا خوش بیانِ تیغ

*

عباس اور شبیہ پیمبر ہوئے شہید

ابنِ حسن کے تن پہ ِکھلا گلستانِ تیغ

*

اپنے گلوں کو رکھ دیا خنجر کی دھار پر

اسلام کو ِجلا گئے یہ عاشقانِ تیغ

۴۶

*

ان کو نہ ہوگی زلزلۂ حشر کی خبر

دشتِ بلا میں سوگئے جو کشتگانِ تیغ

*

محشر سے پہلے حشر بپا ہوگا دہر میں

جب ہوگی دستِ مہدی دیں میں عنانِ تیغ

*

اک روز الٹ کے پردۂ غیبت کو آئے گا

کب تک سنے گا جانِ محمد فغانِ تیغ

*

شوق انتقامِ خونِ شہیداں کے واسطے

باقی ابھی زمین پہ ہے آسمانِ تیغ

***

۴۷

(۴)

بزمِ رسول پاک میں بوذر سے منہ کی کھائی

میدان میں گئے تو غضنفر سے منہ کی کھائی

*

ایماں کے مرتبوں کا اگر ذکر آگیا

سلماں سے منہ کی کھائی ابوذر سے منہ کی کھائی

*

حیران مشرکین تھے کعبے میں تھے علی

جب قفل کھولنے کو چلے در سے منہ کی کھائی

*

حیدر ہیں محوِ خواب کسی کو خبر نہ تھی

کفار نے رسول کے بستر سے منہ کی کھائی

*

مرحب کو اپنے نام پہ بے حد گھمنڈ تھا

جب آیا رزم گاہ میں حیدر سے منہ کی کھائی

*

جب آئے بحث کرنے کو روزِ مبابلہ

نصرانیوں نے آلِ پیمبر سے منہ کی کھائی

*

اترا درِ علی پہ ستارہ دمِ سحر

وہ دیکھئے نجوم نے اختر سے منہ کی کھائی

*

پلٹا علی کے ایک اشارے پہ آفتاب

یا دشمنوں نے مہرِ منور سے منہ کی کھائی

*

۴۸

حیدر کے در کو چھوڑ کے جو راستہ چلا

دنیا و آخرت میں ہر اک در سے منہ کی کھائی

*

دنیا میں اہلبیت کے دشمن رہے ذلیل

محشر کے روز شافعِ محشر سے منہ کی کھائی

*

میزاں پہ روزِ حشر عجب معرکہ ہوا

عصیاں نے میرے مدح کے دفتر سے منہ کی کھائی

*

دیوان روزِ حشر نہ جنت دلا سکے

سب شاعروں نے شہ کے سخنور سے منہ کی کھائی

*

ہر معرکہ حسین کے صدقے میں سر ہوا

ہر مرحلے نے الفتِ حیدر سے منہ کی کھائی

*

دن حشر کا گزر گیا طوبیٰ کے سائے میں

اور تشنگی نے چشمۂ کوثر سے منہ کی کھائی

*

دنیا سے جو بھی دشمنیٔ آل لے گیا

اے شوق اُس نے شافعِ محشر سے منہ کی کھائی

***

۴۹

(۵)

وہ جن رستوں سے گزرے وہ جوابِ کہکشاں ٹھہرے

وہیں جنت سمٹ آئی مرے مولا جہاں ٹھہرے

*

بتا منکر محمد جب نہیں کیوں یہ جہاں ٹھہرے

یہ کن قدموں کی برکت سے زمین و آسماں ٹھہرے

*

زمیں سے پوچھ لو فیضان ان آنکھوں کے چشموں کا

وہیں گلشن بنا ڈالا جہاں اُبلے جہاں ٹھہرے

*

میں جب سمجھوں محبت ربطِ باہم جب بڑھے اتنا

وہ لیں گر امتحاں میرا خود ان کا امتحاں ٹھہرے

*

محبت کر تو لی ان سے مگر ہر دم یہ دھڑکا ہے

کہیں ایسا نہ ہو سعیٔ تمنا رائگاں ٹھہرے

*

نہ کہہ پائی زباں جو راز وہ اشکوں نے کہہ ڈالا

مرے آنسو ترے آگے نرالے ترجماں ٹھہرے

*

نہ ان کا ذکر ہو جس میں نہ خونِ دل سے ّ لکھی ہو

بھلا کس طرح ممکن ہے وہ میری داستاں ٹھہرے

*

چلی ہے عزمِ کامل کے سہارے ڈھونڈنے ان کو

نگاہِ جستجو اللہ جانے اب کہاں ٹھہرے

*

۵۰

منور عرش تک ہو پرتوِ رخسار سے جس کے

نہ پھر کیوں نقشِ پا اس کا چراغِ آسماں ٹھہرے

*

کبھی فطرت پہ قدرت باپ دکھلائے کبھی بیٹا

کہیں برسیں گھٹائیں اور کہیں آبِ رواں ٹھہرے

*

سن اے بے معرفت زاہد امامت کی نگاہوں میں

مرے آنسو تری ساری عبادت سے گراں ٹھہرے

*

زمیں ان کی زماں ان کا غرض سارا جہاں اُن کا

نہیں حق ان کے دشمن کو کہ وہ آکر یہاں ٹھہرے

*

وہی ہیں مالکِ جنت وہی ہیں مالکِ کوثر

جگہ دشمن کی ہے دوزخ وہ بس جاکر وہاں ٹھہرے

*

جبینِ شوق میں اے کاش یہ تاثیر پیدا ہو

جہاں بھی سر جھکا دوں بس وہیں پرآستاں ٹھہرے

***

۵۱

شوکت تھانوی

دردِ حسرت اور ہے صحرائے غربت اور ہے

رنج سب کے اور ہیں شہ کی مصیبت اور ہے

*

خاک و خوں میں لوٹتا ہے ایک شاہ تشنہ کام

کربلا کیا اب بھی دل میں کچھ کدورت اور ہے

*

اک مسافر سے زمانہ برسرِ پیکار ہے

کیا ستم کی اس سے بڑھ کر بھی کدورت اور ہے

*

ہاتھ کرتے ہو قلم تھوڑے سے پانی کے لئے

ظالموں اس سے بھی بڑھ کر کیا شقاوت اور ہے

*

آگئے عون و محمد رن میں ماں کو چھوڑ کر

کیا کسی کمسن کے دل میں اتنی جرأت اور ہے

*

ظاہرا مظلوم سے معلوم ہوتے ہیں حسین

غور سے دیکھے جو کوئی تو حقیقت اور ہے

*

ملکِ دنیا سے کہیں پائندۂ ہے ملکِ بقا

باغِ شدّاد اور ہے گلزارِ جنت اور ہے

*

شمر ُیوں غربت زدہ سے کوئی لڑتا ہے کبھی

اے ستم ایجاد ہمت کر کہ ہمت اور ہے

۵۲

*

حر تمہیں رن کی طرف کچھ اور بڑھنا چاہیے

سامنے ہے خلد تھوڑی سی مسافت اور ہے

*

خارزارِ کربلا ہے آج تک دنیائے دوں

ہو بہو عالم وہی ہے صرف صورت اور ہے

*

جانشیں شمرِلعیں کے ہیں بہت سے آج بھی

جانشینِ شاہ کی ہم کو ضرورت اور ہے

***

۵۳

مرزا شوکت حسین شوکت لکھنوی

شوکت لکھنوی اُمّی شعرائ میں سے ہیں پہلے ضمیر کاظمی لکھنوی اور اس کے بعد سروش الہ آبادی کو کلام برائے اصلاح دکھایالکھنو کے اُمّی شعراء

دل کو گر آلِ نبی کی مہربانی چاہیے

میثم تمار کی سی زندگانی چاہیے

*

دین کہتا ہے نجف سے مجھ کو قوت تو ملی

کربلا سے اب حیاتِ جادوانی چاہیے

*

غیظ میں عباس یہ کہتے چلے سوئے فرات

میں ہوں سقاّئے سکینہ مجھ کو پانی چاہیے

*

دشمنوں کے بیچ میں اسلام کی تبلیغ کو

زینب و کلثوم کی سی حق بیانی چاہیے

*

ظالموں کی شورشوں کا زور ڈھانے کے لئے

اصغر معصوم ایسی بے زبانی چاہیے

*

ڈوب جائے جس میں باطل اور جل جائے ستم

ایسی گرم و تیز اشکوں کی روانی چاہیے

*

۵۴

اُمِّ لیلیٰ چاہتی ہیں بخش دیں اپنی حیات

موت جب کہتی ہے اکبر کی جوانی چاہیے

*

تونے کیا سمجھی نہیں تھی بے زباں بچے کی بات

حرملہ پیکاں نہیں اصغر کو پانی چاہیے

*

شاعری سے عاقبت شوکت بنانے کے لئے

اہلِ بیتِ مصطفیٰ کی مدح خوانی چاہیے

***

۵۵

شہاب کاظمی

(۱)

ایک ہے انسان ایسا سارے انسانوں کے بیچ

جس طرح ر ّکھی ہوئی ہو شمع پروانوں کے بیچ

*

ہم سے پوچھو ہم بتائیں گے وفا کیا چیز ہے

زندگی ہم نے گزاری ہے عزائ خانوں کے بیچ

*

وہ مدینہ ہو کہ مشہد کربلا ہو کہ نجف

ایک ہی جلوہ ہے سارے آئینہ خانوں کے بیچ

*

اس کو کیا کہئے جسے ہو عصمتِ مرسل پہ شک

بات یہ رکھتا ہوں میں سارے مسلمانوں کے بیچ

*

منزل انفس پہ یہ آئیں نبی کے ساتھ اگر

صورتِ مطلق نکل آتی ہے امکانوں کے بیچ

*

خونِ ناحق ہے جبینوں سے عیاں ہو جائے گا

انگلیاں ہر چند رکھیں لوگ دستانوں کے بیچ

*

اک امامت پر نہیں ہے منحصر جورِ یزید

کٹ گئے دَورِ امامت کتنے زندانوں کے بیچ

*

۵۶

کربلا والوں کی پیاس اے محتسب ہم سے نہ پوچھ

آج بھی آتی ہے آوازِ عطش کانوں کے بیچ

*

روشنی فانوس میں ہوتی ہے جیسے جلوہ گر

یوں غمِ شبیر ہے دل کے نہاں خانوں کے بیچ

*

مان لوں کیسے عرب مہماں نوازی میں تھے فرد

تین دن کی پیاس ہے کوفے کے مہمانوں کے بیچ

*

اِس قدر شاید نہ ہوتا دکھ رسول اللہ کو

قتل ہوجاتے اگر شبیر بیگانوں کے بیچ

*

یہ بتانے کو کہ دیکھو ایسے ہوتے ہیں رفیق

شمع گل کرتے ہیں شاہِ دین پروانوں کے بیچ

*

ظلمتوں میں رہنے والوں کو یہ دعوت عام ہے

روشنی آکر ذرا دیکھیں عزاخانوں کے بیچ

*

دوسروں پر نکتہ چینی کی یہ پہلی شرط ہے

پہلے دیکھیں جھانک کر اپنے گریبانوں کے بیچ

*

یہ صلہ ہے مدحتِ شہ کا کہ اپنا بھی ِشہاب

احتراماً نام آتا ہے سخن دانوں کے بیچ

***

۵۷

(۲)

منافقت کے جو پردے اٹھا کے دیکھتے ہیں

علی کی ذات میں جلوے خدا کے دیکھتے ہیں

*

ہر ایک حال میں ہیں ہم علی کے شیدائی

وہ اور لوگ ہیں جو رخ ہوا کے دیکھتے ہیں

*

مزا ہے نیند کا کیا بسترِ پیمبر پر

علی یہ جان کی بازی لگا کے دیکھتے ہیں

*

شجاعتِ بنِ ود کی سنیں جو تعریفیں

علی نے ہنس کے کہا ہم بھی جا کے دیکھتے ہیں

*

سنا یہ جبکہ گراں بار ہے درِ خیبر

کہا علی نے کہ اچھا اٹھا کے دیکھتے ہیں

*

ہوا کسی سے نہ جب فتح قلعۂ خیبر

نبی نے سوچا علی کو بلا کے دیکھتے ہیں

*

بہت سے لوگ ہیں ہم لوگ جن کی صورت سے

’’منافقون’’ کی سورت ِملا کے دیکھتے ہیں

*

۵۸

حضور خامہ و قرطاس کے حوالے سے

رفیق کیسے ہیں یہ آزما کے دیکھتے ہیں

*

ہے کون اپنا پرایا ہے کون محفل میں

علی کے نام کا نعرہ لگا کے دیکھتے ہیں

*

یہ کیسا دعویٔ الفت ہے جس کو چاہتے ہیں

اسی کی ذات میں پہلو خطا کے دیکھتے ہیں

*

سوائے عیب انہیں کچھ نظر نہیں آتا

یہ لوگ کون سی عینک لگا کے دیکھتے ہیں

*

اُحد کی جنگ کا منظر نظر میں ہے شاید

چراغ اس لئے سرور بجھا کے دیکھتے ہیں

*

ستارے کیسے سجاتے ہیں لوگ پلکوں پر

ملک یہ مجلسِ سرور میں آکے دیکھتے ہیں

*

حسین کیسے اٹھاتے ہیں لاش اکبر کی

خلیل عرش سے تشریف لا کے دیکھتے ہیں

*

سخن شناسوں کی محفل ہے جب کسی نے کہا

کہا ِشہاب نے منبر پہ جا کے دیکھتے ہیں

***

۵۹

(۳)

الفتِ حیدر سے ہے دل میں تماشا اور کچھ

زندگانی اور شئے ٹھہری ہے مرنا اور کچھ

*

ِگھر کے طوفاں میں کہا جب یا علی مُشکلکشا

لاکے ساحل پر ہمیں موجوں نے پوچھا اور کچھ

*

سنتے ہی نامِ علی وہ اٹھ گیا اچھا ہوا

بیٹھتا کچھ دیر محفل میں تو سنتا اور کچھ

*

لیکے بخشش کی سند ہم شرم سے چپ رہ گئے

ورنہ رضواں تو برابر پوچھتا تھا اور کچھ

*

ہم سے کہتے ہیں کہ ہم بھی اُس کی سنت پر چلیں

جس نے فرمانِ نبی رد کرکے مانا اور کچھ

*

کیوں نہ آجاتی شبِ ہجرت علی کو گہری نیند

چھائوں میں تیغوں کی سونے کا مزا تھا اور کچھ

*

یہ بھی انکارِ غدیرِ خم سے ثابت ہوگیا

دل میں تھا اسلام لے آنے کا منشائ اور کچھ

*

وہ تو یہ کہئے نہ دی اِذنِ وغا عباس کو

کَربلا کا ورنہ ہوجانا تھا نقشا اور کچھ

*

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95