• ابتداء
  • پچھلا
  • 95 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32783 / ڈاؤنلوڈ: 2574
سائز سائز سائز
علقمہ کےساحل پر

علقمہ کےساحل پر

مؤلف:
اردو

مرزا محمد اشفاق شوق لکھنوی

(۱)

جس سے ماتم سرِ بازار نہیں ہو سکتا

وہ کبھی شہ کا عزادار نہیں ہو سکتا

*

غمِ سرور میں جو زنجیر پہن لیتا ہے

وہ مصائب میں گرفتار نہیں ہو سکتا

*

دستِ شبیر سے جیسا سرِ بیعت پہ ہوا

ایسا کونین میں اب وار نہیں ہو سکتا

*

زیب دیتا نہیں میثم کا حوالہ اس کو

ذکرِ حق جس سے سرِ دار نہیں ہو سکتا

*

دشمنِ شہ کے بنیں دوست برائے دنیا

حق پسندوں کا یہ کردار نہیں ہو سکتا

*

چشم و ابرو ہی سے اظہارِ برأت کردے

تو اگر برسرِ پیکار نہیں ہو سکتا

*

’’غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہوکر’’

آپ سے کہہ دیا سو بار نہیں ہو سکتا

*

۴۱

سلسلہ مدح کا محشر کی سحر سے مل جائے

ذکرِ عباس جری بار نہیں ہو سکتا

*

چشمِ عرفاں سے ذرا دیکھ تو سوئے درگاہ

اس سے بہتر کوئی دربار نہیں ہو سکتا

*

جس کو تقدیسِ علم کا نہیں احساس وہ شخص

مدحِ عباس کا حق دار نہیں ہو سکتا

*

شیر آتا ہے سوئے نہر کہو اعدا سے

اب کوئی راہ کی دیوار نہیں ہو سکتا

*

رعبِ حیدر کی قسم خسروِ اقلیم جلال

کوئی بھی مثلِ علمدار نہیں ہو سکتا

*

جس کو باطل کے اندھیروں میں سکوں ملتا ہے

وہ کبھی حق کا طرفدار نہیں ہو سکتا

*

روزِ محشر کوئی اے شوق بجز بنتِ رسول

میرے اشکوں کا خریدار نہیں ہو سکتا

***

۴۲

(۲)

رو رہے تھے خوف سے جس رات تم غاروں کے بیچ

چین سے اس رات ہم سوئے ہیں تلواروں کے بیچ

*

مدحِ حیدر میں قصیدے دوستانِ اہلِ بیت

دار کے منبر سے پڑھتے ہیں ستم گاروں کے بیچ

*

اب تو ان لوگوں کا کچھ نام و نشاں ملتا نہیں

جو چنا کرتے تھے ہم لوگوں کو دیواروں کے بیچ

*

مل کے پیشانی پہ اپنی خاکِ پائے بو تراب

سرخ رو رہتے ہیں ہم دنیا میں زرداروں کے بیچ

*

محفلِ اعمال میں ہے یوں ولائے اہلِ بیت

ماہِ کامل ضوفشاں ہو جس طرح تاروں کے بیچ

*

ہو مبارک آئے دنیا میں حسین ابنِ علی

مغفرت کا ذکر ہوتا ہے گنہ گاروں کے بیچ

*

کیا عزاداری کو روکیں گی ستم کی آندھیاں

ہم علم لے کر چلے جاتے ہیں انگاروں کے بیچ

*

۴۳

آبروئے دیں بچانے کو علی ابن الحسین

ہتھکڑی پہنے ہوئے آئے ہیں بازاروں کے بیچ

*

شوق یہ ہے مختصر سی اپنی رودادِ حیات

زندگی ماتم میں گزری ہے عزاداروں کے بیچ

***

۴۴

(۳)

فکرِ رساٝ زبانِ قلم ہو ُبسانِ تیغ

لکھنا ہے مجھ کو مدحِ علی داستانِ تیغ

*

خود اپنے ہاتھوں لٹ گئے سودا گرانِ تیغ

جب لیلتہ اُلہریر میں چمکی دکانِ تیغ

*

ہیں زندگی سے سیر جو تشنہ لبانِ تیغ

پانی انہیں پلاتی ہے جوئے روانِ تیغ

*

لاسیف برزبانِ ملک مدحِ ذوالفقار

یہ سورۂ حدید نہیں ہے بیانِ تیغ

*

دوشِ نبیٔ پہ نقشِ کفِ پائے مرتضیٰ

جبریل کے پروں پہ ملے گا نشانِ تیغ

*

کیا دستِ مرتضیٰ کی صفائی کا ہو بیاں

ہوتے ہیں دنگ دیکھ کے کاریگرانِ تیغ

*

تقسیمِ جسم میں بھی عدالت ہے برقرار

مرحب کو آکے دیکھ لیں خود منصفانِ تیغ

*

۴۵

دیکھیں کلیم قوتِ بازوئے حیدری

ہیں سجدہ ریز پیشِ خدا ساحرانِ تیغ

*

اصلاب دیکھ دیکھ کے چلتی ہے جنگ میں

ہوتا ہے یوں بہ دستِ خدا امتحانِ تیغ

*

قبضے پہ ذوالفقار کے حیدر کا ہاتھ ہے

دستِ خدا جہاں میں ہے شایانِ شانِ تیغ

*

خود دشمنانِ تیغ گلے اپنے کاٹ لیں

گر مدحِ ذوالفقار کریں دوستانِ تیغ

*

دشمن کوزیر کرتے ہیں میدانِ جنگ میں

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیدہ ورانِ تیغ

*

خنجر کی دھار پر بھی ثنائے علی رہی

میثم کی طرح کون ہوا خوش بیانِ تیغ

*

عباس اور شبیہ پیمبر ہوئے شہید

ابنِ حسن کے تن پہ ِکھلا گلستانِ تیغ

*

اپنے گلوں کو رکھ دیا خنجر کی دھار پر

اسلام کو ِجلا گئے یہ عاشقانِ تیغ

۴۶

*

ان کو نہ ہوگی زلزلۂ حشر کی خبر

دشتِ بلا میں سوگئے جو کشتگانِ تیغ

*

محشر سے پہلے حشر بپا ہوگا دہر میں

جب ہوگی دستِ مہدی دیں میں عنانِ تیغ

*

اک روز الٹ کے پردۂ غیبت کو آئے گا

کب تک سنے گا جانِ محمد فغانِ تیغ

*

شوق انتقامِ خونِ شہیداں کے واسطے

باقی ابھی زمین پہ ہے آسمانِ تیغ

***

۴۷

(۴)

بزمِ رسول پاک میں بوذر سے منہ کی کھائی

میدان میں گئے تو غضنفر سے منہ کی کھائی

*

ایماں کے مرتبوں کا اگر ذکر آگیا

سلماں سے منہ کی کھائی ابوذر سے منہ کی کھائی

*

حیران مشرکین تھے کعبے میں تھے علی

جب قفل کھولنے کو چلے در سے منہ کی کھائی

*

حیدر ہیں محوِ خواب کسی کو خبر نہ تھی

کفار نے رسول کے بستر سے منہ کی کھائی

*

مرحب کو اپنے نام پہ بے حد گھمنڈ تھا

جب آیا رزم گاہ میں حیدر سے منہ کی کھائی

*

جب آئے بحث کرنے کو روزِ مبابلہ

نصرانیوں نے آلِ پیمبر سے منہ کی کھائی

*

اترا درِ علی پہ ستارہ دمِ سحر

وہ دیکھئے نجوم نے اختر سے منہ کی کھائی

*

پلٹا علی کے ایک اشارے پہ آفتاب

یا دشمنوں نے مہرِ منور سے منہ کی کھائی

*

۴۸

حیدر کے در کو چھوڑ کے جو راستہ چلا

دنیا و آخرت میں ہر اک در سے منہ کی کھائی

*

دنیا میں اہلبیت کے دشمن رہے ذلیل

محشر کے روز شافعِ محشر سے منہ کی کھائی

*

میزاں پہ روزِ حشر عجب معرکہ ہوا

عصیاں نے میرے مدح کے دفتر سے منہ کی کھائی

*

دیوان روزِ حشر نہ جنت دلا سکے

سب شاعروں نے شہ کے سخنور سے منہ کی کھائی

*

ہر معرکہ حسین کے صدقے میں سر ہوا

ہر مرحلے نے الفتِ حیدر سے منہ کی کھائی

*

دن حشر کا گزر گیا طوبیٰ کے سائے میں

اور تشنگی نے چشمۂ کوثر سے منہ کی کھائی

*

دنیا سے جو بھی دشمنیٔ آل لے گیا

اے شوق اُس نے شافعِ محشر سے منہ کی کھائی

***

۴۹

(۵)

وہ جن رستوں سے گزرے وہ جوابِ کہکشاں ٹھہرے

وہیں جنت سمٹ آئی مرے مولا جہاں ٹھہرے

*

بتا منکر محمد جب نہیں کیوں یہ جہاں ٹھہرے

یہ کن قدموں کی برکت سے زمین و آسماں ٹھہرے

*

زمیں سے پوچھ لو فیضان ان آنکھوں کے چشموں کا

وہیں گلشن بنا ڈالا جہاں اُبلے جہاں ٹھہرے

*

میں جب سمجھوں محبت ربطِ باہم جب بڑھے اتنا

وہ لیں گر امتحاں میرا خود ان کا امتحاں ٹھہرے

*

محبت کر تو لی ان سے مگر ہر دم یہ دھڑکا ہے

کہیں ایسا نہ ہو سعیٔ تمنا رائگاں ٹھہرے

*

نہ کہہ پائی زباں جو راز وہ اشکوں نے کہہ ڈالا

مرے آنسو ترے آگے نرالے ترجماں ٹھہرے

*

نہ ان کا ذکر ہو جس میں نہ خونِ دل سے ّ لکھی ہو

بھلا کس طرح ممکن ہے وہ میری داستاں ٹھہرے

*

چلی ہے عزمِ کامل کے سہارے ڈھونڈنے ان کو

نگاہِ جستجو اللہ جانے اب کہاں ٹھہرے

*

۵۰

منور عرش تک ہو پرتوِ رخسار سے جس کے

نہ پھر کیوں نقشِ پا اس کا چراغِ آسماں ٹھہرے

*

کبھی فطرت پہ قدرت باپ دکھلائے کبھی بیٹا

کہیں برسیں گھٹائیں اور کہیں آبِ رواں ٹھہرے

*

سن اے بے معرفت زاہد امامت کی نگاہوں میں

مرے آنسو تری ساری عبادت سے گراں ٹھہرے

*

زمیں ان کی زماں ان کا غرض سارا جہاں اُن کا

نہیں حق ان کے دشمن کو کہ وہ آکر یہاں ٹھہرے

*

وہی ہیں مالکِ جنت وہی ہیں مالکِ کوثر

جگہ دشمن کی ہے دوزخ وہ بس جاکر وہاں ٹھہرے

*

جبینِ شوق میں اے کاش یہ تاثیر پیدا ہو

جہاں بھی سر جھکا دوں بس وہیں پرآستاں ٹھہرے

***

۵۱

شوکت تھانوی

دردِ حسرت اور ہے صحرائے غربت اور ہے

رنج سب کے اور ہیں شہ کی مصیبت اور ہے

*

خاک و خوں میں لوٹتا ہے ایک شاہ تشنہ کام

کربلا کیا اب بھی دل میں کچھ کدورت اور ہے

*

اک مسافر سے زمانہ برسرِ پیکار ہے

کیا ستم کی اس سے بڑھ کر بھی کدورت اور ہے

*

ہاتھ کرتے ہو قلم تھوڑے سے پانی کے لئے

ظالموں اس سے بھی بڑھ کر کیا شقاوت اور ہے

*

آگئے عون و محمد رن میں ماں کو چھوڑ کر

کیا کسی کمسن کے دل میں اتنی جرأت اور ہے

*

ظاہرا مظلوم سے معلوم ہوتے ہیں حسین

غور سے دیکھے جو کوئی تو حقیقت اور ہے

*

ملکِ دنیا سے کہیں پائندۂ ہے ملکِ بقا

باغِ شدّاد اور ہے گلزارِ جنت اور ہے

*

شمر ُیوں غربت زدہ سے کوئی لڑتا ہے کبھی

اے ستم ایجاد ہمت کر کہ ہمت اور ہے

۵۲

*

حر تمہیں رن کی طرف کچھ اور بڑھنا چاہیے

سامنے ہے خلد تھوڑی سی مسافت اور ہے

*

خارزارِ کربلا ہے آج تک دنیائے دوں

ہو بہو عالم وہی ہے صرف صورت اور ہے

*

جانشیں شمرِلعیں کے ہیں بہت سے آج بھی

جانشینِ شاہ کی ہم کو ضرورت اور ہے

***

۵۳

مرزا شوکت حسین شوکت لکھنوی

شوکت لکھنوی اُمّی شعرائ میں سے ہیں پہلے ضمیر کاظمی لکھنوی اور اس کے بعد سروش الہ آبادی کو کلام برائے اصلاح دکھایالکھنو کے اُمّی شعراء

دل کو گر آلِ نبی کی مہربانی چاہیے

میثم تمار کی سی زندگانی چاہیے

*

دین کہتا ہے نجف سے مجھ کو قوت تو ملی

کربلا سے اب حیاتِ جادوانی چاہیے

*

غیظ میں عباس یہ کہتے چلے سوئے فرات

میں ہوں سقاّئے سکینہ مجھ کو پانی چاہیے

*

دشمنوں کے بیچ میں اسلام کی تبلیغ کو

زینب و کلثوم کی سی حق بیانی چاہیے

*

ظالموں کی شورشوں کا زور ڈھانے کے لئے

اصغر معصوم ایسی بے زبانی چاہیے

*

ڈوب جائے جس میں باطل اور جل جائے ستم

ایسی گرم و تیز اشکوں کی روانی چاہیے

*

۵۴

اُمِّ لیلیٰ چاہتی ہیں بخش دیں اپنی حیات

موت جب کہتی ہے اکبر کی جوانی چاہیے

*

تونے کیا سمجھی نہیں تھی بے زباں بچے کی بات

حرملہ پیکاں نہیں اصغر کو پانی چاہیے

*

شاعری سے عاقبت شوکت بنانے کے لئے

اہلِ بیتِ مصطفیٰ کی مدح خوانی چاہیے

***

۵۵

شہاب کاظمی

(۱)

ایک ہے انسان ایسا سارے انسانوں کے بیچ

جس طرح ر ّکھی ہوئی ہو شمع پروانوں کے بیچ

*

ہم سے پوچھو ہم بتائیں گے وفا کیا چیز ہے

زندگی ہم نے گزاری ہے عزائ خانوں کے بیچ

*

وہ مدینہ ہو کہ مشہد کربلا ہو کہ نجف

ایک ہی جلوہ ہے سارے آئینہ خانوں کے بیچ

*

اس کو کیا کہئے جسے ہو عصمتِ مرسل پہ شک

بات یہ رکھتا ہوں میں سارے مسلمانوں کے بیچ

*

منزل انفس پہ یہ آئیں نبی کے ساتھ اگر

صورتِ مطلق نکل آتی ہے امکانوں کے بیچ

*

خونِ ناحق ہے جبینوں سے عیاں ہو جائے گا

انگلیاں ہر چند رکھیں لوگ دستانوں کے بیچ

*

اک امامت پر نہیں ہے منحصر جورِ یزید

کٹ گئے دَورِ امامت کتنے زندانوں کے بیچ

*

۵۶

کربلا والوں کی پیاس اے محتسب ہم سے نہ پوچھ

آج بھی آتی ہے آوازِ عطش کانوں کے بیچ

*

روشنی فانوس میں ہوتی ہے جیسے جلوہ گر

یوں غمِ شبیر ہے دل کے نہاں خانوں کے بیچ

*

مان لوں کیسے عرب مہماں نوازی میں تھے فرد

تین دن کی پیاس ہے کوفے کے مہمانوں کے بیچ

*

اِس قدر شاید نہ ہوتا دکھ رسول اللہ کو

قتل ہوجاتے اگر شبیر بیگانوں کے بیچ

*

یہ بتانے کو کہ دیکھو ایسے ہوتے ہیں رفیق

شمع گل کرتے ہیں شاہِ دین پروانوں کے بیچ

*

ظلمتوں میں رہنے والوں کو یہ دعوت عام ہے

روشنی آکر ذرا دیکھیں عزاخانوں کے بیچ

*

دوسروں پر نکتہ چینی کی یہ پہلی شرط ہے

پہلے دیکھیں جھانک کر اپنے گریبانوں کے بیچ

*

یہ صلہ ہے مدحتِ شہ کا کہ اپنا بھی ِشہاب

احتراماً نام آتا ہے سخن دانوں کے بیچ

***

۵۷

(۲)

منافقت کے جو پردے اٹھا کے دیکھتے ہیں

علی کی ذات میں جلوے خدا کے دیکھتے ہیں

*

ہر ایک حال میں ہیں ہم علی کے شیدائی

وہ اور لوگ ہیں جو رخ ہوا کے دیکھتے ہیں

*

مزا ہے نیند کا کیا بسترِ پیمبر پر

علی یہ جان کی بازی لگا کے دیکھتے ہیں

*

شجاعتِ بنِ ود کی سنیں جو تعریفیں

علی نے ہنس کے کہا ہم بھی جا کے دیکھتے ہیں

*

سنا یہ جبکہ گراں بار ہے درِ خیبر

کہا علی نے کہ اچھا اٹھا کے دیکھتے ہیں

*

ہوا کسی سے نہ جب فتح قلعۂ خیبر

نبی نے سوچا علی کو بلا کے دیکھتے ہیں

*

بہت سے لوگ ہیں ہم لوگ جن کی صورت سے

’’منافقون’’ کی سورت ِملا کے دیکھتے ہیں

*

۵۸

حضور خامہ و قرطاس کے حوالے سے

رفیق کیسے ہیں یہ آزما کے دیکھتے ہیں

*

ہے کون اپنا پرایا ہے کون محفل میں

علی کے نام کا نعرہ لگا کے دیکھتے ہیں

*

یہ کیسا دعویٔ الفت ہے جس کو چاہتے ہیں

اسی کی ذات میں پہلو خطا کے دیکھتے ہیں

*

سوائے عیب انہیں کچھ نظر نہیں آتا

یہ لوگ کون سی عینک لگا کے دیکھتے ہیں

*

اُحد کی جنگ کا منظر نظر میں ہے شاید

چراغ اس لئے سرور بجھا کے دیکھتے ہیں

*

ستارے کیسے سجاتے ہیں لوگ پلکوں پر

ملک یہ مجلسِ سرور میں آکے دیکھتے ہیں

*

حسین کیسے اٹھاتے ہیں لاش اکبر کی

خلیل عرش سے تشریف لا کے دیکھتے ہیں

*

سخن شناسوں کی محفل ہے جب کسی نے کہا

کہا ِشہاب نے منبر پہ جا کے دیکھتے ہیں

***

۵۹

(۳)

الفتِ حیدر سے ہے دل میں تماشا اور کچھ

زندگانی اور شئے ٹھہری ہے مرنا اور کچھ

*

ِگھر کے طوفاں میں کہا جب یا علی مُشکلکشا

لاکے ساحل پر ہمیں موجوں نے پوچھا اور کچھ

*

سنتے ہی نامِ علی وہ اٹھ گیا اچھا ہوا

بیٹھتا کچھ دیر محفل میں تو سنتا اور کچھ

*

لیکے بخشش کی سند ہم شرم سے چپ رہ گئے

ورنہ رضواں تو برابر پوچھتا تھا اور کچھ

*

ہم سے کہتے ہیں کہ ہم بھی اُس کی سنت پر چلیں

جس نے فرمانِ نبی رد کرکے مانا اور کچھ

*

کیوں نہ آجاتی شبِ ہجرت علی کو گہری نیند

چھائوں میں تیغوں کی سونے کا مزا تھا اور کچھ

*

یہ بھی انکارِ غدیرِ خم سے ثابت ہوگیا

دل میں تھا اسلام لے آنے کا منشائ اور کچھ

*

وہ تو یہ کہئے نہ دی اِذنِ وغا عباس کو

کَربلا کا ورنہ ہوجانا تھا نقشا اور کچھ

*

۶۰