• ابتداء
  • پچھلا
  • 95 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36493 / ڈاؤنلوڈ: 3218
سائز سائز سائز
علقمہ کےساحل پر

علقمہ کےساحل پر

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مرزا محمد اشفاق شوق لکھنوی

(۱)

جس سے ماتم سرِ بازار نہیں ہو سکتا

وہ کبھی شہ کا عزادار نہیں ہو سکتا

*

غمِ سرور میں جو زنجیر پہن لیتا ہے

وہ مصائب میں گرفتار نہیں ہو سکتا

*

دستِ شبیر سے جیسا سرِ بیعت پہ ہوا

ایسا کونین میں اب وار نہیں ہو سکتا

*

زیب دیتا نہیں میثم کا حوالہ اس کو

ذکرِ حق جس سے سرِ دار نہیں ہو سکتا

*

دشمنِ شہ کے بنیں دوست برائے دنیا

حق پسندوں کا یہ کردار نہیں ہو سکتا

*

چشم و ابرو ہی سے اظہارِ برأت کردے

تو اگر برسرِ پیکار نہیں ہو سکتا

*

’’غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہوکر’’

آپ سے کہہ دیا سو بار نہیں ہو سکتا

*

۴۱

سلسلہ مدح کا محشر کی سحر سے مل جائے

ذکرِ عباس جری بار نہیں ہو سکتا

*

چشمِ عرفاں سے ذرا دیکھ تو سوئے درگاہ

اس سے بہتر کوئی دربار نہیں ہو سکتا

*

جس کو تقدیسِ علم کا نہیں احساس وہ شخص

مدحِ عباس کا حق دار نہیں ہو سکتا

*

شیر آتا ہے سوئے نہر کہو اعدا سے

اب کوئی راہ کی دیوار نہیں ہو سکتا

*

رعبِ حیدر کی قسم خسروِ اقلیم جلال

کوئی بھی مثلِ علمدار نہیں ہو سکتا

*

جس کو باطل کے اندھیروں میں سکوں ملتا ہے

وہ کبھی حق کا طرفدار نہیں ہو سکتا

*

روزِ محشر کوئی اے شوق بجز بنتِ رسول

میرے اشکوں کا خریدار نہیں ہو سکتا

***

۴۲

(۲)

رو رہے تھے خوف سے جس رات تم غاروں کے بیچ

چین سے اس رات ہم سوئے ہیں تلواروں کے بیچ

*

مدحِ حیدر میں قصیدے دوستانِ اہلِ بیت

دار کے منبر سے پڑھتے ہیں ستم گاروں کے بیچ

*

اب تو ان لوگوں کا کچھ نام و نشاں ملتا نہیں

جو چنا کرتے تھے ہم لوگوں کو دیواروں کے بیچ

*

مل کے پیشانی پہ اپنی خاکِ پائے بو تراب

سرخ رو رہتے ہیں ہم دنیا میں زرداروں کے بیچ

*

محفلِ اعمال میں ہے یوں ولائے اہلِ بیت

ماہِ کامل ضوفشاں ہو جس طرح تاروں کے بیچ

*

ہو مبارک آئے دنیا میں حسین ابنِ علی

مغفرت کا ذکر ہوتا ہے گنہ گاروں کے بیچ

*

کیا عزاداری کو روکیں گی ستم کی آندھیاں

ہم علم لے کر چلے جاتے ہیں انگاروں کے بیچ

*

۴۳

آبروئے دیں بچانے کو علی ابن الحسین

ہتھکڑی پہنے ہوئے آئے ہیں بازاروں کے بیچ

*

شوق یہ ہے مختصر سی اپنی رودادِ حیات

زندگی ماتم میں گزری ہے عزاداروں کے بیچ

***

۴۴

(۳)

فکرِ رساٝ زبانِ قلم ہو ُبسانِ تیغ

لکھنا ہے مجھ کو مدحِ علی داستانِ تیغ

*

خود اپنے ہاتھوں لٹ گئے سودا گرانِ تیغ

جب لیلتہ اُلہریر میں چمکی دکانِ تیغ

*

ہیں زندگی سے سیر جو تشنہ لبانِ تیغ

پانی انہیں پلاتی ہے جوئے روانِ تیغ

*

لاسیف برزبانِ ملک مدحِ ذوالفقار

یہ سورۂ حدید نہیں ہے بیانِ تیغ

*

دوشِ نبیٔ پہ نقشِ کفِ پائے مرتضیٰ

جبریل کے پروں پہ ملے گا نشانِ تیغ

*

کیا دستِ مرتضیٰ کی صفائی کا ہو بیاں

ہوتے ہیں دنگ دیکھ کے کاریگرانِ تیغ

*

تقسیمِ جسم میں بھی عدالت ہے برقرار

مرحب کو آکے دیکھ لیں خود منصفانِ تیغ

*

۴۵

دیکھیں کلیم قوتِ بازوئے حیدری

ہیں سجدہ ریز پیشِ خدا ساحرانِ تیغ

*

اصلاب دیکھ دیکھ کے چلتی ہے جنگ میں

ہوتا ہے یوں بہ دستِ خدا امتحانِ تیغ

*

قبضے پہ ذوالفقار کے حیدر کا ہاتھ ہے

دستِ خدا جہاں میں ہے شایانِ شانِ تیغ

*

خود دشمنانِ تیغ گلے اپنے کاٹ لیں

گر مدحِ ذوالفقار کریں دوستانِ تیغ

*

دشمن کوزیر کرتے ہیں میدانِ جنگ میں

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیدہ ورانِ تیغ

*

خنجر کی دھار پر بھی ثنائے علی رہی

میثم کی طرح کون ہوا خوش بیانِ تیغ

*

عباس اور شبیہ پیمبر ہوئے شہید

ابنِ حسن کے تن پہ ِکھلا گلستانِ تیغ

*

اپنے گلوں کو رکھ دیا خنجر کی دھار پر

اسلام کو ِجلا گئے یہ عاشقانِ تیغ

۴۶

*

ان کو نہ ہوگی زلزلۂ حشر کی خبر

دشتِ بلا میں سوگئے جو کشتگانِ تیغ

*

محشر سے پہلے حشر بپا ہوگا دہر میں

جب ہوگی دستِ مہدی دیں میں عنانِ تیغ

*

اک روز الٹ کے پردۂ غیبت کو آئے گا

کب تک سنے گا جانِ محمد فغانِ تیغ

*

شوق انتقامِ خونِ شہیداں کے واسطے

باقی ابھی زمین پہ ہے آسمانِ تیغ

***

۴۷

(۴)

بزمِ رسول پاک میں بوذر سے منہ کی کھائی

میدان میں گئے تو غضنفر سے منہ کی کھائی

*

ایماں کے مرتبوں کا اگر ذکر آگیا

سلماں سے منہ کی کھائی ابوذر سے منہ کی کھائی

*

حیران مشرکین تھے کعبے میں تھے علی

جب قفل کھولنے کو چلے در سے منہ کی کھائی

*

حیدر ہیں محوِ خواب کسی کو خبر نہ تھی

کفار نے رسول کے بستر سے منہ کی کھائی

*

مرحب کو اپنے نام پہ بے حد گھمنڈ تھا

جب آیا رزم گاہ میں حیدر سے منہ کی کھائی

*

جب آئے بحث کرنے کو روزِ مبابلہ

نصرانیوں نے آلِ پیمبر سے منہ کی کھائی

*

اترا درِ علی پہ ستارہ دمِ سحر

وہ دیکھئے نجوم نے اختر سے منہ کی کھائی

*

پلٹا علی کے ایک اشارے پہ آفتاب

یا دشمنوں نے مہرِ منور سے منہ کی کھائی

*

۴۸

حیدر کے در کو چھوڑ کے جو راستہ چلا

دنیا و آخرت میں ہر اک در سے منہ کی کھائی

*

دنیا میں اہلبیت کے دشمن رہے ذلیل

محشر کے روز شافعِ محشر سے منہ کی کھائی

*

میزاں پہ روزِ حشر عجب معرکہ ہوا

عصیاں نے میرے مدح کے دفتر سے منہ کی کھائی

*

دیوان روزِ حشر نہ جنت دلا سکے

سب شاعروں نے شہ کے سخنور سے منہ کی کھائی

*

ہر معرکہ حسین کے صدقے میں سر ہوا

ہر مرحلے نے الفتِ حیدر سے منہ کی کھائی

*

دن حشر کا گزر گیا طوبیٰ کے سائے میں

اور تشنگی نے چشمۂ کوثر سے منہ کی کھائی

*

دنیا سے جو بھی دشمنیٔ آل لے گیا

اے شوق اُس نے شافعِ محشر سے منہ کی کھائی

***

۴۹

(۵)

وہ جن رستوں سے گزرے وہ جوابِ کہکشاں ٹھہرے

وہیں جنت سمٹ آئی مرے مولا جہاں ٹھہرے

*

بتا منکر محمد جب نہیں کیوں یہ جہاں ٹھہرے

یہ کن قدموں کی برکت سے زمین و آسماں ٹھہرے

*

زمیں سے پوچھ لو فیضان ان آنکھوں کے چشموں کا

وہیں گلشن بنا ڈالا جہاں اُبلے جہاں ٹھہرے

*

میں جب سمجھوں محبت ربطِ باہم جب بڑھے اتنا

وہ لیں گر امتحاں میرا خود ان کا امتحاں ٹھہرے

*

محبت کر تو لی ان سے مگر ہر دم یہ دھڑکا ہے

کہیں ایسا نہ ہو سعیٔ تمنا رائگاں ٹھہرے

*

نہ کہہ پائی زباں جو راز وہ اشکوں نے کہہ ڈالا

مرے آنسو ترے آگے نرالے ترجماں ٹھہرے

*

نہ ان کا ذکر ہو جس میں نہ خونِ دل سے ّ لکھی ہو

بھلا کس طرح ممکن ہے وہ میری داستاں ٹھہرے

*

چلی ہے عزمِ کامل کے سہارے ڈھونڈنے ان کو

نگاہِ جستجو اللہ جانے اب کہاں ٹھہرے

*

۵۰

منور عرش تک ہو پرتوِ رخسار سے جس کے

نہ پھر کیوں نقشِ پا اس کا چراغِ آسماں ٹھہرے

*

کبھی فطرت پہ قدرت باپ دکھلائے کبھی بیٹا

کہیں برسیں گھٹائیں اور کہیں آبِ رواں ٹھہرے

*

سن اے بے معرفت زاہد امامت کی نگاہوں میں

مرے آنسو تری ساری عبادت سے گراں ٹھہرے

*

زمیں ان کی زماں ان کا غرض سارا جہاں اُن کا

نہیں حق ان کے دشمن کو کہ وہ آکر یہاں ٹھہرے

*

وہی ہیں مالکِ جنت وہی ہیں مالکِ کوثر

جگہ دشمن کی ہے دوزخ وہ بس جاکر وہاں ٹھہرے

*

جبینِ شوق میں اے کاش یہ تاثیر پیدا ہو

جہاں بھی سر جھکا دوں بس وہیں پرآستاں ٹھہرے

***

۵۱

شوکت تھانوی

دردِ حسرت اور ہے صحرائے غربت اور ہے

رنج سب کے اور ہیں شہ کی مصیبت اور ہے

*

خاک و خوں میں لوٹتا ہے ایک شاہ تشنہ کام

کربلا کیا اب بھی دل میں کچھ کدورت اور ہے

*

اک مسافر سے زمانہ برسرِ پیکار ہے

کیا ستم کی اس سے بڑھ کر بھی کدورت اور ہے

*

ہاتھ کرتے ہو قلم تھوڑے سے پانی کے لئے

ظالموں اس سے بھی بڑھ کر کیا شقاوت اور ہے

*

آگئے عون و محمد رن میں ماں کو چھوڑ کر

کیا کسی کمسن کے دل میں اتنی جرأت اور ہے

*

ظاہرا مظلوم سے معلوم ہوتے ہیں حسین

غور سے دیکھے جو کوئی تو حقیقت اور ہے

*

ملکِ دنیا سے کہیں پائندۂ ہے ملکِ بقا

باغِ شدّاد اور ہے گلزارِ جنت اور ہے

*

شمر ُیوں غربت زدہ سے کوئی لڑتا ہے کبھی

اے ستم ایجاد ہمت کر کہ ہمت اور ہے

۵۲

*

حر تمہیں رن کی طرف کچھ اور بڑھنا چاہیے

سامنے ہے خلد تھوڑی سی مسافت اور ہے

*

خارزارِ کربلا ہے آج تک دنیائے دوں

ہو بہو عالم وہی ہے صرف صورت اور ہے

*

جانشیں شمرِلعیں کے ہیں بہت سے آج بھی

جانشینِ شاہ کی ہم کو ضرورت اور ہے

***

۵۳

مرزا شوکت حسین شوکت لکھنوی

شوکت لکھنوی اُمّی شعرائ میں سے ہیں پہلے ضمیر کاظمی لکھنوی اور اس کے بعد سروش الہ آبادی کو کلام برائے اصلاح دکھایالکھنو کے اُمّی شعراء

دل کو گر آلِ نبی کی مہربانی چاہیے

میثم تمار کی سی زندگانی چاہیے

*

دین کہتا ہے نجف سے مجھ کو قوت تو ملی

کربلا سے اب حیاتِ جادوانی چاہیے

*

غیظ میں عباس یہ کہتے چلے سوئے فرات

میں ہوں سقاّئے سکینہ مجھ کو پانی چاہیے

*

دشمنوں کے بیچ میں اسلام کی تبلیغ کو

زینب و کلثوم کی سی حق بیانی چاہیے

*

ظالموں کی شورشوں کا زور ڈھانے کے لئے

اصغر معصوم ایسی بے زبانی چاہیے

*

ڈوب جائے جس میں باطل اور جل جائے ستم

ایسی گرم و تیز اشکوں کی روانی چاہیے

*

۵۴

اُمِّ لیلیٰ چاہتی ہیں بخش دیں اپنی حیات

موت جب کہتی ہے اکبر کی جوانی چاہیے

*

تونے کیا سمجھی نہیں تھی بے زباں بچے کی بات

حرملہ پیکاں نہیں اصغر کو پانی چاہیے

*

شاعری سے عاقبت شوکت بنانے کے لئے

اہلِ بیتِ مصطفیٰ کی مدح خوانی چاہیے

***

۵۵

شہاب کاظمی

(۱)

ایک ہے انسان ایسا سارے انسانوں کے بیچ

جس طرح ر ّکھی ہوئی ہو شمع پروانوں کے بیچ

*

ہم سے پوچھو ہم بتائیں گے وفا کیا چیز ہے

زندگی ہم نے گزاری ہے عزائ خانوں کے بیچ

*

وہ مدینہ ہو کہ مشہد کربلا ہو کہ نجف

ایک ہی جلوہ ہے سارے آئینہ خانوں کے بیچ

*

اس کو کیا کہئے جسے ہو عصمتِ مرسل پہ شک

بات یہ رکھتا ہوں میں سارے مسلمانوں کے بیچ

*

منزل انفس پہ یہ آئیں نبی کے ساتھ اگر

صورتِ مطلق نکل آتی ہے امکانوں کے بیچ

*

خونِ ناحق ہے جبینوں سے عیاں ہو جائے گا

انگلیاں ہر چند رکھیں لوگ دستانوں کے بیچ

*

اک امامت پر نہیں ہے منحصر جورِ یزید

کٹ گئے دَورِ امامت کتنے زندانوں کے بیچ

*

۵۶

کربلا والوں کی پیاس اے محتسب ہم سے نہ پوچھ

آج بھی آتی ہے آوازِ عطش کانوں کے بیچ

*

روشنی فانوس میں ہوتی ہے جیسے جلوہ گر

یوں غمِ شبیر ہے دل کے نہاں خانوں کے بیچ

*

مان لوں کیسے عرب مہماں نوازی میں تھے فرد

تین دن کی پیاس ہے کوفے کے مہمانوں کے بیچ

*

اِس قدر شاید نہ ہوتا دکھ رسول اللہ کو

قتل ہوجاتے اگر شبیر بیگانوں کے بیچ

*

یہ بتانے کو کہ دیکھو ایسے ہوتے ہیں رفیق

شمع گل کرتے ہیں شاہِ دین پروانوں کے بیچ

*

ظلمتوں میں رہنے والوں کو یہ دعوت عام ہے

روشنی آکر ذرا دیکھیں عزاخانوں کے بیچ

*

دوسروں پر نکتہ چینی کی یہ پہلی شرط ہے

پہلے دیکھیں جھانک کر اپنے گریبانوں کے بیچ

*

یہ صلہ ہے مدحتِ شہ کا کہ اپنا بھی ِشہاب

احتراماً نام آتا ہے سخن دانوں کے بیچ

***

۵۷

(۲)

منافقت کے جو پردے اٹھا کے دیکھتے ہیں

علی کی ذات میں جلوے خدا کے دیکھتے ہیں

*

ہر ایک حال میں ہیں ہم علی کے شیدائی

وہ اور لوگ ہیں جو رخ ہوا کے دیکھتے ہیں

*

مزا ہے نیند کا کیا بسترِ پیمبر پر

علی یہ جان کی بازی لگا کے دیکھتے ہیں

*

شجاعتِ بنِ ود کی سنیں جو تعریفیں

علی نے ہنس کے کہا ہم بھی جا کے دیکھتے ہیں

*

سنا یہ جبکہ گراں بار ہے درِ خیبر

کہا علی نے کہ اچھا اٹھا کے دیکھتے ہیں

*

ہوا کسی سے نہ جب فتح قلعۂ خیبر

نبی نے سوچا علی کو بلا کے دیکھتے ہیں

*

بہت سے لوگ ہیں ہم لوگ جن کی صورت سے

’’منافقون’’ کی سورت ِملا کے دیکھتے ہیں

*

۵۸

حضور خامہ و قرطاس کے حوالے سے

رفیق کیسے ہیں یہ آزما کے دیکھتے ہیں

*

ہے کون اپنا پرایا ہے کون محفل میں

علی کے نام کا نعرہ لگا کے دیکھتے ہیں

*

یہ کیسا دعویٔ الفت ہے جس کو چاہتے ہیں

اسی کی ذات میں پہلو خطا کے دیکھتے ہیں

*

سوائے عیب انہیں کچھ نظر نہیں آتا

یہ لوگ کون سی عینک لگا کے دیکھتے ہیں

*

اُحد کی جنگ کا منظر نظر میں ہے شاید

چراغ اس لئے سرور بجھا کے دیکھتے ہیں

*

ستارے کیسے سجاتے ہیں لوگ پلکوں پر

ملک یہ مجلسِ سرور میں آکے دیکھتے ہیں

*

حسین کیسے اٹھاتے ہیں لاش اکبر کی

خلیل عرش سے تشریف لا کے دیکھتے ہیں

*

سخن شناسوں کی محفل ہے جب کسی نے کہا

کہا ِشہاب نے منبر پہ جا کے دیکھتے ہیں

***

۵۹

(۳)

الفتِ حیدر سے ہے دل میں تماشا اور کچھ

زندگانی اور شئے ٹھہری ہے مرنا اور کچھ

*

ِگھر کے طوفاں میں کہا جب یا علی مُشکلکشا

لاکے ساحل پر ہمیں موجوں نے پوچھا اور کچھ

*

سنتے ہی نامِ علی وہ اٹھ گیا اچھا ہوا

بیٹھتا کچھ دیر محفل میں تو سنتا اور کچھ

*

لیکے بخشش کی سند ہم شرم سے چپ رہ گئے

ورنہ رضواں تو برابر پوچھتا تھا اور کچھ

*

ہم سے کہتے ہیں کہ ہم بھی اُس کی سنت پر چلیں

جس نے فرمانِ نبی رد کرکے مانا اور کچھ

*

کیوں نہ آجاتی شبِ ہجرت علی کو گہری نیند

چھائوں میں تیغوں کی سونے کا مزا تھا اور کچھ

*

یہ بھی انکارِ غدیرِ خم سے ثابت ہوگیا

دل میں تھا اسلام لے آنے کا منشائ اور کچھ

*

وہ تو یہ کہئے نہ دی اِذنِ وغا عباس کو

کَربلا کا ورنہ ہوجانا تھا نقشا اور کچھ

*

۶۰

رکھ دیا ہوتا اگر خشتِ غدیرِ خم پہ سر

یہ مسلماں اور کچھ ہوتے یہ دنیا اور کچھ

*

لاش اکبر کی اٹھا کر خود سے سرور نے کہا

کردیا ہے مجھ کو پیری نے توانا اور کچھ

*

اس لئے تاکید تھی مڑ مڑ کے اکبر دیکھنا

دیکھ لیں شبیر نانا کا سراپا اور کچھ

*

شکوۂ بے اعتنائی بھائی سے صغرا نہ کر

سوچ لے مضمونِ خط اس کے علاوہ اور کچھ

*

آرزو اکبر کی شادی دیکھنے کی سب کو تھی

تھا مگر منظور قسمت کو دکھانا اور کچھ

*

مانگ لی اللہ سے مدّاحیٔ حیدر ِشہاب

کوئی دیوانہ تھا جو کرتا تمنا اور کچھ

***

۶۱

(۴)

تمہیں کیا، کربلا میں ہم نے پیشانی کہاں رکھ دی

ہماری چیز ہے ہم نے جہاں چاہا وہاں رکھ دی

*

جب اس نے اشکِ شہ پر نارِ دوزخ سے اماں رکھ دی

سجا کر ہم نے پلکوں پر جواہر کی دکاں رکھ دی

*

حقیقت دیکھ لیں بینائی اس نے اس لئے دیدی

پڑھیں مدحت علی کی اس لئے منہ میں زباں رکھ دی

*

اڑا جب جذبۂ مداحی حیدر ہمیں لے کر

ہمارے پائوں کے نیچے فلک نے کہکشاں رکھ دی

*

پس اذنِ وغا یہ بھی زمانہ پوچھتا پھرتا

بساطِ اَرض اے عباس تہ کرکے کہاں رکھ دی

*

بھنور میں آرہا تھا لطف ان کو یاد کرنے کا

ہوائوں نے یہ کشتی لاکے ساحل پر کہاں رکھ دی

*

کہ دل میں جذبۂ شوق شہادت اور بڑھ جائے

علی اکبر کے منہ میں اس لئے شہ نے زباں رکھ دی

*

اگر رونا پڑے تو رو سکوں شبیر پر کھل کر

مری فطرت میں اس نے اس لئے آہ و فغاں رکھ دی

*

۶۲

کیا وہ ظلم اعدا نے محمد کے گھرانے پر

ہلا کے جس نے بنیادِ زمین و آسماں رکھ دی

*

اِدھر گردن سے روکا مسکرا کر تیر اصغر نے

ادھر زچ ہوکے ظالم نے ہمیشہ کو کماں رکھ دی

*

تمہارے صبر پر صد آفریں اے مادرِ اصغر

کہ اتنا بھی نہ پوچھا لاش اصغر کی کہاں رکھ دی

*

شہاب اعمال کے دفتر میں کیا تھا پیش کرنے کو

بیاضِ مدح لی ، فردِ عمل کے درمیاں رکھ دی

***

۶۳

(۵)

سرمۂ حُبِّ علی جب سے مری آنکھوں میں ہے

ماہِ دو ہفتہ سے تابِ ہمسری آنکھوں میں ہے

*

کٹ رہی ہے چین سے حُبِّ علی میں زندگی

نورِ ایماں قلب میں دیدہ وری آنکھوں میں ہے

*

ہے تصور میں زمینِ کاظمین و سامرہ

جنت الفردوس کی خوش منظری آنکھوں میں ہے

*

جارہا ہے یوں کوئی ، لَولا علی، کہتا ہوا

دلِ میں حسرت، سرمۂ بیچارگی آنکھوں میں ہے

*

خالی ہاتھوں کی طرف اِن کے نہ دیکھو حشر میں

کربلا والوں کا رختِ بندگی آنکھوں میں ہے

*

کیجئے اس پر غمِ شہ کے خزانوں کا قیاس

نائو اک لعل و جواہر سے بھری آنکھوں میں ہے

*

چاند پھر دیکھیں محرم کا تو کچھ باتیں کریں

نو مہینے بیس دن سے خاموشی آنکھوں میں ہے

*

۶۴

گر نصیبوں میں نہیں دیدِ ضریحِ شاہ دیں

پھر یہ سمجھا دیجئے کیوں روشنی آنکھوں میں ہے

*

پائوں مجبورِ اطاعت، دل میں شوقِ اِذنِ جنگ

ہاتھ قبضے پر ترائی َنہر کی آنکھوں میں ہے

*

ہاں ابھی فرشِ عزا سے اٹھ کے آیا ہے ِشہاب

تازگی بس اس لئے بھیگی ہوئی آنکھوں میں ہے

***

۶۵

منوّر عباس شہاب

کبھی فرطِ ادب میں اشک افشانی نہیں جاتی

ہیں لب خاموش لیکن مرثیہ خوانی نہیں جاتی

*

حرم کی بے ردائی نے لیا ہے انتقام ایسا

یزیدیت کی پردوں میں بھی عریانی نہیں جاتی

*

نہ بھرتے رنگ اِس میں گر لہو سے کربلا والے

تو آج اسلام کی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

*

حکومت اہلِ دنیا کی فقط حاکم کے دم تک ہے

دلوں پر جو حکومت ہو وہ سلطانی نہیں جاتی

*

کوئی حق کا مجاہد سر بکف آتا ہے میداں میں

ُ ُکھلے سر شام کے بلوے میں سیدانی نہیں جاتی

*

ہزاروں بندشیں ہوتی ہیں ماتم پہ شہیدوں کی

شہاب اس پر بھی اپنی مرثیہ خوانی نہیں جاتی

***

۶۶

امتہ المحدی بیگم شہرت حیدرآبادی

علی سا جب مرا مشکل کشا ہے

کسی کی پھر مجھے پروا ہی کیا ہے

*

صراطِ مستقیم ان کی ولا ہے

یہی ّجنت کا سیدھا راستہ ہے

*

مری جاں اس گھرانے پر فدا ہے

یہی دنیا میں میرا آسرا ہے

*

یہی ہے دین میں میرا سہارا

کہ جس کا مدح گستر کبریا ہے

*

اسی سے ہوتی ہیں سب مشکلیں حل

یہی کونین کا حاجت روا ہے

*

نبی لیتے ہیں جس در پر اجازت

سلام اللہ جس پر بھیجتا ہے

*

نہ ہو تکلیف مجھ کو جانکنی کی

مرے مولا غضب کا سامنا ہے

*

جہاں پھر جائے شہرت غم نہ کرنا

زمانے میں ترا رکھّا ہے کیا ہے

***

۶۷

محرّم علی شہرت نو گانوی

(۱)

اصولِ دینِ یزداں کی ضرورت ثانیٔ زہرا

شہیدوں کے تصور کی حقیقت ثانیٔ زہرا

*

تمہاری سعیٔ پیہم اور پاکیزہ خیالوں نے

کیا تبدیل ذہنِ آدمیّت ثانیٔ زہرا

*

بندھے ہاتھوں سے کچھ ایسی نرالی جنگ کی تم نے

زمانہ آج تک ہے محوِ حیرت ثانیٔ زہرا

*

اسیری سے تمہاری اور انکارِ شہ دیں سے

لگے ہے اجنبی سا لفظِ بیعت ثانیٔ زہرا

*

چلی جب ظلم کی آندھی ردائوں کی قناتوں سے

بچالی آپ نے شمعِ نبوت ثانیٔ زہرا

*

زبانِ حال سے یہ آیۂ تطہیر کہتی تھی

تری بے چادری معراجِ عصمت ثانیٔ زہرا

*

نہ ہو کیوں نام اس کا اسمِ اعظم دونوں عالم میں

تخلص مل گیا ہو جس کو شہرت ثانیٔ زہرا

***

۶۸

(۲)

بے زبانی بن گئی ہے داستانِ کربلا

اصغر معصوم ہیں گویا لسانِ کربلا

*

حر غازی کی ضیافت میں شہادت کا ہے جام

مرحبا صد مرحبا اے میزبانِ کربلا

*

ہاتھ دے کر لاج رکھ لی آپ نے اسلام کی

ورثہ دارِ جعفر طیّار جانِ کربلا

*

ساقیٔ کوثر کی خدمت میں چلے ہیں ناز سے

خون میں ڈوبے ہوئے تشنہ لبانِ کربلا

*

یا محمد یا علی یا فاطمہ آجائیے

بے کفن ہیں کربلا میں کشتگانِ کربلا

*

بے ردا اپنی لحد سے آگئی ہیں فاطمہ

سانحہ کیسا ہوا ہے درمیانِ کربلا

*

اے مرے معبود وہ بھی فاطمہ کا لال ہے

کیا ہوا دشوار گر ہے امتحانِ کربلا

***

۶۹

(۳)

زباں ہو خشک جسدم روزِ محشر ساقیٔ کوثر

عطا ہم کو بھی ہو اک جام کوثر ساقیٔ کوثر

*

شہنشاہ دو عالم مالکِ منشائے یزدانی

تری ٹھوکر میں ہے تختِ سکندر ساقیٔ کوثر

*

صدائے العطش اسلام کے ہونٹوں پہ آئی ہے

ملے پیاسے کو بھی لبریز ساغر ساقیٔ کوثر

*

خدا کے دین کو پھر چاہیے خونِ دلِ زہرا

کہاں ہیں آپ کے شبیر و شبر ساقیٔ کوثر

*

شب ہجرت گواہی دی رسولِ حق کے بستر نے

تمہاری ذات ہے نفسِ پیمبر ساقیٔ کوثر

*

یہ کیسی ضرب تھی مرحب کے سر سے کس طرف پہنچی

پکارے لافتیٰ جبریل کے پر ساقیٔ کوثر

*

تری جائے ولادت بھی تری جائے شہادت بھی

ہر اک ماحول میں اللہ کے گھر ساقیٔ کوثر

*

نقیبِ حق خطیبِ دینِ ختم المرسلیں شہرت

مرے مولا و آقا میرے رہبر ساقیٔ کوثر

***

۷۰

(۴)

توصیفِ حسین ابنِ علی کیسے بیاں ہو

الفاظ ہوں خالق کے پیمبر کی زباں ہو

*

آنکھوں نے وضو اشکِ غم شہ سے کیا ہو

پھر کیوں نہ تہجد مری نظروں سے عیاں ہو

*

شبیر کا غم اہلِ عزا ایسے منائو

ماحول میں پھیلا ہوا آہوں کا دھواں ہو

*

اشکوں میں غمِ شاہ کے دل ڈوب رہا ہو

ممکن ہی نہیں درد نہ ہو اور فغاں ہو

*

شبیر کی آغوش میں اے اصغر بے شیر

قرآن کی تفسیر ذرا ہنس کے بیاں ہو

*

بس عون و محمد کے سوا روزِ ازل سے

لائو جو کوئی زینبِ دلگیر سی ماں ہو

*

اکبر کے جنازے کو اٹھاتے ہوئے شبیر

دیتے رہے آواز کہ عباس کہاں ہو

*

۷۱

ایسا بھی مقیّد ہے کوئی جس کے سبب سے

زنجیر کی جھنکار میں پیغامِ اذاں ہو

*

باطل کی شکستِ ابدی کے لئے شہرت

اکبر سا جگر ہو علی اصغر سی زباں ہو

***

۷۲

(۵)

اللہ کے وجود کی مظہر ہیں فاطمہ

پروردۂ اصولِ پیمبر ہیں فاطمہ

*

وجہِ نزولِ رحمتِ داور ہیں فاطمہ

واللہ روحِ سورۂ کوثر ہیں فاطمہ

*

ہر ہر قدم پہ مقصدِ احمد کا ہے خیال

گویا شریکِ کارِ پیمبر ہیں فاطمہ

*

چادر ہٹے جو سر سے تو نکلے نہ آفتاب

جیسے نظامِ خالقِ اکبر ہیں فاطمہ

*

پاکیزگی کی خاص سند کس نے پائی ہے

دیکھو بنائے آیۂ اطہر ہیں فاطمہ

*

جس پر کرے ہے ناز خداوندِ کائنات

اس کشتۂ عظیم کی مادر ہیں فاطمہ

*

جلتی زمیں پہ لاشۂ شبیر کے قریب

کرب و بلا میں کھولے ہوئے سر ہیں فاطمہ

*

شہرت کوئی جواب ہے اُن کا نہ ہے مثال

سب عورتوں میں افضل و برتر ہیں فاطمہ

***

۷۳

میر مہدی علی شہید لکھنوی شہید یار جنگ

(۱)

دنیا میں ہے حسین پہ بس انتہائے رنج

رنج ان کے واسطے تھا تو یہ تھے برائے رنج

*

اصغر کا داغ اور دلِ صد پارۂ حسین

یہ انتہائے صبر ہے وہ انتہائے رنج

*

ہو خاتمہ بخیر دعا ہے یہ صبح و شام

تکلیف ہے جہاں میں تو کیا اس میں جائے رنج

*

وہ مرد ہے جو چہرے سے ظاہر نہ ہونے دے

پہنچے بھی گر کسی سے تو دل میں چھپائے رنج

*

تھا خاتمہ حسین پہ دنیا میں رنج کا

آدم سے اس جہاں میں ہوئی ابتدائے رنج

*

دنیا میں ایک لحظہ بھی پوری خوشی کہاں

فرحت میں بھی نکلتا ہے گوشہ برائے رنج

*

دل ٹوٹتا ہے جب تو نکلتی ہے آہ بھی

چھپتی نہیں چھپائے سے ہرگز صدائے رنج

*

۷۴

آنسو نکل ہی آتے ہیں ہنستے ہیں جب زیاد

جو انتہائے عیش ہے وہ ابتدائے رنج

*

کڑیل جواں کی لاش پہ چلاّئے شاہ دیں

دشمن کو بھی خدا نہ کبھی یہ دکھائے رنج

*

بھائی کا داغ بچوں کا غم قید کا ستم

زینب نے بھی جہان میں کیا کیا اٹھائے رنج

*

تکلیف دوسروں سے نہ پہنچی کبھی شہید

دنیا میں دوستوں ہی سے ہم نے اٹھائے رنج

***

۷۵

(۲)

کعبہ کا سماں اور ہے مقتل کا سماں اور

حیدر کی اذاں اور تھی اکبر کی اذاں اور

*

بچے کا گلا اور ہے کچھ صدرِ جواں اور

ہاں تیر کا زخم اور ہے کچھ زخمِ سناں اور

*

اونچا ہوا جس کے قدِ بالا سے نشاں اور

عباس سا ہوگا نہ زمانے میں جواں اور

*

اعدا میں خوشی لشکرِ شہ محوِ دعا ہے

کچھ فکر یہاں اور ہے کچھ ذکر وہاں اور

*

کہتے ہوئے اٹھے یہ جوانانِ حسینی

کچھ جاذبِ دل آج ہے اکبر کی اذاں اور

*

شہ کہتے تھے اکبر سے کہ عباس کو روکو

اک خون کا دریا لبِ دریا ہے رواں اور

*

دم اہلِ حرم کے جو گھٹے ہوں تو عجب کیا

خیموں کے دھویں میں تھا کلیجوں کا دھواں اور

*

سب زخم تو بھر جاتے ہیں پر یہ نہیں بھرتا

تلوار کا زخم اور ہے کچھ زخمِ زباں اور

*

۷۶

بچوں کو فدا کر دیا بھائی کے پسر پر

زینب سی زمانے میں نہ ہوگی کوئی ماں اور

*

اک حملے میں لشکر تہ و بالا ہوا اکبر

اک حملہ اسی طرح کا اے شیر ږیاں اور

*

ہند آتی تو ہے پوچھنے احوالِ اسیراں

رکھتی ہے مگر دل میں یہ کچھ اپنے گماں اور

*

آتے ہیں ہمک کر جو یہ آغوشِ پدر میں

اصغر کے تبسّم میں ہے کچھ رازِ نہاں اور

*

سجاد رہِ شام میں گر پڑتے ہیں تھک کر

چلنے نہیں دیتی انہیں زنجیرِ گراں اور

*

ہے خطبہ سرا کوفہ میں بنتِ اسد اللہ

یہ طرزِ سخن اور ہے اندازِ بیاں اور

*

اصغر نے زباں پھیری ہے ہونٹوں پہ عطش سے

یہ شانِ تکلم ہے جدا طرزِ بیاں اور

*

زینب نے کہا بھائی کا چہلم میں کروں گی

دیدے مجھے مجلس کے لئے کوئی مکاں اور

*

ہے میرے سلاموں میں شہید اور ہے کچھ رنگ

کہتے ہیں سخن گو کہ ہے یہ طرزِ بیاں اور

***

۷۷

(۳)

غمِ حسین کا گر ذکر داستاں میں نہیں

اثر زباں میں نہیں ہے مزا بیاں میں نہیں

*

جمالِ حضرتِ عباس اے تعال اللہ

زمین کیا ہے جواب اس کا آسماں میں نہیں

*

خدا کہوں میں علی کو ارے معاذ اللہ

یہ بات میرے تصور مرے گماں میں نہیں

*

زُہیر قین وہ اسّی برس کا مردِ ضعیف

یہ جوشِ جنگ یہ قوت کسی جواں میں نہیں

*

حرم کے قافلے کی شان ہی نرالی ہے

کہ دو قدم کی سکت پائے سارباں میں نہیں

*

زباں دکھا دی لبوں پر پھرا نہیں سکتی

اب اتنی جان بھی اللہ بے زباں میں نہیں

*

خدا ہی جانے رہِ شام کیسے طے ہوگی

کہ سانس لینے کی طاقت بھی ناتواں میں نہیں

*

۷۸

یہ راز طالب و مطلوب کا کھلا سرِ عرش

بس ایک پردہ ہے کچھ اور درمیاں میں نہیں

*

شہید کیوں نہ ہو ہر قوم میں حسین کا غم

کہ مرثیہ مرے مولا کا کس زباں میں نہیں

***

۷۹

(۴)

ہو خلوصِ قلب کا مظہر کلام ایسا تو ہو

فاطمہ روئیں جسے ُسن کر سلام ایسا تو ہو

*

جون تیرے اک لہو کی بوند پر دنیا نثار

پائوں پر آقا کے دم نکلے غلام ایسا تو ہو

*

سامنے آنکھوں کے پھر جائے سماں حالات کا

رات رونے میں کٹے کچھ ذکرِ شام ایسا تو ہو

*

حر تری تقدیر پر شاہوں کو بھی آتا ہے رشک

پیشوائی خود کرے آقا غلام ایسا تو ہو

*

ہو شہید ایسا کہ مٹی سجدہ گاہِ خلق ہو

خاک ہو تسبیح میں داخل امام ایسا تو ہو

*

نشّہ جس کا حشر تک رہ جائے ہو ایسی شراب

ساقیٔ کوثر سے جو ہاتھ آئے جام ایسا تو ہو

*

دل تڑپ جاتا ہے جب کہتا ہے کوئی یا حسین

آنکھ سے آنسو نہ تھمنے پائیں نام ایسا تو ہو

*

منبرِ دوشِ رسالت پر ہوا خطبہ سرا

ہاں جو مولا ہو تو ایسا ہو امام ایسا تو ہو

*

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95