• ابتداء
  • پچھلا
  • 95 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32769 / ڈاؤنلوڈ: 2574
سائز سائز سائز
علقمہ کےساحل پر

علقمہ کےساحل پر

مؤلف:
اردو

رکھ دیا ہوتا اگر خشتِ غدیرِ خم پہ سر

یہ مسلماں اور کچھ ہوتے یہ دنیا اور کچھ

*

لاش اکبر کی اٹھا کر خود سے سرور نے کہا

کردیا ہے مجھ کو پیری نے توانا اور کچھ

*

اس لئے تاکید تھی مڑ مڑ کے اکبر دیکھنا

دیکھ لیں شبیر نانا کا سراپا اور کچھ

*

شکوۂ بے اعتنائی بھائی سے صغرا نہ کر

سوچ لے مضمونِ خط اس کے علاوہ اور کچھ

*

آرزو اکبر کی شادی دیکھنے کی سب کو تھی

تھا مگر منظور قسمت کو دکھانا اور کچھ

*

مانگ لی اللہ سے مدّاحیٔ حیدر ِشہاب

کوئی دیوانہ تھا جو کرتا تمنا اور کچھ

***

۶۱

(۴)

تمہیں کیا، کربلا میں ہم نے پیشانی کہاں رکھ دی

ہماری چیز ہے ہم نے جہاں چاہا وہاں رکھ دی

*

جب اس نے اشکِ شہ پر نارِ دوزخ سے اماں رکھ دی

سجا کر ہم نے پلکوں پر جواہر کی دکاں رکھ دی

*

حقیقت دیکھ لیں بینائی اس نے اس لئے دیدی

پڑھیں مدحت علی کی اس لئے منہ میں زباں رکھ دی

*

اڑا جب جذبۂ مداحی حیدر ہمیں لے کر

ہمارے پائوں کے نیچے فلک نے کہکشاں رکھ دی

*

پس اذنِ وغا یہ بھی زمانہ پوچھتا پھرتا

بساطِ اَرض اے عباس تہ کرکے کہاں رکھ دی

*

بھنور میں آرہا تھا لطف ان کو یاد کرنے کا

ہوائوں نے یہ کشتی لاکے ساحل پر کہاں رکھ دی

*

کہ دل میں جذبۂ شوق شہادت اور بڑھ جائے

علی اکبر کے منہ میں اس لئے شہ نے زباں رکھ دی

*

اگر رونا پڑے تو رو سکوں شبیر پر کھل کر

مری فطرت میں اس نے اس لئے آہ و فغاں رکھ دی

*

۶۲

کیا وہ ظلم اعدا نے محمد کے گھرانے پر

ہلا کے جس نے بنیادِ زمین و آسماں رکھ دی

*

اِدھر گردن سے روکا مسکرا کر تیر اصغر نے

ادھر زچ ہوکے ظالم نے ہمیشہ کو کماں رکھ دی

*

تمہارے صبر پر صد آفریں اے مادرِ اصغر

کہ اتنا بھی نہ پوچھا لاش اصغر کی کہاں رکھ دی

*

شہاب اعمال کے دفتر میں کیا تھا پیش کرنے کو

بیاضِ مدح لی ، فردِ عمل کے درمیاں رکھ دی

***

۶۳

(۵)

سرمۂ حُبِّ علی جب سے مری آنکھوں میں ہے

ماہِ دو ہفتہ سے تابِ ہمسری آنکھوں میں ہے

*

کٹ رہی ہے چین سے حُبِّ علی میں زندگی

نورِ ایماں قلب میں دیدہ وری آنکھوں میں ہے

*

ہے تصور میں زمینِ کاظمین و سامرہ

جنت الفردوس کی خوش منظری آنکھوں میں ہے

*

جارہا ہے یوں کوئی ، لَولا علی، کہتا ہوا

دلِ میں حسرت، سرمۂ بیچارگی آنکھوں میں ہے

*

خالی ہاتھوں کی طرف اِن کے نہ دیکھو حشر میں

کربلا والوں کا رختِ بندگی آنکھوں میں ہے

*

کیجئے اس پر غمِ شہ کے خزانوں کا قیاس

نائو اک لعل و جواہر سے بھری آنکھوں میں ہے

*

چاند پھر دیکھیں محرم کا تو کچھ باتیں کریں

نو مہینے بیس دن سے خاموشی آنکھوں میں ہے

*

۶۴

گر نصیبوں میں نہیں دیدِ ضریحِ شاہ دیں

پھر یہ سمجھا دیجئے کیوں روشنی آنکھوں میں ہے

*

پائوں مجبورِ اطاعت، دل میں شوقِ اِذنِ جنگ

ہاتھ قبضے پر ترائی َنہر کی آنکھوں میں ہے

*

ہاں ابھی فرشِ عزا سے اٹھ کے آیا ہے ِشہاب

تازگی بس اس لئے بھیگی ہوئی آنکھوں میں ہے

***

۶۵

منوّر عباس شہاب

کبھی فرطِ ادب میں اشک افشانی نہیں جاتی

ہیں لب خاموش لیکن مرثیہ خوانی نہیں جاتی

*

حرم کی بے ردائی نے لیا ہے انتقام ایسا

یزیدیت کی پردوں میں بھی عریانی نہیں جاتی

*

نہ بھرتے رنگ اِس میں گر لہو سے کربلا والے

تو آج اسلام کی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

*

حکومت اہلِ دنیا کی فقط حاکم کے دم تک ہے

دلوں پر جو حکومت ہو وہ سلطانی نہیں جاتی

*

کوئی حق کا مجاہد سر بکف آتا ہے میداں میں

ُ ُکھلے سر شام کے بلوے میں سیدانی نہیں جاتی

*

ہزاروں بندشیں ہوتی ہیں ماتم پہ شہیدوں کی

شہاب اس پر بھی اپنی مرثیہ خوانی نہیں جاتی

***

۶۶

امتہ المحدی بیگم شہرت حیدرآبادی

علی سا جب مرا مشکل کشا ہے

کسی کی پھر مجھے پروا ہی کیا ہے

*

صراطِ مستقیم ان کی ولا ہے

یہی ّجنت کا سیدھا راستہ ہے

*

مری جاں اس گھرانے پر فدا ہے

یہی دنیا میں میرا آسرا ہے

*

یہی ہے دین میں میرا سہارا

کہ جس کا مدح گستر کبریا ہے

*

اسی سے ہوتی ہیں سب مشکلیں حل

یہی کونین کا حاجت روا ہے

*

نبی لیتے ہیں جس در پر اجازت

سلام اللہ جس پر بھیجتا ہے

*

نہ ہو تکلیف مجھ کو جانکنی کی

مرے مولا غضب کا سامنا ہے

*

جہاں پھر جائے شہرت غم نہ کرنا

زمانے میں ترا رکھّا ہے کیا ہے

***

۶۷

محرّم علی شہرت نو گانوی

(۱)

اصولِ دینِ یزداں کی ضرورت ثانیٔ زہرا

شہیدوں کے تصور کی حقیقت ثانیٔ زہرا

*

تمہاری سعیٔ پیہم اور پاکیزہ خیالوں نے

کیا تبدیل ذہنِ آدمیّت ثانیٔ زہرا

*

بندھے ہاتھوں سے کچھ ایسی نرالی جنگ کی تم نے

زمانہ آج تک ہے محوِ حیرت ثانیٔ زہرا

*

اسیری سے تمہاری اور انکارِ شہ دیں سے

لگے ہے اجنبی سا لفظِ بیعت ثانیٔ زہرا

*

چلی جب ظلم کی آندھی ردائوں کی قناتوں سے

بچالی آپ نے شمعِ نبوت ثانیٔ زہرا

*

زبانِ حال سے یہ آیۂ تطہیر کہتی تھی

تری بے چادری معراجِ عصمت ثانیٔ زہرا

*

نہ ہو کیوں نام اس کا اسمِ اعظم دونوں عالم میں

تخلص مل گیا ہو جس کو شہرت ثانیٔ زہرا

***

۶۸

(۲)

بے زبانی بن گئی ہے داستانِ کربلا

اصغر معصوم ہیں گویا لسانِ کربلا

*

حر غازی کی ضیافت میں شہادت کا ہے جام

مرحبا صد مرحبا اے میزبانِ کربلا

*

ہاتھ دے کر لاج رکھ لی آپ نے اسلام کی

ورثہ دارِ جعفر طیّار جانِ کربلا

*

ساقیٔ کوثر کی خدمت میں چلے ہیں ناز سے

خون میں ڈوبے ہوئے تشنہ لبانِ کربلا

*

یا محمد یا علی یا فاطمہ آجائیے

بے کفن ہیں کربلا میں کشتگانِ کربلا

*

بے ردا اپنی لحد سے آگئی ہیں فاطمہ

سانحہ کیسا ہوا ہے درمیانِ کربلا

*

اے مرے معبود وہ بھی فاطمہ کا لال ہے

کیا ہوا دشوار گر ہے امتحانِ کربلا

***

۶۹

(۳)

زباں ہو خشک جسدم روزِ محشر ساقیٔ کوثر

عطا ہم کو بھی ہو اک جام کوثر ساقیٔ کوثر

*

شہنشاہ دو عالم مالکِ منشائے یزدانی

تری ٹھوکر میں ہے تختِ سکندر ساقیٔ کوثر

*

صدائے العطش اسلام کے ہونٹوں پہ آئی ہے

ملے پیاسے کو بھی لبریز ساغر ساقیٔ کوثر

*

خدا کے دین کو پھر چاہیے خونِ دلِ زہرا

کہاں ہیں آپ کے شبیر و شبر ساقیٔ کوثر

*

شب ہجرت گواہی دی رسولِ حق کے بستر نے

تمہاری ذات ہے نفسِ پیمبر ساقیٔ کوثر

*

یہ کیسی ضرب تھی مرحب کے سر سے کس طرف پہنچی

پکارے لافتیٰ جبریل کے پر ساقیٔ کوثر

*

تری جائے ولادت بھی تری جائے شہادت بھی

ہر اک ماحول میں اللہ کے گھر ساقیٔ کوثر

*

نقیبِ حق خطیبِ دینِ ختم المرسلیں شہرت

مرے مولا و آقا میرے رہبر ساقیٔ کوثر

***

۷۰

(۴)

توصیفِ حسین ابنِ علی کیسے بیاں ہو

الفاظ ہوں خالق کے پیمبر کی زباں ہو

*

آنکھوں نے وضو اشکِ غم شہ سے کیا ہو

پھر کیوں نہ تہجد مری نظروں سے عیاں ہو

*

شبیر کا غم اہلِ عزا ایسے منائو

ماحول میں پھیلا ہوا آہوں کا دھواں ہو

*

اشکوں میں غمِ شاہ کے دل ڈوب رہا ہو

ممکن ہی نہیں درد نہ ہو اور فغاں ہو

*

شبیر کی آغوش میں اے اصغر بے شیر

قرآن کی تفسیر ذرا ہنس کے بیاں ہو

*

بس عون و محمد کے سوا روزِ ازل سے

لائو جو کوئی زینبِ دلگیر سی ماں ہو

*

اکبر کے جنازے کو اٹھاتے ہوئے شبیر

دیتے رہے آواز کہ عباس کہاں ہو

*

۷۱

ایسا بھی مقیّد ہے کوئی جس کے سبب سے

زنجیر کی جھنکار میں پیغامِ اذاں ہو

*

باطل کی شکستِ ابدی کے لئے شہرت

اکبر سا جگر ہو علی اصغر سی زباں ہو

***

۷۲

(۵)

اللہ کے وجود کی مظہر ہیں فاطمہ

پروردۂ اصولِ پیمبر ہیں فاطمہ

*

وجہِ نزولِ رحمتِ داور ہیں فاطمہ

واللہ روحِ سورۂ کوثر ہیں فاطمہ

*

ہر ہر قدم پہ مقصدِ احمد کا ہے خیال

گویا شریکِ کارِ پیمبر ہیں فاطمہ

*

چادر ہٹے جو سر سے تو نکلے نہ آفتاب

جیسے نظامِ خالقِ اکبر ہیں فاطمہ

*

پاکیزگی کی خاص سند کس نے پائی ہے

دیکھو بنائے آیۂ اطہر ہیں فاطمہ

*

جس پر کرے ہے ناز خداوندِ کائنات

اس کشتۂ عظیم کی مادر ہیں فاطمہ

*

جلتی زمیں پہ لاشۂ شبیر کے قریب

کرب و بلا میں کھولے ہوئے سر ہیں فاطمہ

*

شہرت کوئی جواب ہے اُن کا نہ ہے مثال

سب عورتوں میں افضل و برتر ہیں فاطمہ

***

۷۳

میر مہدی علی شہید لکھنوی شہید یار جنگ

(۱)

دنیا میں ہے حسین پہ بس انتہائے رنج

رنج ان کے واسطے تھا تو یہ تھے برائے رنج

*

اصغر کا داغ اور دلِ صد پارۂ حسین

یہ انتہائے صبر ہے وہ انتہائے رنج

*

ہو خاتمہ بخیر دعا ہے یہ صبح و شام

تکلیف ہے جہاں میں تو کیا اس میں جائے رنج

*

وہ مرد ہے جو چہرے سے ظاہر نہ ہونے دے

پہنچے بھی گر کسی سے تو دل میں چھپائے رنج

*

تھا خاتمہ حسین پہ دنیا میں رنج کا

آدم سے اس جہاں میں ہوئی ابتدائے رنج

*

دنیا میں ایک لحظہ بھی پوری خوشی کہاں

فرحت میں بھی نکلتا ہے گوشہ برائے رنج

*

دل ٹوٹتا ہے جب تو نکلتی ہے آہ بھی

چھپتی نہیں چھپائے سے ہرگز صدائے رنج

*

۷۴

آنسو نکل ہی آتے ہیں ہنستے ہیں جب زیاد

جو انتہائے عیش ہے وہ ابتدائے رنج

*

کڑیل جواں کی لاش پہ چلاّئے شاہ دیں

دشمن کو بھی خدا نہ کبھی یہ دکھائے رنج

*

بھائی کا داغ بچوں کا غم قید کا ستم

زینب نے بھی جہان میں کیا کیا اٹھائے رنج

*

تکلیف دوسروں سے نہ پہنچی کبھی شہید

دنیا میں دوستوں ہی سے ہم نے اٹھائے رنج

***

۷۵

(۲)

کعبہ کا سماں اور ہے مقتل کا سماں اور

حیدر کی اذاں اور تھی اکبر کی اذاں اور

*

بچے کا گلا اور ہے کچھ صدرِ جواں اور

ہاں تیر کا زخم اور ہے کچھ زخمِ سناں اور

*

اونچا ہوا جس کے قدِ بالا سے نشاں اور

عباس سا ہوگا نہ زمانے میں جواں اور

*

اعدا میں خوشی لشکرِ شہ محوِ دعا ہے

کچھ فکر یہاں اور ہے کچھ ذکر وہاں اور

*

کہتے ہوئے اٹھے یہ جوانانِ حسینی

کچھ جاذبِ دل آج ہے اکبر کی اذاں اور

*

شہ کہتے تھے اکبر سے کہ عباس کو روکو

اک خون کا دریا لبِ دریا ہے رواں اور

*

دم اہلِ حرم کے جو گھٹے ہوں تو عجب کیا

خیموں کے دھویں میں تھا کلیجوں کا دھواں اور

*

سب زخم تو بھر جاتے ہیں پر یہ نہیں بھرتا

تلوار کا زخم اور ہے کچھ زخمِ زباں اور

*

۷۶

بچوں کو فدا کر دیا بھائی کے پسر پر

زینب سی زمانے میں نہ ہوگی کوئی ماں اور

*

اک حملے میں لشکر تہ و بالا ہوا اکبر

اک حملہ اسی طرح کا اے شیر ږیاں اور

*

ہند آتی تو ہے پوچھنے احوالِ اسیراں

رکھتی ہے مگر دل میں یہ کچھ اپنے گماں اور

*

آتے ہیں ہمک کر جو یہ آغوشِ پدر میں

اصغر کے تبسّم میں ہے کچھ رازِ نہاں اور

*

سجاد رہِ شام میں گر پڑتے ہیں تھک کر

چلنے نہیں دیتی انہیں زنجیرِ گراں اور

*

ہے خطبہ سرا کوفہ میں بنتِ اسد اللہ

یہ طرزِ سخن اور ہے اندازِ بیاں اور

*

اصغر نے زباں پھیری ہے ہونٹوں پہ عطش سے

یہ شانِ تکلم ہے جدا طرزِ بیاں اور

*

زینب نے کہا بھائی کا چہلم میں کروں گی

دیدے مجھے مجلس کے لئے کوئی مکاں اور

*

ہے میرے سلاموں میں شہید اور ہے کچھ رنگ

کہتے ہیں سخن گو کہ ہے یہ طرزِ بیاں اور

***

۷۷

(۳)

غمِ حسین کا گر ذکر داستاں میں نہیں

اثر زباں میں نہیں ہے مزا بیاں میں نہیں

*

جمالِ حضرتِ عباس اے تعال اللہ

زمین کیا ہے جواب اس کا آسماں میں نہیں

*

خدا کہوں میں علی کو ارے معاذ اللہ

یہ بات میرے تصور مرے گماں میں نہیں

*

زُہیر قین وہ اسّی برس کا مردِ ضعیف

یہ جوشِ جنگ یہ قوت کسی جواں میں نہیں

*

حرم کے قافلے کی شان ہی نرالی ہے

کہ دو قدم کی سکت پائے سارباں میں نہیں

*

زباں دکھا دی لبوں پر پھرا نہیں سکتی

اب اتنی جان بھی اللہ بے زباں میں نہیں

*

خدا ہی جانے رہِ شام کیسے طے ہوگی

کہ سانس لینے کی طاقت بھی ناتواں میں نہیں

*

۷۸

یہ راز طالب و مطلوب کا کھلا سرِ عرش

بس ایک پردہ ہے کچھ اور درمیاں میں نہیں

*

شہید کیوں نہ ہو ہر قوم میں حسین کا غم

کہ مرثیہ مرے مولا کا کس زباں میں نہیں

***

۷۹

(۴)

ہو خلوصِ قلب کا مظہر کلام ایسا تو ہو

فاطمہ روئیں جسے ُسن کر سلام ایسا تو ہو

*

جون تیرے اک لہو کی بوند پر دنیا نثار

پائوں پر آقا کے دم نکلے غلام ایسا تو ہو

*

سامنے آنکھوں کے پھر جائے سماں حالات کا

رات رونے میں کٹے کچھ ذکرِ شام ایسا تو ہو

*

حر تری تقدیر پر شاہوں کو بھی آتا ہے رشک

پیشوائی خود کرے آقا غلام ایسا تو ہو

*

ہو شہید ایسا کہ مٹی سجدہ گاہِ خلق ہو

خاک ہو تسبیح میں داخل امام ایسا تو ہو

*

نشّہ جس کا حشر تک رہ جائے ہو ایسی شراب

ساقیٔ کوثر سے جو ہاتھ آئے جام ایسا تو ہو

*

دل تڑپ جاتا ہے جب کہتا ہے کوئی یا حسین

آنکھ سے آنسو نہ تھمنے پائیں نام ایسا تو ہو

*

منبرِ دوشِ رسالت پر ہوا خطبہ سرا

ہاں جو مولا ہو تو ایسا ہو امام ایسا تو ہو

*

۸۰