• ابتداء
  • پچھلا
  • 95 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36496 / ڈاؤنلوڈ: 3219
سائز سائز سائز
علقمہ کےساحل پر

علقمہ کےساحل پر

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

رکھ دیا ہوتا اگر خشتِ غدیرِ خم پہ سر

یہ مسلماں اور کچھ ہوتے یہ دنیا اور کچھ

*

لاش اکبر کی اٹھا کر خود سے سرور نے کہا

کردیا ہے مجھ کو پیری نے توانا اور کچھ

*

اس لئے تاکید تھی مڑ مڑ کے اکبر دیکھنا

دیکھ لیں شبیر نانا کا سراپا اور کچھ

*

شکوۂ بے اعتنائی بھائی سے صغرا نہ کر

سوچ لے مضمونِ خط اس کے علاوہ اور کچھ

*

آرزو اکبر کی شادی دیکھنے کی سب کو تھی

تھا مگر منظور قسمت کو دکھانا اور کچھ

*

مانگ لی اللہ سے مدّاحیٔ حیدر ِشہاب

کوئی دیوانہ تھا جو کرتا تمنا اور کچھ

***

۶۱

(۴)

تمہیں کیا، کربلا میں ہم نے پیشانی کہاں رکھ دی

ہماری چیز ہے ہم نے جہاں چاہا وہاں رکھ دی

*

جب اس نے اشکِ شہ پر نارِ دوزخ سے اماں رکھ دی

سجا کر ہم نے پلکوں پر جواہر کی دکاں رکھ دی

*

حقیقت دیکھ لیں بینائی اس نے اس لئے دیدی

پڑھیں مدحت علی کی اس لئے منہ میں زباں رکھ دی

*

اڑا جب جذبۂ مداحی حیدر ہمیں لے کر

ہمارے پائوں کے نیچے فلک نے کہکشاں رکھ دی

*

پس اذنِ وغا یہ بھی زمانہ پوچھتا پھرتا

بساطِ اَرض اے عباس تہ کرکے کہاں رکھ دی

*

بھنور میں آرہا تھا لطف ان کو یاد کرنے کا

ہوائوں نے یہ کشتی لاکے ساحل پر کہاں رکھ دی

*

کہ دل میں جذبۂ شوق شہادت اور بڑھ جائے

علی اکبر کے منہ میں اس لئے شہ نے زباں رکھ دی

*

اگر رونا پڑے تو رو سکوں شبیر پر کھل کر

مری فطرت میں اس نے اس لئے آہ و فغاں رکھ دی

*

۶۲

کیا وہ ظلم اعدا نے محمد کے گھرانے پر

ہلا کے جس نے بنیادِ زمین و آسماں رکھ دی

*

اِدھر گردن سے روکا مسکرا کر تیر اصغر نے

ادھر زچ ہوکے ظالم نے ہمیشہ کو کماں رکھ دی

*

تمہارے صبر پر صد آفریں اے مادرِ اصغر

کہ اتنا بھی نہ پوچھا لاش اصغر کی کہاں رکھ دی

*

شہاب اعمال کے دفتر میں کیا تھا پیش کرنے کو

بیاضِ مدح لی ، فردِ عمل کے درمیاں رکھ دی

***

۶۳

(۵)

سرمۂ حُبِّ علی جب سے مری آنکھوں میں ہے

ماہِ دو ہفتہ سے تابِ ہمسری آنکھوں میں ہے

*

کٹ رہی ہے چین سے حُبِّ علی میں زندگی

نورِ ایماں قلب میں دیدہ وری آنکھوں میں ہے

*

ہے تصور میں زمینِ کاظمین و سامرہ

جنت الفردوس کی خوش منظری آنکھوں میں ہے

*

جارہا ہے یوں کوئی ، لَولا علی، کہتا ہوا

دلِ میں حسرت، سرمۂ بیچارگی آنکھوں میں ہے

*

خالی ہاتھوں کی طرف اِن کے نہ دیکھو حشر میں

کربلا والوں کا رختِ بندگی آنکھوں میں ہے

*

کیجئے اس پر غمِ شہ کے خزانوں کا قیاس

نائو اک لعل و جواہر سے بھری آنکھوں میں ہے

*

چاند پھر دیکھیں محرم کا تو کچھ باتیں کریں

نو مہینے بیس دن سے خاموشی آنکھوں میں ہے

*

۶۴

گر نصیبوں میں نہیں دیدِ ضریحِ شاہ دیں

پھر یہ سمجھا دیجئے کیوں روشنی آنکھوں میں ہے

*

پائوں مجبورِ اطاعت، دل میں شوقِ اِذنِ جنگ

ہاتھ قبضے پر ترائی َنہر کی آنکھوں میں ہے

*

ہاں ابھی فرشِ عزا سے اٹھ کے آیا ہے ِشہاب

تازگی بس اس لئے بھیگی ہوئی آنکھوں میں ہے

***

۶۵

منوّر عباس شہاب

کبھی فرطِ ادب میں اشک افشانی نہیں جاتی

ہیں لب خاموش لیکن مرثیہ خوانی نہیں جاتی

*

حرم کی بے ردائی نے لیا ہے انتقام ایسا

یزیدیت کی پردوں میں بھی عریانی نہیں جاتی

*

نہ بھرتے رنگ اِس میں گر لہو سے کربلا والے

تو آج اسلام کی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

*

حکومت اہلِ دنیا کی فقط حاکم کے دم تک ہے

دلوں پر جو حکومت ہو وہ سلطانی نہیں جاتی

*

کوئی حق کا مجاہد سر بکف آتا ہے میداں میں

ُ ُکھلے سر شام کے بلوے میں سیدانی نہیں جاتی

*

ہزاروں بندشیں ہوتی ہیں ماتم پہ شہیدوں کی

شہاب اس پر بھی اپنی مرثیہ خوانی نہیں جاتی

***

۶۶

امتہ المحدی بیگم شہرت حیدرآبادی

علی سا جب مرا مشکل کشا ہے

کسی کی پھر مجھے پروا ہی کیا ہے

*

صراطِ مستقیم ان کی ولا ہے

یہی ّجنت کا سیدھا راستہ ہے

*

مری جاں اس گھرانے پر فدا ہے

یہی دنیا میں میرا آسرا ہے

*

یہی ہے دین میں میرا سہارا

کہ جس کا مدح گستر کبریا ہے

*

اسی سے ہوتی ہیں سب مشکلیں حل

یہی کونین کا حاجت روا ہے

*

نبی لیتے ہیں جس در پر اجازت

سلام اللہ جس پر بھیجتا ہے

*

نہ ہو تکلیف مجھ کو جانکنی کی

مرے مولا غضب کا سامنا ہے

*

جہاں پھر جائے شہرت غم نہ کرنا

زمانے میں ترا رکھّا ہے کیا ہے

***

۶۷

محرّم علی شہرت نو گانوی

(۱)

اصولِ دینِ یزداں کی ضرورت ثانیٔ زہرا

شہیدوں کے تصور کی حقیقت ثانیٔ زہرا

*

تمہاری سعیٔ پیہم اور پاکیزہ خیالوں نے

کیا تبدیل ذہنِ آدمیّت ثانیٔ زہرا

*

بندھے ہاتھوں سے کچھ ایسی نرالی جنگ کی تم نے

زمانہ آج تک ہے محوِ حیرت ثانیٔ زہرا

*

اسیری سے تمہاری اور انکارِ شہ دیں سے

لگے ہے اجنبی سا لفظِ بیعت ثانیٔ زہرا

*

چلی جب ظلم کی آندھی ردائوں کی قناتوں سے

بچالی آپ نے شمعِ نبوت ثانیٔ زہرا

*

زبانِ حال سے یہ آیۂ تطہیر کہتی تھی

تری بے چادری معراجِ عصمت ثانیٔ زہرا

*

نہ ہو کیوں نام اس کا اسمِ اعظم دونوں عالم میں

تخلص مل گیا ہو جس کو شہرت ثانیٔ زہرا

***

۶۸

(۲)

بے زبانی بن گئی ہے داستانِ کربلا

اصغر معصوم ہیں گویا لسانِ کربلا

*

حر غازی کی ضیافت میں شہادت کا ہے جام

مرحبا صد مرحبا اے میزبانِ کربلا

*

ہاتھ دے کر لاج رکھ لی آپ نے اسلام کی

ورثہ دارِ جعفر طیّار جانِ کربلا

*

ساقیٔ کوثر کی خدمت میں چلے ہیں ناز سے

خون میں ڈوبے ہوئے تشنہ لبانِ کربلا

*

یا محمد یا علی یا فاطمہ آجائیے

بے کفن ہیں کربلا میں کشتگانِ کربلا

*

بے ردا اپنی لحد سے آگئی ہیں فاطمہ

سانحہ کیسا ہوا ہے درمیانِ کربلا

*

اے مرے معبود وہ بھی فاطمہ کا لال ہے

کیا ہوا دشوار گر ہے امتحانِ کربلا

***

۶۹

(۳)

زباں ہو خشک جسدم روزِ محشر ساقیٔ کوثر

عطا ہم کو بھی ہو اک جام کوثر ساقیٔ کوثر

*

شہنشاہ دو عالم مالکِ منشائے یزدانی

تری ٹھوکر میں ہے تختِ سکندر ساقیٔ کوثر

*

صدائے العطش اسلام کے ہونٹوں پہ آئی ہے

ملے پیاسے کو بھی لبریز ساغر ساقیٔ کوثر

*

خدا کے دین کو پھر چاہیے خونِ دلِ زہرا

کہاں ہیں آپ کے شبیر و شبر ساقیٔ کوثر

*

شب ہجرت گواہی دی رسولِ حق کے بستر نے

تمہاری ذات ہے نفسِ پیمبر ساقیٔ کوثر

*

یہ کیسی ضرب تھی مرحب کے سر سے کس طرف پہنچی

پکارے لافتیٰ جبریل کے پر ساقیٔ کوثر

*

تری جائے ولادت بھی تری جائے شہادت بھی

ہر اک ماحول میں اللہ کے گھر ساقیٔ کوثر

*

نقیبِ حق خطیبِ دینِ ختم المرسلیں شہرت

مرے مولا و آقا میرے رہبر ساقیٔ کوثر

***

۷۰

(۴)

توصیفِ حسین ابنِ علی کیسے بیاں ہو

الفاظ ہوں خالق کے پیمبر کی زباں ہو

*

آنکھوں نے وضو اشکِ غم شہ سے کیا ہو

پھر کیوں نہ تہجد مری نظروں سے عیاں ہو

*

شبیر کا غم اہلِ عزا ایسے منائو

ماحول میں پھیلا ہوا آہوں کا دھواں ہو

*

اشکوں میں غمِ شاہ کے دل ڈوب رہا ہو

ممکن ہی نہیں درد نہ ہو اور فغاں ہو

*

شبیر کی آغوش میں اے اصغر بے شیر

قرآن کی تفسیر ذرا ہنس کے بیاں ہو

*

بس عون و محمد کے سوا روزِ ازل سے

لائو جو کوئی زینبِ دلگیر سی ماں ہو

*

اکبر کے جنازے کو اٹھاتے ہوئے شبیر

دیتے رہے آواز کہ عباس کہاں ہو

*

۷۱

ایسا بھی مقیّد ہے کوئی جس کے سبب سے

زنجیر کی جھنکار میں پیغامِ اذاں ہو

*

باطل کی شکستِ ابدی کے لئے شہرت

اکبر سا جگر ہو علی اصغر سی زباں ہو

***

۷۲

(۵)

اللہ کے وجود کی مظہر ہیں فاطمہ

پروردۂ اصولِ پیمبر ہیں فاطمہ

*

وجہِ نزولِ رحمتِ داور ہیں فاطمہ

واللہ روحِ سورۂ کوثر ہیں فاطمہ

*

ہر ہر قدم پہ مقصدِ احمد کا ہے خیال

گویا شریکِ کارِ پیمبر ہیں فاطمہ

*

چادر ہٹے جو سر سے تو نکلے نہ آفتاب

جیسے نظامِ خالقِ اکبر ہیں فاطمہ

*

پاکیزگی کی خاص سند کس نے پائی ہے

دیکھو بنائے آیۂ اطہر ہیں فاطمہ

*

جس پر کرے ہے ناز خداوندِ کائنات

اس کشتۂ عظیم کی مادر ہیں فاطمہ

*

جلتی زمیں پہ لاشۂ شبیر کے قریب

کرب و بلا میں کھولے ہوئے سر ہیں فاطمہ

*

شہرت کوئی جواب ہے اُن کا نہ ہے مثال

سب عورتوں میں افضل و برتر ہیں فاطمہ

***

۷۳

میر مہدی علی شہید لکھنوی شہید یار جنگ

(۱)

دنیا میں ہے حسین پہ بس انتہائے رنج

رنج ان کے واسطے تھا تو یہ تھے برائے رنج

*

اصغر کا داغ اور دلِ صد پارۂ حسین

یہ انتہائے صبر ہے وہ انتہائے رنج

*

ہو خاتمہ بخیر دعا ہے یہ صبح و شام

تکلیف ہے جہاں میں تو کیا اس میں جائے رنج

*

وہ مرد ہے جو چہرے سے ظاہر نہ ہونے دے

پہنچے بھی گر کسی سے تو دل میں چھپائے رنج

*

تھا خاتمہ حسین پہ دنیا میں رنج کا

آدم سے اس جہاں میں ہوئی ابتدائے رنج

*

دنیا میں ایک لحظہ بھی پوری خوشی کہاں

فرحت میں بھی نکلتا ہے گوشہ برائے رنج

*

دل ٹوٹتا ہے جب تو نکلتی ہے آہ بھی

چھپتی نہیں چھپائے سے ہرگز صدائے رنج

*

۷۴

آنسو نکل ہی آتے ہیں ہنستے ہیں جب زیاد

جو انتہائے عیش ہے وہ ابتدائے رنج

*

کڑیل جواں کی لاش پہ چلاّئے شاہ دیں

دشمن کو بھی خدا نہ کبھی یہ دکھائے رنج

*

بھائی کا داغ بچوں کا غم قید کا ستم

زینب نے بھی جہان میں کیا کیا اٹھائے رنج

*

تکلیف دوسروں سے نہ پہنچی کبھی شہید

دنیا میں دوستوں ہی سے ہم نے اٹھائے رنج

***

۷۵

(۲)

کعبہ کا سماں اور ہے مقتل کا سماں اور

حیدر کی اذاں اور تھی اکبر کی اذاں اور

*

بچے کا گلا اور ہے کچھ صدرِ جواں اور

ہاں تیر کا زخم اور ہے کچھ زخمِ سناں اور

*

اونچا ہوا جس کے قدِ بالا سے نشاں اور

عباس سا ہوگا نہ زمانے میں جواں اور

*

اعدا میں خوشی لشکرِ شہ محوِ دعا ہے

کچھ فکر یہاں اور ہے کچھ ذکر وہاں اور

*

کہتے ہوئے اٹھے یہ جوانانِ حسینی

کچھ جاذبِ دل آج ہے اکبر کی اذاں اور

*

شہ کہتے تھے اکبر سے کہ عباس کو روکو

اک خون کا دریا لبِ دریا ہے رواں اور

*

دم اہلِ حرم کے جو گھٹے ہوں تو عجب کیا

خیموں کے دھویں میں تھا کلیجوں کا دھواں اور

*

سب زخم تو بھر جاتے ہیں پر یہ نہیں بھرتا

تلوار کا زخم اور ہے کچھ زخمِ زباں اور

*

۷۶

بچوں کو فدا کر دیا بھائی کے پسر پر

زینب سی زمانے میں نہ ہوگی کوئی ماں اور

*

اک حملے میں لشکر تہ و بالا ہوا اکبر

اک حملہ اسی طرح کا اے شیر ږیاں اور

*

ہند آتی تو ہے پوچھنے احوالِ اسیراں

رکھتی ہے مگر دل میں یہ کچھ اپنے گماں اور

*

آتے ہیں ہمک کر جو یہ آغوشِ پدر میں

اصغر کے تبسّم میں ہے کچھ رازِ نہاں اور

*

سجاد رہِ شام میں گر پڑتے ہیں تھک کر

چلنے نہیں دیتی انہیں زنجیرِ گراں اور

*

ہے خطبہ سرا کوفہ میں بنتِ اسد اللہ

یہ طرزِ سخن اور ہے اندازِ بیاں اور

*

اصغر نے زباں پھیری ہے ہونٹوں پہ عطش سے

یہ شانِ تکلم ہے جدا طرزِ بیاں اور

*

زینب نے کہا بھائی کا چہلم میں کروں گی

دیدے مجھے مجلس کے لئے کوئی مکاں اور

*

ہے میرے سلاموں میں شہید اور ہے کچھ رنگ

کہتے ہیں سخن گو کہ ہے یہ طرزِ بیاں اور

***

۷۷

(۳)

غمِ حسین کا گر ذکر داستاں میں نہیں

اثر زباں میں نہیں ہے مزا بیاں میں نہیں

*

جمالِ حضرتِ عباس اے تعال اللہ

زمین کیا ہے جواب اس کا آسماں میں نہیں

*

خدا کہوں میں علی کو ارے معاذ اللہ

یہ بات میرے تصور مرے گماں میں نہیں

*

زُہیر قین وہ اسّی برس کا مردِ ضعیف

یہ جوشِ جنگ یہ قوت کسی جواں میں نہیں

*

حرم کے قافلے کی شان ہی نرالی ہے

کہ دو قدم کی سکت پائے سارباں میں نہیں

*

زباں دکھا دی لبوں پر پھرا نہیں سکتی

اب اتنی جان بھی اللہ بے زباں میں نہیں

*

خدا ہی جانے رہِ شام کیسے طے ہوگی

کہ سانس لینے کی طاقت بھی ناتواں میں نہیں

*

۷۸

یہ راز طالب و مطلوب کا کھلا سرِ عرش

بس ایک پردہ ہے کچھ اور درمیاں میں نہیں

*

شہید کیوں نہ ہو ہر قوم میں حسین کا غم

کہ مرثیہ مرے مولا کا کس زباں میں نہیں

***

۷۹

(۴)

ہو خلوصِ قلب کا مظہر کلام ایسا تو ہو

فاطمہ روئیں جسے ُسن کر سلام ایسا تو ہو

*

جون تیرے اک لہو کی بوند پر دنیا نثار

پائوں پر آقا کے دم نکلے غلام ایسا تو ہو

*

سامنے آنکھوں کے پھر جائے سماں حالات کا

رات رونے میں کٹے کچھ ذکرِ شام ایسا تو ہو

*

حر تری تقدیر پر شاہوں کو بھی آتا ہے رشک

پیشوائی خود کرے آقا غلام ایسا تو ہو

*

ہو شہید ایسا کہ مٹی سجدہ گاہِ خلق ہو

خاک ہو تسبیح میں داخل امام ایسا تو ہو

*

نشّہ جس کا حشر تک رہ جائے ہو ایسی شراب

ساقیٔ کوثر سے جو ہاتھ آئے جام ایسا تو ہو

*

دل تڑپ جاتا ہے جب کہتا ہے کوئی یا حسین

آنکھ سے آنسو نہ تھمنے پائیں نام ایسا تو ہو

*

منبرِ دوشِ رسالت پر ہوا خطبہ سرا

ہاں جو مولا ہو تو ایسا ہو امام ایسا تو ہو

*

۸۰

اکبر و عباس و قاسم بس ہیں شاہ دیں کے ساتھ

ہاں سواری کا بہن کی اہتمام ایسا تو ہو

*

ناصرانِ شاہ دیں کہتے تھے آپس میں شہید

نام رہ جائے جہاں میں کوئی کام ایسا تو ہو

***

۸۱

(۵)

غمِ شہ کا ہوگا بیاں رفتہ رفتہ

جگر سے اٹھے گا دھواں رفتہ رفتہ

*

ہوئے پھول صرفِ خزاں رفتہ رفتہ

نشاں ہوگئے بے نشاں رفتہ رفتہ

*

نبوت کی آغوشِ الفت میں پل کر

علی ہورہے ہیں جواں رفتہ رفتہ

*

صعوبات ہوں لاکھ، منزل پہ اک دن

پہنچ جائے گا کارواں رفتہ رفتہ

*

قریبوں کا غم اور عزیزوں کی فرقت

ہوا شاہ کا امتحاں رفتہ رفتہ

*

بڑھی اور زین العبا کی نقاہت

گراں ہوگئیں بیڑیاں رفتہ رفتہ

*

سکینہ کے دل میں بڑھا شمر کا ڈر

کہ نالے ہوئے سسکیاں رفتہ رفتہ

*

۸۲

رہا زانوئے شہ پہ سر وقتِ مردن

گیا حر کہاں سے کہاں رفتہ رفتہ

*

سکینہ کے نالے اثر کررہے ہیں

تڑپنے لگے پاسباں رفتہ رفتہ

***

۸۳

(۶)

دیکھتا ہوں جلوۂ شبیر اٹھتے بیٹھتے

ہے یہی پیشِ نظر تصویر اٹھتے بیٹھتے

*

پڑھ رہا ہوں خطبۂ من کنتُ مولا رات دن

کر رہا ہوں قلب کی تعمیر اٹھتے بیٹھتے

*

دو گھڑی بھی چین سے سجاد رہ سکتے نہیں

سخت ایذا دیتی ہے زنجیر اٹھتے بیٹھتے

*

دی صدا زینب نے آئو پیشوائی کو حسین

قبر پر آئی ہے اب ہمشیر اٹھتے بیٹھتے

*

خیمہ گہ میں لاشِ اکبر کس طرح لیجائیں گے

جارہے ہیں لاش پر شبیر اٹھتے بیٹھتے

*

ہم شبیہ مصطفیٰ یا رب مرا پھولے پھلے

تھی دعائے زینبِ دلگیر اٹھتے بیٹھتے

*

صبرِ عابد کا تصرف دیدنی ہے اہلِ دل

جو صدا دیتی نہیں زنجیر اٹھتے بیٹھتے

*

کربلا کا قصد ہے کیا ضعف روکے گا شہید

جا ہی پہنچوں گا کسی تدبیر اٹھتے بیٹھتے

***

۸۴

(۷)

شکوہِ مرحبی و شانِ عنتری کیا ہے

یہ بے حواسیاں کیا ہیں یہ تھرتھری کیا ہے

*

قدم قدم پہ نشانِ قدم ہیں حیدر کے

زمیں کے آگے بھلا چرخِ چنبری کیا ہے

*

کہا یہ فوج سے عباس نے ٹھہر جائو

بتائوں گا تمہیں میں زورِ حیدری کیا ہے

*

حبیب آئے ہیں زینب سلام بھیجتی ہیں

بتا رہی ہیں ہمیں بندہ پروری کیا ہے

*

کہا یہ بیٹوں سے زینب نے ہے َعلم کا خیال

سمجھتے بھی ہو یہ میراثِ حیدری کیا ہے

*

کسی نے قید میں سجاد کو اگر دیکھا

سمجھ میں آگیا اس کی کہ لاغری کیا ہے

*

بتایا حضرتِ عباس نے لبِ دریا

وفا کی شان ہے کیا اور دلاوری کیا ہے

*

لچک کے کہتا ہے پنجہ عَلم کا حیدر کے

کہ میرے آگے یہ خورشیدِ خاوری کیا ہے

*

۸۵

شہید طبع کی موزونیت سے کیا حاصل

جو شعر دل میں نہ اترے سخنوری کیا ہے

***

۸۶

(۸)

مال کا طالب کہاں ہوں کب مجھے زر چاہیے

اک نگاہِ لطف اے سبطِ پیمبر چاہیے

*

آج پھر اسلام کی ہوتی ہے تجدیدِ حیات

پیرویٔ اسوۂ سبطِ پیمبر چاہیے

*

حر ابھی کیا تھا ابھی کیا ہوگیا شانِ خدا

ایسی قسمت چاہیے ایسا مقدر چاہیے

*

شہ نے فرمایا کہ شکوہ کیوں کسی کا لب پہ آئے

شکرِ خلاقِ دو عالم زیرِ خنجر چاہیے

*

کہہ رہے ہیں کہنے والے فتح کچھ آساں نہیں

بابِ خیبر کے لئے بازوئے حیدر چاہیے

*

دوشِ احمد پر علی کعبہ میں دیتے ہیں اذاں

اس مُکبر کے لئے ایسا ہی منبر چاہیے

*

ہم گنہگاروں کے دل میں یہ تمنا ہے شہید

سایۂ دامانِ زہرا روزِ محشر چاہیے

***

۸۷

مرزا صادق حسین شہید لکھنوی

دینِ فطرت کی آبرو ہے حسین

حق یہ ہے حق کی آروز ہے حسین

*

زیرِ خنجر ترا گلو ہے حسین

پھر بھی خالق سے گفتگو ہے حسین

*

منہ پہ بے شیر کا لہو ہے حسین

پیشِ معبود سرخرو ہے حسین

*

یوں بھی کوئی نماز پڑھتا ہے

خونِ بے شیر سے وضو ہے حسین

*

آج کونین میں ہے ذکر ترا

دونوں عالم میں تو ہی تو ہے حسین

*

یہ حقیقت ہے ہر جگہ ہے خدا

یہ بھی سچ ہے کہ چار سو ہے حسین

*

باغِ ایماں کے غنچے غنچے میں

رنگ تیرا ہے تیری بوٖ ہے حسین

*

۸۸

قلبِ مادر کو اب سنبھالے ہے

ماں کو بچّے کی جستجو ہے حسین

*

ماں یہ خیمے کے در سے دیکھا کے

لاشِ اکبر ہے اور تو ہے حسین

*

تیرا روضہ ہو اور شہیدِ حزیں

مدّ توں سے یہ آرزو ہے حسین

***

۸۹

سید قمر حسین عرف چھٹن صاحب شیفتہ لکھنوی

شیفتہ امّی شاعر تھے انہوں نے ذاخر لکھنوی سے کلام پر اصلاح لی لکھنو کے اُمّی شعراء

(۱)

کہہ رہا تھا ُحسن ماں سے نوجوانی دیکھنا

ہوں جواں اکبر تو احمد کی نشانی دیکھنا

*

شیفتہ کیا ڈر ہے تجھ کو تیرے حامی ہیں حسین

بخشوائے گی لحد میں نوحہ خوانی دیکھنا

***

۹۰

(۲)

ہنگامِ ذبح قاتل ہے صدرِ شاہ دیں پر

خنجر میں کچھ لہو ہے کچھ خوں ہے آستیں پر

*

فوجِ عدو نے بڑھ کر عباس کو جو روکا

غیظ آگیا جری کو بل پڑ گئے جبیں پر

*

ہنگامِ جنگ جس دم اکبر نے تیغ کھینچی

کٹ کٹ کے سر عدو کے گرنے لگے زمیں پر

*

دربار میں سکینہ اس طرح سے کھڑی ہے

اک ہاتھ ہے گلے پر ایک ہاتھ ہے جبیں پر

*

محشر میں پوچھتی ہے یہ بے کسی کسی کی

اے شمر خوں ہے کس کا یہ تیری آستیں پر

*

اے شیفتہ نجف ہو یا خاکِ کربلا ہو

تربت کی اک جگہ ہے مل جائے گی کہیں پر

***

ماخذ: http://www.maulaali.com/marasi-d.html

ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ ۲۵۰ فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش

بشکریہ kitaben.ifastnet.com

۹۱

فہرست

شاہد اکبر پوری ۴

(۱) ۴

(۲) ۶

(۳) ۸

(۴) ۱۰

(۵) ۱۲

شاہد صدیقی ۱۴

شاہد نقدی ۱۵

شبنم رومانی ۱۶

میر شجاعت علی خاں معظم جاہ شجیع شہزادۂ سلطنتِ آصفیہ ۱۸

(۱) ۱۸

(۲) ۱۹

شفیق لکھنوی اُمّی ہیں ۲۱

(۱) ۲۱

(۲) ۲۳

(۳) ۲۵

محمد سعید شفیق بریلوی ۲۷

شکیل بدایونی ۲۹

۹۲

شمیم امروہوی ۳۱

(۱) ۳۱

(۲) ۳۳

(۳) ۳۵

منظور حسین شور ۳۶

شورش کاشمیری ۳۷

(۲) ۳۷

(۲) ۳۹

مرزا محمد اشفاق شوق لکھنوی ۴۱

(۱) ۴۱

(۲) ۴۳

(۳) ۴۵

(۴) ۴۸

(۵) ۵۰

شوکت تھانوی ۵۲

مرزا شوکت حسین شوکت لکھنوی ۵۴

شہاب کاظمی ۵۶

(۱) ۵۶

(۲) ۵۸

(۳) ۶۰

۹۳

(۴) ۶۲

(۵) ۶۴

منوّر عباس شہاب ۶۶

امتہ المحدی بیگم شہرت حیدرآبادی ۶۷

محرّم علی شہرت نو گانوی ۶۸

(۱) ۶۸

(۲) ۶۹

(۳) ۷۰

(۴) ۷۱

(۵) ۷۳

میر مہدی علی شہید لکھنوی شہید یار جنگ ۷۴

(۱) ۷۴

(۲) ۷۶

(۳) ۷۸

(۴) ۸۰

(۵) ۸۲

(۶) ۸۴

(۷) ۸۵

(۸) ۸۷

مرزا صادق حسین شہید لکھنوی ۸۸

۹۴

سید قمر حسین عرف چھٹن صاحب شیفتہ لکھنوی ۹۰

(۱) ۹۰

(۲) ۹۱

۹۵