• ابتداء
  • پچھلا
  • 95 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36440 / ڈاؤنلوڈ: 3205
سائز سائز سائز
علقمہ کےساحل پر

علقمہ کےساحل پر

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

علقمہ کےساحل پر

مختلف شعراء

۳

شاہد اکبر پوری

(۱)

آیۂ تطہیر نے ہر زخم دل پر لے لیا

جب حرم سے ظلم نے اعزازِ چادر لے لیا

*

اپنے ہی سینے میں شاید قلبِ مادر لے لیا

کیسے اذنِ مرگ تو نے ماں سے اکبر(ع) لے لیا

*

کہہ رہا ہے سجدۂ آخر یہ شہ(ع) کا آج تک

دستِ بیعت تو نہ پایا ظلم نے سر لے لیا

*

عکس بھی ان پر نہ آئے گا ترا موجِ فرات

جن لبوں کی تشنگی نے رنگِ کوثر لے لیا

*

نہر تو اس طرح لے لوں گا کہا عباس(ع) نے

جیسے اک حملے میں کل بابا نے خیبر لے لیا

*

ایک انگڑائی جو آئی آخرت کی یاد میں

حر(ع) نے پائے شاہ(ع) سے اپنا مقدّر لے لیا

*

جنت و کوثر ہیں اُس شبیر(ع) کی اب سلطنت

جس نے تاجِ آخرت سجدے سے اٹھ کر لے لیا

*

۴

مسکرا اٹھے شہادت پر وہب(ع) اس وقت جب

’’کہہ کے بسم اللہ ماں نے گود میں سر لے لیا‘‘

*

موت کے شیریں لبوں نے زیست کے بوسے لئے

شہ(ع) سے جب اذنِ وغا قاسم(ع) نے بڑھ کر لے لیا

*

خشک ہونٹوں پر زباں اصغر(ع) جو تو نے پھیر دی

اک تبسم نے تیرے ہاتھوں میں لشکر لے لیا

*

خوں سکینہ(ع) کی لوئوں سے دیر تک بہتا رہا

کان زخمی کرکے یوں ظالم نے گوہر لے لیا

*

فکرِ قرآں ، سیرتِ شبیر(ع)، کردارِ رسول(س)

جیسے اک کوزے میں شاہد نے سمندر لے لیا

***

۵

(۲)

مقصدِ شبیر(ع) جو دیتا ہے وہ پیغام لو

بن کے حر(ع) دستِ عمل سے شہ(ع) کا دامن تھام لو

*

دیتے ہیں پیغام یہ ابتک بہتّر تشنہ لب

موت کے ہاتھوں سے بڑھ کر زندگی کا جام لو

*

ہر غمِ دوراں کو دو شبیر(ع) کے غم سے جواب

آنسوئوں سے انتقامِ گردش ایام لو

*

معنی و تفسیرِ کعبہ ہے کتابِ کربلا

بعدِ احمد(س) کربلا کی خاک سے اسلام لو

*

فیصلہ ہوگا قیامت میں کہ مجرم کون ہے

دشمنِ آلِ(ع) پیمبر(س) جو بھی دے الزام لو

*

تم کو فکرِ زندگی ہے ہم کو فکرِ آخرت

ہم وہاں آرام لیں گے تم یہاں آرام لو

*

منزلِ عشقِ علی(ع) ہی منزلِ ایمان ہے

جانچ لو اپنے عمل کو پھر علی(ع) کا نام لو

*

شرک و بدعت اور ذکرِ معنیٔ ذبحِ عظیم

آیتِ قرآں نہ جھٹلائو خدا کا نام لو

*

۶

چھین کر دریا کہا عباس(ع) نے یوں فوج سے

لے سکو تو مجھ سے دریا بڑھ کے اب دو گام لو

*

جارہے ہیں پیش کرنے حجتِ آخر حسین(ع)

اے علی اصغر(ع) نہ اب جھولے میں تم آرام لو

*

آخرت کی زندگی شاہد رہے پیشِ نظر

مدحِ مولا(ع) میں نہ دنیا سے کوئی انعام لو

***

۷

(۳)

کربلا ہیں تجھ میں ایسے رہ نما ٹھہرے ہوئے

گردشوں پر بھی ہیں جن کے نقشِ پا ٹھہرے ہوئے

*

آج تک آنکھوں میں ہیں اشکِ عزا ٹھہرے ہوئے

اک جہاں میں ہم ہیں بس غم آشنا ٹھہرے ہوئے

*

دیتے ہیں راہِ عمل سے یہ صدا اب تک حسین(ع)

ہم شفاعت کو ہیں تا روزِ جزا ٹھہرے ہوئے

*

اڑ رہا ہے جس بلندی پر َعلم عباس(ع) کا

اب اسی مرکز پہ ہیں اہلِ وفا ٹھہرے ہوئے

*

دو جہاں سے لے چکی بیعت وفا عباس(ع) کی

دو کٹے ہاتھوں پہ ہیں ارض و سما ٹھہرے ہوئے

*

بڑھتے ہیں اپنی جگہ سے شہ(ع) بہ الطاف و کرم

حر(ع) پشیماں ہورہے ہیں اپنی جا ٹھہرے ہوئے

*

ان پہ کیا گزرے گی تیری اٹھتی موجیں دیکھ کر

سامنے پیاسے جو ہیں اے علقمہ ٹھہرے ہوئے

*

جنگِ قاسم(ع) دیکھ کر حیرت سے کہتے تھے عدو

کم سنی میں بھی ہیں ان کے وار کیا ٹھہرے ہوئے

*

۸

آرہے ہیں لاش پر بابا یہ اکبر(ع) نے کہا

قلبِ مضطر اور کچھ رہنا ، ذرا ٹھہرے ہوئے

*

دل کی ہر دھڑکن میں اب تک سو رہی ہے اس کی یاد

جس کا جھولا اک زمانہ ہوگیا ٹھہرے ہوئے

*

ٹھوکریں کھاتے زمانے بھر کی شاہد کس لیے

جب درِ شبیر(ع) پر سب مل گیا ٹھہرے ہوئے

***

۹

(۴)

اشکِ غم میں شہ(ع) کے ایسی ضوفشانی چاہیے

کچھ عمل میں سیرتِ شبیر(ع) آنی چاہیے

*

وہ سمجھ لیں کربلا میں آکے مفہومِ حیات

جن کو دارِ آخرت کی زندگانی چاہیے

*

جاگ اٹھا کہہ کر شبِ عاشور یہ حر(ع) کا ضمیر

صبح پائے شہ(ع) پہ قسمت آزمانی چاہیے

*

مشورے اصحابِ شہ(ع) میں تھے شبِ عاشور یہ

کل ہر اک آفت ہمیں پر پہلے آنی چاہیے

*

فوج کہتی تھی کوئی ساحل پہ آسکتا نہیں

غیض کہتا تھا جری(ع) کا ہم کو پانی چاہیے

*

شرم آئے گی سکینہ(ع) سے کہا عباس(ع) نے

لاش خیمے میں مری آقا نہ جانی چاہیے

*

کرکے صبر و شکر رن کو بھیجے دیتے ہیں حسین(ع)

’’موت جب کہتی ہے اکبر(ع)کی جوانی چاہیے‘‘

*

۱۰

حرملہ کے تیر سے اصغر(ع) نے ہنس کر یہ کہا

یہ تو تھی اتمامِ حجت کس کو پانی چاہیے

*

قبضۂ شبیر(ع) ہے ہر دل پہ شاہد آج تک

بادشاہِ دیں (س) کو ایسی حکمرانی چاہیے

***

۱۱

(۵)

ذکرِ غم حسین(ع) کی عظمت نہ پوچھئے

اہلِ عزا کی خوبیٔ قسمت نہ پوچھئے

*

مَس ہوگئی ہے جن کی عقیدت حسین(ع) سے

ان کے دل و نظر کی طہارت نہ پوچھئے

*

نکلے درِ حسین(ع) سے جنت کے قافلے

ہٹ کر یہاں سے راہِ ہدایت نہ پوچھئے

*

رکھئے ولائے آلِ محمد(س) کی روشنی

ورنہ اندھیری قبر کی وحشت نہ پوچھئے

*

کشتیٔ اہلبیت(ع) میں جب مل چکی پناہ

دنیا سے اب نجات کی صورت نہ پوچھئے

*

دامن میں فاطمہ(س) کے ہے تقدیرِ کائنات

’’اشکِ غم حسین(ع) کی قیمت نہ پوچھئے’’

*

تڑپی تھی ایک برق سی انکارِ شاہ(ع) کی

پھر کیا ہوا نتیجۂ بیعت نہ پوچھئے

*

۱۲

ٹھوکر میں اپنی چھوڑ کے منصب جو حر(ع) چلا

قدموں میں شہ(ع) کے اس کی ندامت نہ پوچھئے

*

جھولے سے جس نے خود کو مچل کر گرادیا

اس بے زباں (ع) کا جذبۂ نصرت نہ پوچھئے

*

اصغر(ع) کی لاش خاک میں رکھ کر حسین(ع) نے

کیسے بنائی ننھی سی تربت نہ پوچھئے

*

سکتہ میں شام آگیا کوفہ لرز اٹھا

بنتِ(س) علی(ع) کا زورِ خطابت نہ پوچھئے

*

میزانِ غم حسین(ع) ہے اعمال جانچئے

’’اشکِ غمِ حسین(ع) کی قیمت نہ پوچھئے’’

*

شاہد بقائے مقصدِ شبیر(ع) کے لئے

ہے کس قدر عمل کی ضرورت نہ پوچھئے

***

۱۳

شاہد صدیقی

جفا کی ظلمت طرازیوں میں وفا کی شمعیں جلا رہے ہیں

حسین(ع) نورِ حیات بن کر تمام عالم پہ چھا رہے ہیں

*

یہ کس مسافر نے جان دے کر بتا دیا ہے سراغِ منزل

یہ کون گذرا ہے کربلا سے کہ راستے جگمگا رہے ہیں

*

حسین(ع) کے ساتھیوں کی راہوں میں حشر تک روشنی رہے گی

یہ اہلِ ہمت ہوا کے رخ پر چراغ اپنا جلا رہے ہیں

*

خود آگہی منزلِ حضوری مقامِ غفلت مقامِ دوری

شعور بیدار ہورہا ہے حسین(ع) نزدیک آ رہے ہیں

*

یہ ظلمت و نور کا تصادم ازل سے جاری ہے اس جہاں

یزید شمعیں بجھا رہا ہے حسین(ع) شمعیں جلا رہے ہیں

*

علی(ع) کو آواز دے کے اٹھئے اگر نہیں ہے کوئی سہارا

حسین(ع) کا نام لیکے بڑھئے اگر قدم لڑکھڑا رہے ہیں

*

امامِ(ع) برحق کا ہر زمانہ میں ربط ہے کاروبارِ حق سے

پیمبری(ص) ختم ہو چکی ہے مگر پیامات آ رہے ہیں

*

مری نگاہوں میں بزمِ ماتم بھی منزلِ امتحاں ہے شاہد

جنہیں مشیت نے آزمایا وہ اب ہمیں آزما رہے ہیں

***

۱۴

شاہد نقدی

مسافر گر چرالیں اپنی نظریں علم کے در سے

تو سارے رابطے کٹ جائیں امت کے پیمبر(ص) سے

*

علی(ع) کے روئے اقدس میں ہے جلوہ ہر پیمبر(ص) کا

نظر ڈالی علی(ع) پر مل لیے ایک اک پیمبر(ص) سے

*

ذرا نامِ مقابل پوچھ لے قبلِ وغا مرحب

تری ماں نے کہا تھا بچ کے رہنا تیغ حیدر(ع) سے

*

دلائل میں نصیری کے یقینا وزن ہے لیکن

جو وہ کہتا ہے میں کہتا نہیں اللہ کے ڈر سے

*

سرِ منبر نبی(ص) کے بعد دنیا آئی تو لیکن

نہ ہو پانی ہے جس بادل میں وہ برسے تو کیا برسے

*

خدا وندا مسلماں کو وہ چشمِ دور رس دے دے

کہ دشتِ خم نظر آنے لگے ہجرت کے بستر سے

*

علی(ع) کا مثل کوئی ڈھونڈ کر لائے تو ہم جانیں

خدا سازی تو آساں ہے بنا لیتے ہیں پتھر سے

*

نظر آئے نہ آئے کوئی ہادی اب بھی ہے شاہد

نہ ہوگر حجتِ قائم(ع) زمیں ہٹ جائے محور سے

***

۱۵

شبنم رومانی

جب دکھائے اسد اللہ نے تلوار کے ہاتھ

خشک پتے نظر آنے لگے اغیار کے ہاتھ

*

دیکھتا ہوں جو کسی رحل پہ قرآنِ کریم

چوم لیتا ہوں تصور میں علمدار(ع) کے ہاتھ

*

دیکھتے رہ گئے اربابِ جفا حیرت سے

بک گئے اہلِ وفا سیدِ ابرار(ع) کے ہاتھ

*

ایک اک ہاتھ تھا تلوار کا صد خشتِ حرم

یوں بھی تعمیر کیا کرتے ہیں معمار کے ہاتھ

*

ہائے وہ جذبِ وفا اُف وہ جنونِ ایثار

خود َعلم ہوگئے میداں میں علمدار(ع) کے ہاتھ

*

ظلم کی حد ہے کہ ظالم بھی بلک کر رویا

کبھی ماتھے پہ تو زانو پہ کبھی مار کے ہاتھ

*

ہر برے کام کا انجام برا ہوتا ہے

کس نے دیکھے ہیں بھلا کیفرِ کردار کے ہاتھ

*

۱۶

گھونٹ دیتی ہے گلا وحشتِ احساسِ گناہ

نکل آتے ہیں اچانک درو دیوار کے ہاتھ

*

یوں تو ہوں شاعرِ رومان مگر اے شبنم

بک گیا ہوں میں کسی یارِ طرحدار کے ہاتھ

***

۱۷

میر شجاعت علی خاں معظم جاہ شجیع شہزادۂ سلطنتِ آصفیہ

(۱)

مقابلِ رخِ شہ(ع) آفتاب کیا ہوگا

جوابِ سبط(ع) رسالت(ص) مآب کیا ہوگا

*

نبی(ص) کا حسن ہے شانِ علی(ع) ہے اکبر(ع) میں

بس اب سمجھ لو کہ ان کا شباب کیا ہوگا

*

جو بے حساب کرم ہے ترا تو محشر میں

گناہ گاروں کا یارب حساب کیا ہوگا

*

علی(ع) وصیٔ نبی(ص) ہیں علی(ع) ولیٔ خدا

یہ لاجواب ہیں ان کا جواب کیا ہوگا

*

لحد نے کی تو ہیں تیاریاں فشار کی آج

جو آئیں بہرِ مدد بوتراب(ع) کیا ہوگا

*

تڑپ کے مر گئے بچے حسین(ع) کے پیاسے

جہاں میں لاکھ یہ برسے سحاب کیا ہوگا

*

حرم(ع) رسول(ص) کے دربارِ عام میں ہوں کھڑے

اب اس سے بڑھ کے بھلا انقلاب کیا ہوگا

*

ملی ہے مجھ کو شجاعت علی(ع) کے صدقے میں

شجیع اور جہاں میں خطاب کیا ہوگا

***

۱۸

(۲)

جہانِ ظلم سے اصغر(ع) بھی مسکراکے چلے

بجھانے آئے تھے پیاس اور تیر کھا کے چلے

*

حسینیوں (ع) کے بھی کیسے بڑھے ہوئے دل تھے

قریب آئی جو منزل قدم بڑھا کے چلے

*

علم بدوش تھے لشکر کی جان تھے عباس(ع)

بہ زورِ تیغ زمیں آسماں ہلا کے چلے

*

علی(ع) کے شیر(ع) تھے ہاتھ اپنے کردیئے صدقے

خدا کی راہ میں دنیا سے ہاتھ اٹھا کے چلے

*

حسین(ع) کو جو سکینہ(ع) وغا میں یاد آئی

پلٹ کے خیمہ میں آئے گلے لگا کے چلے

*

چلے جو تشنہ لبِ کربلا سوئے کوثر

لبِ فرات چراغِ وفا جلا کے چلے

*

اسی لئے علی اکبر(ع) جہاں میں آئے تھے

علی(ع) کی شان شبابِ نبی(ص) دکھا کے چلے

*

۱۹

دلوں پہ داغ عزیزوں کے بازوئوں میں رسن

عجیب شان سے مہمان کربلا کے چلے

*

قبولیت کی سند بھی چلے شجیع کے ساتھ

سلام روضۂ اقدس پہ جب سنا کے چلے

***

۲۰

شفیق لکھنوی اُمّی ہیں

پیارے صاحب رشید کے چہیتے شاگردوں میں شمار ہے صاحبِ دیوان ہیں ۔

لکھنو کے اُمّی شعراءسید احمد حسین شفیق لکھنوی عرف ننھو

(۱)

کربلا کے دشت میں یوں شاہ(ع) کا ماتم رہا

خاک اڑائی دن نے شب کو گریۂ شبنم رہا

*

ذوالفقارِ شاہ(ع) کہتی تھی بڑی عابد ہوں میں

دشمنوں سے جنگ کرنے میں مرا سر خم رہا

*

تم بھی انصارِ شہ(ع) دیں زندۂ جاوید ہو

بعد مر جانے کے تم میں تا قیامت دم رہا

*

سربلندوں کے جدا کرتی ہے سر شمشیرِ شاہ(ع)

دیکھتی جاتی ہے مڑ مڑ کے کہ کس میں دم رہا

*

خونِ ناحق کی شہادت دے گا وہ روزِ جزا

خونِ اصغر(ع) حرملہ کے تیر میں جو جم رہا

*

اندمالِ زخمِ شاہ(ع) دیں ہے منظورِ نظر

اس لئے آنکھوں میں میری اشک کا مرہم رہا

*

۲۱

کہتا تھا دریا کہ ان کے تر تو ہوں زخمِ جگر

عکس سے عباس(ع) کے آب رواں یوں تھم رہا

*

اور خاصانِ خدا گذرے ہیں عالم میں شفیق

تا قیامت اک حسین(ع) ابنِ علی(ع) کا غم رہا

***

۲۲

(۲)

دیواں ہوا مرتب دیکھے گا اک زمانہ

ان پڑھ ہوں میں الٰہی عزت مری بچانا

*

اک لفظِ کن سے تیرا ہر چیز کا بنانا

جیسا کہ تو ہے خالق ویسا ہے کارخانہ

*

یکتا ہے تو بھی خالق تیرا نبی(ص) یگانا

دنیا میں جس سے پایا اسلام نے ٹھکانا

*

سب منکروں کے ہاتھوں وہ ظلم کا اٹھانا

یہ اس کا قاعدہ تھا اخلاق کا بتانا

*

تیرا پیام لے کر ہر سمت اس کو جانا

تو دوست تھا الٰہی دشمن تھا اک زمانہ

*

ایسے نبی(ص) کا یارب ایسا وصی(ع) بنانا

جس کو امامِ(ع) اوّل کہنے لگا زمانہ

*

بچوں میں یہ علی(ع) کے تھا فعلِ عاشقانہ

دے دے کے اپنی جانیں اسلام کو بچانا

*

۲۳

ان سب نے منکروں کا ستھرائو کردیا ہے

کفار کو تھا مشکل جانوں کا بھی بچانا

*

ان کو ہی تو نے دی تھی ایسی صفت الٰہی

ہر دم جہاد کرکے کفارّ کو دبانا

*

ایمان کے چمن میں یہ معجزہ ہے ظاہر

نامِ کریم ُسن کر کلیوں کا پھول جانا

*

ایماں کے جوہیں بلبل وہ کررہے ہیں کوشش

اپنا بنا رہے جنت میں آشیانا

*

ان کی زباں کی قوت زائد ہو یا الٰہی

اسلام کا ہے ڈنکا بلبل کا چہچانا

*

انساں ہو یا کہ طائر آباد رکھنا ان کو

پڑھتے ہیں ہر چمن میں جو تیرا ہے فسانا

*

ان پڑھ شفیق یارب آیا ہے تیرے در پر

یہ ہو اثر سخن میں اچھا کہے زمانا

***

۲۴

(۳)

رہ گئے تنہا تو طعنہ زن ستمگر ہوگئے

شاہ(ع) کو زخمِ زباں سب شکلِ نشتر ہوگئے

*

بحرِ غم میں غرق یہ ایسے بہتّر ہوگئے

کشتیٔ اسلام کے مضبوط لنگر ہوگئے

*

رونے والے شاہ(ع) کے کہنے لگے روزِ جزا

آنسوئوں نے یہ ترقی کی کہ گوہر ہوگئے

*

ان کے باعث سے بڑی اسلام میں رونق ہوئی

جو بہتّر فدیۂ دینِ پیمبر(ص) ہوگئے

*

کہتی تھی زینب(ع) ابھی عون(ع) و محمد(ع) طفل ہیں

جنگ میں پہلے پہل کیسے دلاور ہوگئے

*

ننگے سر دیکھا جو آلِ(ع) مصطفی(ص) کو راہ میں

خاک سے اٹھ کر بگولے شکلِ چادر ہوگئے

*

حضرتِ اصغر(ع) کے مرنے میں عجب اعجاز تھا

جان دے کر یہ بزرگوں کے برابر ہوگئے

*

۲۵

کہتی تھی بانو(ص) علی اکبر(ع) سے شادی ہو کہیں

اب جواں نامِ خدا تم جانِ مادر ہوگئے

*

شہ(ع) کے صدقے میں گنہ گاروں کو بخشے گا خدا

جس قدر بگڑے تھے وہ سیدھے مقدر ہوگئے

*

یاد تو ہوں گی تجھے دستِ خدا کی قوتیں

کس قدر ٹکڑتے ترے اے بابِ خیبر ہوگئے

*

یہ عقیدہ ہے مرا میں صاف کہتا ہوں شفیق

باوفا عالم میں عباس(ع) دلاور ہوگئے

***

۲۶

محمد سعید شفیق بریلوی

یہ کون شخص ہے کیسا دکھائی دیتا ہے

کہ جو بھی دیکھے ہی، اپنا دکھائی دیتا ہے

*

ہے کتنی صدیوں کا گرد و غبار چہرہ پر

یہ مہر پھر بھی چمکتا دکھائی دیتا ہے

*

جو کام آنہ سکا چند تشنہ کاموں کے

ہمیں وہ نام کا دریا دکھائی دیتا ہے

*

کسی کو خوں کی ضرورت کسی کو پانی کی

جسے بھی دیکھو وہ پیاسا دکھائی دیتا ہے

*

نہ جانے خیمہ میں یہ کیسے لوگ بیٹھے ہیں

کہ شمع گل ہے ، اُجالا دکھائی دیتا ہے

*

ہیں اس گھرانے کے سب لوگ ایک قامت کے

کہ جو بھی آتا ہے اونچا دکھائی دیتا ہے

*

کوئی علیؑ کے ہے خوابوں کی ہو بہو تعبیر

کوئی نبی(ص) کا سراپا دکھائی دیتا ہے

*

نہ کچھ تھکن کے ہیں آثار اور نہ موت کا ڈر

ہر ایک چہرہ شگفتہ دکھائی دیتا ہے

*

۲۷

عجیب شان ہے ان چند مرنے والوں کی

کہ زرد موت کا چہرہ دکھائی دیتا ہے

*

لرز رہے ہیں عدو، دیکھو ذوالفقار نہ ہو

ہمیں تو ہاتھوں پہ ّبچہ دکھائی دیتا ہے

*

نہ جانے کیوں اسے بیمار لوگ کہتے ہیں

ہمیں یہ شخص مسیحا دکھائی دیتا ہے

*

شفیق کس کا کرم ہے کہ تیری قسمت کا

بلندیوں پہ ستارا دکھائی دیتا ہے

***

۲۸

شکیل بدایونی

نظر وابستۂ ماہِ محرّم ہوتی جاتی ہے

سلامی بزمِ ہستی بزمِ ماتم ہوتی جاتی ہے

*

طبیعت خود بہ خود دلداۂ غم ہوتی جاتی ہے

صدائے دل صدائے سوزِ ماتم ہوتی جاتی ہے

*

ہوائے دہر کی خوں نابہ افشانی ارے توبہ

خزاں بر کف بہارِ بزمِ عالم ہوتی جاتی ہے

*

اُدھر صرفِ ستم گیسو بریدہ فوجِ شامی ہے

اِدھر تیغِ برہنہ اور برہم ہوتی جاتی ہے

*

ہر اک روحِ جفا ہے خود جفاکار و جفاپیشہ

بلا شک داخلِ قعرِ جہنم ہوتی جاتی ہے

*

شہادت جس کو مدت سے سرافرازی کا ارماں تھا

وہ اب پابوسِ محبوبِ دو عالم ہوتی جاتی ہے

*

حسینِ(ع) پاک کی گردن پہ خنجر چلتا جاتا ہے

مکمل داستانِ جورِ پیہم ہوتی جاتی ہے

*

خمِ تیغِ قضا محرابِ کعبہ ہے نگاہوں میں

جبینِ شوق سجدوں کے لئے خم ہوتی جاتی ہے

*

۲۹

خدا شاہد کہ اس ایثار و قربانی کے صدقے میں

خدائی واقفِ رازِ دو عالم ہوتی جاتی ہے

*

زمینِ کربلا کے اُف وہ ہیبت ناک نظارے

دلوں سے قدرِ محشر واقعی کم ہوتی جاتی ہے

*

حریفانِ علی(ع) وعدہ خلافی کرتے جاتے ہیں

عداوت، جزو خوئے ابنِ آدم ہوتی جاتی ہے

*

مئے کوثر پلاتے ہیں جنابِ مصطفی(ص) شاید

علی اصغر(ع) کے رونے کی صدا کم ہوتی جاتی ہے

*

ستم کوشانِ بزدل شیربن بن کر بپھرتے ہیں

دلیروں کی جماعت جس قدر کم ہوتی جاتی ہے

*

ترانے عشق کے اتنے ہی دلکش ہوتے جاتے ہیں

صدائے سازِ ہستی جتنی مدھم ہوتی جاتی ہے

*

جہاں پر جتنے اسرارِ شہادت ُکھلتے جاتے ہیں

شریعت اور محکم اور محکم ہوتی جاتی ہے

*

شکیل اسلام کے دشمن مٹے اور مٹتے جاتے ہیں

یہ قربانی مسلم تھی مسلم ہوتی جاتی ہے

***

۳۰

شمیم امروہوی

(۱)

سلامی جاں گزا ہے رنج وغم خاصانِ داور کا

قلق سبطین(ع) کا ، زہرا(ص) کا، حیدر(ع) کا، پیمبر(ص) کا

*

سدا ُشہرہ رہے گا جود و خلق و زورِ حیدر(ع) کا

قطار و شیر و انگشتر کا، در کا، روح کے َپر کا

*

علی(ع) کی تیغ کے دم سے ہوا ہر معرکہ فیصل

احد کا، بدرکا، صفین کا، خندق کا، خیبر کا

*

یہ پانچوں سورے اے دل، پنجتن(ع) کی شان میں آئے

قمرکا ، شمس کا ، رحمان کا ، مریم(ع) کا ، کوثر کا

*

فدائے شاہ(ع) ہوکر حر(ع) نی، کس کس کا شرف پایا

اویس(ع) و زید(ع) کا ، عمار(ع) کا ، سلماں (ع) کا بوذر(ع) کا

*

نشاں مٹ کر وفاداری میں کیسا نام نکلا ہے

زہیر(ع) و مسلم(ع) و وہب(ع) و حبیب(ع) و حر(ع) صفدر(ع) کا

*

غلامِ پنجتن(ع) کو ڈر نہیں ان پانچوں چیزوں کا

اجل کا، جاں کنی کا، قبر کا، برزخ کا، محشر کا

*

ِملا ہے رونے والوں کو ثواب اک کا آہ کیا کیا

صلٰوۃ و صوم کا خمس و زکوٰۃ و حجِّ اکبر کا

۳۱

*

سوائے تشنگی شبیر(ع) کو ایک ایک صدمہ تھا

بھتیجوں بھانجوں کا ، بھائی کا ، اکبر(ع) کا ، اصغر(ع) کا

*

برابر زخم پر ہے زخم ، شہ(ع) کے جسمِ اطہر پر

تبر کا ، تیر کا ، تلوار کا ، نیزے کا ، خنجر کا

*

غضب ہے اتنے صدمے ایک جانِ خواہرِ شہ(ع) پر

ردا کا، قید کا، بچوں کا، اکبر(ع) کا، برادر(ع) کا

*

سکینہ(ع) لے گئی یہ پانچ داغ اس باغِ عالم سے

طمانچوں کا، رسن کا، باپ کا، عمّو کا، گوہر کا

*

تڑپ کے کہتی تھی بانو(ع)، کروں کس کا کا میں ماتم

جواں کا، طفل کا، داماد کا، دختر کا، شوہر کا

*

قیامت ہے نئی بیاہی سہے بچپن میں کیا کیا غم

پدر کا بھائی کا گھر کا رنڈاپے کا کھلے سر کا

*

تہِ خنجر امامِ پاک کو کس کس کا دھیان آیا

بہن کا، بیٹی کا بیمار کا، امت کا ، محضر کا

*

تپِ ہجراں میں جلنے کو چراغ اک رہ گیا باقی

نبی(ص) و فاطمہ(ص) کا حیدر(ع) و شبیر(ع) و شبر(ع) کا

*

شمیم اس کلمۂ وحدت کا ہر دم دھیان رکھتا ہے

میں بندہ ایک کا دو تین کا نو کا اکہتر کا

***

۳۲

(۲)

حیاتِ دو جہاں رسول(ص)

نصیبِ این و آں حسین(ع)

جہاں جہاں جہاں رسول(ص)

وہاں وہاں وہاں حسین(ع)

*

لب و نظر کی زیب و زین

حدیثِ شاہ(ص) مشرقین

حسین(ع) کی زباں رسول(ص)

رسول(ص) کی زباں حسین(ع)

*

انہیں کا فیض جا بجا

بساطِ خشک و تر ہے کیا

فروغِ ہر زماں رسول(ص)

مکینِ ہر مکاں حسین(ع)

*

روش روش ہے لالہ زار

ہر ایک گل سدا بہار

بنائے گلستاں رسول(ص)

بہارِ بے خزاں حسین(ع)

*

۳۳

حرم زمینِ ابتلا

بلا زمینِ کربلا

یہاں کے آسماں رسول(ص)

وہاں کے آسماں حسین(ع)

*

ہر اک نظر ہر اک نگاہ

شہودِ حق کی جلوہ گاہ

خدا کے رازداں رسول(ص)

نبی(ص) کے رازداں حسین(ع)

*

سوالِ بولہب شدید

سوالِ سخت تر یزید

جواب میں وہاں رسول(ص)

جواب میں یہاں حسین(ع)

*

شمیم غم گسار پر

یہ فیض کردگار کر

کرم ہی مہرباں رسول(ص)

کرم ہی جانِ جاں حسین(ع)

***

۳۴

(۳)

چراغِ خانۂ زہرا(ص) دکھائی دیتا ہے

وہ ظلمتوں میں اُجالا دکھائی دیتا ہے

*

جو اہلِ بیت(ع) کے در پر لگا رہا برسوں

اسی غلاف میں کعبہ دکھائی دیتا ہے

*

نشانِ دینِ پیمبر(ص) ہے آپ کا دامن

فضا میں سبز پھریرا دکھائی دیتا ہے

*

اگر شرائط صلحِ حسن(ع) پہ غور کرو

حدیبیہ کا سا نقشہ دکھائی دیتا ہے

*

بقائے دین کی کوشش رسول(ص) کا کردار

اس ایک صلح میں کیا کیا دکھائی دیتا ہے

*

پلا رہا ہے جو محشر میں جام کوثر کے

وہ تین روز کا پیاسا دکھائی دیتا ہے

*

مدد کو آئو کہ وقتِ مدد ہے اے مولا

شمیم آپ کا تنہا دکھائی دیتا ہے

***

۳۵

منظور حسین شور

یہ سلسلہ ہے اٹل دینِ مصطفی کے لئے

علی نبی کے لئے ہیں نبی خدا کے لئے

*

میانِ باطل و حق زحمتِ تمیز بھی کر

یہ رہگذار ترستی ہے نقشِ پا کے لئے

*

وہ جس کا وقت کی تاریخ میں ہے نام حسین

وہ استعارۂ وحدت ہے کبریا کے لئے

*

علی کا ذکر عبادت ہے بے رکوع و سجود

کہ سمت و جہت ضروری نہیں ہوا کے لئے

*

سقیفہ بند ہو ایماں کہ شام کا بازار

جواز کوئی تو ہو خونِ کربلا کے لئے

*

تھیں برقعہ پوش سبھی دخترانِ کوفہ و شام

نہ تھی ردا تو فقط بنتِ فاطمہ کے لئے

***

۳۶

شورش کاشمیری

(۲)

سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں

جس نے اولادِ پیمبر کا تماشا دیکھا

*

جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں

جس نے لختِ دل حیدر کو تڑپتا دیکھا

*

برسرِ عام سکینہ کی نقابیں الٹیں

لشکرِ حیدر کرار کو لٹتا دیکھا

*

اُمِّ کلثوم کے چہرے پہ طمانچے مارے

شام میں زنیب و صغریٰ کا تماشا دیکھا

*

شہ کونین کی بیٹی کا جگر چاک کیا

سبطِ پیغمبرِ اسلام کا لاشا دیکھا

*

دیدۂ قاسم و عباس کے آنسو لوٹے

قلب پر عابد بیمار کے چرکا دیکھا

*

توڑ کر اکبر و اصغر کی رگوں پر خنجر

جورِ دوراں کا بہیمانہ تماشا دیکھا

*

۳۷

بھائی کی نعش سے ہمشیر لپٹ کر روئی

فوج کے سامنے شبیر کو تنہا دیکھا

*

پھاڑ کے گنبدِ خضریٰ کے مکیں کا پرچم

عرش سے فرش تلک حشر کا نقشا دیکھا

*

قلبِ اسلام میں صدمات کے خنجر بھونکے

کربلا میں کفِ قاتل کا تماشا دیکھا

*

ابوسفیان کے پوتے کی غلامی کرلی

خود فرشتوں کو دِنایت سے پنپتا دیکھا

*

اے میری قوم ترے حسنِ کمالات کی خیر

تو نے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشا دیکھا

*

یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے اب سوچنے دے

کوئی تیرا بھی خدا ہے مجھے اب سوچنے دے

***

۳۸

(۲)

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حسین

بسکہ تھا لختِ دلِ حیدر کرار حسین

*

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم

وادیٔ نجد میں اسلام کی للکار حسین

*

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو

اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین

*

ابوسفیان کے پوتے کی جہانبانی میں

عزتِ خواجۂ گیہاں کا نگہدار حسین

*

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور

عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حسین

*

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا

حق کی آواز صداقت کا طرفدار حسین

*

وائے یہ جور جگر گوشۂ زہرا کے لئے

ہائے نیزے کی انی پر ہے جگر دار حسین

*

۳۹

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی

ہر زمانے کے لئے دعوتِ ایثار حسین

*

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے

دورِ حاضر کے یزیدوں سے ہے دو چار حسین

***

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95