مقدمہ
آج ۱۸ ذی الحج ہے، جس دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع سے مدینہ طیّبہ واپسی کے دوران غدیرِ خُم کے مقام پر قیام فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہجوم میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم کا ہاتھ اُٹھا کر اعلان فرمایا :
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
یہ اعلانِ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ تھا، جس کا اطلاق قیامت تک جملہ اہلِ ایمان پر ہوتا ہے اور جس سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جو ولایتِ علی رضی اللہ عنہ کا منکر ہے وہ ولایتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے۔ اِس عاجز نے محسوس کیا کہ اس مسئلہ پر بعض لوگ بوجہِ جہالت متردّد رہتے ہیں اور بعض لوگ بوجہِ عناد و تعصّب۔ سو یہ تردّد اور انکار اُمّت میں تفرقہ و انتشار میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ اندریں حالات میں نے ضروری سمجھا کہ مسئلہ وِلایت و اِمامت پر دو رِسالے تالیف کروں : ایک بعنوان’السَّیفُ الجَلِی عَلٰی مُنکِرِ وِلایةِ عَلیّ رضی الله عنه‘
اور دوسرا بعنوان’القولُ المُعتَبَر فِی الامام المُنتَظَر
‘۔ پہلے رسالہ کے ذریعے فاتحِ ولایت حضرت امام علی علیہ السلام کے مقام کو واضح کروں اور دوسرے کے ذریعے خاتمِ ولایت حضرت امام مہدی علیہ السلام کا بیان کروں تاکہ جملہ شبہات کا اِزالہ ہو اور یہ حقیقت خواص و عوام سب تک پہنچ سکے کہ ولایتِ علی علیہ السلام اور ولایتِ مہدی علیہ السلام اہلِ سنت و جماعت کی معتبر کتبِ حدیث میں روایاتِ متواترہ سے ثابت ہے۔ میں نے پہلے رسالہ میں حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکیاون (۵۱) روایات پوری تحقیق و تخریج کے ساتھ درج کی ہیں۔ اِس عدد کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اِمسال اپنی عمر کے ۵۱ برس مکمل کئے ہیں، اس لئے حصولِ برکت اور اِکتساب خیر کے لئے عاجزانہ طور پر عددی نسبت کا وسیلہ اختیار کیا ہے تاکہ بارگاہِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں اِس حقیر کا نذرانہ شرفِ قبولیت پاسکے۔ (آمین)
اَب اِس مقدّمہ میں یہ نکتہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدّسہ سے تین طرح کی وراثتیں جاری ہوئیں :
٭ خلافتِ باطنی کی روحانی وراثت
٭ خلافتِ ظاہری کی سیاسی وراثت
٭ خلافتِ دینی کی عمومی وراثت
٭ خلافتِ باطنی کی روحانی وراثت اہلِ بیتِ اطہار کے نفوس طیّبہ کو عطا ہوئی۔
٭ خلافتِ ظاہری کی سیاسی وراثت خلفاء راشدین کی ذوات مقدّسہ کو عطا ہوئی۔
٭ خلافتِ دینی کی عمومی وراثت بقیہ صحابہ و تابعین کو عطا ہوئی۔
خلافتِ باطنی نیابتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ سرچشمہ ہے جس سے نہ صرف دینِ اسلام کے روحانی کمالات اور باطنی فیوضات کی حفاظت ہوئی بلکہ اس سے اُمّت میں ولایت و قطبیت اور مُصلحیت و مجدّدیت کے چشمے پھوٹے اور اُمّت اِسی واسطے سے روحانیتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیضاب ہوئی۔ خلافتِ ظاہری نیابتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ سرچشمہ ہے جس سے غلبہ دین حق اور نفاذِ اسلام کی عملی صورت وجود میں آئی اور دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمکّن اور زمینی اقتدار کا سلسلہ قائم ہوا۔ اِسی واسطے سے تاریخِ اِسلام میں مختلف ریاستیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں اور شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظامِ عالم کے طور پر دُنیا میں عملاً متعارف ہوئی۔
خلافتِ عمومی نیابتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ سرچشمہ ہے جس سے اُمّت میں تعلیماتِ اسلام کا فروغ اور اعمالِ صالحہ کا تحقّق وجود میں آیا۔ اِس واسطے سے افرادِ اُمّت میں نہ صرف علم و تقویٰ کی حفاظت ہوئی بلکہ اخلاقِ اِسلامی کی عمومی ترویج و اشاعت جاری رہی، گویا :
پہلی قسم : خلافتِ ولایت قرارپائی
دوسری قسم : خلافتِ سلطنت قرار پائی
تیسری قسم : خلافتِ ہدایت قرار پائی
اس تقسیمِ وراثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مضمون کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اِن الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا ہے :
پس وراث آنحضرت هم بسه قسم منقسم اند فوراثه الذين أخذوا الحکمة والعصمة والقطبية الباطينة، هم أهل بيته و خاصته و وراثه الذين أخذوا الحفظ و التلقين و القطبية الظاهرة الإرشادية، هم أصحابه الکبار کالخلفاء الأربعة و سائر العشرة، و وراثه الذين أخذوا العنايات الجزئية و التقوي و العلم، هم أصحابه الذين لحقوا بإحسان کأنس و أبي هريرة و غيرهم من المتأخرين، فهذه ثلاثة مراتب متفرعة من کمال خاتم الرسل صلی الله عليه وآله وسلم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وراثت کے حاملین تین طرح کے ہیں : ایک وہ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حکمت و عصمت اور قطبیتِ باطنی کا فیض حاصل کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت اور خواص ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حفظ و تلقین اور رشد و ہدایت سے متصف قطبیت ظاہری کا فیض حاصل کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے خلفائے اربعہ اور عشرہ مبشرہ ہیں۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے انفرادی عنایات اور علم و تقویٰ کا فیض حاصل کیا، یہ وہ اصحاب ہیں جو احسان کے وصف سے متصف ہوئے، جیسے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ دیگر متاخرین۔ یہ تینوں مدارج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال ختمِ رسالت سے جاری ہوئے۔‘‘
(شاه ولي الله محدث دهلوي، التفهيمات الالهٰيه، ۲ : ۸)
واضح رہے کہ یہ تقسیم غلبہ حال اور خصوصی امتیاز کی نشاندہی کے لئے ہے، ورنہ ہر سہ اقسام میں سے کوئی بھی دوسری قسم کے خواص و کمالات سے کلیتاً خالی نہیں ہے، اُن میں سے ہر ایک کو دوسری قسم کے ساتھ کوئی نہ کوئی نسبت یا اشتراک حاصل ہے :
٭ سلطنت میں سیدنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ بلا فصل یعنی براہِ راست نائب ہوئے۔
٭ ولایت میں سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ بلا فصل یعنی براہِ راست نائب ہوئے۔
٭ ہدایت میں جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء بلا فصل یعنی براہِ راست نائب ہوئے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ختمِ نبوت کے بعد فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائمی تسلسل کے لئے تین مستقل مطالع قائم ہو گئے :
٭ ایک مطلع سیاسی وراثت کے لئے
٭ دوسرا مطلع روحانی وراثت کے لئے
٭ تیسرا مطلع علمی و عملی وراثت کے لئے
٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی وراثت، خلافتِ راشدہ کے نام سے موسوم ہوئی۔
٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی وراثت، ولایت و امامت کے نام سے موسوم ہوئی۔
٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علمی و عملی وراثت، ہدایت و دیانت کے نام سے موسوم ہوئی۔
لہٰذا سیاسی وراثت کے فردِ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوئے، روحانی وراثت کے فردِ اوّل حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہوئے اور علمی و عملی وراثت کے اوّلیں حاملین جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوئے۔ سو یہ سب وارثین و حاملین اپنے اپنے دائرہ میں بلا فصل خلفاء ہوئے، ایک کا دوسرے کے ساتھ کوئی تضاد یا تعارض نہیں ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان مناصب کی حقیقت بھی ایک دوسرے سے کئی اُمور میں مختلف ہے :
۱۔ خلافتِ ظاہری دین اسلام کا سیاسی منصب ہے۔
خلافتِ باطنی خالصتاً روحانی منصب ہے۔
۲۔ خلافتِ ظاہری انتخابی و شورائی امر ہے۔
خلافتِ باطنی محض وہبی و اجتبائی امر ہے۔
۳۔ خلیفہ ظاہری کا تقرّر عوام کے چناؤ سے عمل میں آتا ہے۔
خلیفہ باطنی کا تقرّر خدا کے چناؤ سے عمل میں آتا ہے۔
۴۔ خلیفہ ظاہری منتخب ہوتا ہے۔
خلیفہ باطنی منتجب ہوتا ہے۔
۵۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے خلیفہ راشد سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا انتخاب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تجویز اور رائے عامہ کی اکثریتی تائید سے عمل میں آیا، مگر پہلے امامِ ولایت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے انتخاب میں کسی کی تجویز مطلوب ہوئی نہ کسی کی تائید۔
۶۔ خلافت میں ’جمہوریت‘ مطلوب تھی، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا اعلان نہیں فرمایا۔ ولایت میں ’ماموریت‘ مقصود تھی، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وادی غدیر خُم کے مقام پر اس کا اعلان فرما دیا۔
۷۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمّت کے لئے خلیفہ کا انتخاب عوام کی مرضی پر چھوڑ دیا، مگر ولی کا انتخاب اللہ کی مرضی سے خود فرما دیا۔
۸۔ خلافت زمینی نظام کے سنوارنے کیلئے قائم ہوتی ہے۔
ولایت اُسے آسمانی نظام کے حسن سے نکھارنے کیلئے قائم ہوتی ہے۔
۹۔ خلافت افراد کو عادل بناتی ہے۔
ولایت افراد کو کامل بناتی ہے۔
۱۰۔ خلافت کا دائرہ فرش تک ہے۔
ولایت کا دائرہ عرش تک ہے۔
۱۱۔ خلافت تخت نشینی کے بغیر مؤثر نہیں ہوتی۔
ولایت تخت و سلطنت کے بغیر بھی مؤثر ہے۔
۱۲۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ خلافت اُمّت کے سپرد ہوئی۔
ولایت عترت کے سپرد ہوئی۔
لہٰذا اب خلافت سے مَفرّ ہے نہ وِلایت سے، کیونکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافتِ بلافصل اِجماعِ صحابہ سے منعقد ہوئی اور تاریخ کی شہادتِ قطعی سے ثابت ہوئی اور حضرت مولا علی المرتضیٰص کی وِلایتِ بلافصل خود فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منعقد ہوئی اور احادیثِ متواترہ کی شہادتِ قطعی سے ثابت ہوئی۔ خلافت کا ثبوت اِجماعِ صحابہ ہے اور وِلایت کا ثبوت فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ جو خلافت کا اِنکار کرتا ہے وہ تاریخ اور اِجماع کا اِنکار کرتا ہے اور جو اِمامت و وِلایت کا اِنکار کرتا ہے وہ اِعلانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں institutions کی حقیقت کو سمجھ کر اُن میں تطبیق پیدا کی جائے نہ کہ تفریق۔
جان لینا چاہئے کہ جس طرح خلافتِ ظاہری، خلفاء راشدین سے شروع ہوئی اور اِس کا فیض حسبِ حال اُمت کے صالح حکام اور عادل امراء کو منتقل ہوتا چلا گیا، اُسی طرح خلافتِ باطنی بھی سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے شروع ہوئی اور اس کا فیض حسبِ حال اَئمہ اَطہارِ اہل بیت اور اُمت کے اولیاء کاملین کو منتقل ہوتا چلاگیا۔ حضور فاتح و خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے۔ ۔ ۔مَن کنتُ مولاهُ فهٰذا علیٌّ مولاهُ
(جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے)۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔علیٌّ ولیّکم مِن بَعدِی
(میرے بعد تمہارا ولی علی ہے)۔ ۔ ۔ کے اعلانِ عام کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اُمت میں ولایت کا فاتحِ اَوّل قرار دے دیا۔
بابِ وِلایت میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
۱۔ و فاتحِ اوّل ازین اُمت مرحومہ حضرت علی مرتضی است کرم اﷲ تعالیٰ وجھہ۔
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، التفہیمات الالہٰیہ، ۱ : ۱۰۳)
’’اس اُمتِ مرحومہ میں (فاتح اَوّل) ولایت کا دروازہ سب سے پہلے کھولنے والے فرد حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ ہیں۔
۲۔ و سرِ حضرت امیر کرم اﷲ وجھہ در اولادِ کرام ایشان رضی اللہ عنہم سرایت کرد۔
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، التفہیمات الالہٰیہ، ۱ : ۱۰۳)
’’حضرت امیر رضی اللہ عنہ کا رازِ ولایت آپ کی اولاد کرام رضی اللہ عنہم میں سرایت کرگیا۔‘‘
۳۔ چنانکہ کسی از اولیاء امت نیست الا بخاندانِ حضرت مرتضیٰ رضی اللہ عنہ مرتبط است بوجہی از وجوہ۔
( شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، التفہیمات الالہٰیہ، ۱ : ۱۰۴)
’’چنانچہَ اولیائے اُمت میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندانِ اِمامت سے (اکستابِ ولایت کے لئے) وابستہ نہ ہو۔‘‘
۴۔ و از اُمتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوّل کسیکہ فاتحِ بابِ جذب شدہ است، و دراں جا قدم نہادہ است حضرت امیر المؤمنین علی کرم اﷲ وجھہ، و لہٰذا سلاسلِ طُرُق بداں جانب راجع میشوند۔
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ہمعات : ۶۰)
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں پہلا فرد جو ولایت کے (سب سے اعلیٰ و اقویٰ طریق) بابِ جذب کا فاتح بنا اور جس نے اِس مقامِ بلند پر (پہلا ) قدم رکھا وہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے، اِسی وجہ سے روحانیت و ولایت کے مختلف طریقوں کے سلاسِل آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔‘‘
۵۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’’اب اُمت میں جسے بھی بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیضِ وِلایت نصیب ہوتا ہے وہ یا تو نسبتِ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے نصیب ہوتا ہے یا نسبتِ غوث الاعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے، اس کے بغیر کوئی شخص مرتبہ ولایت پر فائز نہیں ہوسکتا۔‘‘
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ہمعات : ۶۲)
واضح رہے کہ نسبتِ غوث الاعظم جیلانی رضی اللہ عنہ بھی نسبتِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی کا ایک باب اور اِسی شمع کی ایک کرن ہے۔
۶۔ اِس نکتہ کو شاہ اسماعیل دہلوی نے بھی بصراحت یوں لکھا ہے :
’’حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے لئے شیخین رضی اﷲ عنہما پر بھی ایک گو نہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپ کے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقاماتِ وِلایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور انہی جیسے باقی خدمات ’’آپ کے زمانہ سے لیکر دُنیا کے ختم ہونے تک‘‘ آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اہلِ وِلایت کے اکثر سلسلے بھی جنابِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی کی طرف منسوب ہیں، پس قیامت کے دن بہت فرمانبرداروں کی وجہ سے جن میں اکثر بڑی بڑی شانوں والے اور عمدہ مرتبے والے ہونگے، حضرتِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا لشکر اِس رونق اور بزرگی سے دکھائی دے گا کہ اس مقام کا تماشہ دیکھنے والوں کے لئے یہ امر نہایت ہی تعجب کا باعث ہو گا۔‘‘
(شاہ اسماعیل دہلوی، صراطِ مستقیم : ۶۷)
یہ فیضِ وِلایت کہ اُمتِ محمدی میں جس کے منبع و سرچشمہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اس میں سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنھما بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک کئے گئے ہیں، اور پھر اُن کی وساطت سے یہ سلسلہ وِلایتِ کبریٰ اور غوثیتِ عظمیٰ اُن بارہ اَ ئمہ اہلِ بیت میں ترتیب سے چلایا گیا جن کے آخری فرد سیدنا امام محمد مہدی علیہ السلام ہیں۔ جس طرح سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فاتحِ ولایت کے درجہ پر فائز ہوئے، اُسی طرح سیدنا امام مہدی علیہ السلام اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خاتمِ ولایت کے درجہ پر فائز ہونگے۔
۷۔ اس موضوع پر حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں :
و راہی است کہ بقربِ ولایت تعلق دارد : اقطاب و اوتاد و بدلا و نجباء و عامہ اولیاء اﷲ، بہمین راہ واصل اندراہ سلوک عبارت ازین راہ است بلکہ جذبہ متعارفہ، نیز داخل ہمین است و توسط و حیلولت درین راہ کائن است و پیشوای، و اصلان این راہ و سرگروہ اینھا و منبع فیض این بزرگواران : حضرت علی مرتضی است کرم اﷲ تعالے وجھہ الکریم، و این منصب عظیم الشان بایشان تعلق دارد درینمقام گوئیا ہر دو قدم مبارک آنسرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام برفرق مبارک اوست کرم اﷲ تعالی وجھہ حضرت فاطمہ و حضرات حسنین رضی اللہ عنہم درینمقام با ایشان شریکند، انکارم کہ حضرت امیر قبل از نشاء ہ عنصرے نیز ملاذ این مقام بودہ اند، چنانچہ بعد از نشاءہ عنصرے و ہرکرا فیض و ہدایت ازین راہ میر سید بتوسط ایشان میر سید چہ ایشان نزد ن۔ قطہ منتھائے این راہ و مرکز این مقام بایشان تعلق دارد، و چون دورہ حضرت امیر تمام شُد این منصب عظیم القدر بحضرات حسنین ترتیبا مفوض و مسلم گشت، و بعد از ایشان بہریکے از ائمہ اثنا عشر علے الترتیب و التفصیل قرار گرفت و در اعصاراین بزرگواران و ہمچنیں بعد از ارتحال ایشان ہر کرا فیض و ہدایت میرسید بتوسط این بزرگواران بودہ و بحیلولۃ ایشانان ہرچند اقطاب و نجبای وقت بودہ باشند و ملاذ وملجاء ہمہ ایشان بودہ اند چہ اطراف را غیر از لحوق بمرکز چارہ نیست۔
(امام ربانی مجدّد الف ثانی، مکتوبات، ۳ : ۲۵۱، ۲۵۲، مکتوب نمبر : ۱۲۳)
’’اور ایک راہ وہ ہے جو قربِ وِلایت سے تعلق رکھتی ہے : اقطاب و اوتاد اور بدلا اور نجباء اور عام اولیاء اﷲ اِسی راہ سے واصل ہیں، اور راہِ سلوک اِسی راہ سے عبارت ہے، بلکہ متعارف جذبہ بھی اسی میں داخل ہے، اور اس راہ میں توسط ثابت ہے اور اس راہ کے واصلین کے پیشوا اور اُن کے سردار اور اُن کے بزرگوں کے منبعِ فیض حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم ہیں، اور یہ عظیم الشان منصب اُن سے تعلق رکھتا ہے۔ اس راہ میں گویا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوںقدم مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مبارک سر پر ہیں اور حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اِس مقام میں اُن کے ساتھ شریک ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ اپنی جسدی پیدائش سے پہلے بھی اس مقام کے ملجا و ماویٰ تھے، جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ جسدی پیدائش کے بعد ہیں اور جسے بھی فیض و ہدایت اس راہ سے پہنچی ان کے ذریعے سے پہنچی، کیونکہ وہ اس راہ کے آخری نقطہ کے نزدیک ہیں اور اس مقام کا مرکز ان سے تعلق رکھتا ہے، اور جب حضرت امیر رضی اللہ عنہ کا دور ختم ہوا تو یہ عظیم القدر منصب ترتیب وار حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو سپرد ہوا اور ان کے بعد وہی منصب ائمہ اثنا عشرہ میں سے ہر ایک کو ترتیب وار اور تفصیل سے تفویض ہوا، اور ان بزرگوں کے زمانہ میں اور اِسی طرح ان کے انتقال کے بعد جس کسی کو بھی فیض اور ہدایت پہنچی ہے انہی بزرگوں کے ذریعہ پہنچی ہے، اگرچہ اقطاب و نجبائے وقت ہی کیوں نہ ہوں اور سب کے ملجا و ماویٰ یہی بزرگ ہیں کیونکہ اطراف کو اپنے مرکز کے ساتھ الحاق کئے بغیرچارہ نہیں ہے۔‘‘
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام بھی کارِ ولایت میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک ہوں گے۔
(امام ربانی مجدّد الف ثانی، مکتوبات، ۳ : ۲۵۱، ۲۵۲، مکتوب نمبر : ۱۲۳)
خلاصہِ کلام یہ ہوا کہ مقام غدیرِ خُم پر ولایت علی رضی اللہ عنہ کے مضمون پر مشتمل اعلانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حقیقت کو ابد الآباد تک کیلئے ثابت و ظاہر کردیا کہ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ درحقیقت ولایتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے۔ بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت و رسالت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کردیا گیا، لہٰذا تا قیامت فیضِ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجراء و تسلسل کیلئے باری تعالیٰ نے امت میں نئے دروازے اور راستے کھول دیئے جن میں کچھ کو مرتبہ ظاہر سے نوازا گیا اور کچھ کو مرتبہ باطن سے۔ مرتبہ باطن کا حامل راستہ ’ولایت‘ قرار پایا، اور امتِ محمدی میں ولایت عظمیٰ کے حامل سب سے پہلے امامِ برحق۔ ۔ ۔ مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے۔ پھر ولایت کا سلسلۃ الذہب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہلِ بیت اور آلِ اَطہار میں ائمہ اِثنا عشر (بارہ اِماموں) میں جاری کیا گیا۔ ہر چند اِن کے علاوہ بھی ہزارہا نفوسِ قدسیہ ہر زمانہ میں مرتبہ ولایت سے بہرہ یاب ہوتے رہے، قطبیت و غوثیت کے اعلیٰ و ارفع مقامات پر فائز ہوتے رہے، اہل جہاں کو انوارِ ولایت سے منور کرتے رہے اور کروڑوں انسانوں کو ہر صدی میں ظلمت و ضلالت سے نکال کر نورِ باطن سے ہمکنار کرتے رہے، مگر ان سب کا فیض سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بارگاہِ ولایت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ماخوذ و مستفاد تھا۔ ولایت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی بھی بے نیاز اور آزاد نہ تھا۔ یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا تاآنکہ امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آخری امامِ برحق اور مرکزِ ولایت کا ظہور ہوگا۔ یہ سیدنا امام محمد مہدی علیہ السلام ہوں گے جو بارہویں امام بھی ہوں گے اور آخری خلیفہ بھی۔ اُن کی ذاتِ اَقدس میں ظاہر و باطن کے دونوں راستے جو پہلے جدا تھے مجتمع کر دیئے جائیں گے۔ یہ حاملِ وِلایت بھی ہوں گے اور وارثِ خلافت بھی، ولایت اور خلافت کے دونوں مرتبے اُن پر ختم کر دیئے جائیں گے۔ سو جو امام مہدی علیہ السلام کا منکر ہو گا وہ دین کی ظاہری اور باطنی دونوں خلافتوں کا منکر ہو گا۔
یہ مظہریتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انتہاء ہو گی، اس لئے اُن کا نام بھی ’محمد‘ ہو گا اور اُن کا ’خلق‘ بھی محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو گا، تاکہ دُنیا کو معلوم ہو جائے کہ یہ ’امام‘ فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہر و باطن دونوں وراثتوں کا امین ہے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو امام مہدی علیہ السلام کی تکذیب کرے گا وہ کافر ہو جائے گا۔‘‘
اُس وقت روئے زمین کے تمام اولیاء کا مرجع آپ علیہ السلام ہوں گے اور اُمتِ محمدی کا اِمام ہونے کے باعث سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بھی آپ علیہ السلام کی اقتداء میں نماز ادا فرمائیں گے اور اس طرح اہلِ جہاں میں آپ علیہ السلام کی اِمامت کا اعلان فرمائیں گے۔
سو ہم سب کو جان لینا چاہئے کہ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت مہدی الارض و السمائں۔ ۔ ۔ باپ اور بیٹا دونوں۔ ۔ ۔ اللہ کے ولی اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی ہیں۔ انہیں تسلیم کرنا ہر صاحب ایمان پر واجب ہے۔
باری تعالیٰ ہمیں اِن عظیم منابعِ وِلایت سے اِکتسابِ فیض کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
یکے از غلامانِ اہل بیت
محمد طاہر القادری
۱۸ ذی الحج، ۱۴۲۲ھ