السیف الجلی علی منکر ولایت علی

السیف الجلی علی منکر ولایت علی0%

السیف الجلی علی منکر ولایت علی مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

السیف الجلی علی منکر ولایت علی

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
زمرہ جات: مشاہدے: 10534
ڈاؤنلوڈ: 4078

تبصرے:

السیف الجلی علی منکر ولایت علی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10534 / ڈاؤنلوڈ: 4078
سائز سائز سائز
السیف الجلی علی منکر ولایت علی

السیف الجلی علی منکر ولایت علی

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حدیث نمبر : ۱۱

أخرج سفيان بن عيينة عن سعد بن أبي وقاص (في مناقب علیّ) رضي الله عنهم، إن له لمناقب أربع : لأن يکون لي واحدة منهن أحب إلیّ مِن کذا و کذا، ذکر حمر النعم قولها : لأعطينّ الراية، و قولها : بمنزلة هارون من موسیٰ، و قولها : من کنتُ مولاه، و نسي سفيان الرابعة.

سفیان بن عیینہ (مناقبِ علی رضی اللہ عنہ کے ضمن میں) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چار خوبیاں ایسی ہیں کہ اگر میں ان میں سے کسی ایک کا بھی حامل ہوتا تو اسے فلاں فلاں چیز حتی کہ سرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب رکھتا۔ وہ چار خوبیاں یہ تھیں : (پہلی خوبی اُنہیں غزوہ خیبر کے موقع پر) جھنڈے کا عطا ہونا ہے۔ (دُوسری خوبی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُن کے متعلق یہ فرمانا کہ (تیرا اور میرا تعلق ایسے ہے) جیسے ہارون اور موسیٰ کا (تعلق ہے)۔ (تیسری خوبی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُن کے متعلق یہ فرمانا کہ جس کا میں مولا ہوں (اُس کا علی مولا ہے)۔ (راویء حدیث) سفیان بن عیینہ کو چوتھی خوبی بھول گئی۔

۱. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : ۶۰۷، رقم : ۱۳۸۵

۲. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۶۴۳، رقم : ۱۰۹۳

۳. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، ۳ : ۱۵۱، رقم : ۹۴۸

۴۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (۴۵ : ۸۹۔ ۹۱)‘ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں چاروں خوبیاں بالتفصیل لکھی ہیں۔

احمد بن حنبل کی بیان کردہ روایت کی اِسناد حسن ہیں۔

حدیث نمبر : ۱۲

عن عبد الرحمن بن سابط (في مناقب علیّ)، قال : قال سعد : سمعتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول في علیّ ثلاث خصال، لأن يکون لي واحدة منهنّ أحب إلیّ مِن الدنیا و ما فیها، سمعتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه، و أنت منّي بمنزلة هارون مِن موسیٰ، و لأعطينّ الرأية.

عبدالرحمن بن سابط (مناقبِ علی کے ضمن میں) روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین ایسی خصلتیں بیان فرماتے ہوئے سنا کہ اگر اُن میں سے ایک بھی مجھے عطا ہو تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں (اُس کا علی مولا ہے)، اور علی میری جگہ ایسا ہے جیسے موسیٰ کی جگہ ہارون، اور میں اُسے علم عطا کروں گا (جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حبیب ہے اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے حبیب ہیں)۔‘‘

۱. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : ۶۰۸، رقم : ۱۳۸۶

۲. ابن ابي شيبه، المصنف، ۱۲ : ۶۱، رقم : ۱۲۱۲۷

۳. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، ۳ : ۲۰۷، رقم : ۱۰۰۸

۴. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۸۸، ۸۹

ضیاء مقدسی نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : ۱۳

عن رفاعة بن إياس الضبي، عن أبيه، عن جده، قال : کنّا مع علیّ رضي الله عنه يوم الجمل، فبعث إلي طلحة بن عبيد اﷲ أن القني، فأتاه طلحة، فقال : نشدک اﷲ، هل سمعتَ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، اللّٰهم والِ من والاه و عادِ من عاداه؟ قال : نعم، قال : فَلِمَ تقاتلنی؟ قال : لم أذکرْ، قال : فانصرف طلحةُ.

رفاعہ بن ایاس ضبی اپنے والد سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جمل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اﷲ عنہما کی طرف ملاقات کا پیغام بھیجا۔ پس طلحہ اُن کے پاس آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جواُس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ؟‘‘ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’تو پھر میرے ساتھ کیوں جنگ کرتے ہو؟‘‘ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے یہ بات یاد نہیں تھی۔ راوی نے کہا : (اُس کے بعد) طلحہ رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے۔

۱. حاکم، المستدرک، ۳ : ۳۷۱، رقم : ۵۵۹۴

۲. بيهقي، الاعتقاد : ۳۷۳

۳. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۲۷ : ۷۶

۴۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (۹ : ۱۰۷)‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث بزار نے نذیر سے روایت کی ہے۔

۵حسام الدین هندي، کنز العمال، ۱۱ : ۳۳۲، رقم : ۳۱۶۶۲

حدیث نمبر : ۱۴

عن بريدة، قال : غزوتُ مع علیّ اليمن فرأيتُ منه جفوة، فلما قدمتُ علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذکرتُ عليا، فتنقصته، فرأيتُ وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يتغيّر، فقال : يا بريدة! ألستُ أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ قلتُ : بلي، يا رسولَ اﷲ! قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس (جنگ سے) واپس آیا تو میں نے اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر نامناسب انداز سے کیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ تو میں نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۵ : ۳۴۷

۲. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۵۸۴، ۵۸۵، رقم : ۹۸۹

۳. نسائي، السنن الکبریٰ، ۵ : ۱۳۰، رقم : ۸۴۶۵

۴. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : ۸۶، رقم : ۷۸

۵. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۱۰، رقم : ۴۵۷۸

۶. ابن ابي شيبه، المصنف، ۱۲ : ۸۴، رقم : ۱۲۱۸۱

۷. ابن ابي عاصم، الآحاد والمثاني، ۴ : ۳۲۵، ۳۲۶

۸. شاشي، المسند، ۱ : ۱۲۷

۹. طبراني، المعجم الاوسط، ۱ : ۲۲۹، رقم : ۳۴۸

۱۰. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، ۱۰ : ۱۴۷

۱۱. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، ۴ : ۲۳

۱۲. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۴۲، ۱۴۶. ۱۴۸

۱۳. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۳ : ۱۲۸

۱۴۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (۴ : ۱۶۸؛ ۵ : ۴۵۷)‘ میں کہا ہے کہ نسائی کی بیان کردہ روایت کی اسناد جید قوی ہیں اور اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔

۱۵. حسام الدين هندي، کنز العمال، ۱۳ : ۱۳۴، رقم : ۳۶۴۲۲

حدیث نمبر : ۱۵

عن ميمون أبي عبد اﷲ، قال : قال زيد بن أرقم رضی الله عنه و أنا أسمع : نزلنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بواد يقال له وادي خم، فأمر بالصلاة، فصلاها بهجير، قال : فخطبنا و ظلل لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بثوب علي شجرة سمرة من الشمس، فقال : ألستم تعلمون أو لستم تشهدون أني أولٰي بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا : بلي، قال : فمن کنتُ مولاه فإن عليا مولاه، اللّٰهم! عادِ من عاداه و والِ من والاه.

حضرت میمون ابو عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک وادی۔ ۔ ۔ جسے وادئ خم کہا جاتا تھا۔ ۔ ۔ میں اُترے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں جماعت کروائی۔ پھر ہمیں خطبہ دیا درآنحالیکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لئے درخت پر کپڑا لٹکا کر سایہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تم نہیں جانتے یا (اس بات کی) گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مؤمن کی جان سے قریب تر ہوں؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ ! تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے اور اُسے دوست رکھ جواِسے دوست رکھے۔

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۴ : ۳۷۲

۲. بيهقي، السنن الکبریٰ، ۵ : ۱۳۱

۳۔ طبرانی نے یہ حدیث ’المعجم الکبیر (۵ : ۱۹۵، رقم : ۵۰۶۸)‘ میں ایک اور سند سے روایت کی ہے۔

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۴

۵. حسام الدين هندي، کنز العمال، ۱۳ : ۱۵۷، رقم : ۳۶۴۸۵

۶. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۶۶

۷۔ ابن کثیر نے ’البدایہ و النہایہ، (۴ : ۱۷۲)‘ میں اِس روایت کی سند کو جید اور رِجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : ۱۶

عن عطية العوفي، قال : سألت زيد بن أرقم، فقلتُ له : أنّ ختناً لي حدثني عنک بحديث في شأن علي رضي الله عنه يوم غدير خم، فأنا أحب أن أسمعه منک، فقال : إنکم معشر أهل العراق فيکم ما فيکم، فقلت له : ليس عليک مني بأس، فقال : نعم، کنا بالجحفة، فخرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلينا ظهراً و هو أخذ بعضدِ علي رضي الله عنه فقال : يا أيها الناس! ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسم؟ قالوا : بلٰي، قال : فمن کنتُ مولاه فعلي مولاه، قال : فقلتُ له : هل قال : اللهم! وال من والاه و عاد من عاداه؟ فقال : إنما أخبرک کما سمعتُ.

عطیہ عوفی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا : میرا ایک داماد ہے جو غدیر خم کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں آپ کی روایت سے حدیث بیان کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے آپ سے (براہِ راست) سنوں۔ زید بن ارقم نے کہا : آپ اہلِ عراق ہیں تمہاری عادتیں تمہیں سلامت رہیں۔ پس میں نے کہا کہ میری طرف سے تمہیں کوئی اذیت نہیں پہنچے گی۔ (اس پر) انہوں نے کہا : ہم جحفہ کے مقام پر تھے کہ ظہر کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بازو تھامے ہوئے باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مؤمنین کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ تو انہوں نے کہا : کیوں نہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔‘‘ عطیہ نے کہا : میں نے مزید پوچھا : کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس (علی) سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ؟‘‘ زید بن ارقم نے کہا : میں نے جو کچھ سنا تھا وہ تمہیں بیان کر دیا ہے۔

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۴ : ۳۶۸

۲. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۵۸۶، رقم : ۹۹۲

۳۔ نسائی نے یہ حدیث حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ’خصائص امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (ص : ۹۷، رقم : ۹۲)‘ میں الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ روایت کی ہے۔ اس کے بارے میں ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (۹ : ۱۰۷)‘ میں کہا ہے کہ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔

۴. طبراني، المعجم الکبير، ۵ : ۱۹۵، رقم : ۵۰۷۰

۵. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۶۵

۶. حسام الدين هندي، کنز العمال، ۱۳ : ۱۰۵، رقم : ۳۶۳۴۳

۷۔ میمون ابو عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث مبارکہ بیان کی۔ حسام الدین ہندی نے یہ حدیث ’کنزالعمال (۱۳ : ۱۰۴، ۱۰۵، رقم : ۳۶۳۴۲)‘ میں بیان کی ہے۔

حدیث نمبر : ۱۷

عن جابر بن عبد اﷲ رضي اﷲ عنهما قال : کنا بالجحفة بغدير خم إذ خرج علينا رسول اﷲا، فأخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : من کنت مولاه فعلیّ مولاه.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم حجفہ میں غدیر خم کے مقام پر تھے، جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘

۱. ابن ابي شيبه، المصنف، ۱۲ : ۵۹، رقم : ۱۲۱۲۱

۲. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۶۹، ۱۷۰، ۱۷۲

۳۔ ذہبی نے ’سیر اعلام النبلاء (۷ : ۵۷۰، ۵۷۱)‘ میں اسے عبداﷲ بن محمد بن عاقل سے روایت کرتے ہوئے متن حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ روایت میں ہے کہ علی بن حسین، محمد بن حنیفہ، ابوجعفر اور عبداﷲ بن محمد بن عاقل رضی اللہ عنھم حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے گھر پر تھے۔

۴۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (۴ : ۱۷۳)‘ میں لکھا ہے کہ ہمارے شیخ ذہبی نے اِس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔

۵. حسام الدين هندي، کنزالعمال، ۱۳ : ۱۳۷، رقم : ۳۲۴۳۳

حدیث نمبر : ۱۸

عن علي رضي الله عنه، أن النبيا قام بحفرة الشجرة بخم، و هو آخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : أيها الناس! ألستم تشهدون أن اﷲ ربکم؟ قالوا : بلی، قال : ألستم تشهدون أن اﷲ و رسوله أولي بکم من أنفسکم. قالوا : بلي، و أن اﷲ و رسوله مولاکم؟ قالوا : بلي، قال : فمن کنتُ مولاه فإن هذا مولاه.

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ خم پر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ تمہارا رب ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ اور اس کا رسول تمہاری جانوں سے بھی قریب تر ہیں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔‘‘

۱. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : ۶۰۳، رقم : ۱۳۶۰

۲. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۶۱، ۱۶۲

۳۔ حسام الدین ہندی نے یہ حدیث ’کنزالعمال (۱۳ : ۱۴۰، رقم : ۳۶۴۴۱)‘ میں نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن راہویہ، ابن جریر، ابن ابی عاصم اور محاملی نے ’امالی‘ میں روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : ۱۹

عن حذيفة بن أسيد الغفاري . فقال : يا أيها الناس إني قد نبأني اللطيف الخبير أنه لن يعمر نبي إلا نصف عمر الذي يليه من قبله، و إني لأظن أني يوشک أن أدعي فأجيب، و إني مسؤول، و إنکم مسؤولون، فماذا أنتم قائلون؟ قالوا : نشهد أنک قد بلغتَ و جهدتَ و نصحتَ، فجزاک اﷲ خيراً، فقال : أليس تشهدون أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمداً عبده و رسوله، و أن جنته حقٌ و ناره حقٌ، و أن الموت حقٌ، و أن البعث بعد الموت حقٌ، و أن الساعة آتية لا ريب فيها و أن اﷲ يبعث من في القبور؟ قالوا : بلي، نشهد بذالک، قال : اللهم! اشهد، ثم قال : يا أيها الناس! إن اﷲ مولاي و أنا مولي المؤمنين و أنا أولي بهم من أنفسهم، فمن کنتُ مولاه فهذا مولاه يعني علياً رضي الله عنه . اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه. ثم قال : يا أيها الناس إني فرطکم و إنکم واردون علي الحوض، حوضٌ أعرض ما بين بصري و صنعاء، فيه عدد النجوم قد حانٌ من فضة، و إني سائلکم حين تردون عليّ عن الثقلين، فانظروا کيف تخلفوني فيهما، الثقل الأکبر کتاب اﷲ عزوجل سببٌ طرفه بيد اﷲ و طرفه بأيديکم فاستمسکوا به لا تضلوا و لا تبدلوا، و عترتي أهل بيتي، فإنه قد نبأني اللطيف الخبير أنما لن ينقضيا حتي يردا عليّ الحوض.

حضرت حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر عطا فرمائی اور مجھے گمان ہے مجھے (عنقریب) بلاوا آئے گا اور میں اُسے قبول کر لوں گا، اور مجھ سے (میری ذمہ داریوں کے متعلق) پوچھا جائے گا اور تم سے بھی (میرے متعلق) پوچھا جائے گا، (اس بابت) تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ہمیں انتہائی جدوجہد کے ساتھ دین پہنچایا اور بھلائی کی باتیں ارشاد فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جنت و دوزخ حق ہیں اور موت اور موت کے بعد کی زندگی حق ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اور اللہ تعالیٰ اہل قبور کو دوبارہ اٹھائے گا؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں! ہم ان سب کی گواہی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! تو گواہ بن جا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! بیشک اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں تمام مؤمنین کا مولا ہوں اور میں ان کی جانوں سے قریب تر ہوں۔ جس کا میں مولا ہوں یہ اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ ’’اے لوگو! میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم مجھے حوض پر ملو گے، یہ حوض بصرہ اور صنعاء کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ چوڑا ہے۔ اس میں ستاروں کے برابر چاندی کے پیالے ہیں، جب تم میرے پاس آؤ گے میں تم سے دو انتہائی اہم چیزوں کے متعلق پوچھوں گا، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تم میرے پیچھے ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو! پہلی اہم چیز اللہ کی کتاب ہے، جو ایک حیثیت سے اللہ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری حیثیت سے بندوں سے تعلق رکھتی ہے۔ تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو گمراہ ہو گے نہ (حق سے) منحرف، اور (دوسری اہم چیز) میری عترت یعنی اہلِ بیت ہیں (اُن کا دامن تھام لینا)۔ مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ بیشک یہ دونوں حق سے نہیں ہٹیں گی یہاں تک کہ مجھے حوض پر ملیں گی۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۱۸۰، ۱۸۱، رقم : ۳۰۵۲

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۶۷، رقم : ۲۶۸۳

۳. طبراني، المعجم الکبير، ۵ : ۱۶۶، ۱۶۷، رقم : ۴۹۷۱

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۶۴، ۱۶۵

۵. حسام الدين هندي، کنزالعمال، ۱ : ۱۸۸، ۱۸۹، رقم : ۹۵۷، ۹۵۸

۶. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۶۶، ۱۶۷

۷۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (۴۵ : ۱۶۹)‘ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت لی ہے۔

۸. ابن کثير، البدايه والنهايه، ۵ : ۴۶۳

حدیث نمبر : ۲۰

عن جرير قال : شهدنا الموسم في حجة مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، و هي حجة الوداع، فبلغنا مکاناً يقال له غدير خم، فنادي : الصلاة جامعة، فاجتمعنا المهاجرون والأنصار، فقام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وسطنا، فقال : أيها الناس! بم تشهدون؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا اﷲ؟ قال : ثم مه؟ قالوا : و أن محمداً عبده و رسوله، قال : فمَن وليکم؟ قالوا : اﷲ و رسوله مولانا، قال : من وليکم؟ ثم ضرب بيده إلي عضد علي رضي الله عنه، فأقامه فنزع عضده فأخذ بذراعيه، فقال : من يکن اﷲ و رسوله مولياه فإن هذا مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه، اللهم! من أحبه من الناس فکن له حبيباً، ومن أبغضه فکن له مُبغضا.

حضرت جریر سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جسے غدیر خم کہتے ہیں۔ نماز باجماعت ہونے کی ندا آئی تو سارے مہاجرین و انصار جمع ہو گئے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا : اے لوگو! تم کس چیز کی گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر کس کی؟ انہوں نے کہا : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا ولی کون ہے؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر فرمایا : تمہارا ولی اور کون ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے) دونوں بازو تھام کر فرمایا : ’’اللہ اور اُس کا رسول جس کے مولا ہیں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ (اور) جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اے اللہ! جو اِسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۲ : ۳۵۷، رقم : ۲۵۰۵

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۶

۳. حسام الدين هندي، کنزالعمال، ۱۳ : ۱۳۸، ۱۳۹، رقم : ۳۶۴۳۷

۴. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۷۹

حدیث نمبر : ۲۱

عن عمرو ذي مر و زيد بن أرقم قالا : خطب رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم، فقال : من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه، و انصرْ من نصره و أعِنْ من أعانه.

عمرو ذی مر اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اور جو اِس کی نصرت کرے اُس کی تو نصرت فرما، اور جو اِس کی اِعانت کرے تو اُس کی اِعانت فرما۔

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۵ : ۱۹۲، رقم : ۵۰۵۹

۲۔ نسائی نے ’خصائص امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (ص : ۱۰۰، ۱۰۱، رقم : ۹۶)‘ میں عمرو ذی مر سے روایت لی ہے۔

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۴، ۱۰۶

۴. ابن کثير، البدايه والنهايه، ۴ : ۱۷۰

۵. حسام الدين هندي، کنزالعمال، ۱۱ : ۶۰۹، رقم : ۳۲۹۴۶

حدیث نمبر : ۲۲

آیتِ کریمہ( اَلْيوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمَْ )

(القرآن، المائدہ، ۵ : ۳)

۔ ۔ ۔ (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا) ۔ ۔ ۔ کے شانِ نزول میں محدثین و مفسرین نے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی ہے :

عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال : مَن صام يوم ثمان عشرة مِن ذي الحجة کتب له صيام ستين شهراً، و هو يوم غدير خم لما أخذ النبيا بيد عليّ بن أبی طالب رضي الله عنه، فقال : ألست ولي المؤمنين؟ قالوا : بلي، يا رسول اﷲ! قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، فقال عمر بن الخطاب : بخ بخ لک يا ابن أبي طالب! أصبحتَ مولاي و مولي کل مسلم، فأنزل اﷲ( اَلْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ ) .

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ (۶۰) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، اور یہ غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مؤمنین کا والی نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘

۱. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۸ : ۲۹۰

۲. طبراني، المعجم الأوسط، ۳ : ۳۲۴

۳. واحدي، اسباب النزول : ۱۰۸

۴. رازي، التفسير الکبير، ۱۱ : ۱۳۹

۵. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۷۶، ۱۷۷

۶۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (۴۵ : ۱۷۹)‘ میں یہ راویت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی لی ہے۔

۷. ابن کثير، البدايه والنهايه، ۵ : ۴۶۴

۸۔ سیوطی نے ’الدر المنثور فی التفسیر بالماثور (۲ : ۲۵۹)‘ میں آیت مذکورہ کی شان نزول کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے روز’من کنت مولاه فعليّ مولاه‘ کے الفاظ فرمائے تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

حدیث نمبر : ۲۳

امام فخر الدین رازی ( يَا أيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَآ أنْزِلَ إِلَبْکَ مِن رَّبِّکَ‘،)

(القرآن، المائدہ، ۵ : ۶۷)

۔ ۔ ۔ (اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے) ۔ ۔ ۔ کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

نزلت الآية في فضل عليّ بن أبي طالب عليه السلام، و لما نزلت هذه الآيةُ أخذ بيده و قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم والِ من والاه و عادِ من عاداه. فلقيه عمر رضي الله عنه، فقال : هنيئاً لک يا ابن أبي طالب، أصبحتَ مولاي و مولي کلِ مؤمنٍ و مؤمنة. و هو قول ابن عباس و البراء بن عازب و محمد بن علي.

یہ آیتِ مبارکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے، جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس کا میں مولاہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے، اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔ اُس کے (فوراً ) بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور فرمایا : اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو، اب آپ میرے اور ہر مؤمن اور مؤمنہ کے مولا قرار پائے ہیں۔

اِسے عبداللہ بن عباس، براء بن عازب اور محمد بن علی رضی اللہ عنھم نے روایت کیا ہے۔

۱. رازي، التفسير الکبير، ۱۲ : ۴۹، ۵۰

۲. ابن ابی حاتم رازی نے ’تفسیر القرآن العظیم (۴ : ۱۱۷۲، رقم : ۶۶۰۹)‘ میں عطیہ عوفی سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی کہ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر۶۷ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔

علاوہ ازیں درج ذیل نے بھی یہ روایت نقل کی ہے :

۳. واحدي، اسباب النزول : ۱۱۵

۴. سيوطي، الدرالمنثور في التفسير بالماثور، ۲ : ۲۹۸

۵. آلوسي، روح المعاني، ۶ : ۱۹۳

۶. شوکاني، فتح القدير، ۲ : ۶۰

حدیث نمبر : ۲۴

آیتِ کریمہ ( إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَ هُمْ رَاکِعُوْنَ )

(القرآن، المائدہ، ۵ : ۵۵)

۔ ۔ ۔ (بے شک تمہارا (مدد گار) دوست اللہ اور اُس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں) ۔ ۔ ۔ کے شانِ نزول میں بیشتر محدثین نے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی ہے :

عن عمار بن ياسر رضي الله عنه، يقول : وقف علي عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه سائل و هو راکع في تطوّع فنزع خاتمه فأعطاه السائل، فأتي رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فأعلمه ذلک، فنزلتْ علي النبي صلی الله عليه وآله وسلم هذا الآية :( إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَ هُمْ رَاکِعُوْنَ ) فقرأها رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ثم قال : من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه.

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کھڑا ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نماز میں حالتِ رکوع میں تھے۔ اُس نے آپ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی کھینچی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انگوٹھی سائل کو عطا فرما دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کی خبر دی۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی : (بے شک تمہارا (مدد گار) دوست اللہ اور اُس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۷ : ۱۲۹، ۱۳۰، رقم : ۶۲۲۸

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۱۱۹

۳. احمد بن حنبل، المسند، ۴ : ۳۷۲

۴. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۱۹، ۳۷۱، رقم حديث : ۴۵۷۶، ۵۵۹۴

۵. طبراني، المعجم الکبير، ۴ : ۱۷۴، رقم : ۴۰۵۳

۶. طبراني، المعجم الکبير، ۵ : ۱۹۵، ۲۰۳، ۲۰۴، رقم : ۵۰۶۸، ۵۰۶۹، ۵۰۹۲، ۵۰۹۷

۷. طبراني، المعجم الصغير، ۱ : ۶۵

۸. هيثمي، مجمع الزوائد، ۷ : ۱۷

۹. هيثمي، موارد الظمآن : ۵۴۴، رقم : ۲۲۰۵

۱۰. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۷ : ۳۷۷

۱۱۔ خطیب بغدادی نے یہ حدیثِ مبارکہ ’تاریخِ بغداد (۱۲ : ۳۴۳)‘ میںمَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه کے الفاظ کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے بھی نقل کی ہے۔

۱۲. ابن اثير، اسد الغابه، ۲ : ۳۶۲

۱۳. ابن اثير، اسد الغابه، ۳ : ۴۸۷

۱۴. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، ۲ : ۱۰۶، ۱۷۴، رقم : ۴۸۰، ۵۵۳

۱۵. حسام الدين هندي، کنزالعمال، ۱۱ : ۳۳۲، ۳۳۳، رقم : ۳۱۶۶۲

۱۶. حسام الدين هندي، کنزالعمال، ۱۳ : ۱۰۴، ۱۶۹، رقم : ۳۶۳۴۰،

۱۷۔ حسام الدین ہندی نے ’کنز العمال(۱۱ : ۶۰۹، رقم : ۳۲۹۵۰)‘ میں لکھا ہے : طبرانی نے اس حدیث کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور بارہ (۱۲) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت کیا ہے۔ اور امام احمد بن حنبل نے اسے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور کثیر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت کیا ہے۔ حاکم نے ’المستدرک‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے۔ امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اور تیس (۳۰) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ ابونعیم نے کتاب ’فضائل الصحابہ‘ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے اور خطیب بغدادی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔

حدیث نمبر : ۲۵

عن عمار بن ياسر رضي الله عنه، قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : أوصي من آمن بي و صدقني بولاية عليّ بن أبي طالب، مَن تولاه فقد تولاني و مَن تولاني فقد تولي اﷲ عزوجل و مَن أحبه فقد أحبني، و من أحبني فقد أحب اﷲ عزوجل و من أبغضه فقد أبغضني و من أبغضني فقد أبغض اﷲ عزوجل.

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اُسے میں ولایتِ علی کی وصیت کرتا ہوں، جس نے اُسے ولی جانا اُس نے مجھے ولی جانا اور جس نے مجھے ولی جانا اُس نے اللہ کو ولی جانا، اور جس نے علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ سے محبت کی، اور جس نے علی سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اُس نے اللہ سے بغض رکھا۔‘‘

۱. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۸، ۱۰۹

۲. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۸۱، ۱۸۲

۳. حسام الدين هندي، کنز العمال، ۱۱ : ۶۱۱، رقم : ۳۲۹۵۸

ہیثمی نے اس حدیث کو طبرانی سے روایت کیا ہے اور اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے۔