السیف الجلی علی منکر ولایت علی

السیف الجلی علی منکر ولایت علی0%

السیف الجلی علی منکر ولایت علی مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

السیف الجلی علی منکر ولایت علی

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
زمرہ جات: مشاہدے: 10537
ڈاؤنلوڈ: 4078

تبصرے:

السیف الجلی علی منکر ولایت علی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10537 / ڈاؤنلوڈ: 4078
سائز سائز سائز
السیف الجلی علی منکر ولایت علی

السیف الجلی علی منکر ولایت علی

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حصہ دوم

حدیث نمبر : ۲۶

عن علي عليه السلام أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال يوم غدير خم : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه.

(خود) حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘

۱۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (۱ : ۱۵۲)‘ میں یہ روایت صحیح اسناد کے ساتھ نقل کی ہے۔

۲. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۷۰۵، رقم : ۱۲۰۶

۳. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : ۶۰۴، رقم : ۱۳۶۹

۴. طبراني، المعجم الاوسط، ۷ : ۴۴۸، رقم : ۶۸۷۸

۵۔ ہیثمی نے اسے ’مجمع الزوائد (۹ : ۱۰۷)‘ میں نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔

۶. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۶۱، ۱۶۲، ۱۶۳

۷. ابن کثير، البدايه و النهايه، ۴ : ۱۷۱

۸. حسام الدين هندي، کنز العمال، ۱۳ : ۷۷، ۱۶۸، رقم : ۳۲۹۵۰، ۳۶۵۱۱

حدیث نمبر : ۲۷

عن عبد اﷲ بن بريدة الأسلمي، قال : قال النبيا : مَن کنتُ وليه فإنّ علياً وليه. و في رواية عنه : مَن کنتُ وليّه فعليّ وليّه.

عبد اﷲ بن بریدہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں تحقیق اُس کا علی ولی ہے۔‘‘ اُنہی سے ایک اور روایت میں ہے (کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) ’’جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔‘‘

۱. حاکم، المستدرک، ۲ : ۱۲۹، رقم : ۲۵۸۹

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۵ : ۳۵۰، ۳۵۸، ۳۶۱

۳. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : ۸۵، ۸۶، رقم : ۷۷

۴. عبدالرزاق، المصنف، ۱۱ : ۲۲۵، رقم : ۲۰۳۸۸

۵. ابن ابي شيبه، المصنف، ۱۲ : ۸۴، رقم : ۱۲۱۸۱

۶۔ ابو نعیم نے ’حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء (۴ : ۲۳)‘ میں اسے مختصراً’مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه ‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔

۷. ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، ۴۵ : ۷۶

۸۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (۹ : ۱۰۸)‘ میں اسے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزار کی بیان کردہ روایت کے رجال صحیح ہیں۔

۹۔حسام الدین ہندی نے ’کنزالعمال (۱۱ : ۶۰۲، رقم : ۳۲۹۰۵)‘ میں مختصراً’مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه ‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔

۱۰. مناوی، فیض القدیر، ۶ : ۲۱۸

امام حاکم نے اس روایت کو شرطِ شیخین کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، اور اس حدیث کو ابو عوانہ سے ایک دوسرے طریق سے سعد بن عبیدہ سے بھی بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے ’المستدرک‘ میں بریدہ اسلمی سے ایک اور جگہ (۳ : ۱۱۰، رقم : ۴۵۷۸) بھی اِسی حدیث کو مختصراً بیان کیا ہے۔

حدیث نمبر : ۲۸

متذکرہ بالا حدیث کو دوسرے مقام پر ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ما بال أقوام ينتقصون عليًّا، من ينتقص عليّاً فقد تنقصني، ومن فارق علياً فقد فارقني، إن عليّاً مني، وأنا منه، خُلق من طينتي و خُلقت من طينة إبراهيم، وأنا أفضل من إبراهيم، ذرية بعضها من بعض واﷲ سميع عليم، . و إنه وليکم من بعدي، فقلت : يا رسول اﷲ! بالصحبة ألا بسطت يدک حتي أبايعک علي الإسلام جديداً؟ قال : فما فارقته حتي بايعته علي الإسلام.

ان لوگوں کا کیا ہو گا جو علی کی شان میں گستاخی کرتے ہیں! (جان لو) جو علی کی گستاخی کرتا ہے وہ میری گستاخی کرتا ہے اور جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوگیا۔ بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، اُس کی تخلیق میری مٹی سے ہوئی ہے اور میری تخلیق ابراہیم کی مٹی سے، اور میں ابراہیم سے افضل ہوں۔ ہم میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اللہ تعالیٰ یہ ساری باتیں سننے اور جاننے والا ہے۔۔ ۔ ۔ وہ میرے بعد تم سب کا ولی ہے۔ (بریدہ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے کہا : یا رسول اللہ! کچھ وقت عنایت فرمائیں اور اپنا ہاتھ بڑھائیں، میں تجدیدِ اسلام کی بیعت کرنا چاہتا ہوں، (اور) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ میں نے اسلام پر (دوبارہ) بیعت کر لی۔

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۷ : ۴۹، ۵۰، رقم : ۶۰۸۱

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۲۸

حدیث نمبر : ۲۹

عن عَمرو بن ميمون، قال ابن عباس رضي الله عنهما : قال (رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم) : من کنتُ مولاه فإنّ مولاه عليّ.

عَمرو بن میمون حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں بے شک اُس کا علی مولا ہے۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۳۳۱

۲۔ ابن ابی عاصم کی ’ کتاب السنہ (ص : ۶۰۰، ۶۰۱، رقم : ۱۳۵۱)‘ میں اس روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَن کنتُ ولیّہ فعلی ولیہ (جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے)۔

۳. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : ۴۴، ۴۶، رقم : ۲۳

۴. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۳۲ - ۱۳۴، رقم : ۴۶۵۲

۵. طبراني، المعجم الکبير، ۱۲ : ۷۷، ۷۸، رقم : ۱۲۵۹۳

۶. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۱۹، ۱۲۰

۷. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۳ : ۱۷۴، ۱۷۵

۶. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : ۱۵۶ - ۱۵۸

نسائی کی بیان کردہ حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔

ہیثمی نے کہا ہے کہ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور ابو بلج فرازی کے سوا احمد کے تمام رجال صحیح ہیں، جبکہ وہ ثقہ ہے۔

حاکم کی بیان کردہ حدیث کو ذہبی نے صحیح کہا ہے۔

حدیث نمبر : ۳۰

(قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ) ألا! إن اﷲ وليي و أنا ولي کل مؤمن، من کنتُ مولاه فعليّ مولاه.

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) آگاہ رہو! بے شک اللہ میرا ولی ہے اور میں ہر مؤمن کا ولی ہوں، پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔

۱۔ حسام الدین ہندی نے اسے ’کنزالعمال (۱۱ : ۶۰۸، رقم : ۳۲۹۴۵)‘ میں روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث ابونعیم نے ’فضائل الصحابہ‘ میں زید بن ارقم اور براء بن عازب رضی اﷲ عنہما سے روایت کی ہے۔

۲. ابن حجر عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، ۴ : ۳۲۸

حدیث نمبر : ۳۱

عن أبي يزيد الأودي عن أبيه، قال : دخل أبوهريرة المسجد فاجتمع إليه الناس، فقام إليه شاب، فقال : أنشدک باﷲ، أسمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلي مولاه، اللهم! والِ من والاه. فقال : أشهد أن سمعتَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه.

ابو یزید اودی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ اُن میں سے ایک جوان نے کھڑے ہو کر کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ؟ اِس پر انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔

۱. ابو يعلي، المسند، ۱۱ : ۳۰۷، رقم : ۶۴۲۳

۲. ابن ابي شيبه، المصنف، ۱۲ : ۶۸، رقم : ۱۲۱۴۱

۳. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۷۵

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۵، ۱۰۶

۵. ابن کثير، البدايه و النهايه، ۴ : ۱۷۴

حدیث نمبر : ۳۲

عن أبي إسحاق، قال : سمعت سعيد بن وهب، قال : نَشَدَ عليّ رضي الله عنه الناس فقام خمسة أو ستة من أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم فشهدوا أنّ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه.

ابو اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن وہب کو یہ کہتے ہوئے سنا : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے قسم لی جس پر پانچ (۵) یا چھ (۶) صحابہ نے کھڑے ہو کر گواہی دی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۵ : ۳۶۶

۲. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : ۹۰، رقم : ۸۳

۳. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۵۹۸، ۵۹۹، رقم : ۱۰۲۱

۴. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، ۲ : ۱۰۵، رقم : ۴۷۹

۵. بيهقي، السنن الکبري، ۵ : ۱۳۱

۶. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۶۰

۷. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۳ : ۱۲۷

۸. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۴

۹۔ ابن کثیر نے ’البدیہ والنہایہ (۴ : ۱۷۰)‘ میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی اسناد جید ہیں۔

۱۰. ابن کثير، البدايه والنهايه، ۵ : ۴۶۲

امام نسائی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

ضیاء مقدسی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

امام ہیثمی نے احمد بن حنبل کے رجال کو صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : ۳۳

عن عميرة بن سعد رضي الله عنه، أنه سمع علياً رضي الله عنه و هو ينشد في الرحبة : مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه؟ فقام ستة نفر فشهدوا.

عمیرہ بن سعد سے روایت ہے کہ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے؟ تو (اِس پر) چھ(۶) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔

۱. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : ۸۹، ۹۱، رقم : ۸۲، ۸۵

۲. طبراني، المعجم الاوسط، ۳ : ۱۳۴، رقم : ۲۲۷۵

۳۔ طبرانی کی ’المعجم الصغیر (۱ : ۶۴، ۶۵)‘ میں بیان کردہ روایت میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد بارہ (۱۲) تھے، جن میں حضرت ابوہریرہ، ابو سعید اور انس بن مالک رضی اللہ عنھم بھی شامل تھے۔

ہیثمی نے یہ روایت ’مجمع الزوائد (۹ : ۱۰۸)‘ میں نقل کی ہے۔

۴. بيهقي، السنن الکبري، ۵ : ۱۳۲

۵۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (۴۵ : ۱۵۹)‘ میں جو روایت عمیرہ بن سعد لی ہے اس میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد اٹھارہ (۱۸) تھے۔

۶. مزي، تهذيب الکمال، ۲۲ : ۳۹۷، ۳۹۸

حدیث نمبر : ۳۴

عن أبي الطفيل، عن زيد بن أرقم، قال : نَشَدَ عليّ الناس : من سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم : ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ قالوا : بلٰي، قال : فمَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه. فقام أثنا عشر رجلاً فشهدوا بذلک.

ابو طفیل زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حلفاً پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوغدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہو : ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو بھی اُسے دوست رکھ، اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو پر) بارہ (۱۲) آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے اس واقعہ کی شہادت دی۔

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۲ : ۵۷۶، رقم : ۱۹۸۷

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۶

۳. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۵۷، ۱۵۸

۴. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۳ : ۱۲۷

۵. حسام الدين هندي، کنز العمال، ۱۳ : ۱۵۷، رقم : ۳۶۴۸۵

۶. شوکاني، در السحابه : ۲۱۱

حدیث نمبر : ۳۵

عن سعيد بن وهب و عن زيد بن يثيعث قال : نَشَدَ عليّ الناسَ في الرحبة مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم إلا قام. قال : فقام مِن قبل سعيد ستة و مِن قبل زيد ستة، فشهدوا أنهم سمعوا رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول لعلي رضي الله عنه يوم غدير خم : أليس اﷲ أولي بالمؤمنين؟ قالوا : بلٰي. قال : اللهم! من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداهُ.

سعید بن وہب اور زید بن یثیعث روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھلے میدان میں لوگوں کو قسم دی کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہو کھڑا ہو جائے۔ راوی کہتے ہیں : چھ (آدمی) سعید کی طرف سے اور چھ (۶) زید کی طرف سے کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ اُنہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا اللہ مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۱۱۸

۲. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب : ۹۰، ۱۰۰، رقم : ۸۴، ۹۵

۳. ابن ابي شيبه، المصنف، ۱۲ : ۶۷، رقم : ۱۲۱۴۰

۴. طبراني، المعجم الاوسط، ۳ : ۶۹، ۱۳۴، رقم : ۲۱۳۰، ۲۲۷۵

۵. طبراني، المعجم الصغير، ۱ : ۶۵

۶. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، ۲ : ۱۰۵، ۱۰۶، رقم : ۴۸۰

۷. ابونعيم، حلية الأولياء و طبقات الاصفياء، ۵ : ۲۶

۸. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۶۰

۹. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۷، ۱۰۸

۱۰. حسام الدين هندي، کنز العمال، ۱۳ : ۱۵۷، رقم : ۳۶۴۸۵

نسائی کی بیان کردہ دونوں روایات کی اسناد صحیح ہے۔

ہیثمی نے طبرانی کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : ۳۶

عن عبد الرحمن بن أبي ليلٰي قال : شهدتُ علياً رضي الله عنه في الرحبة ينشد الناس : أنشد اﷲ مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه. لما قام فشهد، قال عبد الرحمن : فقام إثنا عشر بدرياً کأني أنظر إلي أحدهم، فقالوا : نشهد أنا سمعنا رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم : ألستُ أولي بالمؤمنين من أنفسهم و أزواجي أمهاتهم؟ فقلنا : بلي، يا رسول اﷲ، قال : فمن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه.

عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وسیع میدان میں دیکھا، اُس وقت آپ لوگوں سے حلفاً پوچھ رہے تھے کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن ۔ ۔ ۔ جس کامیں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ ۔ ۔ فرماتے ہوئے سنا ہو وہ کھڑا ہو کر گواہی دے۔ عبدالرحمن نے کہا : اس پر بارہ (۱۲) بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کھڑے ہوئے، گویا میں اُن میں سے ایک کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ ان (بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں، اور میری بیویاں اُن کی مائیں نہیں ہیں؟‘ سب نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولاہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۱۱۹

۲. ابو يعلي، المسند، ۱ : ۲۵۷، رقم : ۵۶۳

۳. طحاوي، مشکل الآثار، ۲ : ۳۰۸

۴. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، ۲ : ۸۰، ۸۱، رقم : ۴۵۸

۵. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۱۴ : ۲۳۶

۶. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۵۶، ۱۵۷

۷۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (۴۵ : ۱۶۱)‘ میں اسے زیاد بن ابی زیاد سے بھی روایت کیا ہے۔

۸۔ محب طبری نے بھی ’الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ (۳ : ۱۲۸)‘ میں زیاد بن ابی زیاد کی روایت نقل کی ہے۔

۹. ابن اثير، اسد الغابه، ۴ : ۱۰۲، ۱۰۳

۱۰. ابن کثير، البدايه و النهايه، ۴ : ۱۷۰

۱۱. ابن کثير، البدايه والنهايه، ۵ : ۴۶۱، ۴۶۲

۱۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۵، ۱۰۶

۱۳. حسام الدين هندي، کنز العمال، ۱۳ : ۱۷۰، رقم : ۳۶۵۱۵

۱۴. شوکاني، در السحابه : ۲۰۹

ہیثمی فرماتے ہیں کہ اسے ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔

حسام الدین ہندی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ابن جریر، سعید بن منصوراور ابن اثیر جزری نے بھی روایت کیا ہے۔

احمد بن حنبل نے یہ حدیثِ مبارکہ ’المسند(۱ : ۸۸)‘ میں زیاد بن ابی زیاد سے بھی روایت کی ہے۔ اُسے ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(۹ : ۱۰۶)‘ میں نقل کیا ہے اور اُس کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : ۳۷

عن عَمرو بن ذي مُرٍ و سعيد بن وهب و عن زيد بن يثيع قالوا : سمعنا علياً يقول نشدت اﷲ رجلاً سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم، لما قام، فقام ثلاثة عشر رجلا فشهدوا أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : ألست أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : بلي، يا رسول اﷲ! قال : فأخذ بيد علي، فقال : من کنت مولاه فهذا مولاه، اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه، و أحب من أحبه، و أبغض من يبغضه، و انصر من نصره، و اخذل من خذله.

عمرو بن ذی مر، سعید بن وہب اور زید بن یثیع سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں ہر اس آدمی سے حلفاً پوچھتا ہوں جس نے غدیر خم کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہو، اس پر تیرہ آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! راوی کہتا ہے : تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس(علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس(علی) سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر، جو اِس(علی) سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ، جو اِس (علی) کی نصرت کرے تو اُس کی نصرت فرما اور جو اِسے رسوا (کرنے کی کوشش) کرے تو اُسے رسوا کر۔‘‘

۱۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(۹ : ۱۰۴، ۱۰۵)‘ میں اسے بزار سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال کو صحیح قرار دیا ہے، سوائے فطر بن خلیفہ کے اور وہ ثقہ ہے۔

۲. بزار، المسند، ۳ : ۳۵، رقم : ۷۸۶

۳. طحاوي، مشکل الآثار، ۲ : ۳۰۸

۴. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۵۹، ۱۶۰

۵. حسام الدين هندي، کنز العمال، ۱۳ : ۱۵۸، رقم : ۳۶۴۸۷

۶. ابن کثير، البدايه والنهايه، ۴ : ۱۶۹، ۵ : ۴۶۲

حدیث نمبر : ۳۸

عن زاذان بن عمر قال : سمعت علياً رضي الله عنه في الرحبة وهو ينشد الناس : من شهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم و هو يقول ما قال، فقام ثلاثة عشر رجلاً فشهدوا أنهم سمعوا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو يقول : من کنت مولاه فعليّ مولاه.

زاذان بن عمرث سے روایت ہے، آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجلس میں لوگوں سے حلفاً یہ پوچھتے ہوئے سنا : کس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اس پر تیرہ (۱۳) آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۸۴

۲. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۵۸۵، رقم : ۹۹۱

۳. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : ۶۰۴، رقم : ۱۳۷۱

۴. طبراني، المعجم الاوسط، ۳ : ۶۹، رقم : ۲۱۳۱

۵. بيهقي، السنن الکبري، ۵ : ۱۳۱

۶. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، ۵ : ۲۶

۷. ابن جوزي، صفة الصفوة، ۱ : ۳۱۳

۸. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۷

۹۔ ابنِ کثیر نے ’البدایہ و النہایہ (۴ : ۱۶۹)‘ میں زاذان ابی عمر سے نقل کردہ روایت میں کھڑے ہو کر گواہی دینے والے آدمیوں کی تعداد بارہ (۱۲) لکھی ہے۔

۱۰۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (۵ : ۴۶۲)‘ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے زاذان کی لی ہوئی روایت میں گواہی دینے والے افراد کی تعداد تیرہ (۱۳) لکھی ہے۔

۱۱. حسام الدين هندي، کنزالعمال، ۱۳ : ۱۵۸، رقم : ۳۶۴۸۷

۱۲. شوکاني، در السحابه : ۲۱۱

حدیث نمبر : ۳۹

عن عبد الرحمن بن أبي ليلٰي، قال : خطب علي رضي الله عنه فقال : أنشد اﷲ امرء نشدة الإسلام سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم أخذ بيدي، يقول : ألستُ أولي بکم يا معشرَ المسلمين مِن أنفسکم؟ قالوا : بلي، يا رسول اﷲ، قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، وعادِ مَن عاداه، وانصُر مَن نصره، واخُذل مَن خذله، إلا قام فشهد، فقام بضعة عشر رجلاً فشهدوا، وکتم فما فنوا من الدنيا إلا عموا و برصوا.

عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : میں اس آدمی کو اللہ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں، جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن میرا ہاتھ پکڑے ہوئے یہ فرماتے سنا ہو : ’’اے مسلمانو! کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس(علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس(علی) کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما، جو اِس کی رسوائی چاہے تو اُسے رسوا کر؟‘‘ اس پر تیرہ (۱۳) سے زائد افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی اور جن لوگوں نے یہ باتیں چھپائیں وہ دُنیا میں اندھے ہو کر یا برص کی حالت میں مر گئے۔

۱. حسام الدين هندي، کنز العمال، ۱۳ : ۱۳۱، رقم : ۳۶۴۱۷

۲. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۵۸

۳. ابن اثیر کی ’اسد الغابہ (۳ : ۴۸۷)‘ میں ابو اسحاق سے لی گئی روایت میں ہے : یزید بن ودیعہ اور عبدالرحمن بن مدلج گواہی چھپانے کے سبب بیماری میں مبتلا ہوئے۔

حدیث نمبر : ۴۰

عن الأصبغ بن نباتة، قال : نَشَدَ علي رضي الله عنه الناسَ في الرحبة : مَن سمع النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم؟ ما قال إلا قام، ولا يقوم إلا مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول، فقام بضعة عشر رجلا فيهم : أبو أيوب الأنصاري، و أبو عمرة بن محصن، و أبو زينب، و سهل بن حنيف، و خزيمة بن ثابت، و عبد اﷲ بن ثابت الأنصاري، و حُبشي بن جنادة السلولي، و عبيد بن عازب الأنصاري، و النعمان بن عجلان الأنصاري، و ثابت بن وديعة الأنصاري، و أبو فضالة الأنصاري، و عبدالرحمن بن عبد رب الأنصاريث، فقالوا : نشهد أناّ سمِعنا رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ألا! إنّ اﷲ وليي وأنا ولي المؤمنين، ألا! فمَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ مَن والاه، و عادِ مَن عاداه، و أحبّ مَن أحبه، و أبغض مَن أبغضه، و أعن مَن أعانه.

اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھلے میدان میں لوگوں کو قسم دی کہ جس نے غدیر خم کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہو، وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیرہ(۱۳) سے زائد افراد کھڑے ہوئے جن میں ابوایوب انصاری، ابو عمرہ بن محصن، ابو زینب، سہل بن حنیف، خزیمہ بن ثابت، عبداللہ بن ثابت انصاری، حبشی بن جنادہ سلولی، عبید بن عازب انصاری، نعمان بن عجلان انصاری، ثابت بن ودیعہ انصاری، ابوفضالہ انصاری اور عبدالرحمن بن عبد رب انصاری رضی اللہ عنھم تھے۔ ان سب نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا : لوگو! آگاہ رہو! اللہ میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، خبردار! (آگاہ رہو!) جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر، جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ اور جو اِس کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما۔

۱. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، ۳ : ۴۶۵

۲. طحاوي، مشکل الآثار، ۲ : ۳۰۸

۳۔ ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (۲ : ۳۶۲)‘ میں یعلیٰ بن مرہ سے ایک روایت بیان کی ہے جس میں گواہان میں یزید یا زید بن شراحیل کا بھی ذکر ہے، جبکہ یعلیٰ بن مرہ سے ہی بیان کردہ ایک اور روایت (۳ : ۱۳۷) میں عامر بن لیلیٰ کا ذکر ہے، ایک اور مقام (۵ : ۲۸۲) پر گواہان میں ناجیہ بن عمرو کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

حدیث نمبر : ۴۱

عن زيد بن أرقم، قال استشهد علي الناس، فقال : أنشد اﷲ رجلا سمع النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : اللهم! من کنتُ مولاه، فعلي مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه، قال : فقام ستة عشر رجلاً، فشهدوا.

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے گواہی طلب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ پس اس (موقع) پر سولہ (۱۶) آدمیوں نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۵ : ۳۷۰

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۵ : ۱۷۱، رقم : ۴۹۸۵

۳. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : ۱۲۵، ۱۲۶

۴. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۳ : ۱۲۷

۵. ابن کثير، البدايه والنهايه، ۵ : ۴۶۱

۶. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۶

ہیثمی نے کہا ہے کہ جنہوں نے اس واقعہ کو چھپایا اُن کی بصارت چلی گئی۔

حدیث نمبر : ۴۲

عن عمير بن سعد أن عليا جمع الناس في الرحبة و أنا شاهد، فقال : أنشد اﷲ رجلا سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : من کنت مولاه فعلي مولاه، فقام ثمانية عشر رجلا فشهدوا أنهم سمعوا نبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ذالک.

عمیر بن سعد سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں یہ قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اُس کا علی مولا ہے؟ تو اٹھارہ (۱۸) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔

۱۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(۹ : ۱۰۸)‘ میں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اُس کی اسناد حسن ہیں۔

۲۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (۴۵ : ۱۵۸)‘ میں عمیر بن سعید رضی اللہ عنہ سے یہ روایت لی ہے جبکہ عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد بارہ (۱۲) تھے۔

۳۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (۴ : ۱۷۱، ۵ : ۴۶۱)‘ میں عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ سے جو روایت لی ہے اس میں ہے کہ گواہی دینے والے بارہ (۱۲) آدمی تھے جن میں حضرت ابوہریرہ، ابوسعد اور انس بن مالک رضی اللہ عنھم بھی شامل تھے۔

۴. حسام الدين هندي، کنز العمال، ۱۳ : ۱۵۴، ۱۵۵، رقم : ۳۶۴۸۰

۵. شوکاني، در السحابه : ۲۱۱

حدیث نمبر : ۴۳

عن أبي الطفيل، قال : جمع علي رضي الله عنه الناس في الرحبة، ثم قال لهم : أنشد اﷲ کل امرئ مسلم سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم ما سمع لما قام، فقام ثلاثون من الناس، و قال أبو نعيم : فقام ناس کثير فشهدوا حين أخذه بيده، فقال للناس : أتعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : نعم، يا رسول اﷲ! قال : من کنت مولاه فهذا مولاه، اللهم! والِ من والاه و عاد من عاداه، قال فخرجتُ و کأنّ في نفسي شياً فلقيتُ زيد بن أرقم فقلتُ له : إني سمعتُ عليا رضي الله عنه يقول کذا و کذا، قال فما تنکر قد سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول ذلک له.

ابوطفیل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک کھلی جگہ (رحبہ) میں جمع کیا، پھر اُن سے فرمایا : میں ہر مسلمان کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیرخم کے دن (میرے متعلق) کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیس (۳۰) افراد کھڑے ہوئے جبکہ ابونعیم نے کہا کہ کثیر افراد کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ (ہمیں وہ وقت یاد ہے) جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا : ’’کیا تمہیں اس کا علم ہے کہ میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ سب نے کہا : ہاں، یا رسول اﷲ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے نکلا تو میرے دل میں کچھ شک تھا۔ اسی دوران میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ملا اور اُنہیں کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (اس پر) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا : تو کیسے انکار کرتا ہے جبکہ میں نے خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا ہی فرماتے ہوئے سنا ہے؟

۱۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (۴ : ۳۷۰)‘ میں اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

۲. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۶۸۲، رقم : ۱۱۶۷

۳. بزار، المسند، ۲ : ۱۳۳

۴۔ ابن حبان کی ’الصحیح (۱۵ : ۳۷۶، رقم : ۶۹۳۱)‘ میں بیان کردہ روایت کی اسناد صحیح اور رجال ثقہ ہیں۔

۵. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : ۶۰۳، رقم : ۱۳۶۶

۶۔ حاکم نے ’المستدرک (۳ : ۱۰۹، رقم : ۴۵۷۶)‘ میں اسے شیخین کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔

۷. بيهقي، السنن الکبريٰ، ۵ : ۱۳۴

۸۔ یہ حدیث مختصر الفاظ سے طبرانی نے ’المعجم الکبیر (۵ : ۱۹۵، رقم : ۵۰۷۱)‘ میں روایت کی ہے۔

۹. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشره، ۳ : ۱۲۷

۱۰. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۵۶

۱۱. ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (۶ : ۲۴۶)‘ میں گواہی دینے والے افراد کی تعداد سترہ (۱۷) ذکر کی ہے۔

۱۲. ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (۴ : ۱۷۱)‘ میں لکھا ہے کہ رحبہ سے مراد کوفہ کی مسجد کی کھلی جگہ ہے۔

۱۳. ابن کثير، البدايه والنهايه، ۵ : ۴۶۰، ۴۶۱

۱۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۴

۱۵. ابومحاسن، المعتصرمن المختصرمن مشکل الآثار، ۲ : ۳۰۱

۱۶۔ ہیتمی نے ’الصواعق المحرقہ (ص : ۱۲۲)‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے روایت کی ہے اور اس کے طرق کی کثیر تعداد صحیح یا حسن کے ذیل میں آتی ہے۔

۱۷. شوکاني، در السحابه : ۲۰۹

حدیث نمبر : ۴۴

عن رياح بن الحرث قال : جاء رهط إلي علي رضي الله عنه بالرحبة فقالوا : السلام عليک يا مولانا! قال : کيف أکون مولاکم وأنتم قوم عرب؟ قالوا : سمعنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم يقول : من کنتُ مولاه فإن هذا مولاه، قال رياح : فلما مضوا تبعتهم فسألت من هؤلاء؟ قالوا : نفر من الأنصار فيهم أبو أيوب الأنصاري.

ریاح بن حرث سے روایت ہے کہ ایک وفد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا : اے ہمارے مولا! آپ پر سلامتی ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا : میں کیسے آپ کا مولا ہوں حالانکہ آپ تو قومِ عرب ہیں (کسی کو جلدی قائد نہیں مانتے)۔ اُنہوں نے کہا : ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غدیر خم کے دن سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں بے شک اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔‘‘ حضرت ریاح رضی اللہ عنہ نے کہا : جب وہ لوگ چلے گئے تو میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ انصار کا ایک وفد ہے، اُن میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۵ : ۴۱۹

۲. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۵۷۲، رقم : ۹۶۷

۳. ابن ابي شيبه، المصنف، ۱۲ : ۶۰، رقم : ۱۲۱۲۲

۴. طبراني، المعجم الکبير، ۴ : ۱۷۳، ۱۷۴، رقم : ۴۰۵۲، ۴۰۵۳

۵. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۰۳، ۱۰۴

۶. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۲ : ۱۶۹

۷. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۳ : ۱۲۶

۸۔ ابن عساکر نے یہ روایت ’تاریخ دمشق الکبیر‘ میں زیاد بن حارث (۴۵ : ۱۶۱)، حسن بن حارث (۴۵ : ۱۶۲) اور ریاح بن حارث (۴۵ : ۱۶۳) سے لی ہے۔

۹۔ ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (۱ : ۶۷۲)‘ میں زِر بن حبیش سے روایت کیا ہے کہ بارہ صحابہ کرام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا مولا تسلیم کیا، جن میں قیس بن ثابت، ہشام بن عتبہ اور حبیب بن بدیل رضی اللہ عنھم شامل تھے۔

۱۰. ابن کثير، البدايه و النهايه، ۴ : ۱۷۲

۱۱. ابن کثير، البدايه والنهايه، ۵ : ۴۶۲

ہیثمی نے اس روایت کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : ۴۵

عن عمر رضي الله عنه : و قد نازعه رجل في مسألة، فقال : بيني و بينک هذا الجالس، و أشار إلي عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه ، فقال الرجل : هذا الأبطن! فنهض عمر رضي الله عنه عن مجلسه و أخذ بتلبيبه حتي شاله من الأرض، ثم قال : أتدري من صغرت، مولاي و مولي کل مسلم!

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ کسی مسئلے میں جھگڑا کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان یہ بیٹھا ہوا آدمی فیصلہ کرے گا ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ تو اس آدمی نے کہا : یہ بڑے پیٹ والا (ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا)! حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے اٹھے، اسے گریبان سے پکڑا یہاں تک کہ اسے زمین سے اوپر اٹھا لیا، پھر فرمایا : کیا تو جانتا ہے کہ تو جسے حقیر گردانتا ہے وہ میرے اور ہر مسلمان کے مولیٰ ہیں۔

محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۳ : ۱۲۸

محب طبری نے کہا ہے کہ ابن سمان نے اس کی تخریج کی ہے۔

حدیث نمبر : ۴۶

و عن عمر رضي الله عنه و قد جاء ه أعرابيان يختصمان، فقال لعلي رضي الله عنه : إقض بينهما يا أبا الحسن! فقضي علي رضي الله عنه بينهما، فقال أحدهما : هذا يقضي بيننا! فَوَثَبَ إليه عمر رضي الله عنه و أخذ بتلبيبه، و قال : ويحک! ما تدري من هذا؟ هذا مولاي و مولي کل مؤمنٍ، و من لم يکن مولاه فليس بمؤمن.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو بدّو جھگڑا کرتے ہوئے آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابوالحسن! ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ پس آپ رضی اللہ عنہ نے اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ (کیا) یہی ہمارے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے رہ گیا ہے؟ (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور اس کا گریبان پکڑ کر فرمایا : تو ہلاک ہو! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ یہ میرے اور ہر مؤمن کے مولا ہیں (اور) جو اِن کواپنا مولا نہ مانے وہ مؤمن نہیں۔

۱۔ محب طبری نے یہ روایت ’ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی (ص : ۱۲۶)‘ میں بیان کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن سمان نے اپنی کتاب ’الموافقہ‘ میں ذکر کیا ہے۔

۲. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۳ : ۱۲۸

حدیث نمبر : ۴۷

عن عمر أنه قال : عليّ مولي من کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مولاه.

عن سالم قيل لعمر : إنک تصنع بعليّ شيئا ما تصنعه بأحد من أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، قال : إنه مولاي.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے مولا ہیں علی رضی اللہ عنہ اس کے مولا ہیں۔

حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا (امتیازی) برتاؤ کرتے ہیں جو آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے (عموماً) نہیں کرتے! (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (جواباً) فرمایا : وہ (علی) تو میرے مولا (آقا) ہیں۔

۱. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۳ : ۱۲۸

۲. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ : ۱۷۸

حدیث نمبر : ۴۸

عن يزيد بن عمر بن مورق قال : کنت بالشام و عمر بن عبد العزيز يعطي الناس، فتقدمتُ إليه فقال لي : ممن أنتَ؟ قلت : مِن قريش، قال : مِن أي قريش؟ قلتُ : مِن بني هاشم، قال : مِن أي بني هاشم؟ قال : فسکتُ. فقال : مِن أي بني هاشم؟ قلتُ : مولي عليّ، قال : مَن عليّ؟ فسکتُ، قال : فوضع يده علي صدري و قال : و أنا و اﷲِ مولي عليّ بن أبي طالب عليه السلام، ثم قال : حدثني عدة أنّهم سمعوا النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، ثم قال : يا مزاحم! کم تعطي أمثاله؟ قال : مائة أو مائتي درهم، قال : إعطه خمسين ديناراً، وقال ابن أبي داؤد : ستين ديناراً لولايته عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه ، ثم قال : ألحق ببلدک فسيأتيک مثل ما يأتي نظراءک.

یزید بن عمر بن مورق روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں شام میں تھا جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ لوگوں کو نواز رہے تھے۔ پس میں ان کے پاس آیا، اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس قبیلے سے ہیں؟ میں نے کہا : قریش سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ قریش کی کس (شاخ) سے ؟ میں نے کہا : بنی ہاشم سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ راوی کہتے ہیں کہ میں خاموش رہا۔ اُنہوں نے (پھر) پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ میں نے کہا : مولا علی (کے خاندان سے)۔ اُنہوں نے پوچھا کہ علی کون ہے؟ میں خاموش رہا۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا : ’’بخدا! میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا غلام ہوں۔‘‘ اور پھر کہا کہ مجھے بے شمار لوگوں نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ پھر مزاحم سے پوچھا کہ اِس قبیل کے لوگوں کو کتنا دے رہے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا : سو (۱۰۰) یا دو سو (۲۰۰) درہم۔ اِس پر اُنہوں نے کہا : ’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قرابت کی وجہ سے اُسے پچاس (۵۰) دینار دے دو، اور ابنِ ابی داؤد کی روایت کے مطابق ساٹھ (۶۰) دینار دینے کی ہدایت کی، اور (اُن سے مخاطب ہو کر) فرمایا : آپ اپنے شہر تشریف لے جائیں، آپ کے پاس آپ کے قبیل کے لوگوں کے برابر حصہ پہنچ جائے گا۔

۱. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، ۵ : ۳۶۴

۲. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۴۸ : ۲۳۳

۳. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۶۹ : ۱۲۷

۴. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، ۶ : ۴۲۷، ۴۲۸

حدیث نمبر : ۴۹

عن الزهري قال : سمعت أباجنيدة جندع بن عَمرو بن مازن، قال : سمعت النبيا يقول : من کذب عليّ متعمداً فليتبوأ مقعده من النار، و سمعته و إلا صُمَّتا، يقول. و قد انصرف من حجة الوداع فلما نزل غدير خُمّ قام في الناس خطيباً وأخذ بيد علي رضي الله عنه، و قال : من کنت وليه فهذا وليه، اللهم! وال من والاه، وعاد من عاداه. قال عبيد اﷲ : فقلت للزهري : لا تحدّث بهذا بالشام، وأنت تسمع ملء أذنيک سب علي رضي الله عنه، فقال : و اﷲ! إن عندي من فضائل علي رضي الله عنه ما لو تحدثت بها لقُتلتُ.

زہری سے روایت ہے کہ ابوجنیدہ جندع بن عمرو بن مازن نے کہا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔ (اور یہ فرمان) میں نے خود سنا ہے ورنہ میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس لوٹے اور غدیر خم کے مقام پر پہنچے، لوگوں کو خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کر فرمایا : جس کا میں ولی ہوں یہ (علی) اُس کا ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ عبیداللہ نے کہا : میں نے زہری سے کہا : ایسی باتیں ملک شام میں بیان نہ کرنا ورنہ تو وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں اتنی باتیں سنے گا کہ تیرے کان بھر جائیں گے۔ (اس کے جواب میں) اِمام زہری نے فرمایا : خدا کی قسم! حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اِتنے فضائل میرے پاس محفوظ ہیں کہ اگر میں اُنہیں بیان کروں تو مجھے قتل کر دیا جائے۔

ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، ۱ : ۵۷۲، ۵۷۳

حدیث نمبر : ۵۰

عن عَمرو بن العاص رضي الله عنه، قال : سئله رجلٌ عن عليّ رضي الله عنه، قال : يا عَمرو! إنّ أشياخنا سمعوا رسولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، فحق ذلک أم باطل؟ فقال عمرو : حق و أنا أزيدک : إنه ليس أحد من صحابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم له مناقب مثل مناقب عليّ.

حضرت عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن سے کسی شخص نے پوچھا : اے عمرو! ہمارے بزرگوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ یہ بات درُست ہے یا غلط؟ عمرو نے کہا : درست ہے، اور میں آپ کو مزید بتاؤں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی کے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے مناقب نہیں ہیں۔

ابن قتيبه دينوري، الامامه والسياسه، ۱ : ۱۱۳

حدیث نمبر : ۵۱

عن علي رضي الله عنه قال : عمّمني رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم بعمامة سدلها خلفي، ثم قال : إن اﷲ عزوجل أمدني يوم بدر و حنين بملائکة يعتمون هذه العمة، فقال : إنّ العمامةَ حاجزةٌ بين الکفر و الإيمان.

(خود) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن ایسے عمامے سے میری دستار بندی کروائی اس کا شملہ پیچھے لٹکا دیا پھر فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے بدر و حنین میں (جن) فرشتوں کے ذریعے میری مدد کی، اُنہوں نے اِسی ہیئت کے عمامے باندھ رکھے تھے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’بیشک عمامہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔‘‘

۱. طيالسي، المسند : ۲۳، رقم : ۱۵۴

۲. بيهقي، السنن الکبريٰ، ۱۰ : ۱۴

۳. حسام الدين هندي، کنزالعمال، ۱۵ : ۳۰۶، ۴۸۲، رقم : ۴۱۱۴۱، ۴۱۹۰۹

حسام الدین ہندی نے کہا ہے کہ اِس حدیث کو طیالسی کے علاوہ بیہقی، طبرانی، ابن ابی شیبہ اور ابن منیع نے بھی روایت کیا ہے۔ حسام الدین ہندی نے ’انّ العمامۃَ حاجزۃٌ بین المسلمین و المشرکین‘ کے الفاظ کا اِضافہ کیا ہے۔

عبدالاعلیٰ بن عدی سے بھی یہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اُن کی دستاربندی فرمائی اور دستار کا شملہ پیچھے لٹکا دیا۔ یہ حدیث درج ذیل کتب میں ہے :

۱. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، ۳ : ۱۷۰

۲. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، ۳ : ۱۹۴

۳. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، ۶ : ۲۷۲