علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن0%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مختلف دانشور
زمرہ جات: صفحے: 263
مشاہدے: 130415
ڈاؤنلوڈ: 6253

تبصرے:

علوم ومعارف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130415 / ڈاؤنلوڈ: 6253
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سورةالجمعة :(یُسَبِّحُ لِلّٰهِ مافی السموات والَارْض ) (۱۶)

سورةالتغابن :( یُسَبِّحُ لِلّٰهِ مافی السَّموات ومافی الاَرْض ) (۱۷)

سورةالاعلیٰ :( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ) (۱۸)

مذکورہ بالا سورتوں میں سے پہلی میں مصد ر دوسری اور تیسری میں ماضی،چوتھی، پانچویں سورت مضارع اور چھٹی سورة میں امر کا صیغہ استعمال کر کے اس کلمہ کا اس کی ہر جہت سے استعیاب کر لیا گیاہے۔(۱۹)

۲۔ حروف تہجی یا حروف مقطعات:

حروف تہجی سے قرآن حکیم کی انتیس(۲۹)سورتوں کا آغاز فرمایا ہے جنہیں حروف مقطعات بھی کہتے ہیں ان کو سورتوں کا نقطہ آغاز یافو اتح السوُّر کہا جاتا ہے سورتوں کے یہ فواتح پانچ اقسام پر آتے ہیںجو درج ذیل ہیں۔

۱۔ بسیط مقطعات:

یہ حروف کی وہ قسم ہے جو صر ف ایک حرف پر مشتمل ہے اور یہ تین سورتیں ہیں۔

سورةص :( ص والقرآن ذی الذکر ) (۲۰)

سورةق :( ق والقرآن المجید ) (۲۱)

سورةالقلم :( ن والقلم ومایسطرون ) (۲۱)

____________________

۱۶۔ الجمعة،۶۲،۱ ------ ۱۷۔ التغابن،۶۴،۱ ---- ۱۸۔ الاعلیٰ،۸۷،۱ ----- ۱۹۔ الاتقان،حوالہ مذکور،ج۲،ص۲۹۲ --- ۲۰۔ ص،۳۸:۱ -- ۲۱۔ ق،۵:۱ ۲۲۔ القلم ----

۱۰۱

۲ دو حروف سے مرکب مقطعات:

ایسے مقطعات قرآن حکیم کی دس سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں جو یہ ہیں۔

سورةطٰه ٰ:( طه ﴿﴾ مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ ) (۲۲)

سورةالنمل :( طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ ) (۲۳)

سوره یس :( یس والقرآن الحکیم ) (۲۴)

سورةمومن :( حم تنزیل الکتاب من الله العزیز الحکیم ) (۲۵)

سورةحم السجدة :( حم تنزیل من الرحمن الرحیم ) (۲۶)

سورةالزخرف :( حم والکتب المبین ) (۲۷)

سورةالدخان :( حم والکتب المبین ) (۲۸)

سورةالجاثیہ: حم( تنزیل الکتب من الله العزیز الحکیم ) (۲۹)

سورةالاحقاف: حم( تنزیل الکتب من الله العزیز الحکیم ) (۳۰)

____________________

۲۲۔ طٰہٰ،۲۰،۱ --- ۲۳۔ النمل،۲۷،۱ ---- ۲۴۔ یٰس،۳۶:۱ --- ۲۵ مومن،۴۰:۱ -- ۲۶۔ حٰم السجدة،۴۱،۱

۲۷۔ الزخرف،۴۳،۱ -- ۲۸۔ الدخان،۴۴،۱ --- ۲۹۔ الجاثیہ،۴۵:۱ ۳۰۔ الاحقاف،۴۲:۱ ---

۱۰۲

۳ تین حروف سے مرکب مقطعات:

اس نوع میں قرآن حکیم کی تیرہ سورتیں آتی ہیں۔

سورةالبقرة:( الم ذالک الکتاب لاریب فیه ) (۳۲) سورةال عمران:( الم الله لااله الاهوالحی القیوم ) (۳۳)

سوریونس:( الر تلک آیٰت الکتب الحکیم ) (۳۴) سورھود:( الر کتٰبٌ اُحْکمت اٰیٰتةُ ) (۳۵)

سورةیوسف:( الر تلک ایت الکتب المبین ) (۳۶) سورةابراہیم:( الرکتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْکَ ) (۳۷)

سورةالشعراء:( طسم ه تلک ایت الکتب المبین ) (۳۸) سورةالقصص:( طسم تلک ایت الکتب المبین ) (۳۹)

سورةالحجر:( الر تلک ایت الکتب و قرآن مبین ) (۴۰)

سورةالعنکبوت:( الم احسب الناس ان یترکوا ) (۴۱)

سورةالروم:( الم غلبت الروم ) (۴۲)

سورةلقمن:( الم تلک ایت الکتب الحکیم ) (۴۳)

سورةالسجدة :( الم تنزیل الکتب لا ریب فیه من رب العلمین ) (۴۴)

____________________

۳۲۔ البقرة:۲،۱ --- ۳۳۔ آلِ عمران:۳،۱ --- ۳۴۔ یونس:۱۰،۱ --- ۳۵۔ ھود،۱۱:۱ --۳۶۔ یوسف،۱۲،۱

۳۷۔ ابراہیم،۱۴،۱ --- ۳۸۔ الشعراء:۲۶،۱ --- ۳۹۔ القصص:۲۸،۱ --۴۰۔ الحجر،۱۵،۱ --- ۴۱۔ العنکبوت:۲۹،۱ -- ۴۲۔ الروم:۳۰،۱ ۴۳۔ لقمٰن:۳۱،۱

۴۴۔ السجدة:۳۲،۱

۱۰۳

۴ چار حروف سے مرکب مقطعات:

قرآن کریم کی دو سورتیں چار حروف سے مرکب مقطعات سے شروع ہوئی ہیں۔

سورةالاعراف:( المص کتٰب انزل الیک ) (۴۴)

سورةالرعد:( المر تلک ایت الکتب ) (۴۵)

۵ پانچ حروف سے مرکب مقطعات:

صرف دو سورت کا آغاز پانچ حروف پر مشتمل مقطعات سے ہوتا ہے۔

سورةمریم:( کهیعص ذکر رحمت ربک عبده ذکریا ) (۴۶)

سورةالشوری:( حم عسق کذالک یو حی الیک ) (۴۷)

____________________

۴۴۔ الاعراف،۷،۱

۴۵۔ الرعد،۱۳،۱

۴۶۔ مریم،۱۹،۱

۴۷- سورةالشوری

۱۰۴

حروف مقطعات کی حکمت:

مفسرین حروف مقطعات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذکر سے یہ فائدہ مقصود ہے کہ یہ قرآن، حروف تہجی یعنی ا،ب،ج، د ہی سے مرکب اور مرتب ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ قرآن مجید کاکچھ حصہ مقطع (جدا جدا)حروف میں آیا ہے اور باقی تمام مرکب الفاظ ہیں غرض یہ تھی کہ جن لوگوں کی زبان میں قرآن حکیم کانزول ہوا ہے وہ معلوم کرلیں کہ قرآن انہی کی زبان میں ہے اور انہی حروف میں نازل ہوا ہے جن کو وہ جانتے اور اپنے کلام میں برتتے ہیں اور یہ بات ان لوگوں کے قائل کرنے اور ان کے قرآن حکیم کے مثل لانے سے عاجز ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ایک زبردست دلیل ہے کیونکہ اہل عرب باوجود یہ معلوم کرلینے کے کہ قرآن حکیم انہی کی زبان میں اترا اور انہی حروف تہجی کے ساتھ نازل ہوا جس سے وہ اپنے کلام کو بناتے ہیںپھر بھی قرآن کی اس تحدی (چیلنج) کو قبول کرنے سے عاجز رہے کہ اس کے مثل کوئی سورہ یا کم از کم ایک آیت ہی پیش کر سکیں۔(۴۸)

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی مقطعات کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں” حروف مقطعات کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کی حیثیت ان سورتوں کے نام یاعنوان کی سی ہے جس سورة سے اس کا تعلق ہوتا ہے چنانچہ جو باتیں سورة میں تفصیلی طور پرموجودہوتی ہیں وہ اجمالی طور پر حروف مقطعات میں بھی مضمر ہوتی ہیںمثلاً جب کوئی کتاب لکھی جاتی ہے تو اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے لیکن نام رکھنے میں ہمیشہ کتاب کے مضمون کی مناسبت کا خیال رکھا جاتا ہے اور ایک ایسانام تجویز کیاجاتا ہے جس کے سنتے ہی کتاب کی حقیقت اور اس کا مفہوم سننے والے کے ذہن میں آ جائے مثلاً امام بخاری نے اپنی حدیث کا نام”الجامع الصحیح المسند فی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا ہے اس نام کے سنتے ہی یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کتاب میں آنحضرت کی احادیث صحیحہ کو جمع کیاگیاہے۔(۴۹)

____________________

۴۸۔ الاتقان، حوالہ مذکور،ح۲،ص۲۹ ۴۹۔ شاہولی اللہ،الفوزالکبیرفی اصول التفسیر(مترجم)قرآن

۱۰۵

حضرت شاہ ولی اللہ کی بحث سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ سورتوں کے آغاز میں آنے والے حروف تہجی دراصل اس سورة میں مذکورہ مضامین کی مناسبت سے آتے ہیں۔

۳ نداء:

قرآن حکیم کی دس سورتوں کاافتتاح حروف نداء سے کیا گیا ہے جن میں پانچ حضور کوندا سے شروع کیا گیاہے وہ یہ ہیں۔

سورةالاحزاب:( یاایها النبی اتق الله ) (۵۱) سورة۔ الطلاق:( یاایها النبی اذطلقتم النساء ) (۵۲)

سورةالتحریم:( یاایها النبی لما تحرم ) (۵۳) سورةالمزمل:( یاایها المزمل ) (۵۴)

سورةالمدثر:( یاایها المدثر ) (۵۵)

پانچ سورتوں میں امت کو بذریعہ نداء مخاطب کیاگیاہے۔

سورةالنساء:( یاایها الناس اتقوا ربکم ) سورةالمائدة:( یاایها الناس امنوا اوفوا بالعقود ) (۵۶)

سورةالحج:( یاایها الناس اتقوا ربکم ) (۵۷) سورةالحجرات:( یاایها الذین امنوا لاتقدموا ) (۵۸)

سورةالممتحنہ:( یاایها الذین آمنوا لاتتخدوا )

____________________

۵۱۔ الاحزاب:۳۳،۱ -- محل، تاجران کتب،کراچی،۱۳۸۳ہ ص۱۶۶،۱۶۷ -- ۵۲۔ الطلاق،۶۵،۱ -- ۵۳۔ التحریم،۷۶:۱

۵۴۔ المزمل:۷۳،۱ -- ۵۵۔ المدثر:۷۴،۱ -- ۵۶۔ المائدة:۵،۱ -- ۵۷۔ الحج:۲۲،۱ -- ۵۸۔ الحجرات:۴۹،۱ --

۱۰۶

۴۔ جملہ خبریہ:

قرآن حکیم کی تیس سورتوں کوجملہ خبر یہ سے شروع کیا گیا ہے۔

سورةالانفال:( یسئلونک عن الانفال ) (۵۹) سورةالتوبة:( برآة من الله ورسوله ) (۶۰) سورةالنحل:( اتی امر الله فلا تستعجلوه ) (۶۱) سورةالانبیاء:( اقترب للناس حسابهم ) (۶۲) سورةالمومنون:( قدافلح المومنون ) (۶۳) سورةالنور:( سورة انزلنها وفرضناها ) (۶۴) سورةالزمر:( تنزیل الکتب من الله العزیز الحکیم ) (۶۵) سورةمحمد:( الذین کفروا وصدوا ) (۶۶) سورةالفتح:( انا فتحنا لک فتحاً مبینا ) (۶۷) سورةالقمر:( اقتربتِ الساعة وانشق القمر ) (۶۸)

سورةالرحمن:( الرحمن ( علّم القرآن ) (۶۹) سورةالمجادلة:( قدسمع الله قول التی ) (۷۰) سورةالحاقة:( الحاقة ( ماالحاقة ) (۷۱) سورةالمعارج:( سال سائل بعذاب واقع ) (۷۲) سورةنوح:( انا ارسلنا نوحاً الی قومه ) (۷۳) سورةالقیامة:( لااقسم بیوم القیامة ) (۷۴) سورةعبس:( عبس و تولی ) (۷۵) سورةالبلد:( لااقسم بهذالبلد ) (۷۶) سورةالقدر:( انا انزلناهُ فی لیلةالقدر ) (۷۷) سورةالبینة:( لم یکن الذین کفروا ) (۷۸) سورةالقارعة:( القارعة مالقارعة ) (۷۹) سورةالتکاثر:( الهکم التکاثر ) (۸۰) سورةالکوثر:( انا اعطینک الکوثر ) (۸۱)

____________________

۵۹۔ الانفال:۸،۱ ۶۰۔ التوبہ:۹،۱ ۶۱۔ الخل،۱۶،۱ ۶۲۔ الابنیاء،۲۱،۱ ۶۳۔ المومنون:۲۳،۱ ۶۴۔ النور:۶۴،۱ ۶۵۔ الزمر:۳۹،۱ ۶۶۔ محمد:۴۷،۱

۶۷۔ الفتح:۴۸،۱ ۶۸۔ القمر:۵۴،۱ ۶۹۔ الرحمن:۵۵،۱ ۷۰۔ المجادلہ:۶۹،۱ ۷۱۔ الحاقہ:۶۹،۱ ۷۲۔ المعارج:۷۰،۱ ۷۳۔ نوح:۷۱،۱

۷۴۔ القیمٰة:۷۵،۱ ۷۵۔ عبس:۸۰ ۷۶۔ البلد:۹۰،۱ ۷۷۔ القدر:۹۷،۱ ۷۸۔ البینہ:۹۸،۱ ۷۹۔ القارعة:۱۰۱،۱

۸۰۔ التّکاثر:۱۰۲،۱ ۸۱۔ الکوثر:۱۰۸،۱

۱۰۷

قسم:

قرآن حکیم کی پندرہ سورتوں کا آغاز قسم سے کیا گیا ہے ہر ایک کی تفصیل یہ ہے۔

سورةالصفٰت:( والصفٰت صفاً ) (۸۲) اس میں ملائکہ کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالبروج:( والسَّماء ذات البروج ) (۸۳) اس میں آسمانوں کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالطارق:( والسَّماء والطارق ) (۸۴) اس میں بھی آسمانوں کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالنجم:( والنَّجم اذاهَویٰ ) (۸۵) اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالفجر:( والفَجْر ولََیال عشر ) (۸۶) اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالشمس:( والشِّمْسِ وَالضُّحٰها ) (۸۷) اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالیل:( والَّیل اِذٰا یَغْشی ) (۸۸) اس میں لواز م افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالضحی :( والضحی وَالَّیل اذا سجی ) (۸۹) اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالعصر :( والعصران الانسان لفی خسر ) (۹۰) اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔

___________________

۸۲۔ صافات:۳۷،۱ ۸۳۔ البروج:۸۵،۱ ۸۴۔ الطارق:۲،۸۶،۱ ۸۵۔ النجم،۵۳،۱ ۸۶۔ الفجر،۸۹،۱ ۸۷۔ الشمس:۹۱،۱

۸۸۔ اللیل:۹۶،۱ ۸۹۔ الضحیٰ:۹۳،۱ ۹۰۔ العصر۔ ۱۰۳،۱

۱۰۸

سورةالذاریات:( والذرایات ذرواً ) (۹۱) اس میں ہوا کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالمرسلات:( والمرسلات عرفاً ) (۹۲) اس میں ہوا کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالطور:( والطور وکتب مسطور ) (۹۳) اس میں پہاڑ اور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالتین:( والتین والزیتون ) (۹۴) اس میں نبات کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالنازعات:( والنازعات غرفاً ) (۹۵) اس میں حیوان ناطق کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورةالعادیات:( والعادیات ضبحاً ) (۹۶) اس میں حیوان ناطق کی قسم کھائی گئی ہے۔

قران حکیم کے طرز خطاب میں ایک خصوصی اور نمایاں طرز یہ بھی ہے کہ اکثر مطالب و مضامین کو قسم کے عنوان سے بیان کیاجاتا ہے جو ان مضامین کی صداقت و حقانیت کی گویا دلیل و برہان ہوتی ہے اہل عرب کا یہ خصوصی ذوق تھا کہ جب کسی امر پر ان کو اصرار ہوتا اور اس کی حقانیت و صداقت کو مخاطب پر واضح کرنا چاہتے تو اس مقام پر قسم کا عنوان اختیار کرتے اور قرآن کریم چونکہ لغت عرب پر نازل ہوا اس لیے ان کے اس خصوصی ذوق کی رعایت بھی ایسے معجزانہ انداز کے ساتھ کلام اللہ میں رکھی گئی ہے کہ وہ اقسام قرآن کے لطائف پر حیرت زدہ ہوتے اور بجزاس اعتراف کے کو ئی چارہ کار نہ ہوتا کہ خدا کی قسم یہ کلام بشر نہیں ہے۔ حافظ ابن القیم اپنی کتاب ”البیان فی اقسام القرآن“ میں فرماتے ہیں تمام مضامین میں اس امر کی توضیح فرمائی کہ جہاں جس چیز کی قسم کھائی اس چیز کو وہاں بیان کردہ مضمون سے پوری مناسبت ہوتی ہے۔(۹۷)

___________________

۹۱۔ الذاریات:۵۱،۱ ۹۲۔ المرسلات:۷۷،۱ ۹۳۔ الطور:۵۲،۱ ۹۴۔ التین:۹۵،۱ ۹۵۔ النازعات:۷۹،۱ ۹۶۔ العادیات:۱۰۱،۱

۹۷۔ الاتقان:حوالہ مذکورہ،ج۲،ص۳۷۳

۱۰۹

۶۔ شرط کلام:

سورتوں کی چھٹی نوع کلام شرط ہے اس سے سات سورتیں شروع ہوتی ہیں۔

سورةالواقعة:( اذا وقعت الواقعة ) (۹۸)

سورةالمنافقون:( اذاٰ جاءَ َک المنا فقون ) (۹۹)

سورةالتکویر:( اذا الشَّمْس کُوِّرَتْ ) (۱۰۰)

____________________

۹۸۔ الواقعہ،۵۶،۱

۹۹۔ المنافقون:۶۳،۱

۱۰۰۔ التکویر،۱۸۱،۱

۱۱۰

چند صفحات ناقص ہیں

----------

۱۱۱

۱۰۔ تعلیل کلام :

قرآن حکیم کی صرف ایک سورہ تعلیل کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔

سورةقریش:( لِایلٰفِ قُرَیْشٍ ) (۱۱۶)

ابوشامہ نے ان دس انواع کو دو اشعار میں یوں بیان کر دیا ہے۔

اثنی علی نفسه سبحانه بثبو ت الحمد والسلب لما استفتح السورا

والا مروالشرط والتعلیل والقسم الد عاحروف التهجی استفهم الخیرا

____________________

۱۱۶۔ قریش:۱۰۶،۱

۱۱۷۔ الاتقان،حوالہ

۱۱۲

فواتح السور القرآن کے بارے میں شاہ ولی اللہ کانقطہ نظر:

برصغیرمیں فہم قرآنی کے عظیم عالم شاہ ولی اللہ نے فواتح سور القرآن کے ضمن میں بڑی دلچسپ بحث کی ہے وہ لکھتے ہیں۔

” چونکہ قرآن مجید کی سورتوں کا اسلوب بالکل بادشاہوں کے فرمان جیسا تھا اس وجہ سے ان سورتوں کی ابتداء اور انتہاء میں بھی مکاتیب کا ہی انداز اختیار کیاگیاچنانچہ جس طرح بعض مکاتیب کی ابتداء غرض تحریر کی وضاحت سے کی جاتی ہے بعض مکاتیب ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا کوئی عنوان نہیں ہوتا بعض مکاتیب طویل ہوتے ہیں اور بعض مختصر، بالکل اس انداز سے اللہ تعالیٰ نے بھی بعض سورتوں کو حمدو ثناء سے شروع کیااور بعض کو غرض تحریر کی وضاحت سے مثلاً( ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ ) (۱۱۸) ( سوره انزلنها و فرضنا ها ) (۱۱۹) یہ اندازبالکل وہی ہے جیسا کہ عام تحریروں میں اختیار کیاجاتاہے مثلاًهذا ماصالح علیه فلان و فلان، هذا ما اوصی به فلان“ یعنی وہ تحریر ہے جس پر فلاں فلاں نے اتفاق کیا ہے یہ وہ تحریر ہے جس کی فلاں آدمی نے وصیت کی ہے۔ آنحضرت نے صلح حدیبیہ پر جوعہد نامہ تحریر فرمایا تھااس کی ابتداء بھی اس طرح ہوئی تھیهذا ماقاضیٰ علیه محمد صلی الله علیه وسلم (یہ وہ عہد نامہ ہے جسے آنحضرت نے منظور فرمایاہے )

بعض آیات کی ابتداء اس انداز سے ہوتی ہے جس انداز کے وہ نامے ہوتے ہیں جن کی ابتداء کاتب اور مکتوب کے نام سے کی جاتی ہے مثلاً

( تنزیل الکتاب من الله العزیز الحکیم ) (۱۲۰)

( کتٰبٌ اْحْکِمَتْ آیٰاتْه ثُمَّ فُصِّلتْ مِنْ لَدُنْ حکیمٍ خبیرٍ ) (۱۲۱)

___________________

۱۱۸۔ البقرة:۲،۱ ۱۱۹۔ النور:۲۴،۱ مذکور،ج۲،ص۹۴ ۱۲۰۔ مومن:۴۰،۱ ۱۲۱۔ ھود:۱۱،۱

۱۱۳

ان آیات کے آغاز کاانداز ان تحریروں سے مشابہت رکھتا ہے جو اس انداز سے شروع کی جاتی ہیں جسیے حضرت خلافت کا حکم صادر ہوا۔ جب آنحضرت نے ہر قل شاہ روم کے پاس نامہ بھیجا تھا اس کی ابتداء یوں ہوئی تھی۔

من محمد رسول الله هر قل عظیم الروم

اللہ کے رسول محمدکی طرف سے شاہ روم ہر قل کے نام

بعض سورتیں مختصر واقعات اور تحریروں کے اندازپربغیر کسی عنوان کے بھی نازل ہوئی ہیں۔

( إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ ) (۱۲۲)

( قدسمع الله قول التی تجادلک فی زوجها ) (۱۲۲)

( یایها البنی لم تحرم ) (۱۲۴)

اسی طرح اہل عرب کا فصیح ترین کلام قصائد کی شکل میں ہے قصائد میں اصل مقصد سے پہلے تمہید کے طور پر تشبیب لکھی جاتی ہے اور تشبیب میں عجیب و غریب مقامات اورحیرت انگیز اور ہولناک واقعات کاذکر کرنا ان کی بہت پرانی روایت ہے قرآن مجید کی بعض سورتوں میں یہ اسلوب بھی اختیار کیاگیاہے مثلاً

( والصفٰت صفاً فالزاجرات زجرًا ) (۱۲۵)

( والذاریت زروًا فالحاملات وقراً ) (۱۲۶)

( اذالشمس کورت واذا النُّجُوم انکَدَرَتْ ) (۱۲۷)

___________________

۱۲۲۔ المنافقون،۶۳ ۱۲۳۔ المجادلہ:۵۸،۱ ۱۲۴۔ الطلاق:۶۵،۱ ۱۲۵۔ الصٰفّٰت:۲۷،۱،۲ ۱۲۶۔ الذاریات:۱۵،۱،۲

۱۱۴

شاہ ولی اللہ کی مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سورتوں کاآغاز فرمان کی مناسبت سے ہے اور یہ عرب کے اس اسلوب کے عین مطابق ہے جسے وہ اپنی تحریر میں استعمال کرتے تھے۔(۱۲۷)

کسی چیز کا ظاہری حسن ہی اس کی عمدہ خوبی کا پتہ دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کے فواتح بھی اپنی خوبی اور حسن میں بے مثال ہیں اور یہی اس کے اعجاز کی ایک لطیف سی دلیل ہے جب ہم قرآن حکیم کی سورتوں کے فواتح کا جائزہ لیتے ہیں تو عمدہ کلام کی تمام خوبیاں اس میں موجود پاتے ہیںچنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی فواتح السور کے عمدہ اور جامع ہونے پر یوں بحث کرتے ہیں۔

” کلام کے عمدہ ابتداء کی ایک خاص ترین نوع، نوعة الاستہلال نامی بھی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آغاز کلام اس چیز پر شامل ہو جو کہ متکلم فیہ کے مناسب حال ہے اور اس میں باعث سیاق کلام کا اشارہ موجود ہو۔"(۱۲۸)

چنانچہ اس بارے میں سب سے اعلیٰ اور احسن نمونہ سورة الفاتحہ ہے جو کہ قرآن کریم کا مطلع اور اس کے تمام مقاصد پر مشتمل ہے اس کی تفصیل یوں ہے ” خداوند کریم نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں اور ان سب کے علوم چار کتابوں توریت، زبور،انجیل اور قرآن میں ودیعت رکھ دئیےپھر توریت، زبور،اور انجیل کے علوم قرآن میں ودیعت رکھے اور علوم القرآن کو اس حصہ میں مفصل رکھا اور مفصل کے جملہ علوم صرف سورہ فاتحہ میں ودیعت فرما دئیے لہذا جو شخص سورہ فاتحہ کی تفسیر معلوم کرے گا وہ گویاتمام کتب منزلہ کی تفسیر سے واقف ہو جائے گا۔(۱۲۹)

___________________

۱۲۷۔ دیکھیےالنور الکبیر،حوالہ مذکور ص۱۱۵،۱۱۶ ۱۲۸۔ الاتقان:حوالہ مذکور،ج۲،ص۲۹۴ ۱۲۹۔ نفس مصدر

۱۱۵

خواتم سور القرآن:

خواتم کاسہ حرفی مادہ خ،ت،م ہے یہ ثلاثی مجرد سے باب ”ضَرَبَ“ آتا ہے ختم ختماً وختاماً الخاتم بمعنی ہر چیز کا اختتام، خواتم وجمع ہے(۱۳۰) جبکہ ابن منظورلکھتے ہیں۔

خَتَمَ یَخْتَمُ ختماًو ختاماًالاخیر عن الحیاتی والجمع خواتم وخواتیم ویقال ختم فلان القرآن اذا قرء ه الی اخره و خاتم کلی شئیوخاتمه، عاقبة،واخره (۱۳۱)

مذکورہ بحث میں خواتم السور سے مراد سورتوں کا آخری حصہ یااختتام ہے بعض مفسرین اس اصطلاح کو مقاطع السوریامنتہائے سور کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں اس مفہوم کی تائید مندرجہ ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے

من حفظ من خواتیم سورة الکهف (۱۳۲)

اعطی خواتیم سورةالبقرة (۱۳۳)

قال خاتمة سورة البقرة فانها (۱۳۴)

کسی کلام کاآخری حصہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے کسی طرح سے بھی پہلے حصے سے کم نہیں ہوتا دراصل یہ وہ آخری کلمات ہوتے ہیں جو انسانی ذہن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں قرآن حکیم کی سورتوں کا خاتمہ بھی اپنے حسن اورفصاحت و بلاغت کے لحاظ سے کسی اعجاز سے کم نہیںاگر بنظر غائر خواتم السور کا مطالعہ کیا جائے تو سابقہ مضمون کا خلاصہ جامع انداز سے سامنے آتا ہے یہی وجہ ہے علماء مفسرین نے خواتم السور القرآن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے جلال الدین سیوطی رقم طراز ہیں۔

___________________

۱۳۰۔ المنجد،ص۶۵۸ ۱۳۱۔ ابن منظور،لسان العرب،حوالہ مذکور،ج۱۲ص۶۴ ۱۳۲۔ ابو داود ۱۳۳۔ نسائی باب الصلوة،۲۵

۱۳۴۔ دارمی،فضائل القرآن،ص،۱۴

۱۱۶

”یہ بھی فواتح ہی کی طرح حسن وخوبی میں طاق ہیں اس لیے کہ یہ کلام کے وہ مقامات ہیں جو آخر میں گوش زد ہوا کرتے ہیں اور اسی باعث سے یہ سامع کو انتہائے کلام کا علم حاصل کرانے کے ساتھ معانی بدیعہ کے بھی متضمن ہو کر آتے ہیں یہاں تک کہ ان کے سننے سے پھر سے نفس کے بعد میں ذکر کی جانے والی بات کا کوئی شوق باقی نہیں رہتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سورتوں کادعاوں، نصیحتوں،فرائض،تمہید،تہلیل،مواعظ،وعد،وعید اور جامع صفات الہیہ پر ہوا ہے۔(۱۳۵)

مقصود اس اقتباس سے یہ ہے کہ قرآن حکیم کی سورتوں کاخاتمہ اتنے عمدہ کلام پر ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر عمدگی اور حسن کاتصور نہیں کیاجاسکتااس کی حکمت یہ ہے کہ یہ ماسبق کلام کا خلاصہ ہوتے ہیں اور پورے موضوع کو سمیٹ رہے ہوتے ہیں تاکہ انسان تشنگی محسوس نہ کرے اور نہ ہی سوچ سکے کہ اس سے بہتر خاتمہ لایاجاسکتا تھا۔

خواتم السورپر شاہ ولی اللہ کی بحث:

شاہ ولی اللہ کے نزدیک قرآن حکیم کی سورتوں کی مثال شاہی فرمان کی طرح ہے یہی وجہ ہے سورتوں کی ابتداء و انتہاء میں مکاتب کے طریقہ کی رعایت رکھی گئی ہے چنانچہ رقم طرازہیں۔

”جس طرح مکتوبات کو کلمات جامع، وصایائے نادرہ اور احکامات سابقہ کے لیے تائیدات اور اس کی مخالفت کرنے والے کے لئے تہد یدات پر تمام کرتے ہیں ایسے ہی خداوند تعالیٰ نے سورتوں کے آخری حصہ کوکلمات جامع اور حکمت کے سرچشموں سے تائیدات بلیغہ اور تہدیدات عظیمہ پر ختم فرمایا نیز جس طرح بعض مکاتیب کا اختتام کبھی جامع کلمات پر کیا جاتا ہے اور کبھی اچھی اچھی وصیتوں اور نصیحتوں پر، اسی انداز پر کلام مجید میں بھی مختلف سورتوں کو کبھی جوامع کلم اور کبھی احکام کے لواحق پر اور کبھی انتہائی سخت قسم کی تاکید پر تمام کی جاتی ہے۔"(۱۳۶)

___________________

۱۳۵۔ الاتقان فی علوم القرآن، حوالہ مذکورص ۱۳۶۔ الفوز الکبیر فی اصول

۱۱۷

شاہ ولی اللہ کے اسی نقطہ نظر کے پیش نظر سورة البقرة کا خاتمہ نہایت عمدہ دعاوں اور جامع کلمات پر ہوا ہے جو حسن خاتمہ کی ایک دلیل ہے اسی طرح وصایا( لضائح اور ہدایات) کی عمدہ نظیر سورة آل عمران ہے۔

( یاایها الذین امنو اصبروا وصابروا و رابطوا واتقوالله لعلکم تفلحون ) (۱۳۷)

سورة النساء کا خاتمہ فواتح کی طرح احکام کی تاکید اور صفات الہیہ پر ہوا ہے اسی طرح سورة یوسف کے خاتمے میں قرآن حکیم کی جامع صفات اور اس میں مذکور واقعہ کی حکمت و موعظمت بیان ہوئی ہیں فواتح وخواتم میں ربط کی چند مثالیں:

اگر سورة الانعام کے فاتحہ و خاتمہ پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس میں صفات الہیہ کا اتباع کیاگیا ہے۔ آغاز اس آیت سے ہوتا ہے :

( اَلْحَمْدُلِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرِبِّهْم یَعْدِلُوْنَ ) (۱۳۸)

سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیرا اوراجالا بنایا پھربھی یہ کافر اوروں کو اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔ سورة الانعام کی مذکورہ ابتدائی آیت میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء تخلیق ارض و سماء اور نور ظلمات کا ذکرہے ساتھ ہی شرک کا ردبھی کر دیاگیاہے۔ جبکہ خاتمہ ان جملوں پر کیا گیا ہے۔

( وَهُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مآ اٰتٰکُمْ اَنَّ رَبَّکَ سَرِ یْعُ الْعِقٰابِ وَاِنَّه لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ ) (۱۳۹)

اور وہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین پر اپنا نائب بنایا اور تم میں سے بعض کے بعض پر درجے بلند کردیئے تاکہ تمہیں اپنے دیئے ہوئے حکموں میں آزما لے بے شک تیرا رب جلدی عذاب دینے والا ہے اور بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔

___________________

۱۳۷۔ آلِ عمران:۳،۲۰۰ ۱۳۸۔ الانعام:۶،۱ التفسیر،حوالہ مذکور،ص۱۱۴،۱۱۶ -- ۱۳۹۔ الانعام۶،۲۶۵

۱۱۸

اس آیت میں انسان کی زمین پر حیثیت، آزمائش،سرعت عذاب اور اسکی رحمت و مغفرت کا ذکر ہے۔ اگر مذکورہ سورة کے فاتح وخاتم پر غور کریں تو اس میں ایک خاص معنوی ربط نظر آئے گا مثلاً سورة کا آغاز تحمید سے کیاگیا اور خاتمہ مغفرت ورحمت پر ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے تو وہی مغفرت و رحمت کا سزاوار بھی ہوتا ہے اسی وجہ سے تحمید کو مقدم کیاگیا۔ پھر تخلیق ارض وسماء کا ذکر کرنے کے بعد ضرورت تھی کہ اس کارخانہ عالم کوکوئی چلائےتو اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کو زمین میں اپنا نائب بنایاپھر جب نیابت سے نوازا تو اللہ تعالیٰ کی آزمائش کی اس گھڑی میں کافر لوگ ناکام ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے مطیع کامیاب جو لوگ اس کے بعد بھی خدا کو ماننے اور جاننے میں ہٹ دھرمی سے کام لے رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے سریع الحساب ہے اور جو صحیح حق خلافت کو اداکر رہے ہیں تو ان کے لیے غفور رحیم ہے۔

اثبات آخرت یا تذکر بما بعد الموت کی حامل سورة الواقعہ پر غور کریں اس میں بھی ایک ربط نظر آتا ہے جس کا آغاز یوں ہوتاہے۔( إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ ) (۱۴۰)

جب ہوجائے گی ہونے والی اس وقت اس کے ہونے میں کسی کو انکار کی گنجائش نہ ہوگی۔

سورة کی ابتداء میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس سے مراد قیامت ہےفرمایا کہ یہ امرشدنی ہے یہ آکر رہے گی اور تم کسی طرح بھی اس سے بھاگ نہ سکو گے نیز اگر تم اس وہم میں مبتلا ہو کہ تم کو جھوٹ موٹ ایک ہونے سے ڈرایا جارہا ہے تو اس میں جھوٹ کا ادنیٰ شائبہ بھی نہیں۔

سورة کی آخری آیت ہے:( ان هذا لهم الحق المبین فسبح باسم ربک العظیم ) (۱۴۱)

بے شک یہ تحقیقی یقینی بات ہے پس اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو بڑاعظمت والا ہے۔

___________________

۱۴۰۔ الواقعہ:۵۶،۱،۲ ۱۴۱۔ الواقعہ:۵۶،۹۵،۵۶

۱۱۹

اس آیت میں بالواسطہ طور پر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے اور تلقین اور استقامت ہے کہ جوباتیں اوپر بیان ہوئی ہیں سب یقینی حقائق ہیں ان میں کسی شبہ گنجائش نہیں ہے البتہ تمہاری قوم کے لوگ نہیں مان رہے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور اپنے رب عظیم کی تسبیح بیان کرومذکورہ سورة کے فاتحہ وخاتمہ سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں میں ربط موجود ہے شروع میں فرمایا کہ یہ ایک حقیقت ہے اور واقع ہونے والی ہے اس کے آنے میں تحلفہ نہیں ہو گاجبکہ آخرمیں فرمایا کہ یہ حق الیقین ہے اس میں بھی کسی شائبہ کی گنجائش نہیں دونوں میں اس واقعہ کے لازمی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ جب قیامت امرشدنی ہے تو اپنے رب عظیم کی تسبیح پڑھو کہ وہ ظلم سے پاک ہے اس دن ہر شخض کو اس کے اعمال کے مطابق سزا دیتا ہے۔(۱۴۲) احکام کے سلسلے میں سورة العنکبوت ہے جس کے آغاز میں جہادکا حکم ہے :

( الٓمٓ اَحَسِبَ النّٰاسُ اَنْ یُتْرَکُوا اَنْ یَّقُولُوْا اٰمَنَّا وَهُمْ لاّٰ یُفْتَنُون ) (۱۴۳)

(الم کیالوگ خیال کرتے ہیں یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔

اس آیت میں واضح طور پر اس امر کی طر ف اشارہ ہے امت محمدیہ کی آزمائش جہاد سے ہو گی۔ آخری آیت میں ہے۔

( والذین جاهدو افینا لنهدینهم سبلنا وان الله لمع المحسنین ) (۱۴۴)

اور جنہوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے اور بے شک اللہ نیک کاروں کے ساتھ ہے۔ اس آیت میں واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کے لئے اجر کا اعلان ہے اورساتھ ہی یہ بشارت بھی کہ مجاہدین کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہو گیمذکورہ سورة میں جس مضمون سے سورة کا آغاز کیاتھا اس پر خاتمہ فرمایا شروع میں یہ واضح کیا گیا تھاکہ اہل ایمان کی آزمائش لازمی ہے اور ایماندار اس امتحان میں سرخرو ہوں گے تو ان کے دو اجر ہیں اول ان کے لیے دنیامیں راستے آسان ہو ں گے دوسرے آخرت میں معیت الہی نصیب ہو گی۔

___________________

۱۴۲۔ اصلاحی،امین احسن،تدبر قرآن،مرکز انجمن خدام القرآن لاہور،۱۹۷۳،ج۷،ص۱۸۸ ۱۴۳ ۔ العنکبوت:۲۹،۱،۲ - ۱۴۴ ۔ العنکبوت:۲۹،۹۶

۱۲۰