علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن0%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مختلف دانشور
زمرہ جات: صفحے: 263
مشاہدے: 130450
ڈاؤنلوڈ: 6253

تبصرے:

علوم ومعارف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130450 / ڈاؤنلوڈ: 6253
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

لها حارس یبرح الدحر بیتها

وان ذا بحت صلی علیها وزمزما

یہ شعر بھی اعشیٰ سے منقول ہے۔

واقابلها الریح فی دنها

وصلی علی دنها وارتسم

ان اشعار میں (صلوٰة) کا لفظ دعا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز پر ہے۔ یہ رکوع وسجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ سرانجام دےئے جاتے ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ نماز کو صلوٰة اس لیے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف آتی ہیں، انہیں عربی میں ”صَلَوین“ کہتے ہیں۔ چونکہ نماز میں یہ ملتی ہیں۔ اس لیے نماز کو صلوٰة کہا گیا ہے، لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ ماخوذ ہے ”صَلّٰی“ سے، جس کے معنی ہیں چپک جانا اور لازم ہو جانا، جیسا کہ قرآن میں ہے” لایصلاها“ یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کیلئے اسے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب تَصِلیَہ کہتے ہیں۔ چونکہ نمازی بھی اپنے نفس کی کجی اور ٹیڑھ پن کو نماز سے درست کرتا ہے، اس لیے اسے صلوٰة کہتے ہیں جیسے قرآن میں ہے :

( إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنکَرِ وَلَذِکْرُ اللَّهِ أَکْبَرُ ) نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر ہی بڑا ہے۔ لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح ہے اور زیادہ مشہور ہے۔( والله اعلم ) (۴۰) ابن کثیر مترادفات پر بھی خوبصورت انداز میں بحث کرتے ہیں۔

__________________

۴۰۔ ایضاً،۱/۴۲۔ ۴۳

۲۰۱

قرآن مجید میں قلیل اورتھوڑی مقدار کیلئے بطور تمیثل نقیر، فتیل اور قطمیر کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ موصوف سورة نساء کی آیت۱۲۴:

( وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا )

کے تحت مذکورالفاظ کی تشریح کرتے ہیں: ”کھجور کی گٹھلی کی پشت پر جوذرا سی جھلی ہوتی ہے، اسے نقیر کہتے ہیں۔ گٹھلی کے درمیان جو ہلکا سا چھلکا ہوتا ہے۔ اس کو فتیل کہتے ہیں۔ یہ دونوں کھجور کے بیج میں ہوتے ہیں اور بیج کے اوپر کے لفافے کو قطمیر کہتے ہیں اور یہ تینوں لفظ اس موقع پر قرآن میں آئے ہیں۔"(۴۱)

ناسخ و منسوخ:

ناسخ و منسوخ کی شناخت فن تفسیر میں نہایت اہم ہے۔ اس علم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کون سی آیت محکم ہے اور کون سی متشابہ۔ مفسر قرآن کیلئے اس علم میں مہارت نہایت ضروری ہے تاکہ وہ صحیح معنوں میں احکامات و مسائل کی توضیح و تشریح کر سکے۔ ابن کثیر اس علم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ وہ ناسخ و منسوخ آیات کی وضاحت، ان کے بارے میں مفسرین اور فقہاء کی اختلافی آراء اور جمہور کی تائید میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً( وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ) (سورةالبقرة: ۲۴۰) کے متعلق اکثر صحابہ و تابعین سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت چار مہینے دس دن والی عدت کی آیت یعنی( وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ ) (البقرة : ۲۳۴)

سے منسوخ ہو چکی ہے۔(۴۲)

____________________

۴۱۔ ایضاً، ۱/۵۵۹ ۴۲۔ ایضاً، ۱/۲۹۴

۲۰۲

( انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (التوبہ: ۴۱)

کے تحت لکھتے ہیں کہ اس آیت میں غزوہ تبوک کیلئے تمام مسلمانوں کو ہر حال میں نبی کے ہمراہ جانے کا حکم دیا گیا ہے، خواہ کوئی آسانی محسوس کرے یا تنگی، بڑھاپے کی حالت میں ہو یا بیماری کا عذر۔ لوگوں پر یہ حکم گراں گزرا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے آیت

( لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّـهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) (التوبہ: ۹۱)

سے منسوخ کر دیا۔ یعنی ضعیفوں، بیماروں اور تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو، اگر وہ دین خدا اور شریعت مصطفی کے حامی، طرف دار اور خیر خواہ ہوں تو میدان جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں۔(۴۳)

تلخیص کلام:

ابن کثیر کے انداز تحریر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ و ہ کسی آیت کی تفسیر میں جامع بحث اور تبصرہ کے بعد اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہیں اور اخذ کردہ نتائج کو سامنے لاتے ہیں، مثلاً آیت (فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ) (سورةالبقرة: ۱۸۴) کے متعلق احادیث و اقوال کی روشنی میں طویل گفتگو کے بعد اس کا لب لباب تحریر کیا ہے۔(۴۴) آیت( قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ) (سورةالاعراف: ۳۳)

کے تحت تشریح و توضیح کے بعد لکھتے ہیں :

___________________

۴۳۔ ایضاً،۲/۳۵۹ ۴۴۔ ایضاً۱/۲۱۵

۲۰۳

”حاصل بحث تفسیر یہ ہے کہ ”اثم“ وہ خطایات ہیں جو فاعل کی اپنی ذات سے متعلق ہیں اور ”بغی“ وہ تعدی ہے جو لوگوں تک متجاوز ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونون چیزوں کو حرام فرمایا ہے۔"(۴۵)

خصوصیات:

تفسیر ابن کثیر کی چند نمایاں خصوصیات جو دوسری تفاسیرسے اسے ممتاز کرتی ہیں۔

اسرائیلیات:

منقولی تفاسیر کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ ان میں اسرائیلی خرافات کثرت سے نقل کی گئی ہیں۔ ایسی روایات کے بارے میں ابن کثیر اپنا نقطہ نظر ”تفسیر القرآن العظیم“ میں یوں بیان کرتے ہیں:

”ہمارا مسلک یہ ہے کہ اس تفسیر میں اسرائیلی روایات سے احتراز کیا جائے۔ ان میں پڑنا وقت کا ضیاع ہے۔ اس قسم کی اکثر روایتوں میں جھوٹ بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس امت کے ائمہ فن اور نقاد ان حدیث کی طرح اہل کتاب نے صحیح و سقیم میں تفریق نہیں کی۔"(۴۶)

اگرچہ تفسیر ابن کثیر بھی اسرائیلیات سے خالی نہیں ہے تاہم اس کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مولف اسرائیلی واقعات محض استشھاد کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ جن پر اجمالاً اور بعض اوقات تفصیلاً نقد و جرح کرتے ہیں، مثلاً سورة البقرة کی آیت ۶۷( إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً ) کی تفسیر کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی گائے کا طویل قصہ ذکر کیا ہے۔ پھر اس میں سلف سے منقول روایات تحریر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔

___________________

۴۵۔ ایضاً،۲/۲۱۱

۲۰۴

”ابو عبیدہ، ابو العالیہ اور سدی سے جو روایات منقول ہیں،ان میں اختلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ روایات بنی اسرائیل کی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ بلاشبہ ان کو نقل کرنا درست ہے مگر ان کی تصدیق و تکذیب نہیں کی جاسکتی، لہذا ان پر اعتماد کرنا درست نہیں ماسوا اس روایت کے جو اسلامی حقائق کے مطابق ہو“(۴۷)

اسی طرح سورة انبیاء کی آیت۵۱

( وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ )

کے تحت تحریر کرتے ہیں۔

”یہ جو قصے مشہور ہیں کہ حضرت ابراہیم کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی ان کی والدہ نے انہیں ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے وہ مدتوں بعد باہر نکلے اور مخلوقات خدا پر خصوصاً چاند تاروں پر نظر ڈال کرخدا کو پہچانا۔ یہ سب بنی اسرائیل کے افسانے ہیں۔ ان میں سے جو واقعہ کتاب و سنت کے مطابق ہو وہ سچا اور قابل قبول ہے اس لیے کہ وہ صحت کے مطابق ہے او رجو خلاف ہو وہ مردود اورنا قابل قبول ہے اور جسکی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو، مخالفت و موافقت کچھ نہ ہو، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے، لیکن نہ تو ہم اسے سچا کہہ سکتے ہیں نہ غلط۔ ان (اسرائیلیات) میں سے اکثر واقعات ایسے ہیں جو ہمارے لیے کچھ سند نہیں اور نہ ہی ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری جامع، نافع، کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کو تاہی نہ کرتی۔"(۴۸)

____________________

۴۶۔ ایضاً،۳/۱۸۱۔ ۱۸۲

۴۷۔ ایضاً، ۱/۱۱۰

۴۸۔ ایضاً، ۳/۱۸۱

۲۰۵

زیر بحث تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن کثیر اسرائیلیات کے بارے میں اپنے موقف اور نظریہ پر مکمل طور پر کاربند نہ رہ سکے اور تساہل و تسامح اختیار کرتے ہوئے بعض ایسی روایات بھی بیان کی ہیں جن کو فی الواقع خود ان کے اصول کے مطابق اس تفسیر میں شامل نہیں کرنا چاہیے تھا، مثلاً( واتخذ الله ابراهیم خلیلاً ) (النساء : ۱۲۵) کے متعلق ابن جریر کے حوالے سے ایک اسرائیلی روایت ذکر کی ہے جس کی حقیقت داستان سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

”بعض کہتے ہیں کہ ابراہیم کو خلیل اللہ کا لقب اس لیے ملاکہ ایک دفعہ قحط سالی کے موقع پر آپ اپنے دوست کے پاس مصر یا موصل گئے تاکہ وہاں سے کچھ اناج وغیرہ لے آئیں، لیکن یہاں کچھ نہ ملا اور خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ جب آپ واپس اپنی بستی کے قریب پہنچے تو خیال آیا کہ ریت کے تودے میں سے اپنی بوریاں بھر کر لے چلوں تاکہ گھروالوں کو قدرے تسکین ہو جائے، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور ریت سے بھری بوریاں جانوروں پر لاد کر لے چلے۔ قدرت خداوندی سے وہ ریت سچ مچ آٹا بن گیا۔ آپ تو گھر پہنچ کر لیٹ گئے، تھکے ہارے تھے، آنکھ لگ گئی۔ گھر والوں نے بوریاں کھولیں اور انہیں بہترین آٹے سے بھر ا ہوا پایا، آٹا گوندھا اور روٹیاں پکائیں جب یہ جاگے اور گھر میں سب کو خوش پایا اور روٹیاں بھی تیار دیکھیں تو تعجب سے پوچھنے لگے آٹا کہاں سے آیا ہے جس سے روٹیاں پکائیں؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہی تو اپنے دوست کے ہاں سے لائے ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے اور فرمایا، ہاں! یہ میں اپنے دوست اللہ عزوجل سے لایا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو اپنا دوست بنا لیا اور آپ کا نام خلیل اللہ رکھ دیا۔"(۴۹) اسی طرح

( وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ) (سورةالانبیاء: ۸۳)

کے تحت بعض ایسی روایات نقل کی ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں۔(۵۰)

____________________

۴۹۔ ایضاً،۱/۵۵۹۔ ۵۶۰ ۵۰۔ ایضاً،۳/۱۸۸،۱۸۹۔

۲۰۶

( وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً ) (سورةالانبیا: ۸۴)

کی تفسیر میں ایک روایت تحریر ہے کہ حضرت ایوب کی بیوی کا نام رحمت ہے۔(۵۱)

ابن کثیر اس قسم کی روایات میں یہ انداز اختیار کرتے ہیں کہ ان کی تصدیق یا تکذیب کیے بغیر واللہ اعلم کہہ کر ان پر نقدو تبصرے سے گریز کرتے ہیں۔

غیر ضروری مسائل کی تحقیق و تجسّس سے احتراز:

کتب تفسیر کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ ان میں غیر ضروری اور بے سود باتوں کی تحقیق بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے جو قرآن کے مقصد تذکیر و استدلال کے بالکل خلاف ہے۔ ابن کثیر نے ایسے مسائل کی تحقیق و جستجو کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اپنی تفسیر میں غیر ضروری اور غیر اہم مباحث سے حتیٰ الامکان پر ہیز کیا ہے، مثلاً”فخذاربعة من الطیر“ (سورةالبقرة : ۲۶۰) کے متعلق لکھتے ہیں: ”ان چاروں پرندوں کی تعیین میں مفسرین کا اختلاف ہے، حالانکہ ان کی تعیین بے سود اور غیر ضروری ہے۔ اگر یہ کوئی اہم بات ہوتی تو قرآن ضرور اسکی تصریح کرتا۔"(۵۲)

وسیع معلومات:

ابن کثیر نے تفسیر قرآن مرتب کرنے کیلئے ہر اس حدیث اور اثر کو اکٹھا کیاجو اس میدان میں ممکن تھی۔ قاری اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف احادیث و روایات کے وافر ذخیر ے سے مستفیض ہوتا ہے بلکہ اسے تفسیر، فقہ و کلام اور تاریخ و سیرت کی وسیع اور مستند معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں۔

___________________

۵۱۔ ایضاً،۳/۱۹۰۔ ۵۲۔ ایضاً،۱/۳۱۵۔

۲۰۷

عدم تکرار:

ابن کثیر کی تفسیر میں تکرار نہیں پایا جاتا ماسوا ان بعض روایات کے جو انہوں نے مقدمہ کی بحث میں نقل کی ہیں۔ وہ کسی آیت کی تفسیر و تشریح کو دہرانے کی بجائے اس کا اجمالاً ذکر کرتے ہیں اور اس کی قبل ازیں تفسیر کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں، مثلاً موصوف حروف مقطعات پر شرح و بسط کے ساتھ سورة بقرہ کی تفسیر میں بحث کر چکے ہیں، اس لیے بعد میں جن سورتوں میں یہ حروف آئے ہیں، ان کو زیر وضاحت نہیں لاتے مثلاً( مرج البحرین یلتقیٰن ) (سورةالرحمن: ۱۹) کے متعلق لکھتے ہیں:

”ہم اس کی پوری تشریح سورة فرقان کی آیت( وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَـٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَـٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا ) کی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں۔"(۵۳)

ماثوردعاؤں کا بیان:

”تفسیر ابن کثیر“ میں موقع و محل کے مطابق آنحضور اور صحابہ کرام کے معمول کی بعض دعاؤں کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً رسول کریم تہجد کے وقت جو دعائیں پڑھتے تھے، ان کو نقل کیا گیا ہے۔(۵۴) ۔ سنن ابن ماجہ کے حوالے سے روزہ افطار کے وقت صحابہ کرام کی یہ دعا ذکر کی گئی ہے:

”اللهم انی اسئالک برحمتک التی وسعت کل شئی ان تغفرلی“ (۵۵)

حضرت ابوبکر کے سوال پر نبی کریم نے شرک سے بچنے کی یہ دعا سکھائی

”اللهم انی اعوذبک انی اشرک بک وانا اعلم واستغفرک ممالا اعلم“ (۵۶)

____________________

۵۳۔ ایضاً، ۴/۲۷۲۔ ۵۴۔ ایضاً،۱/۲۵۰۔ ۲۵۱ ۵۵۔ ایضاً،۱/۲۱۹۔ ۵۶۔ ایضاً،۲/۴۹۵

۲۰۸

قصص و احکام کے اسرار:

”تفسیر ابن کثیر" کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں واقعات اور احکام کے اسرار و رموز بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسلوب مصنف نے امام فخر الدین رازی کی پیروی میں اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ابن کثیر نے مختلف واقعات اور قصص کو بحث و تحقیق کا موضوع بنایا ہے اور حقائق تک پہنچنے کی سعی کی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کے احکام کو بھی انہوں نے دقت نظر سے لکھا ہے، مثلاً سورة فاتحہ کے تمام مطالب کی حکیمانہ تشریح کی ہے اور پھر لکھتے ہیں: ”یہ مبارک سورة نہایت کارآمد مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کی بزرگی، اس کی ثناء و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں کا اور اس کی بلندو بالا صفتوں کا بیان ہے۔ اس سورة میں قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ وہ صرف اسی سے سوال کریں، اس کی طرف تضرع وزاری کریں، اپنی مسکینی و بے کسی کا اقرار کریں، اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اس کی توحید والوہیت کا اقرار کریں اور اسے شریک، نظیر اور مثل سے پاک اور برتر جانیں، صراط مستقیم کی اور اس پر ثابت قدمی کی اس سے مدد طلب کریں۔ یہی ہدایت انہیں قیامت کے دن پل صراط سے بھی پار پہنچا دے گی اور نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے قرب میں جنت الفردوس میں جگہ دلوائے گی۔ یہ سورة نیک اعمال کی ترغیب پر بھی مشتمل ہے تاکہ قیامت کے دن نیک لوگوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے خوف دلایا گیا ہے تاکہ قیامت کے دن ان کی جماعتوں سے دوری ہو۔"(۵۷) ( ویقمیون الصلوٰة وممارزقنٰهم ینفقون ) (سورةالبقرة: ۳) کے تحت لکھتے ہیں ”قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلاملتا ہے، اس لیے نماز خدا کا حق ہے اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ پس تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰة اس میں شامل ہے۔"(۵۸)

___________________

۵۷۔ ایضاً،۱/۳۰ ۵۸۔ ایضاً،۱/۴۲نیز ملاحظہ کیجئے ۲/۲۸۶

۲۰۹

سورة ھود کی آیت ۹۴

( واخذت الذین ظلموا الصیحة )

کے سلسلے میں کہتے ہیں ” یہاں صیحہ اعراف میں رجفہ اور سورة شعراء میں”عذاب یوم الظلة“ کا ذکر ہے، حالانکہ یہ ایک ہی قوم کے عذاب کا تذکرہ ہے، لیکن ہر مقام پر اس لفظ کو لایا گیا ہے جس کا موقع کلام متقاضی تھا۔ سورة اعراف میں حضرت شعیب کو قوم نے بستی سے نکالنے کی دھمکی دی تھی، اس لیے رجفہ کہنا مناسب تھا، یہاں چونکہ پیغمبر سے ان کی بدتمیزی اور گستاخی کا ذکر تھا، اس لیے صیحہ کا لفظ لا یا گیا ہے اور سورةالشعراء میں انہوں نے بادل کا ٹکڑا آسمان سے اتارنے کا مطالبہ کیا تھا، اس لیے وہاں

( فاخذهم عذاب یوم الظلة )

کہا گیا اور یہ سب اسراردقیقہ ہیں۔"(۵۹) حیرانگی کی بات ہے کہ یہی اسلوب بعد میں علامہ محمود آلوسی نے اپنایا ہے۔

مصادر مراجع کی نشاندہی:

امام ابن کثیر آیات کی تفسیر کرتے ہوئے بوقت ضرورت اضافی معلومات اور اختلافی نکات کو نمایاں کرنے کیلئے اکثر مولفین کے نام اور بعض اوقات ان کی کتابوں کے حوالے دیتے جاتے ہیں، جن کو تصنیف ممدوح میں مرجع بنایا گیا ہے، اس طریقہ کار کے ضمنی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ محققین کیلئے ان مصادر سے براہ راست مستفیض ہونے کی سہولت ہو گئی، دوسرا یہ کہ سابقہ مولفین کی بیش قیمت آراء اور ان کی بہت سی ایسی کتابیں جواب نایاب ہیں، ان کے نام اور اقتباسات کے نمونے بھی محفوظ ہو گئے۔

____________________

۵۹۔ ایضاً، ۲/۴۵۸

۲۱۰

تفسیر ابن کثیر کی قدرومنزلت:

مورخین اور اصحابِ نظر اس تفسیر کی تعریف اور توصیف میں رطب اللسان ہیں۔

امام سیوطی کی رائے ہے کہ ”اس طرز پر اب تک اس سے اچھی کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔"(۶۰)

صاحب”البدرالطالع“ فرماتے ہیں: ”ابن کثیر نے اس میں بہت سا مواد جمع کر دیا ہے۔ انہوں نے مختلف مذاہب و مسالک کا نقطہ نظر اور اخبارو آثار کا ذخیرہ نقل کر کے ان پر عمدہ بحث کی ہے۔ یہ سب سے بہترین تفسیرنہ سہی لیکن عمدہ تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔"(۶۱) ابوالمحاسن الحسینی کا بیان ہے: ”روایات کے نقطہ نظر سے یہ سب سے مفید کتاب ہے کیونکہ (ابن کثیر) اس میں اکثر روایات کی اسناد پر جرح و تعدیل سے کلام کرتے ہیں اور عام روایت نقل کرنے والے مفسرین کی طرح وہ مرسل روایتیں نہیں ذکر کرتے۔"(۶۲) علامہ احمد محمد شاکر لکھتے ہیں: ”امام المفسیرین ابو جعفر الطبری کی تفسیر کے بعد ہم نے عمدگی اور گہرائی میں (تفسیر ابن کثیر کو) سب سے بہتر پایا ہے اور ہم نہ تو ان دونوں کے درمیان اور نہ ہی ان کے بعد کی کسی تفسیر سے موازنہ کر سکتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نے ان دونوں جیسی کوئی تفسیر نہیں دیکھی اور نہ کوئی تفسیر ان کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ علماء کے نزدیک یہ تفسیر، حدیث کے طالب علموں کیلئے اسانید و متون کی معرفت اور نقد و جرح میں بہت معاون ہے۔ اس لحاظ سے ایک عظیم علمی کتاب ہے اور اس کے بہت فوائد ہیں۔(۶۳)

____________________

۶۰۔ السیوطی، ذیل طبقات الحفاظ، صفحہ ۳۶۱۔

۶۱ الشوکانی، محمد بن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القران السابع، ۱/۱۵۳ مطبعة السعادة القاهرة الطبعة الاولیٰ، ۱۳۴۸ه

۶۲۔ الحسینی، ذیل تذکرہّ الحفاظ، صفحہ ۵۸۔ ۵۹

۶۳۔ احمد محمد شاکر، عمدة التفسیر، ۱/۶

۲۱۱

انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا ”تفسیر ابن کثیر“ کے بارے میں یہ بیان ہے:

”ابن کثیر کی تفسیر بنیادی لحاظ سے فقہ اللغتہ کی کتاب ہے اور یہ اپنے اسلوب کے لحاظ سے اولین کتب میں شمار ہوتی ہے۔ بعد میں سیوطی نے جو کام کیا، اس پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔"(۶۴)

خلاصہ کلام یہ کہ ابن کثیر ان تمام علوم وشرائط پر حاوی نظرآتے ہیں جن کا جاننا ایک مفسر کیلئے ضروری ہے۔ انہوں نے تحقیق اور دقت نظری سے ”تفسیر قرآن“ کو مرتب کیا ہے جو قیمتی معلومات کا گنجینہ اور نہایت گراں بہا تفسیری ورثہ ہے۔ اگرچہ ابن کثیر کے توسع کی بناء پر اس کتاب میں بعض مقامات پر اعلیٰ اور بلند محدثانہ معیار خاطر خواہ قائم نہیں رہ سکا ہے، تاہم اہل نظر کو اعتراف ہے کہ محدثانہ نقطہ نظر سے یہ سب سے زیادہ قابل اعتماد تفسیر ہے۔ کتب تفسیر بالماثور میں اس کو امتیازی مقام حاصل ہے اور متاخرین نے ایک بنیادی مصدر کی حیثیت سے اس سے خوب استفادہ کیا ہے۔ جو شخص قرآن حکیم کے مطالب و معانی اور اسرار ورموز سے آگاہ ہونا چاہتا ہے وہ تفسیر ابن کثیر سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

____________________

۶۴. H. La(ust Article: Ibn Kathir, the encycl(paedia (f Islam ,

V(l-۱۱۱ , P.۸۱۸. Leiden , E.J.Brill, ۱۹۹۷

۲۱۲

تعارف تفسیر

اصول تفسیر قسط ۲

آیت اللہ محمد فاضل لنکرانی

ظواہرقرآن کریم کے حجیت کے منکرین کے دلائل کا سلسلہ جاری ہے گذشتہ گفتگو میں دو دلیلین ذکر ہو چکی ہیں۔

دلیل سوئم :

قرآن کریم ایسے بلند ترین معانی، عمیق ترین مطالب، گوناگوں علوم اور بے پایاں اغراض پر مشتمل ہے کہ بشری ازھان ان تک، پہنچنے سے قاصر اور ان کے ادراک سے عاجز ہیں وہ کیوں نہ عاجز ہوں جبکہ بشری ازھان وافہام تو نہج البلاغہ کے تمام معانی و مطالب کے کما حقہ ادراک سے بھی قاصر ہیں کہ جو ایک کامل انسان اوربشرکا کلام ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے علمائے متقدمین میں سے بعض کی ایسی کتابیں بھی موجود ہیں۔ جنہیں چند ایک ماہرین کے علاو ہ عام علماء بھی مکمل طور پر سمجھنے سے عاجز ہیں جب ایسا ہے تو وہ کتاب عظیم جسے جبرئیل روح الامین سید المرسلین کے پاس لایا جس میں اولین و آخرین کا علم ہے اور جو رب العالمین کے طرف سے نازل کردہ ہے عام انسان کیونکر اسے سمجھنے پر قادر ہو سکتاہے درود و سلام ہو ہمارے نبی اور آپ کی پاک آل پر جب تک زمانہ باقی اور زمین و آسمان قائم ہیں۔

جواب:

یہ یقیناایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قرآن مجید ایسے معانی و مطالب اور علوم و معارف پر مشتمل ہے کہ ان کی کمال معرفت فقط اوصیاء نبی اکرم ہی کا خاصہ ہے مگر یہ بات اس سے مانع نہیں کہ قرآن کے ظاہری معنی عام لوگوں کے لئے حجت ہوں اور وہ انہیں اپنی حد تک سمجھ سکتے ہوں جب کہ ہمارے ہاں محل بحث یہی نکتہ ہے لہذا آپ کی دلیل اپ کے دعویٰ کے مطابق نہیں۔ دلیل چہارم کے بعد خود دیکھ لیجئے کہ دلیل آپ کے دعویٰ کے مطابق نہیں ہے۔

۲۱۳

دلیل چہارم:

ہمیں علم اجمالی حاصل ہے اس بات کا کہ قرآن مجید کے عمومات اور اطلاقات کیلئے کثیر تعداد میں مخصصات اور مقیدات احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہم اس امر کا علم اجمالی بھی رکھتے ہیں کہ فصیح عربی زبان کا ایک ماہر شخص جو بظاہرآیات قرآن کے معانی سمجھتا اور یہ خیال کرتا ہے کہ ان سے یہی معانی مراد ہیں۔ ۔ ۔ حقیقت میں قطعاً وہ مرادِ خدا نہیں ہیں جب اس علم اجمالی کو فرض کرنے کی صورت میں عمومات، اطلاقات اور معانی ظاہر یہ یقینی طور پر مراد نہ لیا جا سکے تو اس علم اجمالی کے تقاضے پر عمل کرتے ہوئے ہم پر لازم ہے کہ ان عمومات اطلاقات اور ظواہر میں سے کسی پر بھی عمل نہ کریں، تاکہ واقع کی مخالفت کا ارتکاب کرنے سے محفوظ رہ سکیں کیونکہ ایسے مقامات میں علم اجمالی کا ضابطہ اور تحقیق کے مطابق اس کا حکم یہی ہے کہ علم اجمالی شرعی تکلیف کا موجب ہوتا ہے اور اس کے ہوتے ہوئے ایسا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے جس سے واقع کی مخالفت لازم نہ آئے۔ ۔ ۔ یعنی احتیاط پر عمل کرنا پڑتا ہے۔

جواب:

۱۔ جواب نقضی یوں دیا جاسکتا ہے کہ جو بات آپ نے آیات کے حوالے سے کی۔ ۔ ۔ وہی بات روایات کے حوالے سے بھی کی جا سکتی ہے کیونکہ واضح ہے کہ روایات میں وارد شدہ عمومات و اطلاقات کے بارے میں ہمیں علم اجمالی خاص ہے کہ ان کے بھی کثیر تعداد میں مخصصات اور مقیدات دوسری روایات میں وارد ہوئے ہیں۔ لہذا اس علم اجمالی کے مقتضیٰ پر عمل کرتے ہوئے ضروری ہے کہ ان روایات کے عمومات و اطلاقات کے ظواہر کو حجیت سے خارج کر لیا جائے اور کہا جائے کہ یہ عمومات اور اطلاقات حجت نہیں میں حالانکہ خود مدعی اس کا قائل نہیں اور وہ ان کو حجت مانے ہوئے ہے، اسی لئے تو ان کے ذریعہ آیات کے عمومات کی تخصیص اور اطلاقات کی تقیید کے علاوہ احتیاط پر عمل کر رہا ہے۔

۲۔ سابقہ جواب نقضی کے بعد جواب حلی یہ ہے کہ اس حقیقت سے بالکل انکار نہیں کیا جاسکتا اور بلاشک یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ہمیں مخصصات اور مقیدات کے وجود کا علم اجمالی حاصل ہے۔

۲۱۴

روایات میں بکثرت مخصص، مقید اور خلافِ ظاہر مراد ہونے کے قرائن موجود ہیں۔ اگر ہم انہیں تلاش کرنے کی کوشش کریں توحتماً انہیں پا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ہم کسی ظاہری معنی کے خلاف قرینہ تلاش کریں اور بڑی جستجو کے بعد اور کامل تبتع کے باوجود بھی ہم کسی خلافِ ظاہر قرنیہ کو پا لینے میں کامیاب نہ ہو سکیں تو بھی ہم اس کلام کو اپنے ظاہر ی معنی پر حمل نہیں کر سکتے۔ ایسا ہر گز نہیں۔ بلکہ اب ہمیں حق حاصل ہو جاتا ہے کہ اس ظاہر معنی کو حجت قراردیں اور اس کے مطابق عمل کریں، کیونکہ اب علم اجمالی اس کلام کی حد تک ختم ہو چکا ہے اور اس کے تقاضے پر عمل کرنا ضروری نہیں رہا۔ یاد رہے کہ ہماری بحث بھی انہیں ظواہر کی حجیت کے بارے میں ہو رہی ہے جن کے خلاف کامل جستجو کے باوجود قرینہ میسر نہ آئے۔

اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا علم اجمالی ان مخصصات و مقیدات کے مطلقاً وارد ہونے سے بایں معنی متعلق ہے کہ ہماری معلومات کا دائرہ روایات میں واقع ان امور سے بھی زیادہ وسیع ہے پھر تو ہم اس قسم کے علم اجمالی کے وجود سے انکاری ہیں، کیونکہ پہلی قسم کے علم اجمالی کا وجود تو تسلیم شدہ ہے اور وہ ظواہر کی حجیت کے منافی بھی نہیں، مگر اس دوسری قسم کے علم اجمالی کا وجود مسلّم نہیں ہے۔

دلیل پنجم:

قرآن مجید متشابہ بات پر عمل کرنے سے منع فرماتا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

( مِنهُ اٰیَاتُ مُّحکَمَاتُ ُهنَّ اُمُّ الکَتاِبِ وَاُخَرُ مُتَشَابِهَاتُ فَاَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهم زَیغُ‘ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشاَبَهَ مِنهُ ابتِغَآءَ الفِتَنةِ وَابتِغَآ ءَ تاوِیلِه ) ۔ (سورہ آل عمران۔ آیت ۷)

(اس میں کچھ آیاتِ محکمات ہیں جو کتاب کی بنیاد ہیں اور کچھ دوسری متشابہات ہیں۔ پس وہ لوگ جن کے قلوب میں کجی ہے وہ اس میں سے متشابہ کی اتباع کرتے ہیں، فتنہ پروری اور اس کی تاویل چاہتے ہوئے)۔

۲۱۵

لفظ کو اپنے ظاہر پر محمول کرنا بھی متشابہ کی اتباع ہے اور اگر ایسا نہیں تو کم از کم متشابہ کی اتباع میں اس ظاہری مراد کے شامل ہونے کا احتمال ضرور ہے، بہرحال ہر دو صورت میں ظاہر کو اختیار کرنا حجت نہیں بن سکتا۔ کیونکہ قرآن نے اس کی مذمت کی ہے۔

جواب:

آپ کے اس دعویٰ کے بارے میں چند احتمالات ہیں:

۱۔ اگر آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ لفظ ”المتشابہ“ اپنی صراحت کے ساتھ لفظ کے اس معنی ِ ظاہر ی پر حمل کرنے کو شامل ہوتا ہے یعنی یہ کہ ظواہر یقینا متشابہ کے مصادیق ہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ دعویٰ واضح طور پر باطل ہے، کیونکہ اس سے یہ دعویٰ کرنا پڑے گا کہ عرفِ عام کے اکثر متداول استعمالات متشابہات ہیں کیونکہ اکثر لوگ اپنی اغراض کے افہام اور مقاصد کی ادائیگی کے لئے ظواہر کو مراد لینے کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور صراحتیں بہت کم کی جاتی ہیں۔

۲۔ اگر آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ لفظ ”المتشابہ“ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ظواہر مراد لینے کو شامل ہے تو اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ یہ بات خلافِ واقع ہے کیونکہ عرف میں اور اہل لغت کے ہاں ظواہر کا مراد لینا متشابہ کی مصادیق میں سے نہیں ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ظواہر کی حجیت کا انکار کرنے کے لئے قرآن کے ظواہرہی کو دلیل بنانا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ اس سے تو ایک شے کے وجود سے اس کے عدم کو ثابت کرنا لازم آتا ہے اور یہ ظاہر کی حجیت کے ذریعے خود ظاہر کی حجیت کا انکار ہے۔

اسی طرح ظواہر کی حجیت کے قائلوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ یہ دیکھتے ہوئے حجیت کے دعویٰ سے دست بردار ہو جائیں کہ متشابہ کی اتباع سے منع کرنے والی آیت کا ظہور ظواہر کو بھی شامل ہے کیونکہ یہ امر معلوم ہے کہ متشابہ عرفاً لغتہً ظواہر کو شامل نہیں ہو سکتا اور ظواہر کسی طرح بھی متشابہات کی فہرست میں نہیں آتے۔

۲۱۶

۳۔ اگر آپ کا دعویٰ ہے کہ ایک احتمال ہے کہ ”متشابہ“ ظواہر میں شامل ہے تو یہ احتمال ظواہر کی حجیت میں شک ڈالنے کا موجب بن گیا اور جہاں حجیت مشکوک ہو، وہاں عدم حجیت ثابت ہے، کیونکہ حجیت میں شک عدم حجیت کے برابر ہے، جیسا کہ علم اصولِ فقہ میں یہ ضابطہ ثابت ہے کہ ظن کی حجیت میں شک آنے سے اس کی عدم حجیت کا یقین حاصل ہو جانا لازم آتا ہے اور ایسے ظن پر حجیت کے آثار ہر گز مرتب نہیں ہو سکتے، اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً تو ایسے احتمال کا تحقق تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی یہ احتمال ظواہر کو حجیت سے خارج نہیں کر سکتا کیونکہ بدیہی ہے کہ عقلاء کے ہاں یہ روش قطعاً جاری و ساری ہے کہ وہ ظواہر پر عمل کرتے اور ان سے تمسک کیا کرتے ہیں۔ عقلاء کی دنیا میں تمام لوگ اپنے ماتحتوں اور نوکروں پر اور اس طرح تمام نوکر اور ماتحت حضرات اپنے مالک اور افسروں پر انھی ظواہر کلام کے ساتھ اتمامِ حجت کرتے ہیں لہذا فرق اس احتمال کی بنیاد پر کہ لفظ ”المتشابہ“ ظواہر کو شامل ہے وہ عقلاء اپنی روش سے دست بردار ہونے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔

اگر شارع کے یہاں ظواہر، قرآن پر عمل کرنا ناجائز ہوتا اور قرآن میں مقاصد کے بیان میں عام عقلاء کے محاورات سے ہٹ کر کسی جداگانہ طریقے کو اختیار کیا گیا ہوتا تو شارع کا فریضہ تھا کہ وہ بڑی صراحت کے ساتھ اس بات سے منع کرتا کہ کتاب اللہ کے بارے میں عقلاء اپنی روش پر عمل کرنے سے باز رہیں یعنی اس ضمن میں ایک واضح ہدایت جاری ہوتی، جس سے کتاب خدا اور روایات کے فرق کو روشن کر دیا جاتا۔ چنانچہ یہ بتادیا جاتاکہ قرآن میں ظواہر پر بھروسہ کرنا جائز نہیں ہے جبکہ روایات میں جائز ہے فقط یہ بات کہ لفظ المتشابہ میں ظواہر کو اپنے اندر شامل کر لینے کا احتمال موجود ہے وہ اس مقصد کے لئے کافی نہیں ہے۔

بالفاظ دیگر اگر افہام و تفہیم اور اظہار مقاصد کے لئے قرآن مجید کی کوئی علیحدہ روش ہوتی اور شارع کے ہاں اس کاکوئی اوراسلوب ہوتا جو اس عقلائی روش کے خلاف ہوتا جس پر عقلاء اپنے محاورات میں عموماً عمل کر رہے ہیں،تو کیا اس بات کے بیان کے لئے فقط یہ کہنا کافی تھا کہ لفظ ”المتشابہ“ جس کی پیروی سے منع کیا گیا ہے اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ وہ ظاہر کو شامل ہو سکتا ہے۔

۲۱۷

دلیل ششم:

قرآن مجید میں کمی کر کے اس میں تحریف کی گئی ہے جو ظواہر کی حجیت اور ان کی اتباع میں مانع ہے۔ لہذا اب یہ احتمال موجود ہے کہ شاید اس میں ایسے قرائن موجود تھے جو خلافِ ظاہر کے مراد ہونے پر دلالت کرتے تھے لیکن تحریف کی وجہ سے اب وہ ساقط ہو گئے ہیں۔ پس تحریف جو اس احتمال کے تحقق کا موجب ہے وہی اس امر سے مانع بھی ہے کہ قرآن مجید کے ظواہر کو حجت تسلیم کیا جائے۔

جواب:

اس قسم کی کوئی تحریف قرآن مجید میں نہیں ہوئی بلکہ قرآن میں کسی بھی اعتبار سے تحریف ثابت نہیں ہے۔

قولِ معصُوم:

معصوم خواہ نبی ہو یا امام ان کا قول بلا شبہ حجت ہوتا ہے۔ چنانچہ جب وہ کتاب خداوندی ”قرآن کریم"کے الفاظ اور آیات کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمائیں کہ اس لفظ سے یہ معنی مراد ہے تو ان کا ارشاد حجت ہے کیونکہ قولِ معصوم کی حجیت اپنے مقام میں ثابت ہو چکی ہے۔

بنابراین اگر کوئی قول نبی کا ہو تو واضح ہے کہ حجت ہے اور اگر امام کاارشاد ہو تو وہ ان ثقلین میں سے ایک ہے جن سے تمسک کرنے اور جن کے دامن کو تھام لینے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس لئے ان کی پیروی کرنا اور ان کے قول کو تسلیم کرنا ہمارا فریضہ ہے، تاکہ جہالت سے دوری اور گمراہی سے اجتناب حاصل ہو۔ پس جب ثابت ہو جائے کہ تفسیر قرآن میں یہ قول معصوم ہے تو خواہ وہ قرآن کے ظاہری معنی کے خلاف نظر آئے تب بھی اس کواخذ کرنا لازم ہے۔ کیونکہ ہر ایسا قول درحقیقت قرینہ صارفہ کی حیثیت رکھتا ہے، البتہ یہ امر ضروری ہے کہ اس کا قول معصوم ہونا تواتر سے یا ایسی خبر سے ثابت ہو جو اپنے ساتھ قطعی قرینہ رکھتی ہوہاں اس بارے میں اشکال اور اختلاف ہے کہ کیا قول معصوم جامع الشرائط خبر واحد کے ذریعے بھی ثابت ہو

۲۱۸

جاتا ہے ؟اسں طرح سے کہ اگر کوئی ایک عادل شخص اپنی خبر میں بتائے کہ معصوم علیہ السلام نے فلاں حکم شرعی اس طرح بتایا ہے تو چونکہ عادل شخص کی حجیت واعتبار پر دلیل قطعی قائم ہے اس لیے اس کی خبر سے قول معصوم ثابت ہو جائے گایا نہیں۔ ۔ ۔ ؟ اس سلسلے میں بعض علماء کا بیان ہے کہ تفسیر قرآن کے مقام پر منقول خبرِواحد کے ذریعے قول معصوم ہونا ثابت نہیں ہوتا،البتہ احکام اور فروع دین کے احکام شرعیہ میں ثابت ہو جاتا ہے،پس درحقیقت وہ علماء یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کسی آیت کے متعلق خبر واحد کے ذریعے قول معصوم نقل کیا جائے تو اگر آیت حکم شرعی کو بیان کررہی ہو تو اس میں خبر واحد کے ساتھ قول معصوم تسلیم کرلیا جائے گا اور وہ معتبر قرار پاجائے گالیکن اگر اس میں کسی ایسی آیت کی تفسیر بیان ہو جس کا تعلق احکام عملیہ کے ساتھ نہیں تو یہاں خبر واحد سے نقل کیا ہوا قول بالکل حجت نہیں ہوگاکیونکہ خبر واحد کی حجیت کا مفہوم یہی ہے بلکہ کسی بھی ظنی امارة کی حیثیت اس سے زائد نہیں ہے کہ وہ مقام عمل میں ترتیب و آثار کا موجب بنتی ہے۔ لہذا آیت حکم فرعی میں خبر واحد حجت ہو گی اور اس کے علاوہ دیگر آیات کی تفسیر میں حجیت نہ ہو گی۔

اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ حجت کا معنی موافقت میں منجزیت یعنی مر نافذہ اور مخالفت کی صورت میں معذریت یعنی باعذر قرار دینے کا ذریعہ ہونا ہے(یعنی جب آپ اس حجت کے مطابق عمل کریں تو اگر اس کا بیان مطابق واقع نکلا تو وہ آپ کے لیے تکلیف کے ثبوت کا باعث بن گئی اور آپ نے صحیح پیروی کی ہے اور اگر اس کا بیان واقع کے خلاف تھا تو چونکہ آپ نے حجت کے تحت عمل کیا ہے اس لیے وہ حجت آپ کے لیے معذّر بن جائے گییعنی آپ اس مخالفت میں معذور قرار دیے جائیں گے اور مستوجب عتاب قرار نہ پاسکیں گے منجزیت یعنی وجہ نفاذ حکم اور معذریت یعنی وجہ عذر فعل یہ دونوں فقط ان فرضوں میں ثابت ہو سکتی ہیں جن کا تعلق اعمال سے ہوتا ہے جنہیں بجا لانا یا ترک کرنالازم ہوتا ہے لہذا جب بھی خبر کا مفاد حکم شرعی کے موضوع کو بیان کرنا ہو تو وہ خبر حجت قرار پائے گی کیونکہ اس صورت میں وہ خبرمنجزیت یا معذریت کے وصف سے متصف ہو سکتی ہے اور جس خبر میں ایسی شے نہ ہو اس میں یہ وصف موجود نہ ہو گا اس لیے کہ یہ وصف باب الاحکام کے علاوہ اور کہیں بھی متصور نہیں ہو سکتا چنانچہ اب نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم کہیں کہ یہ خبرواحد اگر کسی ایسی آیت کی تفسیر بیان کرے جس کا تعلق حکم عملی کے ساتھ نہ ہو تو ایسی خبر واحد حجت نہیں ہوتی۔ یہ تھا علماء کی ایک جماعت کے نظریات کا بیان۔

۲۱۹

تحقیق:

جہاں تک تحقیقی مسلک کا تعلق ہے اس کے مطابق خبر واحد کے حجیت واعتبار میں ان دونوں قسموں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہےآیت خواہ فروع دین سے متعلق ہو یا اصول دین سے، خبر واحد ہر دو کے لیے حجت ہے کیونکہ حجیت کا ملاک ومعیار دونوں صورتوں میں موجود ہے۔

توضیح:

خبر واحد کی حجیت میں عقلاء اور علماء کی سیرت یعنی دیرینہ روش کو سندقرار دیا جاتا ہےوہ خبر واحد پر عمل کرتے ہیں۔ عقلاء کا عمل اور اس کی بنیاد خبر واحد حجیت کے ادلہ میں سے عمدہ ترین دلیل ہے،جیسا کہ اپنے مقام پر ثابت اور تحقیق شدہ ہے۔ خبر واحد کی حجیت کو کتاب، سنت اور اجماع جیسے ادلہ شرعیہ تعبدیہ کے ذریعہ ثابت کیا جاتا ہےبشرطیکہ یہ فرض کیا جائے کہ یہ ادلہّ تعبدی تاسیسی حکم کے بیان پر دلالت کر سکتے ہیں۔

۱۔ پس اگر خبر واحد کو بناء عقلاء کے ذریعہ ثابت کیا جائے تو وہاں یہ لحاظ رکھنا ضروری ہو گا کہ کیا عقلاء فقط ایسے امر میں خبر واحد پر عمل کرتے ہیں،جس کا تعلق فروع دین سے ہو اور اس پر عملی اثر مرتب ہوتا ہو،یاعقلاء خبر واحد کو قطع ویقین کی طرح ہر جگہ قابل اعتماد سمجھتے ہیں اور جو آثار قطع پر مرتب کرتے ہیں وہ خبر واحد پر بھی مرتب کرتے ہیں ظاہر یہ ہے کہ عقلاء دوسری بات پر ہیں یعنی خبر واحد کو تمام امور میں موثر اور ترتیب امرکا موجب قرار دیتے ہیں۔ مثلاًجب انہیں یقین ہو جائے کہ زید سفر سے واپس آگیا ہےتو وہ اس کی خبر دینا جائزقرار دیتے ہیں،اگرچہ یہ خبر کسی عملی اثر کا موضوع نہ بنتی ہو اور مقام عمل میں زید کی آمد پر عقلاء سے تعلق رکھنے والا کوئی اثر مرتب نہ ہوتا ہو۔ بایں معنی کہ اس پہلو کے اعتبار سے زید کا آنااور نہ آنا برابر ہو اور اس میں کوئی فرق نہ ہو، من وعن اسی طرح جب عقلاء کو زید کی آمد کی اطلاع کوئی ایک قابل وثوق فرد پہنچائے تو بھی اس کے ہاں موثق آدمی کے واسطے سے اس کی خبر دینا صحیح ہوتا ہے اور یہی معاملہ ان تمام امور میں ہے

۲۲۰