علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن0%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مختلف دانشور
زمرہ جات: صفحے: 263
مشاہدے: 130426
ڈاؤنلوڈ: 6253

تبصرے:

علوم ومعارف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130426 / ڈاؤنلوڈ: 6253
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جن پر عقلاء کا چلن ہوتا ہے مثلاًقبضہ کی مثال لے لیں عقلاء کے ہاں یہ قابض کی ملکیت کی علامت ہوتا ہے تو اب جہاں قبضہ ہو وہ وہاں قابض کی ملکیت کا حکم لگاتے ہیں لہذا جہاں انہیں اس کا یقین ہو وہاں مقام عمل میں اس پر آثار مرتب کر دیتے ہیں اور اسے خرید کرنا جائز سمجھتے ہیں او ر کہتے ہیں کہ فلاں چیز فلاں کی ملکیت ہے

خلاصہ یہ کہ خبر واحد کی حجیت میں بناء عقلاء کو ایک سند کی حیثیت حاصل ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک عادل یہ خبر دے کہ معصوم علیہ السلام نے فلاں آیت کی تفسیر ایسے مفہوم کے ساتھ کی ہے جو خلاف ظاہر ہے یا وہ خود ظواہر کتاب ہوں کہ جن کے معتبر ہونے پر سوائے اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ عقلاء ان کلمات کے ظواہر پر عمل کرتے اور الفاظ وعبارات سے مقصود معانی کی تشخیص کیا کرتے ہیںپس اب جس طرح بناء عقلاء کے باب میں تمام ظواہر مطلقاًحجت ہوتے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ظواہر عملی احکام میں سے کسی پر مشتمل ہو یانہ ہو،اسی طرح تمام وہ روایات جو باب تفسیر قرآن میں قول معصوم علیہ السلام کو نقل کرتی ہوں،وہ سب بھی حجت ہوتی ہیں اور ان میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسی آیت کی تفسیر کو بیان کر رہی ہوں جو احکام عملیہ میں سے کسی پر مشتمل ہو یا ایسی آیت کی تفسیر جس کا احکام کے ساتھ کوئی ربط نہ ہولہذا اس دعویٰ کی کوئی گنجائش ہو یا ایسی آیت کی تفسیر جس کا احکام کے ساتھ کوئی ربط ہی نہ ہولہذا اس دعویٰ کی کوئی گنجائش نہیں کہ روایات فقط اس صورت میں حجت ہوتی ہیں جب کسی ایسی آیت کی تفسیر میں ہوں جن میں احکام کا بیان ہو بلکہ معتبر روایت باب تفسیر میں مطلقاً حجت ہوتی ہیں اور یہ ایک روشن حقیقت ہے۔

۲۔ اگر خبر واحد کی حجیت کی استناد ادلہ شرعیہ تعبدیہ کی طرف ہو تو وہاں بھی بظاہر عدم اختصاص ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ ان ادلہ شرعیہ میں سے کسی میں بھی”حجیة“ اور اس کے مشابہ عنوان دکھائی نہیں دیتا،تاکہ اس کی تفسیر میں اس منجزیت(وجہ نفاذ)اور معذریت(وجہ عذر) کا نام لیا جائے جو ان تکالیف کے باب میں ثابت ہوتی ہیں جن کا تعلق عمل کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ اگر آیتنَبَاء ْ ( اِن جَآء َکمُ فَاسِقُ بِنَبَاٍ فَتَبَّینُوا ) (حجرات:۶)

جب تمہیں ایک فاسق کوئی خبر سنائے تو اس کی تحقیق کرو۔

۲۲۱

کے مفہوم کے بارے میں تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جاتی ہے، جبکہ خبر دینے والا ایک عادل شخص ہوتو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عادل کی خبر کی طرف استناد جائز ہوگا،اس کی تحقیق ضروری نہیں ہو گی او ر اس کی صداقت کی تفتیش لازم نہیں ہوگی۔ بلکہ اس کی بات بغیر تفتیش مان لی جائے گی تو پھر اس کو باب اعمال سے تعلق رکھنے والی خبر کے ساتھ مختص کرنا درست نہ ہوگا،بلکہ عادل کی خبرچاہے اعمال سے متعلق ہو یا کسی اور شے سے ماننا ہو گی اور وہ حجت ہو گی۔

البتہ اس صورت میں اختصاص کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں جب خبر کاارتباط شارع کے ساتھ ہو اور اس کی شارع کی طرف نسبت بحیثیت اس کے شارع ہونے کے ہو،لیکن اس سے بھی یہ مقام بحث خارج نہیں ہوتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف استناد اور قرآن کریم سے اللہ تعالیٰ کی مراد کو تشخیص دینا،اگرچہ کسی آیت کے حکم کے متعلق نہ بھی ہو،بلکہ مواعظ،نصائح،قصص حکایت یا ایسے امور کے متعلق ہو کہ جن پر کتاب خدا دلالت کرتی ہےیہ استناد بھی ایک ایسا امر ہے جو لامحالہ شارع سے متعلق ہوتا ہےلہذا اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دیتے ہوئے یہ کہنا جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰ قتل نہیں ہوئے اور نہ ہی پھانسی دیے گئے ہیں اگرچہ اس خبر کا تعلق باب تکالیف کے ساتھ بالکل نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ باب تفسیر میں خبر واحد کے مطلقاً حجت ہونے میں کسی اشکال کی گنجائش نہیں ہے۔

ہاں جہاں تک کتاب الہی کے عمومات کو خبر واحد کے ذریعے تخصیص دینے کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف ہے اور کئی ایک اقوال موجود ہیں جبکہ قرآن مجید کی کسی آیت کی خبر واحد کے ذریعے تنسیخ کرنا کسی طرح جائز نہیں اور اس پر اہل اسلام کا اتفاق ہےالبتہ یہ مسئلہ علم اصول فقہ میں تفصیل سے زیر بحث آتا ہے اور وہاں مرقوم ہے لہذا ہمیں یہاں اس سے سے بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہاں یہ یادر ہے کہ علمائے اہل سنت کا ایک گروہ خبر واحد سے قرآن کے عمومات کی تخصیص کے عدم جواز کا قائل ہے۔ اور خود اہل سنت میں بھی اس بارے میں اختلاف موجود ہے تاہم قائلین عدم جواز کے ادلہ کمزور اور واضح البطلا ن ہیں۔

۲۲۲

حکمِ عقل:

اس بات میں کوئی اشکال نہیں کہ عقل کا حکم قطعی اور ادراک جزی اصول تفسیر میں شامل ہے اور تفسیر کے لیے ایک بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے لہذاجب بھی حکم عقل قطعی طور پر ظاہر کتاب کے خلاف فیصلہ دے رہا ہو تو وہاں اس کو تسلیم کرنا پڑے گااور ظاہر کتاب کو اخذ نہیں کیا جائے گا،کیونکہ عقل کا حکم ہی کتاب خدا کی حجیت اور اس کے لانے والے اصول کی صداقت کو ظاہر کرنے والے معجزہ کی اساس ہے اسی عقل نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ قرآن ایک معجزہ اور عادت بشری سے ماوریٰ ہے جس کی مثل نہ تو پیش کی جاسکی اور نہ پیش کی جاسکتی ہے،عقل ہی وہ رسول باطنی ہے جس کے حکم اور اس کی وحی کی مخالفت جائز نہیں ہے۔

درحقیقت جب ظواہر کے خلاف حکم عقل قائم ہو گا توپھر عقل کا ادراک بالجزم اس ظاہر کی مخالفت کررہا ہو گاوہاں یہ حکم عقل حقیقت میں اس قرینہ لفظیہ کی منزل پر ہوتا ہے اور حقیقی معنی کے مراد ہونے سے منصرف کرنے اور معنی مجازی میں ظہور کے منعقد ہونے کا موجب بنتا ہےظہور کی حجیت میں یہ ضروری نہیں کہ وہ معنی حقیقی سے متعلق ہی ہو بلکہ ظہور حجت ہے خواہ وہ معنی مجازی میں ہی کیوں نہ ہو کیونکہ واضح ہے کہ قانونأصالةُ الحقیقة جو ظہورکے انعقاد کے تمام مواقع پر جاری ہوتی ہے وہ اصالةالظہور کی ہی ایک خاص قسم ہے اور کوئی فرق نہیں کہ ظہور معنی حقیقی میں قائم ہو جیسے کہ لفظ میں خلاف کا کوئی قرینہ موجود ہی نہ ہو اور خواہ وہ ظہور معنی مجازی میں قائم ہو۔

مثلاًکلام میں معنی حقیقی کے خلاف کا قرینہ موجود ہو تو معنی مجازی ہی ظاہر قرار پاجاتاہے یعنی”رَاَیْتْ اَسَداً“ کا ظہور معنی حقیقی میں قائم ہوتا ہے لیکن”رَایْتُ اَسَداً یَرْمِی“ کا ظہور معنی مجازی میں قائم ہےکیونکہ عرف میں سے اس سے مراد”رجل شجاع“ یعنی بہادر آدمی ہوتا ہےبغیر اس فرق کے کہ ہم یہ مان لیں کہ اس جملے کا ایک ہی ظہور ہوتا ہے جو جملے کے تمام ہونے کے بعد قائم ہوتا ہے بایں نظر کہ لفظ”اسد“ کا اپنے معنی حقیقی میں ظہور پیدا کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ جملہ تمام ہو جائے اور خلاف حقیقت مراد ہونے پر کوئی قرینہ قائم نہ ہو۔

۲۲۳

جب خلاف کا قرینہ موجود ہو تو وہاں اس کا ظہوربالکل ہوتا ہی نہیں بلکہ لفظ کا ظہور ابتداًء ہی معنی مجازی میں قائم ہو جاتا ہے یا ہم یہ تسلیم کریں کہ دو ظہور موجود ہوتے ہیں لفظ”الاسد“ کا ظہور اپنے معنی حقیقی میں اور لفظ”یرمی“ کا ظہورمعنی مجازی میں ہے لیکن چونکہ دوسرا ظہور زیادہ طاقتور ہوتا ہے،اس لیے وہ پہلے ظہور پر تقدم حاصل کرلیتا ہے اور در حقیقت دونوں لفظوں میں ہر لفظ اپنے اپنے حقیقی معنی میں ظاہر ہوتاہے لیکن ادھر قرینہ کا ظہور جو معنی مجازی میں قائم ہوتا ہے وہ معنی اول کے ساتھ مل کر قوی اور کامل ہو جاتا ہےان دونوں قولوں کے مطابق جملے کا ظہور معنی مجازی میں قائم ہوتا ہے یعنی اس مقام پررجل شجاع ہی مراد ہوگا۔

خلاصہ یہ کہ اصالةالظہور جو دراصل ارادہ جدیہ کا ارادہ استعمالیہ کے ساتھ تطابق اور کلام سے اس مفہوم کا مقصود واقعی ہونا ہے جس میں ظاہر لفظ دلالت کررہا ہویہ اصالةالظہور ہر دو صورتوں میں جاری ہوتی ہے اور دونوں میں کوئی بنیادی فرق برقرار نہیں ہوتااس قاعدے کے روشن ہونے کے بعد جب کبھی معلوم ہو کہ عقل کسی مقام پر کتاب خدا کے لفظوں کے ظاہری معنی کے خلاف حکم دے رہی ہے تو یہ حکم عقلی ایسے قرینہ قطعیہ متصلہ کا قائم مقام ہو گا جو اس بات کا موجب ہے کہ کلام کا ظہو ر فقط اسی مفہوم میں منعقد ہو جس کا حکم عقل دے رہی ہے اور اس کے خلاف نہ ہو۔

چنانچہ خداوند تعالیٰ کاارشاد:

( وَجَآءَ رَبُکَ وَالمَلَکُ صَفًا صَفًا ) (سورة فجر:آیت۲۲) (اور جب تیرا رب آیا اور فرشتے صف بستہ تھے)

اس کلا م کا ابتدائی ظہور تو یہ ہے کہ آنے والا بذات خود رب تعالیٰ ہےیہ مفہوم اللہ تعالیٰ کے مجسم ہونے کا مستلزم ہے،حالانکہ اس کا مجسم ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ عقل کا قطعی حکم ہے کہ جسمیت خداوند تعالیٰ کے لیے محال ہے کیونکہ تجسم کا لازمہ احتیاج ہے اور احتیاج واجب الوجودکی شان کے منافی ہے جب کہ واجب الوجود تو بالذات غنی ہوتا ہے اب یہ قطعی حکم عقلی اس امر کا موجب بنے گا کہ کلام کا ظہور اس معنی میں منعقد نہ ہو سکے کہ آنیوالا خود رب تعالیٰ ہے۔

۲۲۴

اسی طرح یہ آیت ہے:

( اَلَّرحمنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ) (سورہ طٰہٰ:آیت۵)

اس میں بھی خداوند تعالیٰ کا عرش پر محدود ہونا لازم آئے گا اس لیے اس کا ظہور ”اللہ تعالیٰ کے عرش پر بیٹھنے“میں منعقد نہ ہو گا کیونکہ عقل کے حکم کے خلاف ہے اور تما م ایسی آیات جن میں ابتدائی ظہور حکم عقل کے خلاف ہوتا ہے وہ اسی قبیل سے ہوں گی۔

ہماری اس بحث کے بعد یہ نکتہ روشن ہو گیا کہ جہاں حکم عقل اصول تفسیر میں سے ایک اصل ہے اور کتاب الہی کی آیات میں سے اللہ تعالیٰ کی مراد کو حاصل کرنے میں اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی، وہاں حکم عقل سابقہ دو امور سے مقدم حیثیت رکھتا ہے،عقل کے حکم کے سامنے ”ظہور اور قول معصوم“ہر دو کا راج نہیں چلتایہ ظہور پر اس لیے مقدم ہے کہ اگر خلاف ظہور پر حکم عقل موجود ہو تو ظہور منعقد ہی نہیں ہو سکتاکیونکہ اس کو ایک قرینہ قطعیہ کا مقام حاصل ہے۔

پھر قول معصوم پر اس کے تقدم کی وجہ یہ ہے کہ خود قول معصوم کی حجیت بھی حکم عقل تک منتہی ہوتی ہے اور وہ عقل ہی کے سہارے پر حجت ہوتا ہے لہذا کوئی بھی حقیقی قول معصوم قول عقل کے مخالف ہو نہیں سکتا اور اگر بظاہر کہیں یہ مخالفت نظر آئے تو وہاں سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل یہ قول معصوم سے صادر ہی نہیں ہوایا معصوم کی مراد اس کے ظاہری معنی سے نہیں ہے پس جب حکم عقل کتابِ خدا کو اپنے ظاہری معنی سے روک لیتا اور خلاف ظاہر کی طرف موڑ دیتا ہے تو اس کا ایک روایت کو ظاہری معنی سے موڑ کر خلاف ظاہر کی طرف لے جانا بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔

ہماری ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ تفسیر کی بنیاد ان تین امور پر استوار ہو سکتی ہے

۱۔ ظاہر ۲۔ قول ۳۔ حکم عقل

۲۲۵

باب تفسیر میں ان تین کے علاوہ کسی دیگر شے کی طرف استناد جائز نہیں ہےہاں باب الظواہر میں قضیہ کے صغریٰ کا اطمینان کر لینا ضروری ہے یعنی وہ ظہور کہ جس کا مرجع ارادہ استعمالیہ ہوتا ہے،کیونکہ واضح ہے کہ دونوں ارادوں کا تطابق ارادہ استعمالیہ کی تشخیص اور لفظ کے مدلول کے بارے میں تسلی کر لینے کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔

اب یہ طے کرنا پڑ ے گا کہ کسی شخص کے لیے ارادہ استعمالیہ کی تشخیص کا طریقہ یہ ہو گاعربی زبان سے مکمل طور پر آشنانہ ہو اور خود اہل زبان بھی نہ ہو جبکہ ادھر کسی مفسر یا کسی لغوی (زبان شناس) کے قول پر بھروسہ کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ ان دونوں کا قول نہ مفید یقین ہوتا ہے اور نہ ہی مفید اطمینان مگر(عرفی طور پر یہی علم کہلاتا ہے)لیکن ان دونوں کے قول کے حجت ہونے پر کسی قسم کی کوئی دلیل موجود نہیں،پس نتیجہ یہی ہے کہ اس وقت تک کسی کی تفسیر کی طرف رجوع کرنے کا کوئی فائدہ مرتب نہ ہو سکے گا،جب تک اس سے یقین حاصل نہ ہو یا یقین کے قائم مقام کوئی صورت بن سکےبایں معنی کہ وہ کسی معنی میں لفظ کے ظہور کا موجب بن جائے یعنی معلوم ہو جائے کہ ارادہ استعمالیہ کے ساتھ یہی معنی متکلم کی مراد ہے۔

۲۲۶

علوم تفسیر

عُلومِ قرآن

ڈاکٹر سید عبدالوہاب طالقانی

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟

علوم قرآن کو دوحصّوں میں تقسیم کیاجاتا ہے:

اولاً۔ وہ علوم جو قرآن سے ماخوذ ہیں اور جنہیں آیاتِ قرآن میں تحقیق اور جستجوسے حاصل کیا جاتا ہے انہیں”علوم فی القرآن" کہتے ہیں۔

ثانیاً۔ وہ علوم جنہیں فہم القرآن کے لئے مقدمہ کے طور پر سیکھا جاتاہے انہیںعلوم لِلْقُرآن کہتے ہیں۔

علوم فی القرآن :

قاضی ابو بکر بن عربی نے”قانون التَاویل“ میں قرآن سے ماخوذ علوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے

(۱) توحید

(۲) تذکیر

(۳) احکام

۲۲۷

اس کتاب میں مخلوقات سے آگاہی۔ اسماء صفات اور خالق سے آشنائی کو علم توحید قرار دیا گیاہے۔ بہشت کا وعدہ اور دوزخ کی وعید کو علم تزکیراورتمام مباح امور، یعنی شرعی احکام اور اُن کے نفع و نقصانات کے بیان کو علم احکام محسوب کیا گیا ہے۔ کتاب میں علم توحید کے لئے اس آیت کو بطور مثال پیش کیا گیاہے( وَاِلٰهُکم اِلٰه وَّاحِد ) (۱) اس میں توحیدِذات افعال اور صفات پوشیدہ ہیں علم تذکیر کے لئے( وَ ذَ کّرِ’ فَانِّ الذِّکریٰ تنفع المومنین ) کی مثال دی گئی ہے اور تیسرے علم لئے( وَاَنٍ اَحْکُمْ بینهم) کو شاہد کے طور پر لایا گیا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہفاتحة الکتاب کو اسی لئے”امّ الکتاب" کہا جاتاہے کہ اس میں تینوں اقسام توحید،تذکیر،اور احکام کا ذکر موجود ہے۔

مثلاًسورہ کی ابتدا سے لے کر یوم الّدین تک توحید ہے( اِیّاکَ نَعبدُ وَایاکَ نَسْتَعِین ) عبودیت اور احکام میں اطاعت سے متعلق ہے۔( اِهدِناَالصِّراطَ المُستَقیِم ) سے لیکر آخر تک میں تذکیر کا ذکر ہے۔

اَبُوالْحَکَمْ اِبْنِ برّجان ” ارشاد“ میں تحریر کرتے ہیں سارا قرآن تین علوم پر مشتمل ہے اسماء اللہ اور اسکی صفات کا علم،نبّوت اور اس کے استدلال و براھین کا علم، علم تکلیف (شرعی احکامات)

محمد بن جریر طبری کہتے ہیں: قرآن تین علوم پر مشتمل ہے توحید،اخبار اور دیانات اسی لئے پیغمبر خدا نے فرمایا ہے( قُل هُواَاللهُ اَحَدْ ) قرآن کے برابر ہے چونکہ یہ سورت سراسر توحید ہے۔

عُلوم الِقُرآن

کلی طور پر وہ علوم جو آیات کے فہم و ادراک کے اور کلام خدا کے معانی کو سمجھنے کے لئے،قرآن سے پہلے مقدمةً سیکھے جاتے ہیں اُنہیں علوم قرآن کہتے ہیںاس تحریر میں ہمارا مقصود یہی علوم اور منابع ہیں کیونکہ قرآن پیغمبر اسلام کا ایک ابدی معجزہ ہے جو درج ذیل موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہےاخبار، قصص،حِکم، موعظہ،وعدہ،وعید،امر،نہی،تنذیر،تہذیب قلوب، تسکین نفوس، ارشاد، مطالعہ فطرت، وسیع کائنات میں غوروفکر۔

۲۲۸

قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل کیاگیا ہے

( وَانِّهٰ لَتنزیلُ رَبّ العالِمین نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الاَمینً وعَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الُمنْذِرینَ بلِسٰانٍ عَرَ بیٍ مُّبِین )

تحقیق یہ قرآن عالمین کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جبرئیل کے توسط سے اسے تمہارے قلب پر نازل کیا گیاتاکہ تم اس کے مواعظ اور حکمتوں کو لوگوں کے لئے بیان کرو۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے۔

لیکن جیسا کہ عربی زبان کا طریقہ ہے قرآن بھی حقیقت و مجاز، تصریح اور کنایہ ایجازو تشبیہ و تمثیل اور امثال سے پُرہےمعارف قرآن کے طالب مجبور ہیں کہ وہ بلاغت و فصاحت کے علوم کو اچھی طرح سیکھیں کیونکہ الہی کلام کے اعجاز سے آگاہی متعلقہ امور سے مکمل واقفیت کے بغیرہرگز ممکن نہیں ہے ؟ہرگز نہیںمعرفت قرآن کے مقدمات سے آگاہی جس قدر زیادہ ہوگیکلام الہی کی روح اور گہرائی سے آگاہی بھی اسی قدر زیادہ ہو گی۔

قرآن کریم میں آیات متشابہ موجود ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

( هُوَالَّذی اَنزَلَ علیک اَلکِتَاب منه آیَات’‘ محُّکَمٰاتٌ هُنَّ اُمُّ ا’لکِتَاب وَاُخَرُمُتَشٰابِهاٰت فَاَمّااَّلَذِین فِی قُلُوبِهم زیغُ فَیَتَّبعُونَ مَاتَشَابَه منهُ اَبْتغَاءَ الفِتَنة وَابتغاءَ تاوِیله وَماَیعلم ُ تَاوِیلَه اِلاَالله وَالَّراسَخونَ فیِ العلم یَقُولُون آمَنّابِه کُلّ مِن عندرَبّناٰ وَماَیَذَّکَّرُ اِلاّاُو لُوالاَلباٰب )

(وہی خدا ہے کہ جس نے تم پر کتاب نازل کی اس کتاب میں بعض آیات محکم ہیں جو کہ کتاب خداکی دیگر آیات کے لئے اصل اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہیںبعض متشابہ ہیں پس جن کے دل باطل کی طرف مائل ہیں وہ متشابہ کے پیچھے جاتے ہیں تاکہ اس میں تاویل کر کے شُبہ اور فتنہ وفساد پیدا کریںحالانکہ انکی تاویل سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سب محکم اور متشابہ پر جو ہمارے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے ایمان لائے ہیں اور سوائے صاحبان عقل کے کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں جانتا۔ قرآنی معارف کے طالِب حضرات کو چاہیے کہ وہ مشکلات کے وقت پیغمبر خدا اور آلِ رسول کی طرف رجوع کریں قرآن کی لغات اور معانی سے متعلق اُن سے سوال کریں

۲۲۹

حضرت عمرنے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر آیت( وَفاَ کِهَةً وَاَباًّ ) کی تلاوت کی اور کہافاکِهَة کو جانتا ہوں لیکن نہیں جانتا کہاَبّاًّ سے کیا مراد ہے ؟۔

بزرگ صحابی اور حبرالامةابن عباس فرماتے ہیں کہ میں فاطرالسموات کا مطلب نہیں جانتا تھا ایک دفعہ دو عرب جھگڑتے ہوئے میرے پاس آئےوہ ایک کنویں سے متعلق جھگڑ رہے تھے اُن میں سے ایک نے کہا”افطرتها" یعنیابتدیتها یعنی سب سے پہلے میں نے کنواں کھودا ہے اس وقت میں اس کے معانی سے آگاہ ہوا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوسرے افراد مخصوصاً غیر عرب لوگوں کو تفسیر کی اور معانی ومطالب سمجھنے کی ضرورت نہیں ہےایسے علوم شناخت قرآن کے لئے ضروری ہیںجب مقدماتی علوم سے انسان اچھی طرح آگاہ اور باخبر ہو جائے تو وہ قرآن کے اندر پوشیدہ علوم کی بھی کماحقہ معرفت حاصل کرسکتا ہے۔

علوم قرآن پرپہلی کتاب

علوم قرآن پر صدر اسلام سے ہی مستقل طور پر کتابیں تدوین ہوئی ہیں فہرست نویس علماء انہیں ضبط تحریر میں لائے ہیںابن ندیم نے ” الفہرست“ میں تفصیل کے ساتھ مولفین کے اسماء کا ذکر کیا ہے۔

ہم یہاں پر ” الفہرست“ سے صرف عناوین کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

۱۔ تسمیة الکتب المصنفة فی تفسیر القرآن

۲۔ فی الغات القرآن

۳۔ الکتب المولّفہ فی معانی القرآن ومشکلہ و مجازہ

۴۔ فی القرات

۲۳۰

۵۔ الکتب المولِّفَہ فی غریب القرآن

۶۔ فی لاٰماٰت القرآن

۷۔ فی النَقط و الشَکل للقرآن

۸۔ وقف التمام

۹۔ فی الوقف والابتداء ا فی القرآن

۱۰۔ فی مُتشابہ القرآن

۱۱۔ فی اختلاف المصاحف

۱۲_ اجزاء القرآن

۱۳۔ فیما اتفقت الفاظِہِ و معانِیہِ فی القرآن

۱۴۔ من فضائل القرآن

۱۵۔ الکتب المولفة فی ھِجاء المصحف

۱۶۔ مقطوع القرآن و موصولہ

۱۷۔الکتب الموٴلِّفة فی عَدَدِ آیِ القرآن

۱۸۔ ناسخ القرآن و منسوخہ

۲۳۱

۱۹۔ الکتبالمولفَةِ فی الْهٰاآتِ ورُجُوعِهٰا

۲۰۔ نزول القرآن

۲۱۔ احکام القرآن

۲۲۔ معانی شتّٰی من القرآن

لیکن ہمارے پیش نظر اس طرح کی کُتب نہیں ہیں بلکہ ہماری مراد وہ کتاب ہے جو” الاتقان والبرهان“ کی طرح تمام علوم قرآن کو اپنے اندر لئے ہوئے ہوہم یہاں پر علوم قرآن سے متعلق سب سے پہلی جامع کتاب کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ حاجی خلیفہ نے ابوالقاسم محمد بن حبیب نشاپوری (متوفی ۲۴۵) کی کتاب” التَّنبیه عَلیَ فضلِ علوم القرآن“ کا ذکر کیاہے۔ چونکہ اس کا کوئی نسخہ ہماری دسترس میں نہیں ہے لہذا معلوم نہیں ہے کہ ان کی عبارت میں ” علوم القرآن“ سے مراد وہی ہے جو ہمارے مد نظر ہے یا کہ کوئی اور مسئلہ اُن کے پیش نظر تھا۔ مذکورہ بالا کتاب سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ہم عبدالعظیم زُرقانی کے قول کی طرف توجہ کریں تو یہ واقعاً قابل غور ہے وہ کہتے ہیں۔ ” میں نے مصر کے دارالکتب میں” البُرهان فی علوم القرآن“ کے نام سے ایک کتاب دیکھی اس کے مصنف علی بن ابراہیم بن سعید المشہور صوفی ( متوفی ۳۲۰) ہیں کتاب اصل میں تیس اجزاء پر مشتمل تھی لیکن وہاں پندرہ اجزاء سے زیادہ موجود نہ تھے وہ بھی غیر مرتب تھے۔ ایضاح المکنون میں” الشامل فی علوم القرآن" نامی کتاب کا تذکرہ ملتا ہے جو ابوبکر محمد بن یحییٰ صولی (متوفی۳۳۰) نے لکھی ہے مذکورہ کتاب چونکہ دسترس میں نہیں ہے لہذا مطمن نہیں ہوا جا سکتاکہ علم القرآن سے مراد وہ مصطلح علم ہے جو کہ ہمارے پیش نظر ہے یانہیں۔ سیوطی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں” وَمن المصنّفاّت فی مثل هذا النَمطَ“ کے ذیل میں چند کتب اور ان کے مولفین کے نام نقل کیے ہیں جن میں آخری کتاب” البرهان فی مشکلات القرآن“ ہے جس کے مصنّف کا نام ابوالمعالٰی عزیزی بن عبدالملک المعروف شَیذَلہ (متوفی۴۹۴) ہے۔

۲۳۲

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی (متوفی ۵۹۴) نے ایک کتاب” فُنُونُ الافنانِ فیِ عُلُومِ القُرآن" اور ایک دوسری کتاب” المُجتبیٰ فی علوم تتعلق باالقرآن" کے نام سے لکھی ہے۔

سیوطی اور حاجی خلیفہ نے صرف فنون الافنان کو ابن جوزی سے نقل کیا ہے لیکن زرقانی نے دونوں کتابوں کو دارالکتب مصریہ کے مخطوطات کا جُز قرار دیا ہے اور انہیں ابن جوزی کی تالیفات قرار دیا ہے۔

ساتویں صدی میں علم الدین سخاوی (متوفی۶۴۱) نے” جمال القُرّاء" تالیف کی ہے کتاب کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب علوم قرات سے متعلق تھی اور قراءِ قرآن کے لئے لکھی گئی تھی۔

سیوطی نے سخاوی تذکرہ کے بعد ایک کتاب بنام” المُرشِدُ الوَجیز فیِ ماَیَتَعلّقُ بالقرآنِ العَزِیز“ کا ذکر کیا ہے جو ابو شامہ (متوفی ۶۶۵) کے تالیف شدہ ہے وہ کہتے ہیں جو کچھ علوم القرآن سے متعلق لکھا گیا ہے اس میں سے بہت کم حصہ کا یہاں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علوم القران کے حوالے سے علم الدین سخاوی کی کتاب”جمال القّراء“ ان کے ماخذ اور مصادر میں شامل ہوتی ہے کی حیثیت رکھی تھی۔

آٹھویں صدی میں بدر الدّین زرکشی (متوفی ۷۹۴) نے معروف کتاب” البُرهان فی علوم القرآن" تالیف کی اسکی متعدد اشاعتیں موجود ہیں

یہ کتاب جلال الدین سیوطی کی الاتقان کے مصادر میں سے ہے۔ کیونکہ دونوں کتابوں البرھان، الاتقان مطالب اور متون کے تقابل اور جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیوطی نے زرکشی کا نام لئے بغیر بہت سارے مطالب کو اُس سے اقتباس کیا ہے وہ در حقیقت ذرکشی سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ نیز اسی صدی میں محمد بن سلیمان کا فیجی ( متوفی ۸۷۹) نے ایک کتاب علوم القرآن کے حوالے سے لکھی جو بقول سیوطی کے بے مثال کتاب تھی۔

۲۳۳

نویں صدی میں، میں قاضی القضاة جلال الدین بُلقینی (متوفی ۸۲۴) نے ایک کتاب ” مواقع العلوم من مواقع النجوم" تحریر کی ہے جس کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی کہتے ہیں:

”فرایته تالیِفاً لِطَیفاً ومجموعاً ظَریفاً ذَا تَر تیبٍ وَ تقرِیرٍ وتنوِیعٍ وَتحبیرٍ"

سیو طی نے محمد بن سلیمان کا فیجی کو جلال الدین بلقینی پر مقدم رکھا ہے اس کی وجہ شاید یہی ہو گی کہ وہ چودہ سال کا فیجی کی شاگردی میں ہے اور وہ اس طرح استاد کے احترام حق کا ادا کرنا چاہتے تھے۔ دسویں صدی میں یا نویں صدی کے آخر میں جلال الدین سیّوطی (متوفی ۹۱۱) نے ”الاتقان“ لکھی۔

اب ہم قارئین محترم کے سامنے علوم قرآن سے متعلق ان کتب کی فہرست رکھیں گے جو اب بھی معتبر کتب خانوں میں موجود ہیں:

۱۔ الاتقان فی علوم القرآن

جلال الدین سیوطی (۸۴۹۹۱۱)مطبع المشہد الحسینی ( ۱۳۸۷ء) ۴جلد قاھرہ

۲۔ الاحسان فی علوم القرآن

جمال الدین ابوعبداللہ محمدبن احمد بن سعید عقیلہ مکی حنفی (۹۳۰ھ) ایضاح المکنون، ج۳/ص۳۲

۳۔ البیان فی علوم القرآن

ابو عامر فضل بن اسماعیل جُرجانی (کشف الظنون ج ۱/ص۲۶۳)

۴۔ بدایع البرھان فی علوم القرآن

محمدآفندی ارنیری (۱۶۰ھ) ایضاح المکنون (ج۱/ص۱۷۰)

۲۳۴

۵۔ البرھان فی علوم القرآن

محمد بن عبداللہ ابن بہادر زرکشی (۷۴۵۷۹۴)تحقیق محمدابوالفضل ابراہیم قاھرہ عیسٰی البابی الحلبی۴جلد ۱۹۵۷

۶۔ بحوث حول علوم القرآن

شیخ محمد جواد محتصر سعیدی نجفی نجف مطبعة الآداب جلد ۳۴۷صفحات

۷۔ البیان فی تفسیر القرآن

آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی

۸۔ التاج المرصّع بجواھر القرآن والعلوم

طنطاوی جوھریقاھرہ المکتبہ التجاریہ (۱۹۳۳م)

۹۔ البیان فی علوم القرآن

محمد علی صابونی(پروفیسر شریعت کالج مکہ عصر حاضر کے علماء میں سے ہیں) بیروت دارالعلم ۱۳۹۰ھ (۲۰۲ص)

۱۰۔ التبیان لبعض المباحث المتعلقہ بالقرآن علی طریق الاتقان

شیخ محمد طاہر بن صالح بن احمد جزایری دمشقی، دمشق ۲۸۸ ص

۱۱۔ التمھید فی علوم القرآن

محمد ھادی معرفت محقق معاصر قم ۳جلد مہر پریس قم۱۳۹۶ ھ

۲۳۵

۱۲۔ ا لتنبیہ علی فضل علو م القرآن

ابوالقاسم محمد بن حبیب نیشاپوری (۲۴۵)کشف الظنون، ج ۱/ص۴۸۹

۱۳۔ جلاء الاذھان فی علوم القرآن

معین الدین محمدالکہف، ۱۲۹۲ ہجری، ۱۵۰ ص

۱۴۔ الشامل فی علوم القرآن

ابوبکر محمدبن یحییٰ صولی وفات ۳۳۵ئھ، ایضاح المکنون، ج۲/ص۳۹

۱۵۔ علوم القرآن

محمد جواد جلال مطبوعہ بصرہ

۱۶۔ علوم القرآن

احمد عادل کمال تاریخ۱۹۵۱

۱۷۔ عنوان البیان فی علوم البیان

محمد حسنین مخلوق العدوی قاہرہ مطبعة المعاھد ۱۳۴۴

۱۸۔ الفرقدان النیران فی بعض ا لمباحث المتعلقة بالقرآن

محمد سعید بابی دمشقی دمشق۱۳۲۹

۲۳۶

۱۹۔ فنون الافنان فی علوم القرآن

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی وفات ۵۹۷ھ، کشف الظنون، ج۲ص۱۲۹۲

۲۰۔ قانون تفسیر

حاجی سیدعلی کمال دزفولی انتشارات کتب خانہ صدر ناصر خسرو۔ تہران ا جلد

۲۱۔ القرآن علومہ و تاریخہ

حاجی شیخ محمد رضاحکیمی حائری مطابع دارالقس

۲۲۔ القرآن علومہ فی مصر

۲۰۔ ۳۵۸، دکتر عبداللہ خورشیدی بری دارالمعارف مصر

۲۳۔ الآالی الحسان فی علوم القرآن

موسی شاہین قاہرہ مطبعة دارالتالیف ۱۹۶۸، میلادی، ۴۷۱ص

۲۴۔ لمحات فی علوم القرآن واتّجاھات التفسیر

محمد الصّباغ المکتب الاسلامی

۲۵۔ مباحث فی علوم القرآن

دکتر صبحی صالح علمائے معاصر استادبیروت یونیورسٹی (دمشق۱۹۵۸)

۲۶۔ المختار من کتاب الاتقان

۲۳۷

جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکرقاہرہ دارالفکرالعربی ۱۹۶۰م

۲۷۔ المدھش فی علوم القرآن

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمدابن علی جوزی بغدادی فقیہ حنبلی وفات۵۹۷ھ، بغدادمطبعة الآداب تصحیح محمد بن طاہر سماری (۱۳۴۸ھ)

۲۸۔ مذکرّہ علوم القرآن

احمد احمد علی مصر( ۱۳۷۰ھ)

۲۹۔ معارج العرفان فی علوم القرآن

سید احمد حسین امروھی وفات ۱۳۲۸ھ، مراد آباد ۱۹۱۸م

۳۰۔ المعجزةالکبریٰ القرآن

نزولہ، کتابتہ،جمعہ،اعجازہ،جدلہ،علومہ،تفسیرہ

محمد ابوزھرہ دارالفکر العربی

۳۱۔ مفتاح علوم القرآن

حاجی شیخ غلام رضا فقیہ خراسانی یذدی، یزد۱۳۶۵ھ

۳۲۔ مقدمتان فی علوم القرآن

۲۳۸

یہ کتاب خود دو کتب پر مشتمل ہے کتاب المبانی کے مولف معلوم نہ ہو سکا اور دوسری کتاب کے مولف کا نام ابن عطیہ ہے اور اس کی تصحیح معروف مستشرق آرتھر جعفری نے کی ہے۔ قاہرہ مطبعةالسنہ المحمدیہ ۱۹۰۴ئم

۳۳۔ مناھل العرفان فی علوم القرآن

محمد عبدالعظیم زرقانی مصری، قاہرہ داراحیاء الکتب العربیہ۱۹۶۶م، ۲جلد

۳۴۔ منہج الفرقان فی علوم القرآن

شیخ محمد علی سلامہ بحوالہ مباحث فی علوم القرآن و مناھل العرفان

۳۵۔ الموسوی القرآنیہ

ابراہیم ابیاری و عبدا لصبور مزروق قاہرہموٰسسہ سجلّ العرب ۶جلد

۳۶۔ موجز علوم القرآن

دکتر داؤد عطّار موسسہ اعلمی بیروت

نوٹ:۱ متقّدمین کی چند کتب مثلاً قطب شیرازی کی کتب، زرکشی کی البرھان اور سیوطی کی الاتقان کا مختصراً ذکر آچکا ہے لہذا یہاں تکرار نہیں کیا گیا ہے

۲ بہت سی تفاسیریاتجوید کی کتب کے لئے علوم قرآن کی اصطلاح استعمال ہوتی ہےلیکن ہم نے اس فہرست میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر : الامام الحافظ ابوالقاسم محمد بن احمد بن جزی الکلبی الغُرناطیکی کتاب التسہیل لعلوم التنزیل چار جلدوں میں تفسیر قرآن ہے چونکہ مصنّف نے مقدمہ میں علوم قرآن کے بعض مطالب بیان کئے ہیں لہذا اس کتاب کے لئے استعمال کیا ہے۔

۲۳۹

اسی طرح مخزن الاسرار فی علوم القرآن بانوی ایرانی کی تالیف ہے یہ ۱۶ جلدوں میں تفسیر ہے۔ جس کا ہم نے تذکرہ نہیں کیا۔

اسی طرح ستر البیان فی علم القرآن،حسن بیگلری کی تحریر کردہ کتاب ہے جو علم تجوید سے متعلق ہے اس کا تذکرہ کتب تجوید کی فہرست میں ہونا چاہیے۔

علوم قرآن کی اصطلاح

علومِ قرآن کی اصطلاح اور اسکی تقسیم بندی

صدر اسلام ہی سے اہل علم ودانش صحابہ تابعین اور تبع تابعین علوم قرآن میں سے کسی ایک یا چند علوم میں مہارت رکھتے تھے اورانہوں نے خاص موضوعات میں تحریریں اور کتب یادگار چھوڑی ہیںمثلاً ابو عبید قاسم بن سلام (متوفی۲۲۴) نے بقول ابن ندیم کے درج ذیل کتب تحریر کی ہیںغریب القرآن، معانی القرآن،القرائات،کتاب عدد آی القران، کتاب ناسخ ومنسوخ اور فضائل القرآن یہ تمام موضوعات اصطلاحاً علوام القرآن کہلاتے ہیں۔

ابن ندیم نے ابن کامل کے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے انہیں ” احمد المشہورین فی علوم القرآن“ قرار دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چوتھی صدی اور ابن ندیم کے زمانہ سے ہی علوم قرآنی کی اصطلاح رائج رہی ہے البرھان فی علوم القرآن اور الاتقان میں بنیادی طور پر انہیں علوم پر بحث کی گئی ہے۔ متقدمین نے اپنے ذوق اور سلیقہ کے مطابق علوم قرآن کی تقسیم بندی کی ہےمثلاً جلال الدین سیوطی نے نزول قرآن کو رات دن،سردی و گرمی،سفرحضروغیرہ میں تقسیم کر کے علوم قرآن کی ۸۰ اقسام بیان کی ہیں۔ نے علامہ قطب الدین شیرازی (متوفی۶۴۸) نے علوم قرآن کو بارہ موضوعات میں تقیسم کیا ہے متقدمین کے نظریات سے آگا ہی حاصل کرنے کے لئے ہم قطب الدین شیرازی کی آراء و نظریات کا یہاں پر تذکرہ کریں گے۔

۲۴۰