علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن0%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مختلف دانشور
زمرہ جات: صفحے: 263
مشاہدے: 130480
ڈاؤنلوڈ: 6253

تبصرے:

علوم ومعارف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130480 / ڈاؤنلوڈ: 6253
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس کے بعد تیسرے شخص حضرت ابراہیم کی مثال ہے جو اللہ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ مجھے مردوں کو زندہ کرتے ہوئے دکھا دے ،مجھے پورا یقین ہے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے لیکن یہ مطالبہ صرف شرح صدر کے لئے ہے یعنی یہ تیسرا شخص نہ تو پہلے کی طرح متکبر ہے اور نہ ہی دوسرے کی طرح متشکک۔اسی طرح کی ایک مثال سورہ مجادلہ میں ذکر ہے ایک عورت ہے جو دینی معاملات میں اللہ سے مجادلہ اور رسول سے شکوہ کرتی ہے یہ مجادلہ اور شکوہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے شکوک اور اضطرابات کو دور کرے اور اس کے بعدایک منافق کی مثال دی گئی ہے جو اس گھات میں رہتا ہے کہ دین اسلام میں کوئی ایسی اعتراض اور نکتہ چینی کی بات پائیں اور اس کو لے اڑیں۔(۱۳) ان کے متعلق قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :

( إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ وَقَدْ أَنزَلْنَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ ) (سورہ المجادلة :۵)

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جھگڑا کرتے ہیں وہ لوگ ذلیل کردیئے گئے ہیں جس طرح وہ لوگ ذلیل کر دئیے گئے جو ان سے پہلے تھے اور ہم نے کھلی کھلی آیتیں اتار دی ہیں اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔

اوپر جو ایک عورت اور ایک منافق کا ذکر آیا ہے اصلاًیہ دو جماعتوں کا ذکر ہے اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ خدا اور رسول کے ساتھ معاملہ کرنے کا طریقہ عرض ومعروض اور شکوہ و التجا ہے نہ کہ محارّہ اور مشاقہ۔ پش خدا کے دین یا اس کی کتاب میں اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو اس کی راہ صرف یہی ہے کہ اس کو خدا ہی کے سامنے پیش کرے اور اسی سے تسلی و تشفی اور فتح باب کا متمنی ہو یہ نہ کرے کہ جھٹ اس کو ذریعہ اعتراض و نکتہ چینی بنا کر ایک نیا دین کھڑا کر دے۔(۱۴)

____________________

۱۳۔ایضاً وضاحت کے لئے دیکھیے ص۵۳۶۴

۱۴۔ایضاًص۶۴

۶۱

تدبر قرآن کی ایک بنیادی شرط تقویٰ اور عمل ہے

سورہ بقرہ کی پہلی ہی آیت میں مذکورہے:

( ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ )

اور سورہ لقمان میں ہے :

( تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ هُديً وَرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِينَ )

یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ کیوں صرف متقین اور محسنین ہی کے لیے صحیفہ ہدایت ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی درجہ بدرجہ ہدایت دی ہے ہدایت کا پہلا زینہ ہدایت جبلت ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں یوں ہوا ہے:

( وَالَّذِی قَدَّرَ فَهَدَى ) ( فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا )

یہ دراصل ادراک وتعقل اور ذوق وجدان کی ہدایت ہے جس میں تمام نبی نوع انسان یکساں طور پر شامل ہیںاور اس کی مدد سے وہ اپنے کاموں میں نظم و ترتیب پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی ذاتی قوت فیصلہ سے شر کو چھوڑ کر خیر کو اختیار کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ہدایت کا دوسرا درجہ انبیاء ورسل کی بعثت سے ظہور میں آیاچنانچہ انبیاء ورسل کی کدوکاوش سے شریعت کا وجود ہوا اور اس شریعت کی تکمیل بھی بتدریج ہوئی آخر میں آنحضور نے اس شریعت کی تکمیل فرمائی جسے دین اسلام کے نام سے دنیا جانتی ہے قرآن کریم نے براہ راست تین جماعتوں کو مخاطب کیا ہے عرب ،یہود اور نصاری،عربوں میں کچھ ایسے تھے جو دین ابراہیمی کی سادگی پر قائم تھےاسی طرح یہود کی ایک چھوٹی سی جماعت حق پر قائم تھیاور نصاری میں سے کچھ لوگ بھی صحیح دین مسیح پر باقی تھےقرآن نے سب سے پہلے عربوں کو مخاطب کیا چنانچہ ان میں جو دین ابراہیمی کی فطری سادگی پر قائم تھے انہوں نے جب قرآن کی آواز سنی تو ان کو محسوس ہوا کہ گویا اپنے ہی دل کی آواز سن رہے ہیںانہوں نے دعوت قرآن کو بغیر معجزہ کے مطالبہ کے قبول کر لیاسورہ نور میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیاکہ

۶۲

( یَكَادُ زَیْتُهَا یُضِیءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ. نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ یَهْدِی اللَّهُ لِنُورِهِ مَن یَشَاءُ )

اس آیت میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے محسنین اور متقین مراد ہیںاحادیث میں بھی احسان کا یہی مفہوم بیان کیا گیاہےمولانا کا بھی یہی خیال ہے کہ قرآن مجیدنے اسی مفہوم کے اعتبار سے اہل مکہ یا اہل کتاب کی ان جماعتوں کے لئے اس کو استعمال کیا ہے جنہوں نے فطرت اور وحی کی روشنی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ،قرآن میں جگہ جگہ وارد ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر رکھتا ہےان کے عمل کو ضائع نہیں کرتا،ایسے ہی لوگوں کے لئے یہ کتاب الہی ہدایت و رحمت ہے۔(۱۵)

ان کے علاوہ جو دوسرے حضرات ہیں انہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کو برباد کرڈالا تھااوروہ غیر فطری معتقدات و اوہام کے شکار ہوگئے تھےمولانا نے ان لوگوں پر اس طرح روشنی ڈالی ہے ”چنانچہ جب آنحضرت نے ان کے سامنے قرآن مجید پیش کیا تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیںاس کے سننے اور سمجھنے سے انکار کردیااور ان کا یہ انکار درحقیقت ان کے بہت سے سابق انکاروں کا لازمی نتیجہ تھا۔ انہوں نے ہدایت کے ابتدائی مراحل میں اس کو قبول کرنے سے اعراض کیا اس لئے بعد کے مرحلوں میں بھی اس کا ساتھ نہ دے سکے اور ایسا ہونا قدرتی تھا۔(۱۶)

اس کے بعد مولانا نے اس پہلو کو لیاہے کہ شریعت الہی عمل کے لئے نازل ہوئی ہے اسی لئے یہاں علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی ضروری ہے اگر علم بغیر عمل کے ہے تو یہ علم ناقابل اعتبار ہے اور اس علم سے مزید علم و عمل کے دروازے نہیں کھلا کرتےایسے علم کو علم نہیں بلکہ جہل کہیں گےیہود کی اکثریت کا معاملہ بھی ایسا ہی تھاانہوں نے اپنے تمام انبیاء کی تعلیمات کو جھٹلا دیااور قرآن مجید کا بھی انکار کردیا

___________________

۱۵۔وضاحت کے لئے ص۶۵۷۱

۱۶۔ایضاً ص۷۱

۶۳

مولانا آگے لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ابتداء ہی میں یہ اصولی بات ذکر کردی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے امتحانوں سے گزرنے کے بعد کہا کہ”انی جاعل لٰلناس اماما“اسی طرح حضرت موسی نے جب اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لئے دعا کی ۔(۱۷) تو اللہ نے فرمایا:

( عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ) (سورہ الاعراف:۱۵۶)

میرا عذاب تو میں جس پر چاہتا ہوں (یعنی جو اس کا مستحق ہوتا ہے) اس پر نازل کرتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو عام ہے پس میں اس کو لکھ رکھوں گاان لوگوں کے لیے جوتقوی پر قائم رہیں گےیعنی جو اللہ کے عہد پر قائم رہیں گے اور اس کے حدود کا پاس و لحاظ رکھیں گے۔ انہیں کے لیے یہ کتاب باعث ہدایت ثابت ہو گی مولانا فرماتے ہیں،اس کو وہی لوگ قبول کریں گے جو متقی ہیں جنہوں نے اپنے عہدو پیمان کو قائم رکھا ہے جنہوں نے خدا کی نعمت کی قدر کی ہے۔جنہوں نے اپنے انبیاء کی تعلیمات کو یاد رکھا ہے اور جن لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا ہے اس کے رشتوں پرمقراض چلا چکے ہیںوہ ہرگز قرآن کریم کو بطور صحیفہ ہدایت کے قبول نہیں کریں گےقرآن کریم میں ارشاد ہے ۔

( وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ - الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّـهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ) (سورہ البقرہ:۲۶ ۲۷)

اللہ تعالیٰ اس حقیر مثال سے گمراہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس مثال کی وجہ سے بہتوں کو اور ہدایت کرتے ہیں اس کی وجہ سے بہتوں کو الگ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ اس مثال سے کسی کو مگر صرف بے حکمی کرنے والوں کو جو کہ توڑتے رہتے ہیں اس معاہدے کو جو اللہ تعالیٰ سے کرچکے تھے اس کے استحکام کے بعد اور قطع کرتے رہتے ہیں ان تعلقات کوکہ حکم دیا ہے اللہ نے ان کو وابستہ رکھنے کا اور فساد کرتے رہتے ہیںزمین میں پس یہ لوگ پورے خسارے میں پڑنے والے ہیں۔

___________________

۱۷۔ایضاً۷۳۷۴

۶۴

آگے مولانا فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے چونکہ اللہ کے وعدوں اور اس کی نعمتوں کی قدر نہیں کی اسی لئے وہ قرآن عظیم جیسی نعمت اور رحمت سے محروم ہے۔ ٹھیک یہی حال نصاری کے ایک بڑے حصے کا بھی تھاجو تعلیمات قرآن کو اپنے افکار وخیالات کے برعکس تصور کرتا تھاچنانچہ یہ حضرات قرآن کریم کی ہدایت سے محروم رہے لیکن ان میں سے ایک ایسا صالح العقیدہ طبقہ تھا جس نے قرآن کریم کی آواز پر بڑھ کر لبیک کہاقرآن کریم نے انہیں محسنین کے لقب سے یاد کیا قرآن کریم میں ارشاد ہے

( فَأَثَابَهُمُ اللَّـهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ ) (سورہ المائدہ :۸۵)

پس ان کے اس قول کے صلہ میں اللہ نے ان کو ایسے باغ دیئے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اوریہ بدلہ محسنین کا۔

مولانا فرماتے ہیں کہ اس تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن مجید کے متعلق جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ہدایت ہے متقین کے لئے ،یہ ہدایت ہے محسنین کے لئے تو اس کا مفہوم اس سے کس قدر وسیع ہے جو ہم عام طور پرسمجھتے ہیںاس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس وجہ سے اس کا فہم و تدبر صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہےجو اس نعمت پر اللہ کے شکر گزار ہوں اور اس کی شکر گزاری یہ ہے کہ یہ جس مقصد کے لئے ان کو دی گئی ہے اس مقصد کو پورا کریںاس کو دینے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی عملی و اعتقادی زندگی پر اس کو پوری طرح طاری کریںجوں جوں وہ اس نعمت کے قدر و احترام میں بڑھتے جائیں گے اس قدر اس کی برکتیں ان کے لئے بڑھتی جائیں گی۔(۱۹)

___________________

۱۸۔ایضاً ص۷۵

۱۹۔ایضاً ص۷۹۸۰

۶۵

اس کے بعد مولانا نے تدبر قرآن کے داخلی اور خارجی وسائل سے بحث کی ہے لیکن مولانا نے خود بتایا کہ یہاں پہلے سوال کے ایک حصہ اور دوسرے سوال کے بعض ضروری پہلوؤں کی طرف بالاجمال اشارہ کیا گیا ہے ۔

پہلے سوال کے ایک حصہ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے بتایا کہ قرآن مجید کے فہم و تدبر کے لئے سب سے پہلی چیز خود قرآن کریم ہےسلف کا یہ مذہب رہا ہے کہ وہ تمام مشکلات میں پہلے قرآن کریم ہی کی طرف رجوع کرتے کیونکہ القرآن یفسربعضہ بعضا“اور قرآن نے خود اپنی صفت بتا ئی ہے مفرد الفاظ کے علاوہ اسالیب کلام و نحوی تالیف وغیرہ کے باب میں بھی قرآن مجید کا یہی حال ہےمولانا کہتے ہیں کہ ارباب نحو قرآن مجید کی جن ترکیبوں میں نہایت الجھے ہیں اور کسی طرح اس کو نہیں سلجھا سکے ہیں خود قرآن مجید میں ان کی مثالیں ڈھونڈ لیں تو ایک سے زیادہ مل جائیں گی اور پیش و عقب کے ایسے دلائل و قرائن کے ساتھ مل جائیں گی کہ ان کے بارے میں ہمارے اطمینان کو کوئی چیز مجروح نہیں کر سکتی اس کے علاوہ قرآن مجید کی تعلیمات ،اس کے تاریخی اشہارات اور اس کی مخفی تعلیمات کے سلسلے میں تمام مفسرین نے اعتراف کیا ہے کہ قرآن کریم نے دوسرے مقامات پر اس تفسیر اور تصریح بیان کی ہے ۔

قرآن کریم کی تفسیر کے سلسلے میں مولانا کا خیال ہے ہے تفاسیر کو ہرگز مقدم نہ رکھا جائےتفاسیر دو طرح کی ملتی ہیںایک تو کسی مکتب فکر کی نمائندگی کرتی ہیں یاتو روایات اور اقوال سلف کے تمام رطب ویابس کا مجموعہ ہیںمولانا کا خیال ہے کہ قرآن کریم کا طالب علم ہرگز ان تمام تفاسیر کے چکر میں نہ پڑیںورنہ اس کی تحقیق اور جستجو کا سلسلہ منقطع ہو جائے گاپہلے کسی نتیجہ تک پہنچنے کے بعد ان تفاسیر کا رخ کرے،انشاء اللہ روایات سے ضرور اس کی تائید ہو گیاگر روایات سے تائید نہ ہو رہی ہو تو دوبارہ اپنے خیال اور روایات کو سامنے رکھ کر غور کرے،انشاء اللہ یاتوآپ کی رائے کی کمزوری کا پہلو واضح ہو جائے گایا حدیث کا صنعف منظر عام پر آجائے گالیکن ان مقامات پر عجلت کی نہیں بلکہ توقف کی ضرورت ہے اس طرح دھیرے دھیرے ضرور وہ حکمتوں اور معارف کے خزینوں کو پالے گا۔

۶۶

مولانا نے فہم قرآن کے متعلق یہ بھی بتایا کہ طالب قرآن کے لئے ضروری ہے کو وہ عید نزول قرآن،قدیم عرب اور ان سے متعلقہ اقوام کی تاریخ سے واقف ہو کیونکہ قرآن کریم بے شمارآیات انہی موضوعات سے متعلق ہیںکیونکہ ان کے بغیر قرآن کریم کی تاثیر پورے طور سے منظر عام پر نہیں آسکتی(۲۰) مولانا فرماتے ہیں اس عہد کی تمدنی حالت ،اس عہد کے سیاسی رجحانات،اس زمانے کے مذہبی عقائد و تصورات اور اخلاقی معیارات وغیرہ،نیز زمانہ نزول میں مختلف قوموں کے تعلقات کی رعیت،ان کے دستورومراسم کی کیفیات،ان کے اصنام کی خصوصیات اور تمدن وسیاست پر ان کے اثرات وغیرہ(۲۱) پر قرآن کریم پر غور کرنے والی کی نظر ہونا بہت ضروری ہےایسی کوئی تفسیر ہے جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کر سکے؟اس کے علاوہ عرب کی جو تاریخ موجود ہیںوہ ناقابل اعتبار ہیں اس لئے اس باب میں جو کچھ قرآن میں موجود ہے اسی پر اعتماد کیا جائے اس سلسلے میں مولانا نے اپنے استاذگرامی کا حوالہ دیا ہے کہ اس باب میں ان کی تفسیر سورہ فیل!(۲۲) ایک اعلیٰ نمود کا درجہ رکھتی ہے مولانا لکھتے ہیں ”اس معاملہ میں استاذ امام مولانا حمید الدین صاحب قراہی کے طریق فکر ونظر کا اندازہ کرنے کے لئے سورہ فیل کی تفسیر پڑھنی چاہیے اس سے معلوم ہو گا کہ ان کا اصلی اعتماد ،قرآن مجید کے اشارات اور کلام عرب پر ہوتا ہے،اور تاریخ کی روایات کو وہ ہمیشہ انہی دونوں کسوٹیوں پر پرکھ کر قبول کرتے ہیں اور حق یہ ہے کہ اس باب میں ان دوچیزوں کے سوا کسی تیسری چیز سے مشکل ہی سے مدد ملتی ہے۔(۲۳) آگے مولانافرماتے ہیں قرآن مجید کی زبان اور اس کے اسالیب کی مشکلات حل کرنے میں تین چیزیں کتاب لغت اور کلام عرب،کتب نحو اور کتب بلاغت معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

___________________

۲۰۔وضاحت کے لیے دیکھیےص۸۴۹۰ ---------------- ۲۱۔ایضاً ص۹۰

۲۲۔مولانا کی یہ تفسیر جزوی طور پر اور دیگر تفسیری اجزاء کے ساتھ شائع ہو چکی ہے دیکھیے تفسیر نظام القرآن حمید الدین قراہی (ترجمہ از امین احسن اصلاحی) دائرہ حمیدیہ مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم ۱۹۹۰ء ء ص۳۶۳۴۱۰ مولانا کی یہ تفسیر اہل علم کے نزدیک ہمیشہ معرض بحث بنی رہی اس سلسلے میں دیکھیے مولانا فراہی فیل پر اعتراضات کا جائزہمولانا نسیم ظہیر اصلاحی مجلہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ۶ /۲، اپریل جون ۱۹۷۸ء ص ۲۸۱۹۶

۲۳۔تدبر قرآن ص۹۱

۶۷

کتب لغت میں سب سے زیادہ اہم مولانا نے”لسان العرب“ کو قرار دیا ہے یہ لغت قرآن مجید کے سلسلے میں ارباب تاویل کے اقوال نقل کردیتا ہے ،اس سے بچنے کی ضرورت ہے،کیونکہ اس سے لغت کا مفہوم فوت جاتا ہےاس کے بعد مولانا نے امام راغب کی مفردات القرآن کا ذکر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ لغت بھی قرآن کے سلسلے میں زیادہ حقیر نہیں ہے بلکہ یہ صرف مبتدیوں کے لئے ہے کیونکہ اس میں نہ تو سارے الفاظ ملتے ہیں اور نہ ہی کلام عرب سے استشہاد پیش کیا گیا ہےمولانا کہتے ہیں کہ ایسا کوئی لغت نہیں ہے جس میں بہ صراحت ہو کہ بہ لفظ خالص عربی ہے ،یامولداس کے معنی کیا ہیں اور اس کے معانی میں سے کس پر اس کا اطلاق حقیقتہً ہے اور کن پر اطلاق مجاز(۲۴) صرف ” صحاح جویری“(۲۵) میں کہیں کہیں یہ چیز ملتی ہے مگر بہت کم لفظوں کے حقائق کااندازہ صرف کلام عرب اور اسالیب کلام سے لگایا جاسکتا ہے اور انہی دونوں چیزوں کے ذریعہ الفاظ کے معروف اور شاذ معانی کا پتہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ وہی ہوگاکہ”تمنی“ کے معنی تلاوت کرنے کے اور”نحر“ کے معنی سینہ پر ہاتھ باندھنے کے لئے جائیں گےمولانا قراہی کا انس سلسلے میں تمام تر انحصار کلام عرب تھاوہ اگر کسی لفظ کے باب میں متردد ہوتے تو کلام عرب اور قرآن مجید میں اس کا حل تلاش کرتے۔(۲۶) اس سلسلے میں مولانا کی دو کتابیں ” اسالیب القرآن“(۲۷) اور ”مفردات القرآن“(۲۸) بڑی عظمت کی حامل ہیں۔ قرآن کریم کی نحوی مشکلات کے سلسلے میں مولانا نے بتایا کو اس سلسلے میں کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس کی طرف اشارہ کیا جاسکےارباب تفسیر میں تنہاز مُحشری ہیں جنہوں نے اپنی تفسیرمیں نحوی مسائل سے بحث کی ہے مولانا نے اس باب میں ایک گرانقدر بات یہ کہی ہے کہ قرآن کریم کے طلبہ کو چاہیے کہ وہ کلام عرب پر اعتماد کریں

___________________

۲۴ایضاً ص۹۱۹۲ -- ۲۵صحاج جوہری بحوالہ تدبر قرآن ص۹۱۹۲ ----- ۲۶مبادی تدبر قرآنمولانا امین احسن اصلاحی مرکزی انجمن خدام القرآنلاہورباب چہارم ۱۹۸۰ء ص۶۰

۲۷ ” اسالیب القرآن“پر دیکھیے قرآن مجید کے بعض اسالیب سے متعلق مولانا فراہی کی توصیحاتایک مطالعہ مولانا تعلیم الدین اصلاحی (علامہ حمید الدین فراہی ،حیات و افکار، ۱۹۹۲ء انجمن طلبہ قدیم مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم گڑھیوپی انڈیاص۳۸۷۴۰۱

۲۸مفردات پر خاکسار کامضمون دیکھیے

۶۸

اسی طرح مولانا نے یہ بھی بتایا کہ میری نظر میں ایسی کوئی کتاب نہیں جس میں قرآنی بلاغت سے بحث کی گئی ہو(۲۹) البتہ اس موضوع پر امام باقلانی(۳۰) کی خدمات قابل قدر ہیں اسی طرح ابن تیمہ امداد بن قیم کی تصانیف میں بھی کچھ ہوجواہر ریزے مل جاتے ہیں اور مولانا کی کتاب پر ”جمیرةالبلاغہ“(۳۱) اس سلسلہ کی آخری اور سب سے زیادہ اہم چیز ہے(۳۲) یہ کتاب قرآنی بلاغت کو سمجھنے میں حد درجہ معاون ہے۔ اس مقالہ کے آخر میں مولانا نے بتایا کہ قرآن کریم کے طالب علم کو دیگر آسمانی کتب کا مطالعہ بھی ضرور ی ہے تاکہ قرآن کریم کی ایک آخری آسمانی کتاب کی حیثیت سے عظمت منظر عام پر اس کے نیز اہل کتاب کے اعتراضات کا علمی اور مُسکت جواب اسی وقت ممکن ہے جب کسی کو توریت اور انجیل پرگہری نظر ہوان کتابوں کے مطالعہ سے ایک دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اہل کتاب کے باب میں جو اشارات اور تلمیحات ہیں انہیں بخوبی سمجھنے میں آسانی ہو گیخود قرآن کریم کی بہت سی آیات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ان آسمانی صحیفوں کا مطالعہ کیا جائے مثلاً ارشاد باقی ہے:

( وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ) (سورہ الانبیاء:۱۰۵)

ہم نے زبور کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث صالح بندے ہوں گے۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :( إِنَّ هَـٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ ) (سورہ الاعلیٰ:۱۸۔۱۹)

بیشک یہ بات پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے ابراہیم اور موسی کی کتابوں میں۔

___________________

۲۹۔تدبر قرآن ص۹۵۹۶ ----۳۰۔وضاحت کے لیے دیکھیے ”اعجاز القرآن الباقلانی ابوبکر محمد بن الطیب(تحقیق،السید احمد صفر) دارالمعارف مصر(بدون تاریخ) ص۷۲

۳۱وضاحت کے لیے دیکھیےجمرة البلاغہالمعلم عبدالحمید القراہیالدائرة الحمدیہ،اعظم گڑھ،الہند ۱۳۶۰ئھ ص۱۸۸

۳۲۔”جمرة البلاغہ“ پر دیکھیے؛ مولانا فراہی کے تنقیدی نظریاتجمرة البلاغہ کی روشنی میں پروفیسر محمد راشد ندویص۵۳۳۵۷۶(علامہ حمید الدین فراہی ؛حیات افکار) نیز دیکھیےمولانا فراہی اور شعریات مشرق،ڈاکٹر عبدالباریص۵۴۷۵۶۱(علامہ حمید الدین فراہی حیات وافکار)

۶۹

کتب سابقہ سے ایک قرآن کا طالب علم متعدد فوائد حاصل کر سکتا ہے لیکن ان کتابوں کے باب میں اصل معیار اور کوئی قرآن کریم ہی کو بتایا جائے گامولانا حمید الدین قراہی نے ایک طرف جہاں ان کتابوں سے فائدہ اٹھایا وہیں قرآن کی روشنی میں ان کی تحریف کی طرف اشارہ کرتے ہیں(۳۳) اس سلسلے میں مولانا کی کتاب ”الذبیح“(۳۴) بطور مثال ملاحظہ کی جاسکتی ہے اسی طرح علامہ ابن تیمہ کے یہاں بھی ان کتابوں کا ذکر ملتا ہے۔ اس کتاب کا تیسراباب تیسیرالقرآن ہے ،آغاز بحث میں مولانا نے فرمایا کہ قرآن نے خود مختلف جگہوں پر اپنی تعریف بیان کر دی ہے کہ وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے اللہ نے اسے آسان بنایا ہےوہ پیچیدگیوں سے پاک ہےاور ہر چیزکو وضاحت سے بیان کرتی ہے قرآن کی اس تعریف کی روشنی میں یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن میں کوئی چیز گنجلگ نہیں ہے تمام لوگوں کے لئے کتاب ہدایت ہے اسی لئے محتاج تفسیر تاویل نہیں اس کا انداز اتنا شگفتہ ہے کہ وہ اپنے سوا کسی چیز کا محتاج نہیں قرآن دانی کے لیے عربی زبان دانی کافی ہے اور وہ تفسیر آیات میں احادیث،شان نزول اور لغت عرب کا محتاج نہیں ہےیعنی وہ بالکل واضح ہے تفسیر آیات کے لئے صرف عربی زبان کا جاننا کافی ہے مذکورہ خیال کی روشنی میں تین چیزیں سامنے آتی ہیں۔

ایک تو یہ کہ چونکہ تمام طبقوں کے لئے صحیفہ ہدایت ہے اس لئے قرآنی تعلیم دعوت کا معیار عام عقل انسانی کے معیار کے مطابق ہے اس کے اسرار و رموز کی وضاحت کے لئے خواص کی ضرورت نہیںدوسرے یہ کہ قرآن کریم کی ہر بات چونکہ قطعیت کا درجہ رکھتی ہے اس لئے اس کی وضاحت کے لئے تفسیر و تاویل کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا انحصارظنیات یعنی روایات و احادیث پر ہوتا ہے اور تیسرے یہ چیز سامنے آتی ہے کہ قرآن کریم اپنے زبان وبیان کے لحاظ سے اس قدر شگفتہ ہے کہ ایک عجمی کے لئے صرف عربی زبان کے علم کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیںمولانا کا خیال ہے کہ ان آراء کے پیچھے بہت سی غلطیاں پوشیدہ ہیں جن کو آگے چل کر واضح کریں گے۔

___________________

۳۳۔وضاحت کے لیے دیکھیےتدبر قرآنص۹۶۱۰۰

۳۴۔ذبیح کون ہے حمید الدین فراہی(ترجمہ امین احسن اصلاحی) طبع اول دائرہ حمیدیہ مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ(بدول تاریخ)ص۱۱۸۵

۷۰

اس سلسلے میں مولانا سب سے پہلے تفسیر کے مختلف ادوار کی طرف اشارہ کیااور بتایا کہ قرآن کریم کا سب سے مبارک دور دوراول تھالیکن بعد میں جب دائرہ اسلام کشادہ ہوا اور مختلف بدعات وخطرات سے قرآنی تعلیم دوچار ہوئی تو اہل سنت اور اہل حق نے یہ طے کیا کہ تفسیر قرآن کے باب میں یہ تمام قیل وقال سے قطع نظرصرف احادیث رسول اور افوال و آثار صحابہ پر اعتماد کیا جائے گااس اصول کے پیش نظر سب سے پہلے جو تفسیر منظر عام پر آئی وہ علامہ ابن جریر کی تفسیر ہے ایک آیت کی تفسیر کے لیے تمام روایات نقل کر دی گئی ہیںلیکن روایات کے سلسلے میں کوئی تنقید نہیں ہے جس کی وجہ سے ان میں جو جواہر ریزے ہیں وہ منکر اور ضعیف روایات کے انبار میں گم ہیںلیکن پھر بھی مولف کی یہ بہت بڑی خدمت ہے ۔

اس کے بعد سب سے زیادہ مقبول اور مشہور تفسیر ابن کثیر کی ہے جو تفسیر ابن جریر کا خلاصہ ہے اس میں ایک اضافہ ہے کہ محدثانہ طریق پر اس میں روایات کی تنقید کی گئی ہے اس کے بعد تفسیر کی بنیادی کتاب امام رازی کی ہے جوحکیمانہ طرز پر لکھی گئی ہے اصلاًیہ تفسیراشعریت کی تائید و توثیق کے لئے لکھی گئی ہے جس کی وجہ سے مفید کی بجائے مضر ثابت ہوئی اس کے بعد تفسیر کی چوتھی اہم کتاب علامہ زمحشری کی تفسیر کشاف ہے یہ تمام مذکورہ تفاسیر سے جداگانہ ہے یہ اپنا محور عبارت قرآن کو بتاتے ہیں یہ پہلے لغت اعراب اور ربط کلام سے بحث کرتے ہیں اور نہایت احتیاط کے ساتھ روایات بھی لاتے ہیںیہ تفسیر قرآن کریم کے طلبہ کے لئے مفید ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ جس طرح امام رازی اشعریت کے ممدو معاون ہیں اسی طرح علامہ زمحشری مذہب اعتدال کے وکیل ہیںقرآن کریم کے ساتھ یہ حددرجہ نا انصافی ہے کہ اس کے پیچھے چلنے کے بجائے آدمی اس بات کی کوشش کرے کہ اس کو خود اپنے کسی فکر وخیال کے پیچھے چلائے۔

تفسیر کی یہی بنیادی کتابیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دور اول کے بعد تفسیر قرآن کی راہ میں جوہ پہلا قدم اٹھایاگیا وہی غلط تھااس کے سدباب کے لئے روایات و آثار کاسہارا لیاگیالیکن اس درجہ انہماک ہو ا کہ صحیح اور ضعیف کا امتیاز مٹ گیااور روایات کے ساتھ ساتھ قصوں اور اسرائیلیات کا ایک بڑا حصہ تفاسیر میں داخل کر دیا گیا۔(۳۵)

___________________

۳۵۔وضاحت کے لیے دیکھیےتدبر قرآنص۱۰۳۱۱۲

۷۱

اس کے متعلق مولانا کا خیال ہے ظاہر ہے کہ تفسیر میں صرف روایات ہی پر پورا پورا اعتماد کر لینا قرآن مجید کی قطعیت کو نقصان پہنچانا ہے اس صورت میں خود قرآن مجید کے الفاظ کا فیصلہ باطل ہو جاتا ہے(۳۶) مذکورہ گفتگو سے دو چیزیں منظر عام پر آتی ہیں ایک تو یہ کہ تفاسیر کا تمام تر انحصار صدر اول کے بعد روایت و آثار پر ہو گیا اور دوسرے یہ کہ علم کلام کے علو م نے قرآن مجید کی قطعیت کو حد درجہ متاثر کیا یعنی قرآن کریم کے الفاظ پر اعتماد کرنے کے بجائے متکلمین کی برہانیات پر اعتماد شروع ہو گیا۔(۳۷)

اس کے بعد مولانا نے کلام کے مشکل اور آسان ہونے کے تین پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے اس پہلو سے بحث کی ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا مقصد کیا ہے چونکہ روز اول ہی سے بنی نوع انسان کو شیطان کے مکرو فریب کا سامنا کرنا پڑا اس لئے شیطان کی جعل سازیوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مستقل اپنے انبیاء ورسل کے ذریعہ ہدایات بھیجنے کا انتظام کیا اور خاتم الرسول حضرت محمد مصطفی کو آخری صحیفہ ہدایت قرآن کریم عطا کیا گیا قرآن کریم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان ہدایت کے راستوں پر گامزن ہوجائےاللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو شیطان کی چالوں سے بچنے کے لئے اس طرح تسلی دی۔

( فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ) (سورہ بقرہ:۳۸)

اگر میری جانب سے کوئی ہدایت آئے تو تم اس کی پیروی کرنا جس نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کے لئے نہ خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں۔

___________________

۳۶۔ایضاً ص۱۱۲

۳۷۔ایضاً ص۱۱۹ ۳۸۔وضاحت کے لیے دیکھیےایضاًص۱۲۶۱۴۲

۷۲

اس کے بعد مولانا نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ جن و بشر میں سے جو بھی ہدایتکے راستہ سے لوگوں کو دور کرے وہ شیطان ہے یعنی یہ شیاطین انسانوں میں بھی پائے جاتے ہیںقرآن کریم کی اصطلاح میں شیطان کا مفہوم بہت وسیع ہے انسانی شیاطین کی طرف قرآن کریم نے خود اشارہ کیا ہے

( الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ) (سورہ الناس:۵،۶)

جو لوگوں میں وسوسہ ڈالتا ہے جنوں میں سے اور انسانوں میں سے ۔

سورہ بقرہ میں ارشاد ہے:

( وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ ) (سورہ البقرة:۱۴)

جب وہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں(سرداروں)کے پاس ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

مولانا لکھتے ہیں کہ ایک ضمنی بحث تھی اصلاً بتانا یہ ہے کہ قرآن کا نزول کن مقاصد کے پیش نظر ہوا ہے قرآن کریم میں یہ چیز صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ نبی کو اس دنیا میں تین چیزوں کے لئے مبعوث کیا گیا۔

۱ تلاوت آیات ۲ تزکیہ ۳ تعلیم کتاب

تلاوت آیات: آیت کے مختلف مفاہم قرآن کریم میں موجود ہیں جس کا ایک مفہوم دلیل او حجت بھی ہے یہاں پر آیات سے مراد قرآن مجید کا وہ حصہ ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے دلائل و براہین پر مشتمل ہے قرآن کی جو آیات ابتداء میں نازل ہوئیںفقہی احکامات سے بالکل خالی ہیں اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تھاابتداء میں صرف دین اسلام کے اساسی مسائل سے بحث ہےجس سے اسلام کا پورا نظام سامنے آجاتا ہے بعد میں دین اسلام کی تمام جزئیات مدلل طریقہ سے بیان کی گئی ہیں۔

۷۳

تلاوت آیات کے بعد جب انسانی قلوب سے بدعات و خرافات اور باطل خیالات خارج ہو جاتے ہیں تو تزکیہ کی نوبت آتی ہے یعنی انسان کے دل میں صحیح خیالات و عقائد اپنی جگہ بتانا شروع کر دیتے ہیں تلاوت آیات کے بعد ہی انسان کے اندر جو فطری روشنی موجود ہے اس کے ذریعہ وہ سیاہ و سفید میں تمیز کرنے لگتا ہے اس روشنی کا ذکر قرآن میں اس طرح ہوا ہے ۔

( بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ) (سورہ القیامة :۱۴)

بلکہ انسان اپنے نفس پر خود بصیرت رکھتا ہے ۔

یہی چیز دوسرے مقام پر اس طرح مذکور ہے:

( فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ) (سورہ الشمس:۸)

پس اُس کوالہام کی گئیں اس کی بدیاں اور اس کی نیکیاں۔

آگے مولانا فرماتے ہیں کہ جو لوگ دنیاوی لذت اور شہوات میں منھمک ہو کر اپنی اس فطری قوت اور فطری روشنی کو کھو دیتے ہیں تو قرآنی آیات اور پیغمبرانہ ارشادات اس کے لئے لاحاصل ہوتے ہیں کیونکہ وہ روحانی اعتبار سے مردہ ہو چکا ہوتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

( إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ ) (سورہ نمل:۸۰)

آپ مردوں کو نہیں ستا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں

۷۴

جن کے دلوں میں یہ روشنی ہوتی ہے خواہ وہ کتنی ہی دھندلی ہو پیغمبر تلاوت آیات سے اسے روشن تر کردیتا ہےیعنی پیغمبر تزکیہ فطرت کے مطابق کرتا ہے مولانا کا خیال ہے کہ تزکیہ صرف مفرد اور سادہ عمل کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کئی اجزاء کا مرکب ہے اس کا موضوع نفس انسانی ہے جو دوچیزوں یعنی علم اور عمل کا مجموعہ ہے اس لئے تزکیہ کے بھی دو پہلوہیں تزکیہ علم اور تزکیہ عملتزکیہ علم کامطلب یہ ہے کہ وہ تمام کثافتوں اور آلودگیوں سے اتنا دور ہو کہ شیاطین کی فتنہ انگیزیاں اس پر اپنا اثر نہ رکھاسکیں اور کبھی وہ خواہشات نفس کا شکارہو جائے تو تنبیہ ہوتے ہی اس سے باز آجائے اور تو یہ دانابت سے اس کی تلافی کرے ایسے لوگوں کے قرآن کریم میں آیا ہے

( إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ ) (سورہ اعراف:۲۰۱)

جو ڈر رکھتے ہیں اگر ان کو بھی شیطان کی چھوٹ لگ جاتی ہے تو وہ فوراً متنبہ ہوتے ہیں اور پھر دفعتہً ان کو نظر آنے لگتی ہے ۔

آگے مولانا یہ فرماتے ہیں کہ ایک صالح علم کے لئے مستقل اللہ سے دعا مانگنی چاہیے خود پیغمبر جس کی فطرت علم وعمل کی مافوق العادت قوتوں اور قابلیتوں کا خزانہ ہوتی ہے وہ بھی ان آیات کا تزکیہ کے لئے محتاج ہوتا ہے یہ آیات اس کے دلوں کو کھول دیتی ہیںاور وہ عشق آیات میں بیتاب ہو کر ”رب زدنی علما“ کا ورد کرنے لگتا ہے اس کی بے خودی اور عجلت کا یہ حال ہوتا ہے کہ معلم غیب کی زبان سے اس کو”لاتعجل بالقرآن“ کا محبت امیز عتاب سننا پڑتا ہے ۔

جس قرآن عظیم کا یہ رتبہ ہو اس کے متعلق یہ بد گمانی مناسب نہیں کہ وہ صرف چند قوانین ،وعظوں اور قصوں کا ایک منتشر مجموعہ ہے اور جس کو سمجھنے کے لئے تفکر وتدبر کی ضرورت نہیں ہے مولانا تعلیم آیات کے سلسلے میں نتیجہ یہ پیش کرتے ہیں”اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ پیغمبر پہلے تلاوت آیات کے ذریعے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے۔ فطرت کے مدفون خزانوں کو ابھارتا ہے الٹے ہوئے چشموں کو جاری کرتاہےدبی ہوئی صلاحیتوں کو نمایاں کرتا ہے چونکہ فساو علم کی جڑ شرک اور فساو علم کی جڑ انکار حصار ہے اس لئے سب سے پہلے توحید وحصار کی تعلیم کو دلوں میں راسخ کرتا ہے

۷۵

اور جب ان سے فارغ ہو چکتا ہے تو تعلیم کتاب کا باب شروع کردیتا ہے(۳۹)

اس کے بعد مولانا نے تعلیم کتاب پر روشنی ڈالی ہے اور یہ بتایا ہے کہ تعلیم کتاب سے قرآن مجید مراد ہے لیکن اس سے پورا قرآن مقصود نہیں ہے کیونکہ آگے حکمت کی بحث آرہی ہے تعلیم کتاب سے وہ حصہ مراد ہے جو احکام و قوانین سے متعلق ہے۔ کتاب کا متعدد مفہوم قرآن کریم میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً آسمانی کتاب،اللہ کا قرار دادہ فیصلہ،شرائع وقوانین ،اللہ کے قرار دادہ فیصلوں کا دفتر اور اعمال نامے وغیرہلیکن یہاں تعلیم کتاب سے مراد قرآنی احکام و قوانین ہیں۔ اس مفہوم میں قرآن کریم کی متعدد آیات موجود ہیں مثلاً

( كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ ) ( وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ۚ ) ( وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ )

اس کے بعد مولانا نے فرمایا کہ تعلیم الہیٰ حکمتوں پر مبنی ہوتی ہے پہلے اس نے فطرت کے تقاضوں کے مطابق دلائل کے ذریعہ سے ہم کو غیر فطری آلودگیوں سے پاک نہ کرلیا اس وقت تک قوانین کی اطاعت کی ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی۔(۴۰)

تعلیم کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا نے بتایا کہ ”تمام شریعت کا سرچشمہ فطرت کے چند بنیادی حقائق ہیںجس طرح ایک سے سو اور ہزار وجود میں آتے ہیںاسی طرح چند بنیادی حقائق کے لوازم و نتائج کے طور پر دین کا سارا عملی واعتقادی نظام وجود میں آتا ہے اسی وجہ سے دین اسلام کو دین فطرت کہا گیا ہے۔(۴۱) اور آگے ایک دوسری چیز یہ بتائی کہ ”دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شرائع و احکام حقیقت میں تزکیہ کے جزئیات ہیں یہ تزکیہ کو کامل اور روشن کرتے ہیںاللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت سے ایمان پیدا ہوتا ہے اور عمل کے ذریعہ سے بندہ اس ایمان کو بڑھاتا ہے۔(۴۲)

___________________

۳۹۔ایضاً ص۱۴۳ -------- ۴۰۔ایضاً ص۱۴۳۱۴۶

۴۱ایضاً ص۱۴۶ -------- ۴۲۔ایضاًص۱۴۷

۷۶

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

( إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنكَرِ )

نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔

قربانی کی بابت قرآن کریم میں ارشاد ہے :

( لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ ) (سورہ الحج:۳۷)

خدا کو قربانی گوشت اور خون نہیں پہنچے گابلکہ تمہار تقوی ٰپہنچے گا۔

اس کے بعد مولانا نے ”حکمت“ سے بحث کی ہے کہ آیت میں حکمت سے مراد حکمت قرآن ہے یاحدیثمولانا نے دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہاس سے مراد حدیث نہیں بلکہ حکمت قرآن مراد ہے کیونکہ متعدد آیات میں حکمت کے لئےیُتْلیٰ اُنْزِل اوراٰوحیِ کے الفاظ آئے ہیں جس کا استعمال حدیث کے لئے قرآن میں کہیں نہیں ہوا ہے مثلاً

( وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ ) (سورہ النساء:۱۱۳)

اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور وہ باتیں سکھائیں جو تم نہیں جانتے تھے۔

دوسری جگہ ہے :

( وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ ) (سورہ الاحزاب:۳۴)

تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت پڑھی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔

۷۷

ایک تیسری جگہ ارشاد ہے:

( ذَٰلِكَ مِمَّا أَوْحَىٰ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۗ ) (سورہ الاسراء:۳۹)

تمہارے رب نے تمہارے پاس جو حکمت وحی کی ہے یہ اس میں سے ہے۔

اس کے علاوہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کے دلائل و براہین کو حکمت بالغہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور خود قرآن حکیم اور کتاب حکیم وغیرہ کہا گیا ہے مثلاً

”حکمة بالغة فماتغن النذرویٰسیں والقرآن الحکیم“

حضرت عیسی کی متعلق فرمایا گیا:

( وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ۖ ) (سورہ المائدہ:۱۱۰)

یاد کرو جب ہم نے تم کو کتاب حکمت تورات اور انجیل کی تعلیم دی۔

یہاں پر ہر کتاب اور حکمت کے بعد تورات اور انجیل بطور تشریح کے آئے ہیں کتاب کا لفظ تورات کے لئے اس لئے آیا ہے کہ یہ احکام و قوانین پر مشتمل ہے اور حکمت کا لفظ انجیل کے لئے اس لئے آیا ہے کہ یہ دلائل ونصائح پر چلتی ہے ۔(۴۳)

مذکورہ وجود کی بنا پر حکمت سے حدیث مراد لینا مناسب نہیں ہے آگے مولانا نے مولانا قراہی کتاب ”حکمت قرآن“ سے ایک طویل اقتباس کے ذریعہ لفظ حکمت کی لغوی تحقیق پیش کی ہے ۔(۴۵) مذکورہ بالا بحث کے بعد مولانا اس پہلو پر آتے ہیں

___________________

۴۳۔ایضاًوضاحت کے لیے دیکھیےص۱۴۹۱۵۶”حکمت قرآن“ کا اردو ترجمہ شائع ہو چکا ہے (ترجمہ از خالد مسعود)طبع اول قاران فاونڈیشنلاہور ۱۹۹۵ء

۴۴۔ص۱۱۴۱ --------- ۴۵۔حکمت قرآن امام حمید الدین فراہی(اردو ترجمہ) ص۱۴

۷۸

کہ وہ احکام و قوانین کا مجموعہ ہی نہیںاس کے متعلق یہ خیال درست نہیں کہ بغیر تفکر وتدبر کے اس کی حکمتوں تک پہنچا جاسکتا ہے اور اسے سمجھنے کے لئے صرف زبان عربی کا جاننا ہی کا فی ہے یہ بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ احکام وقوانین کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اندر ایک عمبق فلسفہ اور گہری حکمت بھی رکھتاہے جس تک رسائی کے لئے صرف تیرنا ہی کافی نہیں بلکہ ڈوبنے کی بھی شدید ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ایک ایک سورہ اور ایک ایک آیت پر سالوں سال اور گھنٹے صرف کرتےاورقرآن پر غوروخوض کے لئے وہ مجلسیں قائم کرتےخود سرورکائنات اس طرح کی مجلسوں کے قیام کے لئے صحابہ کرام کو شوق دلاتے(۴۵) ابو داود میں ذکر ہے ۔

”مااجتمع قوم فی بیت من بیوت الله یتلون کتاب الله ویتارسونه بینهم الانزلت علیهم السکینة وغشیتهم الرحمة وحقتهم الملائکة وذکرهم الله فیمن عنده“ (۴۶)

جو لوگ کسی جگہ متہد ہو کر اللہ کی کتاب پڑھنے اور باہم درس و مذاکرہ قرآن کی مجلسیں قائم کرتے ہیںان پر اللہ کی طرف سے تسکین اور رحمت کی بارش ہوتی ہے اور ملائکہ ان کو ہر طرف سے گھیرے کھڑے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے حلقہ میں ان کا ذکر فرماتا ہے ۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر کے بارے میں آتا ہے :

”عبدالله بن عمر مکث علی سورة البقرة ثمانی سنین یتعلمها“ (۴۷)

حضرت عبداللہ بن عمر مسلسل آٹھ برس تک سورہ بقرہ پر تدبر فرماتے رہے۔ اس کے علاوہ خود قرآن کی بیشتر سورتوں میں مختلف انداز سے تفکر تدبر کی دعوت دی گئی ہےکہیں( لعلکم تعقلون ) کہیں( لعلکم تفکرون ) اور کہیں( لعلکم تذکرون ) آیا ہے فہم قرآن مجید کے لئے ایک ضروری شرط کی طرف یوں اشارہ کیاگیاہے ۔

___________________

۴۶۔بنابر قولص۱۶۰۱۶۱

۴۷۔ابو داؤد بخاری اور مسلم دونوں میں یہ روایت موجود ہے

۷۹

( إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ) (ق:۳۷)

بیشک اس میں یاددہانی ہے اس شخص کے لئے جس کے پاس دل ہو بامتوجہ ہو کر بات پر کان دھر لے۔

مولانا فرماتے ہیں کہ فہم قرآن کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ انسان کے پا س بیدار دل ہو اور سننے والا کان ہو بغیر اس کے قرآنی حکمتوں سے فیضیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔(۴۸) مولانا فرماتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا ہونا لازمی ہے یاتو آدمی کے سینہ کے دروازے کھلے ہوئے ہوں اور فہم وادراک کی روشنی اس کے اندر زندہ ہو یایہ کہ اپنے کانوں کو وہ اس کے لئے کھول دے اورطبیعت کی آمادگی کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرےجو حضرات دونوں باتوں سے محروم ہیں وہ قرآن مجید کے فیض سے محروم ہیںان لوگوں کی تصویر سورہ محمد میں ان الفاظ میں کھینچی گئی ہے۔(۴۹)

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا )

کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں ۔

اسی بحث کو مولانا نے آگے بڑھاتے ہوئے ”ولقدیسّرنا القرآن کی صحیح تاویل“ پیش کی ہے کہ قرآن کریم ایک سیدھی سادی کتاب ہے یہ احکام و قوانین اورپندو موعظت پر مشتمل ہے اس کی ایک ایک سورہ پر آٹھ آٹھ برس سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے ؟اس کے لئے روایات ،تفاسیر اور شان نزول کی کوئی حاجت نہیںمولانا فرماتے ہیں کہ اگر اس آیت پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا تو ہرگز ایسا نہ کہا جاتا بالعموم اس آیت کا مفہوم یہ بتایاجاتا ہے کہ حصول نصیحت کی غرض سے یہ کتاب آسان ہے جو ایک مناسب خیال ہے لیکن یہ بات ہرگز درست نہیں کہ حفظ کے نقطہ نظر سے آسان ہے۔(۵۰)

___________________

۴۸۔تدبر قرآنص۱۶۴۱۶۵ ------- ۴۹۔ایضاًص۱۶۵

۵۰۔ایضاًص۱۷۱۱۷۲

۸۰