حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر0%

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 174

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات: صفحے: 174
مشاہدے: 51578
ڈاؤنلوڈ: 3682

تبصرے:

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 174 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51578 / ڈاؤنلوڈ: 3682
سائز سائز سائز
حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

تالیف: محمد باقر مقدسی

۳

انتساب

اپنے شفیق اور مہربان والدین کے نام۔

۴

تقریظ:

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وآلہ الطاہرین.

اس عظیم اور بیمثال ہستی کو سلام ہو جو ناموسی الہی ہے عصمت اور طہارت کا مرکز ہے .مظہرالعجائب کے ہمتا ۔ اور علم ودانش کے دریا نیز صبر واستقامت کے پیکر ہے ۔

ہمارے مظاہر اسلامی ،معاشر ہ الٰہی اونچے اہداف تک پہنچنے اور مقدس آرمانوں کی تحقیق اور حصول کیلئے اپنے مکتب کے علمی اور عملی مثالی شخصیات کے پیروی کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس مسیر میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہاپیغمبر اکرم کی اکلوتی بیٹی ہونے اور ائمہ اطہار ٪ کی مادر گرامی ہونے کے حوالے سے نیز مکتب وحی میں تربیت یافتہ خاتون ہونے کے لحاظ سے چاہئے کہ رہبر شناسی اور الگوشناسی کے دفتر کا سرلوحہ قرار پائے، اگر مسلم معاشرے کے تمام افراد مرد اور عورت چھوٹے بڑے سب اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں حضرت زہرا ئے اطہر اور آپ کے فرزندان گرامی کی پیروی کریںگے تو یہ مسلم معاشرہ تمام جوامع انسانی پر برتری حاصل کرسکتا ہے۔

جب کہ دور حاضر میں ایسا نہیں ہے حال اینکہ اسلام کا دعوای ہے ''لیظہرہ علی الدین کلہ'' اور خاتم الادیان کے حوالہ سے اس دین کا قانون قرآن میں مکتوب اور اس کا عملی کردار اہل بیت اطہار ٪ کی ذوات مقدس میں متجلی ہے۔

اہل بیت اطہار ٪ میں حضرت زہرا کو محوری حیثیت ہونا کسی اہل علم ومعرفت سے مخفی نہیں ہے۔

۵

لہٰذا اس عظیم ہستی کی شخصیت اور مقام وعظمت کی کنہ اور انتہا تک رسائی ہونا کسی بھی عام انسان کی بس کی بات نہیں ؟لہٰذا تمام اہل معرفت اس بات کا اعتراف کرتے ہیں ۔

مرحوم شیخ محمد حسین غروی اصفہانی ایک عظیم محقق اور فیلسوف نیز مجتہداتنی عظمت اور شخصیت والی ہستی حضرت زہرا کے بارے میں فرماتے ہیں۔

وہم بہ اوج قدس ناموس الٰہہ کی رسد؟

فہم کی نعت بانوی خلوت کبریا کند؟

کیوں ایسا مقام حاصل ہے؟ کیوں انسانی فکر وخیال آپ کی عظمت درک کرنے سے عاجز ہے؟ اس سوال کے جو اب میں مفکر عظیم یوں کہتا ہے:

فیض نخست وخاتمہ نو ر جہان فاطمہ

چشم دل از نظار در مبداء ومنتہی کند

۶

فلسفہ وعرفان کی اصطلاح میں نخست یا فیض اول سے مراد علت غائی عالم امکان ہے اور اس شعر میں خاتمہ سے مراد کائنات کی انتہا اور انتہا تجلی قدرت وفیاضی باری تعالیٰ ہے۔

دوسرے مصرع میں علامہ کھلے الفاظ میں فرماتے ہیں کہ اگر دل کی آنکھوں سے فکر کے اعماق میں جاکر مبدء ومنتہی جو ذات باری ہے ان کا مطالعہ کریں تو تمام عالم وجود فاطمہ زہرا کے نور سے منور او ر جمال سے مزین نظر آتا ہے ۔

بہر حال یہ مصداق ''ما لا یدرک کلہ لایترک کلہ'' یا دوسری عبارت کے مطابق ''آب دیا ر را اگر نتوان کشید ہمہ بقدر تشنگی باید چشید''

ہمارے محققین اور بزرگان نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ابعاد شخصیت کو اپنے بساط علمی اور قوانین کے مطابق طالبان حقیقت کے سامنے قلمی شہہ پاروں کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس عظیم ہستی کے بارے میں اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں،ان کو اگر جمع کرے تو ایک عظیم الشان لائبریری بن سکتی ہے۔

میں اگرچہ عاصی ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ذریات رسول اور سادات میں شمار کرنا ان کی شان میں جسارت سمجھتا ہوں لیکن بہرحال اس انتساب کا شرف مجھے حاصل ہونے کے حوالہ سے میرا فرض بنتا ہے کہ فاضل مصنف حضرت حجة الاسلام والمسلمین آقای مقدسی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کروں کہ اس گرانقدر کتاب کو تالیف فرماکر ہماری والدہ گرامی کی خدمت میں خراج عقیدت پیش فرمایا اللہ ان کے قلم اورایمان میں اضافہ فرما۔

اس مجموعہ میں فاضل مصنف نے اپنی مخلصانہ کوشش اس مطلب پر معطوف رکھا ہے کہ مومنین ومومنات کے لئے معتبر روایات اور آیات کی روشنی میں حضرت زہرا کی سیرت کو بیان کریں ۔

اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مظلومیت نیزان کے گریہ وبکاء کے فلسفہ پر روشنی ڈالیں ۔

واقعاً یہ ایک اہم سوال ہے کہ پیغمبراکرم کی اکلوتی بیٹی اور سیدة النساء العالمین اپنی مختصر حیات میں اتنارویا کہ پانچ مشہور رونے والوں میں شمار ہونے لگیں۔

۷

یہ کیوں ہوا؟!!

مگرپیغمبر اکرم کے کتنی اولاد تھی جو آپ کے بعد امت کے لئے ناقابل تحمل ہوگئیں؟

کیوں حضرت زہرا کو راتوں رات غسل دیا گیا اور رات ہی میںدفن کیا گیا اور آپ کی قبر اب تک کیوں دنیا والوں سے مخفی ہے؟!فاضل محترم نے ان نکات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

یہ ایک عظیم معمہ ہے جس پر غور کرنا ہی حضرت زہرا کا مقصد تھا تاکہ اس تفکر اورغور کے نتیجہ میں امت اسلامی کو راہ حق کی طرف ہدایت ہواور حق وباطل میں تمیز ہوجائے۔

اس مختصر تالیف میں فاضل مصنف نے متعدد مقامات پر حضرت زہرا کی شخصیت وسیرت سے متعلق روایات کو نقل کرنے کے ساتھ انھیں ہمارے اسلامی معاشرہ سے مقائسہ کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم اسلام سے کتنے فاصلہ پر ہیں اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے اور ہم کس غربت وفساد میں غرق ہیں۔

بہرحال یہ ایک مخلصانہ کوشش ہے تاکہ حتی المقدور ایک مسلم دین اسلام کی ترویج میں اپنا وظیفہ ادا کرسکے، اور احیاء علوم آل محمد میں قدم اٹھائیں۔

مجھے امید ہے کہ قارئین کرام اس کتاب کا غور سے مطالعہ کرکے حضرت زہرا کی سیرت سے آشنائی حاصل کریں گے۔

خداوندعالم سے دعا ہے کہ فاضل مصنف کے اس عظیم القدر خدمت کو قبول فرماکر انھیں مزید قلمی میدان میں خدمات کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

آمین یا رب العالمین بحق محمد وآلہ الطاہرین۔

والسلام

مصطفی المو سوی

حوزہ علمیہ قم ایران

۸

مقدمہ

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

الحمد للّٰه رب العالمین والصلاة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وآله الطاهرین.

کائنات کا ہر ممکن الوجود واجب باالذات کا خواہاں ہے چاہے عرض ہو یا جوہر تب ہی تو پوری کائنات ممکن الوجود کی حیثیت سے حضرت حق کی تسبیح وتقدیس کرتے ہوئے نظر آتی ہے جمادات ہو یا نباتات ، خاکی ہو یا نوری مجرد ہو یا ماد ی لیکن اللہ تبارک وتعالی نے مخلو قات میں سے صرف انسان کو عقل وشعور جیسے نور سے منور فرماکر باقی تمام موجود ات پر انسان کو فوقیت اور عظمت دی لہٰذاانسان اشرف الموجودات ، اعظم المخلوقات کی شکل میں تکا مل وتر قی کی راہ میں رواں دواں ہے لیکن کائنات کی ہر شئی عقل جیسے نور سے محروم ہو نے کے باوجود رب العزت کے خاضع اور خاکساری کرتی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ انسان کے ساتھ عقل جیسا نور خلق کر نے کے علاوہ ان کے راہنما ئی اور کا میا بی کے راستوں کو معین کر نے کی خاطر انبیا ء اور اوصیا ء جیسی ہستیوں کو بھی مبعوث فرمانے کے باوجود نہ صر ف خدا کا خاضع نہیں ہے بلکہ وہم وخیال اور گمان پر مبنی تصورات کے نتیجے میں رب العزت کے منکر ین قائلین کی بہ نسبت کئی گنازیادہ مشا ہدہ میں آتے ہیں ۔

اگر چہ اللہ تبارک وتعالی نے ان کے بارے میں فرما یا ہے جو شہوات اور خواہشات کے تابع ہے وہ حیوانات سے بھی بدتر ہے جو عقل وشعور کا پیروکار ہے وہ فرشتوں سے بھی افضل ہے اسی لئے کا ئنات میں عقل وشعور اور صحیح معنوں میں اسلام کے تابع انبیاء اور چہار دہ معصومین ٪ کو سمجھا جا تا ہے جن کے صدقے میں خدا نے کائنات کو وجود دیا تا کہ انہیں حضرات کے ذریعے انسان ابدی زندگی کو آباد. دنیوی زندگی کو خوشگوار بنا سکے ، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ہماری زندگی آباد کر نے کا ملاک اورمعیار حضرت زہرا ( سلام اللہ علیھا ) کی سیرت ہے جس میں سیاسی، سماجی، علمی ، اقتصادی ، اخلاقی ،اعتقادی ، فقہی ...نکات پوشیدہ ہیں جن کو اگر مسلمان صحیح طریقے سے درک کرے تو مسلمانوں کی کا میا بی اور آپس میں یک جہتی کے لیئے یہی کا فی ہے کیو نکہ حضرت زہرا کی سیرت حقیقت میں دیکھا جا ئے تو کتاب وسنت کانچوڑاور خلاصہ ہے۔

۹

لہٰذا آنے والے مطالب میں حضرت زہرا کی کچھ فضیلت کواختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ان پرڈھائے گئے مظالم کا تذ کر ہ بھی ہواہے جس مجمو عے کا نام ''فاطمہ زہرا کے رونے کا فلسفہ ''رکھا گیا ہے انشاء اللہ قارئین کو حضرت زہرا کی شخصیت پر مختصر آگاہی ہونے کے سا تھ ان کی مظلومیت اور دیگر قوموں کے مظالم اور بیداد گری کا بھی اندازہ کر سکیں نا چیز زحمت کو بہت ہی اختصار کے ساتھ تعصب سے ہٹ کر فریقین کی کتابوں سے سادہ الفاظ میں جمع کیا گیا ہے خدا وند تبارک وتعالی سے سوال ہے کیوں اس صدی میں بھی حضرت زہرا کی شخصیت مجمل اور مبہم ہے ؟ ان پرکئے ہوئے مظالم کی توجیہ کیوں ؟

پالنے والے میں حضرت زہرا (سلام اللہ علیھا ) کے ماننے والے طالب علموں میں سے ایک ہو نے کی حیثیت سے حضرت زہرا ( سلام اللہ علیھا ) کے سامنے شرمندہ ہوں کیوں مجھے حضرت زہرا کی شخصیت اور عظمت بیان کر نے کی قدرت وجرأت نہیں ہو تی شاید یہ معنویت کی کمی کا نتیجہ ہو کیو نکہ قدرت اور جرأت معنویت کا نتیجہ ہے جس سے میں محروم ہوں ، خدایاعاصی کی ا س ناچیز زحمت کو امام زمانہ(علیہ السلام) کے صدقہ میں اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔

المذنب: باقر مقدسی۔

حوزہ علمیہ قم المقدس۔ ایران

۱۰

پہلی فصل:

ولادت حضرت زہرا

الف :تاریخ ولادت

جس طرح دوسرے معصومین علیہم السلام کی تاریخ ولادت کے بارے میں اختلاف ہے اسی طرح حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی تاریخ ولادت کے بارے میں بھی اختلاف واقع ہوا ہے لہٰذا علماء اور محققین آپ کی تاریخ تو لد تعین کر نے سے عاجز رہے ہیں کیو نکہ آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں محققین نے کئی نظریات ذکر کئے ہیں کہ ان نظریات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ بیس جمادی الثانی روز جمعہ بعثت کے بعد پانچویں سال میں پیدا ہو ئی ہیں کہ یہی نظر یہ تشیع کے علماء متقد مین کے نزدیک معروف اور مشہور ہے اور اس نظریہ کے قائلین افراد ذیل ہیں :

۱۱

۱۔جناب کلینی نے اصول کا فی کے جلد اول صفحہ ۴۵۸ میں۔

۲۔ جناب طبرسی نے کتاب الا علام میں۔

۳۔ جناب طبری نے اپنی گر ان بہا کتاب دلائل الا مامة کے صفحہ ۱۰ میں ۔

۴۔جناب مجلسی نے بحار الانوار جلد ۴۳میں۔

۵۔ جناب ابن شہر آشوب نے جلد ۳ میں ۔

۶۔جناب محدث قمی نے منتہی الامال کی جلد اول میں۔

۷۔ جناب محمد تقی صاحب ناسخ التواریخ نے ناسخ التواریخ میں۔

۸۔ جناب علی ابن عیسیٰ نے کشف الغمہ کے جلد دوم میں۔

۹۔فیض کا شانی وافی میں ۔

اور دیگر کچھ علماء نے بھی اس نظر یے کو قبول کیا ہے۔(۱)

اور اس نظر یہ پر کئی روایات بھی برہان اوردلیل کے طور پر نقل کی ہیں کہ ان میں سے ایک ابو بصیر کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا بیس (۲۰) جمادی الثا نی کو دنیا میں تشریف لائیں جبکہ اس وقت پیغمبر اکرم کی عمرپیتالیس سال کی تھی اور تولد کے بعد آٹھ سال تک پیغمبر اکرم کے سا تھ مکہ میں رہیں دس سال باپ کے ساتھ مدینہ میں زندگی گزاری باپ کے بعد ۷۵ دن زندہ رہیں اور تین جمادی الثانی سن گیارہ

____________________

(۱) کافی جلد ۱ صفحہ ۴۵۸، دلائل الامامة ص۱۰، منتہی الآمال جلد ۱صفحہ۱۰ وغیرہ

۱۲

ہجری کو شہادت پائی۔(۱)

نیز دوسری روایت میں حبیب سجستانی نے کہا ہے کہ میں نے امام محمد باقر (ع)سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جناب فاطمہ بنت رسول ،پیغمبر اکرم کی بعثت کے پانچ سال بعد متولد ہو ئیں اور آپ کی وفات کے وقت آپ کی عمر مبارک اٹھارہ سال ۷۵ دن ہو چکی تھی۔(۲)

اس روایت سے واضح ہو جاتا ہے کہ انکی ولادت بیس جما دی الثا نی کو ہو ئی ہے اور وفات اٹھارہ سال ۷۵ دن کی عمر میں ہو ئی ہے لہٰذا مشہور یہی نظر یہ ہے ۔

دوسرا نظر یہ:

یہ ہے کہ فاطمہ زہرا(س) کی ولادت بعثت سے پانچ سال پہلے ہو ئی ہے لہٰذا آپکی وفات اور رحلت کے وقت آپکی عمر ۲۸ سال یا ۲۹ سال تھی یہ نظر یہ اہل سنت کے یہاں مشہور ومعروف ہے اور اہل تسنن میں سے افراد ذیل اس نظر یہ کو صحیح سمجھا ہے:

۱)جناب طبری ۔

۲)ابو الفرج اصفہانی ۔

۳) احمدبن حنبل۔

۴) ابوطلحہ شافعی ۔

____________________

(۱)بحار الا نوار ج ۴۳صفحہ ۹.

(۲)بحار الا نوار ج ۴۳صفحہ ۹.

۱۳

اور دیگر کچھ علما ء نے بھی اسی کو قبول کئے ہیں اور جناب مسعودی نے(۱) (جیسے اکثرمورخین شیعہ سمجھتے ہیں )لکھا ہے کہ زہرا سلام اللہ علیہا رحلت کے وقت ۲۹ سال کی جوان خاتون تھیں کہ یہ بات اگر مسعودی شیعہ ہو تو اہل تسنن کے موافق ہے ۔

تیسرا نظر یہ:

یہ ہے کہ آپ کی ولادت اس سال ہو ئی جس سال خانہ کعبہ کی تعمیر اور مرمت ہو ئی تھی اس نظریہ کو جناب اربلی نے کتاب الغمہ میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزہرا بعثت کے پانچ سال بعد پیدا ہو ئیں اور اس سال قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیر بھی کی ہے(۲)

اسی طرح جناب محمد بن یو سف حنفی نے اپنی کتاب دار السمطین کے صفحہ ۱۷۵ پر لکھا ہے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہااس سال متولد ہو ئی کہ جس سال قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے نیز ابوالفرج نے لکھا ہے کہ فاطمہ کی ولادت اس سال ہو ئی کہ جس سال خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی تھی کہ اس نظر یہ کو ہمارے زمانے کے محققین

____________________

(۱)تاریخ طبری ج۲ ۔مقاتل الطالبین، مسند احمد.

(۲)کتاب الغمہ ج۱ صفحہ ۴۴۹ و مقاتل الطالبین،دار اسبطینی.

۱۴

نے اس طرح رد کیا ہے کہ جناب ار بلی کی بات کی بناء پر زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت بعثت کے بعد ہو ئی ہے اور اس سال خانہ کعبہ کی تعمیربھی ہوئی ہے یہ دوبات قابل جمع نہیں کیوں کہ خانہ کعبہ کی تعمیربعثت سے پانچ سال پہلے ہو ئی ہے لہٰذا حضرت آیت اللہ امینی نے اپنی گراں بہا کتاب ''فاطمہ اسلام میں مثالی خاتون'' کے صفحہ ا۲ پر لکھا ہے کہ یہ دو بات قابل جمع نہیں ہے، نیز جناب آقائی محمد قاسم نصیر پور نے اپنی کتاب ''زندگانی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ''کے صفحہ ۲۶ پر لکھا ہے کہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت بعثت کے بعد اس سال ہوئی کہ جس سال قریشی نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی یہ دوبات قابل جمع نہیں ہے کیونکہ خانہ کعبہ کی تعمیر بعثت سے پانچ سال پہلے ہو ئی ہے۔(۱)

چوتھا نظریہ:

ایک روایت میں ہے کہ جناب عبداللہ ابن حسن سے ہشام ابن عبدالملک نے کلبی کے حضور میں پوچھا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عمر کتنے سال تھی عبدا للہ ابن حسن نے جواب میں کہا کہ زہرا (س)کی عمر تیس سال تھی اس وقت ہشام ابن عبدا الملک نے اسی سوال کو کلبی سے پوچھا کہ جو نسب شناسی میں معروف ومشہورتھا کلبی نے جواب میں کہا کہ فاطمہ زہرا کی عمر پنتیس سال تھی ہشام، عبدا اللہ

____________________

(۱)زندگانی حضرت فاطمہ زہرا صفحہ ۲۶، فاطمہ اسلام میں مثالی خاتون ص ۲۱.

۱۵

کی طرف متوجہ ہو ئے اور کہا کہ کیا آپ نے کلبی کی بات سنی ؟ عبد اللہ نے جواب میں فرمایا اے ہشام میری ماں کی حالت مجھ سے پوچھے اور کلبی کی ماں کی حالت کلبی سے کہ یہ روایت مسعو دی کی نظر کی تائید کر تی جو اہل تسنن کا معروف ومشہور نظریہ ہے لہٰذا حضرت زہرا کی تاریخ ولا دت کو معین کر نا بہت ہی مشکل ہے۔(۱)

لیکن مر حوم کلینی قریب العصر ہونے کے باوجود اورا صول کا فی جیسی دقیق کتاب جو بیس یا پچیس سال کی مدت میں تکمیل ہو ئی ہے حتی بعض اسا تید کا کہنا ہے کہ اصول کافی نواّب اربعہ کے زمانہ میں لکھی گئی ہے اور نواّب اربعہ نے تائید بھی کی ہے ایسے مزایا کے ساتھ ان کے مشہور نظریے کو رد کرنا بہت مشکل ہے اگرچہ کچھ شواہد تاریخی اور قرائن اس کے منافی ہی کیوں نہ ہوں، لہٰذا آپ کی ولادت بیس جمادی الثانی بعثت کے پانچ سال بعد ہوئی ہے اور آپ کی شہادت اٹھارہ سال کی عمر میں ہوئی ہے کیونکہ کچھ فقہاء کا عقیدہ ہے کہ اصول کافی جیسی معتبر کتاب کی روایات پر سند کے حوالہ سے اشکال کرنا لاعلمی اور جہالت کا نتیجہ ہے لہٰذا مرحوم علامہ مجلسی نے بھی مرحوم کلینی کے اسی نظریہ کو قبول کیا ہے۔(۲)

پانچواں نظریہ :

یہ ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت بیس جمادی الثانی بعثت کے دوسرے سال ہوئی ہے لہٰذا وفات کے وقت آپ کی عمر ۲۳ سال تھی۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج ۴۳ صفحہ ۲۱۲. (۲)بحار الا نوار ج ۴۳، اصول کافی ج ۲ صفحہ ۳۸۱

۱۶

اس نظریہ کو یعقوبی نے ذکر کیا ہے اور یعقوبی کے علاوہ افراد ذیل اس نظریہ کے قائل ہیں جناب شیخ مفید اور شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں کفعمی نے کتاب مصباح میں ذکر کیا ہے۔(۱)

چھٹا نظریہ:

لیکن کچھ سنی علماء کا عقیدہ ہے کہ آپ کی ولادت اس وقت ہوئی کہ جس وقت پیغمبر اکرم کی عمر اکتالیس سال ہوئی تھی او رآپ کی شادی چودہ سال کی عمر میں اور رحلت تیئس سال کی عمر میں ہوئی کہ یہ نظریہ بھی شیخ مفید اور شیخ طوسی کے نظریہ کی تائید کرتا ہے ، لہٰذا ہمارے زمانہ میں کچھ محقیقن نے شیخ طوسی کے نظریہ کو قبول کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہی نظریہ صحیح ہے ۔(۲)

لیکن اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہرا وفات کے وقت اٹھائیس یا انیس یا اٹھارہ یا تیس سال کی جوان خاتون تھیں جب کہ حضرت زہرا نے اس مختصر زندگی میں ہر قسم کے ظلم وستم کو برداشت کئے ہوئے نظر آتے ہیں،لہٰذا مفکرین اور مورخین بھی اگر جناب زہرا کی تاریخ ولادت کے بارے میں مفاد ذاتی یا مذہبی تعصب کو بالائے طاق رکھ کر تصورات کی جمع بندی کریں تو شاید یہی تصورات اور خیالات کی جمع بندی ہماری نجات کا ذریعہ ہوں۔

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی ،،مصباح المتہجد، مصباح، کتاب زندگانی حضرت فاطمہ زہرا

(۲)دلائل النبوة، بیہقی ،مستدرک حاکم.

۱۷

ب۔ محلّ تولد

ہر مسلمان اور مذہب کے دعوید ار اس بات کے قائل ہیں کہ کائنات میں خدا کی نظر میں کچھ مکانات کی ارزش اور قیمت باقی مکانات اور جگہوں سے زیادہ ہے لہٰذا اگر کوئی غیرمسلم یا کوئی لا اُبالی مسلم ایسے مکانات کی تو ہین کر یں تو مسلمانوں کیلئے قابل تحمل نہیں ہے تب تو اس جگہ کی آزادی اور بحالی کے لئے اپنی جان ومال کو دینا سعا دتمندی کی علامت سمجھتے ہیں۔

نیزجس طرح سارے مسلمانوں کی نظر میں کچھ مکانات کی ارزش ہوا کر تی ہے اسی طرح ہر مذہب اور آئین کے پیروکار بھی کچھ مکانات کو قابل ارزش سمجھتے ہیں اگر چہ دوسرے مسلمانوں کی نظر میں اس جگہ کی ارزش اور قیمت نہ بھی ہو لہٰذا اسکی تو ہین کر نا اس مذہب سے منسلک افراد کیلئے قابل تحمل نہیں ہے انہیں باارزش مکانات میں سے ایک حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کی جگہ ہے کہ وہ جگہ حضر ت خدیجہ کا گھر تھا جو مکے میں محلہ زفاق العطارین پر واقع ہے کہ اس گھر میں پیغمبر اکر م ہجرت کر نے تک سکونت پذیر تھے کہ یہ گھر اتنا مبارک گھر تھا کہ جس میں خدا نے جبرئیل کے ساتھ قرآن کا ایک حصہ وحی کے طور پر پیغمبر اکر م پر نازل کیا لہٰذا مسلمانوں کی نظر میں یہ جگہ دو وجھوں سے اہمیت کے حامل ہے۔

۱۸

ایک یہ ہے کہ اس مقام کو اسلام کی تبلیغ اور نزول وحی کا شرف حاصل ہے اور دوسرا یہ ہے کہ اس مقام پر ام الائمہ حضرت فاظمہ زہرا کے تو لد واقع ہوا ہے اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے بعد مسلمانوں نے اس جگہ کو مسجد بنا یا ہے اس مطلب کو افراد ذیل نے نقل کیا ہے جناب ابن اثیرنے اپنی کتاب کا مل جلد دوم میں صاحب شفاء الغرام جلد اول میںاور صاحب مرا ت الحرمیں جلد اول میں فرمایا ہے۔(۱)

ج: حضرت زہرا کے وجود میں جنت کی طبیعت

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور باقی انسانوں کے مابین تفاوت یہ ہے کہ زہرا ء سلام اللہ علیھا کے جسما نی اور مادی وجود مبارک میں جنت کی طبیعت پوشیدہ ہے یعنی زہرا کا وجود جنت کے میوہ یا پھل سے بناہے جبکہ باقی سارے انسانوں کا وجود دنیوی غذا ور مادی آثارکا نتیجہ ہے لہٰذا حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کے وجود اور باقی انسانوں کے وجود میںبہت بڑا فرق ہے زہرا (س)کے وجود میں جنت کے آثار ہیں جب کہ باقی انسانوں کے وجود، ایسی خصوصیت سے محروم ہے کہ اس مطلب کو مر حوم مجلسی نے اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ ایک دن حضرت پیغمبر اکرم اپنے مسند پر بیٹھے ہو ئے تھے کہ اتنے میں جبرئیل نازل ہو ئے اور کہا کہ خدا نے آپ کو

____________________

(۱)کامل ج۲ صفحہ ۶۰ ، مرات الحرمین ج۱ صفحہ۸۹،شفاء الغرام ج۱ صفحہ ۲۷۵

۱۹

سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ چالیس دن آپ جناب خدیجہ سے الگ رہا کریں اور عبادت اور تہحد میں مشغول رہیں پیغمبر اکر م خدا کے حکم کے مطابق چالیس دن تک جناب خدیجہ کے گھر جا نا چھو ڑ دیا اور یہ مدت رات کو نماز اور عبا دات میں گزاری جبکہ دن کو روزہ رکھتے تھے آپ نے عمار کے توسط سے جناب خدیجہ کو پیغام بھیجا کہ اے معزز خاتون تو خیال نہ کر نا کہ میرا تم سے کنارہ کشی کر نا کسی دشمنی اور کدورت کی وجہ سے ہے بلکہ یہ علیحدگی اور کنارہ گیری حکم خدا کی وجہ سے ہے کہ جس کی مصلحت سے خدا ہی آگاہ ہے اے خدیجہ تو بزر گوار خواتین میں سے ایک ہو اللہ تعالی تمہارے وجود پر روزانہ کئی مر تبہ فرشتوں سے ناز کرتا ہے لہٰذا رات کو گھر کے دروازے بند کر کے آرام فرما ئے اور میرا انتظار نہ کیجئے۔(۱)

میں خداکی طرف سے دوبارہ دستور آنے کا منتظر ہوں میں اس مدت کو فاطمہ بنت اسد کے گھر میں گزارو ںگا جناب خدیجہ بھی حضرت پیغمبر اکرم کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اس مدت میں اپنے محبوب کی جدائی میں روتی ہوئی گذاری لیکن جب چالیس دن کی مدمت ختم ہو گئی تو اللہ تعالی کی طرف سے فرشتے نازل ہو ئے اور جنت سے غذا لائے اور کہا کہ آج رات اس جنتی غذا کو تناول فرمائیں جناب رسول خدا نے اس روحانی اور بہشتی غذا سے افطار کیا ۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج ۱۵ صفحہ ۷۸.

۲۰