حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر0%

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 174

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات: صفحے: 174
مشاہدے: 51607
ڈاؤنلوڈ: 3682

تبصرے:

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 174 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51607 / ڈاؤنلوڈ: 3682
سائز سائز سائز
حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

'' اے میرے اہل بیت نماز اے میرے اہل بیت نماز کیو نکہ خدا نے ہی ارادہ کیا ہے کہ میرے خاندان میں سے تم کو ہر نا پا کی سے دور رکھے اور ہمیشہ پاک وپاکیزہ قرار دیا ہے''(۱)

چھٹی آیت:

( وَ يُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلي‏ حُبِّهِ مِسْکيناً وَ يَتيماً وَ أَسيراًإِنَّما نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُريدُ مِنْکُمْ جَزاءً وَ لا شُکُوراً ) (۲)

اوروہ اس کی محبت میں محتاج ،یتیم اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں ہم نہ تم سے بدلے کے خواستگار ہیں اور نہ شکر گزاری کے۔

جناب زمخشری اہل سنت کے معروف مفسرین میں سے شمار کیا جا تا ہے انہوں نے اپنے تفسیر الکشاف میں اس آیت کی تفسیر کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت امام حسن وحسین علیہما السلام مریض ہو گئے تھے اتنے میں پیغمبر اکرم چند اصحاب کے ساتھ ان کی عیادت کو تشریف لے گئے اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا اگر بچوں کی تندرستی اور شفا یابی کے لئے نذر ما نگے تو کتنا بہتر ہے ؟

____________________

(۱) زند گانی حضرت فاطمہ زہرا ص ۲۲۵، مسند احمد، خصائص النسائی

(۲)سورة رہرآیت ۸و۹

۴۱

اتنے میں حضرت علی اور حضرت زہرا اور ان کی خادمہ فضہ تینوں نے نذر مانگی کہ اگر حسنین کی بیماری بہبود اور ٹھیک ہو پائے، تو ہم تین دن روزہ رکھیں گے جب حسنین ٹھیک ہو گئے تو حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا وفضہ نے روزہ رکھنا شروع کیا لیکن افطار ی کیلئے کو ئی چیز نہ تھی لہٰذا حضرت علی علیہ السلام نے ایک یہودی سے تین صاع گندم قرض لے کر دو لت سرا میں آئے اور حضرت زہرا کے حوالہ کیا زہرا نے ایک صا ع گندم سے روٹی تیار کی اور افطاری کے لئے دستر خوان پر لا کر رکھی، اتنے میں سائل کی طرف سے ندا آئی:

اے خاندان نبوت درودو سلام آپ پر ہو میں ایک مسکین ہوں میرے پاس کھا نے کی کو ئی چیز نہیں ہے میر ی مدد کرنا خدا آپ کو جنت کی غذا نصیب فرمائے۔

اتنے میں کھا نا مسکین کو دیا حضرت فضہ نے بھی ان کی پیروی کی اور اس دن کھا نے کے بغیر پا نی سے افطار کر کے رات گزاری پھر جب دوسرے دن روزہ رکھا افطار کا وقت آپہنچا حضرت زہرا نے دسترخوان پر روٹی رکھی افطار کے منتظر تھے اتنے میں یتیم کی آواز آئی:

اے اہل بیت پیغمبر میں یتیم ہوں میر ے پاس کھا نے کی کو ئی چیز نہیں ہے میر ی مدد کر یں۔

اس دن کی افطار ی کو یتیم کے حوالہ کر دیا تیسرے دن روزہ رکھا افطا ری کے لئے دسترخوان پر بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آواز آئی:

۴۲

میں ایک اسیر ہوں میری مدد کریں افطاری کو اسیر کے حوالہ کر دیا پھر پانی سے افطار کر کے سوئے لیکن جب چو تھے دن کی صبح ہو ئی تو حضرت علی امام حسن وحسین کو لے کر پیغمبر کی خدمت میں پہنچے پیغمبر اکر م ان کی بھوک کی حالت دیکھ کر حیران ہو ئے اور حسنین کو لے کر حضرت زہرا کے دیدار کو آئے دیکھا کہ حضرت زہرا محراب عبادت میں خدا سے راز ونیاز کر رہی ہیں جب کہ بھوک اور گرسنگی کی وجہ سے آپ کی حالت بھی معمول پر نہ تھی لہٰذا پیغمبر اکر م پریشان ہوئے اتنے میں جبرئیل آئے اور کہا اے پیغمبر اکر م تیرے ایسے فدا کار اہل بیت ہو نے کی خاطر خدا نے تجھے سورة ہل اتی کو ہد یہ فرمایا ہے کہ اس کو لے لے لہٰذا حضرت زہرا کی فضیلت ثابت کر نے میں یہی روایت کا فی ہے کہ جو شیعہ معتبر مفسرین میں سے صا حب مجمع البیان صاحب المیزان اور اہل سنت کے معروف تفا سیر میں سے درمنثور وغیرہ میں نقل کیا گیا ہے ۔(۱)

ساتویں آیت:

( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ، بَیْنَهُمَا بَرْزَخ لاَیَبْغِیَان ) (۲)

____________________

(۱)مجمع البیان ج۱۰، المیزان ج۳۰، در منثور، کشاف ج۴.

(۲) سورہ رحمان آیت ۱۹،۲۰

۴۳

خدا نے دو در یا بہا ئے جو با ہم مل جا تے ہیں دونوں کے در میان ایک حد فاصل ہے جس سے تجاوز نہیں کر تے(۱)

اگر چہ اس آیة شریفہ کی تفسیر کے متعلق مفسرین کے ما بین اختلاف ہے لیکن علامہ ابن مردویہ نے ابن عباس اور انس ابن مالک سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکر م نے فرمایا دو در یا سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور فاطمہ(س) ہیں جب کہ حد فاصل سے مراد ان کے دو فرزند حسن اور حسین علیہما السلام ہیں۔

اس تفسیر کی بنا پر یہ آیہ شریفہ حضرت زہرا کی فضیلت پر بہترین دلیل ہے۔

آٹھویں آیت:

( وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضَی ) (۲)

اور تمہارا پرور دگار عنقریب اس قدر عطا کرے گا کہ تم خو ش ہو جا ئو ۔

اس آیةشریفہ کے شا ن نزول کو اہل تسنن کے معروف ومشہور محققین میں سے جناب عسکری اور ابن لال وابن تجار اور ابن مردویہ نے جا بر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ ایک مر تبہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جناب فاطمہ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا زہرا چکی چلا رہی ہیں اور ان کے بدن پراونٹ کی کھال سے بنی ہوئی

____________________

(۱) در منثور جلد ۶ تفسیر فرمان علی نجفی. (۲)سورہ ضحی آیت ۵.

۴۴

ایک چادر زیب تن ہے تو آپ نے فرمایا اے فاطمہ آخرت کی نعمتوں کے واسطے دنیا کی تلخی چکھو اور جلدی کرو اس وقت خدا نے یہ آیةنازل فرما ئی(۱)

اس روایت کی بنا ء پر آیة شریفہ سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت اور عظمت بخوبی واضح ہو جا تی ہے لہذ ا مذکورہ آیات کی تفسیر شان نزول اور دیگر قرائن وشواہد سے واضح ہو جا تا ہے کہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ئنات کی تمام خواتین سے افضل ہیں اگر چہ کچھ روایات منقول ہیں کہ جن سے استفادہ ہو تا ہے کہ تمام خواتین سے افضل چار خواتین ہیں:

۱۔حضرت خدیجہ۔

۲۔حضرت مر یم۔

۳۔حضرت آسیہ۔

۴۔ حضرت زہرا ۔

لیکن آیات سابقہ اور وہ روایات جو زہرا سلام علیہا کی عظمت پر دلالت کر تی ہے ان کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہے کہ حضرت زہرا ان افضل خواتین میںسے بھی افضل ہیں۔

____________________

(۱) در منشور جلد ۶ ،ص ۳۳۳، تفسیر فرمان علی نجفی

۴۵

ب۔سنت کی روشنی میں

حضر ت زہرا سلام علیہا کی فضیلت کو سنت کی روشنی میں بیان کر نے سے پہلے تو جہ کو ایک نکتہ کی طرف مبذول کر نا ضروری سمجھتا ہو ںوہ نکتہ یہ ہے شیعہ اما میہ کی اصطلاح میں سنت سے مراد پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے اقوال وافعال اورتقریرات کے مجمو عے کو کہا جاتا ہے جبکہ اہل سنت کی اصطلاح میں قول نبی فعل نبی تقریر کے مجمو عے کو کہا جاتا ہے اور تقریر معصو م سے مراد یہ ہے کہ کوئی کام آپ کے سامنے انجام دیا جا ئے اور آپ اس سے نہ روکیں لہٰذا منا سب ہے کہ حضرت زہرا کی فضیلت کو اس ہستی کی زبان سے سنیں کہ جو پورے کا ئنات کی مخلوقات سے افضل ہے ۔

الف: پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں حضرت زہرا کی فضیلت

احمد ابن حنبل جو مذاہب اربعہ میں سے ایک مذہب کے بانی اور پیشوا سمجھا جا تاہے آپ نے روایت کی ہے:

نظر النبی صلی الله علیه ( وآله ) وسلم الی الحسن والحسین والفاطمة فقال اناحرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم (ا)

____________________

(ا) مسند احمد ج ۴ ص۴۴۲.

۴۶

(ترجمہ)پیغمبر اکرم نے جب امام حسن وحسین اور حضرت فاطمہ کی طرف دیکھا تو فرمایا جو تم سے عداوت اور دشمنی سے پیش آ ئے گا میں بھی اس سے دشمنی اور عداوت سے پیش آئوں گا اور جو تمہارے ساتھ صلح وصفا کے ساتھ پیش آئے گا تو میں بھی ان کے ساتھ صلح وصفا کے ساتھ پیش آئوں گا۔

اس حدیث کی ما نند متعدد روایات اہل سنت کی معروف کتابو ں میں مو جود ہیں جن کانتیجہ یہ ہے کہ جو حضرت زہرا(س) اور حضرت امام حسن وحسین سے بغض رکھیں گے پیغمبر اکرم بھی ان سے عداوت اور بغض رکھیں گے جو ان سے دوستی اور محبت کے ساتھ پیش آئیں گے پیغمبر اکرم بھی ان کے ساتھ محبت سے پیش آئیں گے۔

دوسری روایت :

حضرت پیغمبر اکرم نے فرما یا:

ان فاطمة سیدة نساء اهل الجنة وان الحسن والحسین سیداشباب اهل الجنة (ا)

(ترجمہ ) بتحقیق حضرت فاطمہ جنت کی عورتوں کا سردار ہیں اور حسن وحسین جنت کے جوانوں کا سردار ہیں۔

____________________

(ا) مسند احمد و صحیح ترمذی

۴۷

جناب ذہبی نے اپنی کتاب میزان الا عتدال جلد دئوم میں دیگر دوسرے علماء نے خصائص الکبر ی جلد دئوم کنزالعمال جلد ششم میں پیغمبر اکر م سے یوں روایت کی ہے:

اول شخص ید خل الجنة فاطمة بنت محمد ۔(۱)

سب سے پہلے جنت میں داخل ہو نے والی ہستی فاطمہ دختر محمد ہیں۔

توضیح روایت:

مذ کورہ روایتوں کو اہل سنت کے معروف دا نشمند وں نے اپنی کتابوں میں نقل کیاہیں اس حیثیت سے دو نکتے یہاں قابل ذکر ہیں:

۱۔اگر زہرا جنت کی عورتوں کاسر دارہیں تو پیغمبر اکر م کی وفات ہو تے ہی اصحاب نے ام المؤمنین جناب عائشہ کو حضرت زہرا پر کیوں مقدم کیا جب کہ ان کی شان میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے جو ایسے منصب پر دلالت کریں۔

۲۔ ان مذکورہ روایتوں کے پیش نظر یہ کہہ سکتا ہے کہ حق کو ثابت کر نے میں حضرت زہرا حق بجانب تھیں۔

جناب محب الدین طبری نے اپنی سند کے ساتھ پیغمبر اکرم سے ذخائر العقبیٰ

____________________

(۱)میزان الا عتدال ج ۲ کنزا لعمال ج۶

۴۸

میں روایت کی ہے:

اربع نسوة سیّدات عالمهن مریم بنت عمران وآسیة بنت مزاحم و خدیجة بنت خویلید وفاطمة بنت محمد ( صلی الله علیه وآله ) افضلهن عالما فاطمة( سلام الله علیها) (۱)

( تر جمہ ) چار عورتیں پوری کا ئنات کی عورتوں کا سر دار ہیں مر یم دختر عمران، آسیہ دختر مزاحم، خدیجہ دختر خویلد اورفاطمہ دختر پیغمبر ، ان میں سے بھی افضل فاطمہ زہرا ہیں۔

ب۔ جناب فاطمہ زہرا کی ناراضگی حضرت پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نا راضگی ہے

اگر ہم حضرت زہرا ( سلام اللہ علیہا ) کے بارے میں پیغمبر اکرم کے اقوال کو جمع کرے تو پیغمبر اکر م نے بہت ہی عجیب وغریب اور گہرے نکات کی طرف اشارہ فرمایا ہے انھیں میں سے ایک نکتہ یہ ہے کہ جو شخص حضرت زہرا کو ناراض کریں گے اور انھیں اذیت وآزار پہنچا ئیں گے ان سے پیغمبر اکرم کا نا راض ہو جا نازہرا کی ان سے ناراضگی کا نتیجہ ہے کیو نکہ متعدد روایتوں کے جملوں

____________________

(۱)ذخائر العقبیٰ.

۴۹

میں حضرت زہرا کی ناراضگی کو شرط کی حیثیت سے اور پیغمبر اکرم کی ناراضگی کو جزا کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔

چنانچہ اس مطلب کو جناب بخاری نے اپنی گراں بہا کتاب میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:

'' فاطمة بضعة منی فمن اغضبها اغضبنی.'' (۱)

یعنی فاطمہ زہرا میر ا ٹکڑہے پس جو اس کو ناراض کرے گا اس نے مجھے ناراض کیا۔

اس روایت سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو مسلمان پیغمبر اکر م پر اعتقاد کا دعویداربھی ہو اور ساتھ ساتھ دولت سرائے حضرت زہرا کے درواز ے کو جلا نے،اور پہلو حضرت زہرا کو زخمی کرنے اور فرزند حضرت زہرا حضرت محسن کی شہادت کا با عث بھی ہو خود پیغمبر اکر م کی نظر میں اسکا کیا حشر ہوگا ۔

نیز احمد ابن حنبل نے مسند میں تر مذی نے اپنی کتاب صحیح ترمذی کے جلد دوم میں پیغمبر اکرم سے یوں روایت کی ہے پیغمبر اکرم نے فرمایا:

''انما فاطمة بعضة منی یؤذنی ما اذاها ویغضبنی ما اغضبها'' (۲)

____________________

(۱)بخاری، ج ۵ ص ۳۶. (۲) کنز العمال ، فیض القدیر ، فضائل الصحابہ۔

۵۰

فاطمہ زہرامیرا ٹکڑا ہے جو اس کو اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی ہے جو اس کو ناراض کرے گا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔

نیز دوسری کچھ روایات سے بخوبی استفادہ ہوجاتا ہے کہ جن سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ناراض ہیں ان سے خدا بھی ناراض ہے جن سے حضرت زہرا خوش ہیں خدا بھی ان سے خوش ہے، چنانچہ اس مطلب کو حاکم نیشاپوری اور باقی کچھ علماء اہل سنت نے یوں ذکر کیا ہے:

''یا فاطمة ان الله یغضب بغضبک ویرضی برضاک'' (۱)

پیغمبر اکرم نے فرمایا: اے فاطمہ (زہرا) خداوند تیری ناراضگی سے ناراض ہوجاتا ہے اور تیری خوشحالی سے خوش ہوجاتا ہے۔

نیز فرات بن ابراہیم نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:

''تدخل فاطمة ابنتی وذریتها وشیعتها وذالک قوله تعالیٰ (لایحزنهم الفزع الاکبر وهم فیما اشتهت انفسهم خالدون) هی واﷲ فاطمة وذریتها وشیعتها'' (۲)

میری بیٹی فاطمہ اور ان کے فرزندان اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے

____________________

(۱) مناقب، میزان الاعتدال، ذخائر العقبیٰ ، اسد الغابہ، ج۵

(۲) تفسیر فرات ابن ابراہیم.

۵۱

جنت میں داخل ہونگے کیونکہ خداوندعالم نے فرمایا کہ روز قیامت کے ہولناک عذاب اور سختی سے وہ لوگ غمگین نہ ہوں گے اور وہ لوگ جو جنت کے مشتاق ہیں وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے ان سے خدا کی قسم فاطمہ اور ان کے فرزند ان اور ان کے پیروکار منظور ہیں۔

توضیح:

حقیقت میں پیغمبر اکرم نے اس روایت میں دو آیات شریفہ کی شان نزول کو بیان فرمایا ہے:

۱۔( لٰایَحْزُنُهُمُ الْفَزْعُ الْاَکْبَرْ ) (۱)

ان کو قیامت کا بڑا خوف بھی دہشت میں نہیں ڈالے گا

( وَهُمْ فِیْمَا اشْتَهَتْ اَنْفُسَهُمْ خَالِدُوْنَ ) (۲)

اور وہ لو گ ہمیشہ اپنی من ما نگی مرادوں میں چین سے رہیںگے ۔

لہٰذا اس روایت کی روشنی میںبخوبی کہا جاسکتا ہے کہ ان دو آیتوں کا مصداق زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے فرزندان کے علاوہ وہ افراد ہیں جو ان کے ماننے والے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے مسلمانوں نے پیغمبر اکر م کی وفات کے

____________________

(۱)سورةانبیاء آیت۱۰۳. (۲)سورہ انبیا ء آیت۱۰۲.

۵۲

بعد حضرت زہرا کے ساتھ کیا سلوک کیا اور حضرت زہرا کے بعد حضرت زہرا کے لخت جگر ، رسول خدا کے جا نشین ، فرزند بتول حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کس سلوک سے پیش آئے ؟ اور دور حاضر میں زہرا(س) کے پیروکاروں کے ساتھ کس رفتار سے پیش آرہے ہیں ؟ اسی سے بخوبی ان کی حقانیت کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔

نیز حا کم نیشاپوری اور ابن مغازلی اور کچھ دیگر اہل سنت کے علما ء نے پیغمبر اکر م سے روایت کی ہے ۔

پیغمبر اکرم نے فرمایا :

اذا کان یو م القیا مة نادی مناد من تحت الحجب یا اهل الجمع غضوا ابصارکم ونکسو ا رؤ سکم فهذه فاطمة بنت محمد (صلی الله علیه واله وسلم )ترید ان تمر علی الصراط (۱)

(ترجمہ)جب قیامت برپا ہو گی تو کو ئی منادی ندا دے گا اے اہل محشر آنکھیں بند کر و اور سروں کو جھکا ئو کیو نکہ یہ پیغمبر اکر م کی بیٹی فاطمہ ہے جوصراط سے گزر نا چا ہتی ہے ۔

____________________

(۱) میزان الا عتدال اسدا لغابہ ، مستدرک الصحیحین

۵۳

تو ضیح حدیث :

اگر کوئی مفکر اس روایت کا بغور مطالعہ کر ے تو معلوم ہو جا تا ہے کہ جن لوگوں نے زہرا پر حملہ کر کے اپنا تسلط جما نے کی کو شش کی ہے ان کا حشر کیا ہو گا کیونکہ جب خدا کی نظر میں محشر والے زہرا سلام اللہ علیہا کے صراط سے عبور کے وقت آنکھیں کھول کر دیکھنے کی جرأت نہ کر سکتے تو دنیا میں در زہرا پر حملہ کر کے محسن کو شہید کر نے اور زہرا کے پہلو کو شہید کر نے کی جرات کا حکم کہا ں سے آیا ؟ یہ تمام روایات پیغمبر اکر م کی روایات ہیں جو اہل سنت کی معتبر کتابوں سے نقل کی گئی ہے لہٰذا غور کیجئے کہ پیغمبر کی نظر میں حضرت زہرا کی فضیلت اپنی بیٹی اور لخت جگر ہونے کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ حقیقت میں پیغمبر اکرم حضرت زہرا کی حقا نیت کو خدا کی نظر میں بیان کر نا چا ہتے تھے کیو نکہ پیغمبر اکر م وحی کے بغیر کسی کی مد ح وثنا ء بیان کر نا اس آیة شریفہ کے منا فی ہے :

( وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ) .(۱)

اور وہ اپنی نفسانی خواہش سے کچھ نہیں بو لتے (بلکہ)جو کچھ بو لا جاتا ہے وہ صرف بھیجی ہوئی وحی ہے۔

____________________

(۱)سورہ نجم ،آیات۳و۴.

۵۴

ج۔ائمہ علیہم السلام کی نظر میں آپ کی فضیلت

اگر کو ئی سارے ائمہ علیہم السلام کی زبانی زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت بیان کر نا چا ہے تو گفتگو لمبی ہو جا تی ہے لہٰذا اختصار کے پیش نظر صر ف چند ایک روایت کی طرف اشارہ کر نے پر اکتفاء کر یں گے امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم اللہ نے فاطمہ کو علم کے ذر یعے فساد اوربرایئوں سے محفو ظ رکھا ہے(ا)

امام جعفرصا دق علیہ السلام نے فرما یا حضرت فاطمہ زہرا کو اللہ تبارک وتعالی نے نو نا موں سے یاد کیا ہے فاطمہ صد یقہ مبارکہ طاہرہ زکیہ راضیہ مر ضیہ محدثہ زہرا ۔

اور فاطمہ سلام اللہ علیہا نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ برائیوں اور فساد سے مبرا ہیں لہٰذا اگرحضرت علی علیہ السلام خلق نہ ہو تے تو حضرت فاطمہ کا کو ئی ہمسر نہ ہو تا(۲)

پس فضیلت زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں مزید روایات سے آگا ہ ہو نے کی خواہش ہے تو کشف الغمہ اور بحارالا نوار جلد ۴۳ کی طرف رجو ع کیجئے .کیونکہ جتنی روایات حضرت زہرا کی فضیلت کے بارے میں منقول ہے کسی اور ہستی کے بارے میں نہیں ہے۔

____________________

(ا) کثف الغمہ جلد ۲ (۲) کشف الغمہ جلد ۲

۵۵

تیسری فصل:

حضر ت زہراسلام اللہ علیہاکے رونے کا مقصد

اہل تسنن واہل تشیع دونوں مذہب کی معروف کتابوں میں یہ بات مسلم ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے پیغمبر اکر م کی وفات کے بعد چالیس دن ایک نظریہ کی بناء پر یاپچہتردن دوسرے نظریہ کی بناپریا پچا نوے دن تیسرے نظریہ کی بنا پر زند گی کی لیکن اس مختصر زندگی میں آپ اتنا زیادہ روئیں کہ کتاب خصال میں مرحوم صدوق ایک روایت کی ہے جس میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ۔

البکا ء خمسة آدم ویعقوب ویو سف وفاطمة وسجاد ۔(۱)

یعنی کا ئنات میں سب سے زیا دہ رونے والی پانچ ہستیاںہیں کہ انہیں میں سے ایک حضرت زہرا ہیں جب کہ خدا نے متعدد آیات میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے اور خدا کے حبیب حضرت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱)خصال باب خمسہ

۵۶

نے متعدد جملوں میں حضرت زہرا کو تمام عالم کی خواتین سے افضل قرار دیا ہے .اور صحا بہ کرام بھی اس حقیقت سے باخبر تھے اس کے باوجود سب سے زیادہ رونے کا ہدف اور مقصد کیا تھا ؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا باقی عام انسانوں کی ما نند نہ تھیں لہٰذا موت آنے کے خوف سے اتنا روئیں کہ مدینہ والوں نے آپ سے شکا یت کی ایسا جواب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت کے ساتھ سازگا ر نہیں ہے کیو نکہ زہرا کی جو سیرت، اہل تشیع اور اہل تسنن کی کتابوں میں مورخین اور محققین نے ذکر کیاہے انشاء اللہ اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔

ثانیاً مو ت کے خوف سے وہ انسان گر یہ کر تا ہے جو صر ف دنیا کے حقائق اور مو ت آنے کو جا نتا ہو لیکن ابدی زندگی سے واقف نہ ہو جبکہ پیغمبر اکر م نے کئی بار حضرت زہرا سے فرمایا تم جنت میں تمام عو رتوںکاسردار ہو تمہارے صدقے میں باقی تمام مخلو قات کو خدا نے عد م سے وجودبخشا ہے اور تمہاری خوشنودی اور رضا ء میں خدا کی رضا اور خوشنودی پوشیدہ ہے لہٰذا ایسی ہستی سے رونے کا فلسفہ اور اس سوال کا جواب مو ت کے خوف کو ذکر کر نا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت اور فضیلت سے بے خبر ہو نے کے مترادف ہے ۔

۵۷

دوسرا جواب :

یہ ہے کہ اس لئے اتنا زیادہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا روئیں کہ آپ عمر کے حوالے سے جوان تھی پیغمبر اکر م کی حیات طیبہ میںکو ئی گر می اور نر می اور مشکلات سے دو چار نہ ہو ئیں تھیں باپ کے ساتھ خوشحال زندگی کر نے کی عادی تھی لیکن جب پیغمبر اکر م نے وفات پا ئی اور پیغمبر اکرم نے حضرت زہرا کو فورا مو ت آنے کی خبردی تو زہرا ایسی زندگی سے محروم ہو نے کے خوف سے اتنا روئیں۔

ایسا جواب معاشرہ میں پیش کر نا حقیقت میں حضرت زہرا کی شان میں گستاخی کی مانند ہے کیونکہ حضرت زہرا نے پیغمبر اکرم کی زندگی میں جوسختی اور مشکلات دیکھی ہیں وہ اس جواب کے ساتھ ہم آہنگ نہیںہیں حضرت زہرا نے پیغمبر اکرم کے ساتھ جتنے سال زندگی کی ہے ، اس عرصے میں کبھی بھی آپ نے مادی لو زمات کے حوالہ سے خو شحالی اور عام انسان کی ما نند زندگی نہ کی تھی بلکہ ہمیشہ اس وقت کے فقیر ترین افراد کی ما نند زندگی گزاری ہے لہٰذا خدا نے ہل اتی جیسی سورہ کو آپ اور حضرت علی کی شان میں نازل کر کے فرمایا :

انما نطعمکم لوجه الله .(۱)

یعنی ہم بس جو کھلاتے ہیں وہ صرف خدا کے لئے ہے۔

ثانیاًتاریخ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے حا لات زندگی کو کم وبیش

____________________

(۱)سورہ ھل اتیٰ ۶.

۵۸

تحریف کے ساتھ مو رخین نے ذکر کیا ہے ان سے مراجعہ کر یں تو معلوم ہوتا ہے ، کہ حضرت زہرا خالص پانی سے افطار کر کے مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کی ضروریات کو پورا فرماتی تھیں اور اپنے گر دن بند یا فدک کی آمدنی کو راہ خدا میں اور دیگر محتاجوں میں خرچ کر تی تھیں یہ سیرت اس جواب کے ساتھ متضاد ہے ۔

تیسرا جواب :

یہ ہے جو راقم الحروف اور دیگر محققین کے نزدیک بھی قابل قبول ہے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر پیغمبر اکرم کی وفات کے بعد صحا بہ کرام کی طرف سے ہر قسم کی پابندی عائد ہوئی تھیں جیسے فدک کا غصب کرنا اقتصادی پابندی تھی امامت کا چھیننا سیا سی پابندی تھی گھر پر حملہ کر کے دروازے کا جلانا خاندانی شرافت اور فضیلت کی پائمالی تھی خلاصہ صحابہ کر ام پیغمبر اکرم کے بعد خود کو پیغمبر اکر م کے جا نشین اور قرآن کا محافظ قرار دیئے تھے اور جو بھی اس روئیے کی مخالفت کر تا تھا اسکو زمان جاہلیت کے طور وطریقے کے ساتھ جواب دنیا لازم سمجھتے تھے حضرت زہرا عصمت کی ما لک تھیں پیغمبر اکرم نے یقینا صحابہ کرام سے زیادہ کا ئنات کے حقائق سے حضرت زہرا کو با خبر کر دیا تھا فرشتے اور سچے مومن حضرت زہرا کی خدمت کر نے کو باعث نجات سمجھتے تھے

۵۹

اسی لئے حضرت زہرا نے پورے پچھتر (۷۵)یا پچا نوے (۹۵) یا چا لیس دن رونے کو اختیار فرمایا تا کہ صحابہ کرام کی طرف سے ڈھا ئے گئے مظالم پوری بشریت کی تاریخ میں قیامت تک ثبت رہے اور صحابہ کرام کی منافقت بے نقاب ہو کر ایک غاصب کی شکل میں قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے نظر آئے لہٰذا ظالم حکمران اور خریدے ہو ئے مورخین بھی حضرت زہرا کی مظلومیت کو بہت ہی احتیاط کے باجود قدرتی طور پر بیان کر نے پر مجبور ہوئے ہیں۔

پس اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو بخوبی روشن ہو جا تا ہے کہ زہرا نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد شریعت اسلام اور ولایت علی ابن ابیطالب کی حفاظت کر نے کے خاطر کتنی سنجیدہ گی سے کام لیا اگر زہرا کا رونا نہ ہو تا تو آج جس طرح ہم زہرا سلام اللہ علیہا کو ایک مظلومہ کی حیثیت سے پہچا نتے ہیں اس طرح شناخت نہ ہو تی بلکہ آج ہم بھی تاریخ میں زہرا کو اور ان پر ڈھائے گئے مظالم کو ایک جھوٹ اور بہتان کی شکل میں بیان کر تے جس طرح دور حاضر کے اہل قلم نے اپنی کتابوں میں واضح دلیل ہو نے کے باوجود زہرا پر ڈھائے گئے ظلم وستم کو ایک بہتان اور جھوٹ سے تعبیر کر تے ہیں لیکن حضرت زہرا کی عصمت اور ان کے علم ومعرفت نے ان کی بری سازشوں کو بے نقاب کر کے قیامت تک کے لیے پشیمان کر دیا اور قیامت تک کے لیے نور خدا یعنی امامت کی حفاظت فرمائی یہ باتیں صحابہ کرام اورپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والے مفسرین اور محد ثین نے متعدد روایات اور آیات کی تفسیر میں اپنی گراں بہا کتابوں میں ذکر کیا ہے۔

۶۰