حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر0%

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 174

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات: صفحے: 174
مشاہدے: 51592
ڈاؤنلوڈ: 3682

تبصرے:

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 174 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51592 / ڈاؤنلوڈ: 3682
سائز سائز سائز
حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱) حضرت علی علیہ السلام شادی کے لیے تیار ہو ئے لیکن مسلمانوں کے لیے اس روایت میں پیغمبر اکرم یہ پیغام دینا چا ہتے ہیں کہ بیٹی کا شوہر باید امین اور ایماندار ہو ۔

۲) بیٹی کا مہر اسلام کے ضوابط اور اصول سے خارج نہ ہو یعنی اگر بیٹی کی زندگی اپنے شوہر کے ساتھ خوشگوار بنا نا چاہتے ہیں تو زہرا کی سیرت پر چلیں کہ زہرا کا مہر اتنی شخصیت اور پوری کا ئنات پر اختیار ہو نے کے باوجود روایت میں درج ذیل ذکر کیا گیا ہے :

ا ۔ایک ذرہ جس کی قیمت چار سو یا چار سو اسی یا پانچ سو درہم تھی۔

۲۔ ایک جوڑا یمنی کتان

۳- ایک گو سفند کی کھال(۱)

اس روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ بیٹی کا مہر زیادہ اس کی عزت اور آبرو نہیں ہے بلکہ باایمان شوہر کا منتخب کرنا اس کی عزت ہے، لہٰذا ایک مسلمان عورت کو اپنے لئے حضرت زہرا کی سیرت کو نمونہ عمل قرار نہ دینا پشیمانی کا سبب ہے ، جب حضرت علی علیہ السلام نے حضرت زہرا کا مہر ایک ذرہ قرار دیا تو پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

''اے علی اس ذرہ کو بازار میں لے کر فروخت کرو تاکہ میں اس کی قیمت

____________________

(۱)وافی کتاب نکاح نقل از کتاب فاطمہ زہرا اسلام کی مثالی خاتون

۸۱

سے جناب فاطمہ زہرا کا جہیز او رگھر کا سامان مہیا کردو''۔(۱)

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے ذرہ کو فروخت کردیااور قیمت لے آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے توپیغمبر اکرم نے ابوبکر اور حضرت سلمان فارسی اور جناب بلال کو بلایا اور کچھ درہم ان کے حوالہ فرمایا او رکہا: ان سے حضرت زہرا کے لئے لوازمات زندگی خریدلو اور چند درہم حضرت اسماء بنت عمیس کو دئے اور فرمایا کہ ان سے حضرت زہرا کے لئے عطر اور خوشبو کے لوازمات خرید لو ۔(۲)

اسی لئے روایات میں آپ کے جہیز کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

۱۔ایک قمیص۔

۲۔ایک برقعہ ۔

۳۔ایک سیاہ خیبری حلہ۔

۴۔ایک چارپائی۔

۵۔دو عدد توشک (گدّے)

۶۔چار تکیے۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۴۳ص ۱۳۵ (۲)بحار الانوار ج۴۳ص ۱۳۹

۸۲

۷۔ایک چٹائی۔

۸۔ایک ہاتھ کی چکّی۔

۹۔ایک پیالہ۔

۱۰۔ایک عبا۔

۱۱۔دو عدد کوزے۔

۱۲۔ایک فرش۔

۱۳۔ایک مٹی کا برتن۔

۱۴۔ایک لوٹا۔

۱۵۔ایک پردہ۔

۱۶۔ایک گلاس۔

۱۷۔ایک کپڑے دھونے کا لگن۔

۱۸۔ایک چمڑے کی مشک۔(۱)

اس روایت سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بیٹی کے ساتھ جہیزکا بھیجناسنت نبوی ہے لیکن افراط وتفریط نہ کرنا بھی سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے یعنی جہیز کی وجہ سے ان کی

____________________

(۱) مناقب شہر ابن آشوب ج۳، کشف الغمہ جلد اول ص ۲۵۹.بحار الانوار ج۴۳.

۸۳

زندگی کو تباہ وبرباد کرنا جائز نہیں ہے لہٰذا اگر شہر کے معمول کے مطابق کسی بیٹی کے لئے جہیز نہ آئے تو ان کی تحقیر وتوہین کرنا شرعاممنوع ہے اگرچہ ہمارے زمانے میں بہت سارے واقعیات دیکھنے میں آئے ہیں کہ اگر کوئی لڑکی اپنے ساتھ کافی مقدار میں جہیز نہ لے آئے تو شوہر اور سسرال والے اس کو ذلیل کرتے ہیں اور ہمیشہ برا بھلا کہتے رہتے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ جہالت اور ضعف ایمان کی نشانی ہے۔

پھر جب پیغمبر اکرم نے حضرت زہرا کی شادی خدا کے اذن سے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا اور شادی کی رسومات انجام دینے کی تیاری فرمائی اور جہیز کو معین کرنے کے بعد رخصتی کا جشن منانے کا پروگرام شروع کیا تو فرمایا:

''اے علی شادی کے موقع پر ولیمہ دیاجائے اور میں چاہتا ہوں کہ میری امت بھی شادیوں میں ولیمہ دیا کرے۔''اس وقت سعد اس موقع پر حاضر تھے انھوں نے عرض کیا: یا علی میں آپ کو اس جشن کے لئے ایک گوسفند دیتا ہوں ، اسی طرح دوسرے اصحاب نے بھی حسب استطاعت حضرت علی کی مدد کی، اور پیغمبر اکرم نے جناب بلال سے فرمایا ایک گوسفند لے آئو ، اور حضرت علی کو گوسفند ذبح کرنے کا حکم دیا اور دس درہم بھی دئے اس سے باقی لوازمات خریدیئے ۔

۸۴

پھر جب یہ انتظام مکمل ہوا تو حضرت علی سے فرمایا : شادی کے ولیمہ میں دعوت دیں، حضرت علی علیہ السلام نے اصحاب کے ایک گروہ کو دعوت دی ، اور جب مہمان پہنچے تو دیکھا کہ مہمانوں کی تعداد زیادہ ہے اور کھانا کم، تو رسول خدا نے حکم دیا کہ مہمانوں کو دس دس گروہ میں تقسیم کردیا جائے ، دوسری طرف جناب عباس ، جناب حمزہ، جناب عقیل اور حضرت علی مہمانوں کی پذیرائی میں مصروف تھے، دسترخوان بچھایا ولیمہ شروع ہوتے ہی فقراء ومساکین حضرت زہرا کے ولیمہ میں شرکت کرکے سیر ہوئے جب کہ اس وقت پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو دستور دیا کہ آپ دونوں الگ برتن میں کھانا تناول فرمائیں۔(۱)

اس مختصر ورایت سے درج ذیل نتیجہ نکلتا ہے:

۱۔شادی کے موقع پر ولیمہ کھلانا سنت ہے۔

۲۔ شادی کے موقع پر ایک دوسرے کی مدد کرنا اصحاب کی سیرت ہے۔

۳۔ ولیمہ میں افراط وتفریط نہ کرنا اور فقراء ومساکین کو بھی شامل کر نا حضرت علی اور حضرت زہرا(س) کی سیرت ہے لہٰذا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی اتنی شخصیت اور فضیلت کے باوجود اتنامختصر مہر پر راضی ہو جا نا اور مختصر جہیز کا قبول کر نا آج کل ہما رے زما نے کی بہنوں اور بیٹیو ں کے لئے ایک درس ہے یعنی

____________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳.

۸۵

ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے لئے ایک ایما ندار شوہر تلاش کریں نہ دولت مند اور نام نہاد نہ جہیزمیں افراط وتفریط۔

پس حضرت زہرا کی سیرت پر چلنے والے مردوں اور عورتوں کے لئے شادی کے موقع پر زہراکی سیرت کو بالائے طاق رکھ کرمو جودہ زمانے کے خرافات کو ازدواج اور شادی کی رسم قرار دینا باعث پشیما نی ہے جس کا نتیجہ شا دی کے مو قع پر اتنے شورو شرا بے کے باوجود تھوڑی مد ت گزرنے کے بعد آپس میں جھگڑا اور طلاق کی صورت نکلتی ہیں جس کی وجہ شوہر کے انتخاب میں ماں ، باپ کا کڑی نظر سے غور نہ کرنا یا مہر وجہیز میں افراط وتفریط کر نا نظر آتا ہے لہٰذا روایت میں آیا ہے کہ حضرت زہرا(س) کی ایک ہزار سے زیا دہ لوگوں نے خواستگاری کی تھی لیکن پیغمبر اکر م اور حضرت زہرا نے کسی کو قبول نہیں کیا جب کہ دولت، شہرت اور سرما یہ کے حوالے سے حضرت علی سے مقائسہ ہی بے معنی ہے کیو نکہ علی اس زمانے کے فقیر ترین افراد کی ما نند زندگی گزار رہے تھے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شوہر کے انتخاب میں ایماندار ی اور امانت داری معیار ہے ۔

۸۶

ب۔ گھر یلو امور میں آپ کی سیرت

پوری کا ئنات میں حضرت زہراسلام اللہ علیہا سے افضل اور باشرافت نہ کوئی خاتون آئی ہے نہ قیامت تک آئے گی لہٰذا حضرت زہرا کا ہر عمل کردار ورفتار پوری بشریت کے لئے ہر امور میں نمونہ عمل ہے یہ قیامت تک خدا کی طرف سے اٹل فیصلہ ہے اگر کو ئی شخص دنیا میں اپنے محبوب کے ساتھ عشق ومحبت کی زندگی گزار نے کا خواہشمند ہے تو ضرور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی حالات زندگی کا مطالعہ کرے انہوں نے شوہر کے ساتھ اور اولاد کی تربیت اور دیگر گھر یلو امور کے بارے میں جو سیرت پیش کی ہے ان پر چلنا ضروری ہے کیونکہ آپ کی سیرت طیبہ میاں بیوی کے آپس میں محبت کی تقویت کا ذریعہ ہے۔

تب ہی تو پیغمبر اکرم نے حضرت زہرا سے خواستگاری کے موقع پر فرمایا اے بیٹی فاطمہ تم علی علیہ السلام کی حالت سے واقف ہو کہ علی کیا ہیں پھر جب حضرت فاطمہ کی رخصتی ہو گئی یعنی وحی اور رسالت کے گھر سے امامت اور جا نشین کے گھر خدا کے حکم سے منتقل ہو گئیں تو پیغمبر اکرم نے انہیں دنوں ہی میں گھریلو امور کو آپس میں تقسیم کر نے لگے اے علی گھر کے اندر ونی کا م کا ج فاطمہ انجام دیں گیں جب کہ بیرونی امور آپ کے ذمہ قرار دئیے گئے ہیں پیغمبر اکر م نے اس طرح تقسیم بندی کی تو حضرت زہرا نے فرمایا:

'' بابا میں اس تقسیم بندی پر بہت ہی خوش ہو ں''(۱)

اسی لئے حضرت زہرا ہمیشہ گھر کے اندرونی معاملات کو اچھے طریقہ سے

____________________

(ا) بحارالا نوار جلد ۴۳.

۸۷

انجام دیتی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام بھی ہمیشہ سر اہا کرتے تھے کیو نکہ آپ گھر میں ہمیشہ کندھے پر مشک اٹھاکر پا نی لا تی تھیں چکی پیس کر آپ کے ہاتھوں میں چھا لے پڑگئے تھے لہٰذا خواتین وحضرات حضرت زہرا کے گھر یلو امور کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔ آپ ہمیشہ کھا نا تیار کرتی تھیں۔

۲۔ گھر کی صفائی خود انجام دینی تھیں۔

۳۔ بچوں کی تر بیت کے لئے شب وروز زحمت اٹھا تی تھیں۔

پس اگر شوہر کے ساتھ اپنی زندگی کو شاداب اور خوشگوار بنا نا چا ہتی ہیں تو ہمیشہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت پر چلنے کی کو شش کریں کیو نکہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا بے مثال خاتو ن ہو نے کے علاوہ فرشتے بھی آپ کی خدمت کر نے پر فخر کرتے تھے اس کے باوجود خود گھر کے امور کو انجام دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری خوبی اور سعاد تمندی زحمت اٹھا نے میں ہی پوشیدہ ہے ۔

لہٰذا آج کل کے زما نے میں گھر یلو امور کو انجام دینے کی خاطر بچوں کی تربیت دینے کے لئے نوکر رکھنا ہماری بد بختی اور نا کا می کی علامت ہے اگر چہ جناب فضہ آپ کی خادمہ سے موسوم ہے اور دوسری کچھ روایات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حضرت زہرا نے اپنی خدمت کے لئے پیغمبر اکرم سے لونڈی کا تقاضا کیا لیکن پیغمبر اکرم نے گریہ کر تے ہوئے فرما یا یا زہرا خدا کی قسم

۸۸

چار سو افراد فقیر ہیں جو اس وقت مسجد میں رو رہے ہیں کہ جن کے پاس نہ لباس نہ خوراک اور نہ دیگر لوازمات زندگی ہیں اگر آپ کے پاس لونڈی ہو تو گھر میں جتنا کام کرنے کا ثواب ہے اس سے آپ محروم رہیں گیں ۔

تذکر:

اگر دور حاضر کی عور تیں اس طرح اعتراض کریں کہ اگر ہم حضرت زہرا کی سیرت پر چلیں گے تو ہم علمی، تحقیقا تی ، سیا سی ، سما جی امور میں مردوں کی ما نند کا م کر نے سے محروم رہ جائیں گے۔

حقیقت میں اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہمارے زمانے کی خواتین حضرت زہرا سے زیادہ پڑھی لکھی یقینا نہیں ہو سکتی کیونکہ حضرت زہرا کے ساتھ جبرائیل امین گفتگو کر تے تھے پیغمبر اکر م جیسے نبی کی زیر نظر تربیت پائی تھی حضرت علی جیسے شوہر کے ساتھ زندگی گزاری تھی نیز حضرت زہرا تحقیقاتی اور سیاسی وسما جی امور میں ساری کائنات کی خواتین سے آگے تھیں، لیکن آپ نے عملی میدان میں دونوں کا موں کو انجام دیا لہٰذا گھریلو امور کو انجام دینے کے بعد علمی تحقیقاتی اور دیگر امور میں خدمت انجام دینے کا مو قع ملا تو انجام دیجئے وگر نہ گھر یلو امور چھوڑکر ایسے امور میں مدا خلت کر نا ظلم کے مترادف اور خلاف طبیعت ہے کیو نکہ خدا نے مردوں کی طبیعت اور عورتوں کی طبیعت میں فرق رکھا ہے یعنی مردوں کی طبیعت میں سر پرستی اور عورتوںکی طبیعت میں قبولیت وجا ذبیت رکھی ہے ۔

۸۹

ج ۔شوہر کی خدمت میں آپ کی سیرت

زندگی کے تمام مراحل میں ازدواجی زندگی کو خوشگوار اور بہتر زندگی سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر مر د اور عورت کی خواہش یہی ہو تی ہے کہ ازدواجی زندگی کا آغاز جوانی کے آغاز کے ساتھ ہو تاکہ کسی بری عادتوں کے شکار نہ بنے لہٰذا تعلیمات اسلامی تاکید کے ساتھ جوانی کے آغاز میں شادی کر نے کا حکم دیتی ہیں اور حضرت زہرا(س) کی سیرت بھی یہی ہے یعنی آپ نے جوانی کے آغاز میں شادی کر کے زہرا کی سیرت پر چلنے والی عور توں کے لئے نمونۂ عمل بن گئیں تھیں اگر چہ ہمار ے زما نے میں ایسی شادی کو نا کام شادی سمجھا جا تاہے لیکن ایسا خیال حقیقت میں جہالت اور مغربی تہذیب وتمدن پر چلنے کا نتیجہ ہے وگر نہ ازدوا جی زندگی میںاور دیگر تمام امور کا ملاک اور معیار حضرت زہرا ہیں کیو نکہ حضرت زہراکو قیامت تک کی تمام خواتین کے لئے بے مثال نمو نہ قرار دیا گیا ہے لہٰذا آپ ہمیشہ شوہر کی خدمت کر نے میں کوشاں رہتی تھیں تب ہی تو حضرت علی علیہ السلام نے بہتر(۷۲) جنگوں میں شرکت کر کے اسلام اور پیغمبر اکرم کی حفا ظت کی لیکن جب بھی میدان جنگ سے تھکاوٹ ،بھوک اور پیا س کی حالت میں واپس آتے تھے تو حضرت زہرا(س) آپ کو تسلی دے کر بھوک اور پیاس کی حالت کو دور فرما تی تھیں اور دوبارہ جنگ کے لئے تیار کرتی تھیں اسی لئے اسلام نے شو ہروں کی خدمت انجا م دینے کو جہاد فی سبیل اللہ کے برابر قرار دیا ہے اور حضرت زہرا(س) اسلام کی حقانیت سے بخوبی آگاہ تھیں ۔

۹۰

لہٰذا کبھی بھی شوہر کے حقوق کو ادا ء کر نے میں کوتاہی نہیں فرمائی نیز گھر کی تمام ذمہ داری کو انجا م دینے کے علاوہ خارجی امور جو حضرت علی کے ذمہ تھے ان میں بھی حضرت علی کی مدد فرماتی تھیں پس حضرت زہرا کی سیرت یہ ہے کہ آپ ہمیشہ حضرت علی کو خوش رکھا کر تی تھیں یہی وجہ ہے کہ حضرت علی نے حضرت زہرا کے آخر ی وقت میں فرمایا اے رسول خدا کی بیٹی تم نے کبھی بھی گھر میں برا سلوک نہیں کیا تمہاری خدا کی معرفت اور پر ہیز گاری اور نیکو کاری اس حدتک تھی کہ جس پر اعتراض کی گنجائش ہی نہیں تھی لہٰذا مجھ پر تمہاری جدا ئی اورمفارقت بہت ہی سنگین اور سخت ہے لیکن ہر نفس کو مو ت کا ذائقہ چکھنا ہے پس اس سے بھا گنے کی گنجائش نہیں ہے(۱)

پس خواتین حضرات شوہر کے لئے زینت ان سے محبت وعشق کے ساتھ گفتگو کرنا ہر وقت شوہر کی مدد میں جدو جہد کرنا ،ان کے سامنے نازیبا الفاظ، ناپسندیدہ حر کتوں سے اجتناب کر نا زہرا کی سیرت اور اولین فرائض میں سے شمار کیا جاتا

____________________

(۱) بحارالا نوار جلد ۴۳

۹۱

ہے جس کا نتیجہ عو ر توں کو ہی ازدواجی زندگی میں نمایاں حالت میں نظر آئے گا لہٰذا دنیوی زندگی کی لذتوں سے بہرہ مند اورابدی زندگی میں نجات کے خواہاں ہیںتو شوہر کی خدمت کرنا فراموش نہ کیجئے اگرچہ ہمارے زمانے میں کچھ خواتین پڑھی لکھی ہونے کا دعوی کرنے کے ساتھ نہ صرف حضرت زہرا کی سیرت پر نہیں چلتی بلکہ شریعت اسلام میں مر دوں کے ذمہ مقرر شدہ تکالیف کواپنے کا ندھوں پر اٹھا نے کی کو شش کر تی ہوئی نظر آتی ہیں اور اسی کو اپنی کا میابی سمجھ کر دوسری عور توں پر ناز کرنے کا ذریعہ بھی سمجھتی ہیں جب کہ گھر یلو امور کو انجام دینا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتی بلکہ اس کو مرد کے ذمہ قرار دیتی ہیں یہی وجہ ہے بیوی اتنی خوبصورت اور ہر لائن میں صلاحیت کے مالک ہو نے کے باوجود مر د اس عورت کے ساتھ زندگی کرنے پر جدا ئی اور طلاق دینے کو تر جیح دیتا ہے اسی لئے اسلام میں عورتوں کی رفتار کو پیغمبر اکرم نے اس طرح بیان فرمایا ہے اگر خدا کے علاوہ کسی بشر کو سجدہ کر نا جا ئز ہو تا تو میںسب سے پہلے عور توں کو حکم دیتا کہ تم اپنے شوہروں کو سجدہ کرو(۱)

یعنی مر د اور شوہر کا احترام بہت زیادہ ہے نیز آنحضرت نے فرمایا بیوی پر شوہر کا حق یہ ہے جب بھی شوہر اس کو چا ہے تو مخا لفت نہ کر یں اور اس کو کوئی حکم دے تو اس پر عمل کر ے ۔(۲)

____________________

(ا)فروع کا فی جلد ۵ (۲) مستدرک جلد ۱۴.

۹۲

تیسری روایت میں فرمایا کوئی بیوی شوہر کی اجا زت کے بغیر مستجی روزہ نہیں رکھ سکتی اگر شوہر کی اجا زت کے بغیر رکھا تو گنہگار وں میں سے ہو گی(۱)

چوتھی روایت میں آپ نے فرمایا بیوی شوہر کی اجا زت کے بغیر شوہر کے اموال میں سے کو ئی چیز صدقہ نہیں دے سکتی اگر اجا زت کے بغیر صدقہ دیا تو خدا نہ صرف اس کو صدقہ کا ثواب نہیں دیتا بلکہ اس کو گنہگاروں میں شمار کیا جا تا ہے(۲)

بس ان مذ کورہ روایات کو خواتین حضرات دقت سے غور کریں تو معلوم ہو جا تا ہے کہ شوہر کے ساتھ گزاری جا نے والی زندگی کتنی اہمیت کی حا مل ہے اس زندگی کو آباد اور خو شگوار گزارنا کتنا مشکل ہے لہٰذا پیغمبر اکرم نے ایک خا تون کے سوال کے جواب میں فرمایا خاتون نے پو چھا یا رسو ل اللہ عورتوںپر مردوں کاکیاحق ہے ،آپ نے فرمایابیویاں ہمیشہ شوہروں کی چا ہت کو پورا کر یں اگر چہ وہ کسی گھوڑے پر سوار ہی کیوں نہ ہو ں شوہر کی اجا زت کے بغیر کسی کو کوئی چیز نہ دے اگر بیویوں نے شوہر کی اجا زت کے بغیر کو ئی چیز دی تو اس کا ثواب نہ ملنے کے علاوہ وہ گنہگار بھی ہو گی(۳)

نیز آپ نے فرمایا :

____________________

(۱)مستدرک جلد ۱۴. (۳) مستدرک جلد۱۴

(۲)و مسائل جلد ۱۴

۹۳

''اے لو گو! عورتوں کے کچھ حقوق تمہارے ذمہ ہیں اور تمہارے کچھ حقوق عور توں کے ذمہ ہیں لیکن جو حقوق عور توں کے ذمہ ہیں وہ یہ ہیں کہ مر د کی اجا زت کے بغیر کسی کو گھر میں آنے کی اجازت نہیں دینا۔(۱)

پس خواتین حضرات راقم الحروف سو فیصد آپ کا حا می ہے لیکن مذکورہ روایات کوذکر کرنے پو مجبور ہوں کیونکہ دور حا ضر میں میا ں بیوں کے آپس میں انس ومحبت کے تعلقات کے باو جود کتنے ظلم وستم رونما ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے نورانی کلام سے استفادہ کر نے کے بجا ئے ڈائجسٹ جیسی کہا نیوں پر لکھی ہو ئی کتابیں پڑھی جا تی ہیں اور گھر وں میں مغربی تہذیب وتمدن کو اپنی زندگی کا ملاک قرار دیتے ہیں جب کہ حضرت زہرا سلا م اللہ علیہا کی سیرت طیبہ سے ہم جاہل ہیں ۔

د۔بچوں کی تر بیت کر نے میں آپ کی سیرت

اکیسو یں صدی میں روز مرہ زندگی کے اہم ترین مسائل میں سے ایک بچے کی تر بیت ہے لیکن ہمارے زمانے میں ہر دانشمنداور مربی نے تر بیت کے لئیے جو فارمولے بیان کئیے ہیں ان کا اثر حتمی ہے اگرچہ ما ں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ

____________________

(۱)بحارالانوار جلد ۷۲

۹۴

ان فار مولوں کو حضرت زہرا (س)اور حضرت علی علیہ السلام کی سیرت سے مقائیسہ کر کے نفی اور اثبات کا فیصلہ کریں تا کہ آیند ہ بچوں کی زندگی سنور سکے ورنہ ماں، باپ ،مسلمان ، صوم وصلوة کے پابند ہو نے کے باوجود اولاد غیر مسلم اور تارک الصوم وصلوة بھی ہو سکتی ہے کیو نکہ کا ئنات میں بچوں کی ما نند زود اثر اور تیز ہو ش کوئی ہستی نہیں ہے۔

لہٰذا جو سیرت والدین بچوں کے ذہن میں منقش کریں گے اسی کے مطا بق ان کی زندگی ہو گی اسی لئے کہا جا سکتا ہے کہ بچے کی تقدیر کا میابی ،نا کامی ، سعادتمندی ،شقا وتمندی ، سیا سی ،بہادر ی وغیرہ کا ہو نا ماں ،باپ کے ہا تھ میں ہے لہٰذا والدین کو چا ہیئے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام نے جس طرز اور کیفیت پر بچوں کو تر بیت دی ہے اسی کو مشعل راہ قرار دے کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کا ئنات میںماہر ترین مر بی ہیں ان کی سیرت کو دنیا وآخرت دونوں میں سعادتمندی کا ذریعہ سمجھیں اس لئے کہ انہوں نے پیغمبر جیسے اشرف المخلوقات کے زیر نظرتر بیت پائی ہے ۔

لہٰذا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذمہ داریوں میں سے دشوار ترین ذمہ داری بچوں کی تربیت تھی آپ پانچ فرزند کی مربی تھیں امام حسن امام حسین، جناب زینب کبری ، ام کلثوم پانچواں فرزند جس کا نام پیدائش سے پہلے رسول اکرم نے محسن رکھا تھا جو دشمنوں کے ظلم وستم کے نتیجہ میں سقط ہو کر شہید ہو گیا حضرت پیغمبر اکرم آپ کی اولاد کے بارے میں فرمایا کرتے تھے میں اور

۹۵

باقی انبیاء علیہم السلام کے ما بین فرق یہ ہے کہ میری نسل کا سلسلہ علی علیہ السلام کے صلب سے مقرر ہوا ہے میں فاطمہ کی اولادکا باپ ہوں جب کہ دوسرے پیغمبر وں کی ذریت ان کے اپنے صلب سے ہیں(۱)

خدا نے بھی اپنے دین کا پیشوا اور رسول کے جا نشین حضرت علی علیہ السلام کے بعد حضرت علی اور حضرت زہرا کی پاک نسل سے منتخب فرمائے ہیں لہٰذا حضرت زہرا کے وظائف میں سے سخت ترین وظیفہ بچوں کی تربیت تھا حضرت زہرا سلام اللہ علیہاکو معلوم تھا کہ امام حسن علیہ السلام کے سا تھ مقابلے میں معاویہ ،امام حسین کے مقابلے یزید زینب کبری وام کلثوم کے سامنے کو فہ وشام کی اسیری ہے تب ہی تو حضرت زہرا نے اسلام کی ضرورت کے پیش نظراپنے عزیزوں کی اس طرح تربیت کی کبھی کسی نے ظلم اور دشمنوں سے مبارزے کے وقت قربانی دینے اور شجرئہ طیبہ کی سیرابی خون کے ذریعے کرنے سے انکار نہیں کئے لہٰذا امام حسن وامام حسین اور دیگر مخدرات اہل بیت نے بنی امیہ کی بیدادگر ی اور ظلم سے اس طرح مقابلہ کیا کہ قیامت تک کے لئے ان کو شکست ہوئی پس بچوں کی شخصیت بنانا فکر و تدبر سکھا نا ،خدمت وایثار ،صلح وصفا، مہر ومحبت استقامت کے میدان میں کا میاب

____________________

(۱)منا قب ابن شہر آشوب ص۲۸۷

۹۶

بنا نا ماں،باپ کی ذمہ داری ہے جس کا ضابطہ اور قانون حضرت زہرا کی سیرت ہے لہٰذا تکلم کے وقت مہرو محبت ،کھا نے کے مو قع پر صفائی ،ناجائز چیزوں سے اجتناب ، نیک اور کار خیر میں شرکت کی عادت ،اور دیگرہنروں سے ہمکنار کرنا حضرت زہرا(س) کی سیرت ہے تاکہ بچے اسے دیکھ کرتربیت حاصل کریں۔

ز۔ علم میں آپ کی سیرت

دور حاضر علم ودانش کے حوالے سے پیشر فتہ ترین دور ہے پھر بھی کا ئنات اور دنیا کی چھوٹی بڑی تمام چیزوں کی حقیقت سے آگاہ حضرت پیغمبر اکرم اور ان کے جا نشین واہل بیت رسول کے سواء کوئی اور بشر نہیں ہو سکتا ہے کیو نکہ سوائے اللہ تعالی کے کوئی بھی انسان با لذات علم و دانش کی صفت سے متصف نہیں ہے لہٰذاخدا نے انسانو ں میں سے انبیاء اوراہل بیت رسول کو علم ودانش کے لئے منتخب فرمایا اسی لئے انبیا ء علیہم السلام اوران کے جا نشین کا علم باقی انسانوں کے علم سے زیادہ اور وہم وخیال ،ظن وغیرہ سے مبرا علم سمجھا جا تا ہے جب کہ باقی انسانوں کا علم وہم وخیال اور ظن کا مجمو عہ سمجھا جاتا ہے لہٰذا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے علم ودانش کے بارے میں یوں روایت کی گئی ہے حضرت عمار نے کہا ایک دن حضرت علی علیہ السلام دولت سرا میں داخل ہو ئے

۹۷

تو جناب فاطمہ زہرا نے فرمایا اے علی آپ میرے قریب تشریف لائیں تاکہ میں آنے والے حالات، گذشتہ رونما ہوئے وقائع آپ، کی خدمت میں بیان کروں، حضرت علی حضرت زہرا س کی گفتگو سن کر حیرت میں پڑگئے اور پیغمبر اکرم کی خدمت میں شرف یاب ہو کر سلام کے بعد آپ کے نزدیک بیٹھنے لگے اتنے میں پیغمبر نے فرمایا اے علی آپ گفتگو کو شروع کریں گے یا میں شروع کروں علی نے فرمایا اے خدا کے حبیب میں آپ کی ذرین باتوں سے مستفیظ ہو نے کا خواہاں ہوں پیغمبر اکرم نے فرمایا آپ میرے پاس اس لئے آئے ہیں کہ جوبات حضرت فاطمہ نے آپ سے کہی ہے اس کا حل مل جا ئے حضرت علی نے عرض کیا اے خدا کے رسول کیا فاطمہ کا نور بھی ہمارے نورسے ہے؟

پیغمبر اکرم نے فرمایا اے علی کیا یہ بات آپ نہیں جانتے تھے؟

حضرت علی یہ بات سن کر سجدہ کرنے لگے اوراللہ تعالی کا شکر ادا کیا پھر جناب فاطمہ کی خدمت میں واپس آئے حضرت فاطمہ کی جیسے ہی حضرت علی پر نظر پڑی تو فرمایا یا علی آپ میرے بابا کے پاس گئے تھے حضرت علی نے فرمایا جی ہاں حضرت فاطمہ نے فرمایا اے ابوالحسن خدا نے جب میرے نور کوخلق کیا اس وقت وہ اللہ تعالی کی تسبیح کر تا تھا(۱)

نیز امام حسن العسکری علیہ السلام نے فرمایا ایک دن ایک خاتون حضرت فاطمہ کی خدمت میں آئی اور عرض کی میری ما ں عام عادی حالت میں نما ز انجام

____________________

(۱) بحارجلد ۴۳ص۲۴.

۹۸

دینے سے عاجز ہے لہٰذا ان کودرپیش کچھ مسائل آپ سے سوال کر نا چا ہتی ہوں اس عورت نے دو مسئلوں کے بارے میں سوال کیا آپ نے ان کا جواب فرمایا۔(۱)

پس مذکورہ روایات اور ان کے علاوہ باقی اخبار سے بخوبی استفادہ ہو جا تا ہے کہ کائنات میں حضرت زہرا کی مانند کوئی پڑھی لکھی خا تون نہ آئی ہے نہ آئے گی اس کے باوجود آپ نے کبھی مردوں کے مخصوصاامور میں نہ صرف مد اخلت نہیں کی بلکہ ہمیشہ عورتوں کے زمرے میں رہ کر گھر کو سجایا شوہر کی خدمت امامت کی حفاظت رسالت کی مددگار رہی ہیں پس اگر سیرت حضرت زہرا کو صحیح معنوی میں سمجھے تومعلوم ہوگا کہ آپ نے کبھی پڑھی لکھی ہو نے کا دعوا نہیں کیا لہٰذ ہمارے زما نے میں خواتین وحضرات کا ذاکرہ اہل بیت یا مسئلہ گو کی حیثیت سے ممبر رسول پر تشریف لے جا نے میں بنیادی شرط حضرت زہرا کی سیرت ہے اس سے باخبرنہ ہو نے کا نتیجہ اسلامی تہذیب وتمدن سے دوری کی علامت ہے نیز حضرت زینب سلام اللہ علیہا واقعہ کر بلا کے بعد شام سے دوبارہ مدینہ منورہ لونٹے تک پورے اسراء آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سر پرست ہو نے کے باوجود امامت کے محا فظ رہی ہے لیکن اس عرصے میں جو سیرت آپنے چھوڑی ہے وہ ہمارے زمانے کے ذاکرہ حضرات کے لئے ممبر کے وضائف اور اسلام کی خدمت انجام دینے میں بہترین راہ ہے ۔

____________________

(۱)بحار الانوارج۳ص۴۲.

۹۹

ر۔عبادت میں آپ کی سیرت

مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ جو تاکید کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کسی فعل وقول اور عبادت میں افراط وتفریط نہ کریں لہٰذا قرآن کا ئنات میں دو قسم کے انسانوں کی مذمت کر تے ہو ئے نظر آتاہے ۔

۱۔خدا کی بالکل عبادت نہ کرنے والے افراد۔

۲۔ خدا کی عبادت میں اصول وضوابط کے بغیر کثرت سے انجام دینے والے افراد۔

یہ دونوں گروپ حقیقت میں سیرت چہاردہ معصومین علیہم السلام کو اپنی زندگی کے لئیے مشعل راہ قرار نہ دینے کا نتیجہ ہیں پس اگر انسان حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ہر عمل اور رفتار کا کڑی نظر سے مطالعہ کر ے تو واضح ہو جا تا ہے کہ حضرت زہرا نے ہمارے لئے خدا کی عبادت انجام دینے میں کیا نقش اور سیرت چھوڑی ہے تا کہ خواتین عبادت کی انجام دہی میں افراط وتفریط کا شکار نہ ہو جا ئیں کیو نکہ آپ کی پوری زندگی اگر چہ مختصر صحیح لیکن بچوں کی تربیت ،خدا کی عبادت پیغمبر اکرم اور حضرت علی کی تھکاوٹوں کودور کرنے بھوک و پیاس بجھانے دوبارہ میدان جنگ میں بھیجنے کی تیاری کے کاموں میں مصروف رہی ہیں لہٰذا آپ نے کھبی کسی کام کو انجام دینے میں افراط و تفریط اور کوتاہی نہیں فرمائی تب ہی تو حضرت زہرا حق و باطل نجات و عذاب جنت و جہنم کا معیار بنیں ہیں چنانچہ پیغمبر اکرم کا ارشاد ہے :

۱۰۰