110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 136534
ڈاؤنلوڈ: 5556

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136534 / ڈاؤنلوڈ: 5556
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۵۳ ۔ ولایت تکوینی اور تشریعی سے کیا مراد ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ ولایت کی دو قسمیں ہیں:

۱ ۔ ولایت تکوینی۔

۲ ۔ ولایت تشریعی۔

ولایت تشریعی سے مراد وہی اسلامی اور قانونی حاکمیت اور سرپرستی ہے، جو کبھی محدود پیمانہ پر ہوتی ہے جیسے چھوٹے بچہ پر باپ اور داد کی ولایت، اور کبھی وسیع پیمانہ پر ہوتی ہے جیسے حکومت اور اسلامی ملک کے نظم و ضبط میں حاکم شرعی کی ولایت ۔

لیکن تکوینی ولایت سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص خدا کے حکم اور اس کی اجازت سے اس عالم خلقت اور اس کائنات میں تصرف کرے، اور اس دنیا کے اسباب و وسائل کے برخلاف کوئی عجیب واقعہ کردکھائے، مثلاً لاعلاج بیمار کو خدا کے اذن سے اور اس کی عطا کردہ طاقت سے شفا دیدے، یا مردوں کو زندہ کردے، یا اسی طرح کے دوسرے امور کو انجام دے، نیز کائنات اور انسانوں پر غیر معمولی معنوی تصرف کرے۔

”ولایت تکوینی“ کی چار صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں سے بعض قابل قبول اور بعض نا قابل قبول ہیں:

۱ ۔ خلقت اور تخلیقِ کائنات میں ولایت :یعنی خداوندعالم اپنے کسی بندہ یا فرشتہ کو اتنی طاقت دیدے کہ دوسرے جہانوں کو پیدا کرے یا ان کو صفحہ ہستی سے مٹادے، تو یقینا یہ کوئی محال کام نہیں ہے، کیونکہ خداوندعالم ہر چیز پر قادر ہے،اور کسی کو بھی ایسی قدرت دے سکتا ہے، لیکن تمام قرآنی آیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ نظام خلقت خداوندعالم کے ہاتھ میں ہے، چاہے وہ زمین و آسمان کی خلقت ہو یا جن و انس ، فرشتوں کی خلقت ہویا نباتات وحیوانات، پہاڑ ہوں یا دریا ،سب کے سب خدا کی قدرت سے پیدا ہوئے ہیں،کوئی بندہ یا فرشتہ، خلقت میں شریک نہیں ہے اسی وجہ سے تمام مقامات پر خلقت کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے، اور کسی بھی جگہ یہ نسبت (وسیع پیمانہ پر) غیر خدا کی طرف نہیں دی گئی ، اس بنا پر زمین و آسمان اور حیوان و انسان کا خالق صرف اور صرف خداہے۔

۲ ۔ ولایت تکوینی”فیض پہنچانے میںواسطہ“کے معنی میں، یعنی خداوندعالم کی طرف سے اپنے بندوں یا دوسری مخلوقات تک پہنچنے والی امداد، رحمت ، برکت اور قدرت انھیں اولیاء اللہ اور خاص بندوں کے ذریعہ حاصل ہو ئی ہے، جیسے شہر میں پانی پہنچانے والا ایک ہی اصلی پائپ ہوتا ہے یہ اصلی پائپ کے مرکز سے پانی لیتا ہے اور اس کو سب جگہ پہنچادیتا ہے، اس کو ”واسطہ در فیض“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

یہ معنی بھی عقلی لحاظ سے محال نہیں ہیں، جس کی مثال خود عالمِ صغیر یعنی انسان کا جسم ہے کیونکہ صرف دل کی شہ رگ ہی کے ذریعہ تمام رگوں تک خون پہنچتا ہے، تو پھر عالمِ کبیر (کائنات) میں بھی اس طرح ہونے میں کیا ممانعت ہے؟

لیکن اس کے اثبات کے لئے بے شک دلیل و برہان کی ضرورت ہے اور اگر ثابت بھی ہوجائے تو بھی خداوندعالم کے اذن سے ہے۔

۳ ۔ ولایت تکوینی ،معین حدود میں: جیسے مردوں کو زندہ کرنا یا لاعلاج بیماروں کو شفا دینا وغیرہ ۔

قرآن مجید میں اس ولایت کے نمونے بعض انبیاء علیہم السلام کے بارے میں ملتے ہیں، اور اسلامی روایات بھی اس پرشاہد اور گواہ ہیں،اس لحاظ سے ولایت تکوینی کی یہ قسم نہ صرف عقلی لحاظ سے ممکن ہے بلکہ بہت سے تاریخی شواہد بھی موجود ہیں۔

۴ ۔ ولایت بمعنی دعا، یعنی اپنی حاجتوں کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرے اور اس سے طلب کرے کہ فلاں کام پورا ہوجائے، مثلاً پیغمبر اکرم (ص) یا امام معصوم دعا کریں اور خدا سے طلب کی ہوئی دعا قبول ہوجائے۔

ولایت کی اس قسم میں بھی کوئی عقلی اور نقلی مشکل نہیں ہے، قرآنی آیات، اور روایات میں اس طرح کے بہت سے نمونے موجود ہیں، بلکہ شاید ایک لحاظ سے اس قسم پر ولایت تکوینی کا اطلاق کرنا مشکل ہو کیونکہ دعا کا قبول کرنا خود خداوندعالم کا کام ہے ۔

بہت سی روایات میں ”اسم اعظم“ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام یا بعض اولیاء اللہ (انبیاء اور ائمہ کے علاوہ) کے پاس اسم اعظم کا علم تھا جس کی بنا پر وہ عالم تکوین میں تصرفات کرتے تھے۔

اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ اسم اعظم کیا ہے، اس طرح کی روایات بھی ولایت تکوینی کی اسی قسم کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اور مکمل طریقہ سے اس پر صادق آتی ہیں۔(۱)

____________________

(۱) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۶۱

۵۴ ۔ بیعت کی حقیقت کیا ہے؟ نیز انتخاب اور بیعت میں کیا فرق ہے؟

”حقیقت بیعت“ بیعت کرنے والے اور جس کی بیعت کی جارہی ہے دونوں کی طرف سے ایک معاہدہ ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ بیعت کرنے والا بیعت لینے والے کی اطاعت، پیروی ، حمایت اور دفاع کرے گا، اور اس میں ذکرشدہ شرائط کے لحاظ سے بیعت کے مختلف درجے ہیں۔

قرآن کریم اور احادیث ِنبوی کے پیشِ نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیعت ، بیعت کرنے والے کی طرف سے ایک ”عقد لازم “(۱) ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہوتا ہے، لہٰذا وہ قانونِ عام( اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ ) (سورہ مائدہ پہلی آیت ) کے تحت قرار پاتا ہے، اس بنا پر بیعت کرنے والا اس کو فسخ نہیں کرسکتا، لیکن صاحب بیعت اگر مصلحت دیکھے تو اپنی طرف سے بیعت اٹھا سکتا ہے اور اس کو فسخ کرسکتا ہے، اس صورت میں بیعت کرنے والا اطاعت اور پیروی سے آزاد ہوجاتا ہے۔( ۲)

(۱) اسلام میںدو طرح کے معاملات ہوتے ہیں ایک ایسا معاملہ جس کو فسخ کیا جاسکتا ہے، اس کو ”عقد جائز“ کہا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جس کو فسخ نہیں کیا جاسکتا، اس کو ”عقد لازم“ کہا جاتا ہے (مترجم)

( ۲) ہم واقعہ کربلا میں پڑھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور ایک خطبہ دیا اور اپنے اصحاب اور ناصروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے اپنی بیعت کواٹھا لیا اور کہا :جہاں چاہو چلے جاو(،لیکن اصحاب نے وفاداری کا ثبوت پیش کیا) امام علیہ السلام نے فرمایا: ”فانطلِقُوا فی حل لیس علیکم منّي زمام (کامل ابن اثیر ، جلد ۴ ، صفحہ ۵۷)

بعض لوگوں نے بیعت کو ”انتخاب“ (اور الیکشن) کے مشابہ قرار دیا ہے حالانکہ انتخابات کا مسئلہ اس کے بالکل برعکس ہے یعنی انتخاب کے معنی یہ ہیں کہ انتخاب ہونے والے شخص کو ایک ذمہ داری اور عہدہ دیا جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں اس کو مختلف امور انجام دینے کے لئے وکیل بنایا جاتا ہے، اگرچہ انتخاب کرنے والے کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں (تمام وکالتوں کی طرح) جبکہ بیعت میں ایسا نہیں ہے۔

یا یوں کہئے کہ انتخاب کسی کو عہدہ یا منصب دینے کا نام ہے، جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ وکیل بنانے کی طرح ہے، جبکہ بیعت ”اطاعت کا عہد“ کرنے کا نام ہے۔

اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں بعض چیزوں میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں، لیکن اس مشابہت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دونوں ایک ہیں، لہٰذا بیعت کرنے والا بیعت کو فسخ نہیں کرسکتا، حالانکہ انتخابات کے سلسلہ میں ایسا ہوتا ہے کہ انتخاب کرنے والے اسے عہدہ سے معزول کرسکتے ہیں۔(۱)

اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی نبی یا امام کی مشروعیت میں بیعت کا کوئی کردار ہے یا نہیں؟ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام چونکہ خداوندعالم کی طرف سے منسوب ہوتے ہیں اور ان کو کسی بھی بیعت کی ضرورت نہیں ہوتی، یعنی خداوندعالم کی طرف سے منصوب نبی یا امام معصوم علیہم السلام کی اطاعت خدا کی طرف سے واجب ہوتی ہے، چاہے کسی نے بیعت کی ہو یا بیعت نہ کی ہو۔

دوسرے الفاظ میں: مقام نبوت اور امامت کا لازمہ ،اطاعت کا واجب ہوناہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم ) (۲) ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمہیں میں سے ہیں“۔

لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس طرح ہے تو پھر پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے اصحاب یا نئے مسلمان ہونے والے افراد سے بیعت کیوںلی؟ جس کے دو نمونے تو خود قرآن مجید میں موجود ہیں، (بیعت رضوان ، جیسا کہ سورہ فتح ، آیت نمبر ۱۸ / میں اشارہ ملتا ہے، اور اہل مکہ سے بیعت لی جیسا کہ سورہ ممتحنہ میں اشارہ ہوا ہے)

اس سوال کے جواب میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اس طرح کی بیعت ایک طرح سے وفاداری کے عہد و پیمان جیسی ہوتی ہے جو خاص مواقع پر انجام پاتی ہے، خصوصاً بعض سخت مقامات اور حوادث میں اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، تاکہ اس کی وجہ سے مختلف لوگوں میں ایک نئی روح پیدا ہوجائے۔

لیکن خلفاء کے سلسلہ میں لی جا نے والی بیعت کا مطلب ان کی خلافت کا قبول کرنا ہوتا تھا، اگرچہ ہمارے عقیدہ کے مطابق خلافت رسول (ص) کوئی ایسا منصب نہیں ہے کہ جس کو بیعت کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہو، بلکہ خلیفہ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) یا پہلے والے امام کے ذریعہ معین ہوتا ہے۔

اسی دلیل کی بنا پر جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام یا امام حسن علیہ السلام یا امام حسین علیہ السلام سے بیعت کی ہے وہ بھی وفاداری کے اعلان اور پیغمبر اکرم (ص) سے کی گئی بیعتوں کی طرح تھی۔ ۵۴ ۔ بیعت کی حقیقت کیا ہے؟ نیز انتخاب اور بیعت میں کیا فرق ہے؟

”حقیقت بیعت“ بیعت کرنے والے اور جس کی بیعت کی جارہی ہے دونوں کی طرف سے ایک معاہدہ ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ بیعت کرنے والا بیعت لینے والے کی اطاعت، پیروی ، حمایت اور دفاع کرے گا، اور اس میں ذکرشدہ شرائط کے لحاظ سے بیعت کے مختلف درجے ہیں۔

قرآن کریم اور احادیث ِنبوی کے پیشِ نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیعت ، بیعت کرنے والے کی طرف سے ایک ”عقد لازم “(۱) ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہوتا ہے، لہٰذا وہ قانونِ عام( اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ ) (سورہ مائدہ پہلی آیت ) کے تحت قرار پاتا ہے، اس بنا پر بیعت کرنے والا اس کو فسخ نہیں کرسکتا، لیکن صاحب بیعت اگر مصلحت دیکھے تو اپنی طرف سے بیعت اٹھا سکتا ہے اور اس کو فسخ کرسکتا ہے، اس صورت میں بیعت کرنے والا اطاعت اور پیروی سے آزاد ہوجاتا ہے۔(۳)

(۱) اسلام میںدو طرح کے معاملات ہوتے ہیں ایک ایسا معاملہ جس کو فسخ کیا جاسکتا ہے، اس کو ”عقد جائز“ کہا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جس کو فسخ نہیں کیا جاسکتا، اس کو ”عقد لازم“ کہا جاتا ہے (مترجم)

( ۲) ہم واقعہ کربلا میں پڑھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور ایک خطبہ دیا اور اپنے اصحاب اور ناصروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے اپنی بیعت کواٹھا لیا اور کہا :جہاں چاہو چلے جاو(،لیکن اصحاب نے وفاداری کا ثبوت پیش کیا) امام علیہ السلام نے فرمایا: ”فانطلِقُوا فی حل لیس علیکم منّي زمام (کامل ابن اثیر ، جلد ۴ ، صفحہ ۵۷)

بعض لوگوں نے بیعت کو ”انتخاب“ (اور الیکشن) کے مشابہ قرار دیا ہے حالانکہ انتخابات کا مسئلہ اس کے بالکل برعکس ہے یعنی انتخاب کے معنی یہ ہیں کہ انتخاب ہونے والے شخص کو ایک ذمہ داری اور عہدہ دیا جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں اس کو مختلف امور انجام دینے کے لئے وکیل بنایا جاتا ہے، اگرچہ انتخاب کرنے والے کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں (تمام وکالتوں کی طرح) جبکہ بیعت میں ایسا نہیں ہے۔

یا یوں کہئے کہ انتخاب کسی کو عہدہ یا منصب دینے کا نام ہے، جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ وکیل بنانے کی طرح ہے، جبکہ بیعت ”اطاعت کا عہد“ کرنے کا نام ہے۔

اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں بعض چیزوں میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں، لیکن اس مشابہت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دونوں ایک ہیں، لہٰذا بیعت کرنے والا بیعت کو فسخ نہیں کرسکتا، حالانکہ انتخابات کے سلسلہ میں ایسا ہوتا ہے کہ انتخاب کرنے والے اسے عہدہ سے معزول کرسکتے ہیں۔(۱)

اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی نبی یا امام کی مشروعیت میں بیعت کا کوئی کردار ہے یا نہیں؟ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام چونکہ خداوندعالم کی طرف سے منسوب ہوتے ہیں اور ان کو کسی بھی بیعت کی ضرورت نہیں ہوتی، یعنی خداوندعالم کی طرف سے منصوب نبی یا امام معصوم علیہم السلام کی اطاعت خدا کی طرف سے واجب ہوتی ہے، چاہے کسی نے بیعت کی ہو یا بیعت نہ کی ہو۔

دوسرے الفاظ میں: مقام نبوت اور امامت کا لازمہ ،اطاعت کا واجب ہوناہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم ) (۴) ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمہیں میں سے ہیں“۔

لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس طرح ہے تو پھر پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے اصحاب یا نئے مسلمان ہونے والے افراد سے بیعت کیوںلی؟ جس کے دو نمونے تو خود قرآن مجید میں موجود ہیں، (بیعت رضوان ، جیسا کہ سورہ فتح ، آیت نمبر ۱۸ / میں اشارہ ملتا ہے، اور اہل مکہ سے بیعت لی جیسا کہ سورہ ممتحنہ میں اشارہ ہوا ہے)

اس سوال کے جواب میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اس طرح کی بیعت ایک طرح سے وفاداری کے عہد و پیمان جیسی ہوتی ہے جو خاص مواقع پر انجام پاتی ہے، خصوصاً بعض سخت مقامات اور حوادث میں اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، تاکہ اس کی وجہ سے مختلف لوگوں میں ایک نئی روح پیدا ہوجائے۔

لیکن خلفاء کے سلسلہ میں لی جا نے والی بیعت کا مطلب ان کی خلافت کا قبول کرنا ہوتا تھا، اگرچہ ہمارے عقیدہ کے مطابق خلافت رسول (ص) کوئی ایسا منصب نہیں ہے کہ جس کو بیعت کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہو، بلکہ خلیفہ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) یا پہلے والے امام کے ذریعہ معین ہوتا ہے۔

اسی دلیل کی بنا پر جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام یا امام حسن علیہ السلام یا امام حسین علیہ السلام سے بیعت کی ہے وہ بھی وفاداری کے اعلان اور پیغمبر اکرم (ص) سے کی گئی بیعتوں کی طرح تھی۔

نہج البلاغہ کے بعض کلمات سے اچھی طرح یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیعت صرف ایک بار ہوتی ہے، اس میں تجدید نظر نہیں کی جاسکتی، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

”لِاٴَنّها بیعةٌ وَاحِدةٌ، لا یُثنٰی فِیهَا النَّظر ولا یستاٴنفُ فِیهَا الخَیَار، الخَارجُ منهَا طَاعِن ،والمرويّ فِیهَا مَداهِن!(۵)

” چونکہ یہ بیعت ایک مرتبہ ہوتی ہے جس کے بعد نہ کسی کو نظرِ ثانی کا حق ہوتا ہے اور نہ دوبارہ اختیار کرنے کا ، اس سے باہر نکل جانے والا اسلامی نظام پر معترض شمار کیا جاتا ہے اور اس میں غور وفکرکرنے والا منافق کہا جاتا ہے“۔

امام علیہ السلام کے کلام سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگوں کے مقابلہ میں جو پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سے منصوصخلافت کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے اور بہانہ بازی کیا کرتے تھے ،بیعت کے مسئلہ سے ( جو خود ان کے نزدیک مسلّم تھا) استدلال کیا ہے، تاکہ امام علیہ السلام کی نافرمانی نہ کریں، اور معاویہ یا اس جیسے دوسرے لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس طرح (بیعت کے ذریعہ) تم تینوں خلفا کی خلافت کے قائل ہو تو اسی طرح میری خلافت کے بھی قائل رہو، اور میرے سامنے تسلیم ہوجاؤ،(بلکہ میری خلافت تو ان سے زیادہ حق رکھتی ہے کیونکہ میری بیعت وسیع پیمانے پر ہوئی ہے اور تمام ہی لوگوں کی رغبت و رضاسے ہوئی ہے۔)

اس بنا پر حضرت علی علیہ السلام کا بیعت کے ذریعہ استدلال کرنا خدا و رسول کی طرف سے منصوب ہونے کے منافی نہیں ہے۔

اسی وجہ سے امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں حدیث ثقلین کی طرف اشارہ فرماتے ہیں(۶) جو آپ کی امامت پر بہترین دلیل ہے، اور دوسری جگہ وصیت اور وراثت کے مسئلہ کی طرف اشارہ فرماتے ہیں،(۷) (غور کیجئے )

ضمناً ان روایات سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ اگر کسی سے زبردستی بیعت لی جائے یا لوگوں سے غفلت کی حالت میں بیعت لی جائے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، بلکہ غور و فکر کے بعد اپنے اختیار و آزادی سے کی جانے والی بیعت کی اہمیت ہوتی ہے، (غور کیجئے

اس نکتہ پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ ولی فقیہ کی نیابت ایک ایسا مقام ہے جو ائمہ معصوم علیہم السلام کی طرف سے معین ہوتا ہے، اس میں کسی بھی طرح کی بیعت کی ضرورت نہیں ہوتی، البتہ ”ولی فقیہ“ کی اطاعت و پیروی سے استحکام آتا ہے تاکہ اس مقام سے استفادہ کرتے ہوئے دینی خدمات انجام دے سکے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ یہ عہدہ لوگوں کی پیروی اور اطاعت کرنے پر موقوف ہے، اس کے علاوہ لوگوں کا پیروی کرنا بیعت کے مسئلہ سے الگ ہے بلکہ ولایت فقیہ کے سلسلہ میں حکم الٰہی پر عمل کرنا ہے۔ (غور کیجئے )(۸)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۷۱

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۷۱

(۴) سورہ نساء ، آیت ۵۹

(۵) نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر۷، صفحہ۴۸۹

(۶) نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ۲

(۷) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر۷۸

(۸) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۷۲

۵۵ ۔ کیا دس سالہ بچہ کا اسلام قابل قبول ہے؟

یہ ایک مشہور و معروف سوال ہے جو قدیم زمانہ سے بہا نہ باز لو گوں کے درمیان ہوتا آرہا ہے اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ٹھیک ہے حضرت علی علیہ السلام نے سب سے پہلے اظہار اسلام کیا، لیکن اس دس سالہ اور نابالغ بچہ کا اسلام قابل قبول ہے یا نہیں؟ اور اگرآپ کے بلوغ کو معیار قرار دیں تو دوسرے بہت سے لوگ اس وقت اسلام یا مسلمان ہو چکے تھے ۔

یہاں ”مامون عباسی“ اور اس کے زمانہ کے ایک مشہور و معروف سنی عالم دین ”اسحاق“ کی گفتگو کا بیان کرنا مناسب ہے، (اس واقعہ کو ”ابن عبدربّہ“ نے اپنی کتاب ”عقد الفرید“ میں تحریر کیا ہے)

مامون نے اس سے کہا: پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت میں سب سے افضل کونسا عمل ہے؟

اسحاق نے کہا: خدا کی توحید اور پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت کی گواہی میں اخلاص سے کام لینا۔

مامون نے کہا: کیا تم کسی ایسے شخص کو پہچانتے ہو جو حضرت علی علیہ السلام سے پہلے مسلمان ہوا ہو؟

اسحاق نے کہا: علی اس وقت اسلام لائے جب وہ کم سن اور نابالغ تھے، اور شرعی ذمہ داریاں بھی ان پر نافذ نہیں ہوئی تھیں۔

مامون نے کہا: حضرت علی علیہ السلام کا اسلام پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت کی بنا پر تھا یا نہیں؟ اور پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے اسلام کو قبول کیا یا نہیں؟ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کسی ایسے شخص کو اسلام کی دعوت دیں جس کا اسلام قابل قبول نہ ہو!

یہ سن کر اسحاق لاجواب ہوگیا۔(۱)

مرحوم علامہ امینی علیہ الرحمہ ”عقد الفرید“ سے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد مزید فرماتے ہیں: ابوجعفراسکافی معتزلی (متوفی ۲۴۰ ئھ) اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں کہ سب مسلمان اس بات کو جانتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے، پیغمبر اکرم (ص) پیر کے روز مبعوث برسالت ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام نے منگل کے روز اظہار اسلام فرمایا، اور آپ فرماتے تھے کہ میں نے دوسروں سے سات سال پہلے نماز پڑھی ہے، اور ہمیشہ فرماتے تھے کہ ”میں اسلام لانے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوں“اور یہ ہر مشہور بات سے زیادہ مشہور ہے، ہم نے گزشتہ زمانہ میں کسی کو نہیں دیکھا جو آپ کے اسلام کو کم اہمیت قرار دے، یا یہ کہے کہ حضرت علی اس وقت اسلام لائے جب آپ کم سن تھے، عجیب بات تو یہ ہے کہ ”عباس“ اور ”حمزہ“ جیسے افراد اسلام قبول کرنے میں ”جناب ابوطالب‘‘ کے عکس العمل کے منتظر تھے ، لیکن فرزند ابوطالب (حضرت علی علیہ السلام) نے اپنے پدر بزرگوار کے اسلام کا انتظار نہ کیا اور فوراً ہی اظہار ایمان کردیا۔( ۲)

خلاصہ گفتگو یہ ہے : پہلی بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا اسلام قبول کیا ، لہٰذا اگر

کوئی شخص اس کم سنی میں حضرت کے اسلام کو قبول نہ کرے تو گویا وہ پیغمبر اکرم (ص) پر اعتراض کرتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ دعوت ذوالعشیرہ کی مشہور و معروف روایات میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے کھانا تیار کرایا اورقریش میں سے اپنے رشتہ داروں کی دعوت کی اور ان کو اسلام کا پیغام سنایا، فرمایا: جو شخص سب سے پہلے اسلام کے پیغام میں میری نصرت و مدد کرے گا وہ میرا بھائی، وصی اور جانشین ہوگا، اس موقع پر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کسی نے رسول اسلام کی دعوت پر لبیک نہیں کہی، آپ نے فرمایا: یا رسول اللہ ! میں آپ کی نصرت و مدد کروں گا، اور آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرتا ہوں، اس موقع پر پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: یا علی! تم میرے بھائی، میرے وصی اور میرے جانشین ہو۔

کیا کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ایک نابالغ شخص کو (جس کے لئے لوگ کہتے ہیں کہ ان کا اسلام قابل قبول نہیں ہے) اپنا بھائی ، وصی اور جانشین قرار دیں اور دوسروں کو ان کی اطاعت کی دعوت دیں ! یہاں تک کہ مشرکین ِمکہ ابو طالب کا مذاق اڑاتے ہوئے ان سے کہیں کہ تم اب اپنے بیٹے کی اطاعت کرنا بے شک، اسلام قبول کرنے کے لئے بالغ ہوناشرط نہیں ہے، ہر وہ نوجوان جو صاحب عقل وشعور ہواگراسلام کو قبول کرے اور بالفرض اس کا باپ بھی مسلمان نہ ہو تو وہ اپنے باپ سے جدا ہوکر مسلمانوں میں شامل ہوجائے گا۔

تیسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حتی نبوت کے لئے بھی ”بلوغ“ کی شرط نہیں ہے اور بعض انبیاء کو یہ مقام بچپن میں ہی مل گیا تھا، جیسا کہ جناب یحيٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:( وَآتَیْنَاهُ الْحُکْمَ صَبِیًّا ) (۳) ’اور ہم نے انھیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی’“۔

اور جناب عیسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں بھی ملتا ہے کہ انھوں نے پیدائش کے بعد ہی واضح الفاظ میں کہا:( قَالَ إِنِّی عَبْدُ اللهِ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا ) (۴) ” (جناب) عیسیٰ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے“۔

ان دلیلوں میں سب سے بہترین دلیل یہی ہے کہ خود پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے اسلام کو قبول کیا اور دعوت ذوالعشیرہ میں یہ اعلان کیا کہ علی علیہ السلام میرے بھائی، میرے وصی اور میرے جانشین ہیں۔

بہر حال وہ روایت جس میں بیان ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں ہیں، یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک ایسی عظیم فضیلت بیان کرتی ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے ، اسی دلیل کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کے لئے امت میں سب سے زیادہ حقدار اور مناسب شخص ہیں۔(۵)

____________________

عقد الفرید ، جلد ۳، صفحہ ۴۳ (تلخیص کے ساتھ)(۱)

(۲) الغدیر ، جلد ۳، صفحہ ۲۳۷

(۳) سورہ مریم ، آیت ۱۲۳

۴) سورہ مریم آیت۳۰

(۵) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۳۵۵

۵۶ ۔ امام حسن نے زہر آلود کوزہ سے پانی کیوں پی لیا اور امام رضا نے زہر آلود انگور کیوں تناول فرمایا؟

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے ائمہ معصومین علیہم السلام خداوندعالم کی طرف سے علم غیب جانتے ہیں۔

لیکن یہ علم کیسا ہے، اور اس کی وسعت اور حدود کہاں تک ہے، یہ مسئلہ بہت پیچیدہ مسائل میں سے ہے جو اس طرح کی بحث و گفتگو میں دکھائی دیتا ہے، اس سلسلہ میں روایات بھی مختلف ہیں اور علماکے درمیان بھی اختلاف پایا جاتا ہے، درج ذیل مسئلہ انھیں بنیادی اور قابل توجہ احتمالات میں سے ہے:

ائمہ علیہم السلام تمام چیزوں کو”بالقوة“ جانتے ہیں نہ کہ ”بالفعل“ یعنی غیب کی باتوں کو جاننے کے لئے جب بھی ارادہ کریں تو خداوندعالم ان پر الہام فرمادیتا ہے، یا ان کے پاس ایسے قواعد اور اصول ہیں جن کے ذریعہ وہ ایک نیا باب کھول لیتے ہیں اور اسرار غیب سے آگاہ ہوجاتے ہیں، یا ان کے پیش نظر ایسی کتابیں ہیں کہ جب وہ ان پر نظر فرماتے ہیں تو اسرار غیب سے باخبر ہوجاتے ہیں، یا یہ کہ جب بھی خداوندعالم ارادہ فرمائے تو انھیں اسرارِ غیب سے باخبر کردیتا ہے، اور جب خداوندعالم اپنے ارادہ سے صرف نظر کرلیتا ہے تو وقتی طور پر یہ علوم مخفی ہوجاتے ہیں۔

اس بات (پہلی صورت) پر شاہد وہ روایات ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام جب کسی چیز کے سلسلہ میں جاننا چاہتے تھے تو ان کو معلوم ہوجاتا تھا، شیخ کلینی علیہ الرحمہ نے اس سلسلہ میں مستقل طور پر ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ”اِن الائمة اذا شاوا یعلموا علموا(۱) ہے ”جب ائمہ جاننا چاہتے ہیں تو جان لیتے ہیں“۔

اس بیان سے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے سلسلہ میں متعددمشکلوں کو بھی حل کیا جاسکتا ہے، جیسے یہ کہ امام حسن نے زہر آلود کوزہ سے پانی کیوں پی لیا اور امام رضا نے زہر آلود انگور کیوں تناول کرلیا؟ کیوں فلاں نااہل شخص کو قضاوت یا گورنری کے لئے انتخاب کیا، یا جناب یعقوب علیہ السلام اس قدر کیوں پریشان ہوئے؟ جبکہ ان کے فرزند ارجمند (جناب یوسف علیہ السلام) بلند مقامات کو طے کررہے تھے، اور آخر کار فراق کی گھڑیاں وصال میں تبدیل ہوگئیں، اور اسی طرح دوسرے سوالات حل ہوجاتے ہیں۔ ان تمام موارد میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ جاننا چاہتے تو جان سکتے تھے، لیکن یہ حضرات خود اس بات کو جانتے تھے کہ خداوندعالم کی طرف سے امتحان یا دوسرے مقاصد کے تحت ان کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ آگاہی پیدا کریں۔

ایک مثال کے ذریعہ اس مسئلہ کو واضح کیا جاسکتا ہےکہ کوئی شخص کسی دوسرے کو ایک خط دے تاکہ فلاں شخص تک پہنچادے، جس میں بہت سے افراد کا نام یا ان کا عہدہ لکھا ہوا ہے، تو یہاں بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ خط کے مضمون سے آگاہ نہیں ہے، لیکن کبھی صاحب خط کی طرف سے خط پڑھنے کی اجازت ہوتی ہے اس صورت میں وہ خط کے مضمون سے آگاہ ہوسکتا ہے اور کبھی کبھی خط کے کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی تو اسے خط کا مضمون معلوم نہیں ہو تا۔(۲)

____________________

(۱) اصول کافی ، جلد اول، صفحہ ۲۵۸ ،(اس باب میں تین روایتیں اسی مضمون کی نقل ہوئی ہیں)، مرحوم علامہ مجلسی نے بھی مرآة العقول ، جلد ۳، صفحہ ۱۱۸، میں ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے

(۲) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۷، صفحہ ۲۴۹