110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 136539
ڈاؤنلوڈ: 5556

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136539 / ڈاؤنلوڈ: 5556
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۵۷ ۔ فلسفہ انتظار کیا ہے؟

حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کا انتظار اسلامی تعلیمات میں کسی دوسرے دین سے نہیں آیا بلکہ قطعی ترین مباحث میں سے ہے، جو خود پیغمبر اکرم (ص) کی زبان سے بیان ہوا ہے، اور تقریباً اسلام کے تمام فرقے اس سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، نیز اس سلسلہ میں احادیث بھی متوا تر ہیں۔

اب ہم اس انتظار کے نتائج اور اسلامی معاشروں کی موجودہ حالت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں کہ کیا اس طرح کے ظہور کا انتظار انسان کو اس منزل فکر تک لے جاتا ہے کہ وہ اپنی حالت کو بھول جاتا ہے اور ہر طرح کے شرائط کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے؟

یا یہ کہ در اصل یہ عقیدہ انسان کو اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دیتا ہے؟

کیا یہ عقیدہ انسان کے اندر تحرک ایجاد کرتا ہے یا اس میں انجماد پیدا کردیتا ہے۔اور کیا یہ عقیدہ اانسان کی ذمہ داری میں مزید اضافہ کرتا ہے یا ذمہ داریوں سے آزاد کردیتا ہے؟

کیا یہ عقیدہ انسان کو خواب غفلت کی دعوت دیتا ہے یا انسانیت کو بیدار کرتا ہے؟

لیکن ان سوالات کی تحقیق اور وضاحت سے پہلے اس نکتہ پر توجہ کرنا بہت ضروری ہے کہ اگر بلند ترین مفاہیم اور اصلاح کے بہترین قوانین کسی نااہل یا ناجائز فائدہ اٹھانے والے کے ہاتھوں میں پہنچ جائے تو ممکن ہے کہ وہ ان سے غلط فائدہ اٹھائے یا ان کے بالکل برعکس مقاصد تک پہنچائے، جیسا کہ اس سلسلہ میں ہمیں بہت سے نمونے ملتے ہیں، ”انتظار“ کا مسئلہ بھی اسی طرح ہے جیسا کہ ہم بعد میں بیان کریں گے۔

بہر حال اس طرح کی گفتگو میں ہر طرح کی غلط فہمی سے بچنے کے لئے پانی کو اس کے سرچشمہ سے لیا جائے تاکہ نہروں اور راستوں کی گندگی اس میں اثر نہ کر سکے، یعنی ہمیں ”انتظار“ کے مسئلہ میں اصلی اسلامی کتابوں کا مطالعہ کرنا اور ”انتظار“ کے سلسلہ میں بیان ہونے والی مختلف روایات کو غور و فکر سے پڑھنا چا ہئے تاکہ ان کے اصلی مقصد سے آگاہی حاصل ہو سکے ۔

محترم قارئین ! اب یہاں پر بیان ہونے والی چند روایات پر غور کیجئے:

۱ ۔ کسی شخص نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ائمہ علیہم السلام کی ولایت کا اقرار کرتا ہو اور ”حکومت حق“ کے ظہور کا انتظار کرتا ہو، اور اسی حال میں اس دنیا سے چل بسے؟

امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: ”هُوَ بِمَنزلةِ مَن کَانَ مَعَ القَائِمِ فِي فِسطاطُهُ ثُمَّ سَکَتَ هَنِیّئة ثُمَّ قَالَ هُوَ کَمَنْ کَانَ مَعَ رَسُولِ الله !“(۱)

”وہ اس شخص کی مانند ہے جو حضرت کے ساتھ ان کی رکاب ( محاذ) پر حاضر ہوا ہو، (اس کے بعد حضرت تھوڑی دیر خاموش ر ہے) اور فرمایا: وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے پیغمبر اکرم (ص) کی رکاب میں جہاد کیا ہو“۔ بالکل یہی مضمون دوسری بہت سی روایات میں بھی بیان ہوا ہے۔

(۸) محاسن برقی ،بحار الانوار کے نقل کے مطابق طبع قدیم ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۳۶

۲ ۔ بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ ”بِمنزلةِ الضَّارِبِ بِسَیْفِہِ فِي سَبِیْلِ الله“یعنی راہ خدا میں تلوار چلانے والے کی مانند ہے۔

۳ ۔ بعض دوسری روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ ”کَمَنْ قَارعَ مَعَ رسُولِ الله بِسَیْفہ“یعنی اس شخص کی مانند ہے جس نے پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ دشمن کے سر پر تلوار چلائی ہو۔

۴ ۔ بعض روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ ”بِمَنْزِلَةِ مَنْ کَانَ قَاعِداً تَحْتَ لَوَاءِ القَائِمِ“ یعنی اس شخص کی مانند ہے جو حضرت قائم (عج) کے پرچم کے نیچے ہو۔

۵ ۔ اور دوسری روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ ”بِمَنْزِلَةِ المُجَاھدِ بَین یَدي رَسُولِ الله‘ِ‘ یعنی اس مجاہد جیسا ہے جس نے پیغمبر اکرم (ص) کے حضور میں جہاد کیا ہو۔

۶ ۔ بعض دیگر رویات میں بیان ہوا ہے کہ ”بِمَنْزِلَةِ مَن إسْتَشْہَدَ مَعَ رَسُولِ الله“ اس شخص کی مانند ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ شہید ہوا ہو۔

حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے انتظار کے سلسلہ میں ان چھ روایات میں یہ سات طرح کی شباہتیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ مسئلہ انتظار ایک طرف اور دوسری طرف دشمن ِ (اسلام) سے جہاد اور اس سے مقابلہ میں ایک خاص رابطہ پایا جاتا ہے۔ (غور کیجئے )

۷ ۔ بہت سی روایات میں اس طرح کی حکومت کے انتظار کے ثواب کو سب سے بڑی عبادت کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی علیہ السلام سے منقول بعض احادیث میں یہ مضمون ملتا ہے ، درج ذیل حدیث پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:

”اٴَفْضلُ اٴعْمَالِ اُمَّتِی إنْتِظَارِ الفَرَجِ مِنَ الله عَزَّوَجَلَّ“ (۹)

(۹) کافی میں بحار سے نقل کیا ہے ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۳۷۹

”میری امت کا سب سے بہترین عمل ”انتظار فرج“ (کشادگی)ہے“۔

پیغمبر اکرم (ص) سے ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے: ”افضلُ العبادةِ إنتظار الفَرج“(۱) یعنی انتظار فرج بہترین عبادت ہے۔

اس حدیث میں انتظار فرج کے معنی چا ہے عام اور وسیع لیں یا امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے انتظار کے معنی لیں انتظار کے مسئلہ کی اہمیت واضح اور روشن ہوجاتی ہے۔

یہ تمام الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس طرح کے انقلاب کا انتظار کرنا ہمیشہ وسیع پیمانہ پر جہاد کاتصور لئے ہوئے ہے، ہم یہاں پہلے انتظار کا مفہوم اور پھر اس کے تمام نتائج پیش کریں گے۔

مفہوم انتظار

”انتظار “عام طور پر اس حالت کو کہا جاتا ہے کہ جس میں انسان پریشان ہو اور اس سے بہتر حالت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

مثال کے طور پر ایک بیمار اپنی شفاکا انتظار کرتا ہے، یا کوئی باپ اپنے بیٹے کی واپسی کا انتظار کرتا ہے، جس سے دونوں پریشان ہیں اور بہتر حالت کے لئے کوشش کرتے ہیں۔

اور جیسے کوئی تاجر بازار کی ناگفتہ بہ حالت سے پریشان ہو اور وہ اقتصادی بحران کے خاتمہ کا انتظار کرتا ہے ، لہٰذا اس میں یہ دو حالتیں پائی جاتی ہیں:

۱ ۔ اپنی موجودہ حالت سے پریشانی۔

۲ ۔ حالت بہتر بنانے کے لئے کوشش۔

اس بنا پر امام مہدی (عج) کی حکومت عدالت اور آنحضرت کے قیام کا انتظار دو عنصر سے(۱) کافی میں بحار سے نقل کیا ہے ، جلد ۱۳ ، صفحہ ۱۳۶۹ مرکب ہے: عنصر ”نفی“ اور عنصر ”اثبات“ عنصر نفی یعنی موجودہ حالت سے غمگین اور پریشان رہنا، اور عنصر اثبات یعنی حالات بہتر ہونے کے لئے سعی و کوشش کرنا ۔

اگر یہ دونوں پہلو اس کی روح میں جڑ کی طرح ثابت ہوجائیں تو پھر اس کے اعمال میں قابل توجہ تبدیلی پیدا ہوجائے گی۔

اور انسان ظلم و ستم، فتنہ و فساد اور برائی کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی اعانت اور ہم آہنگی سے پرہیز کرے گا ،اپنے نفس کی اصلاح کرے گاتاکہ جسمی اور روحانی، مادی اور معنوی لحاظ سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے تیار ہوجائے۔

اگر ہم مزید غور و فکر کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ دونوں چیزیں انسان کی اصلاح اور اس کی بیداری کے لئے بہت مفید ہیں۔

(قارئین کرام!) اب اگر ”انتظار“ کے اصلی مفہوم کے پیش نظر مذکورہ روایات دیکھیں تو ان میں بیان ہونے والا ثواب صاف سمجھ میں آتا ہے، اور ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ایک حقیقی انتظار کرنے والے کا مرتبہ اتنا کیوں بلند ہے جیسا کہ وہ خود حضرت امام زمانہ (عج) کے پرچم کے نیچے ہو یا جس نے راہ خدا میں جہاد کیا ہو یا اپنے خون میں نہایا یا شہید ہوگیا ہو۔

کیا یہ سب راہ خدا میں جہاد کے درجات کے مختلف مراحل نہیں ہیں جو انتظار کرنے والوں کے لحاظ سے پائے جاتے ہیں۔

یعنی جس طرح سے راہ خدا میں جہاد کرنے والوں میں قربانی کا جذبہ مختلف ہوتا ہے اور ان میں ادب و اخلاق نیز آمادگی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے ، اگرچہ یہ دونوں ”مقدمات“ اور ”نتیجہ“ کے لحاظ سے مشابہ ہو تے ہیں، کیونکہ دونوں جہاد ہیں اور دونوں میں اصلاح نفس اور آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے،لہٰذا ایسی عالمی حکومت کے فوجی کو بے خبر وغافل نہیں ہو نا چا ہئے ایسے لشکر میںہر کس و نا کس شامل نہیں ہو سکتا؟

اسی طرح جو شخص اسلحہ لئے ہوئے ہے اور اس رہبرانقلاب کے دشمنوں سے جنگ کررہا ہے، اور صلح و عدالت کی حکومت کے دشمنوں سے مقابلہ کررہا ہے، تو اس کے لئے وسیع پیمانہ پر روحی ، فکری اور جنگی تیاری کی ضرورت ہے۔

ظہور امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے انتظار کے واقعی اثر سے مزید آگاہی کے لئے درج ذیل مطلب پر توجہ فرمائیں:

انتظار یعنی مکمل آمادگی میں اگر ظالم و ستمگر ہوں تو پھر کسی ایسی حکومت کا انتظار کرنا کیسے ممکن ہے جس کی تلوار ظالم و جابرلوگوں کے سر پر چمکے گی۔

میں اگر گناہوں سے آلودہ اور ناپاک ہوں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ کسی ایسے انقلاب کا انتظار کروں جس کا پہلا شعلہ گناہوں سے آلودہ لوگوں کو جلاکر راکھ کردے گا۔

عظیم الشان جہاد کے لئے آما دہ فوج کے افراد ہمیشہ اپنی طاقت و قوت بڑھاتے رہتے ہیں، اور ان میں انقلابی روح پھونکتے رہتے ہیں اور ہر طرح کے ضعف اور کمزوری کو دور کرتے رہتے ہیں۔

کیونکہ ”انتظار“ ہمیشہ اسی لحاظ سے ہوتا ہے کہ جس چیز کا انسان انتظار کر رہاہے۔

ایک مسافر کے سفر سے واپسی کا انتظار۔

ایک بہت ہی عزیز دوست کے پلٹنے کا انتظار۔

پھلوں کے پکنے کی فصل کا انتظار یا فصل کاٹنے کے وقت کا انتظار ۔

لیکن ہر انتظار میں ایک طرح کی آمادگی ضروری ہو تی ہے، ایک انتظار میں مہمان نوازی کا سامان فراہم کیا جائے، دوسرے میں بعض دوسرے وسائل جیسے لگّی اور درانتی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اب آپ غور کیجئے کہ جو لوگ ایک عالمی عظیم الشان اصلاح کرنے والے کا انتظار کرتے ہیں، وہ لوگ در اصل ایک بہت بڑے انقلاب کا انتظار کرتے ہیں جو تاریخ بشریت کا سب سے بڑا انقلاب ہوگا۔

یہ انقلاب گزشتہ انقلابات کے برخلاف کوئی علاقائی انقلاب نہ ہوگا بلکہ ایک عام انقلاب ہوگا جس میں انسانوں کے تمام پہلوؤںپر نظر ہوگی اور یہ انقلاب سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور اخلاقی ہوگا۔

پہلا فلسفہ۔

اصلاح نفس

اس طرح کے انقلاب کے لئے ہر دوسری چیز سے پہلے مکمل طور پر آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس طرح کی اصلاحات کے بھاری بوجھ کو اپنے شانوں پر اٹھاسکے، اس چیز کے لئے سب سے پہلے علم واندیشہ ،روحانی فکر اور آمادگی کی سطح کو بلند کیا جاتا ہے تاکہ اس کے اہداف و مقاصد تک پہنچا جاسکے، تنگ نظری، کج فکری، حسد، بچکانا اختلافات، بیہودہ چیزیں اور عام طور پر ہر طرح کا نفاق اور اختلاف”سچے منتظرین“ کی شان میں نہیں ہے۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حقیقی طور پر انتظار کرنے والا شخص ایک تماشا ئی کا کردار ادا نہیں کرسکتا، بلکہ سچا منتظر وہ ہے جو ابھی سے انقلابیوں کی صف میں آجائے۔

اس انقلاب کے نتائج پر ایمان رکھنا ہرگز اس کو مخالفوں کی صفوں میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا اور موافقین کی صف میں آنے کے لئے ”نیک اعمال، پاک روح، شجاعت و بہادری اور علم و دانش“ کی ضرورت ہے۔

میں اگر گنہگار اور فاسد ہوں تو پھر کس طرح اس حکومت کا انتظار کروں جس میں نااہل اور گنہگاروں کا کوئی کردار نہ ہوگا، بلکہ ان کو قبول نہ کیا جائے گا اور ان کو سزا دی جائے گی۔

کیا یہ انتظار انسان کی فکر و روح اور جسم و جان سے آلودگی کو دور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟!

جو فوج آزادی بخش جہاد کا انتظار کررہی ہو اور بالکل تیار ہو، تو اس کے لئے ایسے اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس جہاد کے لئے مناسب اور کارگر ہو، اسی لحاظ سے مورچہ بنائے، اور لشکرکے ساز و سامان میں اضافہ کرے۔

لشکر کا حوصلہ بلند کرے اور ہر فوجی کے دل میں مقابلہ کے شوق و رغبت کو بڑھائے ، اگر فوج میں اس طرح کی آمادگی نہیں ہے تو وہ منتظر نہیں ہے اور اگر فوج آمادگی کا دعویٰ کرتی ہے تو جھوٹی ہے۔

ایک عالمی مصلح کے انتظار کے معنی یہ ہیں کہ انسان معاشرہ کی اصلاح کے لئے مکمل طور پر فکری، اخلاقی اور مادی و معنوی لحاظ سے تیار رہے، اس وقت سوچیں کہ اس طرح کی یہ آمادگی اور تیاری کس طرح انسان ساز اور اصلاح کناں ہوگی۔

پوری دنیا کی اصلاح کرنا اور ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا کوئی مذاق کام نہیں ہے، یہ عظیم مقصد ایک آسان کام نہیں ہوسکتا، ایسے عظیم مقصد کے لئے اسی لحاظ سے تیاری بھی ہونی چاہئے۔

ایسا انقلاب لانے کے لئے بہت ہی عظیم انسان، مصمم، بہت بہادر، غیر معمولی طور پر طیب و طاہر، بلند فکر اور گہری نظرکے ساتھ مکمل طور پر آمادگی رکھنے والا ہونا چاہئے۔

ایسے مقصد کے لئے اپنی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ فکری، اخلاقی اور اجتماعی طور پر ایک بہترین منصوبہ بندی کی جائے ، اور حقیقی انتظار کا یہی مطلب ہے، کیا پھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسا انتظار اصلاح کرنے والا نہیں ہے؟!

دوسرا فلسفہ : معاشرہ کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا

صحیح طور پر انتظار کرنے والے افراد کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ صرف اپنی اصلاح کرلی جا ئے، اور بس، بلکہ دوسروں کی حالت بھی دیکھنی ہوگی، اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا ہوگی،کیونکہ جس عظیم انقلاب کا انتظار کررہے ہیں وہ ایک انفرادی منصوبہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں تمام پہلووں سے انقلاب آنا ہے، جس کے لئے پورے معاشرہ کے لئے کام کرنا ہوگا، سب کی سعی و کوشش میں ہم آہنگی ہو، اس انقلاب کے لئے کوشش اسی عظیم الشان پیمانہ پر ہو جس کا ہم انتظار کررہے ہیں۔

ایک مقابلہ کرنے والے لشکر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے غافل نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر فو جی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جہاں بھی کمی دیکھے تو فوراً اس کی اصلاح کرے ، جس جگہ سے نقصان کا احتمال پایا جاتا ہو اس کا سدّ باب کرے اور ہر طرح کے ضعف و ناتوانی کو تقویت پہچائے، کیونکہ بہترین کارکردگی اور تمام لشکر میں یکسو ئی اور ہم آہنگی کے بغیر یہ عظیم منصوبہ عملی کرنا ممکن نہیں ہے۔

لہٰذا حقیقی منتظرین پر اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی ذمہ داری عائدہوتی ہے۔

فلسفہ انتظار کا ایک دوسرا ثمرہ یہ ہے کہ انسان اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے بھی کوشش کرے جس پر مذکورہ روایات میں اس قدر ثواب کا وعدہ دیا گیا ہے۔

تیسرا فلسفہ: حقیقی منتظرین برے ماحول میں رنگے نہیں جاتے

حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)کے انتظار کا ایک اہم فلسفہ یہ ہے کہ انسان ،گناہوں اور بُرے ماحول میں گم نہ ہونے پائے، اور اپنے کو گناہوں اور آلودگیوں سے محفوظ رکھے۔

وضاحت: یعنی جب ظلم و ستم اور گناہوں کا بازار گرم ہو، اکثر لوگ گناہوں اور برائیوں میں پھنسے ہوئے ہوں، تو ایسے ماحول میں نیک کردار افراد (بھی) فکری بحران کا شکار ہوجاتے ہیں ، اور ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کی اصلاح سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

کیونکہ کبھی کبھی ایسے افراد یہ سوچتے ہیں کہ اب تو کام ختم ہوچکا ہے اور اصلاح کا کوئی راستہ ہی باقی نہیں رہ گیا ہے، اور اپنے کو پاک و پاکیزہ رکھنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے، چنانچہ یہی نا امیدی اور مایوسی ان کو آہستہ آہستہ گناہوں اور برائیوں کی طرف کھینچتی ہے اور ان پر ماحول کا اثر ہونے لگتا ہے، وہ آلودہ اکثریت کے مقابلہ میں صحیح و سالم اقلیت کے عنوان سے اپنے کو محفوظ نہیں کرپاتے، اورماحول کے رنگ کو نہ اپنانے کو ایک ذلت و رسوائی سمجھتے ہیں!

ایسے موقع پر فقط ایک ہی چیز ان کے لئے ”امید کی کرن“ ہوتی ہے اور پرہیزگاری کی دعوت دیتی ہے، نیز ان کو برے ماحول سے محفوظ رہنے کی دعوت دیتی ہے اور وہ آخری صورت میں اصلاح کی امید ہے ، صرف اسی صورت میں انسان اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے سعی و کوشش سے ہاتھ نہیں روکتا۔

اگر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں گناہوں کی بخشش سے مایوسی کو گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ بعض لوگ تعجب کریں کہ کیوں رحمت خدا سے مایوسی کو اس قدر عظیم اور اہم شمار کیا گیا ہے، یہاں تک کہ بہت سے گناہوں سے بھی اہم قرار دیا گیا ہے تو در اصل اس کا فلسفہ یہی ہے کہ رحمت خدا سے مایوس گنہگار ہرگز اپنی اصلاح کی فکر نہیں کرتا، یا کم از کم وہ اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کرنے سے نہیںرکتا، اس کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اب تو پانی سر سے گزر گیا ہے چاہے ایک بالشت ہو یا سو بالشت؟! میں تو بدنام زمانہ ہوگیا ہوں اب مجھے دنیا کا کوئی غم نہیں ہے!! سیاہی سے زیادہ تو کوئی رنگ نہیں ہے، آخر کار جہنم ہے، جہنم تو میں نے خرید ہی لیا ہے اب اور کسی چیز کا ڈر کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ لیکن جب اس کے لئے امید کی کرن پھوٹتی ہے، رحمت پروردگار کی امید، موجودہ حالت کے بدلنے کی امید ، تو پھر اس کی زندگی میں ایک نیا رخ آجاتا ہے ، اوریہ امید اس کو گناہوں کے راستہ پر چلنے سے روک دیتی ہے اور اسے اپنی اصلاح ، توبہ اور پاکیزگی کی دعوت دیتی ہے۔

اسی وجہ سےبرے لوگوں کے لئے ”امید کی کرن“ کوایک تربیتی سبب شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح نیک اور صالح افراد جو بُرے ماحول میں پھنسے رہتے ہیں وہ بھی بغیر امید کے اپنی اصلاح نہیں کرسکتے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایسے اصلاح کرنے والے کے ظہور کے انتظار کی بنا پر دنیا جتنی زیادہ فاسد ہوتی جارہی ہے امام زمانہ کے ظہور کی امید بھی زیادہ ہوتی جارہی ہے، اور انتظار کرنے والوں کے لئے موثر ہے، جو ماحول کی تیز آندھیوں کے مقابل محفوظ کردیتی ہے، یہ لوگ نہ صرف یہ کہ معاشرے میں ظلم و فساد اور برے ماحول سے نا امید نہیں ہوتے بلکہ جس طرح وعدہ وصال جب نزدیک ہوجاتا ہے تو آتش عشق مزید بھڑک جاتی ہے اسی طرح جب انسان اپنے مقاصد کو نزدیک دیکھتا ہے تو اصلاح معاشرہ نیز ظلم و فساد سے مقابلہ کے لئے کوشش میں مزید عشق پیدا ہوجاتا ہے۔

(قارئین کرام!) ہماری گزشتہ بحث و گفتگو سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ انتظار کا غلط اثر اسی صورت میں ہوتا ہے جب اس کو مسخ کردیا جائے، یا اس میں تحریف کردی جائے جیسا کہ بعض مخالفین نے اس میں تحریف کی ہے اور موافقین نے اس کو مسخ کردیا ہے، لیکن اگر واقعی طور پر معاشرہ اور خود انسان میں انتظارِ ظہور کا صحیح مفہوم پیدا ہوجائے تو یہ اصلاح، تربیت اور امید کا بہترین سبب ہے۔

اس موضوع کے واضح کرنے کے لئے بہترین دلیل درج ذیل آیہ شریفہ ہے ،ارشاد خداوندی ہے:

( وَعَدَ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُم فِی الْاٴَرْضِ ) (۱)

”اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں روئے زمین پر اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے“۔

اس آیہ شریفہ کے ذیل میں معصومین علیہم السلام سے نقل ہوا ہے کہ اس سے مراد ”هُوَ القَائِمُ وَاٴصحابِه“ ”قائم آل محمد اور آپ کے اصحاب وانصار ہیں“۔)

ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ”نَزَلَتْ فِي المَهْدِیّ علیه السّلام ) یہ آیہ شریفہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

اس آیت میں حضرت امام مہدی (عج) اور آپ کے اصحاب ”الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ “ کے عنوان سے یاد کئے گئے ہیں، لہٰذا یہ عالمی انقلاب، مستحکم ایمان ( جس میں کسی طرح کا ضعف اور کمزوری نہ پائی جاتی ہو، ) اور اعمال صالح (جس سے دنیا بھر کی اصلاح کا راستہ کھل جاتا ہو) کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور جو لوگ اس انقلاب کے انتظار میں ہیں ان کو چاہئے کہ اپنے علم و ایمان کی سطح کو بھی بڑھائیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے بھی کوشش کرتے رہیں۔صرف اسی طرح کے افراد اپنے کو اس حکومت کی بشارت دے سکتے ہیں ، نہ کہ ظلم و ستم کی مدد کرنے والے! اور نہ ہی وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح سے دور ہیں۔

اور نہ ہی وہ بزدل انسان جوایمان کی کمزوری کی وجہ سے اپنے سایہ سے بھی ڈرتے ہیں۔

اور نہ ہی سست ،کاہل اور ناکارہ انسان جو فقط ہاتھ پر ہاتھ رکھے معاشرہ میں پھیلنے والے گناہ و فساد پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اور معاشرہ میں موجودہ برائیوں کو ختم کرنے کے لئے ایک قدم بھی اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

اسلامی معاشرہ میں حضرت امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظہور کے انتظار کا یہی فلسفہ ہے۔(۲)

____________________

(۱)سورہ نور ، آیت ۵۵

(۲) بحار الانوار ،قدیم ، جلد ۱۳،صفحہ ۱۴

۵۸۔ قیامت کے عقلی دلائل کیا ہیں؟

قرآن مجید میں قیامت کے سلسلہ میں سیکڑوں آیات بیان ہوئی ہیں، ان کے علاوہ قیامت کے بارے میں بہت سے عقلی دلائل بھی موجود ہیں ہم ان میں سے بعض کو خلاصہ کے طور پر بیان کرتے ہیں:

الف ۔ برہانِ حکمت: اگر قیامت کے بغیر اس زندگی کا تصور کریں تو بے معنی اور فضول دکھائی دیتی ہے، بالکل اسی طرح کہ شکم مادر میں بچہ کو اس دنیاوی زندگی کے بغیر تصور کریں۔

اگر قانون خلقت یہ ہوتا کہ بچہ شکم مادر میں پیدا ہوتے ہی مرجایا کرتا تو پھر تصور کریں کہ کسی ماں کاحاملہ ہونا کتنا بے مفہوم تھا؟ اسی طرح اگر قیامت کے بغیر اس دنیا کا تصور کریں تو یہی پریشانی دکھائی دے گی۔

کیونکہ کیا ضرورت ہے کہ ہم کم و بیش ۷۰/ سال تک اس دنیا کی سختیوں کو برداشت کریں؟ اور ایک مدت تک بے تجربہ رہیں، ”و تا پختہ شود خامی ،عمر تمام است!“ یعنی جب تک انسان تجربات حاصل کرتا ہے تو عمر تمام ہوجاتی ہے!

ایک مدت تک تحصیل علم و دانش کرتے رہیں ، اور جب معلومات کے لحاظ سے کسی مقام پر پہنچ جائیں تو موت ہماری طرف دوڑنے لگے۔

اس کے علاوہ ہم کس چیز کے لئے زندگی کریں؟ چند لقمہ کھانا کھانا، چند جوڑے لباس پہننا، سونا اور بیدار ہونا، دسیوں سال تک ہر روز یہی تھکادینے والے کام انجام دینا؟!

یہ عظیم الشان آسمان، وسیع و عریض زمین، اور ان میں پائی جانے والی تمام چیزیں، یہ اساتید، مربیّ، یہ بڑے بڑے کتب خانے اور ہماری اور دوسری موجودات کی خلقت میں یہ باریک بینی، اورظرافتکیا واقعاً یہ سب کچھ کھانے پینے، پہننے اور مادی زندگی بسر کرنے کے لئے ہیں؟

اس سوال کی بنا پر معاد اور قیامت کا انکار کرنے والے اس زندگی کے ہیچ ہونے کا اقرار کرتے ہیں، اور ان میں سے بعض لوگ اس بے معنی زندگی سے نجات پانے کے لئے خود کشی کو اپنے لئے افتخار سمجھتے ہیں!

کیسے ممکن ہے کہ جو شخص خداوندعالم اور اس کی بے نہایت حکمت پر ایمان رکھتا ہولیکن اس دنیا کو عالم آخرت کے لئے مقدمہ شمار نہ کرے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( اٴَفَحَسِبْتُمْ اٴَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَاٴَنَّکُمْ إِلَیْنَا لاَتُرْجَعُونَ ) (۱)

”کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بےکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤ گے“۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عالم آخرت نہ ہو تو اس دنیا کا خلق کرنا فضول تھا۔

جی ہاں! یہ دنیوی زندگی اسی صورت میں با معنی اور حکمت خداوندی سے ہم آہنگ ہوتی ہے کہ جب اس دنیا کو عالم آخرت کی کھیتی قرار دیں ”الدُّنْیَا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ “،یا اس کوعالم ِآخرت کے لئے پل قراردیں” الدنیاقنطرة“ یا اس عالم کے لئے یونیورسٹی اور تجارت خانہ تصور کریں ، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے عظیم کلام میں فرماتے ہیں:

”یاد رکھو کہ دنیا باور کرنے والے کے لئے سچائی کا گھر ہے، سمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ہے، اور نصیحت حاصل کرنے والے کے لئے نصیحت کا مقام ہے، یہ دوستان خدا کے سجود کی منزل اور آسمان کے فرشتوں کا مصلیٰ ہے، یہیںوحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خدا آخرت کا سودا کرتے ہیں، رحمت الٰہی حاصل کرلیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں“۔(۲)

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ اس جہان کے حالات کا مطالعہ اور تحقیق کے بعدیہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد ایک دوسراجہان بھی موجود ہے:( وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ النَّشْاٴَةَ الْاٴُولَی فَلَوْلاَ تَذکَّرُونَ ) (۳) ”اور تم پہلی خلقت کو تو جانتے ہو تو پھر اس میں غور کیوں نہیں کرتے ہو“۔

ب۔ برہانِ عدالت: اس کائنات اور قوانین خلقت میں غور و فکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تمام چیزیں حساب و کتاب سے ہیں۔

خود ہمارے بدن میں ایک ایسا عادلانہ نظام حاکم ہے کہ اگر ذرا بھی تبدیلی یا نامناسب تغیر پیدا ہوجائے تو بیماری یا موت کا سبب ہوجاتا ہے، ہمارے دل کی دھڑکنیں، خون کی روانی، آنکھوں کے پردے، ہمارے اعظائے بدن کے تمام خلیے( Cells ) اور اجزا اسی دقیق نظام کی طرح ہیں جس کی حکومت پورے جہان پرہے، ”وَبِالعَدْلِ قَامَتِ السَّمٰوَاتِ وَالاٴرْضِ(۵) ”عدل ہی کے ذریعہ زمین و آسمان باقی ہیں“،کیا انسان اس وسیع و عریض کائنات میں ایک ناموزوں پیوند ہوسکتا ہے؟!

یہ بات صحیح ہے کہ خداوندعالم نے انسان کو آزادی ، ارادہ اور اختیار دیا ہے تاکہ اس کا امتحان

لے سکے،اور جس کے زیر سایہ وہ کمال کی منزلوں کو طے کرسکے، لیکن اگر انسان آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھائے تو پھر کیا کیا جاسکتا ہے؟ اگر ظالم و ستم گر ، گمراہ اور گمراہ کرنے والے ان خداداد نعمتوں سے ناجائز فائدہ اٹھائیں تو خداوندعالم کی عدالت کا تقاضا کیا ہے؟

یہ ٹھیک ہے کہ بعض ظالم اور مجرم لوگو ں کو اس دنیا میں سزا مل جاتی ہے اور وہ اپنے کیفر کردار تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن مسلم طور پر ایسا نہیں ہے کہ تمام مجرموں کو پوری سزا مل جاتی ہو، یا تمام نیک اور پاک افراد کو اپنے اعمال کی جزا اسی دنیا میں مل جاتی ہو، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں گروہ ،عدالت خدا کی میزان میں برابر قرار پائیں؟ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا، ارشاد ہوتا ہے:

( اٴَ فَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِینَ کَالْمُجْرِمِینَ مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ ) (۶)

”کیا ہم اطاعت گزاروں کو مجرموں جیسا بنادیں؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسا فیصلہ کررہے ہو“۔

نیز ارشاد ہوتا ہے:( اٴَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِینَ کَالْفُجَّارِ ) (۷) (کیا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر قرار دےدیں؟)

بہر حال اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوندعالم کے احکام کی اطاعت کرنے والوں کے لحاظ سے انسانوں میں فرق ہے، جس طرح سے ”مکافات جہان“، ”محکمہ وجدان “، اور ”گناہوں کا عکس العمل“ نامی عدالتیں اس دنیا میں عدالت برقرار کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ، لہٰذا یہ بات ماننا پڑے گی کہ عدالت الٰہی نافذ ہونے کے لئے خداوندعالم کی طرف سے ایک عام عدالت

(میزان) قائم ہو، جس میں نیک اور برے لوگوں کے سوئی کی نوک کے برابر اعمال کا بھی حساب کتاب کیا جائے، ورنہ عدالت خداوندی پر حرف آتا ہے، اس بنا پر قبول کرنا چاہئے کہ اگر ہم خداوندعالم کی عدالت کو مانتے ہیں تو پھر روز قیامت پر بھی ایمان رکھیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ بِالْقِسْطِ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ ) (۷) ”‘اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے۔“

نیز ارشاد ہوتا ہے:( وَقُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَیُظْلَمُونَ ) (۸) ”لیکن ان کے درمیان حساب کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ کیا جائے گا“۔

ج۔ برہانِ ہدف: مادہ پرستوں کے نظریہ کے برخلاف الٰہی تصورِ کائنات کے مطابق انسان کی خلقت میں ایک ہدف اور مقصد کار فرما ہے جسے فلسفی اصطلاح میں ”تکامل و ارتقا“ کہتے ہیں اور قرآن و حدیث کی زبان میں کبھی ”قربِ خداوندی “ اور کبھی ”عبادت و بندگی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندمتعال ہے:( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ ) (۹) ”اور ہم نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے“۔ اگر ان تمام کی انتہا ”موت“ ہو تو کیا یہ مقصد پورا ہوسکتا ہے؟! بے شک اس سوال کا جواب منفی ہے، تو پھر اس زندگی کے بعد دوسری زندگی ہونا چاہئے جہاں ”کمال“ کی منزلیں طے ہوتی رہیں، اور اس کھیتی کی فصل کٹتی رہے، اور جیسا کہ ہم نے ایک موقع پر عرض کیا ہے کہ اس زندگی میں بھی آخری مقصد تک پہنچنے کے لئے یہ تکاملی راستہ طے ہوتا رہے گا

خلاصہ یہ کہ یہ مقصد قیامت پر ایمان کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا، اور اگر اس دنیا کا تعلق عالم آخرت سے ختم ہوجائے تو سب چیزیں معمہ بن کر رہ جائیں گی اور ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکے گا۔(۱۰)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۷، صفحہ ۳۷۸

(۲) سورہ مومنون ، آیت ۱۱۵

(۳) نہج البلاغہ ،کلمات قصار کلمہ ۱۳۱

(۴)سورہ واقعہ ، آیت ۶۲

(۵) تفسیر صافی ،سورہ رحمن کی ساتویں آیت کے ذیل میں

(۶)سورہ قلم ، آیت ۳۵و۳۶

(۷)سورہ ص ، آیت ۲۸

(۸)سورہ انبیاء ، آیت ۴۷ (۹)سورہ یونس ، آیت ۵۴

(۱۰) سورہ ذاریات ، آیت ۵۶ (۱۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۸، صفحہ ۴۷۹