110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 136609
ڈاؤنلوڈ: 5568

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136609 / ڈاؤنلوڈ: 5568
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۳ ۔ کس طرح بغیر دیکھے خدا پر ایمان لائیں ؟

خدا پرستوں پر مادیوں کا ایک بیہودہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ”انسان کس طرح ایک ایسی چیز پر ایمان لے آئے جس کو اس نے اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ہو یا اپنے حواس سے درک نہ کیا ہو، تم کہتے ہو کہ خدا کا نہ جسم ہے اور نہ اس کے رہنے کے لئے کوئی جگہ، نہ زمان درکار ہے اور نہ کوئی رنگ و بووغیرہ تو ایسے وجودکو کس طرح درک کیا جاسکتاہے اور کس ذریعہ سے پہچانا جاسکتا ہے؟لہٰذا ہم تو صرف اسی چیز پر ایمان لاسکتے ہیں کہ جس کو اپنے حواس کے ذریعہ درک کرسکیں اور جس چیز کو ہماری عقل درک نہ کرسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے“۔

جواب :اس اعتراض کے جواب میں مختلف پہلوؤں سے بحث کی جاسکتی ہے:

۱ ۔ معرفت خدا کے سلسلہ میں مادیوں کی مخالفت کے اسباب :

ان کا علمی غرور اور ان کا تمام حقائق پر سائنس کو فوقیت دینا ، اور اسی طرح ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کا معیار صرف تجربہ اور مشاہدہ قرار دینا ہے، نیز اس بات کا قائل ہونا کہ طبیعی اور مادی چیزوں کے ذریعہ ہی کسی چیز کو درک کیا جاسکتا ہے، (یہ سخت بھول ہے۔)

کیونکہ ہم اس مقام پر ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ سائنس کے سمجھنے اور پرکھنے کی کوئی حد ہے یا نہیں؟!

واضح ہے کہ اس سوال کا جواب مثبت ہے کیونکہ سائنس کے حدود دوسری موجودات کی طرح محدود ہیں ۔

تو پھر کس طرح لامحدود موجود کو طبیعی چیزوں کے ذریعہ درک کیا جاسکتا ہے؟۔

لہٰذا بنیادی طور پر خداوندعالم، اور موجودات ِماورائے طبیعت ،سائنس کی رسائی سے باہر ہیں، اورجو چیزیں ماورائے طبیعت ہوں ان کو سائنس کے آلات کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، ”ماورائے طبیعت “سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس کے ذریعہ ان کو درک نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ سائنس کے مختلف شعبوں میں سے ہر شعبہ کے لئے ایک الگ میزان و مقیاس ہوتا ہے جس سے دوسرے شعبہ میں کام نہیں لیا جاسکتا، نجوم شناسی، فضا شناسی اور جراثیم شناسی میں ریسرچ کے اسباب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔

کبھی بھی ایک مادی ماہر اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ ایک منجم سے کہا جائے کہ فلاں جرثومہ کو ستارہ شناسی وسائل کے ذریعہ ثابت کرو، اسی طرح ایک جراثیم شناس ماہر سے اس بات کی امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے آلات کے ذریعہ ستاروں کے بارے میں خبر دے ، کیونکہ ہر شخص اپنے علم کے لحاظ سے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرسکتا ہے، اور اپنے دائرے سے باہر نکل کر کسی چیز کے بارے میں ”مثبت“ یا ”منفی“ نظریہ نہیں دے سکتا۔

لہٰذا ہم کس طرح سائنس کو اس بات کا حق دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے دائرے سے باہر بحث و گفتگو کرے ، حالانکہ اس کے دائرے کی حد عالم طبیعت اور اس کے آثار و خواص ہیں؟!

ایک مادی ماہر کو یہ حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں ”ماورائے طبیعت“ کے سلسلہ میں خاموش ہوں، کیونکہ یہ میرے دائر ے سے باہر کی بات ہے، نہ یہ کہ وہ ماورائے طبیعت کا انکار کرڈالے، یہ حق اس کو نہیں دیا جاسکتا۔

جیسا کہ اصولِ فلسفہ حسی کا بانی ” ا گسٹ کانٹ“ اپنی کتاب ”کلماتی در پیرامون فلسفہ حسی“ میں کہتا ہے:”چونکہ ہم موجودات کے آغاز و انجام سے بے خبر ہیں لہٰذا اپنے زمانہ سے پہلے یا اپنے زمانہ کے بعد آنے والی موجودات کا انکار نہیں کرسکتے، جس طرح سے ان کو ثابت بھی نہیں کرسکتے،(غور کیجئے گا)

خلاصہ یہ کہ حسی فلسفہ ، جہل مطلق کے ذریعہ کسی بھی طرح کا نظریہ نہیں دےتا، لہٰذا حسی فلسفہ کے فرعی علوم کو بھی موجوات کے آغاز اور انجام کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے ، یعنی ہم خدا کے علم و حکمت ، او راس کے وجود کا انکار نہ کریں اور اس کے بارے میں نفی و اثبات کے سلسلہ میں بے طرف رہیں ،(نہ انکار کریں اور نہ اثبات) “

ہمارے کہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ”ماورائے طبیعت دنیا“ کو سائنس کی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاسکتا، اصولی طور پر وہ خدا جس کو مادی اسباب کے ذریعہ ثابت کیا جائے خدا نہیں ہوسکتا۔

دنیا بھر کے خداپرستوں کے عقائد کی بنیاد یہ ہے کہ خدا ،مادہ اور مادہ کی خاصیت سے پاک و منزہ ہے، اور اسے کسی بھی مادی وسیلہ سے درک نہیں کیا جاسکتا۔

لہٰذا یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اس دنیا کو خلق کرنے والے کو آسمان کی گہرائیوں میں میکروسکوپ ( Microscope ) یا ٹلسکوپ کے ذریعہ تلاش کیا جاسکتا ہے، یہ خیال بیہودہ اور بےجا ہے۔

۲ ۔ اس کی نشانیاں

دنیا کی ہر چیز کی پہچان کے لئے کچھ آثار اور نشانیاں ہوتی ہیں ، لہٰذا اس کی نشانیوں کے ذریعہ ہی اس کو پہچانا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ آنکھوں اور دوسرے حواس کے ذریعہ جن چیزوں کو درک کرتے ہیں در حقیقت ان کو بھی آثار اور نشانیوں کے ذریعہ ہی پہچانتے ہیں، (غور کیجئے )

کیونکہ کوئی بھی چیز ہمارے فکر و خیال میں داخل نہیں ہوسکتی اور ہمارا مغز کسی بھی چیز کے لئے ظرف واقع نہیں ہوسکتا۔

مثال کے طور پر: اگر آپ آنکھوں کے ذریعہ کسی جسم کو تشخیص دینا چاہیں اور اس کے وجود کو درک کرنا چاہیں تو شروع میں اس چیز کی طرف دیکھیں گے اس کے بعد نور کی شعائیں اس پر پڑتی ہیں اور آنکھ کی پتلی میں نورانی لہریں ”شبکیہ“ نامی آنکھ کے پردہ پر منعکس ہوتی ہیں تو بینائی اعصاب نور کو حاصل کرکے مغز تک پہنچاتے ہیں او ر پھر انسان اس کو سمجھ لیتا ہے۔

اور اگر لمس کے ذریعہ (یعنی چھوکر) کسی چیز کو درک کریں تو کھال کے نیچے کے اعصاب انسان کے مغز تک اطلاع پہنچاتے ہیں اور انسان اس کو درک کرتا ہے، لہٰذا کسی جسم کو درک کرنا اس کے اثر (رنگ، آواز اور لمس وغیرہ ) کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور کبھی بھی وہ جسم ہمارے مغز میں قرار نہیں پاتا، اور اگر اس کا کوئی رنگ نہ ہو اور اعصاب کے ذریعہ اس کا ادراک نہ کیا جاسکتا ہو تو ہم اس چیز کو بالکل نہیں پہچان سکتے۔

مزید یہ کہ کسی چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا ایک نشانی کا ہونا کافی ہے، مثلاً اگر ہمیں یہ معلوم کرنا ہوکہ دس ہزار سال پہلے زمین کے فلاں حصہ میں ایک آبادی تھی اور اس کے حالات اس طرح تھے، تو صرف وہاں سے ایک مٹی کا کوزہ یا زنگ زدہ اسلحہ برآمد ہونا کافی ہے، اور اسی ایک چیز پر ریسرچ کے ذریعہ ان کی زندگی کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل ہوجائیں گی۔

اس بات کے پیش نظر ہر موجود چاہے وہ مادی ہو یا غیر مادی اس کو اثر یا نشانی کے ذریعہ ہی پہچانا جاتا ہے اور یہ کہ ہر چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا نشانی کا ہونا کافی ہے، تو کیا پوری دنیا میں عجیب و غریب اور اسرار آمیز چیزوں کو دیکھنا خدا کی شناخت اور اس کی معرفت کے لئے کافی نہیں ہے؟!

آپ کسی چیز کو پہچاننے کے لئے ایک اثر پر کفایت کرلیتے ہیں اور ایک مٹی کے کوزہ کے ذریعہ چند ہزار سال پہلے زندگی بسر کرنے والوں کے بعض حالات کا پتہ لگاسکتے ہیں، جبکہ خدا کی شناخت کے لئے ہمارے پاس لاتعداد آثار، لاتعداد موجودات اور بے کراں نظم ، جیسی چیزیں موجود ہیں کیا اتنے آثار کافی نہیں ہیں؟! دنیا کے کسی بھی گوشہ پر نظر ڈالیں خدا کی قدرت اور اس کے علم کی نشانیاں ہر جگہ موجود ہیں، پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور اپنے کانوں سے نہیں سنا، تجربہ اور ٹلسکوپ کے ذریعہ نہیں دیکھ سکے، توکیا ہر چیز کو صرف آنکھوں سے دیکھا جاتاہے؟!

۳ ۔ دیکھنے اور نہ دیکھنے والی چیزیں:

خوش قسمتی سے آج سائنس نے ترقی کر کے بہت سی ایسی چیزیں بناڈالی ہیں کہ ان کے وجود سے مادیت اور اس کے نتیجہ میں مادی اور الحادی نظریہ کی تردید ہوجاتی ہے، قدیم زمانہ میں تو ایک دانشور یہ کہہ سکتا تھا کہ جس چیز کو انسانی حواس درک نہیں کرسکتے اس کوقبول نہیں کیا جاسکتا، لیکن آج سائنس کی ترقی سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے: اس دنیا میں دیکھی جانے والی اور درک ہونے والی چیزوں سے زیادہ وہ چیزیں ہیں جن کو دیکھا اوردرک نہیں کیا جاسکتا، عالم طبیعت میں اس قدر موجودات ہیں کہ انھیں حواس میں سے کسی کے بھی ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، اور ان کے مقابلہ میں درک ہونے والی چیزیں صفر شمار ہوتی ہیں!

نمونہ کے طور پر چند چیزیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

۱ ۔ علم فیزکس کہتا ہے کہ رنگوں کی سات قسموں سے زیادہ نہیں ہیں جن میں سے پہلا سرخ اور آخری جامنی ہے، لیکن ان کے ماوراء ہزاروں رنگ پائے جاتے ہیں جن کو ہم درک نہیں کرسکتے، اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ بعض حیوانات ان بعض رنگوں کو دیکھتے ہیں۔

اس کی وجہ بھی واضح اور روشن ہے ، کیونکہ نور کی لہروں کے ذریعہ رنگ پیدا ہوتے ہیں، یعنی آفتاب کا نور دوسرے رنگوں سے مرکب ہوکر سفید رنگ کو تشکیل دیتا ہے اور جب جسم پر پڑتا ہے تو وہ جسم مختلف رنگوں کو ہضم کرلیتا ہے اور بعض کو واپس کرتا ہے جن کو واپس کرتا ہے وہ وہی رنگ ہوتا ہے جس کو ہم دیکھتے ہیں، لہٰذا اندھیرے میں جسم کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، دوسری طرف نور کی موجوں کی لہروں کی شدت اور ضعف کی وجہ سے رنگوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور رنگ بدلتے رہتے ہیں، یعنی اگر نور کی لہروں کی شدت فی سیکنڈ ۴۵۸ ہزار ملیارڈ تک پہنچ جائے تو سرخ رنگ بنتا ہے اور ۷۲۷ ہزار ملیارڈ لہروں کے ساتھ جامنی رنگ دکھائی دیتا ہے ، اس سے زیادہ لہروں یا کم لہروں میں بہت سے رنگ ہوتے ہیں جن کو ہم نہیں دیکھ پاتے ۔

۲ ۔ آواز کی موجیں ۱۶/ مرتبہ فی سیکنڈ سے لے کر ۰۰۰/۲۰ مرتبہ فی سیکنڈ تک ہمارے لئے قابل فہم ہیں اگر اس سے کم یا زیادہ ہوجائے تو ہم اس آواز کو نہیں سن سکتے۔

۳ ۔ امواجِ نور کی جن لہروں کو ہم درک کرسکتے ہیں انھیں ۴۵۸ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ سے ۷۲۷ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ تک کی حدود میں ہونا چاہئے اس سے کم یا زیادہ چاہے فضا میں کتنی ہی آوازیں موجود ہوں ہم ان کو درک نہیں کرسکتے۔

۴ ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے جانداروں (وائرس اور بیکٹریز) کی تعدادانسان کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں، اور بغیر کسی دوربین کے دیکھے نہیں جاسکتے ، اور شایداس کے علاوہ بہت سے ایسے چھوٹے جاندار پائے جاتے ہیں جن کو سائنس کی بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعہ ابھی تک نہ دیکھا گیا ہو۔

۵ ۔ ایک ایٹم اور اس کی مخصوص باڈی اور الکٹرون کی گردش نیز پروٹن کے ذریعہ ایک ایسی عظیم طاقت ہوتی ہے جو کسی بھی حس کے ذریعہ قابل درک نہیں ہے، حالانکہ دنیاکی ہر چیز ایٹم سے بنتی ہے، اور ہوا میں بمشکل دکھائی دینے والے ایک ذرہ غبار میں لاکھوں ایٹم پائے جاتے ہیں۔

گزشتہ دانشور وں نے جو کچھ ایٹم کے بارے میں نظریہ پیش کیا تھا وہ صرف تھیوری کی حد تک تھا لیکن کسی نے بھی ان کی باتوں کو نہیں جھٹلایا۔(۱)

خلاصہ یہ کہ ہمارے حواس اور دوسرے وسائل کا دائرہ محدود ہے لہٰذا ان کے ذریعہ ہم عالَم کو بھی محدود مانیں۔(۲)

لہٰذا اگر کوئی چیز غیر محسوس ہے تو یہ اس کے نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے، آپ دیکھئے دنیا میں ایسی بہت سی چیزیں بھری پڑی ہیں جو غیر محسوس ہیں جن کو ہمارے حواس درک نہیں کرسکتے!

جیسا کہ ایٹم کے کشف سے پہلے یا ذرہ بینی (چھوٹی چھوٹی چیزوں) کے کشف سے پہلے کسی کو اس بات کا حق نہیں تھا کہ ان کا انکار کرے، اور ممکن ہے کہ بہت سی چیزیں ہمارے لحاظ سے مخفی ہوں اور ابھی تک سائنس نے ان کو کشف نہ کیا ہو بلکہ بعد میں کشف ہوں تو ایسی صورت میں ہماری عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ان شرائط (علم کا محدود ہونا اور مختلف چیزوں کے درک سے عاجز ہونے) کے تحت ہم ان چیزوں کے بارے میں نظریہ پیش کریں کہ وہ چیزیں ہیں یا نہیں ہیں۔

البتہ یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم یہ دعویٰ کرناچاہتے ہیں کہ جس طرح سے الکٹرون ، پروٹون یا دوسرے رنگ سائنس نے کشف کئے ہیں تو سائنس مزید ترقی کرکے بعض مجہول چیزوں کو کشف کرلے گا، اور ممکن ہے کہ ایک روز ایسا آئے کہ اپنے ساز و سامان کے ذریعہ ”عالم ماورائے طبیعت“ کو بھی کشف کرلے!

جی نہیں، اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے جیسا کہ ہم نے کہا کہ ”ماورائے طبیعت“ اور ”ماورائے مادہ “ کو مادی وسائل کے ذریعہ نہیں سمجھا جاسکتا، اور یہ کام مادی اسباب و سازو سامان کے بس کی بات نہیں ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض چیزوں کے کشف ہونے سے پہلے ان کے بارے میں انکار کرنا جائز نہیں تھا اور ہمیں اس بات کا حق نہیں تھا کہ یہ کہتے ہوئے انکار کریں کہ فلاں چیز کوچونکہ ہم نہیں دیکھتے؛ جن چیزوں کو دنیاوی سازو سامان کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ، یاوہ سائنس کے ذریعہ ثابت نہیں ہیں لہٰذا ان کا کوئی وجود نہیں ہے، اسی طرح سے ”ماورائے طبیعت“ کے بارے میں یہ نظریہ نہیں دے سکتے کہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے، لہٰذا اس غلط راستہ کو چھوڑنا ہوگا اور خدا پرستوں کے دلائل کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا اس کے بعد اپنی رائے کے اظہار کا حق ہوگا اس لئے کہ اس صورت میں واقعی طور پر اس کا نتیجہ مثبت ہوگا(۳)

____________________

(۱) منجملہ ان چیزوں کے جو محسوس نہیں ہوتی لیکن کسی بھی دانشور نے ان کا انکار نہیں کیا ہے زمین کی حرکت ہے یعنی ۸کرہ زمین گھومتی ہے، اور یہ وہی ”مدو جزر“(پھیلنا اورسکڑنا ) ہے جو اس زمین پر رونما ہوتا ہے، اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاؤں تلے کی زمین دن میں دو بار ۳۰ سینٹی میٹر اوپر آتی ہے، جس کو نہ کبھی ہم نے دیکھا، اور نہ کبھی اس کااحساس کیا، یہ زمین دن میں دو بار ۳۰ cm اوپر آتی ہے

انھیں چیزوں میں سے ہوا بھی ہے جوہمہ وقت ہمارے چاروں طرف موجود رہتی ہے اوراس قدر وزنی ہے کہ ہر انسان ۱۶ ہزار کلوگرام کے برابر اس کو برداشت کرسکتا ہے، اور ہمیشہ عجیب و غریب دباؤ میں رہتا ہے البتہ چونکہ یہ دباؤ (اس کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے) ختم ہوتا رہتا ہے لہٰذا اس دباؤ کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا، جبکہ کوئی بھی انسان یہ تصور نہیں کرتا کہ ہوا اس قدر وزنی ہے، ”گلیلیو“ اور ”پاسکال“ سے پہلے کسی کو ہوا کے وزن کا علم نہیں تھا، اور اب جبکہ سائنس نے اس کے وزن کی صحت کی گواہی دے دی پھر بھی ہم اس کا احساس نہیں کرتے انھیں غیر محسوس چیزوں میں سے ”اٹر“ ہے کہ بہت سے دانشوروں نے ریسرچ کے بعد اس کااعتراف کیا ہے، اور ان کے نظریہ کے مطابق یہ شئے تمام جگہوں پر موجود ہے اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے، بلکہ بعض دانشور تو اس کو تمام چیزوں کی اصل مانتے ہیں، اور اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ ”اٹر“ ایک بے وزن اوربے رنگ چیز ہے اور اس کی کوئی بو بھی نہیں ہوتی جو تمام ستاروں اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے اور تمام چیزوں کے اندر نفوذ کئے ہوئے ہے، لیکن ہم اسے درک کرنے سے قاصر ہیں

۲) مذکورہ بالا مطلب کی تصدیق کے لئے ”کامیل فلامارین“ کی کتاب ”اسرار موت“ سے ایک اقتباس آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر تے ہیں:

”لوگ جہالت ونادانی کی وادی میں زندگی بسر کررہے ہیں اور انسان یہ نہیں جانتا کہ اس کی یہ جسمانی ترکیب اس کو حقائق کی طرف رہنمائی نہیں کرسکتی ہے، اور اس کویہ حواس خمسہ ،کسی بھی چیز میں دھوکہ دے سکتے ہیں، صرف انسان کی عقل و فکر اور علمی غور و فکر ہی حقائق کی طرف رہنمائی کرسکتی ہیں“! اس کے بعد ان چیزوں کو بیان کرنا شروع کرتا ہے جن کو انسانی حواس درک نہیں کرسکتے، اوراس کے بعد مولف کتا ب ایک ایک کرکے بیان کرتا ہے اور پھر ہر ایک حس کی محدودیت کو ثابت کرتا ہے یہاں تک کہ کہتا ہے:”لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عقل اور سائنس کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ بہت سی حرکات ، ذرات، ہوا ، طاقتیں اور دیگر چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم نہیں دیکھتے، اور ان حواس میں سے کسی ایک سے بھی ان کو درک نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے اطراف میں بہت سی ایسی چیزیں ہوں جن کا ہم احساس نہیں کرتے ، بہت سے ایسے جاندار ہوں جن کو ہم نہیں دیکھتے، جن کا احساس نہیں کرتے، ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ ”ہیں“ بلکہ ہم یہ کہیں : ”ممکن ہے کہ ہوں“ کیونکہ گزشتہ باتوں کا نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے حواس تمام موجودات کو ہمارے لئے کشف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ بلکہ یہی حواس بعض اوقات تو ہمیں فریب دیتے ہیں ،اور بہت سی چیزوں کو حقیقت کے بر خلاف دکھاتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ تمام موجودات کی حقیقت صرف وہی ہے جس کو ہم اپنے حواس کے ذریعہ درک کرلیں، بلکہ ہمیں اس کے برخلاف عقیدہ رکھنا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ ممکن ہے کہ بہت سی موجودات ہوں جن کو ہم درک نہیں کرسکتے، جیسا کہ ”جراثیم“ کے کشف سے پہلے کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ”لاکھوں جراثیم“ ہر چیزکے چاروں طرف موجود ہوں گے، اور ان جراثیم کے لئے ہر جاندار کی زندگی ایک میدان کی صورت رکھتی ہوگی

نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے یہ ظاہری حواس اس بات کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ موجودات کی حقیقت اور ان کی واقعیت کا صحیح پتہ لگاسکیں، مکمل طور پر حقائق کو بیان کرنے والی شئے ہماری عقل اور فکر ہوتی ہے“ (نقل از علی اطلال المذہب المادی، تالیف فرید وجدی ، جلد ۴)

(۳) آفریدگار جہان، آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کی بحثوں کا مجموعہ، صفحہ ۲۴۸

۵ ۔ دین کس طرح فطری ہے؟

فطرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان بعض حقائق کو بغیر کسی استدلال اور برہان کے حاصل کرلیتا ہے، (چاہے وہ پیچیدہ اور مشکل استدلال ہو اور چاہے واضح اور روشن استدلال ہوں) اور وہ حقائق اس پر واضح و روشن ہوتے ہیں ان کو وہ قبول کرلیتا ہے، مثلاً انسان کسی خوبصورت اور خوشبو دار پھول کو دیکھتا ہے تو اس کی ”خوبصورتی“ کا اعتراف کرتا ہے اور اس اعتراف کے سلسلہ میں کسی بھی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی، انسان اس موقع پر کہتا ہے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ خوبصورت ہے، اس میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

خدا کی شناخت اور معرفت کے سلسلہ میں بھی فطرت کاکردار یہی ہے جس وقت انسان اپنے دل و جان میں جھانکتا ہے تو اس کو ”نور حق“ دکھائی دیتا ہے، اس کے دل کو ایک آواز سنائی دیتی ہے جو اس کو اس دنیا کے خالق اور صاحب علم و قدرت کی طرف دعوت دیتی ہے، اس مبداء کی طرف بلاتی ہے جو ”کمالِ مطلق“اور ”مطلقِ کمال“ ہے، اور اس درک اور احساس کے لئے اسی خوبصورت پھول کی طرح کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

خدا پر ایمان کے فطری ہونے پر زندہ ثبوت:

سوال :ممکن ہے کوئی کہے: یہ صرف دعویٰ ہے، اور خدا شناسی کے سلسلہ میں اس طرح کی فطرت کو ثابت کرنے کے لئے کوئی راستہ نہیں،کیو نکہ میں تواس طرح کا دعویٰ کرسکتا ہوں کہ میرے دل و جان میں اس طرح کا احساس پایا جاتا ہے، لیکن اگر کوئی اس بات کو قبول نہ کرے تو اس کو کس طرح قانع کرسکتا ہوں؟

جواب :ہمارے پاس بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں جن کے ذریعہ توحید خدا کو فطری طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے اور یہ شواہد انکار کرنے والوں کا منہ توڑ جواب بھی ہیں چنا نچہ ان قرائن کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔ تاریخی حقائق :

ان تا ریخی حقا ئق کے سلسلہ میں دنیا کے قدیم ترین مورخین نے جو تحقیق اور جستجو کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم و ملت میں کوئی دین نہیں تھا؟بلکہ ہر انسان اپنے لحاظ سے عالم ہستی کے مبدا علم و قدرت کا معتقد تھا اور اس پر ایمان رکھتا تھا اور اس کی عبادت کیا کرتا تھا، اگر یہ مان لیں کہ اس سلسلہ میں بعض اقوام مستثنیٰ تھیں تو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا (کیونکہ ہر عام کے لئے نادر مقامات پر استثنا ہوتا ہے)

”ویل ڈورانٹ“ مغربی مشہور مورخ اپنی کتاب ”تاریخ تمدن“ میں بے دینی کے بعض مقامات ذکر کرنے کے بعد اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے: ”ہمارے ذکر شدہ مطالب کے باوجود ”بے دینی“ بہت ہی کم حالات میں رہی ہے ، اور یہ قدیم عقیدہ کہ دین ایک ایسا سلسلہ ہے جس میں تقریباً سبھی افراد شامل رہے ہیں، یہ بات حقیقت پر مبنی ہے، یہ بات ایک فلسفی کی نظر میں بنیاد ی تاریخی اور علم نفسیات میں شمار ہوتی ہے، وہ اس بات پر قانع نہیں ہوتا کہ تمام ادیان میں باطل و بیہودہ مطالب تھے بلکہ وہ اس بات پر توجہ رکھتا ہے کہ دین قدیم الایام سے ہمیشہ تاریخ میں موجود رہا ہے“(۱)

یہی مولف ایک دوسری جگہ اس سلسلہ میں اس طرح لکھتا ہے: ”اس پرہیزگاری کا منبع و مرکزکہاں قرار پاتا ہے جو کسی بھی وجہ سے انسان کے دل میںختم ہونے والی نہیں ہے“(۲)

”ویل ڈورانٹ“ اپنی دوسری کتاب ”درسہای تاریخ“ میں ایسے الفاظ میں بیان کرتا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غیظ و غضب اور ناراحتی کی حالت میں کہتا ہے کہ ”دین کی سو جانیں ہوتی ہیں اگر اس کو ایک مرتبہ مار دیا جائے تو دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے!“( ۲)

اگر خدا اور مذہب کا عقیدہ ، عادت، تقلید ، تلقین یا دوسروں کی تبلیغ کا پہلو رکھتا ہوتا تو یہ ممکن نہیں تھا اس طرح عام طور پر پا یا جاتا اور ہمیشہ تاریخ میں موجود رہتا، لہٰذا یہ بہترین دلیل ہے کہ دین فطری ہے۔

۲ ۔ آثار قدیمہ کے شواہد :

وہ آثار اور علامتیں جو ماقبل تاریخ (لکھنے کے فن اختراع سے پہلے اور لوگوں کے حالات زندگی تحریر کرنے سے پہلے) میں ایسے آثار و نشانیاں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ مختلف قومیں اپنے اپنے لحاظ سے دین و مذہب رکھتی تھیں، ”خدا “ اور مرنے کے بعد ”معاد“ پر عقیدہ رکھتی تھی، کیونکہ ان کی من پسند چیزیں مرنے کے بعد ان کے ساتھ دفن کی گئی ہیں تاکہ وہ مرنے کے بعد والی زندگی میں ان سے کام لے سکیں! مردوں کے جسموں کو گلنے اور سڑنے سے بچانے کے لئے ”مومیائی“ کرنا ،یا ”اہرام مصر“ جیسے مقبرے بنانا تاکہ طولانی مدت کے بعد بھی باقی رہیں یہ تمام چیزیں اس بات کی شاہد ہیں کہ ماضی میں زندگی بسر کرنے والے افراد بھی خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے تھے۔

اگرچہ ان کاموں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں مذہبی عقائد میں بہت سے خرافات بھی پائے جاتے تھے ، لیکن یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اصلی مسئلہ یعنی مذہبی ایمان ماقبل تاریخ سے پہلے موجود تھا جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔

۳ ۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق اور ان کے انکشافات:

انسانی روح کے مختلف پہلووں اور اس کی اصلی خواہشات پر ریسرچ بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مذہبی اعتقاد اور دین ایک فطری مسئلہ ہے۔

چار مشہور و معروف احساس (یا چار بلند خواہشات) اور انسانی روح کے بارے میں نفسیاتی ماہرین نے جو چار پہلو بیان کئے ہیں: ( ۱ ۔ حس دانائی، ۲ ۔ حس زیبائی، ۳ ۔ حس نیکی، ۴ ۔ حس مذہبی،) ان مطالب پر واضح و روشن دلیلیں ہیں۔(۴)

انسان کی حس مذہبی یا روح انسان کا چوتھا پہلو ، جس کو کبھی ”کمال مطلق کا لگاؤ“ یا ”دینی اور الٰہی لگاؤ“ کہا جاتا ہے یہ وہی حس اور طاقت ہے جو انسان کو مذہب کی طرف دعوت دیتی ہے ، اور بغیر کسی خاص دلیل کے خدا پر ایمان لے آتی ہے، البتہ ممکن ہے کہ اس مذہبی ایمان میں بہت سے خرافات پائے جاتے ہوں، جس کا نتیجہ کبھی بت پرستی ، یا سورج پرستی کی شکل میں دکھائی دے، لیکن ہماری گفتگو اصلی سرچشمہ کے بارے میں ہے۔

۴ ۔ مذہب مخالف پروپیگنڈے کا ناکام ہوجانا

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ چند آخری صدیوں میں خصوصاً یورپ میں دین مخالف پروپیگنڈے بہت زیادہ ہوئے ہیں جو ابھی تک وسیع اور ہمہ گیروسائل کے لحاظ سے بے نظیر ہیں۔

سب سے پہلے یورپ کی علمی تحریک (رنسانس)کے زمانہ سے جب علمی اور سیاسی معاشرہ

گرجاگھر کی حکومت کے دباؤ سے آزاد ہوا تو اس وقت اس قدر دین کے خلاف پروپیگنڈہ ہوا جس سے الحادی نظریہ یورپ میں وجود میں آیا ہے اور ہرجگہ پھیل گیا( البتہ یہ مخالفت عیسائی مذہب کے خلاف ہوئی چونکہ یہی دین وہاں پر رائج تھا ) اس سلسلہ میں فلاسفہ اور سائنس کے ماہرین سے مدد لی گئی تاکہ مذہبی بنیاد کو کھوکھلا کردیا جائے یہاں تک کہ گرجاگھر کی رونق جاتی رہی، اور یورپی مذہبی علماگوشہ نشین ہوگئے، یہی نہیں بلکہ خدا ، معجزہ، آسمانی کتاب اور روز قیامت پر ایمان کا شمار خرافات میں کیا جانے لگا، اور بشریت کے چار زمانہ والا فرضیہ ( قصہ و کہانی کا زمانہ، مذہب کا زمانہ، فلسفہ کا زمانہ اور علم کا زمانہ) بہت سے لوگوں کے نزدیک قابل قبول سمجھا جانے لگا ، اور اس تقسیم بندی کے لحاظ سے مذہب کا زمانہ بہت پہلے گزرچکا تھا!

عجیب بات تو یہ ہے کہ آج کل کی معاشرہ شناسی کی کتابوں میں جو کہ اسی زمانہ کی ترقی یافتہ کتابیں ہیں ان میں اس فارمولہ کو ایک اصل کے عنوان سے فرض کیا گیا ہے کہ مذہب کا ایک طبیعی سبب ہے چاہے وہ سبب ”جہل“ ہو یا ”خوف“ یا ”اجتماعی ضرورتیں“ یا ”اقتصادی مسائل“ اگرچہ ان کے نظریہ میں اختلاف پایا جاتا ہے!!۔

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اس وقت رائج مذہب یعنی گرجا گھر نے ایک طویل مدت تک اپنے ظلم و ستم اور عالمی پیمانہ پر لوگوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا اور خاص کرسائنسدانوں پر بہت زیادہ سختیاں کیں نیز اپنے لئے بہت زیادہ مرفہ اور آرام طلب اور دکھاوے کی زندگی کے قائل ہوئے اور غریب لوگوں کو بالکل بھول گئے لہٰذا انھیں اپنے اعمال کی سزا تو بھگتنا ہی تھی ، لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ صرف پاپ اور گرجا کا مسئلہ نہ تھا بلکہ دنیا بھر کے تمام مذاہب کی بات تھی۔

کمیونسٹوں نے مذہب کو مٹانے کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کردی اور تمام تر تبلیغاتی وسائل اور فلسفی نظریات کو لے کر میدان میں آئے اور اس پروپیگنڈہ کی بھر پور کوشش کی کہ ”مذہب معاشرہ کے لئے ”افیون“ ہے!

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی اس شدید مخالفت کے باوجود وہ لوگوں کے دلوں سے مذہب کی اصل کو نہیں مٹاسکے، اور مذہبی جوش و ولولہ کو نابود نہ کرسکے، اس طرح سے کہ آج ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ مذہبی احساسات پر پھر سے نکھار آرہا ہے، یہاں تک کہ خود کمیونسٹ ممالک میں بڑی تیزی سے مذہب کی باتیں ہورہی ہیں، اور میڈیا کی ہر خبر میں ان ممالک کے حکام کی پر یشانی کوبیان کیا جا رہا ہے کہ وہاں پر مذہب خصوصاً اسلام کی طرف لوگوں کا رجحان روز بزور بڑھتا جارہا ہے، یہاں تک کہ خود کمیونسٹ ممالک میں کہ جہاں ابھی تک مذہب مخالف طاقتیں بیہودہ کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں ، وہاں پر بھی مذہب پھیلتا ہوا نظرآتا ہے۔

ان مسائل کے پیش نظر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مذہب کا سرچشمہ خود انسان کی ”فطرت“ ہے، لہٰذا وہ شدید مخالفت کے باوجود بھی اپنی حفاظت کرنے پر قادر ہے، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو مذہب کبھی کا مٹ گیا ہوتا۔

۵ ۔ زندگی کی مشکلات میں ذاتی تجربات:

بہت سے لوگوں نے اپنی زندگی میں اس بات کا تجربہ کیا ہے کہ جس وقت بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور بلاؤں اور مصیبتوں کا طوفان آتا ہے جہاں پر ظاہری اسباب دم توڑدیتے ہیں، اور انسان کی گردن تک چھری پہنچ جاتی ہے، تو اس طوفانی موقع پر اس کے دل کی گہرائیوں سے ایک امید پیدا ہوتی ہے اور انسان اس مبداکی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اس کی تمام مشکلات کو دور کرسکتا ہے، لہٰذا انسان اسی سے لَو لگاتا ہے اور اسی سے مدد مانگتا ہے، یہاں تک کہ معمولی افراد جو عام حالات میں دینی رجحان نہیں رکھتے وہ بھی اس مسئلہ سے الگ نہیں ہیں بلکہ وہ بھی شدید مشکلات یا لاعلاج بیماری کے وقت اس طرح کا روحانی نظریہ رکھتے ہیں۔

(قارئین کرام!) یہ تمام چیزیں اس حقیقت پر واضح شاہد ہیں کہ دین ایک فطری شئے ہے ، چنا نچہ قرآن مجید نے اس سلسلہ میں بہت پہلے ہی خبر دی ہے

جی ہاں انسان اپنے دل کی گہرائیوں سے اپنے اندر ایک آواز کو سنتا ہے جو محبت اور پیار سے لبریز ہوتی ہے اور وہ مستحکم و واضح ہوتی ہے اور اس کو ایک عظیم حقیقت یعنی عالم و قادر کی طرف دعوت دیتی ہے جس کا نام ”اللہ“ یا ”خدا“ ہے ، ممکن ہے کوئی شخص دوسرے نام سے پکارے ، نام سے کوئی بحث نہیں ہے، بلکہ اس حقیقت پر ایمان کا مسئلہ ہے۔

مفکر شعراء کرام نے بھی اپنے دلچسپ اور بہترین اشعار میں اس مطلب کو بیان کیا ہے:

شورش عشق تو در ہیچ سری نیست کہ نیست

منظر روی تو زیب نظری نیست کہ نیست!

نہ ہمین از غم تو سینہ ما صد چاک است

داغ تو لالہ صفت، بر جگری نیست کہ نیست؟؟

ایک دوسرا شاعر کہتا ہے:

در اندرون من خستہ دل ندانم کیست؟

کہ من خموشم و او در فغان و در غوغاست

”میں نہیں جانتا کہ میرے خستہ دل میں کون ہے کہ میں تو خاموش ہوں لیکن وہ نالہ و فریاد کررہا ہے“۔

۶ ۔مذہب کے فطری ہونے پر دانشوروں کی گواہی

”معرفت خدا“ کے مسئلہ کا فطری ہونا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس کے بارے میں صرف قرآن و احادیث نے بیان کیا ہو ،بلکہ غیر مسلم فلاسفہ ،دانشوروں اور نکتہ فہم شعرا کی گفتگو سے بھی یہ مسئلہ واضح ہے۔

چند نمونے:

اس سلسلہ میں ”اینشٹائن“ ایک مفصل بیان کے ضمن میں کہتا ہے: ” بغیر کسی استثنا کے سبھی لوگوں میں ایک عقیدہ اور مذہب پایا جاتا ہے اور میں اس کا نام ”مذہب کی ضرورت کا احساس “ رکھتا ہوں چنانچہ انسان دنیوی چیزوں کے علاوہ جن چیزوں کا احساس کرتا ہے اس مذہب کے تحت انسان تمام اہداف اور عظمت و جلال کو حقیر سمجھتا ہے ، وہ اپنے وجود کو ایک قید خانہ سمجھتا ہے، گویا اپنے بدن کے پنجرے سے پرواز کرنا چاہتا ہے اور تمام ہستی کو ایک حقیقت کی شکل میں حاصل کرنا چاہتا ہے۔(۵)

اس طرح مشہور و معروف دانشور ”پاسکال“ کہتا ہے:

”دل کے اندر ایسے دلائل ہوتے ہیں جن تک عقل نہیں پہنچ سکتی“!(۶)

”ویلیم جیمز “ کہتا ہے:”میں اس بات کو اچھی طرح مانتاہوں کہ مذہبی زندگی کا سرچشمہ ”دل“ ہے، اور اس بات کو بھی قبول کرتا ہوں کہ فلسفی فارمولے اور دستور العمل اس ترجمہ شدہ مطلب کی طرح ہیں جس کی اصلی عبارت کسی دوسری زبان میں ہو“۔(۷)

”ماکس مولر“ کہتا ہے:”ہمارے بزرگ اس وقت خدا کی بارگاہ میں سرجھکاتے تھے کہ اس وقت خدا کا نام بھی نہیں رکھا گیا تھا۔(۸)

ماکس ایک دوسری جگہ اپنے عقیدہ کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: ”اس نظریہ کے برخلاف، جس میں کہا جاتا ہے کہ دین پہلے سورج چاند وغیرہ اور بت پرستی سے شروع ہوا ہے اس کے بعد خدائے واحد کی پرستش تک پہنچا ہے، آثار قدیمہ کے ما ہرین نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ خدا پرستی سب سے قدیم دین ہے“۔(۹)

مشہور و معروف مورخ ”پلوتارک“ لکھتا ہے:

”اگر آپ دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو بہت سی ایسی جگہ دیکھیں گے جہاں پر نہ کوئی آبادی ہے نہ علم و صنعت اور نہ سیاست و حکومت، لیکن کوئی جگہ ایسی نہیں ملے گی جہاں پر ”خدا“ نہ ہو“!(۱۰)

”ساموئیل کنیگ“ اپنی کتاب ”جامعہ شناسی“ میں کہتا ہے: ”دنیا میں تمام انسانی جماعتوں کا کوئی نہ کوئی مذہب تھا، اگرچہ سیاحوں اور پہلے (عیسائی) مبلغین نے بعض گروہوں کا نام لیا ہے جن کا کوئی مذہب نہیں تھا، لیکن بعد میں معلوم یہ ہوا ہے کہ اس کی رپورٹ کا کوئی حوالہ نہیں ہے، اور ان کا یہ فیصلہ صرف اس وجہ سے تھا کہ ان کے گمان کے مطابق ان کا مذہب بھی ہماری طرح کا کوئی مذہب ہونا چاہئے تھا“۔(۱۱)

(قارئین کرام!) ہم اپنی بحث کو مشہور و معروف دور حا ضر کے مورخ ”ویل ڈورانٹ“ کی گفتگو پر ختم کرتے ہیں، وہ کہتا ہے:

”اگر ہم مذہب کے سرچشمہ کو ماقبل تاریخ تصور نہ کریں تو پھر مذ ہب کو صحیح طور پر نہیں پہچان سکتے“۔(۱۲) (۱۳)

____________________

(۱و ۲) ”تاریخ تمد ن ، ویل ڈورانٹ“ ، جلد اول، صفحہ ۸۷ و۸۹.

(۳) ”فطرت“ شہید مطہری، صفحہ۱۵۳.

(۴) ”حس مذہبی یا بعد چہارم روح انسانی“ میں ”کونٹائم“ کے مقالہ کی طرف رجوع فرمائیں،( ترجمہ مہندس بیانی)

(۵) ”دنیائی کہ من می بینم“ (باتلخیص) صفحہ ۵۳

(۶) ”سیر حکمت در اروپا“ ، جلد ۲، صفحہ ۱۴

(۷) ”سیر حکمت در اروپا“ ، جلد ۲، صفحہ ۳۲۱

(۸) مقدمہ نیایش صفحہ

(۹) ”فطرت “شہید مطہری ، صفحہ

(۱۰) مقدمہ نیایش ، صفحہ ۳۱

(۱۱) ”جامعہ شناسی،ساموئیل کنیگ“ صفحہ

(۱۲) تاریخ تمدن ، جلد اول، صفحہ ۸۸.

(۱۳) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۳، صفحہ ۱۲۰